Tag: مزدور

  • استخارے-جاوید چوہدری

    استخارے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    چین کی جیلوں میں اس وقت پندرہ لاکھ قیدی تھے‘ یہ لوگ ریاست پر بوجھ تھے‘ حکومت انھیں مفت رہائش‘ کھانا اور کپڑے بھی دیتی تھی اور ان کی حفاظت‘ بجلی‘ پانی اور گیس پر بھی اربوں یوآن خرچ کرتی تھی‘ گویا یہ لوگ طفیلی کیڑے تھے‘ یہ اگر رہا کر دیے جاتے تو یہ پورے ملک کو بیمار کر دیتے اور یہ اگر جیلوں میں رہتے تو ریاستی خزانے پر بوجھ بن جاتے‘ چین نے ان طفیلی کیڑوں کا دلچسپ حل نکالا‘ حکومت نے لاؤ گائی (Laogai) کے نام سے جیل ریفارمز شروع کیں‘ یہ منصوبہ ’’ریفارمز تھرو لیبر‘‘ بھی کہلاتا ہے۔

    چینی حکومت نے قیدیوں کو مختلف ہنر سکھائے اور پھر مجرموں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘ چھوٹے جرائم میں محبوس قیدیوں کو ملک کے اندر مختلف سرکاری ترقیاتی اسکیموں پر لگا دیا گیا‘ حکومت قیدیوں کو سائیٹس پر بیرکس‘ بستر‘ لباس اور خوراک فراہم کرتی ہے‘ یہ لوگ قید کی مدت ختم ہونے تک ان سائیٹس پر کام کرتے ہیں‘یہ قیدی جب سزا پوری کر لیتے ہیں تو حکومت انھیں رہا کر دیتی ہے‘ حکومت درمیانے جرائم میں ملوث قیدیوں کو ملک کی مختلف کمپنیوں کے حوالے کر دیتی ہے۔

    یہ کمپنیاں ان کی خوراک‘ لباس‘ رہائش اور نگرانی کی ذمے دار ہوتی ہیں‘ حکومت ان کمپنیوں کے ساتھ معاوضہ طے کرتی ہے‘ یہ معاوضہ حکومت کے اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرا دیا جاتا ہے‘ حکومت یہ رقم جیلوں‘ عدالتی کارروائیوں اور پولیس پر خرچ کرتی ہے اور پیچھے رہ گئے سنگین جرائم میں ملوث قیدی تو حکومت ان قیدیوں کو بیرون ملک بھجوا دیتی ہے‘ کیسے؟ ہم اس سوال کے جواب سے پہلے ذرا سی بیک گراؤنڈ میں جائیں گے۔

    چین اس وقت افریقہ‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ سینٹرل ایشیا‘ لاطینی امریکا‘ بھارت اور ساؤتھ پیسیفک جزائر میں بے شمار میگا پراجیکٹ کر رہا ہے‘ چینی کمپنیاں پاکستان میں بھی تین درجن منصوبوں پر کام کر رہی ہیں‘ پاک چین اقتصادی راہ داری بھی ان منصوبوں میں شامل ہے‘ پاکستان میں 45 برسوں میں 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ چین یہاں 15 برسوں میں 46 ارب ڈالر خرچ کرے گا ‘ یہ چین کی ایک ملک میں سرمایہ کاری ہے‘ آپ اس سے سینٹرل ایشیا‘ افریقہ‘ سارک ممالک اور لاطینی امریکا میں چینی سرمایہ کاری کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ یہ سرمایہ کاری مستقبل میں مزید بڑھے گی۔

    کیوں؟ کیونکہ چین کی اقتصادی پالیسی تیسرے فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ چین نے پہلے فیز میں اپنے لوگوں کو ہنر مند بنایا‘ دوسرے فیز میں ملک کو فیکٹری بنا کر پوری دنیا کو مصنوعات سپلائی کرنا شروع کیں اور یہ اب تیسرے فیز میں دنیا کی اہم جغرافیائی گزر گاہوں پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے یوں ہنرمندی‘ صنعت کاری اور راہ داری دنیا کے تینوں بڑے شعبے چین کے ہاتھ میں چلے جائیں گے‘ چین اس کے بعد چوتھا فیز شروع کرے گا‘ یہ چوتھے فیز میں دنیا کی تمام منڈیاں‘ ہول سیلزمارکیٹیں‘ شاپنگ سینٹرز اور ریٹیلرز شاپس اپنے ہاتھ میں لے گا جس کے بعد مصنوعات کی تیاری سے لے کر فروخت تک پوری زنجیر چین کے ہاتھ میں آ جائے گی اور دنیا اس کی محتاج ہو جائے گی‘ آپ آج بھی ریسرچ کر لیں۔

