Tag: محبت

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
    مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
    دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
    آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
    یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
    سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
    میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
    آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
    ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
    تم کیا چاہتے ہو ولی؟
    ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
    ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
    وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
    ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
    ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
    سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
    میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
    میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
    ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
    مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
    ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
    کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
    تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
    تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
    میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
    ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
    الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
    میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
    یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
    کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
    شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
    واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
    آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
    بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
    میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
    سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
    سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
    ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
    چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
    آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
    لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
    لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
    میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
    کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
    الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
    میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
    یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
    اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
    اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
    ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
    میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
    ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
    ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
    لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
    شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
    کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
    تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
    یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
    معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
    ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
    میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
    میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
    میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
    یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
    انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
    آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
    الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
    ہمیں بتائیے؟؟
    بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
    بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
    میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
    الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
    ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
    رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
    بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
    جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
    لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
    اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
    اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
    میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
    دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
    میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
    میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
    میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
    ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
    یہی ہے وہ شخص؟
    میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
    باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
    میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
    دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
    ہیلو، میں بمشکل بولا۔
    الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
    اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
    رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
    اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
    جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
    جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
    السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
    جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
    مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
    میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
    الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
    میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
    آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
    اللہ حافظ
    ختم شد

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    میں کچھ دیر حیرت کی شدت سے کچھ بول ہی نہیں پایا اور سکتے کی کیفیت میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو تکتا رہا۔ جو اب اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنے پر پھنسائے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار ان پر بہت ترس آیا۔ میں اپنے بارے میں قطعاً کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھا، ایک معمولی پس منظر کا معمولی جاہل انسان۔ جس کے پاس تعلیم، خاندان، شکل و صورت کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے مقابلے میں بیگم صاحبہ کے پاس سب کچھ تھا۔ میں انھیں کسی بھی لحاظ سے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ ان کے لائق تو کوئی ان جیسا خاندانی، اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت انسان ہونا چاہیے۔ کوئی آرمی کا کرنل، پائلٹ، ڈاکٹر یا پھر کوئی اعلی سرکاری افسر۔ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کے عشق میں کوئی بھی مرد گرفتار ہو سکتا تھا۔ میرے دل میں موجود ان کے لیے محبت اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ میں فورا انکار کر دوں اور کہوں کہ میری جان بچانے کی یہ قیمت بہت بڑی ہے اور آپ میری جان بچانے کے چکر میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ میں آپ کی زندگی کو اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا وہ بہت غیر معمولی ہے لیکن اب میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں یہیں سے پنجاب لوٹ جاتا ہوں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ آپ بھی اس قصے کو یہیں ختم کر دیجیے۔ حارث نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، میں آپ کے صدقے اسے معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

    میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ میرا نکاح میری خالہ زاد کے ساتھ لڑکپن میں ہی کر دیا گیا تھا اور وہ گھر بیٹھے میری راہ تک رہی ہے۔ اگلے سال مارچ اپریل تک ہماری شادی ہے لیکن میں ان باتوں میں سے انھیں کچھ بھی نہیں بتا پایا۔ ایک عجیب سے کمینگی اور خودغرضی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاید میری رگوں میں دوڑتا معمولی خون اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ میری عقل مجھے سمھا رہی تھی کہ بے وقوف، جس کے تو دن رات سپنے دیکھتا رہا ہے، وہ تجھے مل رہی ہے، تجھے اور کیا چاہیے؟ زندگی میں ایسے مواقع روز روز اور ہر کسی کو نہیں ملتے۔ ایک معمولی نوجوان سے ایک امیر کبیر پری کی شادی، ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے یا پھر رومانی رسالوں میں، اور تیری منکوحہ شمسہ کا کیا ہے، نہ شکل و صورت اور نہ رنگ روپ۔ تین مرلے کے کچے مکان اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک معمولی لڑکی جس کے جسم سے ہر وقت ایک ناگوار سی بُو اٹھتی ہے۔ یہاں سے لوٹو گے تو ساری عمر غربت کی چکی میں پستے ہوئے گزارنی پڑے گی۔
    چلیں؟
    بیگم صاحبہ نے شاید میری خاموشی سے تنگ آ کر کار کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
    کار میں بیٹھ کر میں نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھے بنا کہا،
    میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
    تو ساحل میں سمندروں کی ہوا
    چھوٹی بیگم صاحبہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
    ہمیں تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

    میں نے بہت محتاط لفظوں میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنے بچپن اور ماضی کے بارے میں تفصیلاً بتایا لیکن اپنے نکاح کی بات گول کر گیا۔ ہمت کر کے میں نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ میں چپکے چپکے ان پر کتنا مرتا رہا ہوں اور دن رات ان کے سپنے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انھیں اپنے اور ان کے متوقع نکاح کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیم دلانہ سی کوشش کی۔ میں انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے دلائل تو دے رہا تھا لیکن دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ قائل ہی نہ ہو جائیں اور نہ ہی میں انھیں کوئی ایسی دلیل دینا چاہتا تھا کہ جس سے وہ قائل ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری ساری باتیں بہت غور و تحمل سے سنیں۔
    اوکے ! لیٹس میک اِٹ سِمپل۔
    ہم نے آپ کی ساری گفتگو سے جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ کہ آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں اور ہم سے شادی بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو صرف دو باتوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمارے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا آپ ڈر رہے ہیں کہ ہماری شادی کے بعد ہمیں خاندان و سماج کی بہت ساری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم آئی رائٹ؟؟
    جی بیگم صاحبہ ! میں نے تائید کی۔
    آئی جسٹ ڈونٹ کیئر! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا میں کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا الیاس؟
    کار رک چکی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ دل و جان سے میری طرف متوجہ تھیں۔ میں سرشاری کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔
    الیاس ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سے اقرار کرنے کے بعد آپ کے لیے واپسی کے سارے رستے بند ہو جائیں گے۔ آپ پر ہماری فیملی، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی فیملی کا بھی شدید دباؤ آئے۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈرایا جائے یا لالچ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم دونوں قتل کر دیے جائیں۔ آپ نے جو کچھ سوچنا ہے، ابھی سوچ لیجیے. بعد میں پچھتانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
    بیگم صاحبہ کے چہرے پر بے پناہ سختی اور ان کی روایتی بے نیازی نمودار ہو چکی تھی۔
    میں مر جاؤں گا لیکن اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے ہاتھ تو کاٹے جا سکتے مگر آپ کے ہاتھ سے چھڑوائے نہیں جا سکتے۔ میں نے بے اختیار چھوٹی بیگم صاحبہ کا ہاتھ تھام لیا۔

    ولی خان نے گھر جا کر سیٹھ صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سیٹھ صاحب کی چھوٹی بیگم صاحبہ کو دو دفعہ کال آ چکی تھی لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔ کراچی پہنچ کر ہم سیدھے کورٹ چلے گئے۔ جہاں ایک وکیل نے پارکنگ میں ہمارا استقبال کیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا لیکن مستقبل کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ حسب معمول پرسکون و پراعتماد تھیں۔ دوپہر تک ہم ساری کاغذی کاروائی مکمل کر کے باقاعدہ ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو گھر جلدی جانا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ وقتی طور پر اپنے کزن کے گھر چلا جاؤں لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نہیں مانیں۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے بنگلے پہنچیں۔ میں اپنے کواٹر میں چلا گیا اور چھوٹی بیگم صاحبہ سیٹھ صاحب کے پاس چلی گئیں جو ان کے انتظار میں آج آفس نہیں گئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے میری مرہم پٹی حیدرآباد سے ہی کروا دی تھی۔ میں درد کش گولیاں کھا کر لیٹ گیا۔

    ساری رات کی ہلچل اور رت جگے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا لیکن میری توجہ دروازے پر ہی مرکوز رہی۔ کبھی لگتا کہ ابھی دھماکے سے دروازہ کھلے گا اور سیٹھ صاحب یا ولی خان مجھے گولیوں سے سے بھون دیں گے۔ پھر سیٹھ صاحب کی بردباری اور بیگم صاحبہ کے لیے ان کی محبت دیکھ کر دل کو تھوڑی ڈھارس بندھتی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میرے کوارٹر کے دروازے پر ایک نفیس سے دستک ہوئی۔
    میرا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ ہیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور چھوٹی بیگم صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ وہ پہلی دفعہ میرے کمرے میں آئی تھیں، اس لیے کافی دلچسپی سے اردگرد کا معائنہ کر رہی تھیں۔ میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
    آپ کی بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی ہے؟؟ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا بتایا ہے؟؟
    میں نے بے چینی سے پوچھا۔
    ہاں ! ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے اور ہم پر بہت غصہ بھی ہوئے، مگر ہم بھی ہم ہیں، جب ہم بھی غصے میں آ گئے تو انھیں نارمل ہونا پڑا۔ کیا کریں بے چارے، وہ ہم سے محبت جو اتنی کرتے ہیں۔ ان کی جان ہمارے اندر ہے، ہمیں پتہ تھا کہ وہ مان جائیں گے۔ ابھی وہ آپ کو بلا رہے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بڑے شوخ و چنچل انداز میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک رات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھیں مگر پھر بھی فریش اور کھلی کھلی لگ رہیں تھیں۔

    میں ان کی راہنمائی میں چلتا ہوا بنگلے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ اس سے بیشتر میں اس حصے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ بنگلے کی شان و شوکت مجھے مرعوب کر رہی تھی۔ ایک شاندار کمرے میں سیٹھ صاحب ٹہل رہے تھے۔ سفید ریشم کی شلوار قمیض میں ان کی شخصیت مجھے ہمیشہ سے زیادہ بارعب و پرقار لگی۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چھوٹی بیگم صاحب کو تشریف لے جانے کا کہا۔
    ہم تو کہیں نہیں جا رہے، یہیں بیٹھے ہیں۔ آپ کو جو بات کرنی ہے ہمارے سامنے ہی کیجیے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے میرے قریب ہی ایک صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔
    سیٹھ صاحب کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
    بےبی، سٹاپ اِٹ ! اتنی بڑی حماقت کے بعد تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں اور شوخی زہر لگ رہی ہیں مجھے، جاؤ یہاں سے۔ جب میں نے ایک دفعہ تم سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور الیاس کی زندگی محفوظ رہے گی تو پھر تمہیں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمہارے بابا کی زبان ہے۔
    بےبی عرف چھوٹی بیگم صاحبہ پر اس تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنے چہرے کو ہاتھوں پر ٹکا رکھا تھا۔ سیٹھ ٓصاحب کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹھنک کر بولیں،
    تو بابا ہم نے کب کہا ہے کہ ہمیں آپ کی بات یا زبان پر ڈاؤٹ ہے۔ ہم تو بس الیاس کی مورل سپورٹ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، دیکھیں نا کتنے گھبرائے ہوئے ہیں بیچارے۔ ہم بھی اٹھ کر چلے گئے تو خاک بات کر پائیں گے آپ سے۔ بابا ہم پرامس کرتے ہیں کہ آپ دونوں کی کنورسیشن میں بالکل نہیں بولیں گے۔
    سیٹھ صاحب بے بسی سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئے۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور ایک طویل کش لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پرسوچ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔

    الیاس ! ہمیں بہت افسوس ہے تم پر۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کرو گے۔ ہم نے ہمیشہ تمھیں اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی۔ اپنی سب سے قیمتی چیز ہماری بیٹی کے لیے تم پر اعتماد کیا، میرے احسانات کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟
    چلو بےبی تو بچی ہے مگر تم تو میچور مرد ہو۔ بجائے اسے سمجھانے کے تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شادی کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟؟
    بابا ۔۔۔۔! چھوٹی بیگم صاحبہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
    شٹ اپ ، آئی سے جسٹ شٹ اپ ! سیٹھ صاحب بھڑک اٹھے۔
    کم از کم اپنے الفاظ اور اپنی زبان کا پاس کرنا سیکھ لو کہ تم پر کوئی اندھا اعتماد کرے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ سیٹھ صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی اور کاٹ تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھبرا کے اپنے منہ کے سامنے کشن رکھ لیا۔
    سیٹھ صاحب انھیں کچھ دیر گھورتے رہے۔۔ اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اب دوبارہ تمہاری آواز نہ آئے۔۔
    تھوڑا سا پانی پینے اور سگار کے ایک دو کش لینے کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔
    دیکھو الیاس ! تم نے ہمارا رہن سہن اور ہماری کلاس دیکھ رکھی ہے۔ بےبی کا بچپن برطانیہ میں گزرا ہے۔ میں نے ساری زندگی اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس نے شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری ہے۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ تم اسے کہاں رکھو گے؟ اور اس کی شاہانہ ضروریات کیسے پوری کرو گے؟ میں تمہاری انسلٹ نہیں کر رہا لیکن تم خود غیر جانبداری سے مجھے جواب دو کہ کیا تم اور بےبی کسی بھی طور پر میاں بیوی لگتے ہو؟ اپنی تعلیم، شکل و صورت اور سٹیٹس دیکھ کر کیا تمھیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کر دی ہے ہمارے ساتھ۔
    سیٹھ صاحب کے لہجے میں تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اور میں شرم سے زمین میں گڑ رہا تھا۔
    الیاس ! بےبی بہت رحمدل اور حساس بچی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میرے بھتیجے نے بہت زیادتی کی ہے اور اِس پاگل نے اپنے کزن کے ظلم کی تلافی کے لیے خود کو تمھارے نکاح میں دے دیا ہے۔ اور تم نے بھی خوب بدلہ لیا ہے ہم سے۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو الیاس۔۔۔! جس طرح بےبی نے آدھی رات کو جا کر تمھیں ریسکیو کیا اور تمہاری مرہم پٹی کروائی، کون کرتا ہے اپنے ملازموں کے لیے اتنا؟ اور اس کے بعد تم لوگوں نے کورٹ میں جا کر نکاح والا تماشا کیا ہے۔ کوئی بھی دوسرا صاحب حیثیت گھر ہوتا تو تمہاری لاش اس وقت کچرے پر پڑی ہوتی۔۔!
    بڑے صاحب، میں۔۔۔۔۔!
    میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مجھے بولنے سے روک دیا۔ سگار کا کش لگا کر انھوں نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔
    اب میں کس منہ سے حارث کی سرزنش کروں۔ تم لوگوں نے تو اس کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اگر حارث کو پتہ چلا کہ تم نے بےبی سے نکاح کر لیا ہے تو وہ زندہ چھوڑے گا تمھیں؟
    جواب دو!
    سیٹھ صاحب نہایت غضب ناک ہو چکے تھے۔ میں چپ چاپ سر جھکائے پیر کے ناخن سے قالین کھرچتا رہا۔
    میں نے بےبی سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارا نکاح برقرار رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے میری کچھ شرائط ہیں۔
    میں نے سر اٹھا کر سیٹھ صاحب کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں قیامت کی سنجیدگی اور سختی تھی۔
    کمرے میں کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔

    کیسی شرائط بابا؟ چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں کچھ پریشانی جھلک رہی تھی۔
    بے فکر رہو بیٹا! میری شرائط کچھ ایسی ناجائز نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ میرے کچھ تحفظات ہیں۔ انھیں دور کیے بنا میں تمہیں الیاس سے نہیں بیاہ سکتا۔ بطور باپ یہ میرا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ میں آپ کے فیوچر کو سیکیور و پرعزت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کروں۔ سیٹھ صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
    بڑے صاحب! چھوٹی بیگم صاحبہ سے خلع کی شرائط کے علاوہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔
    مجھے تم سے ایسی ہی تابعداری کی امید تھی۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مناسب وقت آنے تک تم دونوں اس نکاح کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔ کسی سے بھی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو میں الیاس کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
    میں پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے گا لیکن بڑے صاحب کا موڈ دیکھ کر محض صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
    میری دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم دونوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم دونوں علیحدگی میں نہیں ملو گے۔ نو باڈی ریلیشن شپ، ناٹ ایٹ آل ! اگر ایسا کچھ ہوا تو الیاس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔ بےشک قانونی طور پر تم لوگ میاں بیوی بن چکے ہو لیکن شرعا والی ایسا نکاح منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جو بالکل بےجوڑ اور ہتک آمیز ہو، میں صحیح غلط کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ بس تم میری اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لو کہ جب تک تم لوگوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم میری بیٹی سے دور رہو گے۔
    بڑے صاحب کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مجھے بے اختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو صوفے پر ٹانگیں فولڈ کیے گود میں پڑے کشن کے ریشمی غلاف کے دھاگے کھینچ رہی تھیں۔
    مجھے منظور ہے۔۔ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔
    میری تیسری شرط یہ ہے الیاس کہ تمھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمارے سوسائٹی کے قابل بناؤ، ہمارا انداز و اطور اور رہن سہن اپناؤ۔! تم جو بھی بزنس کرنا چاہتے ہو کرو، تمھیں سرمایہ میں فراہم کروں گا۔ میں تمہیں ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اپنی تعلیم مکمل کرو، تب تک بےبی کی ڈگری بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر میں تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے تمہیں خود کو بےبی کا اہل ثابت کرنا ہے۔
    جی! بڑے صاحب میں پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر جواب دینے سے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا، حسب سابق اسی شغل میں مشغول تھیں۔
    صرف کوشش نہیں کرنی۔۔! تمیں کامیاب ہونا ہے۔۔! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر تم واقعی بےبی سے محبت کرتے ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ کسی بزنس کا تجربہ ہے تمہیں؟؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟
    یہ سوال میرے لیے کافی غیر متوقع تھا ۔
    میں نے اس بارے میں کچھ سوچا نہیں بڑے صاحب۔۔! مجھے کسی قسم کے بزنس کا تجربہ نہیں ہے۔
    ھووووں۔۔! سیٹھ صاحب نے ایک ہنکارا بھر کر سگار کر کش لیا۔
    ہماری ایک کنسٹرکشن کمپنی ابوظہبی میں بھی ہے۔ کیوں نہ تمہیں وہاں بھیج دیا جائے؟ یوں تم حارث کی نظروں سے بھی دور رہو گے اور کام بھی سیکھ جاؤ گے۔ اگر تم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو کچھ عجب نہیں کہ میں وہ کمپنی تمہیں شادی کے تحفے میں دے دوں۔
    میں نے چونک کر بڑے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کنفیوژ ہو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا تو انھوں نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
    ٹھیک ہے بڑے صاحب ! جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ میری اندرونی خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ آئیں۔
    اور میری ایک آخری شرط بھی ہے جسے تم میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہو۔
    حارث کو معاف کر دو۔۔! حارث ایک جذباتی ٹین ایج بچہ ہے۔ وہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ کبھی اس سے بدلہ لینے کا خیال دل میں مت لان ا۔۔ اسی میں تمہاری اور سب کی بہتری ہے۔
    بڑے صاحب! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں حارث صاحب کو پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔
    چلو ٹھیک ہے۔ بےبی آج رات ہی لندن اپنی نانی اور ماموں کے گھر دو تین ہفتے کے لیے جا رہی ہے۔ اس کا پروگرام تو کچھ دن بعد کا تھا لیکن میں نے اس کی آج رات کی ہی ٹکٹ کروا دی ہے۔ تم بھی اپنا سامان پیک کر کے میرے کلفٹن والے فلیٹ میں چلے جاؤ۔ اب تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کل تمہارے پاس میرا ایک شخص آئے گا جو تمہارا ارجنٹ پاسپورٹ بنوا دے گا۔ تم اگلے دس دن میں ان شاءاللہ ابوظہبی میں ہوگے۔ بڑے صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
    بےبی تمہیں میرے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟
    بابا! ہم پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں اور گلٹی فیل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ہماری اور الیاس کی بہتری کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
    اپنے کوارٹر میں آ کر میں نے اپنا سامان پیک کیا مگر روانہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے رات دس بجے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ میں انھیں آخری بار دیکھنا چاہتا تھا کہ نہ جانے اب کب ملاقات ہو۔

    دس بجے بنگلے کے پورچ میں سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز آ کر رکی۔ کالی شلوار قمیض کے نیچے جوگرز پہنے اور اپنی رائفل گلے میں لٹکائے ولی خان بھی آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب بنگلے کے اندرونی حصے سے باہر آئے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھٹنوں تک سفید رنگ کی بڑی خوبصورت فراک پہن رکھی تھی جبکہ دونوں بازو چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی انھیں اتنے اہتمام سے میک اپ کیے اور تیار ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
    شاید یہ تیاری میرے لیے تھی۔ میرا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ میں اندھیرے میں کوارٹر کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔ انھوں نے کار میں بیٹھنے سے پہلے میرے کوارٹر کی طرف دیکھ کر شرما کر ہاتھ ہلایا۔ جانے انھیں کیسے معلوم پڑ گیا کہ میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں۔۔
    ولی خان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑے صاحب اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کار روانہ ہو گئی۔
    اس کے چند منٹ بعد ہی میں بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے، گیٹ پر کھڑے گارڈز سے سلام دعا کرتے ہوئے بنگلے سے نکل آیا۔ رکشہ لینے کے لیے مجھے کچھ دور تک پیدل چلنا پڑا۔ سیٹھ صاحب نے پچاس ہزار سے بھی زائد رقم میری جیب میں ڈال دی تھی۔ میں رکشہ میں بیٹھا سیٹھ صاحب کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ سیٹھ صاحب نے بظاہر بڑی ہوشیاری سے مجھے چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور ہٹا دیا تھا۔ انھیں یقیناً مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار و اعتماد نہیں رہا تھا۔ اس لیے نہ صرف انھوں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو لندن بھیج دیا تھا بلکہ ان کی واپسی سے پہلے مجھے ابوظبہی روانہ کرنے کے انتظامات بھی کر دیے تھے۔ انھوں نے یہ سب انتہائی غیر محسوس انداز میں کیا تھا۔ میں جتنا بڑے صاحب کی معاملہ فہمی اور فراست کا قائل ہوتا جا رہا تھا، اتنا ہی ان سے مزید خوفزدہ اور مرعوب ہوتا جا رہا تھا۔

    کلفٹن کا فلیٹ بہت شاندار تھا۔ اگلے کچھ دن میں میرا پاسپورٹ اور ابوظہبی کا ویزہ بھی آ گیا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دو تین بار چند منٹ کے لیے بات ہوئی مگر میں ان کو اپنے خدشات سے آگاہ نہ کر پایا۔ وہ اپنے بابا سے کافی خوش تھیں اور ہم دونوں کے مستقبل کے لیے کافی پرجوش بھی۔
    ابوظہبی کے لیے میری فلیٹ رات دو بجے کی تھی۔ میں رات دس بجے کے قریب تیاری مکمل کر کے فلیٹ سے نکلنے ہی والا تھا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے ولی خان کو دیکھا۔ یہ فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی چند کھڑکیاں سڑک والی سائیڈ پر بھی کھلتی تھیں۔ ولی خان لیدر کی جیکٹ اور جینز میں ملبوس ایک سپورٹس بائیک پر سوار تھا جو بڑے صاحب نے اسے لے کر دی تھی۔ بڑے صاحب واقعی اپنی ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
    میں نے کمرے کی لائٹ کو بند کیا اور پردے کے پیچھے سے ولی خان کو دیکھنے لگا۔ آج خلاف معمول اس کے گلے میں رائفل نہیں جھول رہی تھی مگر قابل تشویش بات یہی تھی کہ وہ میرے فلیٹ کی طرف ہی متوجہ تھا۔ پھر وہ اپنی مخصوص چال چلتا بلڈنگ کے گیٹ کی طرف آیا۔
    کچھ دیر بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ولی خان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا اور اس کا چہرہ ہر وقت بخار سے تپا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اور گالوں پر داڑھی
    کے چند لمبے بال تھے۔
    ام چھوٹا سا تھا جب امارا والد صاب، بڑے صاب پر قربان ہو گیا۔ ماں تو پہلے ہی گزر گیا تھا۔ امارے والد کی لاش خون میں لت پت بنگلے کے صحن میں چارپائی پر پڑا تھا۔ جب بڑے صاب نے امارے سر پر ہاتھ رکھ کر بولاولی فکر نہ کرنا۔ اب ام تمہارا باپ ہے۔ پھر بڑے صاب نے امارا باپ ای نہیں ، ماں بن کر بھی پالا۔ ہمیں اچھے سکول پڑھایا۔ تمہیں اماری شکل دیکھ کر یقین نہیں آئے گا مگر ام کراچی کے سب سے مہنگے کالج کا گریجویٹ ہے۔ دنیا کے چھ زبانیں پَھر پَھر بولتا اے۔ بڑے صاب نے امارا ہر خواہش کا احترام کیا اور اسے پورا کیا۔ تم مانو گے نہیں کہ اس وقت امارے اکاوئنٹ میں جتنا پیسہ ہے، اور شہر میں ہمارے نام پر جتنی جائیدار ہے وہ چھوٹے صاحبوں کے نام پر بھی نہیں ہے۔ بڑا صاب امارا صرف مالک ہی نہیں بلکہ باپ بھی ہے اور اس وقت امارا باپ تم جیسی گندی نسل کی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہے۔ بڑے صاب کا ٹینشن ام نہیں دیکھ سکتا۔ خدایا پاک کی قسم ! امارا بس چلے تو تمیں قتل کر کے تمہارے ٹکڑے کر دے۔ حیدر آباد کا ایس ایچ اور سچا تھا۔ تم واقعی نمک حرام ہو۔ جس ٹہنی کا پھل کھاتا ہے اسی کی جڑیں کاٹتا ہے۔
    ولی خان غصے سے کھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے شدید خطرے کا احساس ہوا۔
    بڑا صاب اپنے سگے بیٹوں سے پرشانی چھپا لیتا ہے مگر اپنا دل امارے سامنے کھول دیتا ہے۔ امارا بس نہیں چلتا کہ اس کی پرشانی کیسے دور کرے۔ ام نے خود پر بہت جبر کیا مگر آج خود کو روک نہیں پایا۔ یہ گن دیکھ رہے ہو؟ اب یہ تومارے اور امارے درمیان پھسلہ کرے گا۔ ام دونوں میں سے یہاں سے ایک ہی زندہ واپس جائے گا۔ ولی خان نے جیکٹ کے نیچے سے ماوزر نکال کر میز کے اوپر رکھ دیا۔
    الیاس خان ! تمہارے پاس دو آپشن ہیں۔
    نمبر ایک، اپنی قیمت بول۔ کیا چاہیے تمیں ایک کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑ ؟؟ پچاس کروڑ تو ام اپنے پلے سے دے سکتا ہے۔ اپنی قیمت لے۔ اس طلاق نامے پر سائن کر اور دفعہ ہو جا۔ دوبارہ کبھی امارے سامنے مت آنا ورنہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
    دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر مرد کا بچہ ہے اور حلال اولاد ہے تو یہ ماؤزر تمہارے سامنے پڑا ہے اور اس کے میگزین میں گیارہ گولیاں ہیں۔ ساری کی ساری امارے سینے میں اتار دے۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس۔
    پتہ نہیں زندگی میرے ساتھ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ جب کبھی میں منزل پر پہنچنے لگتا تو ایک ڈیڈ اینڈ سامنے آ جاتا اور لگتا کہ اب میں بچ نہیں پاؤں گا۔ پھر مقدر یاوری کرتا اور میں عروج کی طرف سفر کرنے ہی لگتا تھا کہ دوبارہ بگولے میرے پاؤں پکڑ لیتے۔
    اگر میں کہوں کہ مجھے تمہارے دونوں آپشن قبول نہیں ہیں، تو؟؟ میں نے صوفے کی ٹیک سے پشت لگا کر عزم سے کہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرنا ہی ہے تو عزت سے مروں گا، کسی کی دھمکی دھونس میں نہیں آؤں گا۔
    پھر امارے پاس بھی دو ہی آپشن ہے۔ پہلا تجھے قتل کر کے چلا جائے۔ دوسرا حارث صاب کو فون کر کے تمہارے نکاح اور لوکیشن کے بارے میں بتا دے۔ باقی حارث صاب جانے اور تم جانے۔! ولی خان نے بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
    ولی خان تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔۔۔!! میں لائبہ بی بی کو طلاق نہیں دوں گا۔
    میرے لہجے کی دلیری اور عزم نے ولی خان کو چونکا دیا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اس نے ماؤزر اٹھا کر بیلٹ کے نیچے اڑسا۔ طلاق کے کاغذات رول کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور کھڑا ہو گیا۔
    مرد کا بچہ اے توم بھی۔۔۔ ام یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم زندگی کے کسی موڑ پر ڈر کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو چھوڑ تو نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر ولی خان تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا فلیٹ سے نکل گیا۔

    کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ ولی خان تیز آدمی ہے مگر وہ اتنا عیار اور اتنا بڑا اداکار بھی ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ یہ سٹنٹ ولی خان نے اپنے طور پر کھیلا ہے یا اس کے پیچھے سیٹھ صاحب ہیں۔ یہ سخت نفسیاتی قسم کا بھرپور وار تھا جس سے میں بمشکل بچا تھا۔ میرے خدشات و تفکرات میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ابوظہبی پہنچ کر میں مکمل طور پر بڑے صاحب کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اگر وہ چاہتے تو میں بآسانی کسی حادثے یا مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
    ابوظبہی ائیر پورٹ پر مجھے بڑے صاحب کی کنسٹرکشن کمپنی کے مینیجر نے ریسیو کیا۔ اس کا نام زکریا تھا۔ زکریا بہت کھلا ڈھلا اور خوش باش بندہ تھا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر جگہ میری راہنمائی کی۔ اگلے دن اس نے مجھے کمپنی کے ہیڈ آفس اور آس پاس چلنے والے پروجیکٹس کی سائٹس کا معائنہ کروایا۔ میری رہائش کا بندوبست ایک معقول فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس بن جانے کے بعد مجھے ایک ٹیوٹا لیکسس کار بھی عنایت کر دی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے خدشات دھلتے جا رہے تھے۔ بڑے صاحب نے مجھے آفس کے بجائے ایک بڑی سائٹ کے پروجیکٹ مینیجر کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ پروجیکٹ مینیجر پاکستان میں سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور اس کا نام سہیل علی تھا۔ ایک ہی علاقے کے ہونے اور ڈیوٹی ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔
    مجھے یہاں آئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دوسرے تیسرے دن چند منٹ بات ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ فطرتاً ہی کم گو تھیں۔ دوسرا انھوں نے مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی میں کوئی ایسی جرات کر پایا تھا حتی کہ میں انھیں چھوٹی بیگم صاحبہ کے نام سے ہی بلاتا تھا مگر انھوں نے مجھے کبھی منع نہیں تھا کیا اور نہ ہی خود کو کبھی اصل نام سے بلوانے کی فرامائش کی۔ سہیل کے تعاون کی وجہ سے میں کام کو بڑی تیزی سے سمجھ رہا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک نئے کام کا پروجیکٹ مینجر بنا دیا گیا۔

    ایک ویک اینڈ پر میں اور سہیل کار پر یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ سہیل کار ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے لے کر ایک شیشہ کلب جا پہنچا۔ ایسی جگہیں میرے لیے نئی نہیں رہی تھیِں۔ ہم اکثر ایسے کلبوں میں آتے جاتے تھے لیکن اس کلب کا ماحول کچھ زیادہ ہی کھلا تھا۔ سٹیج پر نیم برہنہ پاکستانی اور انڈین لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں۔ سہیل نے وہاں سے اپنے ساتھ دو پاکستانی لڑکیوں کو لیا اور میرے ساتھ کار میں ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ کی طرف بڑھا۔ میرا اور سہیل کا فلیٹ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ پہلے بھی یہ کاروائیاں کرتا رہا تھا مگر آج اس نے مجھے بھی نیم رضا مند کر لیا تھا۔
    اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ ہمارا ہر ویک اینڈ کا معمول بن چکا تھا۔ میں خود کئی ایسی جگہوں سے واقف ہو چکا تھا۔ میں بہت خوش تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک میری نگرانی میں بننے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی ایک چھت گرگئی جس کے نیچے دب کر دو تین مزدور جاں بحق ہو گئے۔ میں اتفاقاً اس دن دبئی گیا ہوا تھا۔ اطلاع ملتے ہی میں فورا واپس پہنچا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی اور اس نے باقاعدہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا تھا۔ میرا بھی تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کے بعد مجھے شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیٹ واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی۔ وہ سخت پریشان تھیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ مجھے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ انھوں نے مجھے فورا ابوظہبی چھوڑنے کی ہدایت کی۔
    لیکن بیگم صاحبہ ! جب میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں بھاگوں اور کیا سیٹھ صاحب اس کی اجازت دیں گے ؟
    سیٹھ صاحب سے میری پہلے ہی فون پر بات ہو چکی تھی۔ وہ سخت برہم تھے۔ انھوں نے مجھے سخت سست سنایا اور آگاہ کیا کہ کمپنی پر بھاری جرمانہ ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا لائسنس ہی معطل کر دیا جائے۔ وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔
    مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے فورا ٹکٹ کروائی اور اپنے سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی میں پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ڈور آئی سے دیکھا تو بےاختیار چونک پڑا۔
    باہر بڑے صاحب کا رائٹ ہینڈ اور ذاتی محافظ ولی خان کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔
    ولی خان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت شاندار اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ میرے پاس سے گزر کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا فریج کی طرف بڑھا۔ سافٹ ڈرنک کا ٹن پیک نکال کر اس نے بیڈ پر پڑے میرے بیگ کی طرف دیکھا،
    بھاگنے کی تیاری مکمل ہے۔۔۔؟
    ولی خان کو میں نے پہلے بھی دو تین دفعہ اپنی کمپنی کے آفس یا پروجیکٹ سائٹس کے آس پاس دیکھا تھا۔ وہ انگلش و عربی فر فر بولتا تھا۔ وہ اردو بھی بڑے اچھے تلفظ میں بول سکتا تھا مگر جب اسے اپنے آپ کو کہیں ان پڑھ اور جاہل ظاہر کروانا ہوتا تھا، تو وہ پشتو کے لہجے میں توڑ پھوڑ کر اردو بولنے لگتا تھا۔ ابوظبہی میں ہمارا جب بھی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی اس نے مجھے بلایا۔
    آج اس کا یوں فلیٹ پر آنا کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پیکنگ میں مصروف رہا۔
    تم کہیں بھی بھاگ جاؤ۔ اگر یہ چاہیں تو تمہیں پکڑ کر واپس لے آئیں گے اور کڑی سزا دیں گے۔ ولی خان نے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے دوبارہ اشتعال دلایا۔
    یہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔! میں نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
    تم کسی کام سے آئے ہو؟
    ہاں ! کسی کام سے آیا ہوں۔ کچھ تصویریں ہیں میرے پاس، جو تمہیں دکھانا ضروری تھیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر اس کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے تھمایا۔
    میں کچھ دیر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
    پکڑ لو، فکر مت کرو اس میں بم نہیں ہے۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
    میں نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے لفافہ تھام کر اس میں موجود تصویریں باہر نکال کر دیکھیں.
    پہلی تصویر دیکھتے ہی میں اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ تصویریں میرے ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر پھیل گئیں جنہیں میں پھٹی پھٹی
    نظروں سے دیکھ رہا تھا
    (جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    نفع نقصان سے ہٹ کر
    سرور و آہ سے آگے
    شمع کے گرد چکرانا
    دہکتی آگ میں جلنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    نشاط انگیز لمحوں میں
    گلوں کی سیج سے اٹھ کر
    خدا کے روبرو ہونا
    جبیں اپنی جھکا دینا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    کسی محروم ساعت میں
    ہر اک تاریک لمحے میں
    ترقی میں تنزل میں
    خدا سے خوش گماں رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    بھری محفل میں تنہائی
    کبھی تنہائی میں محفل
    ہر اک رنگین منظر میں
    کسی کو سوچتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    خود ہی زنجیر پا ہو کر
    قدم زندان میں رکھنا
    کھلے روزن سے بے پرواہ
    اسیری مانگتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں
    محبت اس کو کہتے ہیں

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرا نام الیاس خان ہے۔ میں سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرا سارا بچپن عسرت اور تنگدستی میں گزرا۔ میں ساتویں کلاس میں تھا جب میرے باپ نے مجھے سکول سے چھڑوا کے کام سیکھنے کے لیے ایک ورکشاپ میں بیٹھا دیا۔ میں سانولی رنگت، عام نقوش، اور اوسط قامت کا ویسا ہی ایک معمولی انسان تھا جو مزدوری کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ شادی کرتے ہیں، بچے پالتے ہیں، پھر ایک دن مسائل، غربت اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں۔ میرے کچھ کزنز کراچی میں بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میں بھی ایک دن ان کے پاس چلا گیا اور انھوں نے مجھے ایک سیٹھ صاحب کے پاس ڈرائیور کی نوکری دلوا دی۔ سیٹھ صاحب بہت مالدار اور اچھے آدمی تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی ملازم نہیں سمجھا، سیٹھ صاحب کے سارے بیٹے بھی بہت شریف النفس اور غریب پرور انسان تھے۔ میں کچھ مہینے سیٹھ صاحب کی ذاتی کار چلاتا رہا، پھر سیٹھ صاحب کو گھر کے لیے ایک با اعتماد آدمی کی ضرورت تھی تو انھوں نے گھر والی گاڑی میرے حوالے کر دی ،اور خود اپنی گاڑی کے لیے دوسرے ڈرائیور کا بندوبست کر لیا۔ اب میری ذمہ داریوں کی نوعیت بدل گئی تھی۔ اب میں صبح اُٹھ کے نئی نکور ہنڈا سوک کو دھوتا چمکاتا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار شروع کر دیتا۔ سیٹھ صاحب کی اکلوتی بیٹی لائبہ عرف چھوٹی بیگم صاحبہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ ان کو یونیورسٹی لے کر جانا اور واپس لانا میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
    ……………………………………………
    میں حسب معمول گاڑی کے پاس کھڑا چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار کر رہا تھا، جیسے ہی وہ آئیں، میں نے نظریں جھکا کے مؤدب انداز میں کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ نزاکت سے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کار میں بیٹھ گئیں۔ ایک مدھم لیکن موڈ کو خوشگوار کر دینے والی خوشبو کا جھونکا میری ناک سے ٹکرایا۔ میں گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
    الیاس! آج ہمیں یونی سے بارہ بجے ہی پک کرنا، ہم بازار جائیں گے، کچھ شاپنگ کرنی ہے۔
    جی بیگم صاحبہ! میں نے مودب انداز میں جواب دیا، اور بیک ویو مرر میں انھیں دیکھا۔ اپنے سن گلاسز کو ہاتھ میں پکڑے جانے وہ کن سوچوں میں گم تھیں۔ جب وہ کچھ سوچتی تھیں تو ان کی بڑی بڑی آنکھوں کے تحیر پر بےاختیار پیار آ جاتا تھا۔ آپ نے زیبا بختیار کو جوانی میں دیکھا ہے؟ بس وہ کچھ ویسی ہی تھیں، بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں، شہابی رنگت اور غیر معمولی دارز قامت، مں چپکے چپکے انھیں بیک ویو مرر میں دیکھتا رہا۔ مقررہ وقت پر میں نے انھیں یونیورسٹی سے لیا اور ایک قریبی مارکیٹ کا رخ کیا، وہاں بیگم صاحبہ نے کچھ شاپنگ کی اور پھر مجھے لے کر ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں آ بیٹھیں۔
    میں نے زندگی میں کبھی اتنے شاندار ریسٹورنٹ کو اندر سے نہیں دیکھا تھا، میں بیگم صاحبہ کے سامنے والی کرسی پر پریشان اور بوکھلایا سا بیٹھا تھا۔
    میں نے سوچا آج الیاس کو بہت پیدل گھمایا ہے، اس لیے ایک چھوٹی سی کھانے کی دعوت تو بنتی ہے باس۔۔کیا کھائیں گے آپ؟ بیگم صاحبہ نے سن گلاسز کو آنکھوں سے اتار کر سر پر لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
    میں بے اختیار ان کے موتیوں کی طرح جڑے دانت دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے یار، ریلیکس ہو کے بیٹھیں، آپ تو کرسی پر یوں ٹکے ہیں جیسے موقع ملتے ہی بھاگ لیں گے۔ بیگم صاحبہ نے مینو پکڑ کے بےتکلفی اور مصنوعی خفگی سے کہا۔ میرے منع کرنے کے باوجود انھیں نے میرے لیے پزا اور کولڈ ڈرنک منگوا لی۔ میں جھجکتا رہا اور ان کو دیکھتا رہا، وہ بے نیازی سے کھانا کھاتے ہوئے مجھ سے یوں ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں جیسے میں ان کا بچپن کا دوست ہوں۔ اس سے پہلے کہ ہم اُٹھتے، ایک دارز قامت خوبصورت لڑکے نے ہماری ٹیبل پر جھک کے، اسے بجا کے ہمیں چونکا دیا۔
    ہائے حارث! بیگم صاحبہ نے خوش دلی سے کہا۔
    یہ بندر کون ہے؟ حارث نے حیرت اور غصے سے مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا۔
    کیا بکواس کر رہے ہو؟ یہ الیاس ہیں، ہماری گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں۔
    واٹ دی ہیل آف دس؟
    ڈرائیور ہے تو باہر گاڑی میں جا کے بیٹھے۔ لائبہ تمھیں شرم نہیں آتی، ان چوڑھے چماروں کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔ لائبہ پورا ہال تمھیں گھور رہا ہے، تمھیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ نمونہ کتنا ان فٹ ہے اس آٹماسفیر میں۔ اگر اسے کچھ کھلانا ہی تھا تو گاڑی میں بھجوا دیتی۔ حارث کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کچا چبا جائے۔
    شٹ اپ حارث! شٹ اپ۔
    ہمیں کس کو اپنے ساتھ بٹھانا ہے، کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ہم خود کریں گے۔ ہو دی ہیل آف یو؟ مائنڈ یور اون بزنس۔
    بیگم صاحب کے چہرے پر آگ جل رہی تھی انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور حارث کو دھکا دے کر باہر کی طرف چل پڑیں، حارث کے چہرے کے نقوش غصے اور نفرت سے بگڑ رہے تھے۔
    یہ ہمارا کزن ہے. ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، اس لیے بہت بگڑ گیا ہے۔ آئی ایم سو سوری الیاس! آپ کو ہماری وجہ سے اتنی انسلٹ برداشت کرنی پڑی، آپ بے فکر رہیں، ہم جا کے بابا سے اس کی شکایت کریں گے۔
    بیگم صاحبہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی معذرت کی۔
    مجھے شرمندہ نہ کیجیے بیگم صاحبہ! آپ کے کزن صاحب بالکل درست کہہ رہے تھے۔ میں واقعی ہی اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کے ساتھ بیٹھ سکوں۔
    آپ چپ کر جائیے۔ ہمارا موڈ پہلے ہی حارث نے خراب کر رکھا ہے، ہمیں زیادہ بہتر پتہ ہے آپ کس قابل ہیں۔
    ……………………………………………
    گھر پہنچ کر میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اتارا اور اپنے کواٹر میں آ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ آج کے سارے دن کے مناظر کی فلم میری آنکھوں میں چلنے لگی۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں بیگم صاحبہ کے اتنے پاس ان کے روبرو بیٹھوں گا اور وہ مجھ سے اتنی باتیں کریں گی۔ میں اتنے سرور میں تھا کہ مجھے حارث کے ہاتھوں ہوئی بےعزتی بھی بےمعنی لگ رہی تھی۔ جس طرح بیگم صاحبہ نے میرا دفاع کیا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک لائیں، وہ منظر کئی دن تک میں جاگتی آنکھوں سے بھی چشم تصور سے دیکھتا رہا۔ اس دن کے بعد سے بیگم صاحبہ مجھ سے کافی بےتکلفی سے بات کرتیں اور کبھی کار کی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ بھی بیٹھ جاتیں۔ بیگم صاحبہ بہت کم بولتی تھیں لیکن جب بھی بولتیں تو ان کی آواز میں ایک خاص قسم کا تحکم اور رعب ہوتا تھا۔ ان کا اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب بھی شاپنگ کرتیں، کچھ نہ کچھ میرے لیے بھی لے لیتیں۔ اس لیے اب میرے جوتے، کپڑے، پرفیومز وغیرہ بھی برانڈڈ ہوتے تھے۔ لیکن میں پھر بھی ان کے ساتھ چلتا ہوا ان کا خادم اور غلام ہی لگتا تھا۔
    کچھ دن بعد یونیورسٹی سے واپسی پر ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ یہ نومبر کے اوائل تھے، موسم خوشگوار تھا، بیگم صاحبہ نے کار کا آدھا شیشہ نیچے کر رکھا تھا، کار میں نصرت صاحب کی غزلیں دھیمی آواز میں چل رہی تھیں۔ ایک موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے ہماری کار کی بائیں جانب رکے ہوئے تھے، اپنے حلیے اور انداز و اطوار سے وہ انتہائی اوباش اور بگڑے ہوئے لگ رہےتھے، انھوں نے پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم صاحب کے بالکل قریب موٹر سائیکل روک رکھا تھا، اور انھیں گھورنے کے علاوہ آپس میں ذومعنی باتیں بھی کر رہےتھے۔ مجھے خون اپنے سر کو چڑھتا ہوا محسوس ہوا، غیر ارادی طور پر میرے اعصاب تن گئے، میں نے اپنے سائیڈ والے دروازے پر لگے کنڑول پینل سے سارے شیشے پورے اوپر چڑھا دیے۔ جس پر باہر ایک زوردار قہقہ پڑا۔ تینوں میں سے ایک لڑکے نے بےباکی سے بیگم صاحبہ والے شیشے کو انگلی سے بجایا اور نہایت بے ہودہ بات کی۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے اس وقت کیا ہوا تھا، شاد یہ وہی کفیت تھی جس میں انسان سے غیر ارادی قتل ہو جاتے ہیں، میں نیچے اترا اور گھوم کر موٹرسائکیل کے پاس پہنچا، نوجوانوں کو شاید مجھ سے ایسے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی، اس لیے وہ بدستور مجھے تمسخر اڑانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے فقرے کس رہے تھے۔ میرا نشانہ شیشہ بجانے والا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اس کے چہرے کو کچل دینا چاہیے۔ میں نے اسے موٹر سائیکل سے گھیسٹ کے اتارتے ہوئے سوچا۔ میرے اندر اس وقت جناتی طاقت آ چکی تھی، مجھے ان تین لڑکوں نے بہت پیٹا، میں لہو لہان ہو گیا لیکن میں نے اپنے شکار کو نہیں چھوڑا، مکے مار مار کے میں نے اس کے چہرے کا بھرتا بنا دیا، میرے اور اس کے سارے کپڑے پھٹ گئے، وہ نیم جان ہو چکا تھا لیکن میرا غصہ سرد نہیں ہو رہا تھا۔ آخرکار جب بیگم صاحبہ نے مجھے چلاتے ہوئے جنجھوڑا تو مجھے ہوش آیا۔

