Tag: متحدہ قومی موومنٹ

  • متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قوم، مسئلہ کیا ہے؟ سید وجاہت

    سید وجاہت یہ ایم کیو ایم والے غدار ہیں، یہ دہشت گرد ہیں، یہ را کے ایجنٹ ہیں، یہ قاتلوں کے ساتھی ہیں، یہ وہ نعرے اور جملے ہیں جو اہلیان کراچی کو روز سننے کو ملتے ہیں. بتایا جاتا ہے کہ کیونکہ یہاں کے لوگ متحدہ کو سپورٹ کرتے ہیں اور متحدہ بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز کی جماعت ہے تو ایسی جماعت کو جو بھی ووٹ دے وہ بھی مجرم ہیں. یہ تصویر کا ایک رخ ہے. کراچی سے دور رہنے والے لوگ جو کسی مخصوص اخبار کے قاری ہوں، ان کے ذہن میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے، لیکن کیا تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ کسی ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ صادر کرنا انصاف ہوگا؟ یا دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے گی.

    چلیں ایک سوال رکھتے ہیں اہلیان کراچی کی خدمت میں ، خاص کر اردو بولنے والے لوگوں کی خدمت میں کہ وہ کیوں متحدہ جیسی ظالم جماعت کو سپورٹ کررہی ہے؟ وہ بھتہ خوری، را کے ایجنٹ، ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد بھی کیوں متحدہ سے الگ ہونے کو تیار نہیں، آج پورے ملک میں متحدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے لیکن مہاجر قوم کا حال عجیب ہے، یہ اب بھی متحدہ پر اعتماد کیے ہوئے بیٹھی ہے. کوئی تو وجہ ہوگی کہ کراچی کی باشعور، پڑھی لکھی عوام اب بھی متحدہ کے ساتھ ہے، مہاجر قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی یا کسی اور جماعت پر یہ اعتماد نہیں کررہی، وجہ کیا ہے؟ کراچی کے مسائل کا حل متحدہ کا خاتمہ اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اگر آپ متحدہ کو ختم کردیں، الطاف حسین کے نام کو بھی شہر سے مٹا دیں، مکمل پابندی لگا دیں تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں بلکہ کوئی اور الطاف پیدا ہوگا، کوئی اور متحدہ معرض وجود میں آجائے گی. یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک اہلیان کراچی کو بخوبی ہے، اس تصویر کے دوسرے رخ سے شہر کراچی سے باہر رہنے والے شاید واقف نہ ہوں لیکن یہاں کا ہرباشعور شہری اس حقیقت کو جانتا ہے۔

    کراچی کا اصل مسئلہ متحدہ نہیں بلکہ وہ محرومیاں ہیں جن کو بنیاد بنا کر متحدہ سیاست کرتی ہے اور کامیاب ہوتی ہے. آپ ان محرومیوں کو ختم کریں، انصاف فراہم کریں، تعصب پرستی کا خاتمہ کریں، متحدہ خود بخود ختم ہوجائے گی. سب سے پہلے تو اس کوٹہ سسٹم کو ختم کریں، یہ کوٹہ سسٹم جب تک چلتا رہےگا مسائل حل نہیں ہوسکتے. یہ عجیب بات ہے کہ اہلیان شہر کو محروم کرکے دوسرے شہروں کے افراد کو نوکریوں سے نوازا جائے، کراچی پولیس میں موجود کتنے ایس ایچ او ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے، جو یہاں کے مقامی ہیں؟ شہر کراچی میں کتنے سرکاری ادارے ہیں جہاں میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے اور شہر کراچی کے تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوانوں کو محروم کرکے دوسرے شہروں سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر افراد بھرتی کیے جاتے ہیں.

    یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ متحدہ نے تیس سالہ دور اقتدار میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے میں کیا کردار ادا کیا اور کیا کوششیں کی اور وہ کس حد تک ان کوششیوں میں کامیاب ہوئی؟ جواب تو نفی میں ہے لیکن کچھ بھی ہو، ان محرومیوں اور اس ظلم کے خلاف متحدہ کے علاوہ کوئی پارٹی آواز نہیں اٹھاتی تو ظاہر ہے اب اردو بولنے والے ان پر اعتماد نہ کریں تو پھر دوسرا راستہ ان کے پاس کون سا ہے؟ دوسری جماعتیں ان کے جائز حقوق کی بات کریں اور اخلاص کے ساتھ محنت کرکے مہاجر قوم کو یقین دلائیں کہ وہ ان کے ساتھ مخلص ہے تو امید ہے کہ یہ قوم کسی دوسری جماعت پر اعتماد کرلے گی. لیکن یہاں اعتماد میں لینے کی بات تو دور اس ظلم کے خلاف کوئی آواز تک بلند نہیں کرتا، یعنی اس ظلم کو ظلم ہی نہیں سمجھا جاتا.

    اہلیان کراچی کی نفسیات سمجھے بغیر تصویر کا ایک رخ سامنے رکھ کر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ شہر کراچی میں حقیقی امن نہیں لاسکتا. آپ پہلے محرومیاں ختم کریں، اس قوم کے جائز حقوق انہیں دیں، یہ کرنے سے ہی شہر میں امن قائم ہوسکتا ہے اور کراچی میں امن و سکون پورے ملک کے مفاد میں ہے. اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسائل حل کیے بغیر متحدہ ختم ہوجائے تو امن قائم ہوجائے گا اور آپریشن کے ذریعے پائیدار پرامن کراچی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا تو وہ شخص سنگین غلط فہمی میں مبتلا ہے۔

  • پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک – جنید اعوان

    پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک – جنید اعوان

    جنید اعوان الطاف حسین نے نفرت پر مبنی جس سیاست کا آغاز 1978ء میں پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا تھا، 38 سال بعد 2016ء میں پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اس کو منطقی انجام تک بھی خود ہی لے آئے۔ اے پی ایم ایس او سے کے قیام سے شروع ہونے والی یہ تلخ کہانی جس میں مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کی صورت میں کئی پیچ و خم آئے، اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم انگلستان کے دھڑوں کی صورت میں اس کا ڈراپ سین ہو رہا ہے۔

    نفرت کے شجر کی تشدد سے آبیاری کی گئی تو ایم کیوایم پروان چڑھی جس میں ظلم کے کسیلے پھل نمودار ہوئے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ اس کے لیےایم کیو ایم کی سیاست کا تجزیہ بھی ضروری ہے، الطاف حسین کی شخصیت کا جائزہ بھی ناگزیر ہے، مہاجر قوم کی نفسیات کا ادراک بھی لازم ہے، اور حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے کو پرکھنا بھی اہم ہے۔

    قوموں کی نفسیات ہوتی ہیں اور مہاجر قوم کی بھی نفسیات تھیں جس میں علم دوستی، نفاست، نستعلیق گفتگو، چوڑی دار پاجامہ، حب الوطنی نمایاں تھے۔ جنگ و جدل، تشدد، اسلحہ، بوری بند لاش جیسے الفاظ تو کبھی ان کی لغت کا حصہ نہ تھے۔ کیا وجہ ہے کہ الطاف حسین نامی ایک فرد جو نہ تو کرشماتی شخصیت کا مالک تھا، نہ غیرمعمولی خطابت کا حامل تھا، نہ علم و ہنر میں ید طولیٰ تھا اور نہ ہی بادی النظر میں کوئی قائدانہ خوبی ایسی اس میں نظر آتی ہے لیکن اس نے ایک قوم کی نفسیات تک بدل ڈالی۔ اس ایک شخص نے اپنے انتقام اور احساس محرومی کی آگ میں ایک پوری قوم کو جھونک ڈالا۔ مہاجروں کو پاکستان میں صرف شناخت کی ضرورت تھی اور الطاف حسین نے مہاجروں کو مجتمع کر کے یہ شناخت تو ان کو عطا کردی، البتہ اس شناخت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاش، بھتہ خوری، ٹارچر سیل، فیصل موٹا اور اجمل پہاڑی کی صورت میں ان کو شناخت تو نصیب ہوئی لیکن بدقسمتی سے یہ ان کی حقیقی شناخت نہ تھی۔ یہ ایک مسخ شدہ شناخت تھی، جیسے کسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا گیا ہو۔

