Tag: فلم

  • گوشت کے بیوپاری – ابو محمد مصعب

    گوشت کے بیوپاری – ابو محمد مصعب

    ابومصعب سنہ 80ء کے عشرے میں پی ٹی وی میں کے ڈرامے دیکھنے والوں کو ایک اداکارہ، روحی بانو یاد ہوگی۔ موصوفہ اس دقیانوسی زمانہ میں بھی کافی ماڈرن اور آزاد خیال مشہور تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شریف گھرانوں کی خواتین نے تازہ تازہ فلم انڈسٹری اور ٹی وی ڈراموں میں قدم رکھنا شروع کیا ہی تھا۔ ورنہ اس سے قبل صرف لال بازار کی عورتیں ہی اکثر فلم انڈسٹری کا رخ کرتی تھیں۔ فلموں، ڈراموں اور تھیٹر کو انگریز لوگ بھی شروع شروع میں اچھا نہیں سمجھتے تھے، اسی لیے اگر کوئی شیکسپیئر کے ڈراموں کے بارے میں جاننا چاہے تو اسے پتہ چلے گا کہ وہ ڈرامے شہر سے کافی دور کسی تھیٹر میں منعقد کیے جاتے تھے (تاکہ جس نے ڈرامہ دیکھنے کا قبیح فعل کرنا ہے وہ وہیں جا کر کر لے)۔ عام طور پر شرفاء ان خرافات سے دور ہی رہتے تھے۔

    پی ٹی وی ڈراموں کے لیے عام اور شریف گھرانوں کی نوجوان لڑکیوں کو کاسٹ کرنے کا کارنامہ سب سے پہلے ڈرامہ نویس حسینہ معین نے سرانجام دیا۔ اس کے بعد ہی یہ سلسلہ آگے بڑھا اور اب حالت یہ ہے کہ لال بازار اور شرفا کے گھروں کی دہلیزوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق یا دیوار حائل نہیں رہی۔

    پہلے پہل فلم دیکھنا ایک برا کام تصور کیا جاتا تھا اور اگر کوئی سینما چلا گیا تو منہ چھپائے پھرتا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ وی سی آر کا زمانہ آیا تو اسے بھی بڑے سے بیگ یا چادر کے اندر لپیٹ کر، چھپا کر منزل تک پنہچایا جاتا تھا تاکہ راہ چلتے عام لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ زمانہ بدلتا رہا اور آج ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں اسے دنیا ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے نام سے جانتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ انہیں جس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اس کے پیچھے بہت زبردست منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری شامل ہے اور فلم انڈسٹری نے نہ صرف معاشروں کے رجحانات اور طرززندگی کو بدلا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کو اپنا سرمیہ لگانے کا تقریباَََ رسک فری ماحول بھی فراہم کردیاہے۔ اب جن کے کروڑوں روپے ہیں وہ اس انڈسٹری میں اپنی رقم لگاتے ہیں اور چند ہی ماہ میں اسے کئی گنا بڑھا کر وصول کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ شہرت کا رائتہ گریبی میں وصول کرتے ہیں۔

    آگے بڑھنے سے قبل آپ یہ جان کر حیران ہوجائیں گے کہ دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جو اپنی فلم انڈسٹری سے اربوں گھربوں ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔ ان میں چائنا ، امریکہ اور بھارت شامل ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری کا سال 2016 کا بجٹ 38 بلین ڈالر ہے جو دنیا کے 72 ممالک کے ملکی بجٹ سے بڑا ہے۔ ان ممالک میں فلپائن، ویتنام، سری لنکا، ایتھوپیا، شمالی کوریا، تیونس، یونان، بلغاریہ، مراکش، لبیا، یوگینڈا، نیپال، افغانستان اور مالدیپ کے علاوہ کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔ امریکہ میں کل 5800 سینما ہیں جن میں صرف 2015 کے دوران 12ارب ڈالر کے ٹکٹ فروخت ہوئے۔ ایک سروے کے مطابق چودہ فیصد امریکی سینما جاتے ہیں جب کہ باقی اپنے گھروں ہی پر فلم بینی کرتے ہیں۔

