Tag: مریض

  • مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    مسیحا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    بچی چھت سے گر پڑی.
    بچی کی تکلیف نےباپ کو تڑپا دیا.
    بیٹی گود میں اٹھائے ہسپتال پہنچا.
    ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے .
    بچی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.
    میسحا تماشا دیکھتے رہے.
    انھیں اپنے مطالبات منوانے تھے.
    غم زدہ باپ لاش اٹھائے ان کی مسیحائی پر تھوک کر گھر لوٹ آیا.

  • ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    میو اسپتال بچہ وارڈ میڈیکل ایمرجنسی میں میری نائٹ ڈیوٹی تھی .. ہیوی ٹرن اوور تھا. کھوے سے کھوا چل رہا تھا .. ایک ہاؤس آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار دو نرسز کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی سنبھال رہی تھیں. اتفاق سے سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا. صرف ایمرجنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار مرد تھا.

    رات کے دو اڑھائی بجے ایک تین سالہ بچی کو جھٹکوں اور تیز بخار کے ساتھ اسپتال لایا گیا. خوبصورت اور فربہی مائل صحت مند بچی بےہوشی، بخار اور جھٹکوں میں مبتلا تھی. پریشان حال روتی دھوتی ماں، پریشان اور غصیلا باپ اور چار پانچ درباری قسم کے رشتے دار بچی کے ساتھ تھے. ویل آف سیاسی قسم کی فیملی لگ رہی تھی جو رات کے اس پہر کوئی پرائیویٹ ڈاکٹر نہ ملنے کے باعث میو اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوئی تھی. درباری رشتے داروں کو چوکیدار نےگیٹ پر روکا لیکن وہ ایم ایس سے تعلق کا حوالہ دے کر اندر گھس آئے .. ایمرجنسی کا چھوٹا سا کمرہ مریضوں سے بھرا ہوتا ہے، اس میں بچوں کے ساتھ ایک فرد کو کھڑا ہونے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ اس بچی کے ساتھ چھ سات لوگ اندر آ گئے تھے. بچی کو فوری طور پر ڈیوٹی ہاؤس آفیسر اور نرس نے اٹینڈ کیا جبکہ ایم او بھی ساتھ موجود تھی. اگر آپ لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بچے کو کینولا لگانا ایک مشکل کام ہوتا ہے خصوصا ایک فربہ بچے کو جو جھٹکے بھی لے رہا ہو، اگر اس کے اٹینڈنٹس ڈاکٹر کو سوئی چبھونے کی اجازت بھی نہ دے رہے ہوں تو کینولا لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے. بچی کے ہاتھ کی طرف سوئی بعد میں بڑھتی تھی، پریشان حال ماں بچی کا بازو اپنی طرف پہلے کھینچ لیتی تھی. جھٹکے شدید ہوتے جا رہے تھے. غصیلے اور عدم تعاون پر آمادہ اٹینڈنٹس .. رات گئے کا وقت .. چوکیدار نے سینئر رجسٹرار صاحبہ کو بھی کال کر لیا. خدا خدا کر کے بچی کو کینولا پاس کرنے میں کامیابی ہوئی .. دوا دی گئی اور بچی کے جھٹکے رکے تو سب نے سکون کا سانس لیا ..

    اسی وقت میرے کندھے پر ایک غیر دوستانہ دستک ہوئی .. میں ڈیوٹی ہاؤس آفیسر تھی جو کینولا لگانے کی سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی تھی، اس روز بھی کینولا میں نے ہی لگایا تھا، اور بچی کے جھٹکے کنٹرول ہوتے دیکھ کر بےحد خوش تھی .. خیر اس دستک کے جواب میں پلٹ کر دیکھا تو ایک درباری اٹینڈنٹ جسے بچی کے باپ کے سامنے کارروائی دکھانے کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی کمر سے لگا ہولسٹر اور گن دکھاتے ہوئے سلطان راہی کے انداز میں مجھے ایک ڈائیلاگ سے نوازا ..
    ”اگر آج تم ہماری بچی کا علاج نہ کرتی تو صبح تمہیں نوکری سے فارغ کروا دیتا . ایم ایس میرا رشتے دار ہے.“
    اتنی عمدہ تعریف اور حوصلہ افزائی پر مجھ سمیت تمام ڈاکٹرز کا دماغ گھوم گیا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی چوکیدار نے اسے پکڑا، اور بزور باہر لے گیا. اس کے بعد ہماری ایس آر نے بچی کے والدین اور تمام وارڈ کے سامنے ایک جوشیلی جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک رات اور ایک دن میں سینکڑوں بچوں کی جان بچاتے ہیں. ایسے برے رویے کے حقدار ہم نہیں. اگلی صبح مارننگ میٹنگ میں رات کے واقعہ پر بحث ہوئی اور وارڈ سکیورٹی بڑھا دی گئی. اس واقعہ سے ڈاکٹرز خوفزدہ بھی تھے اور کام کرنے کا جذبہ بھی خوف و طیش کے ملے جلے جذبات کی آڑ میں چھپ سا گیا تھا .. لیکن پروفیسر صاحب اور سینئیرز کی حوصلہ افزائی کے بعد کام بلاتعطل جاری رہا..

    یہ واقعہ آج کل جاری ڈاکٹرز کی ہڑتال کے تناظر میں یاد آ گیا .. جہاں جذباتی اٹینڈنٹس اپنے غصے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے ڈاکٹرز کا تعاون کھو دیتے ہیں. ڈاکٹر آپ کا دوست اور ساتھی ہے، آپ کی صحت اس کا مقصد ہے لیکن وہ ایک انسان ہے، آپ کا بےدام غلام نہیں. باہمی عزت و احترام پر دو طرف سے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے.

    ڈاکٹرز کو اپنی بات سنانے کے لیے ہڑتال کرنا پڑی .. ایمرجنسی میں کام جاری تھا لیکن ریپورٹڈلی ایک ڈی ایم ایس صاحب پستول لہرا کر ایمرجنسی کے ڈاکٹرز کو دھمکاتے رہے. ینگ ڈاکٹر سے زیادہ انرجی اور کام کا جذبہ کسی میں نہیں ہوتا لیکن خوف و دہشت کے سائے میں گن پوائنٹ پر کیا کسی سے کوئی کام لے سکتا ہے؟ اگر دو ہفتے سے اسپتال کا آؤٹ ڈور اور ان ڈور بند ہے تو یہ انتظامیہ کی بد ترین نااہلی کا مظہر ہے.

    ینگ ڈاکٹرز کو بھی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے غیر مشروط طور پر ایمرجنسی ڈیوٹیز کو سنبھال لینا چاہیے .. بےشک بطور احتجاج کالی پٹیاں باندھے رکھیں اور انتظامیہ کو بھی ڈاکٹرز کی خاطرخواہ دل جوئی اور حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے.

    ایک عام آدمی سے میرا سوال ہے کہ یہ نوجوان ڈاکٹر آپ کا بیٹا بیٹی یا چھوٹا بھائی بہن ہوتا اور اس کو مریض کے رشتے دار جان کی دھمکی دیتے یا پستول سے دھمکاتے تو آپ اپنی بہن کو اگلے روز مسیحائی کے لیے بھیجتے یا اسے تب تک کام پر جانے دیتے جب تک اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست نہ کر دیا جاتا..

    میری تمام ینگ ڈاکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنےاعلی تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دیں اور مریض کے سوشل اسٹیٹس سے قطع نظر عزت و ہمدردی کا سلوک روا رکھیں ..
    اسی طرح عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر کو مشکل مصیبت اور تکلیف میں کام آنے والا مخلص اور ہمدرد دوست مانیں اور اس کو عزت دیں..

  • ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    اٹھارہ بیس سال درس گاہوں میں جھک مارنا ………. اپنے والدین کے لاکھوں روپے جھونک دینا … مسلمان کے گھر پیدا ہونا … گھروں میں قرآن شریف کی موجودگی … محلے میں بیسیوں مسجدوں اور مدرسوں کا ہونا …. صبح شام مؤذنوں کی چیخ و پکار سننا …… آس پاس اتنی ساری دینی جماعتوں کا ہونا .
    اور اس سب سے نکلتا کیا ہے؟
    ایک ایسا ڈاکٹر ………….
    کہ جو اپنے دنیاوی فائدے کے لیے ہڑتال کرے اور ایک معصوم بچی کو سسک سسک کے مرتا دیکھے .
    لعنت ہے ایسی پڑھائی لکھائی پر ………. ایسی درس گاہوں پر …. ایسے ماحول پر ……
    کہ جو ایک اچھا انسان تخلیق نہ کر سکے ….
    کہ جس میں احساس ہو ……. انسانیت ہو ……. مروت ہو …. شرم ہو …….. حیا ہو ……. جو کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اپنی ضرورتیں بھول جائے .
    ارے دولت ہی کمانی تھی تو اس مقدس پیشے میں کیوں آئے تھے؟
    بن جاتے چور، ڈاکو ، اسمگلر، سیاستدان …….. کوئی ٹٹ پونجیے دکاندار ………. حلیم کی یا بریانی کی دیگ لگالیتے……… مل جاتے پیسے .
    اب اس پیشے میں آئے ہو تو قربانی دو … اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دو .
    یہ کیا کہ اپنے مفاد کے لیے آئے دن ہڑتالیں ……… احتجاج .
    اگر اپنے مسائل اوپر تک پہچانے کے لیے ہڑتال ضروری بھی ہو…. تو پھر بھی ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام نہیں رکنا چاہیے .
    یہ بحیثیت ڈاکٹر ………… مسلمان …………… اور انسان آپ پر فرض ہے کہ آپ تکلیف میں لوگوں کی مدد کرو .
    کچھ شرم کرو کس کے ماننے والے ہو ……… جو بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے .
    تم انسان کے بچے کو مرتا چھوڑ آئے .

  • پاگل نہ ہووے تے – صبور احمد

    پاگل نہ ہووے تے – صبور احمد

    اس کی نظریں مریض کے زرد چہرے پر جمی تھیں، جس پر اب غشی طاری ہو چکی تھی۔ گاڑی اسّی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سیاہ تارکول سے بنی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی اور اسے امید تھی کہ بہت جلد وہ لاہور شہر کے میو اسپتال پہنچ جائیں گے۔ اسے یاد تھا ابھی کچھ عرصہ قبل تک اسی سڑک کی حالت اتنی خراب تھی کہ قریب دو سو کلومیٹر کا یہ سفر کئی گھنٹوں میں بمشکل طے ہو پاتا مگر آج صورتحال یکسر مختلف تھی۔ وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک ڈرائیور کی آواز پر چونک پڑا جو بتا رہا تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور چند منٹ تک اسپتال پہنچ جائیں گے۔ مگر یہ کیا؟ اسپتال کی جانے والی بڑی سڑک کا حال ایسا تھا گویا دشمن ملک نے بمباری کر دی ہو۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آج کل یہاں اورنج ٹرین منصوبے پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے سفر میں مشکلات درپیش ہیں۔

    خیر، خدا خدا کر کے مزید ایک گھنٹے بعد منزل تک پہنچنا ہو پایا۔ مگر مشکلات ابھی کم نہ ہوئی تھیں، مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں منتقل تو کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی بتا دیا گیا کہ گزشتہ کئی گھنٹوں سے اسپتال میں بجلی کی ترسیل منقطع ہے (کچھ لوگ اس کی وجہ بھی اورنج ٹرین منصوبہ بتا رہے تھے)۔ ادھر مریض کی حالت ہر لمحہ مسلسل بگڑتی جا رہی تھی، اور پھر بالآخر اس نے وہیں بستر پر آخری سانس لیا اور خود کو زندگی کی تمام مشکلات سے آزاد کر گیا۔ آس پاس لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جہاں کچھ لوگ اظہار ہمدردی کرنے لگے، وہیں بعض شریروں نے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا جس میں حکومت کی ترجیحات اور میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے سر فہرست تھے۔

    ممکن تھا اپنے عزیز کی موت کے صدمے سے دوچار چند لمحے کے لیے وہ بھی ان کی اس زہر افشانی کا قائل ہو جاتا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور آنکھوں کے سامنے تیز روشنی پھیل گئی۔ آہستہ آہستہ اس روشنی میں ایک شبیہہ ظاہر ہوئی۔ چمکدار گندمی رنگت، میانہ قد، روشن آنکھیں، فراخ پیشانی، قدرے مختصر ترشی ہوئی مونچھیں، چوڑا سینہ، شانوں پر دائیں بائیں دو نورانی پَر۔ شبیہہ کےہاتھ میں پریوں جیسی چھڑی تو نہیں تھی، مگر دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت خاصی طویل تھی جس کے سرے پر ایک ستارہ تھا۔ انگشت شہادت کو زور زور سے حرکت ہوتی تو ستارے سے روشنی کے ذرات کی بارش ہونے لگتی۔ اس شبیہہ کے سر کے عین اوپر دائرے کی شکل میں روشنی کا ایک حالہ بھی موجود تھا جس کا عکس شبیہہ کے سر کے بالکل درمیان چمکتا نظر آ رہا تھا (کیونکہ سر پر بال نہیں تھے) بلکہ روشنی کی کرنیں اس حالے سے کم، سر پر موجود اس کے عکس سے زیادہ خارج ہو رہی تھیں۔ سب کچھ بھول کر وہ اس منظر کے سحر میں کھو گیا کہ تبھی شبیہہ پرجلال لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی
    ”بیوقوف! ان شیطانوں کے کہے میں آ کر ہم سے بدگمان ہوا جاتا ہے؟ ذرا نظر گھما کر دیکھ۔“
    اس نے جونہی نظر گھمائی وہ تمام ناقد اسے واقعی شیطان دکھائی دینے لگے۔ لمبی لمبی لٹکتی ہوئی زبانیں، سرخ انگارہ آنکھیں، دہانوں سے نکلتے شعلے۔ اس نے فوراً ہر برے خیال کو ذہن سے جھٹک ڈالا اور سوچنے لگا، میں بھی کیسا احمق ہوں؟ ابھی تو خود سوچ رہا تھا کہ راستے کی سڑک اتنی شاندار نہ ہوتی تو کتنے ہی گھنٹے لگتے سفر میں اور مریض یہاں پہنچنے سے قبل راستے ہی میں کہیں دم توڑ چکا ہوتا۔ باقی جو شہر کی سڑکوں یا بجلی کا معاملہ ہے تو یہ عارضی مسائل ہیں جو آنے والے اچھے دنوں کی نوید سنا رہے ہیں۔ ابھی اسے کچھ اطمینان حاصل ہوا ہی تھا کہ ایک زوردار قہقہے کی آواز سن کر چونک پڑا۔ سر گھما کر دیکھا تو سامنے ایک مجذوب اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بےتحاشا ہنسے چلا جا رہا تھا۔ میلے کچیلے کپڑے، کھچڑی بال جو شاید کئی سال سے دھوئے نہیں گئے تھے، چہرے پر میل کی تہیں جمی ہوئیں۔ تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا
    ”اوئے جھلّیا، اے کیوں نئیں سوچدا کہ جے تیرے شہر وچ کوئی چنگا اسپتال ہندا تے تینوں ایتھے آنا کیوں پیندا؟ پاگل نہ ہووے تے۔“
    اس نے گھبرا کر روشن شبیہہ کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا، مگر وہاں اب روشنی تھی نہ ہی کوئی شبیہہ، لوڈ شیڈنگ کے باعث صرف اندھیرا تھا، مکمل اندھیرا۔

  • نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    نجی اسپتال ایمرجنسی کیسز لینے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ایمرجنسی کیس کا مطلب ہی زندگی کو خطرہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اسپتال میں مریض کے انتقال کی صورت میں لواحقین اور میڈیا عفریت بن کر اسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں. گویا نجی اسپتال مذبح خانے ہیں، جہاں لائے جانے والی جان اگر بچائی نہیں جا سکی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسے ارادتا قتل کیا گیا ہے. ایسی صورتحال دو طرح کے گروپس کری ایٹ کرتے ہیں. ”غمزدہ لواحقین“ جو اپنے پیارے کی مرگ کو قبول نہیں کر پا رہے ہوتے. یہ لوگ اپنا رنج و غم ظاہر کرنے کے لیے اسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں، ان کا نشانہ فرنیچر کھڑکی دروازے مشینری کے علاوہ ہاتھ لگنے والے ڈاکٹرز اور اسپتال کا عملہ کچھ بھی ہو سکتا ہے. دوران کالج ملحقہ سرکاری اسپتال میں ایک معمر بزرگ انتہائی شدید ایمرجنسی میں لائے گئے، ان کا 90 فیصد جسم جل چکا تھا، ایسے کیس میں مریض کے بچنے کے امکانات صفر کے برابر ہوتے ہیں. رات گئے ڈیوٹی پر ایک ینگ ڈاکٹر موجود تھا، جو ہاؤس جاب کر رہا تھا اور ایمرجنسی آؤٹ ڈور کو بھی ہینڈل کر رہا تھا. باقی تمام ڈاکٹرز اس وقت بھی آپریشنز میں مصروف تھے. آؤٹ ڈور ہیوی تھا، اور عملہ کم، نوجوان ہاؤس سرجن نے مریض کے ریسیونگ نوٹس ڈال کر ابتدائی درد کش ٹیکے لگا دیے. سینئر کو اطلاع / کال بھجوا دی، لیکن آپریشن درمیان میں چھوڑ کر آنا ایک ناممکن امر ہوتا ہے. جتنی دیر میں سینئر ڈاکٹر صاحب آپریشن سے فارغ ہو کر آتے، جاں بلب بزرگ نے آخری سانسیں لیں اور رب کو پیارے ہوگئے. غمزدہ لواحقین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نوجوان ڈاکٹر کو مار مار کر کومے میں پہنچا دیا. وہ ڈاکٹر چند روز کومے میں رہ کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا. کسی نے ان لواحقین سے نہیں پوچھا کہ مریض اتنا جلا کیسے؟ کسی نے ڈاکٹر سے ہمدردی نہیں کی؟ کیوں؟ ایسی ناگہانی کے خوف سے نجی اسپتال اب سیریس مریض نہیں لیتے.

    دوسرا گروپ موقع پرست ”پریشر بلیک میلر گروپ“ ہوتا ہے جو ہر موقع پر کٹے سے دودھ دوہنے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے. مریض اپنے وقت پر رخصت ہو جاتا ہے، اور اس کے شایان شان رخصتی کے اخراجات اسپتال سے نکلوائے جاتے ہیں، کیونکہ شومی قسمت عزرائیل کو مریض کی جان اسپتال میں قبض کرنے کے احکامات ملے تھے. عموما ایسے لواحقین یا ان کو مشورہ دینے والے حضرات وہ ہوتے ہیں جن کے لیے میڈیا میں بات اچھالنا اور کورٹ کچہری کے چکر نئی چیز نہیں ہوتی. میڈیا جن کیسز کو پبلیسائز کر کے اپنے تئیں لواحقین کو انصاف دلاتا ہے اور ڈاکٹر یا اسپتال انتظامیہ کو بدنام اور بلیک میل کرتا ہے، وہی میڈیا مریض کو ڈاکٹر اور فوری طبی مدد سے دور بھی کرنے کا باعث بن رہا ہوتا ہے.
    ایک دفعہ اسپتال ایسے کسی میڈیائی عفریت کے چنگل میں آ جائے، پھر وہ اسپتال اور اس کے دور و نزدیک کے دوسرے اسپتال آئندہ کے لیے ایسی ایمرجنسی لینے سے محتاط ہو جاتے ہیں.

    جس کا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے، اس کا غم سمجھ آتا ہے، لیکن یاد رکھیں ڈاکٹر آپ کا دشمن نہیں ہوتا، وہ آپ ہی کے مریض کی جان بچانے کے لیے ٹیکہ لگاتا ہے یا آپریشن کرتا ہے. ظاہر ہے مریض سیریس تھا، تبھی اسپتال لایا گیا تھا لیکن آپ لوگ اسی مریض کی اپنے گھر کے بیڈ پر وفات کو قبول کرتے ہیں اور گھر کے شیشے نہیں توڑتے،گھر کے مالک کو جان سے مار دینے یا پھانسی پر لٹکا دینے کا مطالبہ نہیں کرتے، اس پر دفعہ 302 کا پرچہ کٹوانے کے بینرز آویزاں نہیں کرتے.

    ہم سب مسلمانوں کا ماننا ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے، لیکن اگر یہ جگہ اور وقت اسپتال میں ہو تو کیا موت اللہ کی طرف سے نہیں؟ کیا وہ ڈاکٹر یا عملے یا اسپتال کی غفلت کا نتیجہ ہے؟ گھر میں فوت ہونے والے عزیزوں کی وفات کس کی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے؟ ہاں اسپتال میں ایمرجنسی ادویات اور مشینری کا موجود ہونا ہم سب کا حق ہے. اور جان بچانے والی ادویات میں مہنگی ادویات بھی شامل ہونی چاہیے لیکن یاد رکھیں نجی اسپتال بیشتر اوقات معاشرے میں موجود آپ جیسے متوسط طبقے کے افراد ہی چلا رہے ہوتے ہیں. ایک پرائیویٹ ڈاکٹر روٹی، گھر،گاڑی اور بچوں کی تعلیم کے بعد بچنے والی کمائی کا ایک ایک پیسہ اسپتال میں مزید سہولیات فراہم کرنے پر صرف کر رہا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں وہ ہر مہنگی دوا اپنی جیب سے مہیا نہیں کر سکتا، یہ شعبہ گورنمنٹ کا ہے. اسی طرح ہر نجی اسپتال میں ہر قسم کی مہنگی مشینری موجود نہیں ہوسکتی.
    ہمارے ہاں اس مسئلے کا بہترین حل میڈیکل انشورنس ہے، اس سسٹم کوگورنمنٹ کی سرپرستی میں شروع کیا جانا چاہیے.

    اگلا سوال ہے کہ نجی اسپتال مہنگے کیوں ہیں؟
    اسپتال کو کچھ بھی مفت نہیں ملتا بلکہ عام صارفین کی نسبت یوٹیلیٹیز مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہیں. بجلی کا نرخ کمرشل ہے یعنی جو بجلی عام صارف 12 روپے فی یونٹ خریدتا ہے، وہی بجلی اسپتال اس سے دگنے دام میں حاصل کرتا ہے. اس پر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی سبسڈی نہیں، یہی حال کمرشل گیس کے میٹرز کا ہے. نجی اسپتال آنے والا مریض فوری آرام کا طالب ہوتا ہے، اس صورتحال میں اسے جینریک نان برانڈڈ ادویات استعمال نہیں کروائی جا سکتیں جبکہ برانڈڈ ادویات کی قیمت متعلقہ فارماسوٹیکل کمپنی طے کرتی ہے.گورنمنٹ اسپتال میں موجود وہی برانڈ مفت یا سبسڈائزڈ ہوتا ہے جبکہ پرائیویٹ وہ پوری قیمت پر مہیا کیا جاتا ہے. سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس اور نرسنگ اسٹاف ماہانہ بنیاد پر تنخواہ لیتے ہیں جبکہ نجی اسپتال میں عموما یہ سب فی کیس شئیر کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اسی طرح نجی اسپتال میں سیکھنے کے شوقین ڈاکٹرز مفت کام نہیں کرتے بلکہ سیکھے سکھائے ڈاکٹرز اور طبی عملہ پروفیشنل سروسز قیمتا مہیا کرتا ہے.

    غریبوں کا مفت علاج کیوں نہیں کیا جاتا؟
    ڈاکٹر معائنہ مفت کر بھی دے تب بھی ادویات اس نے اپنی جیب سے لینا ہیں یا آپریشن کے کچھ نہ کچھ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے ہیں. مریض مستحق نہ بھی ہو تب بھی علاج کرواتے وقت مستحق ترین بن جاتا ہے. ایک فری کیمپ میں، جس میں، میں نے اپنے تین کولیگز کے ساتھ دو دن میں بارہ سو مریض دیکھے، اور ابتدائی دو دن کی دوا بھی مہیا کی، اس میں مریضوں کا رویہ یہ تھا کہ کیمپ سے باہر نکلتے ہی دوا کی پرچی پھاڑ کر پھینک جاتے تھے، اور اگر کسی نے دوا کھا لی تو مہینے بعد بھی مفت معائنے کے لیے ہی دوبارہ آیا. جبکہ فری کیمپ دو دن کا تھا. ایک نجی اسپتال نے اپنا سسٹم چلانے کے لیے آمدنی اپنے مریضوں سے ہی جنریٹ کرنی ہے. بنا تیل کے تو کوئی گاڑی نہیں چل سکتی.