    اسے چھوڑ دیں الیاس! یہ مر جائے گا، فار گاڈ سیک چھوڑ دیں اسے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ بیگم صاحبہ روتے ہوئے چلا رہی تھیں، میری حالت ایسی تھی جیسے چابی والے کھلونے کی چابی اچانک ختم ہو جائے اور اس کے اعضا جہاں تھے وہی معلق ہو جائیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بازو سے پکڑ کے کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ہاسپٹل لے گئیں۔ سارا رستہ وہ مجھے مجھے دیکھ دیکھ کے روتی رہیں، ان کی آنکھیں اور ناک کی نوک ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہی تھیں، میں اس وقت بڑی بےخودی اور بےباکی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ وارفتگی اور لاپروائی کی ایک لہر نے مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ مرہم پٹی کے بعد ہم گھر پہنچے تو شام کو میری پیشی سیٹھ صاحب کے سامنے ہوئی، مجھے زیادہ تشویش حارث کو ان کے پاس بیٹھے دیکھ کر ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے میرے منہ سے سارے واقعہ کی تفصیل سنی اور بیچ میں سوال بھی پوچھتے رہے۔ میں نے اس سے پہلے سیٹھ صاحب کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے نہ ہی مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور نہ ہی میری چوٹوں کے بابت کچھ دریافت کیا۔ کچھ دیر بعد میں واپس اپنے کواٹر میں تھا۔ ابھی میں چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ میں نے تنک مزاج اور دارز قامت حارث کو اپنے کواٹر میں داخل ہوتے دیکھا۔
    مزے کر رہے ہو استاد!
    حارث نے سگریٹ سلگا کے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ میں اُٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔ حارث کپڑوں کی الماری کھول کے میرے کپڑے دیکھ رہا تھا، اس نے ایک دو قمیضوں کے کالر الٹ کے ان کے برانڈ دیکھے، پھر مڑ کے مجھے دیکھا۔ اس کے چہرے کی درشتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اب وہ جھک کے الماری میں پڑے میرے جوتے دیکھ رہا تھا۔ او گوچی! اس نے ہونٹ سکوڑے اور پرفیوم کی بوتل کو دیوار پر دے مارا۔ ایک زوردار ِآواز پیدا ہوئی اور بوتل ٹوٹ گئی۔ سارے کمرے میں خوشبو اور شیشے پھیل گئے۔ حارث تیز قدموں سے چلتا ہوا آیا اور کرسی گھیسٹ کے بالکل میرے قریب بیٹھ گیا، میرے اور اس کے چہرے میں بمشکل چند انچ کا فاصلہ تھا، کچھ دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ،پھر میں نے نظریں جھکا لیں۔ یہ سب تم نے خود خریدا ہے؟
    حارث نے سگریٹ کا کش لے کر اسی ہاتھ سے الماری کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا اس کا ہاتھ پتلا اور انگلیاں باریک اور لمبی ہیں۔
    نہیں، یہ بیگم صاحبہ نے لے کر دیا ہے۔
    میں نے دھیمے انداز میں جواب دیا۔
    کس حثیت سے؟
    ایک ملازم کی حثیت سے!
    آپ غلط سوچ رہے ہیں صاحب۔ میں نے حارث کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں حسد اور غصے کی آگ جل رہی تھی۔
    اچھا! یعنی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک ان پڑھ جاہل دیہاتی مجھے بتائے گا کہ مجھے کیا سوچنا ہے۔ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی؟ یاجوج ماجوج لگتے ہو بلڈی فول۔
    مجھے لگا کہ وہ مجھ پر جھپٹے گا لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، کچھ دیر وہ سگریٹ کے کش لیتا رہا اور مجھے انگلش میں گالیوں سے نوازتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کسی کو سیل پر کال ملائی اور اس سے انگلش میں بات کی جو میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔
    ہری اپ ہری اپ۔ جلدی اٹھو، اس نے خود اٹھتے ہوئے مجھے بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شوز پہنو، جلدی تمھیں حیدر آباد جانا ہے۔
    لیکن صاحب؟؟
    لیکن ویکن کچھ نہیں، ڈارمے نہ کرو، اچھے بھلے ہو تم، کچھ نہیں ہوا تمھیں۔
    میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا لیکن میں حارث کی خوشنودی کے لیے تیار ہوگیا ورنہ مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھے نوکری سے ہی نہ نکلوا دے۔ حارث نے مجھے ایک پیکٹ دیا اور اسے فوراً حیدر آباد اس کے دوست کے گھر پہنچانے کا حکم سنا دیا۔ میں چھوٹی بیگم صاحبہ یا سیٹھ صاحب کو بتا کے جانا چاہتا تھا لیکن حارث کا موڈ دیکھتے ہوئے چپ ہی رہا۔ کچھ دیر بعد میری گاڑی نیشنل ہائی وے پر حیدر آباد کی طرف اڑی جا رہی تھی، مجھے صبح تک واپس آ کے بیگم صاحبہ کو یونیورسٹی بھی لے کر جانا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں حیدر آباد پہنچتا، چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال آ گئی۔
    ہم سونے لگے تھے، سوچا آپ کا حال احوال پوچھ لیں۔ اب کسی طبعیت ہے؟ سو تو نہیں گئے تھے آپ؟
    بیگم صاحبہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں حیدر آباد جا رہا ہوں ۔میں نے کار کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
    حیدر آباد؟ کیوں؟ بابا ساتھ ہیں؟
    نہیں بیگم صاحبہ! مجھے حارث صاحب نے بھیجا ہے، ان کا کچھ سامان ہے جو یہاں دینا ہے۔ ابھی پولیس ناکہ آ رہا ہے، میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں۔
    واٹ ار یو ٹاکنگ مین؟ کون حارث؟ وہ کون ہوتا ہے آپ کو کہیں بھیجنے والا؟ آپ نے حالت دیکھی ہے اپنی؟ فوراً واپس آئیے، جہنم میں جائے حارث۔ حسب توقع بیگم صاحبہ کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ میری کار ناکے پر پہنچ چکی تھی، میں نے کال بند کر کے سیل سائیڈ سیٹ پر رکھا اور شیشہ نیچے کیا۔ میرا شناحتی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والوں نے مجھے اتار لیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے میری ہی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھایا اور دو پولیس والے میری سائیڈوں پر بیٹھ گئے۔ وہ میرے ہر سوال کا جواب مکوں اور تھپڑوں کی شکل میں دے رہے تھے۔ ایک پولیس والا کار چلا رہا تھا۔ میں سخت خوفزدہ ہو چکا تھا۔ پولیس والوں نے مجھے سیٹ پر اس طرح جھکا کے بیٹھایا کہ میرے دونوں ہاتھ ان کے پیروں کے نیچے کچلے جار ہے تھے۔ اور میرا سر کار کے فرش کو چھو رہا تھا۔ انھوں نے میری کمر ننگی کی اور اسے چمڑے کے لتر سے مارنا شروع کر دیا۔ میری چیخوں سے گاڑی گونج رہی تھی لیکن وہ بڑے پروفیشنل انداز میں بڑی بے حسی سے مجھے مار رہے تھے۔ اتنی دیر میں کار کی اگلی سیٹ پر پڑا میرا فون بجا۔ یقیناً یہ چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال تھی۔

    (اس سچی داستان کا کا بقیہ حصہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے)