    اسی طرح گزشتہ سال چائنا نے 48ارب ڈالر کے سینما ٹکٹ بیچے، برطانیہ نے 19 ارب ڈالر کے، جنوبی امریکہ نے 11.1ارب ڈالر کے۔ ہندوستان نے سنہ 2014 میں 138 ارب روپے کے ٹکٹ بیچےجو 2.2 بلین ڈالر کے برابر بنتے ہیں۔ 2014 ہی میں ہندوستان نے 1602 فلمیں بنائیں، امریکہ نے 476 فلمیں جبکہ چین نے 745 نئی فلمیں رلیز کیں۔ ہندوستان ہی میں سال 2013 کے دوران سینما میں جا کر فلم دیکھنے والوں کی تعداد ستائیس لاکھ تھی۔ جب کہ اس سے کئی گنا زیادہ افراد اپنے گھروں ہی پر فلم دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
    یہ ہیں وہ مختصراََ اعداد و شما جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ شوبزنس کی دنیا اب ایک بہت مضبوط اور وسیع کاروباری دنیا بن چکی ہے جس میں سرمایہ لگانے والے اپنے سرمایہ کو دوگنا اور چوگنا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ خوبصورتی کی دنیا ہے، یہ فیشن کی دنیا ہے، یہ نئے نئے اور جاذب نظر جسموں اور چہروں کی دنیا ہے۔ یہاں مال کی تیاری کے ساتھ ساتھ خریدار کے ذہن کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے اور ناخوب کو خوب بنا کر گاہک کو اپنا مال بیچنے کی سعیء مسلسل کی جاتی ہے۔ پھر یہ انڈسٹری اپنے کاروبار میں تنہا نہیں ہے۔ اس نے اپنے ساتھ کچھ دوسرے اداروں اور کاروباروں کو بھی جوڑ رکھا ہے، جن کے بل بوتے پر یہ چل رہی ہے۔ اس انڈسٹری کی سب سے بڑی پراڈکٹ عورت ہے۔ عورت ہی کے گرد اس کے سارے امور بجا لائے جاتے ہیں۔ فیشن اور گلیمر کی دنیا، کپڑوں اور زیورات کے نت نئے ڈزئنز کی دنیا، ثقافت اور کلچر کے نام پر اسے شمع محفل بنانے کا عمل، آزادی نسواں اور حقوقِ نسواں کے نام پر اسے اپنے مرکز اور محور سے دور اور الگ کردینے کی اٹکل، یہ سب وہ کام ہیں جو اسی فلم انڈسٹری کے زور پر سرانجام پاتے ہیں۔

    مگر تھوڑی توجہ ایک اور پہلو کی طرف۔ چوں کہ اس انڈسٹری کا سارا کاروبار خوبصورت جسم اور چہرے کے گرد گھومتا ہے لہٰذا جہاں چہرے کی رونق تھوڑی مانند پڑی، جوانی تھوڑی سی ڈھلنا شروع ہوئی، جسم اپنی ساخت اور جامے سے باہر نکلنا شروع ہوا، ایک منٹ کی دیر لگائے بغیر اسے اٹھا کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر وہ فرد جو کبھی ہر محفل میں آنکھ کا تارا تھا، زندگی کی باقی مانندہ سانسیں، بستر مرگ پر تنہائی میں روتے ہوئے گزارتا ہے، اس حال میں کہ نہ کوئی اس کی خبرگیری کرنے والا ہوتا ہے، نہ کوئی اس کے آنسو پونچھنے والا اور نہ ہی حال دل سننے والا۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی اخری عمر کی کئی کربناک کہانیاں اور مناظر نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ دور نہ جائیں، روحی بانو ہی کو دیکھ لیں، جو ایک حواس باختہ، مجبور و لاچار لاش کا پیکر بنی ایک چار دیواری میں مقید، زندگی کی باقی مانندہ سانسیں گن رہی ہے۔ جس کا حال پوچھنے والے تو ایک طرف، گھر میں رکھی عام استعمال کی چھوٹی موٹی چیزیں تک چوری کر لی گئی ہیں۔

    اس انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والے دراصل گوشت کے بیوپاری ہیں جنہیں ہردم نیا اور تازہ گوشت چاہیے ہوتا ہے۔ جہاں گوشت تھوڑا سا باسی ہوا وہاں اس سے نگاہیں پھیر لیں۔ ان کی خوشقسمی کہ ایک خاتون نے چائے کے کھوکھے سے انہیں ’’تازہ گوشت‘‘ تلاش کرکے دیا ہے اور اب ہر چینل اس گوشت کی تشہیر میں لگا ہوا ہے۔ تازہ گوشت دیکھ کر، پاکستان کیا، ہندوستان تک کی ’’بلیوں‘‘ کے منہ میں پانی آ چکا ہے۔

