Tag: مجاہد

  • تین بار شہید ہونے والا مجاہد – احساس بھٹی

    تین بار شہید ہونے والا مجاہد – احساس بھٹی

    احساس بھٹی وہ مقبوضہ کشمیر میں سوپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین نے ایک مرتبہ اس کی موت کا ماتم تو اس وقت کیا جب وہ نو دس سال کی عمر میں ٹی وی پر دور درشن کا کوئی ڈرامہ دیکھ کر بچپنے میں اسی عمل کو دہراتے ہوئے گلے میں چادر ڈال کر خود کو پھانسی دے بیٹھا۔ اس کو بے ہوشی کی حالت میں جب نیچے اتارا گیا تو اس کے والدین اسے مردہ سمجھ کر رو پیٹ رہے تھے کہ اسی اثنا میں اسے ہوش آگیا۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی پہلی موت تھی جس کے بعد گھر کا ماحول کئی دن تک سوگوار رہا۔ والدین کی نظر میں وہ دوسری مرتبہ اس وقت شہید ہوا جب وہ آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ انہی دنوں مقبوضہ وادی میں آزادی کی مسلح جدوجہد اپنے جوبن پر تھی۔نوجوان دھڑا دھڑا مسلح تحریک میں شمولیت کے لیے سرحد پار کر رہے تھے۔ جب پوری وادی کے نوجوانوں میں تحریک کا بخار سر چڑھ کر بول رہا تھا تو وہ بھی اپنی شوخ طبیعت کے باعث ہر سرگوشی میں اپنے کان گھسا دیتا تھا۔ جب سولہ سترہ سال سے لے کر چوبیس پچیس سالہ جوانوں میں ’’اے کے 47‘‘ اٹھا کرغاصب بھارتی فوج سے آزادی اور بدلہ بیک وقت لینے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس کے اندر بھی ایک مجاہد پرورش پا رہا تھا۔ اس نے بھی دل ہی دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ بھی مجاہد بن کران بھارتی فوجیوں کو ’’جہنم واصل‘‘ کرے گا۔ جس دن اس کے گاؤں سے چند افراد پر مشتمل مختصر قافلہ اس دشوار سفر پر روانہ ہوا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ اس کے ساتھی اسے بچہ سمجھ کر اپنے ساتھ لے جانے پر تیار نہ تھے لیکن اس کے پاس انہیں منانے کے لیے کارگر دھمکی موجود تھی کہ اگر وہ واپس گیا تو ان کے گھر جا کر بتا دے گا کہ وہ سرحد پار کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بادل نخواستہ اس ’’ضدی مصیبت‘‘ کو ساتھ لے جانے کی حامی بھرلی۔ جیسے تیسے وہ سرحد پار پہنچا تو مجاہدین کمانڈر نے اتنے چھوٹے بچے کو ساتھ لانے پراس کے ساتھیوں اور گائیڈز کو سخت برا بھلا کہا لیکن اب واپسی کا راستہ تو بند تھا لہذا اسے بھی ’’ٹریننگ‘‘ میں شریک کر لیا گیا۔ ادھر اس کے والدین نے اس کی تلاش شروع کی اور تھک ہار کر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ مرچکا ہے۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی دوسری موت تھی۔ رونا دھونا بھی ہوا اور ماتم بھی لیکن جب تک والدین اپنے لخت جگر کی لاش اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں انہیں اس کی موت کی خبر پر پوری طرح یقین نہیں آتا۔

    اپنی دوسری موت کے تقریباً پانچ سال بعد اس نے اسی علاقے کے کسی مجاہد سے دور پار کا فون نمبر لے کر اپنے گھر پیغام بھیجا کہ وہ صحیح سلامت ہے اور آزادکشمیر میں ہے، یوں انہیں یقین آیا کہ ان کا بیٹا دلاور خان (فرضی نام) زندہ ہے۔ ادھر اس کی کم عمری کے باعث مجاہد کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ ابھی اس کی پڑھنے کی عمر ہے لہذا اسے کیمپ سے نکال کر ایک فلاحی ادارے کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک اور مجاہد جو اس کا ہم نام تھا وہ ایک فدائی حملے کے بعد بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہوگیا۔اس کی لاش بھی ناقابل شناخت ہوکر رہ گئی۔ وادی میں جب دلاور خان کی شہادت کی خبر پھیلی تو اس کے والدین تک بھی پہنچ گئی۔ نیز ان کے کسی جاننے والے مجاہد نے انہیں خود جا کر بتایا کہ شہید ہونے والا دلاور ہی تھا۔ یہ اس کی تیسری شہادت یا موت تھی۔ ان دنوں سرحد کے دونوں اطراف موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے لہذا اس نے اپنے والدین کے تیسرے ماتم کے کافی عرصے بعد کسی طرح فون کرکے ان سے بات کی تو انہیں اس بات پر یقین نہ آیا کہ وہ ان کا بیٹا ہی ہے۔ اس نےاپنے بچپن کے قصے سنا کر اور گھر کی کچھ باتیں بتا کر انہیں پھر سے یقین دلایا کہ وہ زندہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب بھی وہ گھر پرفون کرتا تھا، اس دن ان کے گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا کیونکہ تھوڑی دیر بعد بھارتی فوج آ کر اس کے گھر پردھاوا بول دیتی تھی۔ اس کے والد اور بھائیوں پر تشدد کیا جاتا۔ وہ دن تو زخم سہلانے میں گزرجاتا۔

