Tag: قومی اسمبلی

  • تحریک ختم نبوت، طویل جدوجہد کا مختصرجائزہ –  صدیق احمد فاروق

    تحریک ختم نبوت، طویل جدوجہد کا مختصرجائزہ – صدیق احمد فاروق

    کلمہ طیبہ کے دو جز ہیں پہلے جز میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار جبکہ دوسرے جز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا اقرار ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کےلیے جس طرح یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفت ربوبیت میں کسی صورت میں بھی شرک کی آمیزش نہیں کرسکتا اسی طرح یہ بھی عین تقاضائے ایمان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت میں بھی کسی کذاب کو نقب لگانے سے باز رکھے. اسی کو عقیدہ ختم نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے.

    عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، یہ عقیدہ جتنا پختہ ہوگا، احکام و اعمال سے متعلق دیگر عقائد بھی اتنے ہی مضبوط ہوں گے، اگر خدا نخواستہ یہ عقیدہ مضبوط نہ ہو تو دیگر اعمال کی بارگاہ خداوندی میں بھی وہ حیثیت نہ ہوگی جو اس عقیدے پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والے ایک پختہ کار مسلمان کے اعمال کی ہے.

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی اور رحلت کے بعد بھی بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے جن کا قصہ مسلمانوں نے جہاد کے ذریعے تمام کردیا. برصغیر میں بھی انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعوی کیا بلکہ ایک متوازی دین اور مستقل امت کا داعی بن کر ابھرا اور انگریز سامراج کی نمک حلالی کا فریضہ سرانجام دیا. تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بھی انگریز نے نہایت عیاری کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں قادیانی لابی کو کردار دینے کی کوشش کی جسے پاکستان کے عوام نے جس جوانمردی سے ناکام بنایا، وہ اس کی غیرت ایمانی کا واضح ثبوت ہے. اس حوالے سے 7 ستمبر کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے بالعموم اور پاکستان کے مسلمانوں کےلیے بالخصوص مسرت اور فتح و کامرانی کا دن ہے، کہ اسی دن پاکستان کی قومی اسمبلی نےختم نبوت کے ڈاکؤوں کو ایک تاریخی اور متفقہ قرارداد کے ذریعے غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا.

    قومی اسمبلی کا یہ اقدام نبوت کےجھوٹے دعویداروں کے استیصال اور بیخ کنی کے اس تاریخی جہاد کا تسلسل ہے جو سب سے پہلے اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کے خلاف کیا گیا تھا اور یہ جہاد کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جتنی جنگیں لڑی گئیں، غزوات اور سرایا ملا کر ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ ہے لیکن مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد میں بارہ سو صحابہ کرام نے شہادت کا نذرانہ پیش کیا، جن میں ستر بدری صحابہ کرام رض، اور سات سو سے زیادہ وہ صحابہ کرام تھے جو قرآن کریم کے ماہر تھے اور قراء کہلاتے تھے، اور امت محمدیہ کا سب سے پہلا جو اجماع ہوا، وہ اسی مسئلہ ختم نبوت پر ہوا.

    پاکستان میں قادیانی لابی کی سرگرمیوں پر وارثان نبوت کس طرح خاموش رہ سکتےتھے کہ ان کی زندگی ہی اسی جدوجھد سے عبارت تھی، احرار اسلام کا بنیادی منشور ہی ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا محاسبہ تھا، احرار نے باقاعدہ منظم طریقے سے قادیانیوں کی تمام تر سازشوں کو بری طرح ناکام بنادیا. قادیانیوں نے 1952ء کو اپنا سال قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اندر قادیانی اسٹیٹ بنانےکےلیے تمام تر کفری سرگرمیاں تیز کر دیں، لیکن سال کے اختتام پر جب ان کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں تو سال کی آخری رات مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری رح نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
    ”قادیانیو! 1952ء گزر چکا، تمھاری تمام پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں، اب میں بخاری اعلان کرتا ہوں کہ 1953ء تحفظ ختم نبوت کا سال ہے.“
    اس اعلان پر ملک بھر میں قادیانیوں کے خلاف ایک منظم تحریک وجود میں آیا اور اس تحریکی جدوجہد میں کم از کم تیس ہزار مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے.

    یہ تحریک یوں ہی چلتہ رہا کہ 29 مئی 1974ء کو نشتر کالج کے طلبہ پر چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں کی تشدد نے ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی، واقعے کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور قادیانیوں کے خلاف نفرت بڑھتی رہی.