    آپ کو چینی سرمایہ کار دنیا کے تمام بڑے ممالک کے بڑے شہروں کی منڈیوں پر قابض نظر آئیں گے‘ یہ قبضہ چوتھے فیز کی ابتدائی تیاریاں ہیں‘ یہ لوگ بڑی مارکیٹوں کے بعد چھوٹے ملکوں کی منڈیوں کی طرف آئیں گے اور پھر ان تمام منڈیوں کو آپس میں جوڑ کر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں گے‘ چین 2049ء میں آزادی کی صد سالہ تقریبات منائے گا‘ یہ خود کو اس وقت دنیا کی واحد اقتصادی سپر پاور ڈکلیئر کرے گا لیکن یہ منصوبہ 2049ء تک مکمل ہوگا‘ ہم سرِدست اس 2016ء میں ہیں جس میں چین دنیا کی اہم اقتصادی راہ داریوں پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ان اہم راہداریوں میں سے ایک راہ داری پاکستان سے بھی گزرے گی۔

    ہم اب آتے ہیں ’’کیسے‘‘ کے جواب کی طرف‘ دنیا کوچین کے ان اہم منصوبوں میں بے شمار ماہرین نظر آتے ہیں‘ ان ماہرین کا ایک حصہ ان قیدیوں پر مشتمل ہے جنھیں چینی لاؤگائی اسکیم کے تحت ٹرینڈ کر رہے ہیں‘ حکومت قیدیوں کے سفری کاغذات بناتی ہے اور انھیں دوسرے ممالک کے چینی منصوبوں میں کھپا دیتی ہے یوں یہ قیدی دوسرے ملکوں کا راشن کھاتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کا لباس پہنتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں‘ ہفتے میں سات دن کام کرتے ہیں اور ان کا معاوضہ چینی حکومت کے اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے‘ حکومت ان کی حفاظت‘ طبی معائنے اور جیل عملے کے اخراجات سے بھی بچ جاتی ہے‘ یورپ اور امریکا چین کی اس پالیسی کے مخالف ہیں۔

    امریکا نے 2016ء میں چین کی تین بڑی کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندی لگا دی‘ یہ کمپنیاں قیدیوں سے مصنوعات تیار کرا رہی تھیں لیکن میں چین کی لاؤ گائی اسکیم کا حامی ہوں‘ میں سمجھتا ہوں یہ ظلم کے اوپر مہا ظلم ہے کہ ایک شخص جرم کے بعد ریاست کا داماد بن جائے اور ریاست اسے دس بیس سال تک مفت رہائش‘ کھانا‘ طبی سہولتیں اور لباس بھی فراہم کرے اور اس کی حفاظت پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے‘ یہ جیل جیل اور یہ قید قید تو نہ ہوئی‘ پکنک ہوئی چنانچہ چین کا فیصلہ درست ہے‘ یہ قیدیوں کو ٹرینڈ کرتا ہے‘ ان کو کام پر لگاتا ہے‘ اپنے قیدیوں کے اخراجات دوسرے ممالک سے وصول کرتا ہے اور معاوضہ بھی لیتا ہے اور یہ رقم بعد ازاں جیلوں‘ پولیس اور عدالتوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

    یہ عین عقل مندی ہے‘ ہم جیسے ملکوں کو بھی اس عقل مندی سے سیکھنا چاہیے‘ آپ کسی دن پاکستان کی پولیس‘ عدالت اور جیلوں کا تجزیہ کر لیں آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے‘پاکستان میں ٹوٹل 3000 تھانے ہیں‘ ملک میں روزانہ اوسطاً 20 ہزار ایف آئی آرز اور شکایات درج ہوتی ہیں‘ عدالتوں میں 17 لاکھ کیس زیر التواء ہیں‘ ملک میں 87 جیلیں ہیں‘ ان جیلوں میں ڈیڑھ لاکھ قیدی بند ہیں‘ حکومت کو ہر سال جیلوں‘ عدالتی کارروائیوں اور تھانوں پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں‘ آپ قیدیوں کو دیکھیں‘یہ کتنے مزے میں ہیں؟ یہ جرم کرتے ہیں اور دس پندرہ سال کے لیے سرکار کے مہمان بن جاتے ہیں‘ حکومت انھیں گرم اور ٹھنڈا پانی بھی دیتی ہے‘ انھیں ہیٹر اور پنکھا بھی فراہم کرتی ہے۔

    تین وقت مفت کھانا بھی دیتی ہے اور ان کے لباس‘ بستر اور ادویات کا بندوبست بھی کرتی ہے‘ملک میں یہ سہولتیں آزاد شہریوں کو دستیاب نہیں ہیں‘ کیا یہ پاکستان جیسے غریب ملک سے زیادتی نہیں؟ہماری حکومت قیدیوں کو چین کی طرح کام کیوں نہیں سکھاتی؟ یہ انھیں کام سکھائے اور سڑکوں‘ نہروں اور ڈیمز کی کھدائی پر لگا دے‘ ان سے ریلوے کی پٹڑیاں بچھوائے‘ ان سے مصنوعات کی پیکنگ کروائے اور ان سے چولستان اور تھر کے صحراؤں کو قابل کاشت بنوائے‘ یہ انھیں ایل او سی کی حفاظت اور مورچوں کی کھدائی پر ہی لگا دے‘ یہ ان سے افغانستان کی سرحد پر باڑ ہی لگوا لے۔