    انتہائی سطحی تجزیہ ہوگا اگر صرف الطاف حسین کو ان تمام حالات کا مورد الزام ٹھہرادیا جائے۔ یہ بات کرتے ہوئے تو سب کے ہی پر جل جلتے ہیں کہ یہاں تک آنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی کم نہیں رہا۔ ملک کے حقیقی خیر خواہ ہونے کے دعویدار گر تو اتنے بے خبر تھے کہ اتنےطویل عرصے میں اس فتنے کا ادراک ہی نہ کر سکے تو پھر یہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر ایک سوال ہے۔ اور اگر ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود وہ ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہے کہ کراچی میں کوئی حقیقی اسلام پسند قوت نہ ابھر سکے تو پھر انھیں بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکستا ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ 2013ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم نے سرعام دھاندلی کی جبکہ مقتدر حلقے کھلی آنکھوں اور بند ضمیر کے ساتھ سب کچھ دیکھتے رہےتھے۔

    برسراقتدار جماعتوں مانند مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے جب ہمیں توقع ہی کوئی نہیں تو پھر ان سے گلہ کیسا۔ اقتدار جن کا مطمع نظر، شکم پرستی جن کا مسلک اور کرسی جن کی منزل ہو، ان سے ملک و قوم کی بہتری اور رہنمائی کی امید لگا کر ہم ان کا تو کچھ نہیں بگاڑیں گے، اپنے آپ کو ہی بیوقوفوں کی فہرست میں شامل کرلیں گے جو کہ پہلے ہی خاصی طویل ہے۔

    سچ یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کے دیس پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی طرح اللہ کی نشانی ہے، جس نے اس اونٹنی کونقصان پہنچایا، اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اور جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وہ ذلت کا حقدار ٹھہرا۔

    قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے، ہر جاندار کو فنا ہے، ہر تشدد کوموت ہے، ہر شب کی سحر ہے لیکن اس کے لیے انصاف کو پروان چڑھانا ہوگا، عصبیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، محبت کے نغمے گانے ہوں گے، عدل کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پھر کوئی الطاف حسین پیدا نہ ہو اور پھر کوئی نسل برباد نہ ہو۔
    خدا کرے کہ مری ارض پا ک پر اترے
    وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

  • خودکشی-ہارون الرشید

    خودکشی-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    ریاست تو اب بھی کمزور پڑی تھی‘ متّامل اور متذبذب۔ الطاف حسین نے خودکشی کا ارتکاب کیا ہے‘ سیاسی خودکشی کا!
    یہ اختتام کا آغاز ہے۔ ایم کیو ایم پٹڑی سے اتر گئی اور اب دوبارہ کبھی اس پر چڑھ نہ سکے گی۔ قرآن کریم ایک بڑھیا کی مثال دیتا ہے کہ اس نے سُوت کاتا اور خود ہی اسے اُدھیڑ ڈالا۔

    وسیم بادامی اور ایک حد تک کاشف عباسی بھی کل شب مایوسی کا شکار تھے۔ جس معاشرے میں طاقتوروں کے خلاف آج تک کبھی کسی کو انصاف نہ ملا‘ اب کیسے ملے گا۔ تب اس ناچیز نے‘ جو اپنے ادارے سے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اس پروگرام میں شریک ہوا تھا‘ یہ عرض کیا : دنیا بھر کے مفکرین اس پر متفق ہیں کہ تبدیلی ہی قدرت کا لازمی اور ابدی قانون ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سوشلزم کا عروج و زوال دیکھا ہے‘ آہنی دیوار کے پیچھے سوویت یونین کو بکھرتے پایا۔ افغانستان سے روسیوں کو بے نیلِ مرام واپس جاتے اور امریکی عزائم کو خاک بسر ہوتے دیکھا۔ وسطی ایشیا میں نئی ریاستوں کا ظہور ممکن ہوا۔ ایران میں صدیوں پرانی ملوکیت کا بوریا بسترلپیٹ دیاگیا‘ عالمی استعمار جس کی پشت پر کھڑا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک‘ پاکستان کے عملی تعاون سے شروع ہوئی تھی۔ حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ پاکستان نے پسپائی اختیار کر لی اور اہلِ کشمیر کو بھول کر پاکستانی وزیراعظم بھارت کے ساتھ دوستی کا گیت گانے لگے۔ اب وہاں ایک داخلی تحریک ہے‘ جسے دبانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکیں… ایک بھارتی ٹیلی ویژن چینل نے سروے کیا تو بتایا کہ صرف 27 فیصد کشمیری‘ ہندوستان سے وابستہ رہنے کے آرزو مند ہیں اور 70 فیصد آزادی کے۔ اسی طرح آج ایک بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔

    نفرت کی لہر میں قوت بہت بہت ہوتی ہے مگر اس کی ایک مہلت ہوا کرتی ہے۔ جس طرح کہ ہٹلر اور مسولینی۔ قرآن کریم میں ہے کہ ظالموں کی رسّی اگر دراز کر دی جاتی تو وہ عبادت گاہیں تک پامال کر دی جاتیں ۔ بعض کو بعض کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ آخرکار بروئے کار آتا ہے ۔ جاری رہنے والے ایک مسلسل عمل میں کھوٹا کھرا چھانٹ دیا جاتا ہے۔ صرف وہ چیز برقرار رہتی ہے‘ خلق خدا کو جس سے نفع پہنچے۔

    ابھی ابھی فاروق ستار کی پریس کانفرنس تمام ہوئی ہے۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ پیر کی شام انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ یہی بات کہتے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے موصوف پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ ان کا اقدام الطاف حسین کے ساتھ طے کردہ کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا اپنے طور پر کیا جانے والا فیصلہ۔ یہ مگر آشکار ہے کہ شب بھر کی اسیری نے بھی ان کے خیالات میں صحت مندانہ تبدیلی پیدا کی ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام کے ردعمل نے۔ دانشوروں میں ایسے ہیں جو اسے عسکری قیادت کی طرف سے کیے جانے والے فیصلے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اصل اہمیت عوامی جذبات کی ہوتی ہے۔ کوئی ریاستی ادارہ اسے نظرانداز کر کے نمو پذیر نہیں ہو سکتا۔

    اس کے باوجود کہ الطاف حسین نے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ‘ ایک ناسور اور کینسر قرار دیا ‘ وزیراعظم نوازشریف آٹھ گھنٹے تک مخمصے کا شکار رہے۔ آخرکار انہوں نے وہ بیان جاری کیا‘ بڑی حد تک جو عوامی امنگوں کے مطابق ہے ۔ دراصل یہ فوجی قیادت ہے‘ جس نے فیصلہ کن وار کیا۔ میرے پاس اگرچہ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مگر بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو فوجی قیادت ہی نے دو ٹوک انداز اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ وگرنہ ان کے محمود اچکزئی‘ پرویز رشید‘ نجم سیٹھی اور امتیاز عالم تو کبھی یہ صلاح نہ دیتے۔ کبھی ان کے انداز و اطوار سے اندازہ نہیں ہوا کہ پاکستان کو لاحق خطرات پہ وہ آرزدہ ہیں۔ دنیا کو پاکستان کے نقٔطہِ نظر سے دیکھنے کی بجائے وہ پاکستان کو دنیا کے نقٔطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔

    فاروق ستار نے الطاف حسین کی ذہنی حالت کا ذکر کیا اور یہ کہا کہ ان کے بیانات کا وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ثانیاً یہ کہ متحدہ قومی تحریک کو اب پاکستان سے چلایا جائے گا۔ اس سوال کا جواب بہت جلد مل جائے گا کہ کیا یہ الطاف حسین کی مرضی سے ہوا ہے اور جیسا کہ فاروق ستار نے کہا‘ موصوف کی ذہنی حالت بحال ہونےکے بعد پھر سے قیادت انہیں سونپ دی جائے گی؟

