Tag: قرضے

  • ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال-ہارون الرشید

    ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی…افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
    ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی

    یہ ہمارے لیڈر۔ اگر وہ ہمارے گناہوں کی سزا نہیں تو اور کیا ہیں؟ سینیٹر سعید غنی بھلے آدمی ہیں۔ ایک منظر ایسا میں نے دیکھا کہ دل کی گہرائیوں سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ محترمہ فریال تالپور کے دستر خوان پر کھانا چنا جا چکا تو وہ میز پر آ بیٹھے۔ پھر دھیمے لہجے میں یہ کہا : مجھے بھوک نہیں۔ آداب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کچھ دیر بیٹھے رہے‘ پھر اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولے : مجھے نماز ادا کرنی ہے۔ اُٹھ کر ساتھ کے کمرے میں گئے، عبادت کی۔ لوٹ کر آئے تو لمحہ بھر کھڑے رہے۔ پھر یہ کہہ کر اجازت طلب کی : پارٹی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے‘ مجھے اجازت دیجئے۔ آپ تو بعد میں بھی آ سکتی ہیں‘ مجھے انتظام دیکھنا ہے۔

    کپتان کے عیب شمار کرنے پر مامور ایک اخبار نے ان کا بیان نمایاں طور پر چھاپا ہے۔ بہرحال انہی کا ہے : عمران خان کے اردگرد ٹیکس چور جمع ہیں۔ ضرور ہوں گے۔ عمران فرشتہ ہیں اور نہ ان کے ساتھی۔ 1996ء میں تحریک انصاف کی نیو رکھی گئی تو دو بار بلدیہ رحیم یار خان کے چیئرمین اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے والے میاں عبدالخالق نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان سے کہا گیا کہ نام آپ کا لکھ لیا ہے۔ کوائف جانچنے کے بعد اطلاع دیں گے۔ وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اکھڑ میاں صاحب بہت ہیں۔ ان کے کھردرے لہجے کی شکایت سبھی کو رہتی ہے مگر مالی معاملات میں اکل کھرے۔ گلبرگ لاہور کے شمالی آغاز، مین بلیوارڈ میں جو فوارّہ کروڑوں کی لاگت سے لگا‘ انہوں نے 70 ہزار روپے میں نصب کرا دیا تھا‘ اسی کمپنی سے۔ معائنہ کرنے کے لیے انجینئر رحیم یار خان پہنچا۔ صبح سویرے چہل قدمی کو نکلا اور لوگوں سے بات کی ۔ ان میں سے بعض نے کہا : کہاں تم پھنس گئے۔ میاں تو ایک بے فیض آدمی ہے۔ تکنیک ان کی یہ تھی کہ شہر کی مالی کم مائیگی کا رونا روتے۔ اصرار کرتے رہتے کہ فلاح عام کے اس کام میں ٹھیکیدار منافع سے دستبردار ہو جائے۔ آخر کار زچ ہو کربعض مان بھی جاتے یا معمولی یافت پر اکتفا کرتے۔ ایسے آدمی کے بھی کوائف جانچنا تھے۔

    بیس سال کے سفر میں تحریک انصاف‘ دوسری پارٹیوں ایسی پارٹی بن گئی ۔ پارٹی کا چندہ تک لوگ کھا گئے ‘ کروڑوں روپے ‘مگر ان کا احتساب نہ ہوا۔ ان میں سے ایک کے بارے میں کپتان نے خود مجھ سے کہا : ذرہ برابر اعتماد اس پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود مزید کئی برس پارٹی سے وہ چمٹا رہا۔ نہایت اہم ذمہ داریاں اس کے سپرد ہیں۔ دوسروں کی قسمت کے فیصلے وہ کرتا رہا تاآنکہ بے قابو ہو کر پھسل گیا۔

    نکتہ اور ہے۔ تحریک انصاف کے عیب تو سینیٹر صاحب کو صاف دکھائی دیتے ہیں۔ زرداری صاحب نظر نہیں آتے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تاک لیتے ہیں‘ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کا سرے محل یاد نہیں آتا۔ سوئزر لینڈ کے کھاتے نہیں‘ فرانس کے محلات اور امریکہ کی وسیع و عریض جائیداد بھی نہیں۔ کیسے عجیب لوگ ہیں‘ کتنے عجیب لوگ۔

    وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے مطالبہ یہ ہے کہ ازراہ کرم پاناما لیکس کی تحقیقات کرائیے۔ ملک بھر کا تقاضا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہیں۔ جواب میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ میرے مخالفین ترقی کا عمل روک دینے کے آرزو مند ہیں۔ بجلی کی قیمت دوگنا کر دی ۔ فرمان یہ ہے کہ قوم ذرا دم لے‘ سستی کر دیں گے۔ قیمت اس وقت بڑھائی جب پٹرول کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 40 ڈالر رہ گئی۔ بعض اوقات اس سے بھی کم۔ اٹھارہ برس کے لیے قطر سے گیس کا معاہدہ کیا ہے۔ فی یونٹ 6 ڈالر۔ یہی گیس جاپان والے کھلی مارکیٹ میں 4 ڈالر پر خرید رہے ہیں۔ ثابت کرنے والوں نے اعداد و شمار سے ثابت کر دیا گیا کہ راولپنڈی کی میٹرو بس کا ڈھانچہ‘ اسی طول کی امرتسر میں تعمیر ہونے والی شاہراہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں‘ لاہور کے لیے ریل کا منصوبہ بنا تو اسے بی او ٹی پر تعمیر ہونا تھا۔ نقد ادائیگی کے بغیر ہی۔ بڑا حصہ زیِرزمین تھا۔ دنیا کی بہترین کمپنیوں کو اسے تعمیر کرنا تھا۔ پھر خود ہی اس کا نظام چلا کر سرمایہ واپس وہ وصول کرتے۔ شرحِ منافع 0.25 تھی‘ یعنی تقریباً سود کے بغیر ہی۔ پنجاب میں شریف خاندان نے اقتدار سنبھالا تو ایشیائی ترقیاتی بینک کو لکھ بھیجا کہ اس منصوبے کی ضرورت ہی نہیں۔ 2008ء میں اگر یہ شاہی فرمان جاری نہ ہوا ہوتا تو 2012ء میں شہر اس سے استفادہ کر رہا ہوتا۔ کئی سال گزر جانے کے بعد چین کی ایک غیر معروف ناتجربہ کار کمپنی سے معاہدہ کیا۔ سود کی شرح گیارہ گنا زیادہ۔ اخراجات لگ بھگ دوگنا۔ اس قدر سفاکی اور بے رحمی کا جواز کیا تھا؟ یہ کہ کریڈٹ‘ چوہدری پرویز الٰہی کو نہ مل جائے۔ چوہدری صاحب کوئی درویش نہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے‘ بہت کچھ وہی انہوں نے کیا‘ جو شریف اور زرداری خاندان کا خاصا ہے۔ان سے عناد کی سزا مگر قوم کو کیوں ملی؟

    فوجی حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ کہنے والے نے کہا تھا : میں لوہے کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے۔ تاریخی تجربہ یہی ہے کہ اصلی اور پائیدار ترقی جمہوری نظام میں ہوتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام ہے کہ معاشی میدان میں‘ مارشل لا سے بھی بدتر۔
    پرویز رشید صاحب نے فرمایا : جنرل مسائل پیدا کرتے ہیں اور حل ہمارے میاں صاحب کو کرنا پڑتے ہیں۔ زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔ اعداد و شمار کی شہادت بالکل ہی دوسری ہے۔

    جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو قومی خزانے میں صرف 400 ملین ڈالر پڑے تھے۔ بہت دن تک عالم یہ رہا کہ قرضوں کی واپسی لیت و لعل سے‘ کچھ دن بتا کر یا بھیک مانگ کر کی جاتی۔ ایوان اقتدار سے وہ نکلے تو زرمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب ڈالر تھے۔ 1999ء میں پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرض 38.5 بلین ڈالر تھا۔ گئے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قرض کم ہو چکا تھا‘ 34 ارب ڈالر۔ خون چوس آئی ایم ایف سے نجات پا لی گئی تھی۔ اب یہ قرض 80 ارب ڈالر ہے اور دن بدن فروغ پذیر۔ آنے والی نسلیں یہ بوجھ کیسے اٹھائیں گی؟ 1999ء میں ڈالر کی قیمت 55 روپے تھی۔ آٹھ سال بعد وہ چھوڑ کر گئے تو 60 روپے۔ آٹھ برس میں 106 روپے ہو چکی۔ مزید زوال کا خطرہ سامنے ہے۔
    1988ء سے 1999ء تک‘ گیارہ سالہ جمہوری دور میں بیرونی سرمایہ کاری چار ارب ڈالر رہی‘ مشرف کے دور میں 13ارب ڈالر۔ نوازشریف کے پچھلے دور میں غربت کی شرح 34 فیصد رہی۔ مشرف کے زمانے میں 23 فیصد رہ گئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب پھر سے 39 فیصد ہے۔ مشرف کو اقتدار ملا تو سالانہ شرح ترقی چار فیصد تھی۔ 2004-5 میں نو فیصد کو پہنچی۔ ایشیا کے سب سے لائق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول اب پھر سے 4.5 فیصد ہے۔ مگر ان کے اعدادوشمار ماہرین قبول نہیں کرتے۔ 1999ء میں پاکستان اپنی کل قومی آمدنی کا 64 فیصد قرضے اور سود کی ادائیگی پر ادا کرتا۔ مشرف عہد میں یہ شرح 28 فیصد رہ گئی۔ 1999ء میں کراچی کی مشہور زمانہ اور رسوائے زمانہ سٹیل مل اربوں کے خسارے میں تھی۔ مشرف دور میں منافع کمانے لگی‘ سالانہ ایک ارب اور بعض برسوں میں اس سے بھی زیادہ۔

    فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ادوار سے متعلق اعداد و شمار اور بھی ہیں۔ صنعتی بنیادیں ایوب خاں کے عہد میں استوار ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں غربت کم ہوئی۔ تین ماہ ہوتے ہیں، چوہدری پرویز الٰٰہی نے جب یہ کہا کہ دس لاکھ ملازمتین ہر سال پیدا ہوا کرتیں تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔

    انسانی صلاحیت آزادی ہی میں نشودنما پاتی ہے مگر یہ کرپشن‘ حکمرانوں کا یہ کاروبار زرگری۔یہ نعرہ فروشی‘ یہ دھوکہ دہی۔
    جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی…افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
    ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی

  • جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    rouf clasra

    2010 ء کے سیلاب کے بعد پہلے ہالی ووڈ کی خوبصورت اداکارہ انجلینا جولی نے ہمارا پول اپنی رپور ٹ میں کھولا تھا، رہ سہی کسر اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے نے پوری کر دی ہے۔

    مارک آندرے نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ سب حیران ہیں کہ ایک غیرملکی کو پاکستان اور اس کے غریبوں سے اتنی محبت کیسے ہوگئی۔ وہ ان کا درد کیونکر محسوس کرتا ہے جن سے اس نے ووٹ نہیں لینا، جن کے ٹیکسوں پر اس نے عیاشی نہیں کرنی اور نہ ہی ان کے ملک کے پیسے سے لندن، دبئی یا پاناما میں جائیدادیں بنانی ہیں۔ آندرے کو یہ خوف بھی دامن گیر نہیں ہواکہ وہ ایک حکومت، سول ملٹری بیوروکریسی، سیاستدانوں اور امیر طبقات کو اپنا دشمن بنا رہا ہے جو اس کی اقوام متحدہ کے سربراہ سے شکایت بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ننگا کرنے پر تل گیا ہے جو اس کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔

    آخر مارک کو اس دشت کی سیاحی میں کیا ملے گا۔ وہ کیوں طاقتور لوگوں سے بگاڑ کر پاکستان سے جا رہا ہے۔ اسے پاکستان کے غریبوں کی بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ کیوں رومن جنرل سیزرکی لاش پر مارک انٹنی جیسی شہرہ آفاق تقریرکرہا ہے۔ وہ کیوں رومن شہریوں کی طرح پاکستانی غریبوں کی لاشوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ وہ کیوں دہائی دے رہا ہے کہ اگر پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو ایک دن پاکستانی معاشرہ اس کے بدترین اثرات بھگتے گا۔ اس نے کتنی دکھ بھری آواز میں کہا کہ ملک ایسے نہیں چلتے جیسے پاکستانی اشرافیہ چلا رہی ہے۔