    حکومت کی پالیسیز پریکٹس فرینڈلی نہیں!
    ڈاکٹر کو اوور آل/سفید کوٹ نہ پہننے پر معطل کر دیا جاتا ہے. کیوں بھائی! آپ نے اسپتال کے وارڈ میں اے سی لگائے ہیں، جہاں گرمی نہیں یا وہاں بجلی نہیں جاتی. پرائیویٹ اسپتال ہو یا سرکاری، لوڈ شیڈنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے. دوران آپریشن بجلی چلی جائے تو تھیٹر لائٹ اور بھاری مشینیں ایمان کی روشنی پر نہیں چلتیں. کم از کم پہلے قدم کے طور پر سرکاری اسپتال کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنٰی قرار دیا جائے. اور پھر اسے نجی اسپتال تک بھی بڑھایا جائے ورنہ وہ چند لمحات جس میں بجلی کے جھٹکے لگا کر کسی کا بند دل چلایا جا سکتا ہے، وہ قیمتی لمحات لوڈشیڈنگ اور چینج اوور کی نظر ہو جائیں گے. ایک سرکاری اسپتال میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آنکھ کا آپریشن درمیان میں چھوڑ دیا گیا، اور تین گھنٹے بعد لائٹ آنے پر آپریشن مکمل تو کیا گیا لیکن آنکھ ضائع ہو چکی تھی.

    چند تجاویز. .
    ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز کی مناسب حفاظت کا بندوبست کیا جائے.
    ڈاکٹرز کی تنخواہیں اتنی کر دیں کہ انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا رخ ہی نہ کرنا پڑے، اور وہ درست معنوں میں شعبہ طب کو مسیحائی میں تبدیل کر سکیں.
    جان بچانے والی مشینری بےحد مہنگی ہے اور اسے باہر سے منگوانا پڑتا ہے، جس پر ہوشربا درآمدی ٹیکس نے ایسی مشینری کو بیشتر نجی اسپتالوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے. اس طرف ہمدردانہ غور کیا جائے اور اس پر عائد ٹیکس کم یا ختم کیا جائے. یہ ذاتی عشرت کا سامان نہیں، عوامی خدمت کے لیے اہم ہے.
    نئے ڈاکٹرز کو پریکٹس اسٹیبلش کرنے کے لیے اور اسٹیبلشڈ اسپتالوں کو سہولیات بہتر بنانے کے لیے آسان اقساط میں بلاسود قرض فراہم کیے جائیں.
    اسی طرح نیا اسپتال بنانے کے لیے مناسب ترین بلڈنگ اسٹرکچر کی تیاری میں بھی پیشہ ورانہ خدمات گورنمنٹ لیول پر مہیا کی جائیں.
    ڈاکٹرز کے ریفریشر کورسز بھی گورنمنٹ لیول پر کروائے جائیں نہ کہ اس معاملے کو میڈیکل کمپنیز کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، تاکہ ڈاکٹر بیماری کا نیا علاج سیکھیں نہ کہ بیماری کی نئی دوا.
    میڈیکل انشورنس ڈاکٹرز اور مریض کے باہمی تعلقات کی بحالی کی طرف ایک عمدہ قدم ثابت ہو سکتا ہے، جہاں مریض کو ڈاکٹر کی تشخیص اور طریق علاج پر شک صرف اس لیے نہیں ہوگا کہ شاید پیسوں کے لیے ٹیسٹ /ادویات/آپریشن تجویز کیا جا رہا ہے اور اسی طرح جب ڈاکٹر کو محنت کا مناسب معاوضہ ملنے کا یقین ہوگا تو اس کی دلچسپی ٹو دا پوائنٹ تشخیص اور بہترین طریق علاج کی طرف مبذول رہےگی.

  • اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال میں فارماسسٹ کا کردار – ڈاکٹر عثمان عابد

    اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال میں فارماسسٹ کا کردار – ڈاکٹر عثمان عابد

    عثمان عابد اگر اِنسانی تاریخ کی اہم دریافتوں کی فہرست مرتب کی جائے تو بلاشبہ یہ فہرست اینٹی بائیوٹک جیسی اہم ترین دوا کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ اینٹی بائیوٹک ہوتی کیاہے ؟ دراصل اینٹی بائیو ٹک ایک ایسی دوا ہے جو ایسے خردبینی جانداروںMicro-organisms جیساکہ بیکٹریا ،فنجائی وغیرہ کو جو ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ان کا قتل عام کرتی ہے یا اُ ن کی نشوونما کو روک دیتی ہے۔

    اینٹی بائیوٹک کے تعارف کے بعد آئیے ذرا تاریخ کے جھروکوں سے جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین کو شاید اندازہ نہیں کہ اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے جب خرد بینی انفیکشن خاص طور پر بیکٹریل انفیکشن ہوتا تھا تو لاتعداد اموات وقوع پذیر ہوتی تھیں۔ اینٹی بائیوٹکس کی دریافت نے ادویات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ اب ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیںجہاں بیکٹریل انفیکشن کی بڑی تعداد کا علاج معمول کے طور پر ہو رہا ہے ۔ وہ انفیکشنز جن کا آج آسانی سے علاج ہو رہا ہے اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے یہ انفیکشنز بہت مہلک سمجھے جاتے تھے۔انفیکشنز کی وجہ سے اموات میں واضح کمی اینٹی بائیوٹکس کے ہی مرہونِ منت ہے۔

    اینٹی بائیوٹکس کی قصیدہ خوانی کے بعد اب آتے ہیں ان کے استعمال کی جانب ۔ بطور فارماسسٹ میرا فرض ہے کہ میں اپنے قارئین کو آگاہ کروں کہ وہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں احتیاط برتیں کیونکہ اِن کا حد سے زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اینٹی بائیوٹک کا طریقہ ء واردا ت بھی عام ادوایات سے قدرے مختلف ہوتا ہے ۔ عام ادویات انسانی جسم میں جا کر حیا تیاتی کیمیا کے عمل کو تبدیل کرتی ہیں ۔اس عمل کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹکس کو ایک ایسے دشمن کے خلاف بھی لڑنا پڑتا ہے جو مڑُ کر حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔ جی ہاں ! آپ صحیح سمجھے میں اُن نامراد بیکٹریا کی بات کر رہا ہوں جو ہماری نرم و نازک جان کے درپے رہتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

    اینٹی بائیوٹک کے اثر سے بچنے کے لیے بیکٹریا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت یا Antibiotic Resistance کہتے ہیں۔ا س مزاحمت کے نتیجے میں دوا کی اثریت کم ہو جاتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس طرح بیکٹریا بچ جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھنے سے صحت مزید خراب ہو جاتی ہے ۔ بدقسمتی سے دن بدن یہ مسئلہ اور بڑا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس سے شرحِ اموات میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے ۔

    اینٹی بائیوٹک کا یہ بے دریغ استعمال کون روکے گا؟ ہمارے ہسپتالوں میں فارمیسی سروسز کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ مریض کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ وہ دواکیسے استعمال کرے ۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ایک وقت آنے والا ہے کہ جب کوئی اینٹی بائیوٹک اثر نہیں کرے گی اور ہم Pre-Antibiotic کے دور میں چلے جائیں گے ۔ مریض کو جب دوا دی جاتی ہے تو پہلے یہ تشخیص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا مریض کو واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہمارے ملک میں اینٹی بائیوٹک بلا جھجھک اور بغیر کسی فکر کے تجویز کی جاتی ہے۔ 60% سے 70% نسخوں میں آپکو اینٹی بائیوٹک ضرور لکھی ہوئی دیکھائی دے گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بہت زیادہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات مریض کو دوا کے استعمال کے بارے میں پوری طرح نہیں بتا پاتے ۔ مناسب آگاہی نہ ہونے کے باعث مریض کو جیسے ہی تھوڑا سا افاقہ ہوتا ہے تو وہ دوا لینا بند کر دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم جب بیمار ہوتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ پھر مریض یہی الزام لگاتا ہے کہ دوا ٹھیک نہیں تھی ۔ زیادہ تر کیسسز میں دوا بھی ٹھیک ہوتی ہے لیکن اُس دوا کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ بیکٹریا اُس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہوتے ہیں ۔ اُن کے اندر اتنی قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہوتی ہے کہ اُن پر دوا اثر ہی نہیں کرتی ۔

