Tag: غم

  • ہم غم کیسے برداشت کریں؟ تزئین حسن

    ہم غم کیسے برداشت کریں؟ تزئین حسن

    رات دو بجے سے ایک دو مضامین پر کام کر رہے تھے. صبح بچوں کے سکول اور حسن کے جانے کے بعد سوئے تو 11 بجے آنکھ کھلی. عادت کے مطابق سب سے پہلے موبائل اٹھایا. کراچی سے ہماری دوست عزیز از جان نیٹ فرینڈ نصرت کا مختصر سا میسج جی میل پر تھا.
    ”تزئین میرا پرس چھین گیا.“
    ”اللہ رحم کرے نصرت.“ ہم نے اسے انّا للہ پڑھنے کی تلقین کی.
    نٹ کھٹ لیکن صاف گو نصرت سے ہماری دوستی کوئی دو تین ہفتے پہلےواٹس ایپ کے ایک ادبی گروپ پر ہی ہوئی تھی لیکن طبیعت میں کچھ ایسا اشتراک تھا کہ ہم بہت جلد ایک جان دو قالب بن گئے. تقریباً ہر روز رابطہ رہتا. ہم اپنے ایک پرانے سفرنامہ کی کمپوزنگ کر رہے تھے اور تنقیدی مگر مثبت نظر رکھنے والی نصرت رضاکارانہ طور پر اسے ایڈٹ کرنے میں ہمار مدد کر رہی تھی. مادام روز بحث پر آمادہ ہوتیں،
    ”تزئین یہ جو بات تم نے لکھی، یہ مجھے کچھ مناسب نہیں لگ رہی. یہ تمہاری شخصیت سے میل نہیں کھا رہی.“
    برا تو سچی بات ہے، ہمیں بہت لگتا. اپنی تحریر پر تنقید برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں. مگر ہمیں معلوم تھا کہ ایسے پرخلوص دوست فی زمانہ ایک لکھنے والے کے لیے کتنا بڑا سرمایہ ہوتے ہیں. ہم اپنی صفائی پیش کرتے مگر بسا اوقات آخر میں ہمیں ان کی بات ماننی پڑتی.

    ہمارے مختصر تعزیتی میسج کا جواب تھا،
    ”تزئین! میں مثبت رہنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر دہشت، نفرت اور بےبسی اس وقت بہت شدید ہیں.“
    ”مجھے اندازہ ہے. کیا موبائل بھی چھین گیا؟“ ہمیں مسلسل جی میل پر ان کے میسج سے تشویش ہوئی تو پوچھا.
    ”ہم ایک دفعہ پہلے بھی ڈکیتی کا سامنا کر چکے ہیں. اس کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی اثرات ابھی تک محسوس ہوتے ہیں…اب پھر..“
    یعنی واقعہ کا جذباتی اور انسانی پہلو بھی نازک تھا، نصرت کے انگریزی میسج سے اس کی کیفیت عیاں تھی. ہم بستر پر بیٹھے اس کی ذہنی بےبسی اور تکلیف کو محسوس کر سکتے تھے.

    ہم اس وقت اپنی عزیز از جان دوست کے لیے کینیڈا میں بیٹھ کر کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارا اپنے آپ سے سوال تھا. اس سے چیٹ کریں اور پاکستان میں اپنے لٹنے کے قصّے سنائیں، شاید ان سے ان کی کچھ اشک شوئی ہو؟ اور وہ اس تکلیف دہ حادثے کے اثرات سے مثبت انداز میں نمٹ سکیں.

    کچھ سوچ کر ہم نے انھیں میسج کیا:
    نصرت! ابھی ایک ہفتہ پہلے کینیڈا میں ہماری ایک جاننے والی دوست کا 27 سالہ بیٹا اچانک گھر کے اندر انتقال کر گیا. ماں اور بیٹا گھر میں اکیلے تھے. خوبرو اور فرمانبردار بیٹا دو سو کلومیٹر دور ایک الیکٹرک کمپنی میں انجنیئر تھا مگر دو تین مہینے پہلے اس کی ملازمت ختم ہو گئی تو گھر آ گیا اور ماں کے اردگرد منڈلاتا رہتا. بہت عرصے بعد ماں اور بیٹے کو اتنا وقت ساتھ گزارنے کا موقع ملا. ماں بیٹے میں پیار محبّت بھی ہوتا اور نوک جھونک بھی.