    یہ تو تھا مادہ پرست، شہوت پرست اور حسن پرست دنیا کا احوال۔ اب ذرا ان لوگوں کا حال بھی جان کر دیکھ لیجیے جو انسان کو اس کے ظاہری و جسمانی حسن کے بجائے اس کی نیکی اور شرافت کی وجہ سے اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں۔ جو صرف اللہ کی خاطر کسی کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ ایسے افراد کی قدرومنزلت عمر کے بڑھنے کے ساتھ خودبخود بڑھتی چلی جاتی ہے اور اگر کوئی بیمار ہو کر بستر پر پڑ جائے تو سینکڑوں لوگ ان کی جوتیاں سیدھی کرنے اور خدمت میں رہنے کو اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں۔

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔

  • کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    عامر خاکوانی سینئر ترین کالم نگار عبدالقادر حسن کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی
    عامر خاکوانی

    کالم کے بارے میں میری رائے کہ یہ صحافت کی شاعری ہے، یہ خداداد صلاحیت ہے۔ دوسرا یہ کہ کالم موضوعاتی ہوتا ہے اور یہ قاری کو ایک طرح کی انٹرٹینمنٹ اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت دیتا ہے۔ جس طرح شاعری خداداد چیز ہے‘ اسے کوئی سیکھ نہیں سکتا‘ یہی با ت کالم کی ہے‘ مضمون نگاری البتہ سیکھی جاسکتی ہے۔ ایک اعتراض یہ کہاجاتا ہے کہ دنیا بھر کے اخبارات اور خود پاکستان کے انگریزی اخبارات میں قاری کی ذہنی اور فکری تربیت کی جاتی ہے جبکہ اردواخبارات کے روایتی کالموں میں صرف زبان کے چٹخارے اورلطیفہ گوئی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی کا اردو سے مختلف معاملہ ہے۔ اردو میں کالم کی روایت یہی ہے کہ ہلکے پھلکے انداز میں لکھا جائے‘ میرے ذاتی خیال میں تو اخبارات میں مضمون نگاری ہونی نہیں چاہیے۔ ادارتی صفحہ پر یا تو اداریہ ہوتا ہے یا اہم ایشوز پر کسی ماہر کا تبصرہ (Expert Opinion)‘ یا پھر کالم ہوتے ہیں۔ کالموں کو آسان اور عام فہم ہونا چاہیے۔ میں عربی فارسی جاننے کے باوجود ایک عام معمولی استعداد رکھنے والے قاری کے فہم کے مطابق لکھتا ہوں۔

    میرے پسندیدہ کالم نگار
    saadulla ایکسپریس میں میرے پسندیدہ کالم نگار سعد اللہ جان برق ہیں۔ وغیرہ وغیرہ لکھنے والے (عبداللہ طارق سہیل) بھی اچھا لکھتے ہیں۔ باقی عرفان صدیقی کبھی کبھی بہت اچھا لکھتے ہیں‘ ہارون الرشید بھی ٹھیک‘ عباس اطہرعباس اطہر کا نام سب سے پہلے لینا چاہیے کہ وہ زبردست کالم نگار ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو سب سے منوایا ہے۔ عطاء الحق قاسمی اچھا لکھتے ہیں‘ مگر آج کل وہ پی آر کے چکر میں بہت پڑ گئے ہیں‘ بہرحال ان کا اپنا ایک پاپولر سٹائل ہے۔ حسن نثار اچھا لکھ سکتا ہے‘ ان کا بالکل الگ سٹائل ہے‘ جاوید چودھری نے بھی بڑی محنت کرکے ایک خاص انداز اپنایا ہے‘ جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
    کالم نگار کو سب سے زیادہ زبان پر توجہ دینی چاہیے‘ جس زبان میں وہ لکھ رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور حاصل ہو۔ پھر مسلسل مطالعہ کیا جائے‘ کالم لکھنے سے پہلے کچھ نہ تحقیق ضرور کریں‘ خبر اٹھا کر کالم لکھ دینا کوئی بات نہیں۔ سٹائل ہلکا پھلکا ہو مگر اس میں کوئی پیغام بھی ہونا چاہیے۔