    یہی بات جولی نے کہی تھی جو اب تک پاکستان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرین اور افغان مہاجرین کے لیے پچاس ملین ڈالر (پانچ ارب روپے) کا چندہ دے چکی ہے۔ جولی کو بھی پاکستان پہنچ کر جھٹکا لگا تھا، جب وزیراعظم ہائوس میں اس کے سامنے کھانوںکی طویل میز سجائی گئی تھی۔ اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا نے جگتیں ماری تھیں۔ ہر کوئی جولی کے ساتھ تصویریں بنوانے کے چکر میں تھا۔ اسے متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جولی جاتے وقت سیلاب زدگان کے لیے پانچ ملین ڈالر کا عطیہ دے گئی تھی۔ اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ اقوا م متحدہ کے لیے رپورٹ لکھی جس میں حیرت ظاہر کی کہ وہ اپنی آمدن میں سے اس ملک کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ دے آئی ہے مگر وہاں کسی کو پروا نہیں کہ غریب مرے یا جییے۔کیمپوں میں لوگ مر رہے تھے اور وزیراعظم ہائوس میں کھابوںکی طویل فہرست تھی جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔

    کیا ہماری اشرافیہ کو جولی کی رپورٹ پڑھ کر شر م آئی تھی کہ اب مارک آندرے کی دل سے کہی ہوئی باتوں پر یہ طبقہ شرما جائے گا؟ مارک آندرے چار سال تک پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارے کا سربراہ رہا۔ اس نے اس دوران چاروں صوبوں کا دورہ کیا۔ فاٹا کے علاوہ ملک کے ان حصوں میں بھی گیا جہاں جانا انتہائی دشوار تھا۔ اسے سکیورٹی کی وارننگ بھی نہ ڈرا سکی۔ معلوم نہیں کب اسے پاکستان کے غریب لوگوں سے پیار ہوگیا۔ ان کے دکھ دردکا احساس ہوا۔ مارک آندرے کو لوٹ مارکرنے والے اشرافیہ سے چڑ ہوگئی۔ وہ حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ملک کو کیسے چلا رہی ہے۔کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں۔

    اس ملک کی اشرافیہ اپنے ہم وطن غریبوں کو لوٹ کر لندن، دبئی، نیویارک اور نامعلوم کہاں کہاں جائیدادیں خرید رہی ہے۔ انہیں اس ملک کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں۔ آندرے کا کہنا ہے ایسی اشرافیہ کا اچار ڈالا جائے جو پیسے بنانے کے لیے سستی اور غیر تعلیم یافتہ لیبر کا استحصال کرتی ہے! ایسی اشرافیہ نہیں ہونی چاہیے جو جشن منانے اور موج مستی کے لیے لندن جائے اور خریداری دبئی جا کر کرے۔ مارک کا کہنا ہے پاکستان کے امیر طبقے کو اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پاکستان چاہیے یا نہیںکیونکہ جس طرح کی لوٹ مار ہو رہی ہے اس طرح ملک نہیں چلتے۔ مارک کے مطابق وہ ایسے بہت سے پاکستانی زمینداروں اور جاگیرداروں کو جانتا ہے جنہوں نے صدیوں غریبوںکا استحصال کیا۔ یہ لوگ اقوام متحدہ جا کرمطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پانی، صفائی اور تعلیم کے لیے امداد دی جائے حالانکہ ان کی اپنی جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں۔