    اگر الطاف حسین اس حکمت عملی کا حصہ نہیں تو وہ چیخیں گے اور بری طرح۔ سب سے دلچسپ سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان سے غداری کا اعلانیہ طور پر جو ارتکاب کیا‘ کیا وہ محض ان کی علالت کا مظہر ہے اور کیا ان کے حقیقی عزائم کا بھی؟ وہ آدمی‘ نو برس پہلے دہلی میں کھڑے ہو کر‘ جس نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تخلیق تاریخ کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ دوسرا اور اتنا اہم سوال یہ ہے کہ کیا پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں ہزاروں کارکنوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے والا الطاف حسین کا سرپرست بھارت‘ انہیں پناہ دینے والا برطانیہ اور بھارت کا تزویراتی حلیف انکل سام کیا کرے گا؟ ایک کے بعد ایک برسراقتدار آنے والی دوسری حکومت نے بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ سے کبھی اس پر احتجاج نہیں کیا کہ وہ پاکستان میں ایک دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے فراوانی سے ان کے لوگوں کو ویزے دیئے۔ انہی ملکوں کی مدد سے بنکاک اور اس سے زیادہ جنوبی افریقہ میں اپنے ٹھکانے انہوں نے قائم کیے۔ جب کبھی کراچی میں بھتہ جمع کرنے سے انہیں روکا گیا‘ قتل و غارت کا بازار اس نے گرم کر دیا۔ اٹھارہ ہزار شہریوں کو وہ قتل کر چکے ہیں۔ بعض مواقع پر خود اپنے کارکنوں اور لیڈروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے میں ایم کیو ایم کے ایک کارکن کا قتل اور قومی اسمبلی کے رکن عبدالرشید گوڈیل پر حملہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ کراچی میں گرفتار کئے گئے ساڑھے آٹھ ہزار قاتلوں‘ ٹارگٹ کلرز میں سے ساڑھے چھ ہزار کا تعلق اس جماعت سے واقع ہوا ہے۔

    صرف عسکری قیادت ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کرنے والے‘ سیاسی پارٹیاں اور حکمران ہی مرتکب نہیں‘ ربع صدی سے جاری خون ریزی میں میڈیا اور عدالتیں بھی‘ مجرمانہ تغافل کی ذمہ دار ہیں۔ وہ پولیس‘ جس کی بھرتی رشوت ستانی یا سیاسی دبائو پر کی جاتی رہی جس کی گاڑیاں قاتلوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں۔

    کوئی بری الذمہ نہیں‘ پورا معاشرہ ذمہ دار ہے اور پورے ملک نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اخبار نویسوں میں ایسے ہیں جو الطاف حسین کے قصیدے لکھتے‘ اس کے فضائل بیان کرتے اور تحائف وصول کرتے رہے۔ ایم کیو ایم بجائے خود ایک بیماری نہیں بلکہ ایک مرض کی علامت ہے۔ جس ملک میں غیر ملکی امداد سے چلنے والے این جی اوز آزادی سے پھلتی پھولتی رہیں‘ اخبار نویس ان سے وابستہ ہوں‘ ملک کے ممتاز اخبارات میں اظہار خیال کے لیے وہ آزاد ہوں‘ اس میں عاصمہ جہانگیر یںاور آئی اے رحمن پروان نہ چڑھیں گے تو اور کیا ہو گا؟۔
    1996ء میں دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیت کر میاں محمد نوازشریف اقتدار میں آئے تو ایم کیو ایم کے 500 دہشت گردوں کو انہوں نے رہا کر دیا تھا۔ اور 25 کروڑ تاوان بھی ادا کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف صاحب‘ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نوازشریف اب کیا کریں گے؟کیا اب بھی نرمی کا وہ ارتکاب کریں گے اور ملک کو برباد ہونے دیں گے؟

    جرم خوف سے تمام ہوتا ہے۔ خوف ایک ہتھیار ہے جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ زندگی قصاص میں ہے۔
    ریاست تو اب بھی کمزور پڑی تھی‘ متّامل اور متذبذب۔ الطاف حسین نے خود کشی کا ارتکاب کیا ہے‘ سیاسی خودکشی کا!