Tag: مداری

  • مداری، ولن اور دھاندلی – حیدر علی شاہ

    مداری، ولن اور دھاندلی – حیدر علی شاہ

    وہاں ہفتہ کے دن میلہ ہوتا تھا، جس میں ضرورت کی تقریباً ہر چیز سستی قیمت پر ملتی تھی. میں اور عبدالسمیع کچھ خریدنے کم اور مداری کا ”شو“ دیکھنے زیادہ جاتے تھے. مداری لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ بلندوبانگ دعوی کرتا تھا اور ہم ہر ہفتہ ”دھوکہ“ کھانے پہنچ جاتے تھے. مداری کو جیسے ہی احساس ہو جاتا کہ مجمع کافی اکھٹا ہوگیا ہے تو وہ انڈر 10 کے بچوں کو بھگا دیتا تھا. اس وقت مداریوں میں بھی شرم و حیا تھی. اسے پتہ تھا کہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے کچھ ”بکواس“ بھی کرنا پڑے گی.

    مداری اس کے بعد مجمع کو مختلف سانپ اور بندر کی رقص دکھاتا تھا. وہ سانپوں کی لڑائی کا وعدہ کرکے بانسری بجانا شروع ہو جاتا. ہر دفعہ وہ بانسری بجاتے بجاتے کوئی ایسی حرکت کرتا کہ بانسری کی آواز خراب ہوجاتی اور ہمیں لگتا کہ بانسری بند ہو گئی ہے. مداری صاحب بانسری کو زمین پر دے مارتا اور اعلان کرتا کہ جس نے میری بانسری بند کی ہے باہر نکل آئے، پھر کہتا کہ اگر تھوڑی سی بھی غیرت ہے تو نکل آؤ لیکن کوئی بھی نہ نکلتا. مداری کہتا کہ اگر ماں کاخالص دودھ پیا ہے تو مقابلے کے لیے نکل آؤ. اور ہمیشہ یہ بات سن کر مداری کا ”اپنا بندہ“ مجمع سے نکل آتا اور مداری اور ولن کی زبانی جنگ چھڑ جاتی. آخر میں مداری اسے اپنے جادو سے ڈراتا اور کہتا کہ معافی مانگ ورنہ بھسم کر دوں گا اور ولن اس کا مذاق اڑاتا کہ تم میں اتنا دم ہوتا تو تم میلوں میں بندر اور سانپ کا رقص دکھاتے؟ میں تو آج تمہیں بانسری سمیت بند کرنے آیا ہوں. اس کے ساتھ ہی مداری کچھ پڑھ کر ولن پر پھونک مارتا اور ولن آنکھیں ٹیڑھی کرکے عجیب قسم کی حرکتیں کرتا، کبھی پیٹ پکڑتا، کبھی زمین پر بے ہوش ہو کر گرتا، پھر کسی بزرگ کے کہنے پر مداری دم پھونکتا اور ولن ٹھیک ہو جاتا اور یوں ظاہر کرتا کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟

    اس کے بعد مداری کے چیلنج پر ولن پھونک مارتا لیکن مداری سینہ تان کر لوگوں سے داد وصول کرتا اور ساتھ کہتا کہ یہ سب اس کے استاد کی محنت اور ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے. ولن ”دھاندلی“ کا شور مچاتا کہ اس کی جیب میں ضرور تعویذ ہے ورنہ میرا استاد تو جنوں کا بھی استاد گزرا ہے. مداری ولن کی کم علمی کا مذاق اڑاتا لیکن ولن کے ”پر زور اصرار“ اور اس وعدے پر کہ اگر مداری کی جیب سے تعویذ برآمد نہیں ہوا تو وہ تو معافی اور جرمانے سمیت مداری کو اپنا استاد مانے گا. مداری اپنی تلاشی دیتا اور اس کی جیب سے سورتوں کے حروف مقتطعات کی لسٹ کی درجنوں کاپیاں برآمد ہوتیں اور مداری مجمع میں اعلان کرتا کہ جو بھی اپنے گھر میں یہ لسٹ لگائے گا، ہر قسم کے جادو سے محفوظ رہے گا. یہ بھی کہتا کہ سانپ پکڑتے ہوئے بھی وہ لسٹ اس کی جیب میں ہوتی ہے اور یوں مجمع میں پوری لسٹ فروخت ہوجاتی. مداری کی حق حلال کی ”دہاڑی“ لگ جاتی.

    اس دوران ولن خاموشی سے مجمع میں گم ہو جاتا اور مداری بندر کو نچانے لگ جاتا، سانپوں کے لیے بانسری بجاتا اور اپنی بہادری کا کوئی قصہ بیان کرتا، مجمع کا شکریہ ادا کرتا اور آخر میں امت مسلمہ کے لیے رقت آمیز دعا مانگتا اور کہتا کہ ”اس مجمع میں جتنے لوگوں کے پاس ایک دو یا پانچ روپے اس کی ضرورت سے زیادہ ہیں اور وہ مداری کو نہ دے تو اللہ اس کے پیٹ میں درد کر دے، اگر شادی نہیں ہوئی تو اور لیٹ کرا دے اور اگر ہوئی ہے تو بیوی کے ہاتھوں پٹوا دے. آمین“ لوگوں کو احساس ہوتا کہ سنگین غلطی ہوگئی ہے، اور پھر مداری پر ایک دو روپوں کی ہلکی سی بارش ہوجاتی۔

    مجھے یہاں آکر احساس ہوا کہ مداری اور ولن کے ڈرامہ اور حکومت و جمہوریت میں کچھ خاص فرق نہیں ہے. جمہوریت ایک دھوکہ ہے، حکومت وقت مداری ہے، سانپوں کی لڑائی کا وعدہ اور حکومت کا وعدہ ایک جیسا ہے. تعویذ اور انتخابات سے خیر کی امید لگانا ایک جیسا ہے. ولن فرینڈلی اپوزیشن ہے، مداری کی دعا مذہبی جماعتیں ہیں، اور یہ سب ”مل“ کر ”مجمع“ کی خدمت کر رہے ہیں.