    آپ ان کے بازوؤں پر ٹریکر لگائیں اور انھیں کام پر لگا دیں‘ یہ ملک کا اثاثہ بن جائیں گے‘ گلف کی ریاستوں کو بھی اونٹ‘ گائے اور مرغی کے فارمز میں ورکرز کی ضرورت ہوتی ہے‘ آپ گلف کے ممالک کے ساتھ ایگریمنٹ کریں‘ فارمز کے ٹھیکے لیں اور قیدیوں کو فارمز پر لگا دیں اور دنیا کو تیل اور گیس کی تلاش کے لیے بھی ورکرز کی ضرورت ہے‘ آپ قیدیوں کو آئل اینڈ گیس ایکسپلوریشن کی ٹریننگ دیں اور انھیں ملک اور بیرون ملک کھپا دیں‘ آپ بھی چین کی طرح ان سرکاری دامادوں سے اربوں ڈالر کما لیں گے۔

    ہماری حکومتوں کو یہ کام کرنے چاہئیں لیکن یہ نئے آرمی چیف کے لیے استخارے کروا رہی ہیں‘حکومت 18 اکتوبر تک نئے آرمی چیف کا اعلان کرنا چاہتی تھی لیکن استخارہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا جس کے بعد حکومت نئے مخمصے کا شکار ہو گئی‘ سپریم کورٹ آج سے پانامہ لیکس کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کر رہی ہے‘ عمران خان کے وکلاء سپریم کورٹ سے استدعا کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم میاں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں چنانچہ عدالت انھیں فیصلے تک اہم تقرریوں سے روک دے۔

    سپریم کورٹ کے پاس اختیارات موجود ہیں‘ یہ سٹے آرڈر جاری کر سکتی ہے جس کے بعد وزیراعظم آرمی چیف سمیت کوئی اہم تقرری نہیں کر سکیں گے یوں حکومت کی بند گلی مزید تنگ ہو جائے گی‘ حکومت کوشش کے باوجود سرل المیڈا کے بحران سے بھی نہیں نکل پا رہی‘ یہ بحران بھی کسی نہ کسی کو لے کر ڈوبے گا‘ کراچی میں بھی گورنر عشرت العباد اور مصطفی کمال میں لڑائی شروع ہوچکی ہے۔

    یہ لڑائی ایک ادارے کے دوشعبوں کی جنگ ہے اور یہ جنگ بھی حکومت کو نقصان پہنچائے گی چنانچہ میاں نواز شریف لاؤ گائی جیسی اسکیمیں بنانے کے بجائے ڈگڈگیوں اور ان ڈگڈگیوں پر ناچنے والے ریچھوں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہیں‘ ان کی ساری توانائیاں پانامہ پر خرچ ہو رہی ہیں جب کہ عوام حیرت سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں اصل کام کون کرے گا‘ ملک کون چلائے گا؟ عوام کو ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ حکومت کو ان جوابات کے لیے بھی جلد ہی استخارے کی ضرورت پڑ جائے گی۔

  • جب راج کرے گی خلق خدا – کامریڈ فاروق خان

    جب راج کرے گی خلق خدا – کامریڈ فاروق خان

    ہم اپنے نظامِ شمسی میں دور دور تک پہنچ رہے ہیں، ہم نے خود کار کاریں تیار کر لی ہیں، اور ساتھ ہی ابھی تک ہم اپنے روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں بے اختیار ہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں دنیا کو حیرت زدہ اور مبہوت کر رہی ہیں، مگر اُس کے باوجود لاکھوں لوگ بےگھر اور بےچھت ہیں، مگر اس کے باوجود اس عہد کے نوجوان بےروزگار ہیں. یہ مسئلہ صرف وسائل کی کمی کے شکار ایک پسماندہ ملک کو درپیش نہیں ہے. ساؤ پالو، قاہرہ، گلاسگو، نیو کیسل اور لندن کی آبادیاں بھی اس ’’زندہ‘‘ بحران کا شکار ہیں.

    دوسری جانب امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ جیسے ارب کھرب پتیوں کا ایک طبقہ ہے جن کے پاس لگژری کاروں کے سکواڈ ہیں، لگژری اپارٹمنٹ ہیں، لاکھوں ڈالر کے فن پاروں کی گیلریاں ہیں، ملٹی ملین کی بحری کشتیاں اور بیڑے ہیں، وہ دنیا بھر میں اپنے نجی طیاروں میں گھومتے ہیں اور اُن کے پاس نوکروں چاکروں کی فوج ظفر موج ہے جو دن رات اُن کی آؤ بھگت کر رہی ہے. چند ہاتھوں میں بہت زیادہ مال و دولت اور طاقت کا ارتکاز صحیح معنوں میں جان لیوا بن گیا ہے. محض 85 ارب پتیوں کی دولت زمین پر رہنے والے لوگوں کی اکثریت کی مشترکہ دولت سے زیادہ ہے.