    میرا کالم لکھنے کا طریقہ کار
    اخبارات سچی بات تو یہ ہے کہ ہم روز کے کالم لکھنے والے مسلسل عذاب میں رہتے ہیں‘ میرا بھی یہی حال ہے‘ جب تک کالم کا موضوع ذہن میں نہیں آجائے‘ ذہنی الجھن باقی رہتی ہے۔ میرے کالم لکھنے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے‘ میں تو رات کو بھی لکھ لیتا ہوں‘ عموماً صبح اخبار دیکھنے کے بعد کالم لکھا جاتا ہے کہ شاید کوئی نیا موضوع مل جائے۔ میرے گھربارہ تیرہ اخبار روز آتے ہیں‘ ان کو پڑھتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں‘ اس لیے لفظ دیکھنے استعمال کیا ہے۔

    چینلز اور اخبارات
    چینلز اخبارات کو دنیا بھر میں ٹی وی چینل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ دراصل ریکارڈ صرف اخبارہی بنتا ہے۔ چینل صرف ہیڈ لائن دیتا ہے‘ اس کی تفصیل اخبار ہی میں ملتی ہے۔ اخبار کو اصل خطرہ تعلیم نہ ہونے سے ہے کہ قوم ان پڑھ ہوتی جارہی ہے۔ باقی کالم نگاری اخبار کا مستقل شعبہ تھا‘ ہے اور رہے گا‘ ہاں ٹرینڈز بدلتے جاتے ہیں‘ ہمارے دور میں کچھ اور تھے‘ اب اور ہوگئے ہیں‘ اسی طرح آگے بھی کچھ نہ کچھ بدلیں گے۔

    سیاست دان
    سچی بات تو یہ ہے کہ میرا کوئی آئیڈیل سیاست دان نہیں ہے۔ سب نے کسی نہ کسی حوالے سے مایوس کیا ہے۔ نصراللہ نواب زادہ نصر اللہ خان کا بہت کنٹری بیوشن رہا ہے مگر بعض معاملات میں حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ میں ان معاملات کو دوبارہ سے نہیں چھیڑنا چاہتا مگر بہرحال سب نے مایوس کیا۔ آج کل کے سیاست دانوں کو تو سیاستدان کہنا ہی نہیں چاہیے۔ ان کی بڑی تعداد ایک فوجی آمر کے ساتھ ہے‘ جو نہیں وہ ڈیل کے چکروں میں ہیں تو یہ سیاست دان تو نہ ہوئے۔ دراصل ان کو کسی نے سیاست کی تربیت ہی نہیں دی‘ یہ لوگ سیاست کو محض پھنے خانی اور اثر و رسوخ کا ذریعہ بناتے ہیں۔
    ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ہر شعبے میں اس قدر بڑے اور قدآور لوگ موجود تھے‘ آج کل قحط الرجال کیوں ہوگیا ہے؟ دراصل تقسیم سے پہلے انگریز کے خلاف جو تحریک چلی تھی‘ اس نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے‘ پھر پاکستان بن گیا‘ تو تحریک کا معاملہ ختم ہوگیا‘ پھر بڑے لوگ بھی پیدا نہیں ہوئے۔ بڑے لوگ بھی حالات پیدا کرتے ہیں‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
    نظریاتی تحریکیں ختم ہونے میں روس کے ٹوٹنے کا اہم کردار ہے۔ آپ دیکھیں جو لوگ کمیونسٹ پارٹی کے ریگولر تنخواہ دار ممبر تھے‘ ادھر روس ختم ہوا اور وہ پہلی فلائیٹ سے واشنگٹن چلے گئے۔ وہ سرخ انقلابی اب علی الاعلان امریکہ کا مال کھا رہے ہیں۔ آئی اے رحمٰن وغیرہ سب ایسا کررہے ہیں۔