    لیکن اگر فارماسسٹ موجود ہوگا تو وہ یہ دیکھے گا کہ کیا واقعی اینٹی بائیوٹک کی ضرورت تھی یا ڈاکٹر نے بلا ضرورت ہی تجویز کر دی ہے ؟ اور جو اینٹی بائیوٹک تجویز کی گئی ہے آیا اُس کی صحیح dose تجویز کی گئی ہے یا نہیں؟ کتنے دن تک اور کیسے مریض نے دوا کھانی ہے؟ فارماسسٹس اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحت کی اس جنگ میں عوام کا بھر پور ساتھ دیں۔ اینٹی بائیوٹک کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے واقعات عوام کی صحت کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب تک متعلقہ لیبارٹری ٹسٹ اس بات کی نشاندہی نہ کریں کہ اینٹی بائیوٹک کااستعمال نا گزیر ہے وہ اینٹی بائیوٹک تجویز نہ کریں۔ نسخہ تجویز کرنے سے پہلے فارماسسٹ سے ضرور مشورہ لیں کیونکہ جس طرح مرض کی تشخیص میں ایک Physician مہارت رکھتا ہے بالکل اُسی طرح فارماسسٹ ہی ادویات کے بارے میں بہتر جانتا ہے ۔

    اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ ڈاکٹر حضرات (جنھوں نے دواساز کمپنیوں سے بھاری مراعات لی ہوتی ہیں) کمپنیوں کے دبائو میں آکر بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی کالی بھیڑوں کا قلعہ قمع کرے جو مسیحائی کے بھیس میں انسانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچارہے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس کے محتاط استعمال کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں فارماسسٹس کو تعینات کرے اور عوامی آگاہی کے لیے سیمینارز منعقد کروائے اور اس سلسلے میں فارماسسٹس کی خدمات حاصل کرے کیونکہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہا ں ایک بیکٹریل انفیکشن کے علاج کے لیے دس مختلف اینٹی بائیوٹکس مارکیٹ میں موجود ہیں اور فارماسسٹ کی رہنمائی کے بغیر ہم درست اینٹی بائیوٹک کا انتخاب نہیں کر سکتے ۔

    فارماسسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا سب سے طاقتور ہتھیار یعنی Patient Counceling استعمال کریں۔ اینٹی بائیوٹکس کے مضر اثرات کے بارے میں بتلانے کے ساتھ ساتھ مریضوں کو اس بات سے بھی آگاہ کریں کہ وہ اینٹی بائیوٹکس کو خاص وقفے کے بعد استعمال کریں اور کورس کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے مکمل کریں۔
    اللہ مجھے اور آپکو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

  • پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض – ساحر ماہی

    پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض – ساحر ماہی

    کچھ لوگوں کو بچپن میں ڈاکٹر بننے کا بہت شوق اور ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مفت علاج کرنے کا جذبہ ہوتا ہے. اگر یہ شوق و جذبہ نہ ہو تو لوگوں کو کیسے پتا چلے کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں.

    اور جب بفضل خدا ڈاکٹر بن جائیں تو پھر مریضوں کے سامنے ایسے بل پیش کرتے ہیں گویا کہ یہ ڈاکٹر زکوۃ، فطرانہ اور دیگر صدقات کے حقدار ہوں.
    پانچ روپے کی پنسل سے کاغذ پر ہزاروں روپیوں کا نسخہ لکھ کر مریضوں کو تھما دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض بلڈ پریشر اور قلبی امراض میں گھرجاتا ہے.
    بےچارہ دوائی تو بخار کی لینے گیا اور مسیحا سے دل کی بیماری کی سند یعنی کہ ڈاکٹر کی فیس کی پرچی ساتھ لے آیا.
    بچپن میں اماں شریفاں اپنی سب سے زیادہ محبوب بھینس کے دودھ کی لسی بنا کر اور دیسی گھی میں تلے پراٹھے اور ان پر مکھن رکھ کر اس کو لپیٹتی اور فیقے کے ہاتھ اسے ڈاکٹر کو بجھواتی کہ ہمارے گاؤں کا لڑکا ڈاکٹر بن جائے.
    لیکن افسوس اس وقت ہوا جب سات سال بعد فیقا اپنی اماں شریفاں کو لےکر اسی ڈاکٹر کے کلینک پر گیا اور مسیحائی کی درخواست کی لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ فیقے تم اماں کو گھر لے جاؤ، وہ ضعیف العمر ہوچکی ہیں.
    میرا وقت برباد کر نہ اپنے وقت کا ضیاع کرو.
    پتہ نہیں کتنی اماں شریفائیں اسی طرح رواداد سناتی نظر آتی ہیں.
    ڈاکٹر کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کہ مدد کرنے کا ہے.
    جی جناب!
    یہ ڈاکٹر مدد بھی کرتے ہیں لیکن اپنی برادری مطلب ڈاکٹروں کی.
    یہ اپنا انداز تحریر شروع ہی سے انداز واردات کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو کہ کسی کے پڑھنے کے بس کی بات نہیں.
    کیونکہ ان کا ”کوڈ آف واردات“ یہی پرچی ہوتی ہے جس پر تحریر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو جن کو میں آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے اور ان کو اتنے کا ٹیکہ لگانا ہے.
    پھر میڈیکل والا ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے اور اس مریض کو”گولی“ دے دیتا ہے.
    پھر بےچارہ مریض صبح و شام ڈاکٹر کی گولی کھاتا رہتا ہے.
    اور اتنا پاگل ہے کہ اب بھی اپنی اولاد کو کہتا ہے کہ بیٹا فلاں بندے نے ڈاکٹر بن کر گاؤں کا نام روشن کیا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ جسے دعائیں مانگ مانگ کر ڈاکٹر بنایا تھا. وہ واقعی میں ڈاکٹر بن گیا اور اس نے انسانیت اور مسیحائی کا فرقہ چھوڑ کر پیسے کو اپنا دھرم بنا لیا ہے.

  • یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز – عابد صدیق

    یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز – عابد صدیق

    عابد صدیق یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ 20 سے 25 سال پرانی ہے کہ اس خطے میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت کم تھے۔ کسی ہسپتال میں نرسنگ کا کام کر کے چند دوائیوں کے نام یاد کرلینے والے یا پھر کسی میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے شخص کو پیار سے ہی لیکن تقریباً سارے ہی محلے والے’’ ڈاکٹر صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔اس طرح کے معالج تقریبا ہر گاؤں میں ہوتے تھے، ان کا اپنا اپنا علاقہ ہوتا تھا۔ یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ گھر گھر جا کر علاج کرتے تھے، دوسرے کے علاقے میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی’’ ہم عصر‘‘ کے خلاف کوئی بات کرتے تھے۔ مخصوص سے مریض ان کے پینل پر ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس وقت بیماریوں کی دریافت بھی کوئی زیادہ نہ تھی اور نہ بیماریوں کی اتنی اقسام تھیں جتنی آج ہیں۔ بس’’ درد‘‘’’کالی ‘‘’’کلیجہ منہ کو آنا‘‘ اور’’ کلنج‘‘ جیسی چند ایک بیماریاں تھیں جن کے علاج کے لیے میڈیکل سٹور بھی ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کے بیگ میں ہی ہوتا تھا جو چمڑے سے تیار کیا گیا انتہائی دیدہ زیب ہوتاتھا۔یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ بیماریوں سے متعلق کم اور شجرہ نسب سے متعلق زیادہ جانتے تھے۔مریض کا علاج شروع کرنے سے قبل وہ دادا جی کا نام ضرور پوچھتے تھے اور ساتھ ہی ان کو لاحق بیماریوں کی جانکاری بھی لیتے تھے۔ بس یہی وہ ہسٹری ہوتی تھی جس کی بنیاد پر وہ خطرناک سے خطرناک مرض کو بھی بھگا دیتے تھے۔ جس گھر میں یہ عام طور پر انجکشن لگانے کے لیے جاتے تھے (سیرپ یاگولیاں دینے کا رواج کم تھا) وہاں کھانے پینے کا اہتمام بھی خاص طور پر کیا جاتا تھا، لیکن جو خاص بات مجھے اب تک یا دہے وہ یہ تھی کہ مذکورہ ڈاکٹر صاحب صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے، پچیس سال پہلے اس طرح کی اشیاء کم بلکہ نا پید ہوتی تھیں جو ایک ہی دفعہ استعمال کی جاتی ہوں، چنانچہ انجکشن لگانے والی ایک سرنج درجن بھر مریضوں کے لیے کافی ہوتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب مریض کا بہت خیال رکھتے تھے، سٹیل کے صاف برتن میں پانی ابالا جاتا تھا، پھر ساتھ سرنج کوبھی یوں ابالا جاتا تھا کہ جراثیموں کے خاندان میں سے بھی کوئی زندہ نہیں رہتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ہاتھ دو سے زائد مرتبہ صابن سے دھوتے تھے ، یوں نفاست میں اْن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جہاں تک انجکشن یا ٰ’’ لال سیرپ‘‘ سے مستفید ہونے کا تعلق ہے اس کا اثر آج کے دور سے قدرے زیادہ ہو تا تھا ، فیس بھی مناسب لیتے تھے۔گھر آکر علاج کرنے کا کوئی اضافی الانس نہیں ہوتا تھا۔

    اس ساری تمہید کا مقصد ’’پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنس‘‘ نامی طبی جریدے کی دو سال پہلے چھپنے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کرنا ہے جس میں بعض حیرت انگیز انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق طبی قواعد کے برعکس پاکستان میں عام ڈاکٹر جنہیں جنرل پریکٹینشز کہا جاتاہے، 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے۔78 فیصد مرض کی تشخیص کا ذکر نہیں کرتے جبکہ 58 فیصد نسخے اتنے بد خط ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، رپورٹ کے مطابق تحقیق کے دوران یہ بھی دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں ہوتا۔ یہ ریسرچ بظاہر پشاور کے 6ہسپتالوں پر کی گئی ہے لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک کے ساتھ جوڑا گیا ہے، رپورٹ میں بنگلہ دیش اور یمن جیسے ممالک کو پاکستان سے بہتر قرار دیا گیا ہے، اس تفصلی رپورٹ میں کئی اور ایسے انکشافات کیے گے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مریض علاج کے لیے نہیں بلکہ’’ موت کے حصول‘‘ کے لیے ہسپتال جاتاہے۔

    اس رپورٹ کے کیا حقائق ہیں یہ اپنی جگہ لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہم اس سے بھی بد تر حالات دیکھتے ہیں ، دوائیاں بنانے والی کمپنیاں غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت کیلئے رائج الوقت کئی طریقوں سے فائدہ اْٹھاتی ہیں، قیمتی تحائف اور زائد کمیشن کی ادائیگی اْن رائج الوقت کئی طریقوں میں سے بعض آزمودہ طریقے ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائی کے نام کے ساتھ اس کمپنی کا نام بھی نسخے کے ساتھ لکھا جاتاہے جس کمپنی نے اْسے تیار کیا ہوتاہے۔ ساتھ ہی مریض کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اس دوائی کے متبادل کوئی دوائی نہیں لینی ہے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ کسی ایک ڈاکٹر سے چیک کروا کر کے دوسرے کے پاس جائیں تو پہلے والی رپورٹ یکسر مستر کر دی جاتی ہیِ ، خاص کر آزاد کشمیر سے مریض جب پاکستان کے کسی شہر میں جا کر چک اپ کرواتا ہے تو اس کی پہلے والی تقریباً سب ہی رپورٹس کو یکسر مسترد کر دیا جاتاہے ، اب حکومت نے آزا دکشمیر میں سرکاری سطح پر تین میڈیکل کالج قائم کر دیئے ہیں، ان کالجز کے قیام سے قبل جو ڈاکٹر صاحبان پاکستان کے کسی میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوتے تھے وہ کم ازکم پاکستان کے کسی بڑے ہسپتال کی منظر کشی ضرور کر سکتے تھے ، کیونکہ انہیں اس سے واسطہ پڑچکا تھا ، لیکن ہمارے ان تین میڈیکل کالجز سے فارغ ہونے والے ڈاکٹر صاحبان وہ کام بھی نہ کرسکیں گے ، بات صرف طب کے شعبے کی ہی نہیں، زندگی کے کسی بھی شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو یوں لگتاہے کہ ہم دنیا میں بس ’’ایڈہاک ازم‘‘کی بنیاد پر آئے ہیں، روز مرّہ کی بنیاد پر واسطہ پڑنے والے ان حالات کے بعد بھی اپنے آپ کو زندہ دیکھ کر خاصی حد تک فخر محسوس کرنے کو دل چاہتاہے کہ ان حالات میں بھی ہم زندہ ہیں، ورنہ ہم درزی سے لے کر باربر تک کے خود ساختہ اصولوں اور مکینک سے لیکر دھوبی تک کے چکروں میں کتنا پہلے مر چکے ہوتے ، بس اس یقین کے ساتھ زندگی کی اس پٹڑی پر محوِ سفر ہیں کہ شایدآنے والا کل آج سے بہتر ہو لیکن امید کے سہارے کب تک زندہ رہیں گے؟