    آخرکار یہ قضیہ قومی اسمبلی پہنچ گیا، پوری اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے دیاگیا، کمیٹی نے اس مسئلے پر غور و فکر کرنے کے لیے 26 اجلاس اور 96 نشستیں کیں. اس دوران مرزا ناصر پر گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے جرح کی گئی اور لاہوری گروہ پر 7 گھنٹے جرح ہوئی. بالآخر وہ گھڑی آ پہنچی جس کے لیے امیر شریعت نے اپنا سکھ چین قربان کردیا. وہ مبارک گھڑی 7 ستمبر 1974ء کی ایک خوش گوار سہ پہر تھی. 4 بج کر 35 منٹ پر قومی اسمبلی نے طویل بحث و تمحیص کے بعد قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا.

  • 7 ستمبر ، ایک نہایت مبارک دن – زوہیب زیبی

    7 ستمبر ، ایک نہایت مبارک دن – زوہیب زیبی

    زوہیب زیبی دوستو! 7 ستمبر نہایت مبارک دن ہے کیونکہ اس دن اسلامیان پاکستان نے اسلام کے انتہائی خطرناک ناسور سے قانونی طور پر گلو خلاصی حاصل کی تھی۔ جی ہاں آپ میری مراد سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ میرا اشارہ فتنہ قادیانیت کی طرف ہے۔7 ستمبر کے دن پاکستان کی پارلیمنٹ نے باقاعدہ مسلمانان پاکستان کے متفقہ مطالبے کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔

    یہاں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ تھی کہ جس نے مسلمانوں کے تمام گروہوں اہلسنت، دیوبند، اہلحدیث وغیرہ کو اپنے شدید اختلافات کے باوجود اکٹھا کردیا؟ نیز اس مطالبے کو منوانے کے لیے ہر فرقے کے علماء نے اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں حتٰی کہ پھانسی تک کی سزائیں بھی سنائی گئیں نیز علماء کے جوان بیٹوں کواٹھا کر قتل کیا گیا، ہر طرح کے لالچ دیے گئے لیکن علماء’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ ( زمین تو اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے لیکن گل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا) کی تصویر بنے رہے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ علماء نے سمجھوتہ نہیں کیا؟

    بعض لوگ اس مسئلے کو مسلمانوں کا عام فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو شدید غلطی پر ہیں کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی مثال اس کرایہ دار کی سی ہے جو کسی کوٹھی کا ایک کمرہ کرائے پر لینے آئے اور پھر آہستہ آہستہ پوری کوٹھی کا مالک بننے کا ہی دعویدار ہوجائے۔ چنانچہ سب سے پہلے مرزا قادیانی نے اسلام کے ماتحت رہتے ہوئے خود کو صرف ایک عام مبلغ کی صورت میں پیش کیا اور مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹیں پھر انہوں نے ’’محدث من اللہ‘‘ ہونے کا دعوٰی شروع کیا جس کا مفہوم ہے کہ وہ اللہ کا خاص بندے ہے اور خدا ان کی راہنمائی ان سے کلام کی صورت میں کرتا ہے۔ اس کے بعد مرزا قادیانی مزید پھیلا اور ’’امام مہدی‘‘ ہونے کا دعوٰی کر دیا، یہیں پر بس نہیں کی بلکہ حضرت عیسیٰ ہونے کا دعویٰ بھی کر ڈالا اور آخر میں تو حد ہوگئی کہ خود کو ’’نبی‘‘ قرار دے دیا. (یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہاں مرزا قادیانی کے دعوے مختصراً درج ہیں جبکہ اس کے تمام چھوٹے بڑے دعووں کی تعداد تقریباً 17 کے قریب ہے)۔

    پہلے پہل مرزا قادیانی کے تمام دعوے رسالت ِمحمدیہﷺ کے ماتحت رہتے ہوئے تھے، کہ میں جو کچھ بھی ہوں وہ سب محمد ﷺ کی غلامی کی وجہ سے ہی ہوں، لیکن اس کے بعد مرزا قادیانی اپنے اصل ایجنڈے کی طرف آیا اور اپنی کتابوں میں لکھا کہ محمد ﷺ خدا کے پیغام و تعلیمات کو پوری طرح عام کرکے نہیں گئے، (نعوذباللہ) اس لیے مجھے اللہ نے محمد ﷺ کا ادھورا کام مکمل کرنے کے لیے بھیجا ہے.(معاذاللہ)۔