    آندرے کے دل میں تکلیف کو آپ سب محسوس کرسکتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ بہت قابل ہیں لیکن وہ اتنی ترقی نہیں کر پا رہے جتنی ان میں صلاحیت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس ملک میں آٹھ کروڑ لوگ غریب ہوں وہ ایسے نہیں چل سکتا۔ وہ کراچی کی صورت حال کو خطرناک قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے اگر کراچی کو ملکی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے تو پھر وہاں عوامی مفاد کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ مارک خبردار کرتا ہے کہ پاکستان میں حالات اب صحارا (افریقہ) جیسے لگتے ہیں۔ چند اضلاع کو دیکھ کرافریقہ یاد آ جاتا ہے۔ باقی چھوڑیں، پاکستان اب تک مردم شماری نہیں کرا سکا۔ فاٹا جائیں تو لگتا ہے وہاں کے لوگ سترہویں صدیں میں جی رہے ہیں۔

    وہاں اصلاحات کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں، عورتوں اور فاٹا کے لوگوں کے بنیادی حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے تو بنا دیے گئے ہیں لیکن نہ ان کے پاس اختیار ہے نہ فنڈ۔ تاہم خیبر پختونخوا میں مارک کے بقول کچھ اچھا کام ہوا ہے ۔ ایک تو خیبر پختونخوا کا بلدیاتی اداروںکا قانون پنجاب اور سندھ سے بہت بہتر ہے، دوسرے وہاں بلدیاتی اداروںکو اربوں روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب اور سندھ میں بہتر قانون بنایا گیا نہ ان اداروں کو فنڈز دیے گئے ۔ مارک کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ الیکشن کرادیں اور پھر بات ختم۔ آپ انہیں اختیارات دیں، فنڈز دیں۔

    مارک پہلا اور آخری غیرملکی نہیں جو پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اور بے حسی پر پھٹ پڑا ہے۔ اداکارہ جولی کے بعد برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں بھی اس طرح کی تقریریں سننے کو ملیں۔ برطانیہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کے لیے تقریباً ایک ارب پائونڈ امداد دیتا ہے۔ ہائوس آف کامنز میں بحث ہوئی تھی کہ اس امداد کا پاکستان کے عام لوگوں کوکیا فائدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنے لوگوںکے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی آمدن سے پاکستان کو ڈیرھ سو ارب روپے امداد اس لیے دیتا ہے کہ اس کے غریب پڑھ جائیں، انہیں بہتر زندگی میسر ہو۔ برطانوی ارکان نے پوچھا تھا کہ اگر پاکستان اتنا غریب ہے تو پھر پاکستانی حکمران لندن میں اربوںکی جائیدادیں کیسے خرید لیتے ہیں؟ پاکستانی عوام پر جو لوگ حکمرانی کرتے ہیں وہ سب کچھ لوٹ کر برطانیہ لے آتے ہیں اور یہاں جائیدادیں بناتے ہیں۔

    برطانیہ کے ہائوس اف کامنزکے بعد اس طرح کی گفتگو امریکی کانگریس میں بھی سننے کو ملی جب وہاں پاکستان کو ایف سولہ طیارے رعایتی نرخوں پر دینے کے بل پر بحث ہوئی۔ اس بل کے تحت امریکہ، پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر اپنی طرف سے ایف سولہ بنانے والی کمپنی کو دینے پر راضی تھا۔ پاکستان نے سات سو ملین ڈالرکی اس ڈیل میں ڈھائی سو ملین ڈالرادا کرنے تھے؛ تاہم کانگریس نے اس کی منظوری نہ دی جب رکن نے کھڑے ہوکر پاکستانی اشرافیہ کو ننگا کر دیا اور پوچھا کہ امریکی عوام کا پیسہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کو عیاشی کے لیے کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کو جہاز چاہئیں تو وہ پوری رقم ادا کرے۔ امریکی لوگوں کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت میں سے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالرکی خیرات کیوں دی جائے؟ سب اس رکن کی تقریر سے متاثر ہوئے اور بل روک دیا گیا۔

    پانچ سو ملین ڈالرمعمولی رقم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین جمع کرنے کے لیے یورو بانڈ کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین قرضہ نیویارک میں لیا جس پر دس برس میں پاکستان چار سو دس ملین ڈالر سود ادا کرے گا۔ یہ اورکہانی ہے جو سینیٹ کے کمیٹی میں دم توڑ گئی۔ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کون سے شرفا نے پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے بھیج کر یہ مہنگے یورو بانڈ خریدے جو دس برس بعد لمبا مال کمائیںگے۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے سلیم مانڈوی والا اورکمیٹی کے ممبران کو ایسا ڈرایا کہ انہیں دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