    امیروں کے خصوصی خورد و نوش والے خصوصی ریستورانوں میں کام کرنے والے محنت کش اور دیگر اداروں کے محنت کش اِس لیے خالی پیٹ رہتے ہیں تاکہ اُن کے بچے سکول جا سکیں. آج عام لوگ کی اکثریت جن کو ’’خوش قسمتی‘‘ سے کوئی روزگار مل جاتا ہے وہ اپنی سانسوں کی ڈوری کو بحال رکھنے کی جدوجہد میں کئی گھنٹوں پہ محیط اعصاب شکن ملازمت کرنے پہ مجبور ہیں. تپ دق اور سوکھ پن جیسی بیماریاں جن کا علاج بہت آسان اور ممکن ہے، اکیسویں صدی میں بھی ایک بار پھر انسانوں کی بستی میں لوٹ چکی ہیں.

    موجودہ عہد کی معیشت جان بوجھ کر اٹھائی اور گرائی جاتی ہے، فیکٹریوں کو غیر معینہ مدت کے لئے جان بوجھ کر بند کر دیا جاتا ہے اور مزدوروں کو کہا جاتا ہے کہ ’’ہمیں آپ کی طلب نہیں ہے.‘‘ بےکار و بدحال اور بےروزگار محنت کش اُن فیکٹریوں کو تکتے رہتے ہیں، ابھی کُھلی کہ کل. اداروں کے ملازمین کو فارغ کر دیا جاتا ہے، فارمز اور سٹوروں سے کام کرنے والوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے تنخواہ داروں کو ایک شام اچانک کہا جاتا ہے کہ کل سے آپ کام پہ مت آئیے گا. اِس طرح ضرورت مند اور بیکار محنت کش مالکوں کی شرائط پہ کم اجرت کیساتھ میسر آتے ہیں. عوام کو اشیاء کی ضرورت ہے، اشیاء دستیاب ہیں، مگر خریدنے کی سکت و استطاعت نہیں ہے. اس سارے معاملے میں انسانیت اور عقلیت کہاں ہے؟

    سرمایہ داری کے لبرل عذر خواہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش میں ہیں کہ یہ تخلیقی مجبوری ہے. محنت کشوں کو درختوں کے بیکار پتے کی مانند اُٹھا کر پھینک دینا سرمایہ داروں کے لیے عام سی بات ہے، اُن کے مطابق یہ منڈی کا کاروبار یوں ہی چلتا ہے، اِس کا کوئی اور حل نہیں ہے. یہ ایسے ہی چلتا رہا تھا، ایسے ہی چل رہا ہے اور ایسے ہی چلے گا. یہی انسانی فطرت ہے، یہی کاروبار کی فطرت ہے اور یہی منڈی کا رجحان ہے.

    ایک طرف بڑی بڑی رہائشی کالونیاں اور بڑی بڑی رہائشی عمارتیں خالی پڑی ہیں، جبکہ دوسری جانب لاکھوں لوگ جھونپڑیوں میں اور سڑکوں پر سسک رہے ہیں. لبرلزم کی آزاد منڈی کی نظر میں یہ ’’انسانی فطرت‘‘ ہے. آج اکیسویں صدی میں لاکھوں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے بھوکے ہیں، خالی پیٹ ہیں، جبکہ دوسری جانب کسانوں کو پیسے دیے جاتے ہیں کہ زمینوں کو خالی رکھو. لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے. لیکن لبرل ازم کے عذر خواہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ سب ’’انسانی فطرت‘‘ ہے. ادویات کے انبار لگے ہوئے ہیں، سٹور اور وئیر ہاؤس فرش سے لیکر چھت تک بھرے پڑے ہیں، دوسری جانب لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے قابل علاج بیماریوں کے سبب مر رہے ہیں کیونکہ اُن کے پاس علاج خریدنے کے پیسے نہیں ہیں. کیا ہم اِن کی بات مان لیں کہ یہ سب ’’انسانی فطرت‘‘ ہے؟

    آج کی ترقی یافتہ صدی میں انسان اپنے عہد اور اپنی حیات کو ایسے منظم اور منصوبہ بند کیوں نہیں بنا سکتے کہ چند ایک لوگوں کو نوازنے کے بجائے تمام انسانیت کو سکھ میسر آجائے؟ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے درکار تمام مہارت کے حامل کئی لوگ کافی تعداد میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں. آج انسان پلوٹو اور اس سے بھی آگے راکٹ بھیجنے اور اِس سے بھی زیادہ بہت حیران کن کام کر سکتے ہیں. لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ خوراک، لباس، رہائش اور ادویات دستیاب ہونے کے باوجود لاکھوں کروڑوں لوگ اِن ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یا پھر بہت تنگ و خوار ہیں؟