    دس محرم کی صبح ماں کے ساتھ بیٹھ کر اس نے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی قرآنی کلاس اٹینڈ کی. ”امی آپ کے لیے ناشتہ بنا دوں؟“ اس نے پوچھا مگر ماں روزے سے تھی، انکار کر کے روز مرہ کے معمولات میں مصروف ہوگئی. تھوڑی دیر بعد خلاف معمول بیٹے کو قریب نہ پا کر اوپر نیچے دیکھا. آخر میں گیراج چیک کیا تو بیٹا بےہوش پڑا تھا. پانچ سال پہلے ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں آکسیجن کی نالی گلے میں ڈالی تھی مگر اب باقی ساری رپورٹس نارمل تھیں. کبھی کبھی آکسیجن کا مسئلہ ہوتا تو ایمرجنسی میں لے کر جانا پڑتا. اور چونکہ ایسا دو تین دفعہ پہلے بھی ہوا تھا اس لیے کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ ہوئی. اکہرے بدن کی ماں بصد مشکل جوان بیٹے کو گھسیٹ کر کمرے تک لے گئی. 911 اور بچے کے باپ اور دیگر بھائیوں کو فون کیا. اگلے آدھے گھنٹے میں 911 والوں نے پہنچ کر آکسیجن لگائی، CPR کیا اور IV لگا دی. باپ بھی پہنچ چکا تھا اور دیگر بھائی بھی. ماں کو کمرے سے نکا ل دیا گیا تو لاؤنج میں بیٹھ کر سورہ یٰسین کا ورد کرنے لگی.

    کوئی ڈھائی گھنٹے بعد عملے نے اطلاع دی کے آپ کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے اور ہم dead body لے کر جا رہے ہیں. انّا للہ کا ورد کرتی ماں نے صرف اتنی التجا کی کہ اس کی ایک بہن یونیورسٹی میں ہے، اور دوسری شادی شدہ اپنے گھر میں. انھوں نے نہیں دیکھا. ہو سکے تو تھوڑا ٹھہر جائیں.

    911 والے اپنے فرائض سے مجبور، رک سکتے تھے نہ مردہ جسم چھوڑ سکتے تھے. البتہ انّا للہ کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کیا بول رہی ہیں؟ انھیں بتایا گیا کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے. کسی صدمے پر اسے پڑھنے کا حکم ہے اور ان لوگوں کے لیے خوشخبری کی بشارت دی گئی ہے جو اسے پڑھتے ہیں اور اپنے اللہ کو یاد کرتے ہیں.

    دوسرے دن ان سے تعزیت کے لیے گئی تو بس اتنا کہہ سکی،
    ”فوزیہ باجی! اللہ نے آپ سے جنت کا وعدہ کیا ہے.“
    ماں کا ری ا یکشن تھا، Really؟ انداز استفہامیہ تھا.
    میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا مشکل وقت فیس نہیں کیا مگر جتنا تھوڑا بہت قرآن و سنت کا علم تھا، اس سے اتنا ضرور یقین تھا کہ اگر کوئی ماں اس موقع پر صبر کر سکتی ہے تو اللہ نے اس کے لیے کتنا بڑا اجر رکھا ہوگا. صبر کی پیکر ماں کا کہنا تھا اللہ کو میرے بیٹے کی یاد آ گئی، اس نے اسے اپنے پاس بلا لیا. بار بار ایک ہی بات کہتی کہ بس مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بیٹے نے جاب ختم ہونے کی وجہ میرے ساتھ دو تین مہینے گزار لیے. اللہ کا بڑ ا کرم ہے، اب اس کی تمام رپورٹس بالکل نارمل تھیں.

    واقعی، اگر دوسروں کے دکھ پر نظر ڈالیں تو اپنے دکھ ہلکے محسوس ہوتے ہیں. اولاد رکھنے والے جانتے ہیں کہ موبائل، کیش، پراپرٹی کا نقصان یقیناً تکلیف دہ مگر اولاد کے دکھ کے آگے سب کچھ ہیچ. اللہ اپنے بندوں کی آزمائش جان، مال، عزت اور کبھی کبھی دوسرے طریقوں سے مسلسل کرتا ہے. بیٹے دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی. ڈاکوؤں اور قاتلوں کے ذریعہ بھی آزماتا ہے اور طویل بیماریوں اور ایکسیڈنٹ سے اچانک موت سے بھی، قدرتی آفات سے بھی آزماتا ہے اور شیطان نما انسانوں کے ذریعہ بھی اور کبھی کبھی قید و بند کی صعوبتوں سے بھی کہ یہ دنیا فانی ہے.