    اس کے والد کا انتقال دو سال پہلے ہی ہوا ہے لیکن جب تک وہ زندہ رہے ہر ہفتے انہیں پولیس سٹیشن پر جا کرحاضری دینا پڑتی تھی۔ دلاور جب گھر سے نکلا تھا، اس وقت وہ چودہ پندرہ سال کا بچہ تھا لیکن اب وہ چھتیس سال کا باشعور آدمی ہے۔ میری زندگی کے کئی سال اس کی رفاقت میں گزرے ہیں۔ میں اس کے شب و روز کا گواہ ہوں۔ میں نے اسے مسلح تحریک کے بانیوں کو کوستے بھی سنا ہے۔گزشتہ عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر پاکستان کی خاموشی کے باعث ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اس کے شکوے بھی سنے ہیں لیکن اب عمر کے اس حصے میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک نے اس کے اندر چودہ سالہ دلاور کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ماں اور باپ کو تین بار اپنی شہادت کی خبر سنانے والا دلاور اب اکیلی ماں کو اپنی چوتھی شہادت کی خبر سنانے کے لیے بےتاب نظر آتا ہے۔

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (5) – مولوی روکڑا

    پرویزمشرف کی بولڈ بیان بازی اور تقریروں سے تو ہر کوئی متاثر تھا، میں ابھی بھی انھیں اچھا سپیکر مانتا ہوں، لیکن عملی طور مشرف کی پالیسیز نے پاکستان کو کھوکھلا کیا، معیشت زوال پذیر ہوئی. جہاں ٹی ٹی پی ابھر رہی تھی اور پاکستان کو نقصان پہنچا رہی تھی، وہاں لبرل، سیکولر، ملحدین اور سرخ پوشوں وغیرہ نے بھی سر اٹھایا اور اپنے اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے لگے. غیر ملکی این جی اوز کا نیٹ ورک پھیلنے لگا، یہ این جی اوز نہ صرف جاسوسی کا کام کرتیں بلکہ ساتھ ساتھ ریاستی اداروں سے عوام کو متنفر کرنے کا کام کرتی رہیں. خفیہ اداروں کے لیے ایک وقت میں بہت سے محاذ کھل چکے تھے، اور ڈبل گیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. پرویز مشرف نے میڈیا کو بھی اتنی آزادی دی اور اسے اتنا پھیلنے دیا کہ اس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہیں. قوم کی تقسیم در تقسیم کا ایک ذمہ دار یہ میڈیا بھی ہے.

    مذہبی حلقے لال مسجد آپریشن پر بٹ کر رہ گئے. یہ وہی لال مسجد ہے جس نے روس کے خلاف جہاد اور بعد کے ادوار میں اہم کردار ادا کیا تھا. لال مسجد پر میڈیا کی رپورٹنگ اور مشرف کو آپریشن کے لیے قائل کرنے والے مشیر دہرے میعار سے کام لیتے رہے اور دوسری طرف لال مسجد والے اپنی ضد پر جمے رہے. قحبہ خانہ چلانے والی آنٹی شمیم کی خاطر مسجد کا محاصرہ کوئی عقل مندانہ اقدام نہیں تھا. لال مسجد والوں کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دینا چاہیے تھا کہ قحبہ خانے بند کرواؤ نہ کہ خود سے کوئی کارروائی کی جاتی. لال مسجد آپریشن کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی.

    افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈران میں سے کوئی ایک لیڈر بھی پاکستان کی بقا کے لیے کھڑا نہیں ہوا، جمہوریت نے مک مکائی سیاست کا روپ دھار لیا، ذاتی فوائد تک محدود سیاست دانوں نے مشرف کے خلاف کوئی خاص مزاحمت نہ کی. ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بڑھتی چلی گئیں، مسجد سے مندر، چرچ ، بازاروں میں خود کش حملے روز کا معمول بن گئے. ڈرون حملوں میں بےگناہ لوگ مر رہے تھے، ان کے بچے اور خاندان کے لوگ دہشت گردی کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہے تھے. پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو بھی دشمنوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا، امریکیوں کو کسی خاص سیکورٹی چیکنگ کے بغیر ملک میں داخل ہونے دیا گیا، ان دو عوامل نے بھی دہشت گردی میں اضافہ کیا.

    پاکستان میں لادین و سیکولر طبقے نے اس مفاداتی جنگ کو فرقہ واریت کا لباس پہنانے کی کوشش کی. جہاں عالمی میڈیا اسلام کو بدنام کر رہا تھا وہاں میڈیا فرقہ واریت کی فضا پھیلا رہا تھا. دہشت گردی کا نشانہ اگر اقلیت بنتی تو اسے فرقے سے جوڑ دیا جاتا، اس کے مقابلے میں اگر اکثریت سے کوئی قتل ہوتا تو اس کی چھوٹی سی خبر بنتی. حقیقت یہ ہے کہ ہر پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوا، کسی دہشت گرد نے مارنے سے پہلے کسی بھی مقام پر لوگوں کے مسلک و مذہب نہیں پوچھے، لیکن عوام کو لسانی و مذہبی فرقہ واریت میں تقسیم کیا گیا. اسلام پر دہشت گردی کا لیبل چپکایا گیا. ڈاڑھی والے سے پہلے مسلک پوچھا جاتا اور پھر اس مسلک کے مطابق فتویٰ لگا دیا گیا. دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا پر مختلف دہشت گرد تنظیموں کے نمائندے ذمہ داری قبول کرتے لیکن آج تک چاہے وہ افغانستان میں بیٹھا ہو یا پاکستان میں، کسی ترجمان کا آپریشنل محل وقوع ٹریس نہیں کیا جا سکا. بہت سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ایک سے زیادہ تنظیموں نے قبول کی. اس کے علاوہ ٹی پی پی کے نام پر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نے اپنے مخالفین اور اپنے ہی لوگوں کو معاف نہ کیا اور ایک تیر سے دو شکار کھیلے. الزام تراشی کے کھیل اور بریکنگ نیوز کی دوڑ نے ذہنوں کو نفرت اور انتشار کا شکار بنا دیا.

    پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد آصف زرداری کی حکومت کی شکل میں ملک پر ایک اور زوال آیا، معیشت مزید لولی اور لنگڑی ہو گئی. جمہوریت و سیاست جمہوری انتقام کے طور پر سامنے آئے. بےنظیر بھٹو کے قتل کا معمہ تو کبھی حل نہیں ہو گا لیکن اس دور حکومت میں ملک کی جڑیں مزید کھوکھلی کی گئیں. ٹرانسپیرنسی کے مطابق اس حکومت کے آخری تین سال میں 3000 ارب روپے کی کرپشن ہوئی. اور نواز حکومت کیا گل کھلا رہی ہے اس کے کوئی اعداد و شمار تو میرے پاس نہیں مگر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں. جس ملک میں اقتصادی بحران عروج پر ہو وہاں کسی عام شخص کا پیسے کے حصول کے لیے ڈاڑھی رکھ کر دہشت گرد بن جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے.

    اس وقت مفاداتی جنگ مذہبی سلوگنز کے ساتھ لڑی جا رہی ہے. یہ سچ ہے کہ ان تنظمیوں میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہین جو کسی وقت افغانستان میں روس کے خلاف لڑتے تھے، مگر یہاں پالیسیز بدلیں تو ان کے مفاد بھی بدل گئے، روس کے خلاف لڑنے والے کچھ دھڑے اقتدار کے لیے بھی لڑتے رہے. ( جاری ہے )

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    نوے کی دہائی میں جہاں فرقہ واریت کی چنگاری پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی وہاںروس کو افغانستان میں شکست دینے کا صلہ ہمارے دیرینہ دوست امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دیا. جب پاکستان نے 1998ء میں انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو امریکہ نے ایک دفعہ پھر اقتصادی پابندیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا جس کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں روپے نے ڈالر کے مقابلے میں 30 فیصد قدر کھو دی. روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا. کراچی اسٹاک ایکسچینج کی قدر 40 فیصد کم ہو گئی، چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم جناب میاں نواز شریف مجبورا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قدموں میں جا بیٹھے. اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے والا ملک صرف سعودی عرب ہی تھا، جس نے پاکستان کو مفت تیل دیا، اور مالی امداد کی.