    کیوں؟ آخر کیوں؟ زرا غور کریں!
    نجی زمیندار، سرمایہ دار اور عمارت ساز کمپنیاں چونکہ تاجر ہیں، جب تک وہ ایک بڑا اور موٹا منافع نہیں دیکھتے، وہ محض انسانوں کی رہائشی ضرورت کی خاطر گھر تعمیر نہیں کریں گے. آزاد منڈی کے یہ سرمایہ دار صرف پیسہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں. اگر سرمایہ داروں کے لیے منافع نہیں تو سڑکوں پر سسکتے انسانوں کے لیے گھر بھی نہیں. بلکہ جتنے زیادہ دکھ ہونگے، اتنا زیادہ اِن ہوس زدہ سرمایہ داروں کا منافع بڑھے گا. اگر آپ کا خیال ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے لبرل عذر خواہ میری اِن باتوں کو ہر ممکن طریقوں سے جھٹلانے کی کوشش نہیں کریں گے تو آپ خیالی دنیا میں رہتے ہیں.

    سرمایہ دار جو تقریباً سبھی کچھ کے مالک ہیں، اُن کا صرف ایک مقصد حیات ہے؛ یعنی دولت کمانا. ذاتی بنیادوں پر تو یہ لوگ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں. اِن لوگوں نے اکاؤنٹنٹ اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں. اگر کہیں یہ سرمایہ دار کوئی محنت اور کام کریں گے تو بھی وہ کچھ سماج دوست کام نہیں ہوتا، مطمع نظر وہی دولت کی ہوس. یہ سرمایہ دار دوسروں کی شدید محنت کی پیداوار سے دولت کماتے ہیں. دوسروں کی محنت کا کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں. دوسروں کی شدید محنت سے بنے گھروں میں رہتے ہیں. جبکہ بدلے میں دیتے کچھ بھی نہیں.

    کہا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ دار جب سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس طرح کئی لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے. سوال یہ ہے کہ ورکرز کو دیا کیا جاتا ہے؟ اگلی تنخواہ تک بمشکل زندہ رہنے کی قلیل تنخواہ اور بدلے میں ورکرز سے لیا کیا جاتا ہے؟ اربوں کھربوں کا منافع! کیا یہ سرمایہ دار عوام اور ورکرز کی محبت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، یا پھر بھاری اور لامحدود منافع کی لالچ میں؟ یوں مزدوروں، ملازموں اور محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے سرمایہ دار لامحدود منافع کماتے ہیں. موجودہ سرمایہ دارانہ استحصال قرون وسطی کے غلاموں کے استحصال جیسا صاف شفاف نہیں ہے جہاں زرعی غلام جاگیرداروں کی زمین پر مفت کے لیے کام کرنے پر مجبور تھے، لیکن حقیقت میں یہ دونوں استحصال ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں. سرمایہ دار کسی بھی شرط پہ کم اجرت کے بدلے ورکروں سے بیش بہا کام لیتے ہیں.

    گزشتہ صدیوں میں سرمایہ داروں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے پیداوار کے انبار لگائے اور دولت کمائی. مگر آج کے سرمایہ دار پیداوار کے جھنجھٹ اور پریشانی کے بغیر پیسے بنانا چاہتے ہیں. آپ سنڈے ٹائمز رِچ لسٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو سب سے امیر لوگ وہ نظر آئیں گے جن کی دولت کا انحصار خاندانی وراثت، انشورنس، بینکنگ اور مالیاتی خدمات پہ ہے. کچھ سرمایہ دار تو کرنسی نوٹ اور بانڈز کی خرید و فروخت سے لامحدود منافع کما رہے ہیں. لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ کے سبب یہ کچھ بھی داؤ پہ لگا سکتے ہیں. انسانیت نام کی کوئی چیز اِس طبقے میں موجود نہیں ہے، یہ اپنے منافع کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں. کیا یہ لوگ اپنے منافع کے لیے لاکھوں لوگوں کو جنگ کا ایندھن نہیں بنا رہے؟ یہ سرمایہ دار اپنے مخصوص طریقوں اور سیاسی مہروں کو استعمال کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے ہتھیار استعمال کرواتے ہیں.