    مگر ہم انسان چلّا اٹھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہی کیوں؟ قرآن بار بار نبیوں کی مثال دیتا ہے. نبیوں اور پیغمبروں کو جو دعائیں سکھائی گئیں، ان سے روشناس کرواتا ہے.
    ”میں اپنے رنج اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں. (سورہ یوسف)“
    ”میں مغلوب ہوگیا ہوں، میری مدد کر. (سوره نوح )“
    ”مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا. (القرآن)“
    ”تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے. بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے. (سوره طور)“’
    ”تم اپنی فوت شدہ چیزوں پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو (القران)“

    ایسے مواقع پر سب سے بڑھ کر مجھے اللہ کے ایک بندے کی یاد آتی ہے جو پیدا ہوا تو اس سے پہلے اس کے باپ کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا، کچھ عرصے بعد ماں کو، پھر پیار کرنے والے دادا کو، شادی ہوئی تو ایک ایک کر کے بیٹوں کی وفات کا صدمہ، غمگسار بیوی اور زمانے سے لڑ جانے والے چچا کو، پھر بیٹیوں کی طلاقیں، اور شہر سے نکال دیا جانا، بعد ازاں ایک کو چھوڑ کر باقی تینوں بیٹیوں کی وفات کا صدمہ، سب سے بڑھ کر لوگوں کا اللہ کے پیغام کو قبول نہ کرنا، ساتھیوں کی تربیت اور امّت کا غم. سرکار دو عالم ﷺ سے جتنا تعلق غم کے مواقع پر بڑھ سکتا ہے شاید ہی زندگی میں کسی اور موقع پر ہو. اللہ ان کا دامن رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے، اور ہمیں غم اور خوشی ہر موقع پر ان کے اسوہ پر چلنے کی توفیق دے. آخر میں جو دعا آپ ﷺ غم کے موقع پر پڑھتے،
    [pullquote]انّا للہ و انّا الیہ راجعون، اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیر منھا.[/pullquote]

    ”ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے. اے اللہ! مجھے اس مصیبت پر اجر دے اور مجھے اس کا بہتر نعم البدل دے.“

  • خوشی، غم اور میڈیکل سائنس – محمد عمار بیگ

    خوشی، غم اور میڈیکل سائنس – محمد عمار بیگ

    محمد عمار بیگ میڈیکل سائنس کامل طور پر مادی علم ہے۔ یہ جذبات اور احساسات کو بھی کیمیائی مادوں کی ترتیب اور تخریب میں پرکھتی ہے۔ طبی دنیا کے مطابق خوشی کی تعریف مکمل جسمانی اور ذہنی آسودگی ہے۔ جب انسانی جسم مکمل طور پر پر سکون ہو تو جسم میں ایک مادہ ”سیروٹونن“ (serotonin) بنتا ہے جو خوشی کا احساس دلاتا ہے۔

    فزیالوجی کی اس دلیل سے انکار ممکن نہیں مگر یہ خوشی کی بہت سے ماخذ کا احاطہ نہیں کرتی۔
    غم ظاہری طور پر تکلیف دہ کیفیت کا نام ہے مگر اس کی گہرائی میں سرور اور لذت چھپی ہوئی ہے۔
    غم کی تعریف اور حسن بیاں سے غزل جنم لیتی ہے۔ شاعری کسی بھی زباں میں ہو، جتنا مقبول اظہار کرب ہوا ہے، اتنی اور کوئی جنس نہیں۔
    میر سے لے کر ساغر صدیقی تک، سب نے کیا لکھا، ہجر، کرب، گریباں چاک، نالہ، آہ و زاری۔

    افسانوں میں دیکھیں تو المیہ ،طربیہ سے کہیں اوپر نظر آتا ہے، کبھی آپ کو کسی افسانے میں نارمل لائف اور روٹین کی زندگی نظر نہیں آتی، کیوں کہ غم جیسا مجذوب نظر کوئی نہیں۔ المیہ میں سے لکھاری خوشی نچوڑ کر قاری کو پلاتا ہے۔ طربیہ تو کھلا ہوا پھول ہے، اس کا رس تو تحلیل ہو گیا ہوتا ہے۔