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • آجکل کی محبت :عشوارانا

    آجکل کی محبت :عشوارانا

    آجکل کی محبت پہ بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کیسی محبت کی بات
    کر رہے ہیں…
    والدین، بہن بھا ئیوں، اور خونی رشتوں کی محبت پہ تو کوئی بات کرنے کی ضرورت
    نہیں..کیونکہ ان میں کسی کھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…
    ایک بات اپنے ذہن میں بٹھا لیجیئے …کبھی بھی اپنے خونی رشتوں سے متعلق کوئی
    بدگمانی اپنے ذہن میں مت رکھیے..روئیے ،ناراض ہوں پر جلد مان جائیں…
    بدگمانی آپکو دوسرے رشتوں سے روشناس کروائے گی اور آپ انکی طرف کشش محسوس کریں
    گیں اور جب کشش سے حقیقت تک کا سفر کریں گیں تو واپس اپنوں کی طرف لوٹنا چاہیں
    گیں…پر جب لوٹیں گیں تو جو لٹایا ہے وہ کیسے پائیں گیں…؟؟؟
    اب دوسری محبت کی طرف آتے ہیں…
    یہ وہ محبت ہے جو ایک مرد کو عورت سے ہوتی ہے یا ایک عورت مرد کی طرف کشش
    محسوس کرتی ہے .پہلے ہم مردوں کی بات کرتے ہیں ….ایسا کیوں ہوتا ہے آئیے ان
    وجوہات پہ غور کرتے ہیں..
    ان میں سب سے پہلی وجہ اپنے دل و دماغ میں ایسے خیالات کا لانا ہے..
    دماغی خیالات ہی آپکی حرکات پہ اثرانداز ہو تے ہیں..
    مثال کہ طور پہ اگر آپکا دماغ بالکل صاف شفاف ہے اور آپ کسی بھی عورت سے متعلق
    ایسا کوئی خیال دل میں نہیں رکھتے تو آپ کبھی بھی ایسا نہیں سوچیں گیں…
    شاید یہ بات آپکو بری لگے پر بڑے ہونے کے ساتھ آپکی خواہشات بھی مختلف ہوتی
    جاتی ہیں…
    آجکل کی محبتوں کی دوسری وجہ مرد و عورت کا اکٹھے ہونا ہے…جب آپکے سامنے ایک
    پرکشش چیز ہو اور آپکو کوئی روکنے والا بھی نہیں تو کیا آپ اسکی طرف متوجہ
    نہیں ہو گیں؟ ؟؟
    فرض کریں وہ ایک خول میں بند ہے..اور آپ اپنے نفس پہ قابو نہیں پا رہے
    تو آپ اس خول کو توڑنے کی کوشش کریں گیں…اگر خول مضبوط ہے تو آپ جتنی بھی
    کوشش کر لیں آپ نہیں توڑ پائیں گیں..
    پر اگر ذرا بھی ڈراڑ آگئی تو ٹوٹنے کے آثار بڑھ جائیں گیں اور آپکی ہمت بھی…
    اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کیسے ہیں…
    اسکی ایک واضح مثال میِں فیس بک سے ہی دے دیتی ہوں..
    آپکو کوئی پسند ہے اور آپ اسے فرینڈ ریکوسٹ بھیجتے ہیں…
    اگر پرائیوسی لگی ہے تو آپ نہیں بھیج پائیں گیں…
    پھر آپ دوسری کوشش کے طور پہ اسے میسج کرتے ہیں…
    اگر ریکوسٹ منظور نہیں کی جاتی تو آپ کی یہ کوشش بھی بیکار…
    پھر آپ مایوس ہو جاتے ہیں …اور اگر آپ میں زیادہ ہی ہمت ہے تو آپ فالو کر
    لیتے ہیں..
    اس مثال کا غلط مطلب لینے کی ضرورت نہیں ہے…
    آپ ایک کام اور بھی کر سکتے ہیں…آپ اپنے کام.سے کام رکھ سکتے ہیں…پھر چاہے
    آپ ہزار لوگوں کو ایڈ کریں میسج کریں..آپ غلط نہیں کر پائیں گیں…
    یہاں پہ مرد حضرات یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اگر اتنا ہی خود پہ یقین ہے تو
    فیسبک پہ ہم لڑکیوں کو آنے کی ضرورت کیا ہے…؟
    اگر گھر میں دال بنی ہے تو کیا گوشت نہیں بن سکتا ….بن سکتا ہے نا….
    اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ ان دونوں کا کچومر بناتے ہیں یا دونوں کو الگ الگ
    رکھتے ان کا ذائقہ چکھتے ہیں..
    تو بات ہو رہی تھی مرد عورت کے اکٹھے ہونے کی
    ایسا نہیں ہے کہ میں یہاں کوئی برابری پہ اختلاف کر رہی ہوں یا عورتوں کو
    مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلنے کا درس دے رہی …ہرگز نہیں…
    پر ذرا غور کیجیے….. یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کو کمزور بنایا
    ہے اور اسے بہت سے معاملوں میں مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے …یہاں یہ بات
    سمجھیے کہ سہارا وہی دیتا ہے جو طا قتور ہو..اور سہارے کی ضرورت اسے پڑتی ہے
    جو کمزور ہو…
    جب آپکو ایک شانے کی ضرورت ہے تو آپ شانہ بشانہ کیسے چل سکتی ہیں…
    ایک قدم تو پیچھے ہی پڑے گا نا…..
    یہاں مردوں کو بالکل یہ سبق نہیں دیا جا رہا کہ وہ اپنی حاکمیت چلائیں…
    انہیں سہارا دینا ہے نا کہ وہ ہاتھ توڑنے ہیں جنہیں سہارے کی ضرورت….
    ہم بحثیت فرد اپنے اپنے گھروں میں اپنے ہی بنائے اصولوں پہ کاربند ہیں ہم ایک
    دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر تے ہیں..
    ذرا بتائیے…ایک انسان کو خوراک، پانی، کپڑے کے علاوہ کس چیز کی ضرورت ہوتی
    ہے…؟؟
    ہم نے بس یہی سوچ رکھا کہ سبکی ضروریات بس یہی ہیں …
    یہاں ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک اور چیز آکسیجن جتنی اہمیت رکھتی ہے اور وہ ہے
    “احساس” اور احساس وہی ہوتا ہے جہاں محبت ہو..
    بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی …ہم آجکل کی ًمحبت کی بات کر رہے تھے…
    تو سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی محبت کی ضرورت ہی کیا….جو ضرورت
    کے لیے ہو….
    آپ کسی انجان کو کتنا ہی مخلص کیوں نہ سمجھنا چاہیں پر مناسب ہے کہ صرف
    سمجھیں…
    بدلے میں خلوص مت دیں..یہ آپکو مشکل میں ڈال دے گا…
    کسی بھی جگہ پہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے کچھ اصول مقرر کریں…اپنے آپ
    پہ غور کریں اپنی خامیوں خوبیوں سے آگاہ ہوں اور پھر دیکھیے کہ کیا چیز آپکی
    کمزوری بن سکتی ہے..
    اس پہ قابو پائیے..اور یاد رکھیے اللہ نے آپکو اس دنیا میں لانے کے ساتھ ہی
    آپکی قسمت لکھ دی تھی…آپکو وہی ملے گا جو ملنا ہے..
    پھر وقت سے پہلے اسے ڈھونڈنے کا کیا فائدہ جو ملنے پہ پتا لگے کہ یہ تو آپ کے
    حصے کا ہے ہی نہیں..
    پھر اس تکلیف میں کیوں رہنا کہ ہمیں کیوں نہیں ملا…
    جس طرح خدا کو نہ دیکھنے کے باوجود اسکی قدرت پہ یقین ہے تو قسمت پہ بغیر
    دیکھے کیوں نہیں…..؟؟؟
    اللہ نے آپکو بتا دیا ہے کہ وہ آپ سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے جب ماں
    کی محبت پہ یقین تو اس خدا کی محبت پہ کیوں نہیں…؟؟
    کیا وہ آپکے ساتھ برا کر سکتا ہے ؟؟؟ کیا ایک ماِں اپنے بیٹے کا برا چاہ سکتی
    ہے؟ ؟؟.
    جب ماں کسی چیز کی ضد کرنے پہ بچہ کو مارتی ہے یا ڈانٹتی ہے تو وہ اس لیے کہ
    یا تو وہ وہ چیز خرید نہیں سکتی یا پھر وہ صحیح نہیں ہوتی آپ کے لیے….
    کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا؟؟
    یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کے نام لکھی جا چکی ہوتی ہے…اور کسی اور
    حصہ آپ کے پاس کیوں آئے …آپکا اپنا کیوں نہیں؟ ؟؟؟
    راضی با رضا رہیے …
    دل لگی کی باتیں چھوڑیے …ہم اس دوراہے پہ ہیں جہاں پہ ہمیں دل لگی نہیں خلوص
    کی ضرورت ہے..
    ہمارے پاس خوامخواہ والی محبتوں سے بہتر کام موجود ہیں کرنے کو…بس دھیان
    چاہیے..وہ جو ہم دینا نہیں چاہ رہے..
    یہاں پہ دوسری بات ….
    کہ بے اختیاری ایک ایسی چیز ہے جو آپکے اختیار میں نہیں…
    اگر آپ مرد ہیں اور آپ بے اختیاری میں کسی کو پسند کر بیٹھے ہیں….
    یا اپنی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوئے ہیں تو خدارا جائز نا جائز یاد رکھیے..
    بہتر طریقہ اپنائیں…دل مت بہلائیں….
    کہ جب دل بہل جاتا ہے تو پھر وہ چیز نہیں مانگتا…
    وہ اگلی خواہش کرتا ہے…اور پھر آگے اور پھر اس سے آگے…
    ایسے میں آپکا کچھ بھی تباہ نہیں ہوا ہوتا اعمال کے علاوہ پر لڑکیاں بہت معصوم
    ہوتی ہیں…انکے اعمال کے علاوہ معصومیت بھی تباہ ہوتی ہے…

    ہاں آپ اگر کوشش کریں تو طریقے سے پا سکتے ہیں اسے …کیا پتا آپ کی قسمت میں
    وہی ہو…
    پر اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ قسمت سے کھیل کھیلیں..
    آپ اپنی کوشش کیجیے…پا لیں تو بہت مبارک….پر نہ پا سکیں تو بھول جائیں کہ
    اسے پانا بھی تھا..
    ایسا بے شک ممکن نہیں ہوتا..بعض اوقات ہم اتنا کسی میں گم ہوتے ہیں کہ ہمیں
    خود تک نہیں پتا ہم گم ہو چکے ہیں…مانا کہ اس پہ آپکا اختیارنہیں…پر کیا
    ضروری ہے کہ جس میں گم ہیں اس یہ بتایا جائے..اس پہ تو آپکا اختیار ہو سکتا ہے
    اور یہی آپ کے لیے بہتر بھی ہوتا ہے..یہی سب کے لیے بہتر ہوتا ہے…

    اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دیں.آمین

  • محبت شخص سے ہوتی ہے یا رویے سے – شاہد اقبال خان

    محبت شخص سے ہوتی ہے یا رویے سے – شاہد اقبال خان

    اس نے اپنی داستان شرع کر دی۔
    بہت عرصے تک میرا اس سے بس رسمی تعلق رہا۔ پھر جیسے جیسے میں اسے جانتا گیا، اس کی محبت میں شدت سےگرفتار ہوتا گیا۔ وہ میرے جیسی بھی تھی اور مجھ سے مختلف بھی مگر مجھے اس کے رویہ و انداز اور سوچ کا فرق ہمیشہ متاثر کرتا تھا۔ میں اسے سوچنے لگا۔ آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پھر اسے یہ احساس دلانے کی مہم شروع ہو گئی۔

    باتوں باتوں میں، اشارے کنایوں میں، براہ راست انداز سے گریز کرتے ہوئے، کچھ سچ کچھ جھوٹ واقعات سناتے ہوئے میں نے اسے احساس دلا ہی دیا کہ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ ویسے بھی لڑکی کو احساس دلانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اس میں تو ایک ٹرانزسٹر فٹ ہوتا ہے جو بلا بلا کے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کوئی آ کے اسے کہے کہ مجھے تم سے محبت ہے اور وہ اس کے سامنے سر نگوں ہو جائے۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی۔ محبت تو خواتین میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ بس کوئی محبت کرنے والا ملے تو سہی۔
    آہستہ آہستہ وہ محبت میں مجھ سے بھی آگے بڑھنے لگی۔ وقت گزرتا گیا۔ میرے احساسات وہاں سے آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ میں وہیں کھڑا رہا۔ وہ مجھ سے کہیں آگے نکل کرمجھے آواز دینے لگی، پکارنے لگی۔ مگر میں کسی سوچ میں ٹھہرا تھا۔ وہ سوچ اچانک نہ تھی۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس کی وہ تمام باتیں عام سی لگنے لگیں جو کبھی مجھے بہت خاص لگتی تھیں۔ میں امپروو ہو رہا تھا۔ میں وہ سب باتیں خود میں محسوس کرنے لگا تھا۔ مجھے اب وہ ناقابل تسخیر نہیں لگتی تھیں۔ مجھے وہ عام لڑکی لگنے لگی جیسے سب لڑکیاں تھیں۔ وہ مجھ سے محبت کے دعوے کرتی، میں اسے کہتا کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں، میرے چاہت بھرے رویے سے ہے۔ جس دن یہ ختم ہو گئے، میں بدل گیا، تمہاری محبت بھی ندی میں نمک کا پہاڑ ثابت ہو گی۔ وہ کہتی میں تو روئی کا پیڑ ہوں، ندی میں اور وزنی ہو جائوں گی۔ میں خاموش ہو رہتا مگر میرا دل بتاتا تھا کہ رخصتی قریب ہے۔

    پھر ایک دن میں نے ہمت کر کے سب کہہ دیا کہ مجھے تم سے محبت نہیں تھی۔ مجھے تو احساس کمتری تھا۔ میری آنکھوں کو تو تمہاری ان خوبیوں نے چکا چوند کر دیا تھا جو مجھ میں نہیں تھیں، مگر میں بڑا ہو گیا ہوں۔ مجھے تم اب ایک عام سی لڑکی لگتی ہو۔ دل میں اب بھی ایک وہم تھا کہ وہ ٹوٹ جائے گی۔ مجھ سے محبت میں اندھی بغیر سہارے کے ٹھوکریں کھاتی پھرے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ روئی بہت روئی مگر ہر آنسو کے ساتھ میری چاہت کا رس بھرا احساس اس کے نمکین آنسوؤں میں بہتا گیا اور میرے ترش رویے نے اس کی آنکھیں پتھرا دیں۔ پھر جب صبح جاگی تو اس کی آنکھوں کو مجھ میں گلاب کے پھول کے بجائے گلاب کی شاخ کے کانٹے نظر آئے۔ میں اس کے دل سے اتر گیا۔ اسے مجھے دیکھ کر پیار کے بجائے غصہ آنے لگا۔ میری روح سے محبت کے دعوے نفرت میں تبدیل ہو گئے۔

    یہ بتاتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں کو بغور دیکھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں آنسوں کی تلاش تھی مگر میں مایوس ہوا بلکہ ان میں ایک چمک تھی۔ سچ کو پا لینے کی چمک۔مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ سوچتا رہا۔ اس کے سچ کو ٹٹولتا رہا۔ اپنے گردوپیش پر غور کرتا رہا۔ اور پھر میں قائل ہو گیا کہ محبت شحص سے نہیں رویوں سے ہوتی ہے۔محبت کبھی احساس کمتری ہے، کبھی ہمدردی، کبھی کوئی بھٹکی تمنا، کبھی آنکھ کا دھوکا اور کبھی احساس انسانیت، جسے میں سب سے معتبر خیال کرتا ہوں۔

  • نفرت کب جنم لیتی ہے – محمد تنویر اعوان

    نفرت کب جنم لیتی ہے – محمد تنویر اعوان

    محمد تنویر اعوان آج سے 14سوسال قبل دنیامیں ایک عظیم اسلامی مملکت کی بنیادرکھی گئی۔اس اسلامی مملکت میں مسلمان عیسائی یہودی اوردیگرمذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کبھی کوئی بڑاسانحہ نہیں ہوا۔کبھی یہ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں نہیں لڑے۔یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ عصر حاضر کے دہشت گردقراردیئے جانے والے مذہب کے ماننے والوں کی حکومت ہو اور وہاں اقلیتوں کوحقوق بھی حاصل ہوں ۔ان سے امتیاز بھی نہ برتاجائے۔تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے علم میں ہونے کے باوجود کہ یہودی اسلامی ریاست کے خلاف سازشوں میں مصروف کبھی اسلامی ریاست میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جو کہ امن و امان میں خرابی کاباعث بن سکے۔

    اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کہ کمال انسانوں کا نہ تھا کیوں کہ یہودی بھی انسان تھے مسلمان بھی انسان تھے ۔یہ کمال ان تعلیمات کا تھا جو وقت کے حکمرانوں کی جانب سے دی گئیں۔وہ احکامات تھے جو محسن انسانیتﷺنے دیئے تھے۔یہ وہی احکامات تھے یہ وہی تعلیمات تھیں کہ جب بیت المقدس فتح ہوتا ہے تو کسی گرجا گھر کونہیں گرایاجاتا کسی چرچ کونہیں گرایا جاتا۔وہ تعلیمات کیا تھیں ۔مساوات،اخوت،عدل وانصاف،بھائی چارے پر مبنی ایسی تعلیمات کہ جو کسی اورمذہب کے ماننے والوں کے پاس نہیں تھیں۔اسلام نے حقوق وضع کئے تو صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ غیرمسلموں کے حقوق بھی بتادیئے۔پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے تو بلاتخصیص کہہ دیا گیا کہ پڑوسی بھوکا رہا تو تم سے بھی سوال ہوگا۔

    ہم برصغیر میں آتے ہیں یہاں بھی ایک طویل عرصے تک مسلمان ،ہندو،سکھ ،عیسائی اور دیگر مذاہب والے ایک ساتھ رہے۔لیکن کبھی مذہب کی بنیادپر آپس میں نہیں لڑے۔یہاں بھی مسلمانوں کی ایک ہزارسال تک حکومت رہی لیکن کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا ۔ آج جس دین کو انتہاپسندی اوردہشت گردی کی جڑقراردیاجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے مسلمانوں کا غیرمسلموں سے برتاؤبہترین رہا ۔کبھی کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں ہوا جو ہندومسلم تفریق کا باعث بن سکے۔مسلمانوں کے دربار میں اکثریتی حکومتی عہدوں پر ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی فائز رہے۔ مسلمانوں نے محبت اور بھائی چارے کی فضاء کو دوام بخشنے کے لیے ہندوؤں میں شادیاں بھی کیں۔