    دینی جماعتیں اور انسانی حقوق
    دینی جماعتیں انسانی حقوق کے حوالے سے دینی جماعتوں کو سب سے پہلے آگے آناچاہیے کہ اسلام تو مظلوموں کا سب سے بڑا حامی ہے۔ دراصل ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اینٹی اسلام ہے‘ اب دین کے شعبے میں بھی ان پڑھ لوگ آگئے ہیں‘ یہ ان پڑھ مولوی ہیں ‘ اخبار تک نہیں پڑھتے۔ ان کا مطالعہ صرف پانچ چھ سو سال پرانی کتابیں پڑھنے تک محدود ہے‘ ہمارے پیغمبر ﷺ نے انتہائی فرسودہ اور جاہل قوم کو دنیا کا فاتح بنادیا مگر ہمارے یہ مولوی اسلام کی اصل روح نہیں سمجھتے۔

    مدارس کا نصاب
    مدرسہ میں تو کہتا ہوں کہ دینی مدرسوں میں قانوناً اصطلاحات ہونی چاہیے‘ جنرل مشرف یہ بات تو ٹھیک کہتا رہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ مدرسوں کا نصاب بزور بدلنا چاہیے لیکن یہ کام کرنے کا حق ان کو ہرگز نہیں ہے‘ جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن پاک کے 30سپارے ہیں یا 40۔ یہ کام وہ کریں جنہیں سپاروں کی گنتی تو کم از کم آتی ہو۔

    قوم میں موجود فرسٹریشن
    qaum قوم میں مایوسی تو بہرحال ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری آپ کے سامنے ہے‘ افسوس یہ ہے کہ فوج کے آنے پر ہمارے تمام سیاستدان اس کے ساتھ مل جاتے ہیں‘ ایوب خان نے جب کنونشن لیگ بنائی تو قائد اعظم کی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے تمام زندہ ارکان ایوب کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ جرنیل غلط کام کرتے ہیں‘ اس کی سپورٹ سیاست دان کرتے ہیں اور مارے عام لوگ جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں چند فوجی افسر ہی سول انتظامیہ میں آئے تھے‘ اب تو انتہا ہوگئی ہے‘ اس کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ ابن خلدون کا مشہور قول ہے کہ ’’مٹتی ہوئی قومیں اپنے ہیرو ایجاد کرلیتی ہیں‘‘۔ اب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک جج ہیرو بن جائے گا‘ مگرایسا ہوا۔ دراصل ہماری قوم لیڈر کی بھوکی ہے اور اس کے انتظار میں ہے۔
    عمران خان میں جان ہے‘ میں اسے پسند کرتا ہوں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے سیاست نہیں آتی‘ ویسے اس میں ایثار کا جذبہ ہے۔ نواز شریف میں بھی صلاحیت ہے اور کوئی کرپشن کا الزام بھی اس پر نہیں۔ دیکھیں بہرحال وہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے دو چیف آف آرمی سٹاف الگ کرنے کی جرأ ت کی۔

    کالم لکھنے میں تلخ تجربات
    سب سے مشکل بھٹو صاحب کا دور تھا‘ وہ سیاست دان تھے‘ ان کے خلاف لکھنا مشکل ہوتا ہے‘ دلچسپ بات یہ کہ رکاوٹوں اور پابندیوں میں لکھنے کا مزا بھی آتا ہے۔ اس وقت بندہ بڑے آرٹ کے ساتھ لکھتا ہے۔ جنرل مشرف نے آزادی دی تو لکھنے کا مزا نہیں آتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے کا ریسپانس ہمیشہ ملا ہے۔
    ایک بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کبھی لکھنے پر خوف محسوس ہوا؟ سچ بات یہ ہے کہ میرا دیہاتی بیک گرائونڈ ہے۔ مجھ میں خوف موجود نہیں‘ مصلحت یا مجبوری الگ شے ہے مگر مجھے کبھی خوف نہیں آیا۔ اگر آپ اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری طرح مانتے ہیں اور اس پر سٹینڈ لیتے ہیں تو قدرت مدد کرتی ہے۔ اگر خود ہی مصلحت پر آجائیں تو قدرت کی مدد شامل نہیں ہوتی۔ پھر انسان کو آخر کسی بات پر نقصان اٹھانے کے لیے تو تیار رہنا چاہیے۔ ایک بار جنرل پرویز مشرف کی صحافیوں کو بریفنگ میں ان کے ساتھ خاصی بحث ہوگئی۔ میں سوال پوچھنے کے لیے کھڑا ہوا اور بولا کہ جنرل صاحب! ڈاکٹر قدیر جو آپ کے بھی ہیرو ہیں … ابھی اتنا کہا تھا کہ جنرل مشرف ترنت بولے وہ میرے ہیرو نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا لیکن وہ میرے تو ہیرو ہیں۔ اس پر پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے سوال مکمل کیا کہ آپ یکطرفہ طور پر ڈاکٹر قدیر کے خلاف چارج شیٹ لگا رہے ہیں‘ ان کو تو اپنا مؤقف بیان کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مشرف جنرل مشرف نے دوبارہ سے ڈاکٹر قدیر پر اپنے پرانے الزامات دہرانے شروع کردیے۔ بعد میں بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو سوال پوچھتے خوف نہیں لگا تھا کہ ان دنوں خاصے لوگ پراسرار طور پر لاپتہ ہو رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ دراصل اگر آپ اخبار نویس بنے ہیں تو اس کے مسائل و مصائب کے لیے بھی تیار رہیں۔ ایسے واقعات بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ہوجاتے تھے‘ مگر وہ سیاست دان تھے‘ ناراض ہونے کے بجائے اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں مجھے تمغہ امتیاز دینے کا بتایا گیا اور اس کے لیے بائیو ڈیٹا مانگا گیا تو میں نے انکار کر دیا کہ مجھے کسی فوجی حکمران سے کوئی تمغہ نہیں چاہیے۔ دوسروں نے تو تمغہ لے کر انکار کیا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی انکار کردیا تھا۔ تو جیسی جرأت انکار جسٹس چودھری نے کی‘ وہ بندے میں کسی نہ کسی حد تک ہونی چاہیے۔

