Tag: قبر

  • برزخی معاملات جسمانی ہوں گے یا روحانی ہیں؟ فیاض الدین

    برزخی معاملات جسمانی ہوں گے یا روحانی ہیں؟ فیاض الدین

    برزخی معاملات میں جناب محمد ہادی صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کو میں بالکل درست سمجھتا ہوں کیونکہ دونوں کے نزدیک موت کے بعد جو عذاب اور راحت ہے وہ روحانی ہے، اس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔
    جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں
    ”اس دنیا سے جب ہم رخصت ہوتے ہیں تو دو چیزیں ہیں، ایک ہمارا جسم ہے اور ایک ہماری شخصیت ہے، وہ فرشتے لے لیتے ہیں، قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ان کی تحویل میں ہماری اصلی شخصیت دے دی جاتی ہے، قبر میں صرف جسم جاتا ہے، کبھی دریا میں چلا جاتا ہے، کبھی راکھ بنا کر اڑ جاتا ہے، یہ جو بات قبر کے متعلق کی جاتی ہے، وہ دراصل عام حالات کی وجہ سے کی جاتی ہے، اصل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری اصلی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے وہ عام طور پر عالم برزخ کے احوال ہیں جسے عام طور پر بیان کیا جاتا ہے، اس کو بھی قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ لوگ ہیں جن کا معاملہ نیکی سے متعلق بالکل واضح ہے جیسے اللہ کے پیغمبر ہیں، جیسے شہداء ہیں، بہت سے صالحین ہیں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم ہیں، اورسارے صحابہ کرام ہیں، اللہ ان کے فوت ہوتے ہی نعمتوں کا معاملہ شروع کرتا ہے۔ اس کا ہم شعور نہیں رکھتے کیوں کہ ہم دنیا میں صرف جسم کے ساتھ زندگی سے واقف ہیں، اور جسم کے بغیر زندگی جس کا ہم شعور نہیں رکھتے، اس میں نعمتیں دی جاتی ہیں، اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اختیار کی جیسے فرعون ہے، جیسے نمرود ہے، ان لوگوں کے بارے میں بھی قرآن نے صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ مرنے کے فورا بعد ان کے ساتھ ایک معاملہ ہونا شروع ہوجاتا ہے. غامدی صاحب کا مؤقف یہی ہے کہ سارا معاملہ روح کےساتھ ہے اور یہ ایک روحانی معاملہ ہے جس سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں۔“

    جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں
    [pullquote] حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أحَدَھمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [٢٣:٩٩][/pullquote]

    (یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے۔﴿٩٩﴾

    [pullquote]لَعَلِّي أعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إنَّھا كَلِمَۃ ھوَ قَائِلُھا ۖ وَمِن وَرَائِھم بَرْزَخٌ إلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ [٢٣:١٠٠] [/pullquote]

    تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہوگا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے، (رہیں گے)

    یہ متوفی کا کلام ہے مرنے کے بعد، کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب جِس دارالعمل کو میں چھوڑآیا ہوں، وہاں مجھے دوبارہ لوٹادے تاکہ میں صالح اعمال اختیار کروں، عمل کا میدان دنیا ہے۔ اَب غور کریں جب متوفی (وفات شدہ انسان) موت کے سبب دنیا چھوڑتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ پہلے جواب دیا گیا ہے کہ آخرت کی پہلی منزل میں وہاں یہ نفس معدوم نہیں بلکہ موجود ہے، اپنے رب سے کلام کرتا ہے۔ ہاں دنیا والوں کے لیے مردہ ہے، نہ دنیا والوں کی سُن سکتا ہے، نہ ان کو سنا سکتا ہے کیونکہ دونوں کے درمیان برزخ (حجاب) ہے۔ دنیا والے موت کے ذریعے اُس پارجا سکتا ہے، موت کے بغیر نہیں جا سکتا اور مرے ہوئے لوگ اِس پار (دنیا ) میں نہیں آسکتے کیونکہ اَب ان کا تعلق دنیا سے ختم ہو چکا ہے اور اَب وہ آخرت میں ہیں۔ چونکہ عمل کی مہلت ختم ہو چکی ہے تو اللہ اُس کی اس فریاد کو قبول نہیں کرتا تو فرمایا کہ ’’اور ان کے پیچھے آڑ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے دِن تک‘‘
    مردے اور زندے آپس میں گڈمڈ نہیں ہو سکتے، زندوں کے لیے دنیا ہے اور مردوں کے لیے آخرت ہے، اور برزخ حدِّ فاصل ہے دنیا و آخرت کا۔
    جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ
    ”جسم ختم ہو جاتا ہے اور سارا معاملہ روح کے ساتھ ہے یعنی انسان کی اصلی شخصیت کے ساتھ ہے ۔ اور یہ اصلی شخصیت انسان کی “میں” ہے ۔ایک مومن مرتے ہی اللہ کی رحمت میں داخل ہوجاتاہے اور کافر مشرک مرتے ہی اللہ کی لعنت اور عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ جسم ان کا ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ عذاب اور راحت روحانی معاملہ ہوتا ہے جس کی کیفیت کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں اور جنت دوزخ میں داخلہ جب ہوگا یہ جسم اور روح سمیت ہوگا۔قیامت سے پہلے یہ روح جسم کے ساتھ نہیں مل سکتی۔“
    مزید کہتے ہیں کہ
    ”انسان جسم اور روح کے ملاپ سے بنا ہے اور زندگی اسی کو کہتے ہیں.“
    ”موت کیا ہے؟ دراصل موت جسم اور روح کی علیحدگی کا نام ہے.“

    جناب غامدی صاحب بھی کہتے ہیں کہ
    ”سب سے پہلے انسانی قالب یعنی جسم تیار ہوتا ہے اور پھر اللہ اسی جسم میں اپنا امر (روح) پھونک دیتے ہیں، یہ ایک روحانی انتقال کا عمل ہے جو ہوتا ہے، اور یہی انسان کی اصلی شخصیت ہے، اسی شخصیت کو روح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔“
    غامدی صاحب کہتے ہیں کہ
    ”قیامت کے دن جسم اور روح سمیت یعنی انسان کی اپنی شخصیت کے ساتھ جنت اور دوزخ جائیں گے۔“

    غامدی صاحب جیسے کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، کہتے ہیں کہ اس روحانی معاملات کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں، کیونکہ ہم اس دنیا کی زندگی جسم سمیت سے واقف ہیں، مرتے ہی جو معاملات ہیں، جو روحانی کیفیت کے ہیں، جو جسم کے بغیر ہے، اس کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ جناب محمد ہادی صاحب کہتے ہیں کہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مردے شعور نہیں رکھتے تو عذاب و راحت کیسے ملتی ہے، انہیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ شعور ایک دنیا کے اعتبار سے ہے اور ایک روحانی اعتبار سے مرنے کے بعد۔ جو شخصیت اس دنیا سے چلی گئی ہے، وہ دنیا کے معاملات کا شعور نہیں رکھتی ہے، وہاں برزخی معاملات جو کہ روحانی ہیں، اسے سمجھتے بھی ہیں اور عذاب و راحت بھی محسوس کرتے ہیں۔ عذاب بھی ہوتا ہے اور راحت بھی ہوتی ہے۔ اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

  • موت ایک اٹل حقیقت – آصف نواز قاسمی

    موت ایک اٹل حقیقت – آصف نواز قاسمی

    اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ۔۔ کل نفس ذائقۃالموت۔۔ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ہر ایک کو موت آنی ہے۔۔۔
    ایک دانا کا قول ہے کہ دانشور کو تین چیزیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئیں:
    پہلی چیز دنیا کا فانی ہونااور اسکے قرب وجوار کا اُجڑ جانا۔
    دسری چیز موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
    تیسری چیز وہ آفات جن سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
    اور منجملہ ہماری حالت اسکے برعکس ہے کہ ہم نے ان تینوں کو ہی فراموش کر رکھا ہے۔
    اس فانی دنیا کے حصول کے لیے ہم نے آخرت کے تمام تر سرمائے کو فراموش کر رکھاہے۔۔اور یہ ذہن میں ہے کہ شاید ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے۔اور موت سے غافل ہیں۔۔تعجب ہے کہ قبرستان میں اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں ۔لیکن خود کے بارے میں نہیں سوچتے کہ ہم نے بھی ایک نہ ایک دن ادھر ہی آنا ہے۔
    کل میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا۔۔کہ میں مر جائوں گا۔۔یہ زبان سے تو بعض اوقات کہہ دیتا ہوں ۔۔لیکن کیا واقعی سوچا کبھی کہ میں نے مرنا ہے۔۔۔دل نے کبھی کہا؟؟ ایک دفعہ بھی نہیں۔۔
    کبھی سوچا نہ تھا کہ اپنے پیارے ابو جان کو قبر میں اتارنا پڑے گا۔۔
    جو دنیا سے چلے گئے شاید وہ انہیں بھی یقین نہ ہوگا کہ وہ چلے جائیں گے سب کچھ چھوڑ کر۔
    کسی شاعر کے کہے اشعار یاد آگئے۔
    تجھ کو ڈولی میں کر کے سوار جنگل میں لے جائیں گے
    کر رہی ہے قبر انتظار جنگل میں لے جائیں گے
    سب کچھ رہ جائے گا دھرے کا دھرے۔۔بڑے بڑے چلے گئے۔۔موت نے نہیں چھوڑا۔،۔جسے اپنی دولت پہ ناز تھا۔جسے اپنی قوت کا گھمنڈ تھا۔جسے اپنے لشکروں پر بھروسہ تھا۔جسے اپنے تخت شاہی کا زعم تھا۔جسے اپنی عقل پر یقین۔۔جو ہر میدان کا فاتح تھا۔۔لیکن موت سے پچھاڑ دیا۔۔موت کے پنجے سے کوئی نہ بچ سکا۔
    آج جو عمومی بگاڑ نظر آتا ہے معاشرے میں۔یہ فساد اور بگاڑ یہ خون خرابہ ۔۔یہ لوٹ کھسوٹ۔۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۔۔موت کو فراموش کربیٹھے ہیں۔۔۔آج آخرت کی فکر پیدا ہوجائے۔تو یہ تمام خرابیاں یہ تمام برائیاں ختم ہوجائیں۔۔۔
    اسی لیے تو محسنِ کائنات ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔نے جو حل تجویز فرمایا ۔۔وہ موت کی یاد ہے۔۔
    فرمایا کہ لذتوں کو ختم کرنے والی چیز موت کو یاد کرو۔۔۔
    اور فرمایا کہ عقلمند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے۔۔واقعی اصل عقلمندی یہی ہے کہ سفرِ آخرت کی تیاری کی جائے۔۔ایسا سفر جس سے واپسی نہیں۔۔ایسا سفر جس میں کوئی شریکِ سفر نہیں۔۔ایسا سفر جس میں مادی اشیاء ۔۔یہ دنیا کی چیزیں ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں۔۔
    ایسے سفر کے لیے تیاری نہ کرنا۔۔بلکہ غافل ہوجانا ۔۔ بیوقوفی ہے۔۔
    یہ دنیا سرائے دھر مسافرو بخدا یہ کسی کا مکاں نہیں
    جو مقیم اس میں تھے یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں
    غرور تھا ، نمود تھی ہٹو بچو کی تھی صدا
    پر آج میں تم سے کیا کہوں کہ لحد کا بھی پتہ نہیں
    وہ لوگ جن کے محلوں میں ہزار رنگ کے فانوس تھے
    جھاڑ ہیں انکی قبر پر نشان کچھ بھی بچا نہیں۔۔۔
    اللہ تعالٰی ہم سب کو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

  • علامہ اقبال ؒ  کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ – ادریس آزاد

    علامہ اقبال ؒ کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ – ادریس آزاد

    ادریس آزاد ایک دوست نے سوال کیا کہ،
    ’’ایک جگہ پڑھا تھا کہ علامہ اقبال حیات بعد الممات میں جنت یا دوزخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ اِسے رُوحانی معنوں میں لیتے ہیں۔ مجھے اِس کا تسلی بخش جواب چاہیے، حوالوں کے ساتھ‘‘

    میں نے اُنہیں جواب دینے کے لیے لکھنا شروع کیا تو لکھتا ہی چلا گیا۔ جب جواب ختم ہوا تو اندازہ ہوا کہ میں قاری کی برداشت سے کہیں آگے تک لکھتا چلا گیا ہوں۔ خیر! مضمون کچھ یوں شروع کیا تھا کہ،

    اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے اسلامی عقائد پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں، یہ جان لینا زیادہ ضروری ہے کہ اقبال خود ’’عقیدہ‘‘ کو سمجھتے کیا ہیں؟ کیا وہ کسی عقیدہ کے قائل ہیں؟ وہ عقیدہ کو مذہبی زندگی کا کونسا درجہ قرار دیتے ہیں؟ کیا اُن کے نزدیک عقیدہ ہونا ضروری ہے؟ اور یہ بھی کہ فی الواقعہ عقیدہ ہوتا کیا ہے؟

    سید کرامت حسین جعفری کے بقول،
    ’’اقبال کے نزدیک مذہبی زندگی کے تین ادوار ہیں،
    اعتقادی
    اجتہادی
    استشہادی
    یہ فقط اعتقادی دور ہی ہے جس کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ اقبال نے خود اس بات کو اپنے خطبات میں ایمان، فکر اور معرفت کا نام اور ترتیب دی ہے۔کرامت حسین جعفری نے اس کی تشریح یوں کی ہے،

    ’’اپنی ابتدائی صورت میں مذہب عقیدہ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے جب کہ دوسرے دور میں مذہب کی تاسیس اور تشکیل، مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔ اس مقام پر صرف مذہبی عقیدے کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا بلکہ عقلی طور پر اس کی حقانیت کو بھی مانا جاتا ہے، اس کے بعد مذہب ذاتی استشہاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ مذہبی زندگی کا تیسرا اور آخری درجہ ہے، انسان اس منزل پر اپنے تمام فکری ، جذباتی اور ارادی پہلوئوں کی ترتیب و تعدیل کے بعد اپنے اندر ایک خاص قسم کی زندگی اور قوت پاتا ہے۔ اسے آزاد شخصیت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، یہ آزادی کسی قسم کے قوانین سے ماورائیت کی غماز نہیں ہوتی، بلکہ یہاں آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی خودی کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اصل اصول کا مشاہدہ کرتا ہے، یہ مشاہدہ ایک مکاشفائی رویے کو جنم دیتا ہے۔ اس منزل پر مذہب زندگی اور تجربہ کی نفی کا قائل نہیں بلکہ اثبات کا داعی ہے‘‘۔

    علامہ-اقبال.jpg اقبال کی ترتیب برائے مذہبی زندگی، ایمان، فکر اور معرفت ہے۔ ایمان عقائد اختیار کرنے کا مقام ہے۔ فکر اُن عقائد کی اصل رُوح تک پہنچنے اور ان پر غور کرنے کا دور ہے اور معرفت حواس اور عقل سے حاصل ہونے والے مذہب کو اس طرح اپنے اندر جذب کرلینے کا نام ہے کہ ظاہری و باطنی زندگی خودکار طریقے سے حسن ِ عمل کا شاہکار نظرآئے۔ اسی ترتیب سے انسانوں کی بھی قسمیں ہیں۔

    ۱۔ وہ لوگ جو مقامِ اوّل یعنی ایمان اور عقیدہ کے مقام پر ہی مذہبی زندگی کے ساتھ بلاتردد وابستہ ہوگئے۔ ان کا دوسرا دوریعنی جب وہ اپنے ہی عقائد پر غوروفکر کے عمل سے گزرتے اگرچہ اپنی پوری قوت سے جاری رہا لیکن انہوں نے ہرطرح کی فکر کو ملعون قرار دیا اور تادم ِ مرگ ایمان کے سہارے ہی مذہبی زندگی اختیار کیے رکھی۔

    ۲۔ وہ لوگ جو ایمان اور عقیدہ کے مقام سے آگے بڑھے اور مذہبی زندگی کے اگلے درجہ یعنی فکر اور تدبر کے مرحلہ میں داخل ہوگئے اور وہیں رہ گئے۔ یعنی غوروفکر کے عمل میں ان کےلیے اتنا سامان تھا کہ مذہبی زندگی کو بطور عقیدہ اختیار کرنے اور پھر اس پر غوروفکر کرنے پر ہی اکتفا کرلیا۔ یہ لوگ نور بشر اور شریعت و الٰہیات کے مباحث میں عمر بسرکرسکتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ فکر کے حامل لوگ متکلمین بن کر مذہب کا، فلسفہ و منطق کے طور طریقوں پر دفاع کرتے ہیں اور اسی میں عمر گزار سکتے ہیں۔

    ۳۔ اگر مذہبی زندگی کے مراحل بخیریت طے ہوتے رہیں تو تیسرا اور آخری دور شروع ہوتاہے۔ یہ دور نہ اعتقادی ہے اور نہ اجتہادی۔ اس دور میں ایمان اور فکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے دونوں درجات سے گزرمکمل ہوجاتاہے۔ اس دور میں عقیدہ جیسی سطحی اور فکر جیسی فقط عقلی زندگی بتدریج معرفت میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں جن حقائق کا ادراک تھا ان کی بھی تصدیق کا سامان موجود ہے اور ان جن کا ادراک نہیں تھا ان کے اسرار کھل جانے کا بھی سارا سامان موجود ہے۔

    اب جب ہم بات کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کیا تھے؟ تو ہم اُس درجہ کی بات کرتے ہیں جو مذہبی زندگی کا پہلا درجہ ہے۔ یعنی ایمان۔ نہ کہ اس سے اگلے مدارج یعنی فکر اور معرفت(یعنی وجدانی طور پر سرزد ہونےوالا حسنِ عمل) کی۔

    نقوی صاحب! آپ نے فقط جنت اور جہنم یا حیات بعدالموت کے حوالے سے سوال کیا ہے۔
    عام عقیدہ کے مطابق جنت میں حوریں ہوں گی، شراباً طہورا ہوگی، ہرقسم کے کھانے ہوں گے، دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی۔ یا جہنم میں آگ ہوگی، آگ والے کوڑا بردار فرشتے ہوں گے، ہزاروں سال اُس آگ میں جلنا ہوگا، یا قبر میں عذاب ہوگا، سانپ اور بچھو ہوں گے، [pullquote]مَنْ رَبُّکَ ، مَنْ نَبِیُّکَ، مَنْ دِیْنُکَ[/pullquote]

    جیسے سوالات ہوں گے۔

    یہ ہے مذہبی زندگی کا وہ درجہ جو اقبال کے نزدیک عقائد تک محدود ہے۔ پھر اس سے اگلا درجہ ہے جب انہی عقائد پر ہم غوروفکر کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہرکوئی کرتا ہے۔ ازخود ہوتا ہے۔ اوپر میں وضاحت کرچکا ہوں کہ کون کون کس درجہ کی مذہبی زندگی میں پھنس کر رُک جاتاہے ۔

    اب یہ درست ہے کہ ’’علامہ اقبال نے اسلامی عقائد کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال کی اس کاوش کا تنقیدی جائزہ لینا بہرحال ضروری ہے‘‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اسلامی عقائد میں اجماع ِ اُمت کے اُصول کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے اُس کے ہوتے ہوئے کیا ہم کسی فردِ واحد کی کوئی کاوش قابل ِ اعتنأ سمجھ سکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ، فردِ واحد کی کاوش کی اپنی اہمیت ہے اور جب کبھی بھی اُمت کو اجماع کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمیشہ افراد کی انہی کاوشوں کی طرف رجوع کیا جاتاہے جو اپنے اپنے زمانوں میں تقریباً انفرادی سطح کی کوششیں ہی رہی ہوتی ہیں۔

    خیر! تو اِس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے لیے صرف میسم نقوی کے سوال یعنی جنت جہنم تک ہی محدود نہیں رہینگے بلکہ مجموعی طور پر تمام بڑے بڑے عقائد پر علامہ اقبال کی گفتگو ملاحظہ کرنے کی کوشش کرینگے جو مذہبی زندگی کے ابتدائی درجہ میں اپنی نہایت سادہ سطح پر موجود ہیں اور اقبال (اپنے ہی بقول مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ میں) ان میں اپنی فکر کے ذریعے کیا رنگ بھردیتے ہیں۔ اس مقام تک ہرکاوش کو ’’ علم کلام‘‘ کہا جاتاہے۔

    ہمارے بنیادی سورسز میں سب سے اہم خطبات ِ اقبال ہے۔کیونکہ ایک تو یہ نثر ہے اور شعر کے مقابلے میں اِس میں براہِ راست یعنی ڈائریکٹ بات ہوتی ہے نہ کہ استعاروں اور اشاروں کنایوں میں۔ دوسرا یہ کہ یہی کتاب علامہ اقبال کی آخری عمر کی مفصل تحریر ہےاور اس لحاظ اقبال کے عقائد کا یہ وہ ورژن ہے جسے علامہ اقبال کے کسی سابقہ بیان یا تحریر سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ہم اقبال کے ہر سورس سے بھرپور مدد لینے کی کوشش کرینگے۔ تاکہ پوری طرح جان سکیں کہ اقبال کے عقائد کیا ہیں؟

    اقبال خطبات کے دیباچہ میں خود اس بات کا اظہار ہےکہ،

    ’’وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس (آیت) کا اشارہ جس حیاتی وحدت کی طرف ہے اگر آج اسے تجربے میں لایا جائے تو کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہوگی جو عضویاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو، مگر نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘

    اس اقتباس کے بعد اقبال دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ

    ’’چنانچہ یہی وہ مطالبہ ہے جسے اِن خطبات میں جو، ’مدراس مسلم ایسویسی ایشن‘ کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے گئے، مَیں نے اسلام کی روایاتِ فکر، علی ھذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم اِنسانی کے مختلف شعبوں میں حال میں رُونما ہوئیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل ِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔

    پہلے اقتباس میں، آپ نے اس جملے پر غور کیا؟

    ’’جو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو‘‘

    اس سے ماسوائے اس کے اور کیا مراد ہوسکتی ہے کہ اب ایسے منہاج کی ضرورت ہے جو ’’صوم و صلاۃ‘‘ اور عباداتِ بدنی کی شدت میں کمی لائے؟ اس کے مقابلے میں ’’نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘۔ یعنی موجودہ دور کا سائنسی اور مادی ذہن۔ چنانچہ اقبال کا مدعا دیباچے سے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ اقبال کس نوعیت کی تشکیل ِ جدید کرنے جارہے ہیں۔

    اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لیے ہم ترتیب وار چلتے ہیں۔

    عام مسلمان کا عقیدۂ توحید
    ۔۔۔
    ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام توحید پرست مذہب ہے۔ لیکن جب ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔ہم الجھ جاتے ہیں۔ یہ مقامِ ’’فکر‘‘ کا آغاز ہے۔ آسان جواب تو یہ ہے کہ توحید کا مطلب ہے، ’’اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘۔ اور اگر کوئی اللہ کے ساتھ اور طاقتوں کو شریک ٹھہرائے تو مشرک ہے اور ظلم عظیم کا مرتکب ہوتاہے۔ پھر جب اسی سادہ سے جواب پر ہم بارِ دگر غور کرتے ہیں کہ توحید کیا ہے تو ہمیں چونکنا پڑتاہے۔ ہمیں سوچنا پڑتاہے کہ’’شرک‘‘ میں کیا کیا آتاہے؟ وحدانیت پسندوں کے نزدیک بعض ایسی باتیں بھی شرک ہیں جو ہمارے نزدیک بالکل عام سی باتیں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ، ’’میں مُولی نہیں کھاتا۔ اس سے میرے پیٹ میں درد ہوتاہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بھی شرک ہے کیونکہ توحید یہ ہےکہ،

    ’’اللہ تعالیٰ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے‘‘۔

    اور دوسری طرف اگر یہ کہا جائے کہ، ’’نہیں جناب شرک اتنا سختی سے سوچنے کا نام نہیں۔کسی کے سامنے جھکنا تعظیم کے لیے بھی ہوسکتاہے۔ کسی شئے کو چومنا محبت کے لیے بھی ہوسکتاہے۔

    اور اس طرح پہلی کڑی شرط ’’شرک نہ کرنا‘‘ کی بے شمار تاویلیں نکل سکتی ہیں اور ’نرم و سخت‘ ہردو انتہاؤں کو آرام سے اخذ کیا جاسکتاہے۔سوال یہ ہے کہ پھر توحید کا حقیق معنیٰ کیسے متعین کیا جائے؟

    کیا توحید کے معنیٰ میں خدا کا تصور لازمی ہے؟ اگر خدا کا تصور لازمی ہے تو پھر خود ’’تصور ِ خدا‘‘ ہی ایسا لاینحل سوال ہے کہ آج تک دنیا کے کسی مذہب و فلسفہ سے حل نہ ہوسکا۔ کون سا خدا؟ کیسا خدا؟ کیا خدا کا جسم ہے؟ قران میں خدا کی آنکھوں کا ذکر ہے۔ قران میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا خدا کی آنکھیں اور ہاتھ بھی ہیں؟ اگر خدا کا جسم ہے تو وہ ضرور ’’مکان‘‘ میں کسی جگہ بیٹھتاہوگا؟ وہی خدا کا عرش ہے۔ خدا کا عرش کہاں ہے؟ وہ کتنی جگہ گھیرتاہے؟ خدا کتنا بڑاہے؟ اگر وہ جگہ گھیرتاہے اور کہیں دور اس کا جسم کسی عرش پر بیٹھاہے تو پھر جسمانی طور پر تو وہ ہم سے الگ ہوا۔ اس کی حد مقرر ہوگئی۔ تب وہ ہرجگہ، ہروقت کیسے ہوسکتاہے؟

    غرض یہ سادہ سادہ سے عوامی سوالات ہیں جو محض یہ کہہ دینے سے کہ توحید میں تصور ِ خدا لازمی طور پر شامل ہے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان سے آگے سوالات پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہم ’’تصورخدا‘‘ پر بات کرتے ہیں تو عقیدہ توحید جابجا مجروح ہوتا اور بعض اوقات توحید سے فی الواقع بہت دُور نکل جاتاہے۔ مثال کے طور پر تصور خدا پر بات کرتے کرتے ہم اکثر کہتے ہیں،

    ’’خدا ہرشئے میں جاری ساری ہے لیکن خدا کا مجازی دنیا میں کامل رُوپ انسان خود ہے‘‘۔

    آدم کی کسی رُوپ میں تحقیر نہ کرنا
    پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
    مبارک شاہ مرحوم

    اگر خدا ہر شئے میں ہے تو ہر شئے مقدس ہوئی اور اگر خدا کا کامل، مجازی رُوپ انسان ہے تو تمام انسان خدا جتنے واجب الاحترام ہوجائینگے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دینِ اکبری وحدت الوجود کے بدترین نتائج میں سے ایک تھا۔ جس میں خنزیر تک کو اِس لیے قابل ِ احترام گردانا گیا کہ چونکہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے فلہذا اِس میں بھی خدا موجود ہے۔ مستی کے اِس عالم تک کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض لوگ کُتوں کے منہ چُومتے پھرتے ہیں کہ یہ بھی محترم ہے کیونکہ خدا ہرشئے میں جاری و ساری ہے۔

    چنانچہ تصورخدا پر بات کرتے ہوئے ہم خود الجھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ’’توحید‘‘ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور ’’شرک‘‘ کہاں سے شروع ہوتاہے کیونکہ شرک کو خود قران نے ظلم عظیم کہہ کر پکاراہے۔ اور یوں اسلام کے سب سے بنیادی عقیدہ میں ہی اتنے بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں کہ ہم انہیں کسی طور حل نہیں کرسکتے۔

    اس کے برعکس وحدانیت پسندوں کا نظریہ ہے۔ اگر وحدانیت پسندوں کو کسی مذہبی گروہ کی شکل میں دیکھنا ہے تو ہمارے سامنے اہلحدیث المعروف ’’وہابی‘‘ فرقہ کی مثال ہے۔ وحدانیت پسندوں کی توحید مختلف ہے اور ان کے نزدیک وحدت الوجودی عقائد کفریہ عقائد ہیں۔ اہلحدیث مصنفین بلاخوف و خطر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی جیسے بزرگوں کو ’’الصوفی الملحلد‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

    میرا مدعا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر مصالحت کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم تصور ِ خدا پر مصالحت نہیں کرسکتے۔ مختلف طبائع کو مختلف طرح کا خدا پسند ہوتاہے۔ ایک قوم قابل ِ رحم حد تک غلامی کا شکار ہوچکی ہو تو اس قوم کی اجتماعی رُوح بھی بدل چکی ہوتی ہے اور اس کے برعکس ایک قوم اگر صدیوں سے آزاد ہے تو اس قوم کی رُوح یعنی اجتماعی طبیعت بھی اتنی ہی بالیدہ ہے۔غلامی میں راضی برضا رہنے والے صرف تقدیر پرست ہی نہیں تقدیر پسند بھی ہوتے ہیں اور ’’ہرشئے میں خدا جاری و ساری ہے‘‘ کا نظریہ انہیں موافق آتاہے۔

    ہو اسیری میں بھی نہال اگر
    ایسے سمجھو رہا ہوئے ہوہے ہو

    اہلسنت والجماعت میں صرف بریلوی مکتبِ فکر ہی وحدت الوجودی عقائد کا دلدادہ نہیں بلکہ دیوبندی مسلک کے سُنی بھی تصورِ خدا میں مکمل طور پر وحدت الوجودی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک منطقی مقدمہ ہے جسے میں نے اپنی کتاب ’’تصوف، سائنس اور اقبال‘‘ میں یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اِس میں مغالطہ غیر جامع حداکبر ہے۔

    کبریٰ: ماخلقت ھذا باطلا (قران)
    ترجمہ: یہ کائنات باطل تخلیق نہیں کی گئی
    صغریٰ: کل غیراللہ باطلٌ (حدیث)
    ترجمہ: ہرغیراللہ باطل ہے
    ۔۔۔
    استنتاج: یہ کائنات غیراللہ نہیں ہے۔
    یعنی یہ کائنات عین اللہ ہے۔اور یہ خالص وحدت الوجود ہے۔

    اس مقدمہ میں ’’ھذا‘‘ کالفظ مقدمہ کبریٰ کو کلیہ سالبہ سے جزئیہ سالبہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس لیے اس مقدمہ میں مغالطہ ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کا استنتاج غیردرست ہے۔

    سوال یہ نہیں کہ وحدت الوجود درست ہے یا غلط ۔ وحدت الوجود کی بھی تو قسمیں ہیں۔ ہم جس قدر گہرائی میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہرلحاظ سے ہمارا تصورتوحید متاثر ہوتاہے۔ چاہے وہ عقیدہ، وحدانیت پرستوں کا ہو یا وحدت الوجودیوں کا۔

    یہ تو تھی اس بابت تفصیل کہ خود پہلا عقیدہ یعنی عقیدہ توحید ہی آج تک اجماع ِ اُمت کا منتظر ہے تو ہم آگے کیسے بڑھیں؟

    اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے تشکیل جدید میں اقبال نے اس وقت کے ترکی کے وزیر اعظم سعید حلیم پاشا کا قول یہ کہتے ہوئے نقل کیا کہ وہ بڑے ہی بابصر اہل قلم ہیں،

    ’’سعید حلیم پاشا کو افسوس ہے کہ اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی مقاصد بھی بعض ایسے توھمات کے زیر اثر جو امم اسلامیہ کے اندر زمانۂ قبل ازاسلام سے کام کررہے تھے، غیر اسلامی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ ان کے مقاصد بھی تو اسلامی بہت کم ہیں۔ عجمی، عربی یا ترکی زیادہ۔ نہ توحید کا صاف ستھرا اور پاکیزہ چہرہ کفر و شرک کے غبار سے محفوظ رہ سکا، نہ قیدِ مقامی کی روز افزوں پابندیوں نے اسلام کے اخلاقی مقاصد کی غیرشخصی اور عالمگیر نوعیت کو برقرار رہنے دیا‘‘۔

    میں نے یہاں تک مختلف مکاتب ِ فکر کے عقیدۂ توحید کا اجمالی ذکر کیا۔اور ذکر بھی عوامی نوعیت کا۔ ہاں البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ اعتقادی درجہ کی مذہبی زندگی میں چونکہ ’’سوال‘‘ اور ’’غوروفکر‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر عقیدۂ توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی شریک نہیں اور بس۔ اس سے زیادہ نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔

    اب ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کا عقیدۂ توحید کیا ہے،

    اقبال کا عقیدۂ توحید
    ۔۔
    ایک محقق ڈاکٹر راشد حمید کے الفاظ میں،

    ’’علامہ کے ہاں مسئلہ توحید اس قدر واضح اور اہم تھا کہ انھوں نے صرف اس نظریے کی الہامی کیفیت کو منزہ اور صاف رکھنے کے لیے وحدت الوجود کی مخالفت کی‘‘

    سب سے اہم بات جس کا میں کنایۃً اُوپر بھی ذکر کرآیا ہوں یہ ہے کہ کیا ’’تصورِ خدا‘‘ عقیدۂ توحید کا لازمی جزو ہے؟ بظاہر یہ سوال بڑا عجیب سا ہے لیکن جب ہم عقیدۂ توحید کو بطور عقیدہ کے پیش کرتے ہیں تو مذہبی زندگی کا دوسرا درجہ یعنی ’’فکر‘‘ سے فارغ التحصیل ہونا لازم نہیں آتا بایں ہمہ تصورخدا اور اس کا کسی کنارے لگ جانا بھی لازم نہیں آتا۔ اقبال کے ہاں ہم عقیدۂ توحید کو بطور ایک عقیدہ کے تصور خدا کے فکری عمل سے ماورأ پاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک،

    “The essence of”Tauhid” as a working idea is equality, solid- -arity, and freedom.The state, from the Islamic stand point, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces”
    (The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p154)

    یعنی عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات‘حریت اور استحکام میں ہے اور ریاست، اسلامی نکتہ نظر سے، ان زرّیں اصولوں کو زمان و مکاں میں مشہود کرنے کا نام ہے ۔ اس تعریف میں تو خدا کا ذکر ہی نہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال کی توحید ’’خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں‘‘ کی اسلامی تعریف کو تسلیم نہیں کرتی۔ نہیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال عقیدہ کے عملی پہلو کو مرکزی اہمیت دیتاہے اور اس کے عقلی پہلو یعنی تصور خدا کو مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ یعنی ’’ فکر‘‘ یا اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ دیتاہے۔ اس لیے فقط توحید کا اقبالی فہم مقصود ہو تو یہ ’’اُمتِ واحد‘‘ کی خواہش کا نام ہے۔ جیسا اقبال نے تشکیل کے دیباچہ میں کہا اور میں نے پہلے بھی کوٹ کیا کہ،وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔سے اقبال کی مراد ایک ’’نامی وحدت‘‘ ہے۔ ایک ایسا آرگینک طرز کا رشتہ جو دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان پیدا ہوجائے اور وہ خود کو ایک جسم محسوس کرنے لگیں۔یہ ہے اقبال کی توحید ۔ اس توحید کے پہلے سرے پر انسان بطور فرد وارثِ کائنات ہے اور اس کے آخری سرے پر انسان بطور اُمت وارث کائنات ہے۔ اس میں خدا اور تصورخدا کا کچھ خاص تذکرہ نہیں ہے۔ خدا کیساہے؟ کتنا بڑاہے؟ اس کے واحد ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہ سوالات اقبال اجتہادی درجہ کے لیے چھوڑ چکاہے۔

    ناشکیب امتیازات آمدہ
    در نہادِ او مساوات آمدہ
    ہمچو سرو آزاد فرزندانِ اُو
    پختہ از قالو بلیٰ پیمانِ اُو

    (مورز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۴

    خدا کا وحدہُ لاشریک ہونا اقبال کے نزدیک فکر و عقل سے متعلق مسئلہ نہیں بنیادی طور پر عمل سے متعلق مسئلہ ہے۔اور ویسے بھی پوری دنیا کے انسان مل کراگر کہنا شروع کردیں کہ ’’خدا ایک ہے‘‘، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر ساری دنیا کے انسان مل کر یہ کہہ دیں کہ خدا ایک نہیں کئی ہیں، تب بھی خدا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عقیدۂ توحید کے تحت خدا کو انسانوں سے اپنے ایک ہونے کا اقرار سننے کا شوق نہیں۔ یہ کوئی پہلوانی کا مقابلہ ہے نہ یونانی خداؤں کی طرح تکبر اور برتری کے احساس کا اظہار۔ اسلامی توحید عملی سرگرمی ہے۔ اس لیے اسے بطور عقیدہ بھی اساطیری طرز کی وحدانیت سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔ یہاں خدا قصے کہانیوں کا کردار نہیں، معاشرے میں موجود ایک حی و قیوم قوت ہے جو نفس واحدہ میں جلوگر ہے بایں ہمہ نفس واحدہ اپنی مُراد پاتاہے تو ہرقسم کی دوئی سے پاک ہوکر۔

    اقبال کی توحید کسی حد تک سپائنوزا کے توحیدِ وجود سے مماثلت رکھتی ہے۔ اقبال ’’جسم اور رُوح‘‘ کو دو الگ الگ اجزأ نہیں سمجھتا۔ اقبال کے الفاظ میں،

    “According to the Quran they do belong to the same system. “To Him belong’ Khalq (creation) and ‘amr'(direction).”Thus my real personality is not a thing, it is an act. My whole reality lies in my directive attitude. You cannot perceive me like a thing in space”
    (The Reconstruction of Religious Thought in Islam p.103)

    اقبال کے نزدیک اسلامی نظریہ توحید کی رُو سے تمام کائنات میں وحدت کا اُصول کارفرما ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ نظریہ محض اساطیری طرز کا عقیدہ نہیں ہے۔

    اقبال کا عقیدۂ رسالت
    ۔۔
    اقبال نے تشکیل ِ جدید میں لکھاہے،

    ’’ایک اعتبار سے نبوت کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں وارداتِ اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کرجاتی اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی، یا ازسرنوتشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہیں‘‘۔

    نبوت کو ولایت کی ایک مزید ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہوئے اقبال ’’وحی‘‘ کے معنی کو متعین کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ عام معنوں میں تو وحی اُس کلام کو کہتے ہیں جو خدا اپنے نبی یا رسول کے ساتھ کرتاہے۔ لیکن اقبال قران کی ہی آیات کی مدد سے یہ مؤقف اختیار کرتاہے کہ،

    ’’قران مجید نے لفظ وحی کا استعمال جن معنوں میں کیا ہے ان سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ وحی خاصۂ حیات ہے اور ایسا ہی عام جیسے زندگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جوں جوں اس کا گزر مختلف مراحل سے ہوتا یا یوں کہیے کہ جیسے جیسے وہ ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہیت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ یہ کسی پودے کا زمین کی پہنائیوں سے آزادانہ سرنکالنا، یہ کسی حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کسی نئے عضو کا نشوونما، یہ انسان کا خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرنا، یہ سب وحی کی مختلف شکلیں ہیں‘‘۔

    پہلے پیرے میں نبوت کی تعریف اور دوسرے پیرے میں وحی کے معنی کی تعیین سے ثابت ہورہاہے کہ اقبال وحی کو بہرحال ارتقا پذیر قوت سمجھتا ہے۔ خاص طور پر یہ الفاظ کہ،

    ’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔

    یہاں اقبال کے خیال پر ایک بے رحم سوال اُٹھتاہے کہ ’’اگر وحی ارتقا پذیر قوت کا نام ہے تو پھر اس قوت کا ارتقا ایک خاص مقام پر رُک کیوں گیا؟ بایں ہمہ اگر اقبال کی نبوت کی تعریف اور وحی کی تعریف کو قبول کرلیا جائے تو لازم آتاہے کہ اقبال کے عقیدہ ٔ ختم نبوت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت پر نظرثانی کریں۔ اقبال کا یہ جملہ قابل ِ غور ہے،

    ’’جیسے جیسے وہ ارتقأ اور نشوونما حاصل کرتی ہے ویسے ہی اس کی ماہییت اور نوعیت بدلتی رہتی ہے‘‘۔

    اقبال نے وحی کی برتر شکلوں کو ماہییت اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف قرار دیاہے۔ گویا اس طرح اقبال اُس سخت تنقید سے بچ سکتا ہے جو وحی کو شعور ولایت کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دینے سے اقبال پر وارد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ یوں کہ اگر ہم وحی کی ایک ایسی نوعیت کو بھی تسلیم کرلیں جو فی الواقعہ اپنی نوع کے اعتبار سے یکسر مختلف تجربہ ہے تو اقبال بچ سکتاہے۔ اقبال بلاشبہ اسے ایک یکسر مختلف تجربہ قرار دیتا ہے اور یوں گویا وہ شعور ِ ولایت اور شعور نبوت میں درحقیقت درجے کا نہیں بلکہ نوعیت کا فرق قائم کرکے ان کے ردمیان ایک دیوار کھڑی کردیتا ہے۔ اقبال نے ابن صیاد کا واقعہ درج کرکے یا ایک مغربی مفکر کے اس خیال کا جواب دیتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ سُوئے اعصاب کا شکار تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا باقاعدہ اس بات کو عملاً تسلیم بھی کیا ہے کہ شعور ولایت اور شعورنبوت کا فرق درجاتی نہیں بلکہ نوعی ہے۔یہ فرق بالکل ویسا ہی ہے جیسا دو مختلف انواع میں ہوسکتاہے۔ دراصل اقبال کو کائنات میں وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے چنانچہ وہ یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول کی وحی کو تو خارج سے وارد ہونے والی واردات کہا جائے جیسا کہ وحی کو عام عقیدے کی رُو سے سمجھا جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ ایک معمولی ولی کے کشف والہام کو اس کے اندرونِ ذات کی کوئی گہری واردات قراردیا جائے۔ اقبال وحی کو شعورِ ولایت سے اس طرح بلند تر دیکھتاہے کہ اس کے نزدیک شعور ِ ولایت کی واردات ذاتی اور انفرادی بلکہ خودغرضانہ ہوتی ہے جبکہ نبی کی واردات حیاتِ اجتماعیہ کی تشکیل نو بلکہ تعمیر نو کا موجب بنتی ہے جو ثبوت ہے اس بات کہ دونوں میں درجے کا نہیں نوع کا فرق ہے۔

    اقبال کا عقیدۂ ختم نبوت
    ۔۔
    اقبال ختم نبوت کا عقیدہ اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے شعور نبوت اور شعور ولایت کا یہی فرق بیان کرتاہے اور اسی کی بنا پر ایک نتیجہ اخذ کرتاہے کہ،

    ’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

    یہاں نوع ِ انسانی کے عالم صغرسنی سےاقبال کی کیا مُراد ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہا ہے کہ جب انسانی تاریخ میں نبی آیا کرتے تھے تو دراصل اس وقت انسان بحیثیت مجموعی بچہ تھا۔ اس لیے اس وقت تک نبی آتے رہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اس جملہ میں اقبال نے وحی کو ’’نفسی توانائی‘‘ کہہ کر پکاراہے جو باقاعدہ نشوونما پاتی ہے۔ جملہ دوبارہ ملاحظہ کیجے!

    ’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرلے جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

    سوال یہ ہے کہ اگر نفسی توانائی کا نشوونما ایسا ہی ارتقائی عمل تھا تو پھر ایک خاص وقت میں اس کا ارتقا اچانک رُک جانا کیونکر معقول ہے؟ اگر یہ کمال بنی نوع انسان کے عالم ِ صغرسنی میں وقوع پذیر ہوتارہا ہے تو انسان کے بڑا ہوجانے کے بعد یہ ارتقائی عمل خود بخود کس قائدے کی بنا پر رُک گیا؟

    اس کے بعد اقبال فرض کرلیتا ہے کہ،

    ’’اور جس کے معنی یہ ہیں کہ اس شعور کی موجودگی میں نہ تو افراد کو خود کسی چیز پر حکم لگانا پڑے گا، نہ ان کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ ان کی پسند کیا ہو اور ناپسندیدگی کیا۔ انہیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہونگی۔ یہ نہیں کہ انہیں اس بارے میں خود اپنے فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑے‘‘۔

    یوں گویا اقبال نے ختم نبوت کو ایک مظہر فطرت قرار دیاہے۔جو لوگوں پر پہلے سے طے شدہ پابندیاں لے کر نازل اور ظاہر ہوتاہے۔اوّل تو اس مظہرفطرت کو بیان کرنے کے لیے اقبال نے ایسا کوئی اصول ِ فطرت بیان نہیں کیا جسے ہم فلسفیانہ استدلال قرار دے سکیں۔ محض یہ کہہ کر کہ ایک زمانہ تھا جب انسان بچہ تھا تو اس وقت کسی کی نفسی توانائی کا نشوونما اس قدر بڑھ جاتا کہ وہ شعور ِ نبوت کی صورت اختیار کرلیتا اور شعور ِ نبوت یہ ہوتا کہ اس کے بعد ماننے والوں کو اپنے فکر اور انتخاب سے کام نہ لینا پڑتا۔ وہ اس نبی کی ہر بات مانتے چلے جاتے۔ انہیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لیے کیا لائحہ ِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں گویا پہلے ہی سے طے شدہ ہوتیں۔ اور پھر اچانک یوں ہوا کہ فطرت کا یہ مظہر پیش آنا بند ہوگیا۔ اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

    بظاہر معلوم ہوتاہے کہ اقبال ختم نبوت کا عقیدہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال وحی کو ایک ارتقا پذیر قوت سے تعبیر کرتا اور اسے نفسی توانائی قرار دیتا ہے۔اور یوں اقبال کی یہ کوشش کہ وحی اور کشف کے درمیان نوعی حد ِ فاصل کھینچ سکے خود بخود کالعدم ہوجاتی ہے۔

    وحی کو اقبال نے اس لیے بھی مظاہر فطرت میں سے قرار دیا ہے کہ اقبال کے سامنے، شہد کی مکھی کو وحی کرنے والی آیت، اُم ِ موسیٰ کو وحی کرنے کی آیت یا شیطان کی طرف سے اپنے دوستوں کو بھیجی گئی وحی والی آیت بھی موجود رہی۔ جیسا کہ اقبال نے خود ان آیات کا ذکر کیا۔ اقبال نے تویہاں تک کہا کہ ایک درخت کا زمین سے آزادانہ پھوٹ پڑنا بھی وحی کے زیر ِ اثر ہے۔ بلاشبہ ان آیات سے یہی مترشح ہوتاہے کہ وحی ایک ایسی عالمگیر رہمنائی کو کہتے ہیں جو فطرت میں ہرشئے کے لیے کارفرمارہتی ہے۔ اسی استدلال کی بنا پر اقبال نے اپنا مقدمہ کھڑا کیا اور کہہ دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اب بنی نوع انسان کے عالم صغرسنی میں ایسا بھی ہوا کہ اس کی نفسی توانائی کا نشونما شعور کی وہ صورت اختیار کرگیا جسے ہم نے شعور نبوت سے تعبیر کیا ہے‘‘۔

    اس طرح کہہ دینے سے گویا اقبال نے یہ تسلیم کرلیا کہ وحی ارتقا پذیر ہے چنانچہ اگراقبال کی تصریحات کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ وحی کا ارتقا اب بھی جاری ہے۔ اور اب بھی ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص کی ’’نفسی توانائی‘‘ اچانک ارتقا کرجائے اور وہ شعور نبوت حاصل کرلے۔

    مختصر یہ کہ اقبال کے عقیدۂ ختم نبوت سے ختم نبوت کا ماننا لازم نہیں آتا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر نفسی توانائی ارتقاپذیر ہے تو پھر اس کا ارتقا رُک کیوں گیا اقبال کا کہناہے کہ،

    ’’شعور نبوت کو گویا کفایت فکر اور انتخاب سے تعبیر کرنا چاہیے۔ لیکن جہاں عقل نے آنکھ کھولی اور قوت تنقید بیدار ہوئی تو پھر زندگی کا مفاد اسی میں ہے کہ ارتقائے انسانی کے اولین مراحل میں ہماری نفسی توانائی کا اظہار جن ماورائے عقل طریقوں سے ہوا تھا ان کا ظہور اور نشوونما رک جائے‘‘۔

    اس اقتباس میں اقبال نے کہا ہے کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب نے دراصل ’’عقل کی آنکھ کھول دی اور قوت ِ تنقید کو بیدار کردیا‘‘ ۔ مزید وضاحت یہ ہے کہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب نے گویا استقرائی عقل کو جنم دیا۔ اقبال نے انہی سطور میں باقاعدہ استقرائی عقل کے آغاز کی بات بھی کی ہے۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ استقرائی عقل سے مراد ہے سائنسی طریقہ کار۔ یعنی تنقید کا طریقہ کار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کرنے کا طریقہ کار اور حسی تجربے پر اعتماد کرنے کا طریقہ کار۔ کیونکہ اسلام سے قبل یونانی فکر کی تقلید میں انسانیت حسی تجربات سے حاصل ہونے والے علوم سے نفرت کرتی تھی۔ اسلام نے آکر یہ اعلان کردیا کہ اب آنکھیں کھولنے کا وقت ہے۔ یہ دنیا خیالی نہیں ہے۔ یہ کائنات حقیقی ہے۔ اس کی سیر کرو! اسے تسخیر کرو! چاند ستاروں کی گردش پر غور کرو! درختوں، پھولوں، پتھروں اور پہاڑوں پر غور کرو! اور گویا اسلام نے سائنس کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ یوں اقبال اپنے عقیدۂ ختم نبوت کو ایک اور طریقہ سے کمک پہنچاتا اور کامیابی سے ہمکنار ہوتاہے۔ وہ اس طرح کہ اقبال کے مطابق اسلام کا ظہور عالم ِ مشہودات میں استقرائی عقل کا آغاز تھا۔ اس سے قبل استخراجی عقل کارفرما تھی۔ استخراجی اور استقرائی عقل کے عین درمیان رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات موجود ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشمہ وحی کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے‘‘۔

    اقبال کے نزدیک نبوت کا معراج ہی یہی تھا کہ وہ انسان کو استخراجی عقل کی پرستش سے نکال کر استقرائی عقل تک لے آئے۔ اگر ایک بار انسان استقرائی عقل اختیار کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر اسے نبیوں اور رسولوں کی ضرورت نہ رہیگی۔ کیونکہ اب وہ اس وحی کو جو ایک مظہر فطرت ہے براہِ راست خود حاصل کرنے کا اہل ہوچکا ہوگا۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات ِ انسانی اب وارداتِ باطن (وحی) سے، جو باعتبار نوعیت انبیأ کے احوال و واردات سے مختلف نہیں، ہمیشہ کے لیے محروم ہوچکی ہے۔قران مجید نے ’آفاق و انفس‘ دونوں کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات کا ظہور محسوسات و مدرکات میں، خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی ، ہر کہیں ہورہا ہے‘‘۔

    اس تمام تر استدلال کے بعد اقبال اپنے اصل عقیدہ کی وضاحت کرتاہے۔ اقبال وحی کی نشوونما کا قائل ہے تو اپنے افکار کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے تازہ بہ تازہ ارتقا کا منکر نہیں ہے۔ جیسے کہ ہم ابھی ایک اقتباس میں دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ اقبال آئندہ سطور میں نہایت وضاحت کے ساتھ بتاتاہے کہ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وحی نہیں جو رک گئی ہے بلکہ یہ ’’دعویٰ‘‘ ہے جو روک دیا گیا ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدۃً یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے لہذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے‘‘۔

    اب ایک آخری منطقی سوال یہ بچ جاتاہے کہ اگروحی کا ارتقأ نہیں روکا گیا اور اس فطری مظہر کا اظہار آج بھی ہورہا ہے تو پھر دعویٰ کیوں روک دیا گیا؟ یعنی آج اگر کوئی شخص وحی کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ ہم کیوں نہ تسلیم کرینگے؟

    اس سوال کا جواب ہم پہلے دیکھ آئے ہیں۔ قران کی وحی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے ساتھ ہی کائنات کے پست و بلند پر غور کرنے کی اجازت عطاکردی گئی۔ یعنی استقرائی عقل عطاکردی گئی۔ بقول اقبال سقراط کا موضوع تو صرف انسان ہے۔ افلاطون کو تو حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم سے نفرت ہے اور ان کی پیروی میں ساری یونان کی علمی تاریخ کو عالم ِمحسوس سے نفرت ہے۔ وہ صرف استخراجی عقل کے قائل ہیں۔ دوجمع دو چارہوتاہے جیسے پختہ اصولوں کی روشنی میں حاصل ہونے والے علم کو علم مانتے ہیں۔ وہ تو ستاروں ، سیاروں، پھولوں ، پودوں، درختوں اور پہاڑوں کے علم کو علم نہیں مانتے۔ قران بہ اصرار یہ منواتاہے کہ حسی تجربے سے حاصل ہونے والا علم بھی علم ہے۔ حسی تجربے سے حاصل ہونے والی علم کی بنیاد ’’شک‘‘ پر ہے۔

    یہ چیز کیا ہے؟ یہ پتھر کالے رنگ کا کیوں ہے؟ یہ درخت اونچا اور وہ درخت پست قد کیوں ہے؟ یہ شکوک و شبہات جن کی اجازت اسلام نے دی۔ گویا عقل اب تنقید کرنے کے قابل ہوگئی۔ وہ حسی اور عقلی دونوں طرح کے علوم سے مستفید ہونے کی اہل ہوگئی تو پھر گویا وہ عقلیت کی قبر سے نکل کر آزاد ہوگئی۔ آزاد عقل کو کسی انسان کی رہنمائی کی نہیں بلکہ خود پر اعتماد کی ضرورت تھی۔ اسے قران نے غوروفکر کرنے پر شدت کے ساتھ اکسایا اور انسان کی سرے سے جان ہی چھوٹ گئی۔ اگر اسلام کو مذہب نہ سمجھا جائے تو دوسرے الفاظ میں یہی کہنا پڑیگا کہ اسلام دراصل تمام تر الوہی مذاہب سے چھٹکارا دلانے کے لیے نازل ہوا تھا۔

    یعنی اقبال کے نزدیک انسان کو صوفیانہ واردات سے رہنمائی اب بھی ملیگی لیکن اب وہ آزاد ہے اور جو کچھ الہام، کشف یا وحی ہے وہ اس کا اپنا ہی ہے اور وہ اس کا اکیلا ہی ذمہ دار ہے۔ اس کے نتائج سے اگر دیگر لوگ اتفاق بھی کرلیں تب بھی ان پر اُس کی اطاعت لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ سب پھر اپنی تنقیدی عقل کو استعمال کرنے میں حق بجانب ہونگے۔

    اقبال کا عقیدہ آخرت (جنت، جہنم، حیات بعدالموت)
    ۔۔
    اقبال کہتے ہیں،
    ’’زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لاانتہا مواقع میسر آتے ہیں‘‘۔

    موت سے پہلے اس جملے کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال کہنا چاہ رہے ہیں کہ خودی جو انسانی شخصیت کا اندرنی اور نہایت گہرا رُخ ہے۔۔۔۔۔۔۔ عرصۂ حیات ِ جسمانی کے دوران عمل کے ذریعے خود کو مستحکم بناسکتی ہے۔ مزید سادہ الفاظ میں انسان اپنی شخصیت کوحسن عمل کے ذریعے مستحکم بناسکتاہے اور یہ موقع اس کی شخصیت کو جسمانی زندگی کے عرصہ میں نصیب ہوتاہے۔ کیونکہ اقبال کے نزدیک ایک مستحکم خودی کو موت نہیں آتی۔ بقول اقبال،

    فرشتہ موت کا چھُوتاہے گو بدن تیرا
    ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتاہے

    یا

    زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی
    وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
    ہو اگر خود نگر و خودگرو خود گیر خودی
    یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

    چنانچہ عرصہ حیاتِ جسمانی خودی کی عارضی قیام گاہ ہے۔ پیکرآدم ِ خاکی میں مشہود ہونے سے پہلے خودی فرد کی انفرادی سطح پر اپنی ایک اور الگ شناخت کی حامل نہیں تھی، یعنی اگر وہ کسی لامتناہی ہستی سے انسان میں منتقل ہوئی ہے تو بھی انسان بننے سے پہلے اس کی الگ شناخت نہ تھی۔انسانی وجود میں جوھر کی صورت جلوہ گر ہونے کے بعد خودی کو ایک الگ انفرادی شناخت ہاتھ آگئی۔ اب اگر خودی چاہے تو اپنی شناخت کو مزید مضبوط بناتے ہوئے ہمیشہ کے لیے خود کو اتنا مستحکم کرلے کہ عارضی حیات میں کسی بھی قسم کا حادثہ اس کی صحت پر اثرانداز نہ ہو۔ یہاں تک کہ یہ حادثہ اگر ’’موت‘‘ کا حادثہ ہو تب بھی۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’لہذا خودی نے اپنے عمل اور سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں اتنا استحکام پیدا کرلیا کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے تو اس صورت میں موت کو بھی ایک راستہ ہی تصور کیا جائیگا‘‘۔

    آخرت کی زندگی سے متعلق اقبال کا مؤقف بڑا دلچسپ ہے، اقبال کا کہنا ہے کہ،
    ’’موت اس (خودی) کا پہلا امتحان ہےتاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہوجائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھینگے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیازِ من و تُو خودی کا احترام کریں۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔ بالفاظ دگر ہم اس کے اُمیدوار ہیں‘‘۔

    جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اقبال بعثتِ ثانیہ سے کیا مراد لیتے ہیں؟ تو یہاں ہم اُن کا یہ اقتباس دیکھتے ہیں،