  • محسن – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    محسن – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ملک کے نامور سرجن نے پیٹ میں پھیلے ناسور کا آپریشن شروع کیا، روشن تھیٹر میں وقت کا اندازہ نہیں ہو رہاتھا، لیکن تھیٹر کے باہر کالی اماوس کی ڈراؤنی رات جوبن پر تھی۔
    کبھی کبھی کوئی الو بولتا یا کوئی گاڑی بیک فائر کرتی ہے تو دھماکے کی آواز سے ڈراؤنی رات مزید بھیانک لگنے لگتی ہے، گھروں میں دبکے لوگ بلند آواز میں آیۃ الکرسی کا ورد کر رہے ہیں۔
    ہر ایک اپنی سوچوں میں گم ہے۔ ہر ایک آنے والی صبح کے لیے پر امید ہے، لیکن سحر تھی کہ صدیوں کی مسافت پر کھڑی نظر آتی ہے۔ تھیٹر میں زندگی اور موت کا معرکہ سرگرم ہے۔ یہ عام مرض نہیں ہے، کینسر ہے جو پھیل چکا ہے، جس کی علامتیں اور اہم اعضاء میں بھی نظر آ رہے ہیں۔
    سرجیکل ٹیم مستعدی اور جانفشانی سے اپنی اپنی پوزیشن سنبھالے، سرجن صاحب کی ایک ایک جنبش کو نظر میں رکھے ہوئے ہے۔ سرجن صاحب اپنی تمام صلاحیت بروئےکار لاتے ہوئے اپنی پروفیشنل لائف کے سب سے بڑے اور مشکل ترین آپریشن سے نبرد آزما تھے۔
    سرجن صاحب اور ان کی ٹیم جانتی ہے کہ آپریشن اسی وقت کامیاب ہو گا جب:
    تشخیص بہترین ہو، جسم میں موجود مدافعتی نظام پوری طرح کام کر رہا ہو، جسم کو دیے جانے والے خون کو جسم قبول کرتا رہے، سب سے اہم نکتہ یہ کہ متاثرہ حصوں کو فورا نکالا جائے۔ ایک ٹیم لیڈر کی حیثیت سے سرجن صاحب کا کام، تمام معلومات کے مطابق ، پلان بنانا ہے، ڈسکس کرنا ہے اور سب کی رائے لینے کے بعد، فیصلہ کن آرڈر کرنا ہے۔
    مزید برآں سرجن صاحب اپنے آرڈر کے نتائج کے مطابق اپنے پلان کو تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔
    آپریشن بےحد طویل اور صبر آزما ثابت ہو رہا تھا۔ کینسر کے عفریت نے جسم کے گوشے گوشے میں اپنے خون آشام پنجےگاڑ رکھے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کئی صدیوں پر مشتمل لمبا عرصہ گزر گیا ہو۔
    دورانِ آپریشن وقتاً فوقتاً سرجن صاحب کوئی اوزار طلب کرتے یا کسی اسسٹنٹ کو کوئی ہدایت دیتے، جس کی فوری تعمیل کی جاتی۔ فرسٹ اور سیکنڈ اسسٹنٹ بھی اپنی ڈیوٹی جانفشانی سے نبھا رہے تھے۔ تمام حضرات اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے تھے، جیسے مشین کے پرزے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔
    خون بہت بہہ رہا تھا، لیکن جتنا خون بہہ جاتا تھا، مریض کے لیے اتنا ہی تازہ خون وفادار تیماردار فوراً مہیا کر رہے تھے۔ ہر تیمار دار کی کوشش اور خواہش ہے کہ ان کا عزیز سب سے پہلے اس کے خون کا عطیہ قبول کرے۔
    اینیستھیزیا اسپیشلسٹ بھی اپنے کام میں بہت ماہر ڈاکٹر ہے، وہ بھی مریض کی دھڑکنوں اور سانس کی آمد و رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے.
    کیا کاٹنا ہے؟ کیا نکالنا ہے؟ آغاز کیسے کرنا ہے اور اختتام کیسے ہوگا؟
    یہ تمام تفصیلات سرجن صاحب نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ آپریشن سے قبل ہی ایک میٹنگ میں طے کر لی تھیں۔ ایک اچھے لیڈر کی صفت یہی تو ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو اعتماد میں لے کر اپنے ساتھ چلائے۔ لیکن یہ جان بچانے کی جنگ آسان تو ہرگز نہیں اور یہ کھیل بھی نہیں۔ داؤ میں قیمتی ترین جان لگی ہوئی ہے۔ ایسی ہستی کی جان جس کے چاہنے والوں میں سے ہر ایک اپنی پسندیدہ ہستی کے لیے اپنی جان دینے کو تیار ہے۔
    کینسر اتنا پھیل چکا تھا کہ اس کو مکمل صاف کرنے کے لیے پورے جسم کو چھاننا ضروری ہے۔ ظاہر اور مخفی ہر گوشے میں چھپ کر بیٹھے ناسور سے اس جسم کو پاک کرنا تھا۔
    مریض بہت اہم ہے، اس سے وابستہ لوگ اس کی زندگی کے لیے پر امید بھی ہیں اور دعا گو بھی۔ جب بھی آپریٹو ٹیم کو خون یا ادویات کی ضرورت ہوتی، تھیٹر کا دروازہ کھلتا، ایک پرچی باہر آتی، محبت کرنے والے پرعزم عزیزوں میں سے کوئی جوشیلا جوان لپک کر آگے آتا اور اپنے خون کا عطیہ پیش کرتا۔ کوشش مکمل تھی، پوری ٹیم ایک پلیٹ فارم پر جمع تھی، رات اپنے پچھلے پہر سے گزر رہی ہے، سپیدہ سحر اب نمودار ہوا ہی چاہتا ہے۔
    راحیل.jpg مریض کے ورثا میں سے کچھ لوگ مضطرب تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں سرجن صاحب کے متعلق کچھ علم نہ تھا اور وہ سب آپریشن ڈے پر حاضری لگوانے کے لیے آئے تھے اور اب انتظار سے بور ہو کر اپنی جھنجھلاہٹ نکالنا چاہ رہے تھے۔ وہ پہلے ڈھکے چھپے’’اور کتنی دیر لگے گی؟‘ کا سوال دہراتے رہے اور کنفرم کرتے رہے کہ ’سرجن کو کام آتا بھی ہے نا‘ جب انہیں بتایا گیا کہ سرجن صاحب ایک مشہور و معروف سرجن گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ سرجری ان کی گھٹی میں پڑی ہے اور ان کی اپنی تمام عمر بھی اسی دشت کی سیاحی میں بسر ہوئی ہے، تو کچھ دیر کے لیے معترض حضرات خاموش ہوجاتے، لیکن کچھ ہی دیر بعد نسبتاً اونچی اور طنزیہ آواز میں احتجاج رجسٹر کروانے لگتے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سرجن صاحب کی کامیابی کا یقین انہیں مضطرب کیے ہوئے ہے، شاید یہ معترض حضرات مریض کی صحت سے زیادہ آپریشن کی ناکامی کے لیے دعاگو تھے۔
    آوازیں اونچی ہو رہی تھیں۔
    سرجن معمر ہے اسے تو اب ریٹائر ہو جانا چاہیے۔
    اس عمر میں اتنا لمبا آپریشن اسے نہیں کرنا چاہیے۔
    سرجن کو چاہیے کہ یہ کام کسی جونیئر تازہ دم سرجن کے سپرد کرے اور عہدے کے لالچ میں اس کرسی پر جما نہ رہے۔
    اتنی رات بیت چلی ہے ہمیں اب تک آپریشن کی کامیابی کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔
    کسی تازہ دم سرجن کو لگائیں تا کہ آپریشن جلد ختم ہو۔
    کسی نرس نے یہ باتیں سن لیں اور تھیٹر میں جا کر تھیٹر اسسٹنٹ سے کہہ بھی ڈالیں، جس نے یہی باتیں جا کر بے ہوشی والے ڈاکٹر کو بھی جا بتائیں، بےہوشی والے ڈاکٹر نے سرجن صاحب کی کیفیت کا جائزہ لیا، جوان حوصلہ، پرعزم تجربہ کار شیر اپنے کام میں جتا ہوا تھا۔ جو جذبہ ٹیم لیڈر کا تھا، وہی جذبہ ٹیم ممبرز میں بھی نظر آ رہا تھا۔ کتنے صدیوں پر مشتمل پہر گزر گئے تھے۔
    یہ آپریشن سرجن صاحب کے کیرئیر کا آخری آپریشن ہے۔ اصولا آپریشن کو ’سکن ٹو سکن ‘ اسے ہی مکمل کرنا ہے۔
    بلاشبہ سرجن کی ٹیم اپنے کام میں ماہر ہے۔ اس مریض کی مکمل کیس اسٹڈی اور مریض کی صحت کی ہر اونچ نیچ سے جس طرح سرجن صاحب واقف ہیں، اسی طرح ان کے قریبی اسسٹنٹس بھی واقف ہیں، ہر آپریشن ایک ٹیم ورک ہوتا ہے اور سرجن کی ٹیم پروفیشنل ازم کا استعارہ ہے۔
    کچھ بے صبر ورثاء نے جلدی جلدی کا شور مچا رکھا تھا، وہ بد اعتمادی کچھ بےصبرے ورثاء نے جلدی جلدی کا شور مچا رکھا تھا، وہ بد اعتمادی کا شکار تھے اور سرجن کی مہارت اور نیت پر مسلسل شک کا اظہار کر رہے تھے۔
    ان عزیزوں میں سے کوئی بھی مریض کی زندگی اور صحت کے لیے اتنا مخلص نہیں ہو سکتا، جتنا محاذ آپریشن پر زندگی کی جنگ لڑتا سرجن، کیونکہ یہ سرجن کی پروفیشنل ریپوٹیشن کا سوال بھی ہے اور ایک غیور انسان کی غیرت کا بھی کہ اس کا یہ آخری آپریشن ہر صورت کامیاب ہو۔
    سرجن صاحب نے تھیٹر میں ہونے والی چہ مگوئیاں بھانپ لی تھیں۔ صورتحال کا مکمل علم حاصل کر لینے کے بعد سرجن صاحب نے ایک پیغام باہر بھجوایا کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر آپریشن سے علیحدہ ہو جائیں گے ۔
    لیکن!
    اس لیکن سے وہی لوگ گزر سکتے ہیں جو صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایک آپریشن کے درمیان میں لیڈنگ سرجن کے ہٹ جانے اور دوسرے سرجن کے اسے replace کرنے میں ضایع ہونے والا وقت، نئے سرجن کے تمام صورتحال کو سمجھنے اور charge لینے کا وقفہ بسا اوقات مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
    سرجن صاحب کا یہ فیصلہ ان کی ذات پر اعتماد رکھنے والوں کے لیے دھچکا ضرور ہے لیکن درحقیقت یہ آپریشن صرف ایک انسان کا کام نہیں بلکہ اس کی ٹیم کی کامیابی ہی اس کی کامیابی ہے۔
    یہ آپریشن 25 کلومیٹر کی میراتھن نہیں کہ ایک ہی کھلاڑی تمام دوڑ مکمل کرے۔
    آپریشن کی کمانڈ، 800 میٹر ریلے ریس کی طرح ہوتی ہے۔ 800 میٹر کی دوڑ کے بعد اپنی دوڑ اگلے کھلاڑی کے سپرد کرنا ہی گیم کا اصول ہوتا ہے۔ بڑا سرجن اس وقت کے لیے تیار ہے اور اپنے جونئیرز کی صورت وہ ایسا بوٹا لگا چکا جو ان ہی کی صورت اپنے مریض کو امن و سلامتی والا سایہ بہم پہنچانے کے لیے تیار ہے، کھیل جاری رہےگا!
    کینسر کی ہار اور سرجن کی جیت تقدیر کے سنہری قلم سے لکھی جا چکی، ان شاء اللہ!