    ایسے سرمایہ دار بھی ہیں جو مختلف اداروں کو اپنی شرائط پر قرض دیتے ہیں جسکا سود بھی واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے. لوگ اِن سرمایہ داروں سے قرض لیکر فیکٹریاں لگاتے اور کھڑی کرتے ہیں. سرمایہ دار وقت آنے پر اپنی سخت شرائط اور سود کی عدم ادائیگی کی بنیاد پہ وہ فیکٹریاں اور ادارے اونے پونے خرید لیتے ہیں. دنیا کے امیر ترین فرد ’’وارن بفٹ‘‘ کی مثال دیکھ لیں. اِسی طرح بڑی بڑی اور مصروف ترین شاہراہوں پہ بنے ’’ٹول ٹیکس پلازوں‘‘ کے ٹھیکیداروں کی مثال دیکھ لیں. ایسے سرمایہ دار نہ کچھ پیدا کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی محنت مشقت کرتے ہیں، مگر ’’ریاستی قانون‘‘ کی مدد سے اربوں کماتے ہیں. بینکوں کے نظام میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی مثال دیکھ لیں یا سٹاک ایکسچینج کے ’’اَن داتا‘‘ سرمایہ داروں کی خباثت کی مثال لے لیں. یہ سب ایک سے ہیں، یہ خون چوسنے والے ڈریکولا ہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پیسہ بنانے کے چکر میں ہیں. کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’یہ دور دوسرے کی دولت کو اپنی دولت بنانے کا عہد ہے.‘‘

    یہاں ایک اور منظر بھی پیشِ خدمت ہے. یہ اپنی دولت کو مکمل طور پر خرچ کرنے سے قاصر ہیں. کیونکہ عیش و عشرت کی بھی ایک حد ہوتی ہے. یہ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کی ڈرائیونگ کر سکتے ہیں یا بیک وقت کتنے بنگلوں میں رہائش رکھ سکتے ہیں. یہ لوگ پاگل ہو چکے ہیں. جنگلیوں جیسی شتر بے مہار خواہشات کی تکمیل کے بعد بھی اِن کی دولت بیکار پڑی رہتی ہے. یا دوسرے چھوٹے کاروباریوں کے استحصال پہ خرچ ہوتی ہے. اعلی ترین عہدوں کے حصول پہ خرچ ہوتی ہے. پھر بھی اُن کی دولت کا بیشتر حصہ بےکار پڑا رہتا ہے.

    ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’محنت کرو اور ایک دن تم بھی امیر ہو جائے گے.‘‘ اِس فارمولے پہ عمل کرتے ہوئے چند محنت کش افراد غربت کی چَکی سے نکل آتے ہیں. لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ایک محنت کش صرف محنت کش رہتا ہے. محنت اور مشقت مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اُن کے مالکان کو مزید امیر بناتی ہے. ثبوت کے طور پر آج قومی آمدنی میں مزدوروں کے حصے میں مسلسل کمی دیکھی جا سکتی ہے اور سرمایہ داروں کے حصے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے.

    اِسی طرح آکسفورڈ مارٹن سکول کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پچاس فیصد ملازمین کی ملازمتیں بڑے خطرے (HIGH RISK) کا شکار ہیں. جی بالکل درست پڑھا ہے، پچاس فیصد. ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ روبوٹ کی آمد کے سبب ہو رہا ہے. انسانی محنت کشوں کی جگہ مشینری اور روبوٹ کام کر رہے ہیں اس لیے انسانوں کو ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے. کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے؟ روبوٹس کی ایجاد اور ترقی سے انسان کو سہولت ملنی چاہیے تھی مگر کیپٹلزم کے تحت یہ ایجاد و ترقی وبال بن رہی ہے. یعنی لبرل ازم کے پاس انسان کی قسمت میں ساری زندگی مشقت کی چَکی میں پِستے رہنے یا بےروزگار ہو کر سسکتے رہنے کے سوا اور کوئی آپشن ہی موجود نہیں ہے. کیا بےبسی ہے؟ اور کیا ناکامی ہے؟ بھیانک صورتحال کے بھیانک نتائج ہوتے ہیں. ایک طرف لوگ بےروزگار، بیکار اور قوتِ خرید سے محروم ہیں، دوسری طرف زائد پیداوار کے انبار لگ رہے ہیں. یہ عالمی بحران کا پیش خیمہ ہے. جب لوگ بےروزگار ہونگے اور کچھ خریدنے کے قابل نہیں ہونگے تو مال کون خریدے گا، مارکیٹ مندی کا شکار ہوگی. 2008ء سے بھی بڑا اور بھیانک بحران سر اُٹھائے گا.

    اِس بھیانک اور خطرناک صورتحال سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ فوراً سے پہلے زرائع پیداوار کو قومیا لیا جائے. خاص طور پر عظیم الشان سب سے بڑے 150 ملٹی نیشنل ادارے بلامعاوضہ چھین لیے جائیں. منصوبہ بندی کے ساتھ پیداوار کی جائے اور اُس پیداوار کی قیمت دو چار مالکان کی جیبوں کی بجائے سماج پہ خرچ کی جائے. اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں پہ خرچ کریں گے. جدید ترین، آرام دہ اور خوبصورت ترین رہائشی منصوبے شروع کر سکتے ہیں. جدید ریاستی زرائع نقل و حمل پہ خرچ کر سکتے ہیں. مناسب ترین پالیسیوں کی مدد سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں. یکسر مفت ہسپتالوں اور ادویات پہ خرچ کر سکتے ہیں. ایک منصوبہ بند معیشت ہی محنت کشوں کے کام کے اوقات کو مختصر بنا سکتی ہے اور ریٹائرمنٹ کی عمر بھی گھٹا سکتی ہے.

    ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ناقابل عمل اور بیوقوفانہ آئیڈیا ہے. مزدور کیسے سماج کو بہتر بنا سکتے ہیں. محنت کش سماج کو اور زرائع پیداوار کو کیسے چلا سکتے ہیں. یہ مزدوروں کےلیے ممکن ہی نہیں. میرا سوال ہے کہ آخر کیوں ممکن نہیں. ہاں سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور اِس قابل بالکل بھی نہیں کہ وہ سماج کی نشو و نما کر سکیں. لیکن سوشلزم میں یہ عین سچ ہے کہ محنت کش ہی سماج کی قیادت کرتے ہیں. ہمارے اردگرد سارے کام تو محنت کش ہی تو کر رہے ہیں. محنت کش کارکنان ہی بالکل درست بتائیں گے کہ اُن کے اپنے کام کی جگہ کو کس طرح چلا سکتے ہیں. وہ موجودہ مالکان کے مقابلے میں یہ کہیں بہتر چلا سکتے ہیں. آج کے عہد میں ’’چالاکی، مستعدی اور قابلیت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم اخراجات اور اجرت کی بنیاد پہ زیادہ سے زیادہ منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے. مگر منصوبہ بند معیشت کے تحت ’’قابلیت‘‘ یہ ہو گی کہ سماج اور انسان کو زیادہ فائدہ کیسے پہنچایا جا سکتا ہے جس کا بہتر فیصلہ ورکر اور محنت کش کی نسبت کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا. سوشلسٹ معیشت کے تحت انجنیئر، کیمپوٹر ماہرین اور سائنسدانوں کی مدد سے کام کے اوقات میں کمی کرتے ہوئے بہتر پیداوار اور بہتر سماج تعمیر کیا جائے گا. اگر آج پیداوار اور معیشت منصوبہ بندی سے کی جائے تو کوئی بھی بےروزگار نہیں رہے گا.

    سرمایہ داری کے تحت ہونے والے بھاری ضیاع کو سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت دور کیا جائے گا. مثال کے طور پر آج جنگوں اور اسلحے کے اخراجات معاشرے پر ایک بڑے پیمانے پر بوجھ بن رہے ہیں. اس وقت اس دنیا میں 15700 کے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں. حکومتیں اگلی دہائی میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں. کیا یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اِن انسان دشمن اخراجات کو انسان دوست اخراجات کے ساتھ بدلا نہیں جا سکتا؟ ہم اپنے ممکنہ وسائل جنگوں، ہتھیاروں اور تنازعات میں استعمال نہیں کریں گے بلکہ اپنے سکھ اور بہبود کیلئے استعمال کریں گے. سائنسدانوں کی قابلیت کو بم یا تباہی کے زیادہ جدید ہتھیاروں کی تعمیر پر برباد نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کی بہتری اور پیداواری ترقی کیلئے استعمال کیا جائے گا.

    آج کی منافقت سے بھر پور سرمایہ دارانہ جمہوریت دراصل امیروں کی جمہوریت ہے، اِس کے امیر حکمران امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں . بینکاروں اور سرمایہ داروں کے اس آمریت کا متبادل ہمارے پاس ہے، یعنی ہم کام کرنے والے لوگوں کی جمہوری حکومت قائم کریں گے. ایک ایسا معاشرہ جو کام کرنے والے لوگوں کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی طرف سے قائم ہو گا. آئیے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ ختم کرتے ہیں. ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرتے ہیں جہاں ’’ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا، اور ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق دیا جایے گا.‘‘ دوسرے الفاظ میں ایک صحتمند معاشرہ جس کی بنیاد یکجہتی اور ہم آہنگی ہو گی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مصائب بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے.