    اب مہا سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اچھا رہا ہے تاریخ شاندار ہے تو یہ نفرتیں کہاں سے امنڈ آئیں۔انسانی فطرت میں محبت ہے انسان محبت چاہتاہے لیکن مفاد بھی انسانی فطرت کا اہم جز ہے عقیدت بھی انسانی فطرت کاسب سے اہم حصہ ہے ۔اب یہاں بات آتی ہے تعلیمات کی۔اگر ہم یہودیوں کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کریں یہودی ربیوں کی باتیں سنیں تو وہ ایک ہی بات کرتے ہیں۔ماضی میں مسلمانوں اورعیسائیوں نے ہمیشہ یہودیوں کودھوکہ دیا ہے۔ان سے جنگیں کی ہیں لیکن اب ایک مسیحا آنے والا ہے ۔جو پوری دنیا پر یہودیوں کی حکومت قائم کرے گا۔اس کی حکومت کے قیام کی راہ میں مسلمان اورعیسائی رکاوٹ ہیں اس لئے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔اب یہ تعلیمات نسل درنسل چلی آرہی ہیں۔عقیدت والوں نے مسلمانوں اورعیسائیوں کو اپنا دشمن اولین فرض کرلیاہے۔مفاد والے بھی کسی صورت دنیاکی حکومت سے دستبردارنہیں ہونا چاہتے۔جو بچ جاتے ہیں وہ مذہب سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔اسی طرح عیسائی پادری کسی مسیح کے منتظر ہیں جو یہودیوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر عیسائیوں کی حکومت بنائے گا۔ اب ان کا حال بھی یہودیوں والا ہے۔

    جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے چونکہ دین اسلام اور اس کے معلمین نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی اس لئے ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔یہاں امام مہدی کا تزکرہ ضرور ملتا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے گا تو امام مہدی آئیں گے۔یہاں بھی معلمین کہتے ہیں کہ یہودی و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔بالکل صحیح بات ہے کہ دوست نہیں ہوسکتے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں۔اسلام تو اہل کتاب میں شادی کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن ہم نے زہنوں میں پکا کرلیا کہ یہ ہمارے دوست ہوہی نہیں سکتے اس لئے ان تک اسلام کی دعوت بھی نہیں پہنچانی کیونکہ اس کے لئے مکالمہ کرنا ہوگااور مکالمے کے لئے دوستی ضروری ہے۔بہرحال چونکہ مسلمانوں کو یہودونصاریٰ سے متعلق ذیادہ کچھ نہیں ملا تو انہوں نے آپس میں ٹی20شروع کرلیا۔سلفی سنی،وہابی اہل حدیث،دیوبندی بریلوی کے نام پر تفریق پیدا کی اورایک دوسرے کو اسلام کا دشمن قراردیکر جنگ کا علم بلندکیے ہوئے ہیں۔مسلمان علماء خود کہتے ہیں کہ ہمیں یہودیوں عیسائیوں ہندوؤں سے نہیں اپنے ہی مسلمانوں سے خطرہ ہے۔

    اچھا یہ سب تو پہلے بھی تھا لیکن اب اس قدر کھل کرکیوں نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے تو عرض کیا اس وقت مسلمان حکومت میں تھے۔تاریخ شاہد ہے مسلمان جیسے بھی رہے ہیں۔ دیگر کی بہ نسبت معتدل مزاج رہے ہیں۔ مسلمان کبھی بھی انتہاپسند نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس قدر نفرت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب یہودی طویل عرصے تک مسلمانوں کے زیرنگیں رہے۔ عیسائیوں کے ہاتھ سے بیت المقدس مسلمانوں نے لیا۔ عیسائی بھی صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست دوچار ہوتے رہے ہیں۔سونے پر سہاگہ برصغیر میں مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجودایک طویل عرصے تک برہمن سماج پر حکومت کی۔

    اب مسلمان چونکہ حکومت کے مزے لوٹتے آرہے تھے تو ان کے پاس کسی سے نفرت کاجواز نہ تھا اس کے برعکس ہندوؤں عیسائیوں اور یہودیوں کے پاس بے پناہ جواز موجود ہیں۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جب سلطنت عثمانیہ زیرنگیں ہوئی اور ادھر ہند میں مسلمانوں کا دھڑن تختہ ہوا تو صدیوں کی نفرت کھل کر سامنے آگئی۔ بعض جگہوں پر تو اس نفرت نے عیاری کا روپ دھارا اور مسلمانوں کا آپس میں ہی ٹی 20 بھی کرایا، شام یمن عراق افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں پوری قوت لگانے کے باوجود شیعہ سنی فساد کرانے میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں برسراقتدار رہے ہیں اس لیے محرومی کا کوئی احساس نہیں ہے۔

    یہاں ایک حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ”نفرت“ کی بنیادی وجہ احساس محرومی ہے ۔احساس کمتری انسانی فطرت میں پائی جانے والی محبت کو نفرت میں تبدیل کردیتا ہے۔یہ احساس محرومی کیوں پیدا ہوتا ہے یا کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔اس میں بھی بنیادی کردارمذہب قومیت رنگ ونسل کا ہوتا ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں اگر کسی کو بارباراحساس دلایا جائے کہ تم تو قابل فخر گھرانے سے تھے تم مغلوں نے حکومت کی ہے اور تم یہاں ویٹرکا کام کررہے تو یقین جانیں اس کے گھر میں فاقے ہورہے ہوں گے لیکن وہ ویٹر کی نوکری چھوڑ دے گا۔

    یہ احساس برتری اوراحساس کمتری ہی تو ہے جو انسان کی عقل کو منجمد کردیتا ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین لیتاہے۔اس احساس کا مداوہ اہل دانش کا طبقہ کیا کرتا تھا لیکن اب دانشور اس احساس کو اپنے طنز کے نشتر چلاکر مزید گہراکرنے میں مصروف عمل ہیں۔مسئلہ انسانی فطرت میں ہے ۔اس کو جیسا سمجھایا جائے ویسا ہی سمجھتی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل بھی احساس برتری کے زعم میں کیا گیا۔ یہ احساس برتری ہی تھا جو نفرت میں تبدیل ہوا اور عزازیل بارگاہ خداوندی سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلا۔ میرا ماننا ہے انسان کو انسانیت سکھائی جائے ہر وہ تعلیم جو انسان کو انسان سے نفرت سکھاتی ہے وہ رب کعبہ کی دی ہوئی تعلیم ہرگزہرگز نہیں ہوسکتی۔نفرت اسی وقت ختم ہوگی جب احساس برتری اوراحساس کمتری کو ختم کیا جائے گا، مساوات کا درس دیاجائے گا۔ اور یہ کام اہل علم ودانش کیا کرتے تھے اور آج بھی یہی طبقہ اگر آگے آکر اپنا کردار اداکرے تو یہ نفرتیں مٹائی جاسکتی ہیں۔

  • بلا عنوان – مبین امجد

    بلا عنوان – مبین امجد

    مبین امجد جب بیک وقت کئی مناظر آنکھوں میں ہوں اور اطراف میں کھیل تماشے اور میلے ہوں تو سفر رک جاتا ہے۔ پھر کوئی منزل تک پہنچ نہیں پاتا۔ پھر زندگی اجنبی ہو کر کوری کتاب بن جایا کرتی ہے جس کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔ اسی لیے بلاعنوان کا عنوان دیا ہے۔

    اپنے احساسات کو کوئی نام نہ دے سکنا ایک بہت بڑا المیہ ہے، اور اس طرح کے کئی المیے میری ذات سے جڑے ہیں۔ ابھی آنکھوں کی عدت پوری نہیں ہوتی کہ ایک اور خواب مٹی اوڑھ لیتا ہے۔ کبھی دل و دماغ کی زمین بنجر ہوجاتی ہے، پھر عرصہ دراز تک اس ریگستان میں خوابوں اور خیالوں کی فصل نہیں اگتی۔ اور مجھے تو لگتا ہے میں زندہ ہوں، اپنی پیاس کی وجہ سے۔ مر ہی تو جاؤں گا جس دن سیراب ہوگیا۔

    مجھے انسانوں سے محبت ہے مگر مجھے آج تک محبت کرنے والا انسان نہیں ملا۔ ملا مگر تھوڑے عرصے کےلیے۔ میرا بھی ایک عدد دل ہے جو چاہتا ہے کہ کوئی میرے پیاس سے نڈھال مردہ ہونٹوں پر شفاف میٹھے چشموں کے ہار ڈالے۔ نہ جانے کیوں یہ ایسی خواہشیں کرتا ہے، شاید پاگل ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چاہے جانے سے بڑا غرور کوئی نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے اندر کا انا پرست، ضدی بچہ چاہتا ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو مجھے مجھ سے بھی زیادہ چاہے۔ کوئی تو مجھ سے لپٹ کرایسا روئے کہ مجھے بھی رلا دے۔ کوئی تو ایک ایسا کندھا ہو جس پر اپنا سر رکھ کر رو دوں اور پھر تتلی کی طرح ہلکا پھلکا ہو جاؤں۔ کیا کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو مجھے ریشمی لہجے میں پکارے۔ جو میری خامشی کو توڑے اور میرے لبوں پر پڑے آہنی اور زنگ آلود کواڑوں کو ہمیشہ کے لیے کھول دے۔ کوئی تو ہو جس کی مہکتی یاد میرے دل کے کاسنی زینے پر دبے پاؤں اتر کر بیٹھ جائے۔ کاش اے کاش!

    دیا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ سیاہ شب صبح کا آنچل اوڑھنے کو ہے مگر آج بھی نیند کی خوش رنگ پریوں نے میری پلکوں پر اپنے نرم و نازک اور دودھیا ہاتھوں سے دستک نہیں دی۔ نہ جانے کتنے رتجگے میری قسمت میں اور باقی ہیں؟ کون جانے؟

    جب بادصبا نے میرے پراگندہ بالوں کو آ کر چھیڑا تو میں اس میں سوچ میں تھا کہ میں کون ہوں ؟ میں خود سے اجنبی کیوں ہو گیا؟ میں جو شروع سے ہی نفرت کے اظہار میں منہ پھٹ اور محبت کے اظہار میں گونگا تھا، مگر یہ مجھے کیا ہوگیا؟

    آہ! مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں اپنی ماں کو یقین دلا بیٹھا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ فیصلوں کا اختیار اب مجھ کو مل گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے مجھے صداؤں میں رکھنا چھوڑ دیا۔ میری ماں نے مجھے دعاؤں میں رکھنا چھوڑ دیا۔ اگر چہ آج اس بات کو تین چار دن ہوگئے ہیں اور میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ میں ”اس“ کے بغیر تو رہ سکتا ہوں مگر ماں کی ناراضی مجھ سے اور برداشت نہ ہو گی۔
    سو آج سے ”اس“ سے ہر طرح کا تعلق ختم کرنے کا وعدہ تو کر لیا ہے مگر کاش، اے کاش مجھے دل پہ بھی اختیار ہو۔ باقی جہاں تک اس کا تعلق ہے، وہ ایک اچھی لڑکی ہے، اللہ اسے زندگی بھر خوش رکھے اور اس کے نصیب اچھے کرے۔ آمین
    مجھے معاف کر دینا پلیز۔

  • محبت ایسی ہوتی ہے! اختر عباس

    محبت ایسی ہوتی ہے! اختر عباس

    اختر عباس دلیل پر آئے روز نت نئے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ایک سوال نے مجھے بھی بہت بےآرام کر رکھا ہے۔ عام طور پر ہم انہی باتوں پر پریشان ہوتے ہیں جو ہم پر بیتی نہ ہوں، جو ہمارا تجربہ نہ ہو، مگر کیا کریں خود رو پودوں کی طرح اگنے والے ایسے سوالوں کا بھی تو اہل دانش کی محفلوں میں کوئی مقام ہوگا۔ ان کے کانٹوں کا کوئی توڑ، ان کے زہر کا کوئی تریاق، کہیں کوئی امید کا دیا، کہیں کسی سادہ دل کی اعلیٰ ظرفی کا ماجرا جو ڈوبتی نبضوں جیسی قدروں سے خالی ہوتی زندگی کو یہ موہوم سی امید ہی دلا دے کہ عادتوں اور انسانوں سے وہ محبت ابھی باقی ہے جو کبھی زندگی کا حسن کہلاتی تھی۔

    ذہن پر بہت زور بھی دوں تو بیتے بیس تیس سالوں میں شاید ہی کوئی موقع ایسا آیا ہو کہ میں نے کسی دوست سے گاڑی اُدھار مانگی ہو۔ جب جب گاڑی ورکشاپ گئی، بلا تامّل رکشے سے کام چلا لیا۔ وقت اور سہولت دیکھی تو چپ چاپ بغیر تکلیف اور تکلف کے ویگن میں بھی بیٹھ گیا۔ اب تو اور آسانی ہوگئی ہے، کہیں دور جانا ہو تو رینٹ اے کار والے کو فون کردیا اور اطمینان سے سفر کرلیا، البراک اور اوبر کی سہولت اور بھی شاندار اور آرام دہ۔ شاید میری یہ بےنیازی اور خودداری وجہ رہی ہو یا دوسروں کے ساتھ تعلقات میں ایک غیر مرئی فاصلہ اس کا باعث بنا ہو، بہرحال وجہ کوئی بھی رہی ہو، یہ طے ہے کہ سالوں سے کسی سے گاڑی نہیں مانگی۔ یوں یہی معمول میری زندگی کا حصہ بنا، جس کے ساتھ میں جیتا رہا۔

    اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے دنوں میں ایک روز دوپہر کے وقفے میں جوہر ٹاؤن آفس کے باہر گومگو کی کیفیت میں کھڑا تھا۔ اصل میں مصر کے سفرنامے کی قسط لکھنے کے لیے نوٹس کی ضرورت تھی جو گھر پر بھول آیا تھا۔ گاڑی پارکنگ میں موجود تھی مگر ڈرائیو کرنے پر دل آمادہ نہیں تھا۔ اتنے میں ڈیزائنر آیت اللہ [روزنامہ نئی بات] کی سواری باد بہاری آکر رُکی، اس سے موٹر سائیکل لیا اور اپنے محنتی نائب سجاد قادر [ سب ایڈیٹر ] کو کام بتا اور سمجھا کرگھر روانہ ہوگیا۔ اس بائیک کی بریک کی خرابی کے باعث گھر تک کس مشکل سے پہنچا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ واپسی پر پہلے بریک ٹھیک کروائی پھر اس کا سیٹ کوَر ڈلوایا، پھٹے ہوئے کوَر سے فوم تک نکل کر گر چکا تھا۔ ایک انڈیکیٹر بھی ٹوٹا ہوا تھا، بیک مرر بھی نجانے کب کا غائب تھا۔ تینوں چیزیں لگوا کر دفتر پہنچا اور واچ مین سے کہا اسے سٹینڈ پر کھڑی کر دے۔ مجھے تو یہ سب کرکے اچھا لگا تھا۔ دل میں کہیں یہ خیال بھی تھا کہ آیت اللہ کو بھی اچھا لگے گا اور وہ بھی کیا یاد کرے گا کہ کبھی کسی کو موٹر سائیکل دینے سے ایسے فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ شام تک کام میں ایسی مصروفیت رہی کہ ہم بات بھی نہ کرسکے۔ میں دفتر سے نکل چکا تھا جب آیت کا فون آیا کہ سر سٹینڈ پر میری موٹر سائیکل نہیں ہے۔ بتایا کہ فلاں جگہ کھڑی کروائی تھی۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں پہنچا اور پھر گھبراہٹ سے بولا سر! یہاں کوئی اور کھڑی ہے۔ میرے والی نہیں ہے۔ پھر وہ گڑبڑایا،’’سر نمبر تو میرے والا ہے مگر حالت میرے والی نہیں ہے۔‘‘ اگلے لمحے ہم دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیے اور فون بند ہوگیا۔ اپنی عادتوں سے محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔

    انسانی تعلقات میں محبت اور مروت کا جتنا مقام ہے، اندیشوں اور بُرے مشاہدات کی سچائی بھی ان سے کم نہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو کسی کی گاڑی لے گئے، بےدردی سے استعمال کی، لاپراوہی کے باعث کسی حادثے کا باعث بنی تو گاڑی وہیں چھوڑ کر فون پر اطلاع کرنے کو کافی سمجھا کہ فلاں جگہ کھڑی ہے، لے لیجیے۔ کبھی کوئی صاحب بھری ٹینکی کے ساتھ، بس چند منٹ میں آیا، کہہ کر لے گئے اور ان کی واپسی منہ لٹکائے تب ہوئی جب دن ہی بیت چکا ہوتا۔ کوفت اور بےزاری بھرا بامروت مالک اپنے بچوں کو لے کر نکلا تو کچھ ہی دور اندھیرے میں جا کر گاڑی چلنے سے انکاری ہوگئی۔ فون کر کے مستری بلایا، کھلوا کر دیکھا، کوئی بات سمجھ نہ آئی، آخر میں حادثاتی طور پر علم ہوا کہ گاڑی چلے کیسے؟ اس میں تو ایک قطرہ بھی پٹرول نہیں۔ انڈی کیٹر ٹوٹنے، بمپر کا ستیاناس ہونے اور کسی اور حصے کا سوا ستیاناس کرنے کی شکایات عام طور پر کانوں میں پڑتی رہی ہیں۔ ایک صاحب کی ہنڈا واپس آئی تو مالک نے بیک سکرین پر بڑی سی چادر پڑی دیکھی۔ احتیاط اچھی لگی کہ شکر ہے، مانگنے والے نے اپنی گاڑی سمجھ کر استعمال کی۔ کچھ دیر بعد جب خود گاڑی میں بیٹھے تو پتا چلا کہ وہاں تو بیک سکرین کا پورا شیشہ ہی نہیں ہے۔ گھبرا کر فون کا نمبر ڈائل کیا۔ سپاٹ سا جواب ملا یار کسی بچے نے پتھر مار کر توڑ دیا تھا۔ پتا ہی نہیں چلا کون نامعقول تھا۔ کیا کریں لوگوں کے بچے ایسے ہی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ صرف اپنی ہی غرض سے، محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔

    کئی بار دوست احباب بتایا کرتے ہیں کہ شادی بیاہ پر مہمانوں کو لانے کے لیے جانے والی گاڑیاں اکثر پھٹی سیٹوں، خالی ٹینکیوں، گندے داغوں اور کچرے سے بھری ملتی رہی ہیں۔ کم ہی کسی کو ایسا مانگنے والا ملا ہوگا جو گاڑی واش کرکے، گیس یا پٹرول ڈلوا کر طریقے، سلیقے اور قرینے کا مظاہرہ کرکے واپسی کا ’’مرتکب‘‘ ہوا ہو۔ یہ مزاج کا نہیں ذہنی ساخت اور ذاتی اقدار کا بھی مسئلہ ہے۔ بنیادی تربیت کی غیر موجودگی اور تعلقات سے ایک ہی بار فائدہ اُٹھانے کی کوتاہ فکری کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر یہ انداز اور طرزِ عمل بہت دُکھ دیتا ہے۔ اچھے تعلقات پر ایک بُری سی لائن کھینچ دیتا ہے۔ اکثر محبت کے جذبات پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل یہ انہونی میرے ساتھ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ شہروز نے شام ڈھلے گھر آکر جب گاڑی مانگنے کے لیے تمہید باندھنی شروع کی تو میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ ہاں کروں یا ناں۔ وہ اصولی طور پر اس وقت مسقط میں تھا، مگر عملی طور پر ہربنس پورے میں ایک کمرے کا گھر بسا چکا تھا۔ لڑکی نے بھی گھر والوں کو یہی بتایا ہوا تھا کہ وہ جاب کے لیے مسقط گئی ہوئی ہے۔ اپنی والدہ کو وہ ہفتے دس روز بعد کسی پبلک بوتھ سے فون کرکے خیر خیریت کی اطلاع دے دیا کرتی تھی۔ جس کے نمبروں سے یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ فون کس جگہ سے آ رہا ہے۔ گھر اور گھر والوں سے دور اپنے گھر میں رہتے اور جمع پونجی ختم کیے انھیں کئی ماہ ہو چکے تھے۔ اب دونوں مل کر ڈھیر سارے آلو اُبالتے، سموسوں کا میٹریل تیار کرتے اور تین چار جگہ دے آتے۔ زندگی کی گاڑی برق رفتاری سے بھاگنے کے بجائے گھسٹنے پر آگئی تھی اور وہ دونوں اسے گھسیٹ رہے تھے۔ جسموں سے دلچسپی کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی تھی اور روز کی مشقت، پیسے کی کمی اور بےیقینی نے دل و دماغ کو پوری طرح گھیر لیا تھا۔

    شروع میں وہ ایک دو بار آیا تو بہت پرجوش تھا۔ ایسے لگتا تھا زندگی کے سب سے خوب صورت لمحے دونوں اکٹھے گزار رہے ہیں۔ میں نے بھی ہمدردی میں جذباتی ہو کر گھر میں موجود ضرورت کی تمام ایسی اشیا جو انھیں اپنی روزمرہ خانگی زندگی کو آسان اور آسودہ کرنے میں مدد دے سکتی تھیں، ایک رات بوری بھر کر اس کے حوالے کر دی تھیں۔ ان میں گیس کا چولہا، توا، ضرورت کے برتن، چائے بنانے والا ایک ساس پان، دو تین گلاس اور پلیٹیں شامل تھیں۔ لڑکی گھر سے رخصت ہو تو ماں کتنے ہی مان سے یہ سب کچھ دیتی ہے۔ ہر مشکل لمحے خود پہنچ جاتی ہے۔ خود تجربے کرنے والوں کو یہ مشکل خود بھگتنی پڑتی ہے۔ ایسے میں اکثر محبت بڑی مہنگی پڑتی ہے۔

    ان دونوں محبت کرنے والوں کے گھر والے لاہور میں تھے۔ ایک موبائل فون کی فرنچائز پر اُن کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہیں دوستی پروان چڑھی اور پھر دونوں نے’’مسقط‘‘ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا ’’مسقط‘‘ شمالی لاہور میں دریافت ہوا۔ ہم اپنے دل کے آس پاس رہنے والوں کے ساتھ کم ہی غیر مشروط محبت کرتے ہیں۔ اس محبت کی بنیاد میں کچھ ایسی چیزیں، جذبے، سوچ، پسند و نا پسند ضرور ہوتے ہیں جن کے باعث آنکھوں میں پسندیدگی اور آمادگی کے کوندے لپکتے ہیں۔ کبھی ایسا سگے رشتوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور فوری پسند کے عارضی بندھنوں کی مضبوطی بھی اسی احساس پر منحصر ہوتی ہے۔ رشتوں کی عمر لمبی ہوگی یا مختصر یہ کوئی پوشیدہ یا انوکھی سائنس نہیں ہے۔ پہلے قدم ہی پر اس کا تعین ہوجاتا ہے اور گزرنے والا ہر لمحہ اور واقعہ اس تعلق کی مضبوطی یا کمزوری واضح کرتا جاتا ہے، شاید یہیں کہیں محبت ہوتی ہے ۔ یہ جو کہتے ہیں۔ ’’لائی بےقدراں نال یاری تے ٹُٹ گئی تڑک کرکے‘‘ تو پھر محبت تو نہ ہوئی ناں، یہ تو ایک شاعرانہ تعلّی ہے۔ ’’ تڑک کرکے‘‘ یہ بھی نہیں ٹوٹتی۔ رشتے کی کمزوری اور بوسیدگی کا باعث بننے والا کوئی واقعہ، نامناسب بات یا ناپسندیدہ عمل ہی ہوتا ہے جو کسی طور آپ کا دل قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور آپ رشتہ مزید نبھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ برداشت کی کمی بیشی ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے اور یہ فرق اس کے تعلقات، دوستوں، رشتوں کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ اگر آپ کی زندگی میں باہمی تعلقات کے لیے کم سے کم طے شدہ اصول، بندشیں، ویلیوز، اوربنیادیں ہی نہ ہوں تو غور کیجیے کہ انسان ہونے کا شرف اور فرق ہی ڈانوا ڈول ہوجائے گا۔ خاندان اور عزیز و اقارب عام طور پر مضبوطی اور قوت کی بیرونی دیوار ہوتے ہیں، جہاں یہ بھی میسر نہ ہو تو محبت اور تعلق کی حفاظت کی کوئی بیرونی تہ ہی باقی نہیں رہتی۔ لوَ میرج کرنے والوں میں علیحدگی اور طلاق کے چار ہزار سے زیادہ مقدمات اس وقت صرف لاہور شہر کی عدالتوں میں انھیں رُلا رہے ہیں اور احساس دلا رہے ہیں کہ خاندان کی مرضی کے خلاف، والدین سے بغاوت کر کے، صرف کسی چہرے کی خوب صورتی دیکھ کر سب کچھ چھوڑنے اور سارے رشتے نچھاور کرنے والے اکثر لوگ آخر میں خالی ہاتھ ملتے نظر آتے ہیں۔ کسی مشکل لمحے میں آس پاس کوئی سہارا دینے والا، کوئی ڈھارس بندھانے والا بھی نہیں ملتا۔ وہ بھی تب یہی پوچھتے ہیں کہ محبت ایسی ہوتی ہے۔

    شہروز نے جھجکتے ہوئے سر جُھکایا اور بولا ’’سر! گاڑی چاہیے تھی۔‘‘
    ’’اس وقت!‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا گھروں کو واپسی ہو رہی ہے۔‘‘
    بولا ’’نہیں! وہ مہرو دو دن سے ہسپتال میں ہے۔ اس کا ابارشن (اسقاط حمل) کروایا تھا۔ بلیڈنگ ہی نہیں رکی، دایہ کے بعد قریبی ہسپتال والوں نے جواب دے دیا تھا۔ اب ایک دوسرے ہسپتال میں ہے، میرے پاس پیسے ہی ختم ہو گئے تھے کس سے لیتا۔ آج دن بھر میں اِدھر ُادھر پھرتا، شام کا انتظار کرتا رہا۔ اب تک تو اس کی جان نکل گئی ہوگی۔ اس کی ڈیڈ باڈی گھر تو لے جا نہیں سکتا، کسی قبرستان ڈال آئوں گا۔ اس کے لیے گاڑی ضروری ہے۔‘‘
    مجھے لگا کسی ننگی تار نے چھو لیا ہے۔ حیرت، دکھ اور بےیقینی کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ مجھے سنبھلنے میں وقت لگا۔
    ’’تمھاری تو محبت کی شادی تھی۔ تم تو اس رشتے سے کانوں تک خوش تھے۔‘‘ اپنی محبت کی ایسی بے قدری کرو گے۔
    ’’وہ تو ٹھیک ہے سر!‘‘ وہ سرجھکا کر بولا۔ ’’ہم نے اصل میں شادی نہیں کی تھی۔ بس اکٹھے رہ رہے تھے کیونکہ ہمیں لگتا تھا ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ہم نے خوشی خوشی ایسا کر لیا تھا، یہ خبر نہیں تھی کہ اسے لمبا کھینچنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
    خاموشی ایک طویل دریا کی طرح ہمارے درمیان بہنے لگی۔
    ’’محبت ایسی ہوتی ہے؟‘‘ مجھے بعد میں احساس ہوا۔ یہ سوال میرے جسم میں دوڑتے غصے اور نفرت کے باعث کانپ رہا تھا۔
    ’’جس کے ساتھ تم نے محبت کی، کسی قاعدے کُلیے کے بغیر صرف جسمانی لذت کے لیے دن رات ساتھ گزارے۔ تمھارا بیج ہی اس کی موت کا باعث بنا۔ اب تم اسے کسی لاوارث کتے کی طرح پھینک آئو گے؟‘‘
    ’’کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔
    ’’میں نے بہت غور کیا۔ اس کے گھر والے تو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ابھی انھیں نہیں پتا مگر جونہی خبر ہوگی، قاتل میں ہی ٹھہروں گا، میں اُس کی نوبت ہی نہیں آنے دوں گا۔ اس کی لاش دریافت ہونے تک کوئی پہچان ہی نہیں سکے گا۔ یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ہم کبھی اکٹھے بھی رہے ہیں۔‘‘
    ’’اور تم؟‘‘
    ’’میرا خیال ہے میں گھر واپس چلا جائوں گا۔ پچھلے کئی ماہ میں نے بہت مشکل اور مالی پریشانی کے دیکھے ہیں۔‘‘
    میں ذاتی طور پر بہت بامروت ہوں۔ کتنی بار تو چیزیں اور باتیں ناگوار بھی ہوں توآخری حد تک برداشت کرجاتا ہوں مگر اس روز جیسے میرے صبر اور برداشت کی وہ حد آگئی جس نے مجھے اٹھاکر کھڑا کر دیا۔ دروازے کی طرف رخصت ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:
    ’’میں معذرت خواہ ہوں۔ گاڑی نہیں دے سکوں گا۔ پچھلی سیٹ پہ لگنے والے گناہ کے دھبے مٹانے میں زندگی گزر جائے گی اور میں جانتا ہوں، وہ تب بھی نہیں مٹ سکیں گے۔ تم بہادر آدمی ہو، اس بیر بہوٹی لاش کو کہیں بھی ٹھکانے لگا آئو گے اور تمھیں فرق بھی نہیں پڑے گا۔ تمھیں وہ یاد بھی نہیں آئے گی۔‘‘