    پرویزمشرف نے مارشل لا لگایا تو پابندیوں کے باوجود شروع میں معیشت میں بہتری آئی مگر پھر نائن الیون جیسا سانحہ رونما ہو گیا. نائن الیون کیوں ہوا، کس نے کیا؟ اس کی حقیقت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو، لیکن امریکہ کی اسامہ دشمنی کا آغاز اس سے نہیں ہوا تھا بلکہ اصل مسلہ تب شروع ہوا جب 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب کو شک ہوا کہ عراق کا اگلا ہدف سعودی عرب ہوگا، اسی خدشہ کی بنا پر سعودی حکومت نے امریکی فوجیوں کو اپنی سرزمین میں تعینات کرنے کی اجازت دی، جس پر اسامہ بن لادن نے تنقید کی کیوں کہ اسامہ نہیں چاہتا تھا کہ کفار کی افواج کے پاؤں مقدس سرزمین پر پڑیں، اسی بنا پر امریکہ کو اسامہ بن لادن ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا. امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے اسامہ کو سعودی عرب سے دربدر کر دیا گیا اور اسامہ یمن چلا گیا! لیکن پروپیگنڈا جاری رکھا. امریکی حکومت کے لیے اسامہ افغان جہاد کے دوران عظیم مجاہد، عظیم کمانڈر اور افغانستان کا رکھوالا تھا، کیوں کہ وہ روس کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اور اس کا فائدہ کہیں نہ کہیں امریکا کو ہو رہا تھا، اسی لیے اسامہ بن لادن اور اس کے جنگجوئوں کوامریکی اور سعودی حکومتیں مالی امداد فراہم کرتی تھی. بعض تجزیہ کاروں نے یہاں تک کہا کہ اسامہ بن لادن نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے سی آئی اے سے سکیورٹی ٹریننگ لی تھی، اور اسامہ کو مقدس جنگ کا ہیرو قرار دیا گیا تھا.

    اسامہ اس وقت دہشت گرد بنا جب اس نے امریکی کی مڈل ایسٹ خاص کر سعودی عرب میں موجودگی پر تنقید کرنا شروع کی. اسامہ پہلا شخص نہیں تھا جسے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، نیلسن منڈیلا جیسا عظیم رہمنا بھی مغرب کی نظر میں کبھی دہشت گرد تھا، اسامہ اور نیلسن منڈیلا کی دہشت گردی اور ہیرو کی داستان میں فرق اتنا ہے کہ نیلسن منڈیلا پہلے انگلینڈ کی نظر میں کالا دہشت گرد اور بعد میں ہیرو ہوا جبکہ اسامہ امریکہ کی نظر میں پہلے ہیرو تھا اور بعد میں دہشت گرد بنا.

    نائن الیون میں ایک بھی افغانی ملوث نہیں تھا مگر افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی کیوں کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار دیا، افغان حکومت نے امریکا سے اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا کہ پھر نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ تھا. انھوں نے اسامہ کو ایک تیسرے فریق کے حوالے کرنے کی بھی پیشکش کی مگر اسے مسترد کر دیا گیا. آج پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک کے دشمنوں نے مغرب میں پناہ لے رکھی ہے، تو کیا مغرب ان دشمنوں کو پاکستان یا بنا ثبوت کے کسی دوسرے ممالک کے حوالے کرے گا؟ مغرب اپنے دفاع کے لیے انٹرنیشنل لا اور ہیومن رائٹس جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ جاتا ہے لیکن اگر یہی پریکٹس کمزور ممالک کریں تو ان پر چڑھائی کر دی جاتی ہے. یہ تو سب جانتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پرویزمشرف کو بش کے ایک پیغام نے ڈھیر کر دیا ”تم ہمارا ساتھ کھڑے ہو یا ہمارے دشمن“
    (جاری ہے)
    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (1) – مولوی روکڑا

    آج کل اگر کوئی دہشت گردی کی وجوہات پر سوال اٹھائے تو وہ ہمارے کچھ طبقوں کے لیے دہشت گرد سے کم نہیں ہے ! اور کوئی خاموشی سے اپنی زندگی گزار رہا ہو یا پھر دہشت گردی کے عوامل سے ہٹ کر کچھ دینی کام کر رہا ہو، اس کو بھی مشکوک نظروں سے دہشت گردوں کا سہولت کار وغیرہ سمجھا جاتا ہے. نائن الیون کے بعد تو دہشت گردی کا ٹھپہ جیسے ہر کسی نے اٹھا رکھا ہے اور جہاں کہیں کوئی داڑھی والا نظرآئے، اس کی کی توثیق دہشت گردی کی مہر سے کر دی جاتی ہے !