    ایک عالمی این جی او اکسفام نے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون لیڈر کی سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد میں لوٹ مار پر کا رونا رویا تھا۔ جو پیسہ بیرون ملک سے سندھی سیلاب زدگان کے لیے بھیجا گیا وہ ادی اور ادی کے حواری کھاگئے۔

    بیرونی قرضوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرکا قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا گیاوہ سب اس نے اپنے پچھلے قرضے کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر لیا۔ ماہر معاشیات اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے بیرونی قرضوں کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ حفیظ پاشاکو سنیں تو رات کو نیند نہیں آتی کہ کتنا قرضہ لیا جا رہا ہے اورکس بے دردی سے خرچ ہو رہا ہے۔ انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارت کار نے خبردارکیا ہے کہ جب پاکستان کا قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچے گا تو دنیا پاکستان کے نیچے سے قالین چھین لے گی اور نیوکلیر پروگرام ختم کرنے سے کم پر ڈیل نہیں ہوگی۔ حفیظ پا شا کہتے ہیںکہ 2018ء تک یہ قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

    دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کی تقریریں سنیں اور شہبا ز شریف کی چین سے ترکی تک کی آنیاں جانیاں دیکھیں تو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ نے پاکستان کی خوشحالی دیکھ کر پاکستان سے دس ارب ڈالرکی امداد مانگ لی ہے!

  • قرضے، وعدے اور ذخائر – مزمل احمد فیروزی

    قرضے، وعدے اور ذخائر – مزمل احمد فیروزی

    مزمل احمد فیروزی حال ہی میں ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس کے مطابق پاکستان کا ہر بچہ بشمول پیدا ہونے والے کے کم و بیش ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ میاں صاحب کی موجودہ حکومت نے وطن عزیز کی تاریخ کاغیر معمولی قر ضہ لیا جوکسی بھی حکومت کی جانب سے1برس کے دوران سب سے زیادہ لیا جانے والا قر ضہ ہے۔

    اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2015-16 کے اختتام تک وفاقی حکومت کے قرضے کا بوجھ 16.96سے بڑھ کر 19عشاریہ ایک کھرب ہو گیا ہے جو اسٹیٹ بینک کے قر ضوں میں21کھرب کا خالص اضافہ ہے. سرکاری شعبے کے اداروں کی جانب سے حاصل کردہ مالی ذمے داریوں اور قرضوں کے علاوہ مالی سال 2013-14 سے2014-15کے دوران مقامی ذرائع سے حاصل شدہ قرضوں اور واجبات کی مالیت1ہزار 374ارب جبکہ 2014-15سے 2015-2016 کے دوران 1ہزار ارب روپے کے مستقبل قرضے حاصل کیے گئے، جس کے بعد حکومت کے ذمہ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ مستقل قرضوں کی مالیت 5ہزار936 ارب تک پہنچ چکی ہے جبکہ وزارت خزانہ کی قرضوں کے متعلق جاری کردہ رپورٹ کے مطابق قرضہ181 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان پر ملکی اور غیر ملکی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور رواں مالی سال میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 900 ارب روپے بڑھا ہے۔ پاکستان پر مجموعی قرضہ181 کھرب سے بھی تجاوز کرگیا جبکہ غیرملکی قرضوں کا بوجھ 53 ارب 40 کروڑ ڈالر تک پہنچ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار کے وقت قرضوں کا کُل حجم 48 ارب دس کروڑ ڈالر تھا، موجودہ حکومت میں بیرونی قرضوں میں پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، جبکہ قانون کے مطابق پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کا 60 فیصد سے کم ہونے چاہییں۔