    بے شک وقت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو الزام دینے کی لذت سے بےنیاز ہوتا جا رہا ہوں۔ کبھی اس بات پر بھی دکھ ہوتا تھا کہ ایک دوسرے سے مانگ کر لی جانی والی کتابیں، گندی کرکے، جلدیں خراب کرکے اور استعمال کرکے برے حال میں واپس کیوں کی جاتی ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو اپنے اس رویے اور بُرے طرزِ عمل کی بدصورتی کیوں نظر نہیں آتی؟ ایسے بے حِس لوگ چیزیں بےقدری اور بےدَردی سے واپس کرتے ہوئے معذرت بھی نہیں کرتے۔ اُلٹا بعد میں فخریہ بیان کرتے اور قہقہے لگاتے ہیں جیسے کوئی تاریخی قلعہ فتح کر لیا ہو۔
    انسانی پسند نا پسند، آس پاس ہونے والی باتیں، اُن کو دہرانے والی محفلیں ہی عادتوں میں ڈھلتی ہیں اور عادتیں شخصیات تعمیر کرتی ہیں۔ ہماری ہر شخصیت کی تعمیر میں الگ الگ طرح کی خرابیاں گھس آئی ہیں۔ یہاں تک کہ جن باتوں پر شرمانا چاہیے کہ اب ان کا ذکر معمول کے واقعے کی طرح ہونے لگا ہے۔ دوسروں کی چیزوں کے استعمال پر فخر کرنے اور انھیں بےوقوف اور بدھو بنا کر خوش ہونے کی جبلت اب اپنے جیسے زندہ انسانوں اور ان کے جسموں سے کھیلنے، حَظ اُٹھانے اور پھر کسی استعمال شدہ بےوقعت ٹشو کی طرح اٹھا کر پھینکتے ہوئے اسی لیے اب ذرا سا دَرد بھی نہیں ہوتا۔

    کبھی ایک صحافی کا سنا کرتے تھے جو دفتر آ کر نعرہ مارا کرتا تھا چالیس بیالیس، سننے والے سبھی جان جایا کرتے تھے کہ یہ جھوٹ یا سچ انسانی جسموں سے کھیل کھیلنے کی شرمناک تعداد کا ذکر ہو رہا ہے، بالآخر اسے ایک روز شہر بدر ہونا پڑا تھا مگر اسے اپنی محبتوں کا بڑا مان ہوا کرتا تھا، وہ اسے محبت ہی کہا کرتا تھا اور کئی لوگوں کے لیے ترغیب کا باعث بنتا تھا۔ میں تب بھی سوچتا تھا کیا محبت ایسی ہوتی ہے؟

    ایک ادارے میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے انگریزی کے ایک سینئر ایڈیٹر پروفیسر مسعود خان صاحب دل کا دورہ پڑنے پر اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے انتقال کر گئے، ہم ابھی اسی بات پر دکھی تھے کہ عبدالسلام نے اپنی کار دینے سے انکار کردیا تھا، متبادل انتظام کرکے جب جناز ہ اٹھا کر دفتر سے نکل رہے تھے تو ایک کولیگ نے اچانک جنازہ چھوڑ دیا اور غائب ہوگیا۔ واپسی پر پوچھا تو بولا ایک کم لباس لڑکی پر نظر پڑی تھی، پہلی نظر میں محبت ہوگئی، ایسے میں جنازے کے ساتھ کیسے چلا جاتا؟ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کیا واقعی محبت ایسی ہوتی ہے؟ میں نے تو کسی کتاب اور رسالے میں تب تک ایسی محبت کا تذکرہ تک نہیں پڑھا تھا۔

    نسیم حجازی کی لکھی ہوئی پاکیزہ سی محبت جس میں چند لمحوں کے لیے دل کو خوشگوار دھڑکنیں محسوس ہوتی تھیں بھلا کیوں کر بری لگتی؟ سوچتا تھا کہ ایسی محبت اگر کسی کو مل جائے تو بادشاہی جیسی ہوتی ہوگی۔ سنتے تھے محبت دل و نگاہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ دوسرے کے لیے جینے مرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی کی ہر خوشی کا سوچنے میں لذت آنے لگتی ہے۔ مگر ارادہ ہی محبت کے لفظ کے ناروا استعمال کا ہو، محبوب کے جسم سے کھیلنے کا اور اسے بےوقعت کرکے، پھر ایک اور گھر ایک نئے دَر کی تلاش کا ہو تو کسی حد کا تعین کیسے ہو سکتا ہے؟ کسی کو اس حد کے اندر کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ بدقسمتی سے اپنے یونیورسٹی کیرئیر کے دوران بطور ایچ آر ڈی ہیڈ ایسی شکایات سے بھی واسطہ پڑا کہ یقین ہی نہ آتا تھا۔ امریکہ سے واپس آنے والے ایک ڈاکٹر استاد کلاس میں طلبہ کو فخریہ بتا کر گھر گئے کہ انھوں نے کتنے جسموں سے کھیلا۔ ان کا نام تو مسلمانوں جیسا تھا کام البتہ ضرور شرمسار کرنے والے تھے، دُکھ تو یہ بھی ہے کہ تجربے، سنیارٹی اور ڈگریوں میں بھی نمایاں تھے۔ ان سے ادارے نے ہمت کر کے تحقیق کی اور اگلے ہی روز صرف اسی وجہ سے معذرت کر لی تو جوہر ٹاؤن میں واقع ایک دوسری یونیورسٹی نے دونوں ہاتھوں سے انھیں گلے لگا لیا۔ اب وہ وہاں اپنے افعال شنیعہ کا فخریہ بیان کرتے ہیں اور گناہِ جاریہ کو کاشت کرتے ہیں۔

    مجھے معاف رکھیے ایس ایم ایس کے ذریعے جنسی لطائف بھجوانے سے شروع ہونے والی عادت، جنسی باتوں اور مناظر اور تصاویر میں دلچسپی ہی ایک روز بےجھجک ہونے کا موجب بنتی ہے۔ ساری حیا ہی جاتی رہتی ہے۔ یہ بات ایک بار شہروز نے ہی بتائی تھی جو کبھی اپنی معصومیت کے باعث میرا بےحد عزیز شاگرد تھا۔ وہ کب اپنی معصومیت گنوا بیٹھا مجھے علم ہی نہ ہو سکا، کیاامیری محبت نے آنکھوں پر پٹی باندھے رکھی اور میں اس میں آتی تبدیلی ہی نہ دیکھ سکا۔ ہم کہاں کے دانشور اور دانا ہیں جو اپنے ساتھ جینے اور بظاہر محبت کا دعویٰ رکھنے والے پیاروں کی بدلتی ذہنی حالت کا بھی اندازہ نہیں کرپاتے۔

    شہروز نے سرجھکا کر دروازہ کھولا اور اندھیرے کا حصہ بن گیا۔ میں کتنی دیر ڈرائنگ روم میں پائوں پٹختا پھرا۔ پھر بےدم ہو کر بیٹھ گیا۔ میری اہلیہ کافی دیر تک کمرے میں کوئی آواز نہ پا کر دستک دے کر اندر آئی تو بھی مجھے خبر نہیں ہوئی۔ اس نے گھبرا کر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا جو ایک ایسی لڑکی کے لیے آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا جس کو میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور جو اس شب اپنی ہی محبت اور محبوب کے ہاتھوں کسی بےنام قبر کے کیڑوں کا رزق بننے والی تھی۔
    ’’وہ کہتا ہے اسے کسی قبرستان میں پھینک آئے گا۔ کیا وہ کوئی مردہ بلی ہے۔ جسے یوں بے دَردی سے پھینک دے گا۔ جانے کس نصیبوں جلی ماں کی بیٹی ہے جو یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ ایک بےقدرے اور خود غرض کے ساتھ کئی ماہ جیتی اور سوتی رہی۔ یہ مائیں ایسی اندھی کیوں ہوجاتی ہیں کہ انھیں اتنا بھی پتا نہیں چلتا کہ کب ان کی بیٹیاں جھوٹ کے کاغذ سے بنی کشتیوں پر ڈوبنے کے لیے اسی محبت کے نام پر جا بیٹھتی ہیں۔ لوگ اپنی ناکارہ سی کار، موٹر سائیکل دیتے ہوئے سو دفعہ سوچتے ہیں، واپسی پر پہچانی نہ جائیں تو بھولے بھالے آیت اللہ کی طرح دوڑے پھرتے ہیں کہ یہ کیا اور کیسی تبدیلی رونما ہوگئی ہے۔ یہ کیسی بے نیازی ہے کہ ان جانے لوگ محبت کے نام پر جسم کا ٹکڑا چیل کَووں کی طرح اُٹھا کر لے جاتے ہیں، بےدردی سے استعمال کرتے ہیں اور پھر کسی استعمال شدہ ٹشو کی طرح بےوقعت کر کے بےنیازی سے پھینک دیتے ہیں، اور جنم دینے والیوں کو خبر بھی نہیں ہوپاتی۔ میری بےجی کیوں کہتی تھیں کہ اولاد تو ماں کی انگلیوں اور ان کے پوروں میں زندہ ہوتی ہے، سب سے پہلے ماں ہی کو علم ہوتا ہے کہ اندر کا موسم بدل رہا ہے۔ کیا موسم زیادہ بدل گئے ہیں یا مائیں ہی موسموں سے زیادہ بدلتی جا رہی ہیں۔‘‘

    میں دُکھ بھرے غصے سے مسلسل بڑبڑا رہا تھا اور وہ بات کا مفہوم اور پسِ منظر جاننے کے لیے پوری ہمدردی، صبر اور توجہ سے مجھے دیکھ رہی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ محبت کبھی کبھی اتنی بری لگنے لگتی ہے کہ اس ظالم کا ذکر کرنے کو بھی دل آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بندہ کسی اپنے سے کیا کہے کہ محبت ایسی کیوں ہوتی ہے۔

    (اختر عباس مصنف، افسانہ نگار اور تربیت کار ہیں۔ سترہ برس نوائے وقت کے پھول میگزین، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ اردو میں نئی نسل کے لیے ان کی کتابیں دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی شخصیت سازی پر پانچ منی بکس ہیومن اپیل لندن نے پانچ لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے آزاد کشمیر کے ایک لاکھ طلبہ تک پہنچائیں۔ انہیں اس سال یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ایک کتاب’’ آداب زندگی کے‘‘ کی اشاعت نے بھی اسی برس پچاس ہزار کا ہدف عبور کیا۔ اخترعباس ممتاز تربیتی ادارے ہائی پوٹینشل آئیڈیاز کے سربراہ ہیں۔ ان سے ان کے فیس بک پیج akhter.abbas اور ای میل akhterabas@ymail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)

  • وہ قصہ، قصہ پارینہ ہوا – عشوا رانا

    وہ قصہ، قصہ پارینہ ہوا – عشوا رانا

    وہ اپنی جگہ سن ہو چکی تھی. اسے اپنے سنے پہ یقین نہیں آرہا تھا. مگر حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے. یقین آئے یا نہ آئے مگر یقین ہو ہی جاتا ہے.
    یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس نے نئی نئی فیس بک آئی ڈی بنائی تھی. اسے اپنی طرح کے لوگ پسند تھے. سیدھی بات نہ کرنے والے مگر سیدھا سوچنے والے، اپنی طرح کے ذہین لوگ.
    پھر ایسے میں اس سے بات ہو گئی. اسے اچھا انسان لگا تھا وہ. اس کی باتوں میں مزاح کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تھا. سر پھرا سا مگر عزت کر نے والا.
    ”ہم بس دوست ہیں. یہ مت سمجھنا کہ میں تمہارے لیے مرا جا رہا ہوں. میرا ان باکس لڑکیوں کے میسجز سے بھرا پڑا ہوتا ہے. رکو ذرا تمہیں اسکرین شارٹس بھیجتا ہوں.“
    وہ اس کے میسج پہ مسکرائی تھی. اور پھر اسکرین شارٹس دیکھ کر بہت ہنسی تھی. وہ اعتماد کرنے لگی تھی اس پر. وہ بھولتی جارہی تھی کہ لڑکے کبھی دوست نہیں ہوتے. وہ بس آپ کے بھائی ہوتے ہیں اور بھائی ہمیشہ عزت کرتے ہیں.
    ”تم ان لڑکیوں میں سے کسی سے بات کیوں نہیں کرتے.“ پریشے نے پوچھا تھا.
    ”کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تم اچھی دوست ہو. باقی کوئی بھی نہیں.“ اس کے جواب پر وہ مطمئن ہو گئی تھی. مگر اک احساس اس کے دل میں رہتا تھا کہ اس طرح سے بات کر نا ٹھیک نہیں ہے. وہ کوئی مذہبی قسم کی لڑکی نہیں تھی مگر مذہب سے لاتعلق بھی نہیں تھی.
    خیر دوستی بڑھتی گئی، شیطان کو موقع ملتا رہا کہ مرد و عورت جب تنہا ہوں تو شیطان ساتھ ہوتا ہے.
    وہ اسے سب با تیں بتانے لگی تھی، وہ سنتا تھا، مشورے دیتا تھا، سب ٹھیک تھا کہ ایک دن اس کی باتوں نے اسے حیران پھر پریشان کر دیا.
    وہ اس سے محبت کے دعوے کر رہا تھا. وہ اسے بتا رہا تھا کہ وہ شروع سے اسے پسند کرتا ہے حالانکہ کبھی دیکھا نہیں اس نے. عجب فلسفے تھے، عجب قصہ، عجب باتیں. گونجتی رہ گئی دماغ میں پرانی یادیں اور باتیں.
    وہ اپنی بات کہہ چکا تھا مگر پریشے کو ہوش اب آیا تھا.
    اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اسے دوست سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی. سو یہی کہا اس نے.
    یہ میرا آخری میسج ہے. میں نے جو کہا مانتا ہوں غلط کہا مگر سچ کہا.
    پسند کوئی بھی کر سکتا ہے مگر پسند کو پسند کیا جانا چاہیے. غلط نہیں کر نا چاہیے. اور چھپ کر کیا جانے والا کام صحیح بھی ہو تو غلط ہوتا ہے.
    وہ چھوڑ گیا تھا مگر اپنے پیچھے سوال چھوڑ گیا تھا.
    پریشے کو سمجھ آگیا تھا کہ ہمیشہ ہر کوئی اتنے آرام سے چھوڑ کر جانے والا نہیں ہوتا، اور اعتبار کو اتنا آسان نہیں بنانا چاہیے کہ آپ کے لیے مشکل ہوجائے. تعلق ہمیشہ خونی رشتوں سے ہی ہوتا ہے. سب لوگ اچھے نہیں ہوتے، سب برے بھی نہیں ہوتے. اس نے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تھی. پریشے نے موقع دیا تھا ظاہر کرنے کا. اور موقع بہت قیمتی ہوتا ہے. یہ صرف اسی کو ملتا ہے جسے خدا اپنے ساتھ رکھتا ہے.
    وقت بے مہار لگام کی طرح ہوتا ہے. یا ہاتھ مشکل سے آتا ہے یا ہاتھ آنے کے لیے آپ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتا ہے.
    سنبھل جاؤ کہ وقت ہے، ڈر جاؤ کہ وقت نہیں رہےگا، اور سوچ لو کہ وقت نہیں رہے گا تو کیا کرو گے.