    کسی بھی ملک میں خاص طور اکیسویں صدی میں اٹھنے والی تحریکوں، انقلابات، جنگوں وغیرہ سے دوسرے ممالک کے تھنک ٹینکوں نے اپنے قومی مفاد کے ”پوائنٹ اف انٹرسٹ“ کو ضرور تلاش کیا ! اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف حیلے ہتھکنڈے استعمال کیے ! تاکہ اپنا مفاد پورا کیے جا سکے ! وسیع تر قومی مفاد، اکنامک انٹرسٹ! قدرتی وسائل تک رسائی، ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ، دوسری قوموں پر برتری کا حصول! ان مفادات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے تاکہ اپنے مفاد کےلیے کھیلی جانے والی ”ڈرٹی گیمز“ کا جواز پیش کیا جا سکے!

    دوسرے ممالک کسی ملک میں اپنے مفاد تب ہی تلاش کر پاتے ہیں جب اس ملک کے اندرونی حالات خرابی کا شکار ہوں ! اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ میں ابھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر جو بات کرنے جا رہا ہوں، اس میں ہمارا بحثیت قوم کتنا کردار ہے اور اس کے علاوہ ایسے کون کون سے فیکٹر ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں انتہاپسندی مذہبی اور لبرل طبقے میں گھر کر گئی!

    مفادات کا پس منظر!
    پاکستان بنتے ہی اسے سب سے پہلا زخم کشمیر کا لگا جب انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دی! 1971ء میں ایک اور زخم بنگلہ دیش کی صورت میں لگا جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر پولیٹیکل اور اقتصادی زوال شروع ہوا اور ریاستی اداروں کی افادیت عوامی سطح پر ڈگمگانے لگی. کچھ ہی عرصۂ بعد سوویت افغان جنگ کا محاذ کھل گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں ہی روکنے کے لیے ریاستی ادارے سوچ بچار میں پڑ گئے، دوسرے ممالک نے بھی اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کر لیا، امریکہ اس میں سرفہرست تھا. پاکستان جہاں افغان مزاحمت کو جہاں ریاستی سطح پر سپورٹ کیا، وہیں پاکستان سے انفرادی و تنظیمی قوت کو بھی تیار کیا گیا. اور اس انفرادی قوت کا حصول مذہبی طبقوں سے لیا گیا. لال مسجد جیسی مساجد اس وقت مجاہد بھرتی کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں اور ان کو مغرب اور امریکہ میں فریڈم فائٹر، مجاہدین جیسے لقب سے نوازا گیا. سنی مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب، امریکہ اور اتحادی سپورٹ کرتے تھے جبکہ شیعہ دھڑوں کو ایران اور اتحادیوں کی سپورٹ حاصل تھی. سوویت یونین کی افغانستان میں شکست بعد ان دھڑوں کو اسلحہ سے لیس اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، امریکہ عمیت عالمی برادری اور اتحادیوں نے آنکھیں پھیر لیں.

    افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی ہوئی تو کشمیر نیا محاذ تھا، مجاہدین نے جس کا رخ کیا، حکومت و ریاست کی افغانستان جیسی اعلانیہ سپورٹ اور پالیسی تو یہاں میسر نہیں تھی مگر کسی نہ کسی سطح پر تائید و رضامندی اس میں شامل تھی، قوم نے یہاں بھی نہ صرف ساتھ دیا بلکہ شہروں سے گاؤں تک چندے بھی جمع ہوئے، اور پھر جو تنظیمیں سامنے آئیں، ان میں ہر وہ نوجوان شامل ہوا جو اپنے کشمیری بھائیوں بہنوں کے لیے دلی درد رکھتا تھا! مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان اس میں نمایاں اور آگے تھے. اس وقت ہمارے لبرل طبقے کے نوجوان دوسری قوموں کو نقالی کرنا سیکھ رہے تھے. بہرحال یہ تنظیمیں انڈیا کے مدمقابل ایک مزاحمتی فورس کی صورت میں سامنے آئیں، اس کی 7 لاکھ فوج کو وہاں انگیج کر لیا.
    ( جاری ہے )

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں