دانا لوگ فرماتے ہیں کہ ایک سیاستدان میں کم از کم5 خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔
ایمانداری پہلی اوربنیادی شرط ہے۔ اسی صفت سے قوم کے لوگوں میں اعتماد قائم ہوتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں قومی لیڈر کی عزت و حترام میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسری اہم صفت دردمندی ہے۔ وہ قوم کے مسائل کو جانے اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ جاننے کے بعد مسائل کو عقل وخرد سے حل کرنے کی بھر پور کوشش اسی صفت کاحصہ ہے۔
اخلاقی بلندی کو آپ تیسری بنیادی خوبی کہہ سکتے ہیں۔ہر انسان اپنی اخلاقیات سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔اور جہاں تک قومی سیاستدانوں کاتعلق ہے۔ ان کے لئے بلند اخلاق ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں لیڈروں کے اخلاق پرلوگوں کی نظریں ہیں۔عوام چاہے جتنا بھی گھٹیا اخلاق کا مظاہرہ کرلیں لیکن وہ اپنے سیاسی لیڈروں سے بلند اخلاقی کی توقع ضرور رکھتے ہیں۔
چوتھی ضروری صفت اعتماد ویقین ہے۔ جب وہ قوم کے مسائل جان لے تواسے ان مسائل کے حل کے طریقوں پر یقین ہو اور انہیں حل کرنے کے لئے صحیح سمت میں اعتماد سے قدم اٹھاتا چلا جائے۔غور وحوض اور پلاننگ مسلے کے حل کی کوششیں شروع کرنے سے پہلے ہوں۔
پانچویں صفت رویے میں لچکداری کا ہونا ہے۔ دوسروں کی بات سنے اور تنقید بھی برداشت کرے۔دوسری پارٹیوں کے پاس جو مسائل کا حل ہے۔وہ بھی درست ہوسکتا ہے۔لیڈر کو صرف اپنی پارٹی کا مفاد سامنے نہیں رکھنا بلکہ عوام یا قوم کا مفاد سامنے رکھنا ہے۔قوم یا عوام سب سے اہم ہیں۔صرف ایک پارٹی کا مؤقف اتنا اہم نہیں ہے۔
اگر ہم برصغیر کے قریبی ماضی کا جائزہ لیں تو ہمیں محمد علی جناح میں یہ تمام صفات موجود نظر آتی ہیں۔انہوںنے ایمانداری(Honesty)سے اپنی قوم کی قیادت کی۔اپنی ذات یاخاندان کے لئے اپنی لیڈر شپ کی وجہ سے کوئی بھی مفاد حاصل نہیں کیا۔انہوںنے برصغیر کے مسلم مس ئلہ کوجانا۔اس کے بہت سے حل موجود تھے۔یہ بات تو بہت سے لیڈر بابار کہہ رہے تھے۔کہ مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں میں اور ہندو اپنے اکثریتی صوبوں میں حکومتیں بنائیں اور مرکزی حکومت صرف دفاع،غیر ملکی تجارت ،غیر ملکی سفارت اور کرنسی کا نظام چلائے۔قائد اعظم اور انکے ساتھیوں کی رائے کے مطابق یہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔یہ سوچ رد کردی گئی اور مکمل علیحدہ ریاستوں کے تصور پر کام شروع کردیاگیا۔ وہ اعتماد و یقین کے ساتھ اس پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے اپنا طے شدہ مقصد حاصل کرلیا۔ ان کی اخلاقی بلندی کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد جب حل سامنے آیا۔تو وہ پر اعتماد ہوگئے۔ ان کے پاؤں پھر لڑکھڑائے نہیں۔وہ گھنٹوں ہندؤں اور انگریزوں سے بحث کرتے۔لیکن یہ بحث آئین و قانون کے دائرہ کے اندر تھی۔وہ نہ کبھی جیل گئے اور نہ انہوں نے تشددکاراستہ اختیار کیا۔لیکن ایک مکمل اور بااختیار علیحدہ ریاست حاصل کرلی گئی۔گورنر وہ صرف11 ماہ رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایمانداری کی بہت سی مثالیں قائم کیں۔
کئی دہائیاں چھوڑ کر ہم 90ء کی دہائی میں آجاتے ہیں۔ 2پارٹیاں یکے بعد دیگرے حکومت کرتی نظر آتی ہیں۔ 2 لیڈر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو۔ایک کاروبار سے سیاست میں آیا۔بے نظیر کا پس منظر جاگیر دارانہ بھی تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے طورپر بھی۔ان پورے دس سالوں میں وہ ایک دوسرے کو گرانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔بے نظیر بھٹو اپنے کارکنوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کرواتی رہیں۔اور نواز شریف سرکاری کارپوریشنز کو پرائیویٹ سیکٹر میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔نواز شریف کے Creditمیں صرف لاہور۔اسلام آباد موٹروے ہے۔اس پورے دس سال میں دونوں لیڈروں میں سے کوئی کالا باغ ڈیم شروع نہ کراسکا ۔بے نظیر نے بجلی پیدا کرنے والی 14 کمپنیوں سے معاہدات کئے۔پاکستان میں بجلی کے نرخ صرف اس ایک کام سے بلندیوں کی طرف چلے گئے۔اس پوری دہائی پر معیشت دانوں کے متفقہ رائے یہی ہے کہ یہ دس سال ملک کو کچھ بھی نہ دے سکے۔اسے “ناکام دہائی”کے طورپر جانا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی ایمانداری پر تبصرہ انہیں کے مقرر کردہ صدر لغاری نے کردیاتھا۔جب صحافی نے پوچھا کہ آصف زرداری Mr.Ten Percentمشہور ہوگئے ہیں۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟۔صدرفاروق لغاری نے جواب دیا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دونوں ہی اونچے درجے کے کرپٹ تھے۔باہر کے ملکوں میں خریدے گئے بڑے بڑے محلات دونوں کی ملکیت تھے۔نوازشریف صاحب نے اپنے اثاثے بنکوں سے قرض لیکر بڑھائے۔ یہ قرض بھی سرکاری اثرورسوخ سے ہی ملتے ہیں۔اب آکر یہ پتہ چل رہا ہے کہ 1993ء تا1995ء سے وہ اپنی دولت براستہ دبئی اور جدہ باہر منتقل کرتے رہے۔بہت ہی مہنگے علاقے میں پہلے صرف ایک فلیٹ سناجاتاتھا۔اب یہ نصف درجن بتا ئے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہوتے ہوئے قومی منظر نامے پر عمران خان ظاہر ہوئے۔انکی پارٹی نے گزشتہ20سالوں میں صرف2013ء کے الیکشن میں کارکردگی دکھائی۔اس سے پہلے انتخابات میں شرکت برائے نام تھی۔2013ء کے رزلٹ سے قوم کے ایک طبقہ نے اطمینان محسوس کیا۔ دو روائتی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک تیسری پارٹی قومی سیاست کے منظر نامے پر ابھری۔عمران کے Creditمیں انکی کرکٹ اور شوکت خاتم ہسپتال موجود تھے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر وہ ان دوکاموں سے جانے جاتے تھے۔ہسپتال کی ایک اور شاخ اب انہو ں نے پشاور میں قائم کردی ہے۔لوگ انہیں فنڈز دیتے وقت ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ایمانداری کی صفت کی وجہ سے عمران خان نے میانوالی کے علاقے میں ایک اچھا تعلیمی ادارہ بھی قائم کرلیا ہے۔اس ایک صفت میں ان کا مقابلہ ملک کے باقی قومی سیاست دانوں سے نہیں کیاجاسکتا۔مقابلہ تب ہو جب باقی دونوں پارٹیوں کے لیڈر جھولی پھیلا کر نکلیں اور کوئی بڑا ادارہ عوام کے چندے سے بنائیں۔سرکاری خزانے سے ادارے بنا دینا ایک دوسری بات ہے۔
نواز شریف، بھٹو زرداری اور عمران خان کے ساتھ ایک اور درویش صفت انسان محترم سراج الحق بھی ہے۔ایمانداری کی مثالیں سراج الحق کی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ایک لمبے عرصہ سے قائم کی ہوئی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اب ایک نامی گرامی ادارہ بن چکا ہے۔کروڑوں روپے کی مالیات کو انتہائی ذمہ داری سے اکٹھا کیاجاتا اور خرچ کیا جاتا ہے۔عمران خان پر اب 2014ء کے دھرنے کے بعد بہت اعتراضات بھی ہونے لگے ہیں۔اعتراضات وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں 2013ء کے الیکشن میں ایک نیا اور ابھرتا ہو ا قومی لیڈر نظر آتاتھا۔بے شمار لوگوں اور خاص طورپر نوجوانوں نے ان سے توقعات وابستہ کرلی تھیں۔لیکن ان کامیٹر اب صرف منفی سیاست کی طرف چل پڑا ہے۔
جلسے، دھرنے، ریلیاں اور اب اسلام آباد بند کرنا۔ان کی توجہ پارلیمنٹ میں جاکر مفید قانون سازی کی طرف بالکل نہ ہے۔جمہوریت میں تمام اصلاحات کی جگہ صرف اور صرف پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن اور نیب جیسے ادارے بھی موجود ہیں۔اگر پانانہ لیکس کے سلسلے میں پرانے قوانین کام نہیں دیتے تو نئے قوانین بھی پارلیمنٹ نے ہی بنانے ہیں۔نیب اور دوسرے اداروں کا سکوپ اگر نیشنل سطح تک ہے تو انہیں بین الاقوامی سطح کابنانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔اب تو سپریم کورٹ میں پانامہ مقدمہ شروع ہے۔20۔اکتوبر کے بعد اگلی تاریخ بھی پڑ گئی ہے۔اسلام آباد بند کرنے کا جواز قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ختم ہوچکا ہے۔اگر عمران خان نے آئندہ آگے بڑھنا ہے اور2018ء کے الیکشن میں کوئی کارکردگی دکھانی ہے۔ تو منفی سیاست کی بجائے مثبت سیاست شروع کریں۔ہمارے لیڈروں کی سیاست میں منفی پن زیادہ ہے۔اگر عمران خان 2013ء میں وزیراعظم نہیں بن سکے تو کیا آئندہ سیاست ختم ہوگئی ہے؟۔پاکستانی سیاسی ـ”قیادت کا المیہ”یہی ہے کہ مثبت کی بجائے منفی سیاست شروع کردیتے ہیں۔صراط مستقیم کی بجائے دائیں بائیں جانے والی پگڈنڈیوں پر سفر شروع کردیتے ہیں۔مستقل مزاجی سے منزل کی طرف سفر جاری رکھیں۔
وطنِ عزیز کو آج ستر سال ہونے کو آئے ہیں لیکن سترہ دِن کا قلیل سفر معلوم ہوتا ہے. نظریاتی حوالے سے دیکھیں تو یہ ”لا الہ الااللہ“ کی بُنیاد پر دنیا کے نقشے پر جَما. اِس ملک کو بنانے والے ہمارے آباؤ اجداد نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والی اِس ریاست میں ہم امن کا سانس لیں گے. ہماری جان، مال، عزت و آبرو محفوظ رہے گی، اِسی وجہ سے تو وہ یہ ساری جہد مسلسل کر رہے تھے ورنہ انہیں کیا پڑی تھی کہ اپنے دن کا سکون اور شب کا چین خراب کرتے؟
زمانہ طالبِ علمی میں اُستاد صاحب مطالعہ پاکستان پڑھایا کرتے تھے، بچو! یہ دیس ہم نے ایک نظریے، ایک سوچ اور اک فکر کی بُنیاد پر حاصل کیا ہے. تحریکِ آزادی پاکستان کا ایک مشہور نعرہ بار بار پڑھنے اور سُننے کو ملتا اور کانوں سے ٹکرا کر فضا میں اپنی لہریں بکھیر دیتا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ. گویا کہ ہم نے یہ سرزمین اپنے رب سے یہ عہد کر کے حاصل کی تھی کہ اے میرے اللہ! ہمیں اپنی اِس اتنی بڑی وسیع عریض دھرتی پر زمین کا ایک ایسا ٹکڑا عطا فرمائیو جہاں ہم تیرے رسول ﷺ کے دیے ہوئے نظام کا عملی نفاذ کر سکیں. ایک ایسا دیس کہ جس کے باشندے تیرے دیے ہوئے نظام کے مطابق بآسانی ایامِ زیست گزار سکیں، جس کے معاشی نظام کی بُنیاد سود نہیں بلکہ زکوۃ و عشر ہو، جس کا عدالتی نظام کسی انگریز کی کتاب نہیں بلکہ قرآن ہو، جس کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں قرآن سے محض تلاوت کی حد تک استفادہ نہ کیا جائے بلکہ اُس کی تعلیمات پر بھی نظرِکرم کی جاوے.
بدقسمتی سے ہم آج تک اپنے رب سے کیے ہوئے اِس عہد کو نہ نِبھا سکے ہیں اور نہ ہی قریب قریب اِس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے. ہمارے رویے اور ہمارا طرزِ فکر مکمل طور پر تبدیل ہو چُکا ہے بلکہ اب تو یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ قائداعظم تو دھوکہ دے رہے تھے اور وہ ایک اسلامی ریاست چاہتے ہی نہیں تھے؟
اگر ہزار چودہ سو سال پُرانی بات ہوتی تو شاید اِس موضوع پر مکالمہ کیا جا سکتا تھا. بہت ممکن تھا کہ مناظرے ہوجاتے، مذہبی رہنما چودہ سو سال پُرانی تاریخ کے ساتھ یہی نہیں کر رہے؟ ابھی تو ساٹھ ستَر سال بِیتے ہیں، اُن حضرات کے لیے میں یہاں پر قائد اعظم کے ایک دو ارشادات رکھنا چاہوں گا۔
1945ء میں قائد اعظم نے اپنے پیغام عید میں فرمایا: ’’اس حقیقت سے سوائے جہلا کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہ زندگی ہے۔ جو معاشرت، دین، تجارت، عدالت، عسکری امور، دیوانی اور فوجداری ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات کا سوال ہو یا صحتِ جسم کا، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک ،دنیاوی سزاؤں سے لے کر آخرت کے مواخذے تک تمام ضوابط قرآن میں موجود ہیں، اسی لیے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن حکیم کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح خود اپنا مذہبی پیشوا بن جائے‘‘۔
سیکولر نظام کا ڈھنڈورا پِیٹنے والے حضرات یہ ڈھولچی پِیٹتے پھرتے ہیں کہ آپ کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان میں اس کی آبادی سے زیادہ تو اسلام کے فرقے بَن چُکے ہیں؟ اگر کسی ایک گروہ کی حکومت آ جاتی ہے تو دوسرے کو روند ڈالے گا، عورتوں پر زبردستی کی جاوے گی اور ہر آدمی سے لُوٹا اُٹھوا کے نماز کے لیے کہا جاوے گا۔ ان حضرات کی اِس سوچ پر اگر آپ ماتم کرنا چاہیں تو کریں، میں تو قُربان ہونا چاہوں گا۔ صاحبُو! آپ کو یہ کہاں سے اور کب سے ایک کے بجائے کئی اسلام نظر آنے لگ پڑے۔ اگر فُرصت ہو اور دِل کرے تو کبھی پاکیزگی حاصل کر کے قرآن کو کھول کر تو دیکھو، جانو تو سہی کہ اصل اختلاف کیا ہے تمام مکتبِ فکر کے لوگوں میں؟
بُنیادی اُصولوں پر تقریباً تمام اہلِ ایمان کا اتفاق ہے، اختلاف ہے تو محض بعض فروعی معاملات میں، جو کسی ریاست کے قوانین و ضوابط میں کوئی عمل دخل نہیں کرتے۔ رہا سوال عورتوں پر جبری پردہ اور لُوٹے اٹھوانے کا تو اُس پر میں یہی کہوں گا کہ اللہ آپ کو الطاف بھائی جیسا بیٹا دے۔ خدا کے بندو! یہ آپ کو گمان بھی کیسے گزرا کہ اسلام شدت پسندی کا قائل ہے یا اسلامی حکومت شدت پسندی سے پردے اور نماز پر قائل کرے گی۔ یہ تو اپنی ماؤں اور بیٹیوں کو اُسی طرح پردے میں دے گی جس طرح تم نے انہیں میڈیا اور حکومت کے بَل بُوتے پر اِن کی چادر سے باہر نکالا ہے۔
آپ کئی سچے پِکے اور کھرے کھرے سے لیڈر لیں، ایک سے بڑھ کر ایک نظام لیں آئیں، لیکن اِس ملک کا مستقبل اسلامی نظام سے وابسطہ ہے۔ اِس کے بغیر اگر آپ کسی اور نظام سے اپنے آپ کو ڈھانپنے کی کوشش کریں گے تو بہت ممکن ہے آپ ایک سائیڈ پر کچھ وقت کے لیے بہت ترقی کر جائیں اور آگے نکل جائیں لیکن آپ کی دُوسری سائیڈ ننگی ہو جائے گی۔ کہنے کا مطلب ہے نیم برہنہ یا برہنہ عورتوں سے اشتہار دلوا کر آپ پیسے تو شاید تھوڑے زیادہ بٹُور لیں لیکن آپ کا خاندانی نظام مسمار ہو کر رہ جاوے گا۔
26 ستمبر 2010ء کی صبح ڈاکٹر محمد منیر صاحب، سربراہ شعبۂ قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد ، نے اطلاع دی کہ استاد محترم جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال کرگئے ہیں۔ کافی دیر تک صدمے کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ آنسوؤں اور دعاؤں کا ایک عجیب امتزاج تھا جو والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد پہلی دفعہ اتنی شدت سے محسوس کیا۔ بےبسی کے احساس نے صدمے میں اور بھی اضافہ کیا کیونکہ بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے سفر سے منع کیا تھا۔ البتہ ایک بات نے بہت حوصلہ دیا کہ غازی صاحب کے شاگردوں نے ان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار نہایت شدت سے کیا۔ بےشمار لوگوں نے فون یا ایس ایم ایس کیے یا ای میل کیے۔ غازی صاحب کے شاگرد ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو دلاسا دیتے رہے، اور پھر ایک دوسرے سے چھپ کر تنہائی میں روتے رہے۔ ان گفتگوؤں میں ہم نے غازی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر بھی کیے۔ آج ایسے ہی چند لمحات قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
ابتدائی دور
راقم الحروف نے 1994ء میں ایف ایس سی کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی یونیورسٹی کی ’’بین الاقوامی‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ دونوں خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ طلبہ میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی۔ ساٹھ فی صد نشستیں غیر ملکی طلبہ کے لیے اور چالیس فیصد نشستیں پاکستانی طلبہ کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ چنانچہ پچاس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ اسلامی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ فیصل مسجد کے قریب واقع کویت ہاسٹل تو امت مسلمہ کی کثرت میں وحدت کی زبردست مثال تھا۔ یونیورسٹی کی عمومی فضا پر اسلامیت کے ساتھ ساتھ عربیت کا پہلو بھی غالب تھا۔ کلیۂ عربی، کلیۂ اصول الدین اور کلیۂ شریعہ کے طلبہ کے لیے تو ویسے بھی عربی میں مہارت ضروری تھی لیکن نہایت خوش آئند بات یہ تھی کہ اکنامکس اور کمپیوٹر کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی عربی سے مناسبت رکھتے تھے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی
یونیورسٹی میں ہر ہفتے مختلف شعبوں کی جانب سے متنوع موضوعات پر سیمینار ہوتے تھے۔ میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ دو گھنٹے کے اس طرح کے سیمینارز میں بیٹھ کر جو کچھ میں نے سیکھا، وہ شاید چھ گھنٹے کی کلاسز میں نہیں سیکھ پاتا۔ علمی اور ادبی پہلو سے تو یہ سمینارز نہایت مفید ہوتے ہی تھے لیکن دیگر کئی پہلوؤں سے بھی ان سیمینارز کا بڑا فائدہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اسی طرح کے ایک سیمینار میں ہمارے ایک کلاس فیلو سٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے صدر جامعہ کو خطاب کے لیے بلایا تو پورا نام لینے کے بجائے محض ’’ڈاکٹر شافعی‘‘ کہہ کر انھیں خطاب کی دعوت دی۔ میں نے محسوس کیا کہ سٹیج پر بیٹھے ڈاکٹر غازی صاحب کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ پھر جب غازی صاحب خطاب کے لیے اٹھے تو انھوں نے سٹیج سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی محفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں جنھیں ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ آپ سیکھنے کے مرحلے میں ہیں اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ کسی بھی مقرر کو دعوت دینے سے پہلے ان کا پورا نام لیا کریں اور ادارے کے ساتھ ان کا تعلق مناسب الفاظ میں بیان کیا کریں، چنانچہ غازی صاحب کی تجویز یہ تھی کہ ’’ڈاکٹر شافعی‘‘ کہنے کے بجائے آپ کو یوں کہنا چاہیے تھا: ’’جناب ڈاکٹر حسن محمود عبد اللطیف الشافعی، صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد‘‘۔ غازی صاحب کی یہ بات ہم سب نے یاد رکھی اور آج بھی جب میں اپنے طلبہ میں کسی کو پہلی دفعہ سٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دینے کے لیے کہتا ہوں تو دیگر نصیحتوں کے ساتھ یہ نصیحت بھی لازماً کرتا ہوں۔
اس طرح کے سیمینارز میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کسی مقرر نے انگریزی میں تقریر کی اور مہمانوں میں بعض ایسے تھے جو انگریزی نہیں سمجھتے تھے، یا اس کے برعکس ہوا کہ تقریر عربی میں کی گئی لیکن بعض مہمان عربی نہیں سمجھتے تھے تو اس وقت کے صدر جامعہ جناب ڈاکٹر حسین حامد حسان فوراً ڈاکٹر غازی صاحب سے درخواست کرتے کہ وہ اس تقریر کا خلاصہ انگریزی یا عربی میں پیش کریں، اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ غازی صاحب نے ہچکچاہٹ محسوس کی ہو۔ وہ اٹھتے اور جب خلاصہ ہیش کرتے تو سامعین نہ صرف ان کی زبان دانی کی وجہ سے، بلکہ ان کی قوت حافظہ کی بنا پر بھی انگشت بدنداں رہ جاتے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی صاحب ایک نہایت اہم موضوع پر اپنے فاضلانہ خیالات کا اظہار کررہے تھے کہ اچانک ہی (out of the blue) صدر جامعہ نے غازی صاحب سے کہا کہ وہ ساتھ ساتھ اس کا عربی ترجمہ بھی کرتے جائیں۔ ہم میں سے کئی طلبہ کی رائے یہ تھی کہ غازی صاحب جیسے بڑے عالم کے ساتھ یہ زیادتی ہے اور ان کی قدر ناشناسی ہے کہ ان کو اس طرح کے کام کا کہا جاتا ہے اور وہ بھی یوں اچانک، لیکن غازی صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اٹھے اور انگریزی سے عربی میں فی البدیہہ ترجمہ شروع کردیا۔ گیلانی صاحب دو دو تین تین جملے بولتے اور غازی صاحب فی البدیہہ ان کا نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ کرتے جاتے۔
انگریزی اور عربی کے علاوہ کئی دیگر زبانوں، بالخصوص فارسی اور فرانسیسی، میں بھی ان کی مہارت کا یہی عالم تھا۔ اقبال کا سارا کلام، اور بالخصوص فارسی کلام، ان کو ازبر تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی سیرت رسول اللہ ﷺ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کی جس کی پہلی جلد ادارۂ تحقیقات اسلامی نے شائع کی۔ ہمارے بعض دوست کہا کرتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں مہارت غازی صاحب کا خاندانی ورثہ ہے کیونکہ ان کے بھائی محترم جناب ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اس معاملے میں اگر ان سے آگے نہیں ہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔
ایک دفعہ غازی صاحب نے مجھے پشتو زبان کی بعض ایسی خصوصیات کی طرف توجہ دلائی جس کی طرف میرا کبھی دھیان نہیں گیا تھا باوجود اس کے کہ پشتو میری مادری زبان ہے اور پشتو شعر و ادب سے مجھے تھوڑا بہت شغف بھی ہے۔ غیر ملکی وفود کے ساتھ ملاقات سے پہلے غازی صاحب کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ان کی زبان کے چند مناسب کلمات اور جملے، بالخصوص خیر مقدمی کلمات، سیکھ لیں اور صحیح تلفظ کے ساتھ ادا بھی کریں۔ چنانچہ بعض اوقات وہ اس ملک کے کسی طالب علم کو بلا کر اس سے مدد بھی لیتے تھے۔ پھر جب وہ غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ پہلی ملاقات میں انہی کی زبان اور انہی کے لہجے میں خیر مقدمی کلمات کہتے تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔
اقبال اور قائد اعظم کے ساتھ محبت
اقبال کے ساتھ غازی صاحب کو والہانہ محبت تھی اور مختلف مواقع پر وہ اس محبت کا اظہار بھی نہایت پر اثر انداز میں کرتے تھے۔ کلام اقبال کا جس طرح برمحل استعمال وہ کرتے تھے، وہ بھی بس انہی کا خاصہ تھا۔ اقبال کے ساتھ محبت کی وجہ سے غازی صاحب کو ان سے بھی محبت تھی جن سے اقبال کو محبت تھی۔ چنانچہ جب غازی صاحب کو معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب نے ایم فل اقبالیات کے مقالے میں ’’ اقبال اور افغانستان ‘‘ کے موضوع پر تحقیق کی ہے اور وہ تحقیق کتابی شکل میں شائع بھی ہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مجھے تو اقبال سے بھی محبت ہے اور افغانستان سے بھی، اس لیے پہلی فرصت میں یہ کتاب لے آئیے گا۔ اس کے بعد جب بھی غازی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ والد صاحب کا نہایت محبت سے ذکر کرتے اور ان کی صحت کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔
اقبال کے ساتھ غازی صاحب کی والہانہ محبت کا اندازہ مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی میں ان علمی و ادبی مجالس میں ہوا جن کا انعقاد کلیۂ عربی کے پروفیسر حبیب الرحمان عاصم صاحب نومبر کے مہینے میں کرتے تھے۔ ان مجالس میں اہل علم، بالعموم عربی زبان میں، اقبال اور کلام اقبال پر علمی مقالات پیش کرتے۔ ان مجالس میں ایک خاصے کی چیز یہ ہوتی تھی کہ مجلس کے آخر میں کلیۂ عربی کے عمید جناب ڈاکٹر رجاء جبر اقبال کے فارسی کلام میں کسی حصے کا انتخاب کرکے اس پر اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں تفصیلی درس دیتے۔ غازی صاحب ان مجالس کے روح رواں ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف خود فکر اقبال کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے بلکہ دوسرے اہل علم کے مقالات پر بعض اوقات تعلیقات بھی پیش فرماتے۔ ایک دفعہ اس طرح کی ایک مجلس میں ایک عرب مقرر نے شگفتہ اردو زبان میں اقبال کے انقلابی فکر پر ایک دلچسپ مقالہ پیش کیا۔ اس مقالے میں کسی وجہ سے زیادہ تر اقبال کے ان اشعار کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ تھا یا ’’رسم شبیری ‘‘ادا کرنے کی ترغیب تھی۔ اس سے بظاہر یہ تاثر ملتا تھا کہ اقبال شاید تشیع کی طرف مائل تھے۔ مقالے کے اختتام پر غازی صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور ’’تعلیق ‘‘ کی صورت میں اس تاثر کی نفی کی اور ایک متوازن رائے قائم کرنے کے لیے اقبال کے دیگر اشعار اور اقوال کا حوالہ دیا۔
اقبال کی طرح غازی صاحب کو قائداعظم محمد علی جناح سے بھی عقیدت اور محبت تھی اور اپنی تقاریر میں وہ قائداعظم کے اقوال کے برمحل حوالے بھی دیا کرتے تھے۔ 2003ء کی بات ہے کہ اسلام آباد میں مولانا نصیب علی شاہ ہاشمی ؒ کی کاوشوں سے ایک عظیم الشان فقہی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس سے جناب غازی صاحب نے بھی خصوصی خطاب کیا اور اس وقت مجھے خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور غازی صاحب کی جرأت رندانہ پر رشک بھی آیا جب انھوں نے علمائے کرام کی اس مجلس میں اسلامی معاشی نظام پر گفتگو کا آغاز کلام اقبال اور اقوال قائد سے کیا۔ انھوں نے اقبال کے خطبۂ الہ آباد کا حوالہ دیا جس میں اقبال مسلمانوں کے الگ قومی تشخص کی بات کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے قائد اعظم کے ساتھ اقبال کی خط و کتابت کا ذکر کیا جس میں اقبال نے قائداعظم کو مسلمانانِ برصغیر کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے قائل کیا۔ مجھے غازی صاحب کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین کیا بلکہ اس منزل تک پہنچانے کے لیے رہبر کا بھی انتخاب کیا۔ غازی صاحب نے اس خط و کتابت کے حوالے مزید کہا کہ اقبال نے اس اہم بات کی طرف بھی قائد اعظم کی توجہ دلائی کہ ہندو ساہوکار مسلمانوں کا معاشی استحصال کر رہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی آزادی کا خواب تبھی شرمندۂ تعبیر ہوسکے گا جب ان کی معیشت ان ساہوکاروں کے قبضے سے آزاد کرائی جائے۔ اس کے بعد غازی صاحب نے قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دیا جو انھوں نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی اور جس میں آپ نے فرمایا کہ مغربی معاشی نظام نہ صرف یہ کہ انسانوں کے مسائل کے حل میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دو بڑی جنگیں بھی لڑی گئیں اور اب سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہو کیونکہ صرف اسلامی نظام ہی معاشی عدل کو یقینی بنا سکتا ہے اور انسانوں کو ہلاکت سے بچا سکتا ہے۔
قانون کی پابندی
غازی صاحب کی سیرت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے قول و فعل سے قانون کی پابندی اور احترام کا درس دیتے تھے۔ میں یہاں دو ایسے واقعات کا حوالہ دوں گا جن کا میں خود شاہد ہوں۔
یہ دسمبر1998ء کی بات ہے کہ میں اپنے تعلیمی کیرئیر کے ایک نہایت اہم موڑ پر پہنچ کر اچانک ہی ایک مسئلے کا شکار ہوگیا۔ اسلامی یونیورسٹی میں بی اے ایل ایل بی (آنرز) شریعہ و قانون کے پروگرام کا دورانیہ دس سمسٹرز (پانچ سال ) پر مبنی تھا۔ اس لحاظ سے میرے کورس کا اختتام جون 1999ء میں ہونا تھا لیکن میں نے تین سال گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران میں اضافی کورسز پڑھے اور یوں یہ امکان پیدا ہوا کہ میرا کورس وقت سے پہلے دسمبر 1998ء میں ہی پورا ہوجائے۔ نیز اس وقت تک میں مسلسل آٹھ سمسٹرز میں اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا رہا تھا، گویا اس نویں سمسٹر میں اگر میں یہی پوزیشن برقرار رکھتا تو بی اے اور ایل ایل بی دونوں میں گولڈ میڈل بھی حاصل کرلیتا۔ مگر میری والدہ مرحومہ، جو کینسر کی مریضہ تھیں، کی بیماری کی وجہ سے میں کئی کلاسز نہیں لے سکا۔ قانون یہ تھا کہ طالبعلم کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت تبھی دی جاتی جب وہ کم از کم 80 فیصد تک کلاسز میں حاضرہوا ہو۔ متعلقہ کورس کے استاد کو حق تھا کہ وہ مناسب عذر کی بنا پر طالب علم کو 5 فیصد تک رخصت دے اور کلیہ کے عمید کو مزید 5 فی صد تک تخفیف کا اختیار تھا۔ چھ کورسز میں میری حاضری پوری تھی لیکن دو کورسز میں میری حاضری ۷۰ فی صد سے کم تھی۔ چنانچہ مجھے دو کورسز کے امتحان میں بیٹھنے سے روکا گیا۔
غازی صاحب اس وقت وائس پریزیڈنٹ (اکیڈمکس) تھے چنانچہ میں نے ان کو درخواست لکھی کہ وہ میرے سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور میری موجودہ مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ جس وقت میں ان کے آفس میں داخل ہو رہا تھا وہ (غالباً سپریم کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے) نکل رہے تھے۔ انھوں نے کھڑے کھڑے میری بات سنی۔ پھر کہا کہ قانون کے تحت تو اس کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے انھیں تفصیل سے اپنے سابقہ ریکارڈ سے آگاہ کیا لیکن ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ سابقہ ریکارڈ کی وجہ سے قانون سے انحراف کی گنجائش تو نہیں نکلتی۔ نوجوانی کا دور تھا اور خون بھی گرم تھا۔ میں نے انتہائی تیز لہجے میں کہا کہ ساڑھے چار سال تک میں نے جو محنت کی ہے، کیا آپ اسے ایک ہی ٹھوکر میں ھباء منثورا کردینا چاہتے ہیں؟ یہ سن کر غازی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انھوں نے میرے شانے پر تھپکی دے کر کہا کہ میں دو گھنٹے بعد آفس آؤں گا اور دیکھوں گا کہ تمھارے لیے کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں۔ بعد میں جب وہ آئے اور میرے ایک نہایت ہی محترم استاد نے ان سے اس سلسلے میں بات کی تو غازی صاحب نے انھیں بتایا کہ اس نوجوان سے ہمدردی کے باوجود میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ پورے کیس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کے تحت تخفیف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گولڈ میڈل سے محرومی کے باوجود غازی صاحب سے میری محبت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ ان کی وہ مسکراہٹ اور تسلی دینے کا ان کا وہ انداز مجھے ابھی تک اچھی طرح یاد ہے اور اب بھی میں اسے اپنے لیے ان کی جانب سے ایک انعام سمجھتا ہوں۔
ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ 2006ء میں جب وہ یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ کے عہدے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے پھر کلیۂ شریعہ میں پروفیسر شریعہ کے طور پر پڑھانا شروع کیا۔ ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب اس وقت کلیہ کے عمید تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر اساتذہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحقیقی خاکوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈ سے اساتذہ کی مدد کی جائے۔ فاروقی صاحب نے غازی صاحب کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا اور دیگر سینیئر اساتذہ کے ساتھ وہ خود اس کے ممبر بنے، جبکہ مجھے انھوں نے اس کمیٹی کا سیکریٹری بنا دیا۔ جب میں اس کمیٹی کی میٹنگ کے حوالے سے غازی صاحب سے ملا تو انھوں نے کہا کہ قانون کے تحت اس طرح کی کسی بھی کمیٹی کا سربراہ عمید کلیہ ہی ہوتا ہے۔ میں نے یہ بات فاروقی صاحب کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ غازی صاحب کی موجودگی میں کوئی اور کیسے اس کمیٹی کا سربراہ ہوسکتا ہے؟ اب جب میں نے غازی صاحب کو یہ بات بتائی تو صاف محسوس کیا کہ یہ بات انھیں ناگوار گزری ہے۔ انھوں نے فوراً یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کا مجموعہ اٹھا کر اس میں متعلقہ ضابطہ مجھے دکھا دیا اور پھر پوچھا کہ اس ضابطے کی موجودگی میں عمید کے سوا کوئی اور اس کمیٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔ پھر انھوں نے یہی بات متعلقہ ضابطے کے حوالے سمیت لکھ کر مجھے دے دی کہ یہ نوٹ فاروقی صاحب کو دکھائیں۔ یوں غازی صاحب کے احترام کے باوجود فاروقی صاحب مجبوراً کمیٹی کے سربراہ بنے۔
دیانت
جناب غازی صاحب کی شخصیت اور کردار کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ بالخصوص مالی امور میں حد درجے کی دیانت داری کے حامل تھے۔ استاد محترم جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری بیان فرماتے ہیں کہ اگرچہ غازی صاحب کو یونیورسٹی کے قواعد کے تحت یہ اجازت تھی کہ وہ گھر پر سرکاری ٹیلی فون کی سہولت لیں لیکن انھوں نے کبھی بھی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اس ٹیلی فون کا استعمال صرف سرکاری کاموں ہی کے لیے ہوگا۔
ڈاکٹر انصاری صاحب سے ہی سنا کہ جب غازی صاحب کا بطور صدر جامعہ دفتر میں آخری دن تھا اور دفتر سے اپنی کتابیں وغیرہ جمع کرنے میں انھیں بہت دیر ہوئی تو انھوں نے اپنے بھائی جناب غزالی صاحب کو رات گئے تک روکے رکھا کہ فارغ ہونے کے بعد وہ ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں گھر جائیں گے کیونکہ عہدے سے فراغت کے بعد وہ یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ سرکاری گاڑی میں گھر جائیں۔
اس دیانت داری کا ایک مظہر یہ تھا کہ وہ انتہائی حد تک وقت کی پابندی کرتے تھے۔ ہم اکثر حیران رہتے تھے کہ جس طرح کی مصروفیات ان کی ہیں ان میں وہ اتنے بڑے علمی و تحقیقی کاموں کے لیے وقت کیسے نکال پاتے ہیں لیکن ایک دفعہ ان کی زبانی ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا ایک واقعہ سنا تو یہ حیرت کافی حد تک دور ہوگئی۔ غازی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ کسی یورپی ملک میں ایک سیمینار میں وہ ڈاکٹر حمید اللہ کے ساتھ شریک تھے تو سارا دن کافی مصروف رہا اور شام کو غازی صاحب کو موقع ملا کہ وہ اپنی ایک زیرتصنیف کتاب کا مسودہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو دکھا سکیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے وعدہ کیا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈال کر غازی صاحب کو اپنی رائے سے آگاہ کریں گے۔ غازی صاحب کہتے ہیں کہ اگلی صبح ڈاکٹر حمید اللہ نے انھیں وہ مسودہ دے دیا تو ان کا پہلا تاثر یہ تھا کہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات انھیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہوگا لیکن یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کئی سو صفحات کے اس مسودے پر تقریباً ہر دوسرے تیسرے صفحے پر ڈاکٹر حمید اللہ نے کوئی تبصرہ، کوئی نوٹ، کوئی مشورہ لکھا تھا۔ غازی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد کوئی اتنا کام کیسے کرسکتا ہے جبکہ اگلے دن پھر اسے سیمینار میں بیٹھنا ہوگا، اور اس سے زیادہ حیرت اس پر تھی ڈاکٹر حمید اللہ بہت ہشاش بشاش بھی دکھائی دے رہے تھے، گویا انھوں نے پوری نیند بھی لی ہو! غازی صاحب نے کہا کہ تب مجھے معلوم ہوا کہ ’’برکت‘‘ سے مراد کیا ہے اور کسی کے وقت میں اور صلاحیت میں برکت ہوتی ہے تو اس کا اثر کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا ہمارے لیے تو وقت کے چھ گھنٹے بس چھ گھنٹے ہی ہوتے ہیں لیکن جن کے وقت میں برکت ہوتی ہے تو ان چھ گھنٹوں کی لمبائی کے علاوہ ان کی چوڑائی اور گہرائی بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ چھ گھنٹوں میں وہ وہ کچھ کرپاتے ہیں جو ہم کئی کئی دنوں میں نہیں کرپاتے۔
میرا ناقص مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غازی صاحب کے اوقات میں بھی بڑی برکت رکھی تھی۔ اس برکت کا ایک مظہر، یا شاید سبب، یہ تھا کہ بہت ساری مصروفیات کے بیچ میں جیسے ہی انھیں موقع ملتا وہ قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے۔ کئی کئی بار ہم نے دیکھا کہ غازی صاحب دفتر سے نکلے ہیں تو اپنی عادت کے مطابق انتہائی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کی طرف جا رہے ہیں اور جیسے ہی گاڑی میں بیٹھتے ہیں، مصحف نکال کر تلاوت شروع کردیتے ہیں۔
چونکہ غازی صاحب کو بہت زیادہ سفر بھی کرنے پڑتے تھے اس لیے انھوں نے وقت کا ایک نہایت مفید مصرف یہ نکالاتھا کہ ایئرپورٹ پر فلائٹ کے انتظار کا وقت وہ مطالعے میں گزارتے تھے۔ کئی کئی ضخیم کتابوں کا مطالعہ انھوں نے اس طرح کیا۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں ڈاکٹر انصاری صاحب نے انھیں استاد محترم جناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی کتاب Theories of Islamic Law کے نئے ایڈیشن کی ایک کاپی تحفتاً پیش کی تو غازی صاحب نے نیازی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس کتاب کا مطالعہ میں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر کیا ہے۔
غازی صاحب وقت ضائع کرنے کے قائل نہیں تھے اور ہمہ وقت اس کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے۔ ڈاکٹر انصاری صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ کسی غیر ملکی سفر کے دوران میں جب وہ ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور اتفاقاً ان کے پاس پڑھنے کے لیے کتاب نہیں تھی تو انھوں نے ہوٹل کی جانب سے کمرے میں رکھے گئے پمفلٹ اور مینو وغیرہ پڑھنے شروع کیے۔ انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ان کے استفسار پر غازی صاحب نے جواب دیا کہ پڑھنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے تو یہی سہی، کچھ نہ پڑھنے سے اس کا پڑھنا بہتر ہوگا۔
وسعت مطالعہ
کتابوں اور مطالعے کی بات چلی ہے تو غازی صاحب کی وسعت مطالعہ کے متعلق بھی کچھ گفتگو کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غازی صاحب کی دلچسپی کا میدان بہت وسیع تھا۔ علوم القرآن، حدیث، فقہ، قانون، سیرت، تاریخ، مقارنۃ الادیان، فلسفہ، زبان و ادب، معاشیات و اقتصادیات اور دیگر بہت سارے علوم پر وہ نہایت گہری نظر رکھتے تھے۔ کئی دفعہ غازی صاحب نے ہمیں بتایا کہ مولانا ابوالاعلی مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی نے انھیں یہ نصیحت کی تھی کہ کسی کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ کہیں کہیں سے اقتباسات پڑھنے کے بجائے اسے بائے بسملہ سے تائے تمت تک پورا پڑھا جائے۔ ڈاکٹر انصاری صاحب سے سنا کہ غازی صاحب نے خود انھیں بتایا کہ انھوں نے امام شافعی کی کتاب الأم تین دفعہ ابتدا سے انتہا تک پڑھی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ کتاب الأم کا علمی معیار کتنا بلند ہے اور ضخامت کے علاوہ زبان کے لحاظ سے بھی اور موضوع و مواد کے لحاظ سے بھی یہ کتنی مشکل کتاب ہے لیکن غازی صاحب کو اس کتاب سے کچھ اور طرح کی ہی محبت تھی (بالکل اسی طرح جیسے استاد محترم نیازی صاحب کو امام سرخسی کی کتاب المبسوط سے ہے) ۔ آگے میں ذکر کروں گا کہ غازی صاحب کا ارادہ یہ تھا کہ کتاب الأم کے مختلف ابواب سے جہاد کے متعلق مباحث اکٹھا کرکے انھیں ’’سیر الامام الشافعی‘‘ کے نام سے مرتب کریں۔ معلوم نہیں کس حد تک وہ اس منصوبے پر عمل کرپائے۔
تراث کی کتابوں پر غازی صاحب کو بلاشبہ عبور تھا اور ہمارے کئی دوست جب کسی عبارت کے فہم میں کہیں مشکل محسوس کرتے تو غازی صاحب ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میرے عزیز دوست پروفیسر ضیاء اللہ رحمانی صاحب کہتے ہیں کہ ادارۂ تحقیقات اسلامی کے لیے اصول السرخسی کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے انھیں جب بھی کسی عبارت میں کہیں مشکل محسوس ہوئی تو وہ فوراً غازی صاحب کی طرف رجوع کرتے اور غازی صاحب وہیں اس مشکل کا نہایت آسان اور مناسب حل پیش کردیتے۔
جہاد و سیر کے موضوعات سے دلچسپی
جیسا کہ ذکر کیا گیا، غازی صاحب کی دلچسپی کے موضوعات تو بہت سارے تھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھیں فقہ و قانون اور بالخصوص جہاد و سیر کے احکام کے ساتھ انتہائی دلچسپی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ غازی صاحب کو ڈاکٹر حمید اللہ کے ساتھ نہایت عقیدت و محبت تھی اور جہاد و سیر ڈاکٹر حمید اللہ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ چنانچہ جب جامعہ اسلامیہ ، بہاولپور ، نے انھیں ایک سلسلۂ محاضرات کے لیے آمادہ کیا تو انھوں نے جہاد و سیر ہی کے موضوعات چنے۔ بارہ خطبات کا یہ مجموعہ پہلے ’’خطبات بہاولپور۔ 2‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا کیونکہ خطبات بہاولپور کے عنوان سے ڈاکٹر حمید اللہ نے جامعہ اسلامیہ ، بہاولپور ، ہی میں بارہ خطبات دیے تھے۔ تاہم ڈاکٹر حمید اللہ کے بارہ خطبات میں ایک خطبہ ہی جہاد وہ سیر سے متعلق تھا جبکہ غازی صاحب کے بارہ خطبات تمام کے تمام جہاد وسیر سے متعلق تھے۔ کچھ عرصہ قبل شریعہ اکیڈمی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد ، نے ان خطبات کو ’’ اسلام کا قانون بین الممالک ‘‘ کے عنوان سے دوبارہ شائع کیا ہے۔
غازی صاحب کا ایک نہایت وقیع علمی کارنامہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید اور اسلامی بین الاقوامی قانون کے بانی امام محمد بن الحسن الشیبانی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’السیرالصغیر‘‘ کے متن کی تدوین اور اس کا انگریزی میں ترجمہ ہے۔ علمی دنیا میں السیر الصغیر کی اہمیت مسلم ہے کیونکہ اس کتاب میں امام شیبانی نے جہاد و سیر کے موضوع کے تمام بنیادی اور اصولی مسائل پر فقہ حنفی کی راجح اور مفتی بہ آرا ذکر کی ہیں۔ مجید خدوری، جو عراقی مسیحی تھے، نے امام شیبانی کی کتاب الأصل سے سیر، خراج اور عشر کے ابواب کا متن مدون کرکے ان کا انگریزی ترجمہ کیا تھا اور انھیں The Islamic Law of Nations: Shaybani’s Siyar کا نام دیا۔ عام طور پر ان ابواب کو ہی امام شیبانی کی السیر الصغیر سمجھا گیا۔ تاہم استاد محترم غازی صاحب نے ثابت کیا کہ یہ ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے السیر الصغیر کے متن کی تدوین اور ترجمے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اس مقصد کے لیے ان کے سامنے دو مآخذ تھے: ایک امام الحاکم الشہید المروزی کی کتاب ’’الکافی فی فروع الحنفیۃ‘‘ جس میں امام شیبانی کی چھ کتابوں، ظاہر الروایۃ، کی تلخیص کی ہے؛ اور دوسری شمس الائمۃ سرخسی کی کتاب ’’المبسوط‘‘ جو الکافی کی شرح ہے۔ غازی صاحب نے واضح کیا کہ امام حاکم نے جب الکافی میں ظاہر الروایۃ کی تلخیص کا کام کیا تو چار کتابوں کو تو انھوں نے ملخص کیا مگر سیر کے ابواب میں السیر الکبیر، السیر الصغیر اور دیگر کتب کے مواد کو ملخص کرنے کے بجائے انھوں نے السیر الصغیر کے متن کو جوں کا توں نقل کیا۔ گویا امام سرخسی کی المبسوط کی دسویں جلد میں کتاب السیر دراصل امام شیبانی کی السیر الصغیر کی شرح ہے۔ غازی صاحب نے الکافی کے مخطوطات اور المبسوط کے مطبوعہ نسخوں کا تقابل کرکے السیر الصغیر کا ایک مستند متن تیار کیا اور پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا، نیز انگریزی میں ایک مبسوط مقدمہ بھی لکھا جس میں انھوں نے سیر اور بین الاقوامی قانون کے تقابل پر بھی بحث کی، سیر کی تدوین اور ارتقا کا بھی جائزہ پیش کیا اور امام شیبانی کی فقہی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد ، نے غازی صاحب کی اس کاوش کو Shorter Book on Muslim International Law کے عنوان سے شائع کیا۔
2008ء میں غازی صاحب قطر جا رہے تھے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ سیر پر وہ دو کتابیں لکھنا چاہتے ہیں: ایک انگریزی زبان میں اور دوسری عربی زبان میں۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی کتاب کے مخاطبین قانون کے ماہرین ہوں گے، اس لیے اس میں بین الاقوامی قانون کے مباحث زیادہ ہوں گے جبکہ عربی کتاب کے مخاطبین علمائے کرام ہوں گے، اس لیے اس کا زیادہ حصہ فقہی مباحث پر مشتمل ہوگا۔ مجھے معلوم نہیں کہ وفات سے قبل وہ یہ کام تکمیل تک پہنچا پائے یا نہیں۔
پچھلے سال ستمبر 2009ء میں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے سیر پر کام کے لیے ادارۂ تحقیقات اسلامی کے تحت ایک خصوصی گروپ تشکیل دیا جس میں انھوں نے غازی صاحب کے علاوہ، پروفیسر عمران نیازی صاحب، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری صاحب (سابق عمید، کلیۂ شریعہ و قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) ، ڈاکٹر محمد منیر صاحب (سربراہ شعبۂ قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)، ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب (سربراہ شعبہ فقہ، ادارۂ تحقیقات اسلامی) اور راقم الحروف کو شامل کیا۔ سیر کا یہ پراجیکٹ دو طرح کے کاموں کے لیے وجود میں لایا گیا: ایک یہ کہ فقہ اسلامی کی اساسی کتب میں سیر سے متعلق مواد پر تحقیق کرکے ان کی تدوین کی جائے اور ان کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ کیا جائے اور دوسرا یہ کہ سیر اور جہاد کے موضوعاتی مطالعے کے لیے مناسب موضوعات کا انتخاب کرکے ان موضوعات پر اس فن کے متخصصین سے تحقیق کرائی جائے۔ اس سلسلے میں غازی صاحب نے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا کہ کسی طرح کتاب الأم کے مختلف ابواب سے سیر کے متعلق مواد اکٹھا کرکے ان کی اچھی ایڈیٹنگ کی جائے اور اس طرح ’’سیر الامام الشافعی‘‘ مرتب کی جائے۔ انھوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ پہلے ہی اس سلسلے میں کافی کام کرچکے ہیں۔ انصاری صاحب کی خواہش پر غازی صاحب نے اسی کام کی تکمیل کا رادہ کرلیا۔ راقم کی ہمشیرہ محترمہ سعدیہ تبسم صاحبہ (ریسرچ ایسوسی ایٹ، ادارۂ تحقیقات اسلامی )، جو اس گروپ کی سیکریٹری ہیں، نے بعد میں غازی صاحب سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اپنی گوناگوں مصروفیت کے باوجود غازی صاحب اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی اچانک وفات کی وجہ سے شاید یہ کام ادھورا ہی رہ گیا ہے ۔
’’ کاسموپولیٹن فقہ ‘‘ یا ’’ فقہ عولمی‘‘ کا تصور
اگست 2009ء میں ادارۂ تحقیقات اسلامی میں ’’بر صغیر میں اسلامی قانونی فکر اور ادارے‘‘ کے عنوان سے ایک تین روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں غازی صاحب نے توسیعی خطبہ پیش کیا۔ اس خطبے میں نہایت اہم نکات زیر بحث آگئے تھے جن میں ایک ’’ کاسموپولیٹن فقہ‘‘ کا تصور تھا۔ غازی صاحب نے اس خطبے میں کہا کہ عالمگیریت (globalization) کے اثرات دیگر شعبہ ہائے زندگی کے علاوہ فقہ و قانون پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور ایک ایسی cosmopolitan fiqh یا ’’الفقہ العولمی‘‘ وجود میں آ رہی ہے جو نہ کلیتاً حنفی ہے، نہ شافعی، نہ حنبلی، نہ مالکی، نہ ظاہری۔ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی غازی صاحب اپنے بعض محاضرات میں اظہار خیال کرچکے تھے۔ فقہ عولمی کا یہ تصور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس لیے بعض شرکائے سیمینار نے اس رائے کا اظہار کیا کہ غازی صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ ایک الگ نشست میں فقہ عولمی کے تصور کے خد و خال کی وضاحت کریں۔ راقم کا تاثر یہ تھا کہ فقہ عولمی کے تصور کی بنا اس امر پر ہے کہ کسی موضوع کی جزئیات کے متعلق مختلف فقہی مذاہب سے آرا اکٹھی کرکے ایک ایسی صورت بنائی جائے جو متعین فقہی مذاہب کے دائروں سے بالاتر ہو۔ اس امر کو اگرچہ بعض لوگ روشن خیالی اور معروضیت کا تقاضا، نیز بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں یہ تصور اس بنا پر نہایت خطرناک ہے کہ ’’تلفیق‘‘ کے اس طریق کار کی وجہ سے قانون اصولی تضادات کا شکار ہوجاتا ہے۔ استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کی بھی یہی رائے ہے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ اس موضوع پر جب ڈاکٹر غازی صاحب اپنی آرا کا اظہار کریں گے تو اس کے بعد پروفیسر نیازی ان پر اپنا تبصرہ پیش کریں گے۔ اس کے بعد مذاکرے میں شریک دیگر افراد اس موضوع پر کھلی بحث کریں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اس مذاکرے کی صدارت کریں گے اور آخر میں وہی پوری بحث کو سمیٹیں گے۔ چنانچہ 15 اگست 2009ء کو ادارۂ تحقیقات اسلامی کے سیمینار روم میں اس خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں اصحاب علم نے شرکت کی۔
ڈاکٹر غازی صاحب نے فقہ عولمی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے اسے عالمگیریت کا ایک لازمی نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمگیریت کی وجہ سے دنیا کے ایک خطے میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل سے دوسرے خطوں کے مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے واقعات کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی صاحب علم نے کسی مسئلے پر کوئی رائے ظاہر کی تو بہت جلد وہ دوسرے اصحاب علم تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اس پر اظہار خیال شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں بحث مباحثے کے بعد بڑی حد تک ایک متفقہ رائے وجود میں آجاتی ہے۔ انہوں نے عالمگیریت سے پیدا ہونے والے مسائل اور خطرات کی بھی نشاندہی کی۔ نیز غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ معاصر دنیا کے ان مخصوص حالات کی وجہ سے مختلف میدانوں میں جو فقہ مرتب ہو رہی ہے وہ کسی خاص فقہی مذہب کی بندشوں کی پابندی سے بہت حد تک آزاد ہے، بلکہ بسا اوقات ایک ہی مسئلے کے مختلف جزئیات میں مختلف مذاہب کی آرا کو جوڑ دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک نئی فقہ وجود میں آجاتی ہے۔ انہوں نے اس کو ’’ Fiqhi Engineering ‘‘ کا نام دیا اور اس سلسلے میں بالخصوص اسلامی بینکاری کی مختلف پراڈکٹس کی مثالیں دیں۔
پروفیسر نیازی صاحب نے اس تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ جسے فقہ عولمی کہا جارہا ہے پہلے اس کے اصول متعین کرنے چاہییں کیونکہ فقہ کی بنیاد اصول فقہ پر ہے، اس لیے فقہ عولمی کی تشکیل سے پہلے فقہ عولمی کے اصولوں پر بحث ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصول میں بہت کچھ مشترک ہے اور ان مشترک اصولوں کی بنیاد پر عصر حاضر میں فقہ کے ایک بڑے حصے کی مشترکہ تشکیل کی جاسکتی ہے لیکن اصولوں کی بحث میں پڑے بغیر اگر صرف سہولت اور آسانی کی خاطر یا دنیوی اغراض کے حصول کے لیے مختلف فقہی مذاہب سے’’ Pick and Choose‘‘کیا جائے گا تو اس ’’تلفیق‘‘ کے اثرات بہت خطرناک نکلیں گے کیونکہ اس طرح جو چیز وجود میں آئے گی وہ اصولی تضادات کی وجہ سے عملی دنیا میں پنپ نہیں سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ جسے غازی صاحب نے ’’Fiqhi Engineering‘‘ کہا وہ دراصل ’’Reverse Engineering‘‘ ہے کیونکہ اسلامی بینکاری والے کرتے یہ ہیں کہ غیر اسلامی بینکوں کے ایک پراڈکٹ کو سامنے رکھ کر اس کو سند جواز عطاکرنے کے لیے اس پراڈکٹ کی مختلف جزئیات کے جواز کے متعلق مختلف فقہی مذاہب کی آرا اکٹھی کردیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر قرار دیتے ہیں کہ یہ پراڈکٹ شرعی لحاظ سے بالکل جائز ہے۔ پروفیسر نیازی نے مزید کہا کہ ایک فقہی مذہب دراصل ایک مستحکم قانونی نظام ہوتا ہے جو بعض مخصوص اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ایک جزئیے میں حنفی رائے لی گئی اور دوسری میں شافعی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک جگہ آپ ’’عام‘‘ کو قطعی کہہ رہے ہیں اور دوسری جگہ ظنی، ایک جگہ آپ قول صحابی کو حجت مان رہے ہیں اور دوسری جگہ اس سے انکار کر رہے ہیں۔ یہی وہ اصولی تضادات ہیں جن کی وجہ سے تلفیق اور فقہ عولمی کا تصور ناقابل قبول اور ناقابل عمل بن جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک فقہی مذہب میں بھی بعض اوقات ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں لیکن ’’فتوی‘‘ کے لیے ان میں سے ایک کو منتخب کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’’تخییر‘‘ کہتے ہیں اور اس کے اپنے اصول ہیں۔ تخییر محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقلید کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے حالانکہ کسی بھی مستحکم قانونی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تقلید کے اصول کو مانا جائے۔ انہوں نے ماتحت عدالتوں پر اعلی عدالتوں کے نظائر کی پابندی کو تقلید کی بہترین مثال قرار دیا۔ اس موقع پر غازی صاحب نے کہا کہ وہ فقہ عولمی کے تصور کے نہ داعی ہیں اور نہ وکیل، بلکہ وہ صرف ایک مبصر اور شاہد کے طور پر وہ کچھ بیان کررہے ہیں جس کا وہ مشاہدہ کر رہے ہیں ۔
بطور معلم
غازی صاحب کی شخصیت کے یوں تو کئی پہلو تھے لیکن درحقیقت وہ اولاً و آخراً ایک معلم تھے۔ کسی بھی موضوع پر گفتگو سے پہلے وہ کوشش کرتے تھے کہ مخاطبین کی نفسیات اور علمی استعداد کا اچھی طرح جائزہ لیں، پھر اپنے طلبہ کی ذہنی سطح تک آکر انھیں بتدریج اپنے ساتھ علمی رفعتوں تک لے جاتے۔ قدرت نے انھیں مشکل سے مشکل موضوع کو آسان اور سلیس زبان میں بیان کرنے کا عجیب ملکہ عطا کیا تھا۔ یونیورسٹی میں میرے ابتدائی دور سے ہی مختلف سیمینارز میں انھیں بارہا سننے کا موقع ملا اور جب بھی انھیں سنا کوئی نئی بات سیکھی، یا پرانی بات یاد آئی، یا اس پر از سرنو غور کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کی کتابوں کا علمی مقام تو ہے ہی ارفع لیکن طلبہ کے لیے خاصے کی چیز ان کا سلسلۂ محاضرات ہے جس میں ان کے محاضرات کو تحریری قالب میں ڈھال کے شائع کیا گیا ہے۔ محاضرات قرآنی، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت، محاضرات شریعت، محاضرات فقہ اور محاضرات معیشت و تجارت میں غازی صاحب ایک مثالی معلم کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ان محاضرات میں دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک نہایت قابل رشک خصوصیت یہ ہے کہ ہر ہر محاضرہ میں کمال درجے کا ربط و نظم پایا جاتا ہے جس سے متعلقہ موضوعات کے اطراف و جوانب پر غازی صاحب کی گہری نظر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات صرف محاضرات کی حد تک ہی صحیح نہیں ہے جن کے لیے وہ بہرحال کچھ تیاری کرکے آتے تھے (اگرچہ اس تیاری کا ماحصل صرف چند نکات میں کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے پر غازی صاحب اپنی وضع کردہ مختصر نویسی کے ذریعے محفوظ کرلیتے تھے) ، بلکہ اگر انھیں اچانک ہی کسی موضوع پر بولنے کے لیے کہا جاتا تو لمحہ بھر کے توقف کے بعد وہ اچانک یوں منظم و مرتب طریقے سے اس موضوع پر بولنا شروع کردیتے کہ گویا انھوں نے اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں اسی موضوع پر پہلے سے کوئی مخصوص فائل محفوظ کی ہوئی ہو جسے اب انھوں نے کھول کر پڑھنا شروع کردیا ہو۔
یوں تو 1994ء سے ہی، جب میں نے اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقتاً فوقتاً غازی صاحب سے بہت استفادہ کیا لیکن 2007ء میں جب میں نے فقہ میں تخصص کے لیے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تو ان کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ایک سمسٹر میں ان سے دو کورسز پڑھے اور، الحمد للہ، بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ پی ایچ ڈی کی اس کلاس میں ہم صرف تین طلبہ تھے۔ ہم غازی صاحب کے دفتر میں ہی کلاس لیتے تھے جو لیکچر کے بجائے علمی مباحثے کی صورت میں ہوتی تھی۔ غازی صاحب کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے کیونکہ وہ ہمیں کافی بھی پلایا کرتے تھے اور مباحثہ بھی جاری رہتا تھا۔ بعض اوقات تو ہم اس مخمصے میں پڑ جاتے کہ کافی کی وجہ سے مباحثے نے زیادہ لطف دیا یا مباحثے کی وجہ سے کافی بہت اچھی لگی۔
ایک مثالی معلم ہونے کی وجہ سے غازی صاحب کو اپنے طلبا کے ساتھ نہایت محبت تھی ۔ 2006ء میں جب صدر جامعہ کے طور پر ان کے عہدے کی مدت پوری ہوئی تو انھوں نے کلیۂ شریعہ میں باقاعدہ کورسز پڑھانے شروع کردیے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایسی کوئی قید بھی نہیں رکھی کہ وہ صرف پی ایچ ڈی کے طلبہ کو پڑھائیں گے، حالانکہ اگر وہ ایسا کرتے تو قانون کے تحت یہ ان کا حق تھا، بلکہ انھوں نے ایل ایل ایم کو بھی کورسز پڑھائے اور ایل ایل بی کو بھی۔ بالخصوص ایل ایل بی کے طلبہ و طالبات جن کو اپنے کیریئر کے ابتدائی دور میں ہی غازی صاحب جیسا معلم نصیب ہوا وہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھے۔ میری ہمشیرہ محترمہ سعدیہ تبسم صاحبہ نے اسی دور میں غازی صاحب سے فقہ العلاقات الدولیۃ کا کورس پڑھا۔ وہ ذکر کرتی ہیں کہ کلاس میں غازی صاحب نے صرف یہی نہیں کیا کہ متعلقہ موضوع پر لیکچر دے کے چلے جاتے، بلکہ انھوں نے مختلف طریقوں سے طالبات کی علمی استعداد بڑھانے کی طرف توجہ دی اور بالخصوص کوشش کی کہ ہر ہر طالبہ عربی صحیح بولے اور لکھے۔
میں اسے اللہ تعالیٰ کا خصوصی فصل سمجھتا ہوں کہ شاگردوں کے ساتھ غازی صاحب کی اس خصوصی محبت کا مجھے وافر حصہ ملا۔ جولائی 2006ء میں جبکہ وہ صدر جامعہ تھے اور اس وجہ سے ان کی مصروفیات میں گوناگوں اضافہ ہوا تھا، ایک دن انھوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ حدود کے متعلق جناب ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کی کتاب پر میرا تبصرہ ان کی نظر سے گزرا اور وہ انھیں بہت پسند آیا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے ترغیب دی کہ جو نکات اس تبصرے میں اٹھائے گئے ہیں ان کی وضاحت کے لیے باقاعدہ ایک کتاب لکھوں۔ اس ترغیب کے نتیجے میں ہی حدود پر میں نے کتاب لکھی جو اگست 2006ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب جب غازی صاحب کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ کچھ دنوں بعد جب پارلیمنٹ نے تحفظ نسواں ایکٹ منظور کیا تو کلیۂ شریعہ کے طلبہ و اساتذہ نے اس ایکٹ پر بحث کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ راقم کو اس قانون کے شق وار تجزیے کی ذمہ داری دی گئی۔ میرے مقالے سے پہلے غازی صاحب نے حدود قوانین کا ایک عمومی جائزہ پیش کیا اور اس کے بعد انھوں نے اس ناچیز کا ذکر جس محبت کے ساتھ کیا وہ میرے لیے ایک سرمایۂ افتخار ہے۔
2008ء کے اوائل کی بات ہے۔ ایک دن میں سٹاف روم میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ وہاں شعبۂ فقہ کے اساتذہ کی میٹنگ ہورہی ہے۔ میں معذرت کرکے واپس ہوا لیکن غازی صاحب نے مجھے آواز دے کر بلایا اور اپنے قریب بٹھا کر کہا کہ آپ کی آمد اس وقت ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ پھر دیگر اساتذہ کی طرف رخ کرکے کہا کہ ابھی ہم یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کام کس کو سونپا جائے لیکن دیکھیے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت زیادہ سوچ بچار سے بچالیا۔ پھر میرے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا: یتولاہ القوی الأمین۔
کچھ عرصہ قبل جب غازی صاحب کو وفاقی شرعی عدالت کے جج کی ذمہ داری سونپی گئی تو انھوں نے فوراً ہی اسلامی قانون کی روشنی میں مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں مجھے بھی انھوں نے عدالت کے معاون کے طور پر طلب کیا۔ یونیورسٹی میں مصروفیت کی وجہ سے میں عدالت تاخیر سے پہنچا اور پہلے دن کی سماعت پوری ہوچکی تھی۔ میں واپس ہوا تو ظہر کی نماز کے بعد غازی صاحب کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اکتوبر کے مہینے میں ہر ہفتے چار دن اس کیس کی سماعت کریں گے اور تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات نہیں بلکہ پورے مجموعۂ تعزیرات کا جائزہ لیں گے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ کلیۂ شریعہ کے بعض ہونہار طلبہ و طالبات میں اس کام کو تقسیم کرکے عدالت کا کام آسان کیا جائے۔ غازی صاحب کی وفات کے ایک دو دن بعد مجھے عدالت کی جانب سے خط موصول ہوا جس میں لکھا گیا تھا کہ اکتوبر سے اس کیس کی سماعت شروع ہونے والی ہے اور میں اس سوچ پڑگیا کہ غازی صاحب ہوتے تو یہ کام کیسے ہوتا اور اب جبکہ وہ نہیں رہے تو ان کے بعد یہ کام کیسے ہوپائے گا؟ اچانک حدیث مبارک یاد آگئی :
[pullquote]ان اللہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً ،ولکن یقبض العلماء فیرفع العلم معھم و یبقی فی الناس رء وساًجھالاً یفتونھم بغیر علم فیضلون و یضلون ۔ ( صحیح مسلم ، باب رفع العلم و قبضہ و ظھور الجھل و الفتن ، حدیث رقم ۴۸۲۹ )[/pullquote]
کیا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، بالخصوص کلیۃ الشریعۃ و القانون، غازی صاحب کی علمی خدمات کے اعتراف میں ’’غازی چیئر‘‘ ، ’’غازی ایوارڈ‘‘ اور ’’غازی لیکچرز‘‘ کا اہتمام کرسکے گی؟
( ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر قانون ہیں)
اسلام کے نام پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ان تھک کوششوں سے بننے والا ملک، جس میں بسنے والوں کو قائد نے اچھا شہری بننے کے لیے ’’ایمان، اتحاد، تنظیم‘‘ کا ایک سبق دیا تھا۔ کیا یہ سبق ہم بھولتے جا رہے ہیں؟ ایسا ہم جان بوجھ کر کر رہے ہیں؟ یا ہم اچھا شہری بننا ہی نہیں چاہتے؟ یہ فکر ہم میں کیوں پروان چڑھ گئی ہے کہ کسی بھی اچھے عمل میں پہل دوسروں کو کرنی چاہیے؟ اس کے لیے ہم خود پہل کیوں نہیں کرتے؟ اس سبق کی نفی کرتے ہوئے اس طرح کے کئی اور سوال پیدا ہو گئے ہیں۔
کسی بھی شعبے کو دیکھ لیجیے، عام آدمی صرف اس وجہ سے کسی بھی نظم کی پابندی نہیں کرنا چاہتا کہ اس سے اوپر جو کلاس ہے وہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتی جو کہ سب کے لیے ایک ہی ہیں۔ کسی بھی نظام کو بگاڑنے کے لیے ہزار تاویلیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے صحیح اصول کا رد کر دینا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ اکثریت کی غلط روش کو دیکھتے ہوئے اس کا حصہ آسانی سے بنا جا سکتا ہے، اس کے برعکس صحیح راہ کو اختیار کرنے کے لیے صرف اس لیے گریز کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شارٹ کٹ کامیاب زندگی کا حل نہیں ہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں تو ان مشکلات کا مقابلہ دلیرانہ انداز سے کیجیے۔
ملکی سطح پر چلنے والے اداروں میں برے افراد کے ساتھ اچھے ذہن کے لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ آپ نظام کے خلاف کام ہوتا ہوا دیکھیں تو اپنی آواز متعلقہ حکام تک پہنچائیے۔ اپنا فرض تو ادا کیجیے! ایک دو بار کی کوشش کی ناکامی کے بعد ہمت مت ہاریے۔ قطرہ قطرہ گرنے والا پانی، پتھر میں بھی سوراخ کر دیتا ہے۔ یہ تو پھر آپ جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں۔
شہر میں ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کس حد تک کی جاتی ہے، اس کا مشاہدہ آئے روز کرتے ہیں۔ اسی ایک نظام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ میں ذمہ داری کا احساس کس حد تک پایا جاتا ہے۔ جس اشارے پر وارڈن موجود ہے وہاں بڑے نظم کے ساتھ ٹریفک قوانین کی پابندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور جس جگہ نگران موجود نہیں ہے، وہاں بے دھڑک اشارہ توڑ دیا جاتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اسے اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کے تناظر میں لیا جاتا ہے، حالانکہ بہادری تو یہ ہے کہ آپ خود اصولوں کی پاسداری کریں اور کسی دوسرے کی طرف سے اس کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی نہ بنیں، بلکہ اس غلط فعل کی مذمت کے لیے آواز اٹھائیں۔
ہم سب نے یہ الفاظ سن رکھے ہیں: ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ اس تناظر میں ہم نماز پڑھتے جاتے ہیں اور ہر وہ کام بھی کیے جا رہے ہیں جس کی ممانعت ہے۔ اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ نماز پڑھ لی بس اب ہم سے کوئی برائی سرزد نہیں ہو سکتی، اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو وہاں ’’روکتی ہے‘‘ کے الفاظ ہیں، ’’روک دیتی ہے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اپنے ارادے کی پختگی سے آپ کو خود برے کاموں سے رکنا ہو گا، ہر برائی سے خود کو بچانا ہوگا۔ نماز پڑھنے کے بعد ہر قبیح فعل آپ کے لیے جائز نہیں ہو جائےگا۔ بے ایمانی کے کاموں میں ایمان داری دکھانے کے بجائے ایمان داری کے امور پوری دیانت سے انجام دیجیے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔
قائد اعظم کے نظریے کے مطابق ملک میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں. یہ کلمات ہیں جناب خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے۔ سب سے پہلے تو ان کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک اصل میں انتہا پسندی کی تعریف کیا ہے؟ دہشت گردی کی وارداتوں کا ہونا ہی ان کے نزدیک انتہا پسندی ہے؟ راہزنی، ڈکیتی اور دیگر معاشرتی جرائم انتہا پسندی نہیں؟ اور بھارت نے چناب پر جو 3 ڈیمز بنانے کا فیصلہ کیا ہے وہ انتہا پسندی نہیں؟ بھارت کا معصوم کشمیریوں کو سولی پر لٹکانا شدت پسندی کے زمرے میں نہیں آتا؟ اس خاموشی کا کیا مطلب سمجھا جائے جس کی وجہ سے یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ لب اس لیے سل گئے کہ کہیں کاروباری مفادات کو گزند نہ پہنچے؟
پاناما پیپرز میں حکومت کے سربراہ کے بچوں کا نام آتا ہے اور ریفرنس وزیر اعظم کے بجائے اپیل کرنے والے کے خلاف دائر کردیا جاتا ہے اور یوں انصاف کی پل بھر میں دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ قائداعظم نے تو انصاف کے حصول پر بھی بہت زور دیا تھا لیکن کہاں گیا خادم اعلیٰ کا انصاف؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹی آر او میں تحریک انصاف کی ہم خیال جماعت پیپلز پارٹی کے بزرگ اپوزیشن لیڈر ایک طرف حکومت کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور دوسری جانب سرگوشی کرتے ہوئے غیر جانبدار اسپیکر ایاز صادق کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس میں نہ آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے دل میں چور ضرور ہے۔ یہ سب انہوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا، دربار کی سیاست میں شطرنج کی چال کے طور پر اسے بادشاہ نے ہی چلا ہوگا۔
اس صورتحال میں اگر عمران خان قومی اسمبلی کی رکنیت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟ خان صاحب کی آواز کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے تقویت مل سکتی تھی لیکن انہوں نے اس کا کتنی بار استعمال کیا، سب کو معلوم ہے۔ حکومت کی جانب سے ریفرنس ان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے جس میں وہ زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ خان صاحب اسمبلی فلور کے ویسے بھی محتاج نہیں، میڈیا ان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، اس کی پریس کانفرنس اور جلسے کو ہر ٹی وی چینل لائیو کوریج دیتا ہے ۔
حکومت کی یہ چال اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے مطلق العنانیت کا تاثر ملتا ہے۔ حالات حکومت کے حق میں جاتے نظر نہیں آتے۔ وزیر اعظم کے ملک کے مختلف شہروں کے دورے ان کے خوف کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں منصوبوں کا اعلان کردیتے ہیں، کبھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فلاں منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دورے اپنی طاقت کو پرکھنے کےلیے کیے جا رہے ہیں۔
عمران خان شروع دن سے احتساب اور کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ ان کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے حکومت نے احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ کوئی بھی ایک ایسا ادارہ فنکشنل نہیں جو شکایات کا ازالہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رائیونڈ میں احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ ایک پہلو بلاشبہ خوش کن ہے کہ انہوں نے جاتی عمرا جانے کا ارادہ ترک کردیا کیونکہ اس سے محاذ آرائی کے امکانات بڑھ جاتے۔ عین ممکن تھا کہ چند درباری سازش کا جال بُن دیتے اور گلو بٹ چھوڑ کر الزام عائد کردیتے کہ یہ سب تحریک انصاف کے کارکن نے کیا ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ تحریک انصاف کے چند جوشیلے کارکن شریف ہاؤس پر پڑاؤ ڈال دیتے۔
عمران خان پر تنقید ہوتی ہے کہ انھیں اب تک سیاست کرنی نہیں آئی. اس کی وجہ ایک یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ 2014ء میں اسلام آباد میں تاریخی اور طویل دھرنے کے وقت بھی اس پہلو پر تنقید کی گئی تھی کہ اگر وہ دھاندلی کے علاوہ عوامی مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرتے تو دھرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ حج جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کے چھوڑنے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ حج کر کے آتے تو ممکن تھا کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں تحریک چلا سکتے تھے۔ خان میں ایک خامی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ڈکٹیٹر ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوجاتی ہیں کہ وہ ملتان کے گدی نشین اور لال حویلی والے استاد سے ڈکٹیشن لیتے ہیں. خان صاحب پارٹی اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ٹی آر اوز پر اپوزیشن کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ خان صاحب کو اپنی خامیوں کی نشاندہی خود کرنا ہوگی ورنہ جس ڈگر پر وہ چلتے جا رہے ہیں اس کا فائدہ ایک بار پھر مسلم لیگ نواز کو پہنچے گا۔ یہ درست ہے کہ پاناما پیپرز اور دھاندلی ایک بہت بڑا ایشو ہے لیکن صرف اسی کو بنیاد بنانے سے یہ تاثر قوی ہو سکتا ہے کہ خان صاحب ہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ عوام کے مسائل کو بھی اتنا ہی ہائی لائٹ کریں جتنا وہ مذکورہ ایشو پر زور دیتے ہیں۔
وائے حسرتا کہ اس گونگی بہری قوم نے ایک بار پھر سے اپنے ساتھ وہی سلوک کیا جسے مہذب قومیں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے یا کسی قوم کی فکری غذا بند کر کے اسے جہالت کی موت مارنے کے مترادف قرار دیتی ہیں۔ یہ قصہ ہے ”راجہ صاحب محمود آباد“ جیسے لیجنڈری شخص کی ساری زندگی کی محنت اور گرانقدر مالی اثاثے سے حاصل کردہ ایک عظیم دور کے لوگوں کی لکھی گئی کتب سے تیار شدہ لائبریری کے کوڑیوں کے عوض اجاڑ دیے جانے کا۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کا تاریخ و جدوجہد ِقیام پاکستان میں انتہائی کلیدی کردار رہا ہو، جن کے بارے میں کہا جاتا ہو کہ پاکستان، سرسيد احمد خان کي تعليمي خدمات اور قائداعظم کي رہنمائي راجہ صاحب محمود آباد کي دولت کی مرہونِ منت ہے۔ راجہ امیر احمد خان آف محمود آباد (یو پی) برصغیر کے بہت بڑے جاگیردار، ریاست محمود آباد کے والی، قائداعظم کے معتمد رفیق اور مسلم لیگ کے سرگرم رہنما جنھوں نے تحريکِ پاکستان ميں اپنی دريا دلی کے جوہر دکھاتے ہوئے اتنی دولت لٹائی کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي، مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر اور صاحب علم و ذوق شخص ان کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنو ميں محفلوں کو گرماتا رہا۔
آپ کے والد گرامی امیر حسن خان بھی مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ ايک دفعہ کانپور مسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپنی پوری رياست پيش کردی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتياز سب کی ضمانت دے رہے ہيں، ان کی اکثريت سے آپ واقف بھی نہيں ہيں.‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کو بچانے کے لیے ميری رياست ختم ہوجائے تو ميں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کی تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لیے ميں اپنی جان اور آن کے لیے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔
اسی محسن پاکستان کی اس سنہری دور میں بنائی گئی لائبریری کو راجہ صاحب کی پوتی نے ردّی کے بھاؤ ایک کباڑی کو بیچ دیا۔ جانتے بھی ہو یہ ظلم ِعظیم کتنے ٹکوں کی خاطر ڈھایا گیا؟؟ پڑھو گے تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھائے گا۔ جس قدیم کتابوں کے بیوپاری نے اس ردّی والے سے یہ لائبریری خریدی، اس کا بیان ہے کہ میں نے یہ کتب خانہ صرف 23 ہزار روپے میں خریدا ہے۔ اور کتب جانتے ہو کتنی تھیں؟ اتنی کہ ایک مکمل سوزوکی (پک اپ) بھر گئی۔ سوچتا ہوں کہ اگر ردّی والا اپنا منافع رکھنے کے بعد یہ سینکڑوں کتب صرف مبلغ 23 ہزار میں بیچ رہا ہے تو بھلا راجہ صاحب کی پوتی نے اس ردی والے کو یہ کتب کتنے ہزار میں بیچی ہوں گی؟
اگر ابھی بھی دل ڈوبتا محسوس نہ ہو تو اس پر مستزاد یہ بھی جان لو کہ اس محسن پاکستان کی لائبریری انتہائی قیمتی، وقیع اور نایاب کتب سے بھری ہوئی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ ان کتابوں میں اردو ادب کے ایسے ایسے دواوین موجود تھے کہ جن کا کبھی ذکر تک نہیں سنا. تاریخی اعتبار سے گراں قدر کتب اور نہ جانے کن کن موضوعات پر دنیا بھر سے اس دریا دل اور علم دوست راجہ نے کتب کو جمع کیا ہوا تھا۔ اور اگر اب بھی دل میں کتب کی وقعت کے بارے کوئی خلش ہو تو اتنا جان لو کہ بعد میں ایک رفیق نے اس کتب سے بھری سوزوکی میں سے چند کتب 70 ہزار میں خریدی تھیں۔
سلام ہے اس شخص پر جس نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں کوئی غیرشرعی اور نمود و نمائش والا کام کرنے کے بجائے ریاست کی 24 تحصیلوں کے مرض موتیا میں مبتلا 1158 مریضوں کا مفت آپریشن کروایا، جس نے تحریک پاکستان کے تحت مسلم لیگ کے تمام جلسوں کا خرچ اٹھایا، اور قربانی کی داستان یہیں پر ختم نہیں کی بلکہ قیام پاکستان کی خاطر اپنی ریاست کو ختم کردیا اور صرف اتنا ہی نہیں، اس ملک پر اپنا سب کچھ لٹانے کے بعد آخر کی زندگی جو پہلے لندن میں گزرتی رہی تھی، اسی ملک پاکستان میں جو کی روٹی کھاتے اور بسوں میں سفر کرتے کسمپرسی کی حالت میں گزار کر چل بسے۔
تف ہے ہم پر کہ ایسے عظیم شخص کے لگ بھگ 250 سالہ قدیم گنج گراں مایہ کو اتنے سکون سے لٹایا کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو پائی۔ اور آج قسمت کا ماتم کرتے ہیں کہ ملک میں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔
؎ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
نوٹ : اس تحریر میں تاریخی مواد وکی پیڈیا سے لیا گیا ہے۔
زندگی سے ایک سبق یہ بھی سیکھا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بیانات کو اگنور کردینا چاہئے اور اگر ہوسکے تو انہیں پڑھنے پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اول تو یہ بیانات گزشتہ فرمودات کی بلاسوچے سمجھے تکرار اور اعادہ ہوتے ہیں، دوم یہ عام طور پر جھوٹے وعدوں اور سبزباغ دکھانے کی ’’واردات‘‘ ہوتے ہیں جبکہ یہ دعوے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا۔ رہا سبزباغ دکھانے کا جادو تو وہ مستقبل کا خواب ہے کب پوراہو، کتنا تشنہ ٔ تعبیر رہے اور کتنی خوشحالی لائے، اللہ تبارک تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے حکمرانوں کے بیانات پر یقین کرتے تو اب تک پاکستان میں شرح خواندگی سوفیصد کے قریب ہونی چاہئے تھی۔
ہر شہری کو علاج و معالجے کی سہولت اورہر بچے کو اسکول میسر ہونا چاہئے تھا۔ غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کا ذکر ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ آج کے زمینی حقائق دیکھیں توصورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، بنیادی سہولتیں مزید کم یاب ہوئی ہیں، مہنگائی اس قدر کہ دال بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے، غربت وافلاس کے سبب خودکشیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ 70بلین ڈالر کے بیرونی قرضے ملک کی تاریخ کا نیاریکارڈ ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کو ادا کرنے ہیں۔ برآمدات گزشتہ سال سے بھی کم ہیں اور ملک عملی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے بیس ارب ڈالرسے چل رہا ہے۔ حکمران ہمیں معاشی راہداری، سی پیک کے خوابوں سے بہلا کر گیم چینجر اور خوشحالی کے سیلاب کے آمد کی خبریں سنا رہے ہیں۔ قوم بھی ا ن مدھر نغموں کوسننے میں مست ہے لیکن کل کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔
اگر ماضی کوئی ثبوت یا آئینہ ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے وعدے محض کھلونے ہوتے ہیں جن سےقوم کو بہلایا جاتا ہے اور پھر سیاست کے مداری ڈگڈگی بجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ قوم کو اندھیروں سے نکالنے اور لوڈشیڈنگ سے نجات دینے کا وعدہ انتخابات سے قبل چھ ماہ کا تھا، پھر ایک سال کا خواب دکھایا گیا، پھر تین برس کی ڈگڈگی بجائی گئی۔ اب سواتین سال حکومت گزرنے کے بعداگلے دو سالوں کے وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے۔ کبھی کبھی کچھ صاحبان ِ اقتدار سچ بھی بول دیتے ہیں کہ 2018تک بھی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی۔ سوا تین برس کی حکمرانی نےبہتری کے آثار پیدا نہیں کئے، تو آئندہ کا کیا بھروسہ؟
دیہی علاقوں میں مسلسل کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ضلعی مقامات کے اسپتالوں میں ڈاکٹر بجلی کی نایابی کے سبب موبائل کی روشنی میں آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں دس بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن کبھی کبھار بجلی مسلسل پانچ چھ گھنٹے تک تشریف لے جاتی ہے۔ ہمارے محبوب وزیراعظم انتخابی مہم کے دوران ایک سال اور پھر دوسال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کاوعدہ فرماتے رہے لیکن آج وہ پھر اپنےپرانے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے وعدہ فرما رہے ہیں کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے۔ اگر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی حکومت کے خاتمے سے مشروط ہے تو کہیں لوگ حکومت کے وقت سے پہلے خاتمے کی دعائیں نہ کرنےلگیں؟قوم وعدوں پر زندہ ہے لیکن مجھے کبھی کبھی اس اندیشے سے خوف آتا ہے کہ اگر اقتصادی راہداری، سی پیک سے وابستہ خوشحالی اورگیم چینجر کی امیدیں بھی پوری نہ ہوئیں تو ہمارا کیا حشرہوگا؟
خواب دکھاتے ہوئے مبالغے اور جھوٹ کی رنگ آمیزی سے کام لینا سیاست اور حکمرانی کا دیرینہ وطیرہ ہے۔ تاریخ کے صفحات میں جھانکیں تو شاید ہی کسی حکمران نے وعدے پورے کئے۔ وعدوں میں شاعری اورمبالغہ اپنی جگہ لیکن اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلیت اور کرپشن بھی تھی۔ میں نے حکومتوں میں ہمیشہ یہی دیکھا کہ حکمران مستقبل کے سہانے خواب تو دکھا دیتے تھے لیکن ان میں ان خوابوں کوشرمندہ تعبیر کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔ حکومتی پالیسیاں ڈنگ ٹپائو، وقت گزاری، عیش و عشرت، بیرونی دورے اور پیسے بنانے میں ڈوب جاتی تھیں۔ وزیراعظم کے 68کروڑ روپوں کے غیرملکی دورے الگ۔ اب کشمیرکاز کی ترویج کے نام پر منتخب نمائندوں کو سیر و سیاحت کروا کر خوش کرنےکی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ جس سے کشمیریوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ غریب ملک کے خزانے کو کروڑوں روپوںکا ٹیکہ لگ جائے گا۔ اس ٹیم میں دو تین افراد کے علاوہ نہ کوئی کشمیر پر بات کرنے کا اہل ہے اور نہ ہی اس حوالے سے بیرون ملک کوئی خدمت کرسکتا ہے۔ بھلا دوست ممالک میں وفد بھیجنے سے کیا حاصل؟
وہ تو پہلے ہی آپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت کشمیر کے حوالے سے اہم ترین ضرورت ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنا ہے تاکہ عالمی سطح پر رائے عامہ کشمیریوں کے مطالبے کے حق میں اور ہندوستان کے خلاف استوار ہو۔ کیا یہ وفود بیرون ملک میڈیا کو کشمیر کے حوالے سے قائل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ خود پاکستان پر دہشت گردی کا الزام نمایاں ہے۔ رہیں غیرممالک کی حکومتیں تو وہ اپنی اپنی حکمت ِ عملی اور تعلقات کی پابند ہوتی ہیں۔ ہمارے پارلیمانی وفد ان کی رائے تبدیل کرسکیں گے نہ حکمت عملی۔ قومی خزانے کو ان وفود پر ضائع کرنے سے پہلے ایک مربوط اسکیم کی ضرورت تھی جس پر غور و خوض نہیںہوا۔ میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر پاکستان کشمیر کی تحریک ِ آزادی کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو تحریک کے جواز اور ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنے کی حکمت عملی بنائے، عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے اقدامات کرے اور ایسے پڑھے لکھے میڈیا ماہرین کو باہر بھجوائے جو یہ کام سرانجام دینے کے اہل ہوں۔ میرا طویل تجربہ شاہد ہے کہ ہمارے پارلیمانی وفود ایک آدھ وزیر شامل کرکے اور پاکستانیوں کی ایک دو تقریبات سے خطاب کے بعد شاپنگ سے مالامال ہو کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
ذکر ہو رہا تھا کہ میں حکمرانوں کے بیانات سے صرفِ نظر کرنا بہتر سمجھتا ہوں لیکن کبھی کبھی کوئی ایسا بیان بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے جس سے صدمہ ہوتا ہے اور سچ پوچھو تو رحم آتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان کہ چین دنیا میں پاکستان کے تشخص کا محافظ ہے….. ایک ایسا ہی بیان تھا جسے پڑھ کر مجھے بیان پر رحم آیا۔ سادگی کی انتہا ہے کہ بھلا کبھی کوئی دوسرا ملک یا قوم بھی پاکستان کے تشخص کی محافظ ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ چین ہمارا مخلص، وفادار اورقابل اعتماد دوست ہے لیکن تشخص تو ہر قوم کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ حکومت اور قوم ہی کو اس کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر چین کا تشخص ہم سے بالکل مختلف اور الگ ہے لیکن یہ موضوع بذات ِ خود کئی کالموں کا موضوع ہے۔ فی الحال اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ یہ بیان پڑھ کر مجھے اپنے آپ پر، پاکستانی قوم پر اور حکمرانوں پر رحم آیا اور ان کی سادگی پر آنکھیں بھیگ گئیں۔
حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں توانائی پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا حشر نندی پور پروجیکٹ سے لے کر قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ سرمایہ کس قدر بہایا اور لگایا گیا، قومی خزانے کا زیاں کس طرح ہوا اور حاصل کیا ہوا اسے سمجھنے کے لئے ایک کیس اسٹڈی پیش خدمت ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ بہاولپور پر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہوئی تھی، وزیراعلیٰ نے اپنے اس کارنامے پر خوب ڈھول بجوائے تھے لیکن کارکردگی یہ ہے کہ اس منصوبے سے سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تھی جبکہ اصل میں 8 سے لے کر 12میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کو پیداوار پر تقسیم کریں تو فی میگاواٹ کی قیمت سن کر قوم بے ہوش جائے گی۔ بریفنگ کے مطابق اس سولر پروجیکٹ پر چین کے چھ سو قیدی کام کرتے ہیں جن کی حفاظت کے لئے حکومت نے آٹھ سو پولیس والے تعینات کر رکھے ہیں۔ اس خبر کے آئینے میں سرمایہ کاری کے حشر، قومی خزانے کے زیاں اور مستقبل کے خوشنما وعدوں کی تکمیل کی جھلک دیکھ لیں کہ آپ خود عقلمند ہیں۔ یہ شعر اسی موقعے کے لئے کہا گیا تھا؎
تیرے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
برصغیر پر جب انگریز حاکم بنے تو شرح خواندگی90 فیصد تھی۔ دلی کے بازاروں میں خوب رونق ہوا کرتی، اگرچہ عام لوگوں کے پاس زمینیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں لیکن پھر بھی لوگ خوشحال تھے. انگریز سیاح اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھکاری ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ یہی انگریز جب سو سال حکومت کرنے کے بعد رخصت ہوا تو برصغیر کی صرف 5 فی صد آبادی خواندہ تھی اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر نمازیوں سے زیادہ بھکاری ہوتے تھے۔
چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان بھی خود کو برصغیر کا جائز حکمران سمجھتے تھے اس لیے عتاب زیادہ تر مسلمانوں پر ہی گرا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر کی سب سے بڑی آبادی ہندئووں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بھی بونا شروع کر دیے. نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ایک ملک میں نباہ کرنا اب تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے نے اس رائے کو اور تقویت دی اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی قائداعظم جیسے مدبر شخص نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا فیصلہ کر لیا۔
پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اس لحاظ سے بدقسمت رہا ہے کہ حصول کے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں بلکہ ہندوئوں کے معاشی جبر سے بھی آزاد ہوں۔ اگر چہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا فیصلہ تھا لیکن پھر بھی اس دور کے مومنین صالحین نے کھل کر اس کی مخالفت کی، چنانچہ اس اصول پرست اور دیانتدار شخص پر فتوے لگائے گئے جو ایک غلام قوم کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ کوئی ایسی قوم بھی ہوگی جس کے رہنما خود اسے یہ بتا رہے ہوں کہ آزادی تمارے مفاد میں نہیں، تم غلام ہی ٹھیک ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بن کر ہی رہےگا تو راتوں رات وہ تمام لوگ جو قیام پاکستان کے لیے سد راہ تھے، توبہ تائب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جی ہاں وہ تمام راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار جو گزشتہ سو سالوں سے انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے، عین آزادی کے وقت وہ بھی آزادی والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ قائد اعظم نے اگرچہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دینے میں عافیت جانی لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز ہو گئے اور اس کے بعد سے پاکستانی عوام آزادی کے بہلاوے میں ابھی تک غلام ہی ہیں۔ مثال کے طور پر خان عبد الغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند پاکستان کے مخالاف تھے لیکن اسی پاکستان کے ایک صوبے میں ان کے وارثوں نے کئی دفعہ جم کر حکومت کی۔ پنجاب میں سکندر حیات کی اولاد مخدوموں، کھروں اور ٹوانوں کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔
ایک ملک بنانے کے بعد جب ایک قوم بنانے کی باری آئی تو اس قوم کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں اس قوم سے تو کیا ملک سے بھی دلچسپی نہ تھی چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑائی جو اس وقت تک پاکستان میں سب سے باشعور طبقہ تھا اور تحریک آزادی میں جس کا کردار ناقابل فراموش رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چین نہیں ملا تو انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون، مہاجر، سرائیکی وغیرہ میں بانٹ دیا اور ایسے اسباب مسلسل فراہم کیے جاتے رہے کہ یہ لسانی گروہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہی رہیں ۔
سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کے بعد کوئی رہنما نہ ملا جو بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی نگہبانی کے ساتھ رہنمائی کرتا۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ایشیا کا ڈیگال، قائد عوام، مرد مومن اور مشرق کی بیٹی تو آج بھی زندہ ہے لیکن حضرت قائداعظم صاحب انتقال کر گئے۔ آج حال یہ ہے کہ ایک ملک جسے کوئی اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن سارے اس سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ملک کا کیا قصور ہے؟ کیا جب ہم الیکشن میں بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو، کرپٹ ترین لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارے اپنے بھائی ہمارے خاندان کے لوگ جو پولیس، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہیں، کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے محرومی و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، ہمارے منصف سرعام بک جاتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام عوام میں شعور و بیدار کرنے میں ناکام ہے تو کیا اس میں بھی پاکستان کا قصور ہے؟ اس ملک نے تو ہمیں یہ موقع دیا تھا کہ ہم اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں لیکن وہ نصیب لکھنے والا قلم ہم نے اپنی مرضی سے غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دیا تو یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ نوجوان جو 14 اگست کو سڑکوں پر پاکستان کی جھنڈیاں سجا کر ناچتے نطر آئے، تعلیمی اداروں میں لسانی جھگڑوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ کبھی انڈیا میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیا ہے؟ سفر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اور جس علاقے سے بدبو آنا شروع ہو جائے سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کسی نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی کوشش کی ہے وقت نکال کر؟
آج تک پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان بن کر تو سوچتے رہے تو آئیے آج ایک لمحے کے لیے پاکستانی بن کر سوچتے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم پاکستان سے کیوں ناراض ہیں؟ آئیے ایک دفعہ پاکستانی بن کر سوچتے اور عمل کرتے ہیں.
اگست کا مہینہ ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ ماہ ہے جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک چاند کی مانند روشن ہو کر ابھرا۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں انگلستان کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کا نام پاکستان ہے۔ قائداعظم کی انتھک کوششوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قائداعظم کا پاکستان حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے قائداعظم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا وہ مقصد آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
ایک فطری عمل ہے کہ جس کا گھر نہیں ہوتا اس کے دل میں آرزو ہی رہتی ہے کہ کاش میرا اپنا ذاتی گھر ہو۔ جب وہ گھر حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ یہی حال ہمارے مسلمان بھائیوں کا تھا جو انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنے گھر کی کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کی یہ خواہش قائدا عظم محمدعلی جناح نے پوری کردی مگر افسوس قائداعظم کی خواہش ہم آج تک پوری نہ کرسکے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔
مگر آج ہم اپنے اللہ، رسول اور کتاب کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے فرمان کو فراموش کرچکے ہیں۔ آج ہم اسلامی اصولوں کے بجائے مغرب کے بنائے ہوئے اصولوں کے تابع ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام کی خاطر اپناگھر بار، جائیدادیں چھوڑیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیں صرف اس لیے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارسکیں.
سوال یہ اٹھتا ہے کہ میرا پاکستان کیسا ہو؟ ہر بندے کی اپنی سوچ ہے کوئی مثبت اور کوئی منفی سوچ رکھتا ہے۔ کسی کی سوچ پر کوئی پابندی نہیں۔ میں اور میری پاکستانی عوام کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔اس کا جواب میں کچھ یوں دوں گا کہ میرا پاکستان ایسا ہو کہ ہر کوئی اس کی مثال دے۔ یہ دنیا کے افق پر ایسا ابھرے کہ ہر کوئی چاند کی مانند اس کو دیکھے اور اس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرے۔ میرا پاکستان اس طرح کا ہو کہ اس کویک نظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آئیں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے اس کو تو دیمک کی طرح چاٹنے والے اس کی جڑ وں میں بیٹھے ہیں۔ اس کو سانپ کی طرح ڈسنے کے لیے آستین میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اس پاکستان کی رکھوالی کے لیے چوروں کو پہرے دار بنا دیا ہے۔ عصمت دری کے پیاسے لوگ اس کے محافظ بن گئے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم سوچتے ہیں کہ پاکستان ایک تریافتہ ملک بن جائے، خوشحال ملک بن جائے، امن کا گہوارہ بن جائے۔میری ہی نہیں ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان ایسا ہو کہ ہرآنکھ دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے۔ اس کے لیے ہمیں خود آگے بڑھنا ہوگا۔
پاکستان میں شرح خواندگی سوفیصد ہو۔ جب شرح خواندگی سو فیصد ہوگی تو پھر پاکستان میں خوشحالی آئے گی۔ اس کے لیے ہم پورے پاکستان میں تعلیمی نظام یکساں کرنا ہوگا۔ امتحانات ایک ساتھ کرانا ہوں گے۔ نتائج ایک ساتھ آؤٹ کرنا ہونگے تاکہ جس کو جہاں تعلیم حاصل کرنامقصود ہو وہ کوئی بھی ٹائم ضائع کیے بغیر اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ انصاف کا بول بالا کرناہوگا۔ کسی بھی طرح کسی امیر کو غریب پر ،کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں ملنی چاہیے۔ حکمران سے لے کر غریب کے لیے ایک ساقانون ہوجس پر سب کو یکساں سزا ملنی چاہیے۔ہر ایک کو انصاف اس کے گھر پر ملنا چاہیے۔ وہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود بھی قانون کا احترام کریں۔ نہ ہم خود کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کریں اور نہ کسی کو کرنے دیں بلکہ اپنے اوردوسرے کے حق کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والادونوں دوزخی ہیںتو پھر پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے پھر یہاں رشوت عام کیوں؟بڑے سے بڑاکام اور چھوٹے سے چھوٹا کام ہم رشوت دیکر کرالیتے ہیں۔ یہاں پر جو بھی رشوت لے یا دے اس کو اسلام کے قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے تاکہ میرے قائد کی روح بھی خوش ہو اور ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہو۔ مجھے ایک واقعہ یادآرہا ہے کہ ایک کشمیر ی نوجوان پاکستان آیا تو وہ پاکستان کو دیکھ کر بہت افسردہ ہوا،اس نے کہا کہ ہم کشمیر میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان میں ہر کام اسلام کے قوانین کے مطابق ہوتا ہوگا، وہاں پر کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا ہوگا۔، حرام چیز سے دوری ہوگی۔پاکستان میں خواتین باپردہ ہونگی۔بے حیائی نام کی کوئی چیز نہ ہوگی، رشوت لینا اور دینا جرم ہوگا۔ نمازکے اوقات میں ہرچیز بند ہوگی ، مساجد لوگوں سے بھری ہوں گی مگر افسوس جب آج پاکستان دیکھا تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔اس کی بات سن کر دکھ تو کیا آنکھیں نم ہوگئیںکہ ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کا کیا خیال تھا اور آج ان کے سامنے ہمارا کردار کیسا نکلا۔ میرا پاکستان ملاوٹ سے پاک ہو ، ملاوٹ چیزوں کی نہیں بلکہ ہمارے کردارکی بھی ہے ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ادوایات بھی خالصتاً فروخت کرنی چاہیے تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں مضبوط اور توانا ہوں۔ ہمارا کردار ایک دوسرے کے سامنے ایک سا ہونا چاہیے یہ نہیں کہ سامنے کچھ اور پیچھے کچھ۔
ویسے تو اور بہت سی چیزیں ہیں جن پر ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر ان سب کے ساتھ جو بہت اہم اور ضروری ہے وہ ہے ہمارا مذہب اسلام۔ ہم کو مسلمان ہونے کے ناطے اپنے مذہب کو پوری دنیا میں مثال بن پیش کرنا ہوگا تاکہ دنیا پر یہ ثابت ہو کہ اگر کوئی دین ، مذہب ہے تو وہ صرف اسلام۔ ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ساتھ ایک کتاب (قرآن) کا تھامنا ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو فرقہ واریت سے دور رکھنا ہوگا۔ حق و سچ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن مجید وہ کتاب ہے جس میں ہر وہ چیز موجود ہے جو سائنسدانوں جاننے کے لیے برسوں تحقیق کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں میرا پاکستان ایسا ہو کہ اس میں کبھی فرقہ واریت کے نام جھگڑا نہ ہو۔ دہشت گردی کے نام پر میرے مذہب اور میرے وطن پر کبھی داغ نہ لگے۔ ہم ایک دوسرے کا حق نہ ماریںبلکہ دکھ اور تکلیف میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں۔ کاش یہ جوکچھ میں نے لکھا ہواور میرا رب اس کو قبول کرتے ہوئے میرا پاکستان ایسے بنا دے کہ ہم سب گردن اٹھا کر پوری دنیا میں جی سکیں۔ لوگ میرے پاکستان کی مثالیں دیں اور ہمارے کردار کو اپنائیں۔ اللہ ہم سب کو ایسا بننے اور پاکستان کا نام روشن کرنے کی توفیق دے. آمین
بس صرف سسکیاں اس کے کانوں میں سنائی دے رہی تھیں۔ منظر اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔ اسے اپنی منزل پر پہچنا تھا۔ جس جگہ سے وہ گزر رہا تھا، وہ سنسان تھی، ہر طرف سناٹا، خاموشی اتنی کہ اپنے ہی سانسوں کی آواز سنائی دینے، اور اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالو تو اپنا وجود خوف کے مارے پسینے میں بھیگتا ہوا محسوس ہونے لگے، جسم میں ایک سنساہٹ سی دوڑتی محسوس ہو۔ وہ تو آنکھیں بند کیے اللہ کا نام ورد زباں کیے چل رہا تھا۔ اور اب ایک نئی مصیبت، یہ سسکیوں کی آواز کس کی ہے؟ وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنا چاہتا تھا، لیکن آنکھوں کے پپوٹے اپنی سوجن کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ افف ف ف ف یہ دہشت ہے یا وحشت، اس نے بے بسی سے اپنے ہی لب کاٹ ڈال ۔ اس کی رفتار میں فرق نہیں آیا تھا۔
رک جائو بیٹا۔ اب بھی چونک جانے کی باری اسی کی تھی۔ آواز میں چھپا طلسم اسے پوری طرح اپنے سحر میں گرفتار کر چکا تھا۔ اب اس کے قدم منجمد ہو رہے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جگہ رک گیا تھا، دھیرے دھیرے اپنی تھوڑی سی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔
روشنی سے تھوڑی دیر کو آنکھیں چندھیائیں مگر اب سامنے کا منظر واضح تھا ۔اسے لگا کہ وہ دنیا کے نقشے پہ عین اس خطہ ارض پہ کھڑا تھا جسے لوگ پاکستان کہتے ہیں، اس کا اپنا پیارا پاکستان۔
وہ منظر کتنا دلخراش تھا مگر کربناک چیخیں اس کے لبوں پہ دم توڑ رہی تھی۔ اور وہ صرف حسرت و یاس کی تصویر بنا صرف دیکھ رہا تھا
کٹے پھٹے سے جو لاشے ہیں میری دھرتی کے
مجھے بتاتے ہیں مہنگی ہے کتنی آزادی
اب سمجھ میں آرہاتھا کہ وہ سسکیاں اسے کیوں سنائی دے رہی تھیں؟
وہ سب مناظر اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں تھے۔ آزادی کا حصول اتنا سہل کب تھا اور اب آزادی کے حصول کو برقرار رکھنا کتنا کٹھن اور دشوار۔
وہی ٹوپی، وہی لباس، وہی دھان پان سی شخصیت لیکن پختہ عزائم کی مالک، اسی کی طرف آرہی تھی۔ وہ ایک لمحے کو مبہوت انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھےگیا، دوسرے لمحے خالص فوجی انداز میں انہیں سلیوٹ پیش کر رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹریننگ میں یہی سیکھا تھا۔ سامنے بانی پاکستان اس کے سلام کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دے رہے تھے۔
سر آپ اور یہاں؟ وہ قائد سے مخاطب تھا۔
ویلڈن مائی بوائے۔ ویلڈن۔ انہوں نے اس کا کندھا تھپتھایا۔ دشمن کو جس طرح تم نے ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ تم نے جس طرح اس کے گھر میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقابلہ کیا۔ مجھے فخر ہے تم پر، اور پور ی افواج پاکستان پر۔ قائد اپنا وہی خطاب دہرا رہے تھے جو انہوں نے افواج پاکستان سے کیا تھا۔ وہ مزید کہہ رہے تھے۔
’’بیٹا! خدا نے ہمیں یہ سنہری موقع عطا کیا ہے کہ ہم ثابت کر دکھائیں کہ واقعی ہم ایک نئی مملکت کے معمار ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ خدارا! کہیں لوگ ہمیں یہ نہ کہیں کہ ہم یہ بار اٹھانے کے قابل نہیں تھے. امید کے جگنو جب رات کے اندھیروں میں چمکتے ہیں تو اجالا ہو ہی جاتا ہے اور تم لوگ میری نسل نو، میری امید کے جگنو ہو، میری امید کی روشن کرنو، اپنے عمل سے اس دنیا میں اس مادر وطن کا نام روشن کر دو، دنیا کو یہ باور کرا دو کہ مسلمان جھکنے کے لیے پیدا نہیں ہوا، اگر اسے جھکائوگے تو یہ بابر بن جائےگا، یہ ٹیپو سلطان کی صورت میں نمودار ہو کر اپنے جوہر دکھائے گا۔ یہ مر جائےگا لیکن محکومی کی زندگی قبول نہیں کرے گا۔ اٹھو بیٹا! بتادو دنیا کو کہ پاکستان کو اللہ پاک رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھےگا، اٹھو اور دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملادو۔‘‘
قائد نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا، اور اس کی نظروں سے دور ہونے لگے تھے۔ وہ اس کا حوصلہ بڑھانے آئے تھے۔ ان کا لمس اس کے اندر خون کی حدت کو بڑھا رہا تھا، وطن سے محبت کے جذبات و احساسات کوگرما رہا تھا۔
دشمن کے ہوائی اڈے پہ بمباری، اور کتنے میزائل ٹینکرز کو اڑایا تھا۔ وہ کس لمحے دشمن کی زد میں آیا؟ اسے معلوم نہیں تھا؟ سر آپ شدید زخمی ہیں۔ اس کے ساتھی اسے بتا رہے تھے۔ سر آپ آگے مت جائیں۔ مگر وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک جان میں جان میں ہے، میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے آگے بڑھنا ہے۔
اس کے ساتھی کہہ رہے تھے کہ سر! آپ کو طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن اس کے اندر جنون تھا وطن سے محبت کا، آگے بڑھنے کا، وہ اپنے زخمی جسم کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سر! لیفیٹیٹ فہد رضا کو ہوش آگیا ہے۔ غالبا کسی نرس کی آواز تھی۔ وہ ہاسپیٹل میں تھا۔
اوہ! تو قائد مجھ سے ملنے میرے خوابوں میں چلے آئے تھے، داد دینے اور حوصلہ بڑھانے۔ یہ بتانے کہ پاکستان ہے ہمارا، پاکستان ہے تمہارا
ایک اطمینان اور دھیمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ تھی