    موسیقی
    رفیع لتا موسیقی بہت پسند ہے‘ ہلکی پھلکی فلمی موسیقی‘ غزلیں اور کبھی کبھار کلاسیکل بھی جو قدرے عام فہم ہو۔ پاپ موسیقی قطعاً پسند نہیں ہے۔ مجھے لتا منگیشکر اور رفیع پسند ہیں‘ خاص کر رفیع کہ مردانہ آواز کے باوجود وہ تان میں لتا کا مقابلہ کرتا تھا۔ نور جہاں اور مہدی حسن کے سٹائل میں بڑی یکسانیت ہے۔ لگتا ہے کہ ایک ہی غزل بار بار گا رہے ہوں۔ فوک میوزک بہت پسند ہے‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی پہلے پسند تھا‘ اب وہ اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔

    فلم
    Devdas_2002_soundtrack پہلے بہت فلم دیکھتا تھا‘ ا ب تو کئی سال سے سینما گھر ہی نہیں گیا‘ ٹکٹ کے ریٹ کا ہی پتہ نہیں‘ بھارتی اداکار شاہ رخ خان مجھے بہت پسند ہے۔ اس کی فلم دیوداس بہت اچھی لگی‘ اس میں وہ فن کی انتہا تک پہنچ گیا۔ ہمارے ہاں اب تو کوئی اداکار ہے ہی نہیں۔ پرانوں میں ظریف اچھا تھا۔ محمد علی نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا۔

    شاعری
    فیض احمد فیض فیض صاحب میرے پسندیدہ شاعر ہیں‘ ان سے بڑا اچھا تعلق رہا‘ وہ میرے بڑے مہربان تھے‘ ان کی شاعری کا کیا کہنا‘ ان کی خوش قسمتی تھی‘ وہ روس کے خاتمے سے پہلے ہی رخصت ہوگئے ورنہ یہ ان کے لیے بہت گہرا صدمہ ہوتا۔ حبیب جالب کی شروع کی شاعری اعلیٰ تھی ‘ بعد میں تو وہ شاعرانہ رپورٹنگ ہو کر رہی گئی تھی‘ ویسے یہ حقیقت ہے کہ ایوب خان کو سب سے زیادہ نقصان جالب کی شاعری نے پہنچایا تھا۔

    اخبارنویسی کا کیرئر
    میں اپنے کیریئر سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ اخبار نویسی نے مجھے متوازن شخصیت بنایا ورنہ ملا بن گیا ہوتا۔ دراصل اخبار نویس حالات کے ساتھ ساتھ آگے چلتا ہے‘ میں نے صحافت ملازمت کے لیے نہیں کی تھی، کیونکہ مجھے روزگار کے لیے ملازمت کی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس میں عزت ملی۔ اب مکمل ذہنی آسودگی کا احساس ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسی آزادی آگے برقرار رہے۔