    اس کے بعد جو گل مرزا قادیانی نے کھلایا وہ تو صبر کے تمام بندھن ہی توڑ دیتا ہے۔ اس نے خود کو باقی تمام انبیاء سے افضل قرار دیا سو دیا ، حضرت عیسیٰ کی توہین کی سو کی، اس پر مستزاد یہ کہ حضرت محمد ﷺ سے خود کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ان کو (صرف) 300 نشان دیے تھے جبکہ مجھے اللہ نے 10000 معجزات عطا کیے ہیں۔ اور تو اور یہاں تک کہہ دیا کہ محمدﷺ تبلیغ اسلام کا کام ادھورا چھوڑ گئے تھے، اسے میں نے آکر مکمل کیا ہے۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ

    الغرض کہ مرزا قادیانی نے اسلام، قرآن، اللہ اور نبی کی آڑ میں ایک ایسا دین متعارف کروایا جو کہ سراسر بنیاد اسلام ڈھانے والا نیز اسلامی تشخص کو ختم کرنے والا تھا. یہی وجہ ہے کہ آج اگر ایک قادیانی، نبی اکرم ﷺ کا نام لیتا یا ادب کرتا ہے تو صرف اس لیے کہ اس سے اس نے مرزا صاحب کی نبوت ثابت کرنی ہے وگرنہ درحقیقت اس کے لیے مرزا قادیانی کےآگے حضور ﷺ کی کوئی حیثیت نہیں۔

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔

  • شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    شارٹ کٹ-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے‘ جوسچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔
    نیک نام جسٹس سردار احمد رضا خان کی صدارت میں وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو کمیشن کے ایک افسر نے اخبار نویسوں کو کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اخبار نویسوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ حکم تحریر طور پر جاری کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ایک فوجی عدالت ہے؟ پھر تمام وکلا نے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو حکم واپس لے لیا گیا۔

    عدالتیں خلا میں کام نہیں کرتیں۔ ملک کا مجموعی ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ گزشتہ کمیشن کے مقابلے میں موجودہ بڑی حد تک قابل اعتبار ہے، شدید عوامی تنقید کے ہنگام جس کے ایک ممبر جسٹس کیانی نے فرمایا تھا: اگر بے عزتی کا احساس ہوا تو چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے، وگرنہ برقرار رہیں گے۔ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے لیے دلائل کے انبار دھرے ہیں۔

    2011ء میں اپنے اثاثے انہوں نے 16کروڑ اور 2013ء میں 26 کروڑ بتائے۔ کیا یہ قابل فہم ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے انہوں نے لندن کے مکانات کا ذکر کیا اور نہ پراپرٹی کے کاروبار کا، جس کی مالیت 800 ملین ڈالر سے کم نہیں۔ پاناما کی ان کمپنیوں کا بھی نہیں، جو اس وقت بنائی گئیں جب حسین نواز نیکر پہن کر سکول جایا کرتے تھے۔ برطانوی مکانوں کے بارے میں میاں صاحب ‘ان کی اہلیہ محترمہ‘ صاحبزادی اور فرزندوں کے بیانات مختلف ہیں، اتنے مختلف کہ مضحکہ خیز۔ انتخابی دستاویزات میں دبئی کی اس سرمایہ کاری کا بھی انہوں نے ذکر نہ کیا، پاناما لیکس پر شور و غوغا کے بعد قومی اسمبلی کو جس پر انہوں نے اعتماد میں لیا۔ جدہ کی سٹیل مل کا حوالہ کیا اس میں موجود تھا، ان کے بقول جسے بیچ کر لندن کی جائیداد خریدی۔ چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کہتے ہیں کہ یہ خریداری 1992ء میں ہوئی۔ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو بھی ظاہر ہے کہ جوابدہی کرنا ہو گی، 2008ء اور 2013ء میں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے اثاثوں کی تفصیل چھپا رکھی۔ ان دنوں اپنا دربار وہ الگ سجاتی ہیں‘سرکاری صحافیوں کو جہاں سے ہدایات ملتی ہیں کہ آزاد اخبار نویسوں کی کردار کشی کی جائے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گالی گلوچ تو کیا، آزاد اخبار نویس کو اپنی نوکری ، حتیٰ کہ جان تک کی پروا نہیں ہوتی ۔

    فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسر نے وضاحت کر دی ہے کہ قانون سمندر پار کمپنیاں بنانے والوں کے احتساب کی اجازت نہیں دیتا۔ شریف خاندان اگر منتقم مزاج اور سفاک بھٹو کے ہاتھوں اتفاق فائونڈری قومیائے جانے کے بعد دبئی میں سٹیل مل لگا سکتاہے ۔ جنرل مشرف کاہدف ہونے کے باوجود سعودی عرب میں اس سے بڑا کارخانہ تعمیرکر سکتاہے ۔ عرب حکمرانوں کی مدد سے سینکڑوں بھارتیوں کو اس میں کھپا سکتاہے ۔ اگر وہ اپنی شوگر مل میں دشمن ملک کے کاریگروں کو پناہ دے سکتاہے ، ممکنہ طور پر جو ”را‘‘ کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں تو کیا اس نے الیکشن کمیشن سے بچ نکلنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا؟ تمام بڑے سرمایہ داروں کو قانون دان دستیاب ہوتے ہیں ۔

    سبکدوشی کے بعد جسٹس لون کو شریف خاندان نے سینیٹر کا عہدہ عطا کیا تھا اور جسٹس رفیق تارڑ کو صدارت کا۔
    ہم فرض کرتے ہیں اور یہ فرض کرنے کا پورا جواز موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام ارکان مکمل طور پر دیانت دار اور مکمل طور پر بے خوف ہیں ، عدالتیں مگر خلا میں کام نہیں کرتیں ۔ وہ قانون کے دائرے میں کارفرما ہوتی ہیں۔ شہادتوں پر وہ انحصار کرتی ہیں ۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ،ستمبر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اور وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جمہوری نظام کو وہ پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ دبئی میں زرداری صاحب سے سینیٹر اسحٰق ڈار کی ملاقات کا مطلب کیا ہے ؟ ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم کے راہِ فرار اختیار کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ ؎

    ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
    دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

    پنجابی ضرب المثل یہ ہے کہ فلاں آدمی تپتے ہوئے توے پر بیٹھ کر بھی کوئی بات کہے تو اعتبار نہ کیا جائے۔ زرداری خاندان ایک ہزاربار نواز شریف کو اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرے تو بھی اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز احسن اور شیخ رشید ضرورسنجیدہ ہیں مگر غیظ و غضب کے جلو میں۔ غیظ و غضب میں شور و غوغا کیا جا سکتا ہے‘ دھمکیاں دی جا سکتی ہیں‘ مذاق اڑایا جا سکتا ہے‘ پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں، ظفر مندی ممکن نہیں ہوتی۔ ظفر مندی ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے پھر مستقل مزاجی سے جدوجہد اور ایثار و قربانی سے ممکن ہوا کرتی ہے ۔اعتزاز احسن چیختے رہ جائیں گے اور زرداری صاحب مفاہمت کر لیں گے دونوں کی اسی میں بقا ہے۔

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برقِ خرمن کا‘ ہے خونِ گرم دہقاں کا

    بیرسٹر اعتزاز احسن کے موقف اور لب و لہجے پر غور کیجیے۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ لوٹ مار قابل برداشت نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ناجائز دولت سمیٹنے کے وہ خلاف ہوتے تو جناب آصف علی زرداری کا اتباع کیسے کرتے؟1993ء کی ایک شام ‘جب میاں محمد نواز شریف قومی اسمبلی میں سرے محل کا انکشاف کرنے والے تھے‘ بیرسٹر صاحب نے مجھ سے کہا تھا: اس عورت (بے نظیر )سے میں تنگ آ چکا ہوں ۔دو دن کے بعد ڈٹ کر انہوں نے محترمہ کا مقدمہ لڑا۔ اب وہ انہیں شہید کہتے ہیں‘ ایک روحانی مقام و مرتبے پر فائز۔ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہر روز وہ ایک بے معنی سی تقریر کرتے اور ان سے شکوہ سنج اخبار نویسوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے بے لچک مزاج اور گاہے مردم بیزاری کا ارتکاب کرنے والے چوہدری صاحب بعض کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ مگر وہ بھکاری ہیں اور نہ خوشامدی۔ اپنے بل پر ضدی آدمی جیتا ہے۔ سیاست کی باریکیوں کو اعتزاز احسن اینڈ کمپنی سے وہ بدرجہا بہتر سمجھتا ہے ‘فصیح و بلیغ بھی ۔

    الیکشن کمیشن وزیر اعظم کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا؟ ممکن ہے وہ انہیں نااہل قرار دے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ان کے حریفوں میں سے اکثر کا انجام بھی یہی ہو گا۔ جب ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری‘ قائد انقلاب عمران خان ‘شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سمیت سب کا۔