    ’’علمائے الٰہیات کے درمیان جو مسئلہ مختلف فیہ ہے وہ یہ کہ انسان کی بعثت ِ ثانیہ پر کیا اس کا جسم بھی پھر سے زندہ ہوجائے گا۔ اس میں زیادہ ترخیال یہ ہے اور شاہ ولی اللہ کی رائے بھی جن کی ذات پر گویا الٰہیات اسلامیہ کا خاتمہ ہوگیا یہی تھی کہ حیات بعد الموت پر ایسا کوئی مادی پیکر ناگزیر ہے جو خودی کے نئے ماحول میں اس کے مناسب حال ہو۔ لیکن میں سمجھتاہوں ان کے اس نظریے کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ جب ہم خودی کا تصور بحیثیت ایک فرد کے کرتے ہیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے کسی مقام یا اختباری پس منظر سے نسبت دیں‘‘۔

    گویا اقبال کہہ رہے ہیں کہ بعثتِ ثانیہ کے وقت کسی پیکر کا ہونا محض ہمیں ضروری لگتاہے کیونکہ ہم جب خودی کو فرد ِ واحد سمجھتے ہیں تو پھر اس کے لیے مکان میں ہونا بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک دوبارہ اُٹھایا جانا جسمانی طور پر ضروری نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ،

    ’’کیونکہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ انسان کا معاد کسی نہ کسی جسد عنصری سے وابستہ ہے ، خواہ اس جسد عنصری کی حقیقت کچھ بھی ہو اور سردست ہم اسے سمجھ بھی نہ سکیں ، جب بھی بعثت ِ ثانیہ کے باب میں ہمیں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہوتی۔ قران مجید نے بھی اس سلسلے میں جن مماثلتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے مقصود صرف یہی ظاہر کرنا ہے کہ بعثت ثانیہ ایک حقیقت ہے، یہ نہیں کہ اس کی ماہیت کیا ہے‘‘۔

    جنت اور جہنم کے حوالے سے تو اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان کیا ہے،

    ’’جنت اور دوزخ اس (خودی) کے احوال ہیں۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں ہیں‘‘۔

    مزید لکھتے ہیں،

    ’’جیسے دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت‘‘۔

  • عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد – فیاض الدین

    عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد – فیاض الدین

    فیاض الدین بعض لوگ قرآن کی سادہ اور آسان باتوں کی عجیب وغریب تاویلات کرتے ہیں. وہ تاویلات نہ نبی کریم ﷺسے اور نہ صحابہ کرام سے ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اللہ نے آدم علیہ السلام کو کہا کہ فلاں درخت کے قریب مت جانا۔ یہاں بات ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں یہ کون سا درخت تھا؟ اس کا رنگ کیسا تھا؟ چھوٹا تھا کہ بڑاتھا؟ یہ فضول سوالات ہیں ہم اس کے مکلف ہی نہیں ہیں، ہم سے اس کے متعلق پوچھ نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی نے شہیدوں کو زندہ کہا ہے، ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ رزق بھی پاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیسے پاتے ہیں؟ کیسے زندہ ہیں؟ اس کے متعلق اللہ پاک کہتے ہیں کہ تم اس کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے ہو، تم اس کو جان نہیں سکتے ہو۔ جب اللہ تعالی بتائے کہ تم اس کا شعور نہیں رکھتے اور اس کے باوجود ہم جاننے کی جستجو کرتے ہیں اور اہل علم سے اس طرح کے عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں تو ان جیسے لوگوں کے لیے اللہ کا پیغام یہی ہے کہ
    [pullquote]وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ [١٧:٣٦][/pullquote]

    اور (اے بندے) جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو.

    بعض لوگ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب اور راحت کے بالکل منکر ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہتے ہیں کہ عذاب اور راحت کا معاملہ صرف قیامت کے روز ہی ہونا ہے۔ اس حوالے سے یہ لوگ بھی ایسے ہی بے حقیقت سوالات کرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، ہم ان باتوں کا شعور نہیں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کو مرنے کے بعد اگر عذاب یا راحت ملنی ہے تو یہ سوال کریں گے کہ یہ عذاب کس کو ہوتا ہے، روح کو ہوتا ہے یا خود انسان کو؟ یہ عذاب ہوتا کہاں ہے، قبر میں یا کہیں اور؟ یہ بھی اسی طرح کے سوالات ہیں جس کی مثال اوپر دی گئی۔

    بات یہ ہے کہ ہم زندہ اس عذاب یا راحت کی کیفیت کو کیسے جان سکتے ہیں، ہم جب اس جگہ جائیں گے تو معلوم ہوگا، وہاں جانے سے پہلے ہم اس مقام کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سادہ سی بات ہے لیکن یہ لوگ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد عذاب و راحت کے منکر ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت سے پہلے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، جو ہونا ہے قیامت کو ہونا ہے اس عقیدے کا جائزہ قرآن کی روشنی میں لیتے ہیں۔
    اللہ پاک فرماتے ہیں
    [pullquote]كَيْفَ يَھدِي اللہ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إيمَانِھمْ وَشَھدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَھمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللہ لَا يَھدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [٣:٨٦][/pullquote]

    خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہے اور ان کے پاس دلائل بھی آگئے اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا

    [pullquote]أولَٰئِكَ جَزَاؤُھمْ أَنَّ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٣:٨٧][/pullquote]

    ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر خدا کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت ہو

    [pullquote]خَالِدِينَ فِيھا لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٣:٨٨][/pullquote]
    ہمیشہ اس لعنت میں (گرفتار) رہیں گے ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دے جائے گی

    جو لوگ ایمان لانے کے بعدکافر ہوگئے، اللہ ایسے لوگوں کوہدایت نہیں کرےگا اور ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے۔ کن کن کی لعنت ہے؟

    ان پر اللہ کی لعنت ہے، ان پر ملائکہ کی لعنت ہے، اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔

    لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہوجانا اور اللہ کے غضب میں مبتلا ہوجانا۔ آگے اللہ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ اس لعنت میں ہمیشہ رہیں گےاور اس عذاب و غضب اور لعنت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اللہ پاک کہتے ہیں اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ یاد رہے قیامت کا ذکر نہیں ہو رہا ہے، عام بات ہو رہی ہے۔ دنیا اور آخرت میں ان لوگوں پر اللہ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہے۔ ہاں ایک چیز ہوسکتی ہے، اس لعنت و عذاب سے یہ بچ سکتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں
    [pullquote]إلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ [/pullquote]

    اگر یہ توبہ کریں اپنی اصلاح کریں تو اس لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ یہ لعنت ہمیشہ رہے گی۔ اب مرنے کے بعد قیامت تک یہ لعنت رہے گی، اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور اس طرح ہوتے ہوتے قیامت آجائے گی اور پھر مالک فرماتے ہیں
    [pullquote]سَنُعَذِّبُھم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ [/pullquote]

    ہم ان کوعذاب عظیم سے پہلے دو مرتبہ عذاب دیں گے اور پھر ان کو عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیا جائےگا۔ سورہ توبہ

    یہ بات عیاں ہوئی کہ قیامت سے پہلے بھی ایسے لوگ آرام سے نہیں ہوں گے اللہ کی لعنت ہی میں ہوں گے۔
    ایک مومن اور کافر مشرک کا حال ایک جیسے نہیں ہوسکتا۔ مرتے ہی کافر مشرک اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہوتا ہے اور مومن اللہ کی رحمت میں آجاتا ہے۔ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد اگر کچھ بھی نہیں ہے تو مؤمن اور کافر و مشرک کی موت دونوں کی ایک جیسی ہوگی جو کہ اللہ کی کتاب لاریب کے 180 ڈگری خلاف ہے۔ اللہ کہتے ہیں کہ
    [pullquote]أمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَھمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاھمْ وَمَمَاتُھمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [٤٥:٢١][/pullquote]

    جو لوگ برے کام کرتے ہیں، کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں۔

    اہل علم کے نزدیک جو قرآن کا جو ہم ترجمہ کرتے ہیں اس ترجمے سے ہم قرآن کے قریب تو آجاتے ہیں مگر وہ پورا حق ادا نہیں ہوتا جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں. اس آیت میں لفظ ”محیا“ آیا ہے یہ انسان کی وہ حالت ہے جب یہ زندہ ہے اور ”ممات“ وہ حالت ہے جب یہ مر جاتا ہے موت اس پر آجاتی ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں موت اور زندگی مؤمن اور کافر کی برابر نہیں ہے، نہ دنیا میں نہ موت کے بعد اور نہ قیامت میں اور نہ قیامت کے بعد۔ ”محیا“ اور ”ممات“ میں یہ سب چیزیں آگئیں۔ نزاع کا وقت، موت کے بعد، قیامت میں اور اس طرح قیامت کے بعد دونوں کے حال میں فرق ہوگا۔ آگے اللہ کیا خوبصورت فتوی دیتے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ یہ موت اور زندگی دونوں کی یکساں ہے، ان کی یہ بات ان کا یہ عقیدہ بہت برا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ کو پسند نہیں ہے، یہ بہت برا فیصلہ ہے۔ دونوں کی حالت قیامت سے پہلے کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی ہے، اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔
    إنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَھمْ كُفَّارٌ أولَٰئِكَ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٢:١٦١]

    جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں اور لوگوں کی سب کی لعنت

    خَالِدِينَ فِيھا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٢:١٦٢]
    وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے۔ ان سے نہ تو عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں (کچھ) مہلت ملے گی.

    میرے مالک نے کیا عظیم الشان بات کہی ہے کہ جو لوگ کافر ہیں اور وہ مر جاتے ہیں تو مرتے ہی اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور یہ لعنت کم نہیں ہوگی۔ یہاں قیامت کی بحث نہیں چل رہی ہے، انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر اس کفر کی حالت میں موت آئی تو مرتے ہی اللہ کی گرفت ہے۔ قرآن کی ان آیتوں سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب و راحت ہوتی ہے، اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

  • جنازے، چیخیں اور دو لکھاری – حافظ یوسف سراج

    جنازے، چیخیں اور دو لکھاری – حافظ یوسف سراج

    یوسف سراج کالم بھیجا تھا۔ سارا دن بیت گیا کوئی خبر نہیں آئی۔ یوں تو نہیں ہوتا تھا۔ ہاں گاہے تاخیر ہو جاتی تھی۔ دراصل سب کے اپنے وسائل اور مسائل ہوتے ہیں۔ انگلش محاورے کے مطابق جوتا پہننے والا ہی جان سکتا ہے کہ جوتا کہاں کہاں سے کاٹ رہا ہے۔ سو دلیل ہو یا کوئی بھی ویب سائٹ یا اخبار، سب کے اپنے اپنے مسائل اور وسائل ہوتے ہیں۔ سو دلیل جس طرح چل رہی ہے، یہ ایک جہاد ہے اور ہر جگہ کی طرح یہاں بھی کچھ مسائل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال جس جذبِ دروں سے خاکوانی صاحب اپنے ساتھیوں کے سنگ دلیل کو توانا کرنے کے خواب بنتے ہیں، عین واضح ہے کہ بہت جلد مزید آسانیاں اور فراوانیاں مہیا ہو جائیں گی۔ تو بہرحال ایسے ہی دلیل کو کھول لیا کہ شاید وہاں کالم نہ لگنے کی وجہ بھی لکھی ہوگی۔ نظر پڑی تو بڑا عجیب سا عنوان تھا خاکوانی صاحب کے بلاگ کا ’’ ٹوٹی ہوئی قبریں اور یادوں کے دیے۔‘‘ ایسے اسرار میں ڈوبے رومانوی سے نام سے بھلا آدمی کیسے گزر جائے۔ یہ بلاگ بھی جناب نے اختر عباس صاحب کے قلب پر گزری حیرت اثر اور عبرت انگیز واردات سے انسپائر ہو کے لکھا تھا۔ دوپہر کے حقیقت کی طرح واشگاف اور عیاں لمحوں میں مسلم سجاد صاحب کی قبر ڈھونڈتے جن کا رہوار ِفکر کسی اور طرف مڑ گیا تھا۔ وہی دراصل صوفیا اور واعظین کا بنیادی نکتہ دنیا کی بے ثباتی۔