    موسیقی میں 90 فیصد کلام یاس اور درد کے بیاں پر منحصر ہے۔ مہدی حسن سے لے کر عطااللہ عیسی خیلوی تک، کسی نے خوشیوں کے شادیانے نہیں گائے، سب غم کی مالا جپتے ہیں، اور خوب جپتے ہیں۔

    کوئی بھی تخلیق ہو، جتنا غم مقبول ہوتا ہے خوشی کا اس کے دور دور تک نام نہیں۔ پیشہ ورانہ تصویر ساز سورج کے ڈوبنے کے اداس منظر منظر قید کرتے ہیں اور خوب داد پاتے ہیں۔ کبھی کسی نے طلوع آفتاب کے منظر کی کیوں نہ تصویر کشی کی، اور اگر کی بھی ہے تو پذیرائی نہ ہونے کے برابر کیوں رہی۔

    درحقیقت انسانی نفس کا فلسفہ اپنی ہی معکوس سمت میں رواں ہے۔ وہ غم کے جذبات سے خوشی کا احساس کشید کرتا ہے۔ اس عرق کو پی پی کر وہ خود مسرت حاصل کرتا ہے۔جس سے وجود مسرور ہو جاتا ہے، میڈیکل سائنس اس کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔

    (محمد عمار بیگ آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج باغ کے طالب علم ہیں)

  • دل کے بادل – افشاں فیصل شیوانی

    دل کے بادل – افشاں فیصل شیوانی

    پچھلے کچھ دنوں سے موسم بے حد خوشگوار ہے، ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں اور جب یہ بادل برس جائیں گے تو دھوپ کی کرنیں پھر سے زمین کے سینے کو روشن کرنے لگیں گی۔بادل کتنے ہی گہرے ہوں، سورج کی کرنیں انہیں چیرتی ہوئی زمین کو اجالا بخش ہی دیتی ہیں۔ یہ بادل دھوپ کو ختم نہیں کر سکتے مگر اس کی حدت کچھ دیر کے لیے کم ضرور کر دیتے ہیں۔

    ایسے ہی بادل کبھی کبھی انسان کے دل پر بھی چھا جاتے ہیں۔ غم کے، غصے کے، ناراضگی کے یا غلط فہمی کے، اور یہ بادل بھی ہمارے جذبات کی حدت کو کم کر دیتے ہیں۔ ہمارے دل میں موجود پیار، محبت اور امید کو چھپا دیتے ہیں۔ان بادلوں کو برس جانا چاہیے کیونکہ یہ بادل نہیں برسیں گے تو دل میں حبس پیدا کر دیں گے اور دل کو اس حبس سے گھٹن سے پاک کرنے کے لیے ان کا برسنا ضروری ہے۔ ایک بار جب یہ بادل کھل کر برس جائیں تو دل بالکل روشن ہو جائے گا۔

    اپنے اندر باتوں کو چھپا کر نہ رکھیں، دکھی ہیں تو کچھ دیر اکیلے بیٹھ کر رو لیں، کسی سے شکایت ہے تو اس سے جا کر بات کریں، کوئی ناراض ہو تو جا کر منا لیں اسے، آپس کی غلط فہمیوں کو مل بیٹھ کر دور کریں اور لوگوں کو معاف کر دیا کریں تاکہ دل پر جو اتنے سارے بوجھ لادے پھرتے ہیں وہ کم ہوں، دل پر چھائے کالے بادل گھٹ جائیں اور دل مکمل روشن ہو جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے اور اندھیرا اور حبس بڑھتا جائے گا اور یہ اندھیرا خوشیوں کی روشنی کو نگل لے گا تو ایسا مت ہونے دیں، اپنے دلوں کو وسیع کریں، خوشی کی دھوپ کو دل میں داخل ہونے دیں تاکہ ہمارے دل روشن رہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ دوسروں کی خوشی کا باعث بنیں۔

  • خوشی اور غم کا میزان – ریاض علی خٹک

    خوشی اور غم کا میزان – ریاض علی خٹک

    زندگی کو ہم نے پانے اور کھونے کا میزان بنادیا، اپنی خوشیوں اور غموں کو اس میزان کے ساتھ ہم منسلک کر چُکے ہیں. جب خواہش پر کچھ پالیا تو خوش ہوگئے.. خوشی کا پلڑا جھک گیا. جب خواہش پر کچھ نہ ہوا تو غمزدہ ہوگئے، غم کا پلڑا جھک گیا. اس میزان کے تماشے نے اتنا مشغول کر دیا کہ بس ہم ہر وقت اسی میزان کو تول رہے ہوتے ہیں. اگر فرصت ملتی بھی ہے, کبھی آس پاس دیکھتے بھی ہیں تو زندگی کا مشاہدہ نہیں کرتے بلکہ تب بھی اسی میزان کی خوشی والے پلڑے کو وزن دینے کے لیے نگاہیں تلاش کرتی ہے.