    قرضوں کے موجودہ اعداد و شمار پڑھنے کے بعد چنیوٹ کے مقام رجوعہ پر ادا کیے گئے میاں صاحب کے تاریخی جملے یاد آگئے ’’پوری پاکستانی قوم کو مبارک ہو، اللہ کے فضل سے ہم ہمت ہارنے والے نہیں، کشکول ضرور توڑ دیں گے۔ لوہے کی تلاش میں نکلے تھے، سونے اور تانبے کے ذخائر مل گئے، اب کشکول ٹوٹ جائےگا، ہم اب کشکول لے کر نہیں بلکہ سونا، لوہا اور تانبا لے کر باہر جایا کریں گے، جس سے ہمارے قومی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا۔‘‘ چنیوٹ، پنجاب کا ایسا شہر ہے جو معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ برازیل اور روس میں پایا جانا والا بہترین لوہا رجوعہ کے مقام سے برآمد ہونے والے لوہے کے برابر ہے۔ 2007ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہی نے ان معدنی خزانوں کا ٹھیکہ اپنی منظورنظر کمپنی کو بغیر ٹینڈر کے دے دیا تھا۔ چھوٹے میاں صاحب وزیراعلیٰ بنے تو اْنہوں نے عدالت سے رجوع کیا، عدالت عالیہ نے اس فرم اور ٹھیکیداروں کونااہل قرار دے دیا جس کے بعد ڈاکٹر ثمرمند مبارک کی سربراہی میں نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دے کر چینی اور جرمن کمپنیوں کو باقاعدہ ٹھیکے دیے گئے تاکہ ان ذخائر کی مقدار اور معیار کے بارے میں سروے کیا جا سکے۔ تقریباً گیارہ مہینے کی کھدائی اور تجربات کے نتیجے میں چینی ماہرین نے 28مربع میل کا سروے مکمل کیا۔ جہاں بھی کھدائی کی گئی، بہترین کوالٹی کے خام لوہے اور کاپر کے وسیع ذخائر ملے۔ سونے، چاندی، تانبے اور لوہے کے یہ ذخائر 2ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہیں جبکہ اس وقت 28مربع میل تک کھدائی کی گئی تھی۔ چینی ماہرین کے مطابق ملنے والی معدنیات کے نمونے قدروقیمت میں کِسی بھی طرح ریکوڈک سے کم نہیں. ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ قیمت اربوں ڈالر تک پہنچتی ہے۔ شریف برادران نے یہ بات کئی بارکہی کہ اس معدنی خزانے پر صرف پنجاب نہیں، پورے ملک کا حق ہے، وطن عزیز کے 18کروڑعوام اس سے مستفید ہوں گے۔ مگر یہ سب باتیں ہوا ہوئی اور اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وطن عزیز کے عوام ان ذخائر سے مستفید نہ ہوسکے اور نہ جانے یہ ذخائر کہاں چلے گئے. کہیں پھر زمین واپس نگل گئی یا آسمان کھا گیا یا ہوا میں گل ہو گیا. موجودہ حکمران عوام سے مذاق کرتے آئے ہیں اور یہ بھی شاید ایک مذاق ہی تھا جو ہوا ہو گیا.

    کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے سب سے زیادہ قرضہ لینے کا اعزاز حاصل کر لیا. قرضہ لینے میں میاں صاحب کی حکومت نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.21کھرب روپے کا غیر معمولی قرضہ جو اب تک پاکستان کی کسی بھی حکومت کی طرف سے لیا جانے والا سب سے بڑا قرضہ ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرونی قرضوں کی بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگر قرضے لینے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا اور مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے تک قرضوں کا حجم خام ملکی پیداوار کے 65 فیصد تک پہنچ جائےگا. ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعی میں کشکول کو توڑا جائے اور اپنے یہاں سے نکلنے والے معدنی ذخائر پر اکتفا کر کے ان پر اچھے طریقے سے کام کیا جائے اور طیب اردگان نے کہا تھا کہ میں نہ صرف قرضہ اتاروں گا بلکہ اس وطن کو قرضہ دینے کے قابل بنائوں گا اور اس نے ایسا کر دکھایا بالکل اسی طرح اپنی کہی ہوئی بات کو پورا کر کے دکھایا جائے کہ قرضوں سے بھی جان چھوٹ جائے اور دوسروں کو قرضہ دینے کے قابل بھی ہوا جائے۔