    کاش یہ لوگ ادراک کر سکتے‘ کاش نفی ٔذات پر کم از کم اس قدر وہ قادر ہوتے کہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو نہ دیتے۔ پہلی بار یہ مشق نہیں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں سینکڑوں سیاستدانوں کو ”ایبڈو‘‘کردیا گیا تھا ،بعض کو عدالتوں کے ذریعے۔ پھر کیا ہوا؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ فوج کاروبارِ حکومت چلا نہیں سکتی کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ سیاستدانوں کو برادری باہر کیا جا نہیں سکتا۔ طاقتور فوج ہے اور مقبول بھی ۔ کور کمانڈروں کا کیا یہ جی نہ چاہتا ہوگا کہ بدعنوان سیاستدانوں کو بحیرہ ء عرب میں اٹھا پھینکیں۔ مگر وہ پھینک نہیں سکتے۔ تجربات سے انہوں نے سیکھا ہے کہ انہی کے پامال حربوں پہ انہیں اترنا پڑتاہے۔ ان کا اپنا وقار جاتا رہتاہے اور آخر کار وہ ڈھے پڑتے ہیں ۔

    راستہ اور ہے ، حضورِ والا ! راستہ اور ہے ۔ ماضی کو بھول کر شائستہ مستقبل کی تلاش ۔ صاحبِ دانش جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا :تاریخ سے کبھی کوئی نہیں لڑ سکا۔ تاریخ سے کبھی کوئی نہ لڑ سکے گا۔ آخر ایک دن وقت یہ فرمان جاری کرے گا کہ فوج کو جو راہ انہوں نے سمجھائی تھی ؛اگرچہ مخمصے کے ساتھ مگر اب بھی جس پر وہ چل رہی ہے ، وہی قابلِ عمل ہے۔ بھائیوں کی نا م پر ان کی کردار کشی ایک الگ موضوع ہے ، اس پر پھر کبھی ۔

    قوموں کے مقدر نعرہ بازی سے نہیں بدلتے ، شعبدہ بازی سے نہیں ۔ تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ، دانش ، حوصلہ مندی ، مستقل مزاجی اور رواداری کے ساتھ پیہم جدوجہد کی۔ کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا۔ بلوغت اور بالیدگی کے لیے قوموں کو عشروں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ نواز شریف کو اٹھا پھینکنا سہل نہیں اور اٹھا پھینکا تو عدم استحکام کے ایک نئے‘ سنگین تر دور کا آغاز ہوگا۔ ع

    سخت کوشی سے ہے تلخیٔ زندگانی انگبیں

    قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے ‘مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے، جو سچائی اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔

  • بلوچستان، میرا بھی تو ہے – آصف محمود

    بلوچستان، میرا بھی تو ہے – آصف محمود

    آصف محمود مودی ایسے ہی نہیں بولا۔ اس کے لہجے میں ہلاکت خیزیاں موجود ہیں۔ ہمیں ان کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمارا سب سے بڑا صوبہ اس حال میں ہے برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔

    کاش بات صرف انہی لوگوں کی ہوتی جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دکھوں اور محرومیوں کا احساس اب کے بہت گہرا ہے۔ سارا صوبہ ہی نامعتبر موسموں پر شکوہ کناں ہے۔ پہاڑوں پر کتنے لوگ ہوں گے؟ چند سو؟ یا چند ہزار؟ فرض کریں یہ لوگ پہاڑوں سے اتر آتے ہیں یا ہم تصور کر لیتے ہیں کہ یہ پہاڑوں پر کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بلوچستان میں راوی چین لکھنا شروع کر دے گا، اور وہاں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ نفی میں ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ محض پہاڑوں پر گئے لوگ نہیں، اس مسئلے کی جڑیں سماج میں ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے نصیب میں ایسے لاتوں کے بھوت لکھ دیے گئے ہیں، جنہیں مہذب مکالمے سے شغف ہی نہیں ہے۔ جب تک کوئی سڑک پرنہ آئے یا بندوق نہ اٹھائے ان کی موٹی کھال پر اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ہمیں اپنی نفسیاتی گرہوں کو کھولنا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ کل شیخ مجیب کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی اورآج ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پوچھتے ہیں کہ تم نے مری تک تو گیس پہنچا دی مگر 80 فیصد بلوچستان آج بھی اس سے محروم ہے؟ آج بھی آپ بلوچستان چلے جائیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ آپ اس عہد جدید کی کسی بستی میں کھڑے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دور میں مجھے سابق گورنر جنرل عبدالقادر بتا رہے تھے کہ ان کا حلقہ تین ہزار کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا ترقیاتی فنڈ انہیں مبلغ ایک کروڑ ملا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک حلقہ پورے خیبر پختونخواہ سے بڑا ہے۔ حالت یہ ہے کہ راولپنڈی کے نالہ لئی کا بجٹ بلوچستان کے کل بجٹ سے زیادہ تھا۔ایک دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی کا حال یہ ہے کہ کوئی گائناکالوجسٹ نہیں ملتی۔ ذرائع آمدورفت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے بلوچستان میں اتنی یونیورسٹیاں نہیں جتنی صرف راولپنڈی کی مری روڈ پر ہیں۔ ہم نے عملا بلوچستان کو کب کا خود سے کاٹ کر پھینکا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب یہ سوتیلا پن بلوچوں کی رگوں میں زہر کی طرح اتر چکا ہے۔