    بچپن میں انسان فطرت پر ہوتا ہے، وہ خوشی و غم کے میزان سے ناآشنا ہوتا ہے، تب وہ زندگی کی تلاش میں ہوتا ہے، اسے سمجھنے کی خواہش غالب ہوتی ہے. اس تلاش میں
    اگر خوشی آئے تو بھی بے ساختہ ہوتی ہے اور روح تک اُتر جاتی ہے، دُکھ بھی بے ساختہ ہوتا ہے تو روح تک محسوس کرتی ہے. تب ہی بچپن یادوں کے خزانے کا سب سے انمول وقت ہوتا ہے.

    شعور کے دور میں ہم اپنی خوشیوں کی بے ساختگی چھین لیتے ہیں. ہم تب خوش نہیں ہوتے بلکہ ہم خوشی بنانے کی کوشش کرتے ہیں. کبھی اپنی خوشی کو دولت کی شکل دے
    دیتے ہیں، کبھی شہرت، کبھی طاقت، کھبی اقتدار. کبھی محبت، کبھی نفرت. یہ بنائی گئی خوشی تب وہ بےساختگی کھو دیتی ہے، وقتی لذت بھی مزید سے مزید کی تلاش اور
    خواہش پر اپنا اثر کھو دیتی ہے، انسان اپنی تخلیق کا حجم طے نہیں کرپاتا اور زیادہ سے زیادہ کی حرص میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ بھول جاتا ہے کہ اپنی تخلیق کیے معیار کی جستجو میں متاع حیات جو خرچ ہو رہی ہے، وہ کسی اور ذات کی تخلیق ہے، جس نے اپنی تخلیق واسطے اس دُنیا میں ایک مخصوص وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کاعلم بھی صرف اپنے پاس رکھا ہے.

    تب ایک دن ایک لمحہ مقرر پر ایک دم بُلاوا آتا ہے، اور ہر چیز ہر حاصل یہاں ہی رہ جاتا ہے. زندگی کی کُل متاع چھوٹ جاتی ہے، اور ذات مکان بدل لیتی ہے. یہ ادراک کا وقت ہوتا ہے، انسان تب جانتا ہے کہ میزان جو میں نے سجایا تھا، اُس کے پلڑے خالی ہوگئے ہیں. ان میں سے ہر چیز یہاں رہ جانی ہے. اور جو میرا میزان ہے وہ تو اس اگلی منزل پر سجایا گیا ہے. ابدی زندگی کا میزان. پر وہ بھی کیا ویسے ہی ہے جیسا ہم نے بنایا تھا؟

    اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغام پہنچانے والے بھیجے جنہوں نے اللہ کا پیغام اور اس کا کلام انسان کو پہنچایا، وہ پیغام اسی میزان کی سمجھ کاہے. وہاں خوشی اور غم کے پلڑے نہیں، وہاں نیکی و بدی کے پلڑے ہیں. وہاں رحمان و شیطان کے منظور شدہ اعمال کے پلڑے ہیں. ہاں خوشی اور غم وہاں بھی ہے، اُس خوشی اور غم کی کیفیت بھی بچپن کی خوشی اور غم جیسی کہ روح اپنی مکمل احساس کے ساتھ اسے محسوس کرے گی. بچپن میں تو اس احساس کی صرف جھلک ہے. وہاں یہ تکمیل پر ہوگا. وہاں کے غم اور خوشی کی ڈور اعمال کے میزان کے ساتھ بندھی ہوگی نہ کہ خواہشات کے میزان کے ساتھ. یہ زندگی اور اس کے میسر پل اُس ابدی زندگی کے میزان واسطے ہیں نہ کہ چند دن کے اس سفر کے ہمھارے سجائے میزان کے ساتھ. اس چند روزہ مسافت میں علم و عقل کی معراج اسی میزان کی سمجھ ہے.