  • ہاتھ کی کمائی اور سٹیٹس – مسعوداحمد علوی

    ہاتھ کی کمائی اور سٹیٹس – مسعوداحمد علوی

    ہم لوگ بھی عجیب ہیں۔ یاروں دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں کھانے اڑاتے ہیں تو اتنا منگوا لیتے ہیں کہ کھایا نہیں جاتا۔ جلسوں میں نعت خوانوں پر اور شادیوں میں ڈانس کرنے والی رقاصاؤں پر نوٹوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ نجومیوں اور جعلی عاملوں کے آستانوں پر ساری کی ساری جمع پونجی لٹا آتے ہیں. سیر و تفریح پر جانا ہو یا دوستوں کو ٹریٹ کھلانی ہو تو حاتم طائی بن بیٹھتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں پر مہربان ہو جائیں تو نوٹوں کی لائن لگا دیتے ہیں، جبکہ شرطیں لگانے میں تو کوئی ہماراثانی نہیں. لیکن جب باری ان لوگوں کی آتی ہے، جو بے چارے دیہاڑی لگنے کی لالچ میں سارا سارا دن سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر ہماری راہ تکتے رہتے ہیں۔ یہ اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا پیٹ کمر سے لگ رہا ہوتا ہے، کئی کئی وقت ان کے گھروں کا چولہا نہیں جلتا. یہ غیور اتنے ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی کمائی سے زہر بھی کھا لیں لیکن مانگ کر کھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہماری کوئی ادا انہیں اچھی لگ جائے تو یہ جان چھڑکنے سے بھی گریز نہ کریں، جبکہ دوسری طرف ہمیں ان سے کام پڑ جائے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ یہ پانچ سو روپے مزدوری والا کام صرف سو روپے میں جبکہ سو روپے مزدوری والا کام فری میں کر دیں۔ یہ بھی ایسی مٹی کے بنے ہوتے ہیں کہ بھوک کی خاطر فوراً سستا کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ ان کی اسی رضامندی پر ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور سستا سودا طے پا جانے پر اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں اس غریب کی سادگی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔

    میں اور آپ اگر جان جائیں کہ یہ مزدور کون ہیں تو ہم دنیا کے سارے پیروں، فقیروں اور ملنگوں کو چھوڑ چھاڑ کے ان کے پاس دعائیں کروانے آ جائیں۔ کیوں کہ یہ وہ خمیر ہے جس سے رسول ِکریم ﷺ بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ایک موقع پر ایک مزدور صحابی نے حضور ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ کو ایسے لگا جیسے ان کے ہاتھ زخمی سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فوراً ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا اور ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ وہ صحابی کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہاتھوں سے کام کرنے کی وجہ سے ان پر چھالے بن گئے ہیں. جانتے ہیں اس پر آپﷺ کا رد عمل کیا تھا؟ آپﷺ نے اس محنت کش کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور تین مرتبہ فرمایا ’’ھذہ یدلا تمسہ النار‘‘ کہ یہ وہ ہاتھ ہیں جنھیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان مزدوروں اور محنت کشوں سے ہمارے آقا ﷺ کو اتنی محبت تھی کہ ایک موقع پر ان کے لیے سفارش فرمائی کہ ان لوگوں کو تنگ نہ کیا کرو اور انہیں ان کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دیا کرو۔ انہی کی روکھی سوکھی روٹی کے بارے میں یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ ’’دنیا کا کوئی کھانا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھائے ہوئے کھانے سے بہتر نہیں‘‘۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے دیکھا کہ حضرموت سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی کمال صفائی سے اپنے فن کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’خدا اس پر رحم فرمائے جو کسی صنعت میں کمال پیدا کرے‘‘. پھر ان صحابی سے فرمانے لگے ’’تم یہ کام مت چھوڑنا، بلکہ محنت سے اس کام پہ لگے رہو کیوں کہ مجھے نظر آ رہا ہے کہ تم اس کام کو عمدگی سے کرتے ہو۔‘‘

    بہت سے درمیانے یا ذرا اچھے گھروں کے لوگ برا وقت آجانے پر ہاتھ سے کمانے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے تو حرام کھانا گوارا کر لیتے ہیں لیکن کام کرنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ میں نے خود یونیورسٹی لائف میں ایک طالب علم کو صرف اس بات پہ رسوا ہوتے دیکھا کہ اس کا باپ اتوار بازار میں ٹھیلا لگاتا تھا۔ بخدا! یہ ہاتھوں سے کما کر کھانے والا عمل اگر معیوب ہوتا تو کبھی داود علیہ السلام لوہے کا کام نہ کرتے، کبھی نوح علیہ السلام لکڑیوں پر آرے نہ چلاتے، کبھی بھی ادریس علیہ السلام لوگوں کے کپڑوں کی سلائی نہ کرتے، ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام کا نام بھی آج تاجروں کی فہرست میں نہ ہوتا، ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام یوں کھیتوں میں ہل چلاتے نظر نہ آتے، نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو گلہ بانی کی ضرورت پیش آتی، یوں ہی سلیمان علیہ السلام ٹوکریاں اور زنبیلیں بنا بنا کر فروخت نہ کرتے اور نہ ہی تھوڑی سی اجرت کے عوض میرے اور آپ کے آقاﷺ دوسروں کی بکریاں چراتے. جب انبیائے کرام محنت کرنے سے نہیں گھبرائے تو ہمارا سٹیٹس ہی کیوں ہماری حلال کمائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟؟؟ سوچیے ذرا سوچیے