  • ڈرامے باز مداری – عامر خاکوانی

    ڈرامے باز مداری – عامر خاکوانی

    جعلی ڈگری والے عامر لیاقت حسین کے بارے میں اس اخبارنویس کی رائے بہت ہی منفی ہے۔ میرے نزدیک یہ شخص دین کا مذاق اڑانے والا، رمضان کا تماشا بنانے، بدترین ڈرامہ بازیوں کے ذریعے ریٹنگ لینے والا ایک نہایت فضول انسان ہے، حماقت جس کے چہرے سے برستی، جہالت لبوں سے ابلتی اور کمینگی و شیطنیت اس کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے بدترین شخص کے پروگرام کو ریٹنگ مل جاتی ہے۔ اس سال 12 ربیع الاول کے موقع پر بدقسمتی سے چند منٹ کے لیے مجھے اس کی جیو ٹی وی پر ٹرانسمیشن دیکھنے کا موقع ملا تو بیٹھا دوبھر ہوگیا۔ اس کی حرکتیں اس قدر افسوسناک، گھٹیا اور بازاری تھیں کہ خون کھولنا شروع ہوگیا۔

    میں سمجھتا تھا کہ یہ شخص جسے دنیا عامرلیاقت کہتی ہے، اپنے بدترین لمحات تک پہنچ چکا ہے، شر اس کے انگ انگ میں بھرا ہے، جسے بیچ کر یہ کروڑوں کماتا ہے، مگر نہیں میں غلطی پر تھا، کمینگی، گھٹیا پن اور بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ تحث الثریٰ سے بھی نیچے کی بعض منزلیں ایسے لوگوں کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ آج جنگ میں اس نے کالم لکھا. ایسا شرمناک، فضول اور گھٹیا کالم کہ مجھے افسوس ہوا، اسے جنگ اخبار نے چھاپا۔ جنگ پر تنقید کی جا سکتی ہے کئی حوالوں سے، مگر بہرحال اس قسم کے شرمناک کالم کبھی یہاں شائع نہیں ہوئے تھے۔ افسوس صد افسوس۔

    اور یہ کالم اس نے بزرگ کالم نویس ہارون الرشید کے خلاف لکھا۔ ہارون صاحب کی تحریروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر تنقید کی بھی گنجائش ہے، اس خاکسار نے کئی بار ان سے اختلاف کیا اور ان کے سامنے کیا۔ وہ ایک انسان ہیں، خامیاں جس میں موجود ہونا فطری امر ہے۔ لیکن بہرحال ہارون الرشید صاحب کا کالم نگاری میں ایک بہت معتبر نام ہے۔ ان کا سحرانگیز اسلوب آج بھی ہزاروں لاکھوں کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ کالموں میں قرآن وحدیث کے حوالے دینا، صوفیا کے اقوال دینا شروع کیے، اس وقت جب ایسا کرنا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ہارون صاحب ٹی وی اینکرز میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں، بے لاگ، تیز اور کھری کھری گفتگو سنانے میں ان کا ثانی نہیں۔ اتفاق سے کل میں نے وہ پروگرام خود دیکھا جس میں یہ مجسم شر عامر لیاقت اور ہارون الرشید صاحب موجود تھے۔ ہارون صاحب کا جرم یہی ہے کہ انھوں نے ایم کیوایم جیسی بدمعاش اور فسطائیت کی علمبردار قاتل جماعت پر تنقید کی اور صاف صاف کہہ ڈالا کہ ایم کیو ایم نے میڈیا کو ہائی جیک کر رکھا تھا، اس کے خلاف ایک لفظ کوئی نہیں چھاپ سکتا تھا، اس کی بدمعاشی، ظلم اور فسطائیت کی وجہ سے۔ اس پر عامر لیاقت الجھ پڑا۔ ہارون صاحب نے اس پر کوئی غیر شائستہ جملہ نہیں کہا اور صرف اتنا کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اینکر نے اس پر بریک لی اور پھر بریک کے بعد عامر لیاقت نے کہا کہ میں ہارون صاحب کا احترام کرتا ہوں، وہ سینئر کالم نگار ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
    یہ شخص ہارون الرشید کا جس قدر احترام کرتا ہے اور منافقت سے لبریز جملہ اس نے جس طرح ادا کیا، اس کی سچائی آج کے جنگ میں اس کا کالم پڑھ کر معلوم کی جا سکتی ہے۔ کالم اس قدر گھٹیا ہے کہ پوسٹ کے ساتھ اسے لگانا بھی مجھے ناگوار لگ رہا ہے۔ صرف عنوان لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔’’دنیا کا ایک بوڑھا کیڑا‘‘

    اپنے قارئین اور دوستوں سے ایک معذرت کہ میں نے خلاف معمول سخت زبان لکھی اور اس بدبخت عامر لیاقت کا نام بھی کھردرے الفاظ میں لکھا، مگر یہ میرے ضبط کی انتہا ہے، ورنہ اس کا جواب قابل اشاعت زبان میں دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا، اس کا کالم پڑھ کر.