    سانحہ مشرقی پاکستان سے دو ماہ قبل کچھ صحافیوں کو ڈھاکہ لے جایا گیا۔ واپسی پر ایک نے لکھا’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘۔ نومبر میں یہ سٹوری شائع ہوئی اور دسمبر میں ملک ٹوٹ گیا۔ آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے اور مسئلہ تو بس ان چند لوگوں کا ہے جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا کہنا تھا کہ آج وقت ہے، معاملہ سنبھالا جا سکتا ہے۔ معاملات تعلیمی اداروں میں نئی نسل کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر نئی نسل کے ہاتھ میں چلے گئے تو ہم بھی بےبس ہو جائیں گے۔ اس سے مجھے حسین شہید سہروردی یاد آگئے۔ ایک روز وہ آرام کر رہے تھے اور شیخ مجیب ان کے پاؤں داب رہے تھے۔ دابتے دابتے کہنے لگے ’’سہروردی صاحب! کیوں نہ ہم مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنا لیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سہروردی صاحب غضبناک ہو گئے اور شیخ مجیب کو اتنی زور سے لات ماری کہ شیخ صاحب نیچے جا گرے۔ بعد میں سہروردی صاحب ہر ایک سے یہی کہتے رہے کہ آج وقت ہے کچھ کر لو ورنہ معاملات نوجوانوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور ہم بے بس ہو جائیں گے۔ سہروردی صاحب کی بات مگر کسی نے نہ سنی۔گولی ہی ہر مسئلے کا حل ٹھہری اور جالب چیختا رہ گیا:
    ’’محبت گولیوں سے بو رہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘‘

    آج قومی اسمبلی میں بلوچستان کی صرف17 نشستیں ہیں۔ اور ایک نشست این اے 271 (خاران، واشوک، پنجگور) کے ایم این اے کا علاقہ پورے خیبر پختونخوا سے زیادہ ہے۔ اور ترقیاتی بجٹ صرف ایک کروڑ۔ اب ان 17 نشستوں میں سے بمشکل پانچ یا چھ نشستیں اوپن ہیں۔ باقی کچھ ہیوی ہیٹس کی پاکٹ سیٹس ہیں۔ جب پورے صوبے سے قومی اسمبلی کی نشستیں ہی اتنی کم ہوں تو نواز شریف یا آصف زردای کو کیا پڑی ہے وہ کوئٹہ، ژوب اور لورا لائی کے دھکے کھاتے پھریں۔ چنانچہ آج ہمارے سیاست دانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ بلوچستان کے جھنجھٹ میں پڑیں۔ سیاست دان حساب سود و زیاں میں بڑا کائیاں ہوتا ہے۔ اگر یہ نشستیں پچاس ساٹھ ہوتیں تو کیا عجب کہ نواز شریف صاحب اپنے اجلاس مری کے بجائے زیارت میں بلاتے اور محترم پرویز رشید ہمیں بتا رہے ہوتے کہ فیصلہ قائداعظم کی محبت میں کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے آخری ایام یہاں گزارے تھے۔جب مرکزی قیادت وہاں کا رخ کرتی تو وہاں کا احساس محرومی بھی کم ہوتا اور وہ قومی دھارے میں بھی آ جاتے۔ قومی قیادت اب ایک ڈیڑھ درجن نشستوں والے صوبے میں تو جانے سے رہی۔ صوبہ بھی ایسا جہاں ایک ایک حلقہ ایک ایک صوبے کے برابر ہو۔
    تو کیوں نہ یہ نشستیں بڑھا دی جائیں؟ بلوچستان آخر پرایا نہیں، اپنا ہے۔ آپ کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