    ٹوٹی قبروں پر لگے ایسے نامیوں کے کتبے کہ جن کے نام ہی کبھی مجلسوں کی کامیابی کی دلیل اور امنڈتے ہجوم کا نشاں ہوتے تھے، اب قبرستان میں اگی گھاس نے ان ناموروں کی قبروں کی کم مائیگی اور تنہائی اپنے دامن میں چھپا رکھی تھی۔ اختر عباس صاحب گئی رات تک اس انقلابِ زمانہ کے اثر میں بھیگی چیخوں میں گم سم رہے۔ یہاں سے اک نوحہ تخلیق ہوا، جسے خاکوانی صاحب نے مزید راہ دکھائی۔ جنازے اور حیات مابعدالممات دراصل ہمیشہ ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ جنازے بھی باقاعدہ اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ مثلاً ابن حنبل رحمہ اللہ تین عباسی خلفا سے جرم بےگناہی کی سزا ہنس کے سہتے رہے۔ ہم کسی ایک سلطان کا عتاب نہیں سہہ سکتے، انھوں نے تین سہار لیے۔ آج کی مصلحت گزیدہ دانش کو دیکھا جائے تو بات بھی کچھ بڑی نہ تھی۔ خلیفہ یونانی فلسفے سے متاثر ہوگیا تھا، جو تازہ تازہ عربی میں ترجمہ ہوکے آیا تھا۔ اب اس کی زد اس مسئلے پر پڑ گئی تھی کہ آیا قرآن بھی اللہ کی مخلوق ہے یا نہیں۔ چونکہ خلیفہ کو یہ موقف خوش آیا تھا، چنانچہ علماء اس کے جواز پر دلائل مہیا کرنے لگے تھے۔ کوئی ایک بھی نہ بچا تھا جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکتا کہ نہیں مخلوق نہیں، قرآن رب کا کلام اور اس کی صفت ہے۔ مخلوق ماننے کا مطلب یہ تھا کہ ہر مخلوق کی طرح پھر اسے بھی فنا کے گھاٹ اترنا ہوگا۔ تو کوئی نہیں تھا مگر ایک ابن حنبل۔ علما ء نے انھیں سمجھایا، مصلحت وقت، عتاب سلطان اور دین میں خوف کے مقابل رخصت کے دلائل ذکر کیے۔ ابن ِ حنبل نے صرف دو باتیں کیں۔ ایک علما کے لیے اور ایک اس مسئلے کے لہے۔ کہا، اس موقف پر سلطان کی نہیں، انبیا کے سلطان کے دو لفظ دلیل میں لے آؤ یا اسی قرآن میں بات کرنے والے سے کوئی دلیل لے آؤ۔ اور علما سے یہ کہا کہ ذرا اس حجرے کے باہر دیکھ کے بتاؤ، وہاں کیا ہے؟ انھوں نے کہا اک ہجوم ہے جو ہاتھ میں کاغذ اور قلم لیے کھڑا ہے تاکہ ابنِ حنبل کا موقف لے سکے۔ فرمایا، اتنے لوگ جب دین کے کسی معاملے میں میری طرف دیکھ رہے ہوں توپھر یہ رخصت نہیں عزیمت کا وقت ہونا چاہیے۔ اللہ اکبر!

    تاریخ میں ایسے بھی لمحے آتے ہیں کہ صرف ایک ہی شخص مبنی برحق موقف کا پرچم تھامے کھڑا ہوتا ہے، مثلاً وفاتِ رسولﷺ کے غم انگیز موقع پر موقع پرستوں نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی شوکت و قوت کی سرخیل ہستی جا چکی اور اب کچھ بھی کیا جاسکتاہے۔ میں ہمیشہ حیرت کرتا ہوں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا رقیق القلب آدمی کس طرح اس موقع پر ڈٹ گیا تھا، کہا زکوۃ تو خیر نصاب کے تحت ہے ، میں تو اس سے بھی لڑ جاؤں گا جو حیاتِ رسول میں بکری کی ایک رسی دیتا تھا اور اب انکار کرتا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت سبھی اس وقت اس جہاد کے حق میں نہیں تھے۔ دراصل خطرات بھی بہت تھے۔ یہ سانحہ ایسا نہ تھا کہ جسے مدینہ کے دشمن برتنا بھول جاتے۔ کچھ مرتد ہوگئے تھے، کچھ نے زکوۃ کا انکار کر دیا تھا اور کچھ سرحدوں کے ادھر حملے کی تیاریاں پکڑ رہے تھے۔ بہرحال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ڈٹ گئے، اکیلے ہی ڈٹ گئے۔ بہت بعد میں سب نے مانا کہ گو صدیق اس وقت اپنے موقف میں اکیلے تھے، مگر وہی ٹھیک تھے۔ یہاں آج ابنِ حنبل اکیلے تھے، مگر صدیق کے پیروکار بھی تھے۔ اکیلے ہی ڈٹ جانے پر انھیں سزا بھی کم نہ دی گئی۔ ابوالکلام کے بقول جو کوڑا، دنیا کا سب سے بڑا حدیث کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے والے اس محدث کے ضعیف تن پر برسا، کسی گرانڈیل ہاتھی پر برستا تو وہ پاگل ہو کے جنگلوں کا رخ کرتا۔ خیر پھر یہ ہوا کہ ابنِ حنبل کو جسم کی اس اذیت سے نجات مل گئی۔ جنازہ پڑھنے پر خلیفہ نے کچھ قدغن لگا دی تھی۔ خیر پھر وقت بیتا اور پابندی لگانے والا حکمران بھی چل بسا۔ اب عجیب منظر تھا۔ لوگ خلیفہ کے جنازے کے بجائے امام کے جنازے پر امنڈ آئے تھے۔ امام نے زندگی میں کہہ رکھا تھا کہ ہمارا اور تمھارا فرق جنازوں پر آشکار ہوگا۔

    ایک جنازہ ابو ذر غفاریؓ کا بھی یاد آتا ہے۔ دولت جمع نہ کرنے کا، ان کا اپنا ایک موقف تھا اور رعایا اس سے انتشار کا شکار ہوتی تھی۔ سو انھیں ربذہ نامی جگہ بھیج دیا گیا۔ وہ اپنا موقف بھی رکھتے تھے اور اطاعتِ امیرکا داعیہ بھی۔ ویرانے میں جب ان پر وقت اخیر آیا تو بکری ذبح کروا کے پکوائی کہ رسولِ رحمت ﷺ کی بشارت تھی کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جنازہ پڑھے گی۔ ویرانے میں بھی اپنے حبیب اور صادق المصدوق ﷺ کی بات پر یقین اتنا تھا کہ مہمان نوازی کا اہتمام مہمانوں کی آمد سے پہلے کروا لیا تھا۔ صحابہ کی ایک جماعت پہنچی اور جنازہ ہوا۔

    ایک جنازہ ایک درزی کاب ھی یاد آتاہے۔ سنا ہے ہندوستان کا یہ درزی میت کا جو بھی اعلان سنتا، دکان کا دروازہ بند کر کے جنازے میں شریک ہو جاتا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے جنازے کی تیاری کر رہا ہوں۔ غریب اور گمنام آدمی ہوں۔ سو چاہتا ہوں کہ میں کسی کا جنازہ نہ چھوڑوں تاکہ میرے جنازے میں بھی لوگ جمع ہو جائیں۔ پھر یوں ہوا کہ کسی بڑے غالبا اشرف علی تھانوی کا جنازہ تھا اور علماء و مشائخ کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ جنازہ ہو چکا تو ایک اور جنازہ جنازگاہ میں آگیا۔ اعلان ہوا ایک مسلمان کا جنازہ ہے، پڑھ لیجیے، جو پچھلے جنازے سے لیٹ تھے، وہ بھی شریک ہوگئے۔ یہ جنازہ پہلے جنازے سے بھی بڑا ہو گیا، یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔

    یہ جنازے بھی معمولی نہیں ہوتے۔ پیغمبر نے فرما رکھاہے کہ جس کے جنازے میں ستر اہل ِتوحید سفارشی ہوگئے وہ بخش دیا جائےگا۔ ظاہر ہے اس کی تیاری زندگی میں ہی کی جاتی ہے۔ آپ کن سے تعلق بناتے اور کن سے یاری گانٹھتے ہیں۔ جن سے آپ زندگی میں غیرضروری اور فضول سمجھ کے کنارہ کش رہتے ہیں وہ آپ کے جنازے میں کیوں آئیں گے۔ لوگوں نے کتنا تعجب کیا تھا کہ جب قندیل بلوچ کے جنازے میں انگلیوں پر گنے جا نے والے لوگوں نے شرکت کی۔ یعنی جس کے فیس بک پر فالوورز اور جس کے زندہ جسم کے تمنائی ہزاروں لاکھوں میں تھے، جان نکلی تو قندیل ان کی زندگی ہی سے نکل گئی۔

    ہم مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ پنج سالہ اور پچاس سالہ منصوبے بناتے ہیں۔ کیا ہماری زندگی میں جنازے اور قبرکی رونق کے کسی منصوبے کو بھی کوئی دخل ہے؟ ہارون الرشید کا وزیراعظم بڑا دانا شخص تھا۔ یہ ساتھ تھا، ہارون الرشید جنگل میں شکار کے لیے گئے اور بھٹک کے ساتھیوں سے الگ ہو گئے۔ پیاس نے خلیفہ کو ستایا توپانی مانگا۔ پانی دیتے دیتے وزیراعظم نے ہاتھ روک لیا۔ عرض کی اگر پانی کا یہ ایک گلاس خریدنا پڑے اور پانی نہ ملے تو کتنی قیمت تک خرید فرمائیں گے ۔کہا، آدھی سلطنت کے عوض۔ وقت بیتا اور پھر خلیفہ کو واش روم کی حاجت ہوئی۔ وزیر نے پھر پوچھا، اگر اخراج رک جائے اور علاج کروانا پڑے تو کیا قیمت دیں گے؟ کہا، آدھی سلطنت۔ وزیر نے کہا، بادشاہ سلامت! سلطنت کی حیثیت تو بس پانی کی چند بوندیں پینے اور نکالنے جتنی ہے، پھر یہ غرہ اور غرور کیسا۔ ابراہیم ادھم ایک بادشاہ تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں خادمہ کے دل میں خواہش آئی کہ شاہی بستر پر لیٹ کر تو دیکھوں۔ لیٹی تو نیند آگئی۔ ابن ادھم نے دیکھا تو کوڑا پکڑ لیا۔ خادمہ کوڑے کھاتی اور قہقہے لگاتی جاتی تھی۔ پوچھا یہ کیوں؟ کہنے لگی، ہنستی اس بات پر ہوں کہ چند منٹ اس بستر پر سونے کی سزا اگر اتنے کوڑے ہیں تو تمھارا کیا حشر ہوگا کہ جس نے ساری زندگی اسی پر سو کے گزار دی ہے۔ بن ادھم نے کوڑا پھینکا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ آخرت کی فکر پال لی اور اللہ سے لو لگالی، یہاں تک کہ ولی کہلائے۔

    بادشاہ رات کو رعایاکے احوال سے آگاہی کے لیے نکلا۔ ٹھٹھرتی سردی میں ایک فقیر کو بغیر لحاف و کمبل کے چوک میں سکڑتے سمٹتے پایا۔ کہا اسے صبح دربار میں حاضر کیا جائے۔ صبح اس سے پوچھا، رات کیسی گزری؟ کہا آدھی تو تمھاری طرح اور آدھی تم سے بھی بہتر۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہا جب سو گیا تو ہم تم برابر ہوئے۔ آدمی فرش پر سوئے یا عرش پر نیند آئی تو ایک برابر۔ پوچھا آدھی بہتر کس طرح؟ کہا، جب سردی نے سونے نہ دیا تواللہ کا ذکر کرتا رہا، یوں ایک سوئے ہوئے آدمی سے اللہ کا ذکر کرنے والا بہتر ہوا۔

    دین رہبانیت نہیں سکھاتا، دنیا اور دین دونوں توازن سے ساتھ لے کر چلنے کی ہدایت کرتا ہے، آدمی دو چیزوں سے مرکب ہے، جسم اور روح، جسم کی خوراک زمیں سے اگتی ہے تو روح کی آسمان سے برستی ہے، دونوں کے لیے تگ و دو کرنے والوں کی دنیا ہی نہیں جنازے بھی بہتر ہوتے ہیں اور قبر بھی۔ کاش ہم سمجھیں!

  • گور کی گود – نورین تبسم

    گور کی گود – نورین تبسم

    انسان خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو زندہ رہنے کی چاہ کبھی کم نہیں ہوتی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جسمانی کارکردگی مدھم پڑنے لگتی ہے لیکن زندگی کی خواہش اول روز کی طرح ویسے ہی شور مچاتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ واپسی کے سفر کو حق جان کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے، اسی لیے اولاد کا خواہش مند ہوتا ہے جو کم ازکم اس کی نام لیوا ہو۔ اس خواہش کا اگر سائنسی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پیدا ہونے والا بچہ ماں باپ کے وجود کا حصہ، اُن کے جینز کا شراکت دار ہوتا ہے، سو انسان کی یہ خواہش لاشعوری طور پر اپنے جینز کی منتقلی اور بقا کی ہے۔ اس میں بھی بیٹے اور بیٹی میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔ یہی معاشرے کا المیہ ہے کہ وراثت چاہے مال و دولت کی شکل میں ہو یا علم وآگہی کی صورت، بیٹے کی ضرورت اور خلش ہمیشہ آڑے آتی ہے۔ معاشرے کی اس عمومی سوچ سے سمجھوتہ کرنا یا اس کے برعکس سوچنا بڑے دل گردے اور ہمت کا کام ہے۔ بہت کم ہی کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ بیٹے کے نہ ہونے کی کسک کا ایک عام انداز یہ بھی ہے کہ کوئی بازو نہیں اور جنازے کو کاندھا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ زندگی اسی ناآسودگی اور بےاعتباری میں گزر جاتی ہے اورباقی صرف وقت رہ جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کس کو کیا ملتا ہے؟ اور کون رہتا ہے؟ لیکن اس وقت سمجھنے والا جا چکا ہوتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جانے والے کا ربط نہ صرف دُنیا کی ہر چیز سے ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ مرنے کے بعد دُنیا میں اپنے آخری مقام کے دنیاوی جسمانی احساس سے بھی بےپروا ہو جاتا ہے اور اُس کی اصل کیفیت صرف اللہ جانتا ہے۔

    مذہبی معاشرتی اور روحانی حوالوں سے قبروں کی تزئین و آرائش کے جواز پر ہر مکتبہ فکر کے اختلافات اور تاویلات ہیں، عورتوں کا قبرستان جانا بھی دینی طور پر مستحن نہیں سمجھا جاتا لیکن جن گھروں میں بیٹے نہ ہوں وہاں بیٹیوں کو بہت سے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو عام حالات میں صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔

    انسان کے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے والے اُس کے پیارے رشتے، جن کے آرام و سکون کی خاطر وہ سرد راتوں اور تپتی دوپہروں میں چکی کی مشقت کرتا رہا، اُس کے دُنیا میں آخری مقام کے بارے میں بہت حساس ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ شروع کے چند روز اس طرف دھیان زیادہ رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ محض عید، شب برات یا زیادہ سے زیادہ سال بہ سال برسی کے مواقع پر رسمی طور پر حاضری دی جاتی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو، بچھڑنے کے شروع کے ایام میں قبر سے ایک عجیب سی اُنسیت ہو جاتی ہے جیسے کہ جانے والا ہمیں محسوس کر رہا ہو اور ہم بھی اس سے دل کی بات کہہ سکیں۔ کسی نے کیا بات کہہ دی کہ ”جب کوئی اپنا چلا جائے پھر قبرستان سے ڈر نہیں لگتا۔“ لیکن یہ چاہت اور اُنسیت بھی ہر جانے والے کے نصیب میں نہیں، کچھ توساری زندگی بےنام و نشان رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی کبھی کوئی اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے نہیں آتا۔

    اس بات سے انکار نہیں کہ زندگی میں چاہے بےمول ہی کیوں نہ بکتا رہا ہو، بعد مرنے کےمٹی کے انسان کی اصل قیمت چند گز زمین میں ملنے والی مٹی کی قربت ہے۔ یہ ”قربت“ بھی بڑے نصیب کی بات ہے جس کو نصیب ہو جائے، ورنہ ہوا، پانی اور آگ ایسے عناصر ہیں جو مٹی یوں کھا جاتے ہیں کہ نام ونشان کا احساس تو کیا ثبوت بھی کم ہی چھوڑتے ہیں۔ بےزمینی اور لامکانی کے دُکھ سے بھی بڑھ کر اگر کوئی دکھ ہے تو ایک جیتے جاگتے انسان کا لمحوں میں دنیا سے”غائب“ ہوجانا۔ آگے کی منزلوں اور سفر کا حساب کتاب تو وہ جانے لیکن اُس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس کے اپنے ہمیشہ شک و یقین کی سولی پر لٹکتے رہتے ہیں۔ وہ بدقسمت تو دعاؤں کے حصار سے بھی نکل جاتا ہے کہ نہ تو زندگی کی سلامتی کی دعا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی مغفرت کی دعا۔ اگر زندہ ہوگا تو نہ جانے کس حال میں اور اگر دنیا سے جا چکا ہے تو نہ جانے کس کسمپرسی کی حالت میں گیا۔

    حرفِ آخر
    گھر زندہ انسانوں کا مسکن ہے اور قبرستان مردہ جسموں کا۔ لیکن گھر میں رہنے کا سلیقہ قبرستان سے بہتر کہیں سے نہیں سیکھا جا سکتا، جہاں سب اپنی اپنی قبر میں اپنے اپنے حساب کتاب کے عالم ِبرزخ میں تنہا ہوتے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احساس کی اگربتیاں اورعقیدت کی پتیاں کوئی انجان بھی بکھیر دے تو اپنے الاؤ بُھلا کر چاہ کی پھوار میں سوندھی مٹی کی مہک ہر سو پھیل جاتی ہے۔

  • جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے – عمیر علی

    عمیر علی چلچلاتی دھوپ کسی کا امتیاز نہیں کرتی۔ وہ ہر حسب و نسب کے افراد کو ایک جیسی تپش دیتی ہے۔ فرق ہے تو آسائشوں کا جو ہر کسی کو میسر نہیں۔ انھی آسائشوں کی ترجمانی کرتی وہ چمچاتی ائیرکنڈیشننگ کار کالج کے سامنے نو پارکنگ میں ایسے براجمان ہو گئی جیسے وہاں موجود انتظامیہ کو للکار رہی ہو کہ ہے کوئی جو مجھے ایک انچ بھی ہلا سکے۔ اُس میں سے ڈرائیور اترا اور پیچھے کا دروازہ کھولا۔ اُس میں سے ایک حسینہ بڑے طمطراق سے برآمد ہوئی۔ سب سے پہلے اُس نے قہر برساتے سورج کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا، جیسے اُس نے عام بنی نوع اور اُس راجکماری میں فرق نہ کر کے کوئی عظیم گناہ کیا ہے۔ اُس کی دوسری نگاہ عتاب کا نشانہ ہماری کالج کے داخلہ دفتر کے باہر لگی قطار تھی۔ پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ اپنی شان کو ملحوظ رکھتے ہوئے قطار میں لگنے پر سیخ پا ہے، لیکن جیسے ہی وہ قطار کی بجائے سیدھی داخلہ دفتر میں بلا روک ٹوک داخل ہوگئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم صرف عام انسان ہونے کے جرم میں اُس کی آنکھ میں کھٹکے تھے۔

    دو گھنٹے سے قطار میں کھڑے ہو کر بدن پسینے میں ایسے شرابور تھا، جیسے ابھی نہا کر بغیر تولیہ استعمال کیے کپڑے پہن لیے ہوں۔ ابھی اپنی اس حالت پر مکمل غور بھی نہ کیا تھا کہ وہ داخلہ دفتر سے باہر آئی اور اُس کے ساتھ ایڈمن آفیسر صاحب بھی تھے۔ اور اُسے عاجزانہ لہجے میں یقین دلا رہے تھے کہ آپ فکر نہ کریں۔ اور وہ نخوت سے ایک اور نگاہ ہماری قطار پر ڈالتی ہوئی چلی گئی۔

    اُس سے دوسری ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں ایم اے کرنے کے بعد ہر جگہ نوکریوں کے لیے در بدر بھٹک کر گزارے کے لیے ایک شاپنگ مال کی دوکان میں سیلز مین کے لیے پہلے دن آیا تھا۔ پہلے ہی کی طرح شاہانہ انداز میں وہ دکان میں داخل ہوئی اور چاروں طرف نگاہ دوڑا کر اچانک میری طرف دیکھا، میں حیران تو ہوا کہ شاید اس نے بھی مجھے پہچان لیا لیکن فورا وہ دکان مالک کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے سامان پسند کرنی لگی۔ مالک نے مجھے اُس کی مطلوبہ چیزیں لانے میں دوسرے سیلز مین کی مدد کرنے کو کہا۔ جوتوں کے کچھ ڈیزائن لاتے ہوئے میرے ہاتھ سے جوتے کا ڈبہ گر کر اُس کے پائوں پر گرا۔ اچانک لگا جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو۔ چنگھاڑتے ہوئے وہ اُٹھی اور ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پر ایسا جڑا کہ اُس کے غرور اور فتح کا نشان میرے چہرے پر چھپ سا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مغلظات کا ایک طوفان آیا، اور مجھے میری اوقات اور میرے والدین کی اوقات یاد کروانے کے بعد، وہ چلی گئی، وہ میرا اُس دکان پر نوکری کا پہلا اور آخری دن تھا، کیوں کہ مالک کے لیے اُس کا اچھا گاہک قیمتی تھا۔ اُس دن مجھے اپنے غریب ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے پر افسوس ہوا کہ انسان تو میں بھی دوسروں جیسا ہوں، قصور تو اُن کا ہے۔

    آج تیس سال بعد جب وہ میری بغل میں لیٹی تو مجھے خدا کے خدائی سمجھ میں آئی کہ یہ امیر غریب، کالا گورا، یہ طبقہ، یہ فرقہ، یہ قومیت یہ شان و شوکت، سب فانی ہے۔ جس مٹی کی قبر میں میں لیٹا ہوں، اُسی مٹی میں آج وہ دفن ہوگئی۔ اور وہ اُتنی ہی بے بس ہے جتنا کہ کوئی بھی انسان بغیر روح کے ہوتا ہے۔ آج کوئی دولت، کوئی افسر،کوئی انسان اُس کو کسی سے افضل نہیں کر سکتا۔
    جس مٹی میں میں لیٹا ہوں، اُسی میں وہ دفن ہے