  • تیری مسیحائی کا سوال ہے – رضوان اسد خان

    تیری مسیحائی کا سوال ہے – رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان رالف ڈوبیلی نے اپنی کتاب میں سوچ کے مختلف سقم واضح کیے ہیں جو مغربی عوام کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی ہند و پاک معاشرے کی ذہنیت پر کتاب لکھے تو شاید کئی جلدیں بن جائیں۔

    آج ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہیں:
    ہماری عوام کا خیال ہے کہ ڈاکٹرز مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ پرائیویٹ کلینکس پر بڑی بڑی فیسیں بٹورتے ہیں۔ آپریشن کے بے تحاشا چارجز لیتے ہیں۔ ڈاکٹری کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ قصائی ہیں، ڈاکو ہیں وغیرہ وغیرہ۔

    پہلے تو میں کھلے دل سے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ہر شعبے کی طرح کالی بھیڑیں ہمارے پروفیشن میں بھی ہیں۔
    — سرکاری ہسپتال میں مریض کو صحیح طرح نہ دیکھنا اور اپنے کلینک ریفر کرنا/کروانا،
    — فارما کمپنیوں سے سازباز کر کے بےجا اور بلا ضرورت ادویہ لکھنا،
    — لیبارٹریز سے سازباز کر کے غیر ضروری ٹیسٹ کروانا،
    — ایمرجنسی کیس میں مریض کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ناجائز پیسے کمانا،
    — غیر ضروری طور پر، محض دولت کے لالچ میں، مریض کو مہنگے ہسپتالوں میں داخل رکھنا۔
    یہ سب بلا شبہ ”جرائم“ کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی بھی ذی شعور، خواہ وہ ڈاکٹڑ ہی کیوں نہ ہو ان سب قبیح امور کی حمایت نہیں کر سکتا۔

    اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب:
    یہ کہنا کہ ڈاکٹر پرائیویٹ کلینکس کھول کے بیٹھے ہیں اور وہاں ”انّھے وا“ (بے تحاشا) فیس لیتے ہیں، دراصل ”سوچ کا سقم“ ہے۔
    بھائی آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ایک ”پرائیویٹ کلینک“ ہے جو کہ ڈاکٹر کی ذاتی ملکیت ہے۔ یہاں وہ چاہے تو مفت دیکھے، چاہے تو 5 ہزار فیس لے۔ چاہے تو ایمرجنسی کیس دیکھے چاہے تو نہ دیکھے۔ چاہے تو ایک گھنٹہ بیٹھے، چاہے تو رات دو بجے تک بیٹھا رہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟

    آپ کو فیس زیادہ لگتی ہے؟ آپ وہاں نہ جائیں۔ کس نے مجبور کیا ہے؟ سرکاری ہسپتال میں چیک کروا لیں۔ لیکن اگر آپ وہاں کے مصائب برداشت نہیں کر سکتے تو سہولت کی قیمت ادا کریں۔ یہ تو دکان والا معاملہ ہے۔ چیز مہنگی لگتی ہے تو نہ خریدیں، کسی سستی دکان یا یوٹیلٹی سٹور سے خرید لیں۔ لیکن کبھی مہنگے برانڈز کے ریٹ ڈالر کی قیمت کے ساتھ ہی تبدیل ہونے پر کسی نے واویلا نہیں مچایا، ریستورانوں میں حالیہ ٹیکس سے نرخوں میں بےتحاشا اضافے پر کوئی نہیں بولا۔ لان والے سیل میں قیمت دگنی کر کے آدھی لگا دیں تو یہ لوگ ایسے اس پر ٹوٹتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لیکن گالیاں اگر کسی کو پڑتی ہیں، تو وہ ڈاکٹر ہی ہے۔

    لیکن خدارا اب سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر پہ نہ ڈال دیجیے گا۔ اس کے ذمہ دار وہ ہیں جن کو آپ ہر سال ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور حالت نہ سدھرنے کے باوجود بار بار منتخب کرتے ہیں۔ ووٹ دیتے وقت آپ کی ترجیح اور معیار اگر تھانے کچہری کے چکروں میں سہولت ہوتی ہے، تو بعد میں صحت کی سہولتوں کے فقدان کا رونا اول تو روئیں ہی ناں، اور اگر رونا ہی ہے تو ڈاکٹر بےچارے کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں جو خود اس نظام میں پستا چلا جا رہا ہے۔ جو خود بھی اگر سرکاری ملازم نہیں، تو صحت کی کوئی سہولت اس کے اور اس کے کنبے کے لیے فری نہیں۔

    کہتے ہیں ڈاکٹری کا پیشہ کیونکہ انسانی جان سے متعلق ہے اس لیے یہ زیادہ حساس اور ذمہ دارانہ رویے کا متقاضی ہے۔ تسلیم، لیکن ٹھہریے۔
    — کیا گھر کے قریب سے ہائی وولٹیج تاروں کا ننگی حالت میں گزرنا جان کے لیے خطرناک نہیں؟
    — کیا مین ہول کا ڈھکن غائب ہونا خطرناک نہیں؟
    — کیا گلی گلی کے کونے کونے پر کوڑے کے ڈھیر بیماریاں نہیں پھیلاتے؟
    — کیا ناقص پل بنانے والے پھولوں کے ہار کے مستحق ہیں یا جوتوں کے ہار کے؟
    لیکن ان سب”غافل“ سرکاری اداروں میں کام نہ ہونے پر رشوت کو اب ”جائز“ سمجھ لیا گیا ہے۔
    لیکن سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر سے مریضوں کے شدید رش، غیر انسانی ڈیوٹی آورز، خود ڈاکٹرز کے لیے کھانے پینے کی سہولیات کے فقدان کے باعث کوئی معمولی کوتاہی بھی ہو جائے تو میڈیا پر بریکنگ نیوز چل پڑتی ہے۔

    تو جناب ہر ملک میں پرائیویٹ علاج ایک قسم کی ”عیاشی“ (لگژری) ہی ہوتا ہے۔ مغرب میں پرائیویٹ ڈاکٹرز کی فیس سن کر یہاں والوں کی آنکھیں ڈیلوں سے باہر آ جائیں، پر وہاں کبھی ان کی عوام نے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ انہیں بنیادی اور ایمرجنسی سہولیات اعلیٰ معیار کے ساتھ سرکاری سیٹ اپ میں مل جاتی ہیں۔ آپ بھی صحت کی بہترین سہولیات چاہتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ پر یہ حق غلط جگہ نہ جتائیں۔ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنی غلطی دوسروں کے سر منڈھنا بھی سوچ کا ایک بہت بڑا سقم ہے۔

    اور چلتے چلتے ایک سقم اور بتاتا چلوں:
    ایک پیشے سے متعلق لوگوں کو اجتماعی طور پر برا بھلا کہنا اور پھر انہی سے علاج کروانا۔