Tag: غربت

  • کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل کچھ روز قبل”دلیل“ پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد ”بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم“ کا حوالہ تھی جس کا برادر عامر خوکوانی صاحب نے تفصیلا جواب دیا ہے۔ اس تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو چونکہ عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہذا بات سمجھانے کے لیے کچھ طوالت اختیار کرنا پڑی ہے جس کے لیے معذرت۔

    آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا نتیجہ ہے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے اس پر فدا ہوا چلا جارہا ہے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے، فی الوقت ذرائع کی تقسیم میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔

    تمام انسانی معاشرے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اشیاء کی پیداوار اور انہیں تقسیم کرنے کی کسی نہ کسی ترتیب کو جاری رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشیاء کی پیداوار کے عمل میں حصہ لینے کی صلاحیت ہر انسان میں بوجوہ مساوی نہیں ہوتی، اس صلاحیت میں تفاوات ایک فطری چیز ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کے اس تفاوت کا عمل صرف (consumption) کے تفاوت کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا ایک فرد کا جائز حق صرف اسی حدتک ہے جس قدر اس نے پیداواری عمل میں حصہ لیا یا اس سے کچھ زیادہ، اور اگر زیادہ تو کس بنا پر؟ علم معاشیات میں یہ نہایت اہم سوالات ہیں جس پر Development Economists کی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں۔ یہ سوال اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ پیدواری صلاحیتوں میں تفاوات پایا جاتا ہے بلکہ آبادی کا وہ حصہ جو براہ راست پیدوار ی عمل میں حصہ لیتا ہے (یعنی employed) وہ بالعموم غیر پیدواری آبادی (بچے، بوڑھے، گھریلو خواتین ، معذور وغیرھم) کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اور پختہ مارکیٹ سوسائٹی میں امیروں میں کم بچے پیدا کرنے اور اوسط آبادی کی عمر بڑھتے چلے جانے کے رجحانات کی بنا پر یہ شرح مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ افراد کے مابین صرف کے تفاوت کو کم سے کم رکھنا قدیم سے لے کر جدید تمام انسانی معاشروں میں ایک جائز و مطلوب مقصد سمجھا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کسی نہ کسی روابط کی ترتیب کو اختیار کرتے رہے ہیں۔

    خاندان بطور ایک اکائی اس مسئلے کا ایک عمدہ تاریخی حل رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک خاندان (اگر وہ واقعی خاندان ہے) میں بالعموم افراد کے صرف کا حصہ یا تو مساوی ہوتا ہے اور اگر اس میں تفاوت ہو بھی تو کسی پر فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی جھلک ہم ہمارے یہاں شہروں کے بچھے کچھے خاندان کے تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے بچوں، کمانے والوں، خواتین، بوڑھوں، معذور افراد (اگر کچھ ہوں) وغیرھم سب کا معیار زندگی تقریبا مساوی ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ والد صاحب خود تو مرغ مسلم اڑاتے اور رات کو اے سی لگا کر سوتے ہوں مگر نہ کمانے والے افراد کو دال روٹی اور صحن میں بستر ملتا ہو۔ اگر کسی رشتے دار پر ناگہانی آفت (مثلا بیماری یا بے روزگاری) آجائے تو خاندان کے بھلے لوگ آج بھی اس کی ضروریات و علاج کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ خاندان تمام قسم کے افراد (یہاں تک کہ نکموں جن کی ذمہ داری سوشل سیکورٹی کے نام پر اب ریاست پر ڈال گئی ہے) کی معاشی ضروریات اور مسائل کو سمونے (انٹرنلائز) کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں یہ سب کچھ محبت، خلوص، صلہ رحمی و ایثار جیسے خوبصورت جذبات کے تحت کرنے کا نام ہے۔

    اب آتے ہیں جدید مارکیٹ سوسائٹی کی طرف۔ اس کے لیے مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے تعلق کو سمجھنا لازم ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تنویری معاشی مفکرین نے یہ فرض کیا کہ ایک فرد کا جائز حق صرف اسی قدر ہے جس قدر وہ کمپنی کے نفع میں اضافے کا باعث ہو (اس سب کے پیچھے ان مفکرین کا مخصوص تصور ”قدر“ ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ یورپی ممالک استعماری دور میں ایک طرف دنیا بھر سے لوٹ مار کر کے اپنے یہاں دولت کے انبار جمع کر رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے ان مقبوضہ نوآبادیاتی علاقوں میں بالجبر مارکیٹ سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ سٹیٹ سٹرکچر کو فروغ دیا (اور یہ عمل آج بھی جاری ہے)۔ مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے مابین لازمی تعلق ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں:
    1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کر دیتا ہے، یوں عمل صرف انفرادی ہوجاتا ہے۔
    2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
    3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے جن سے حصول نفع ممکن ہو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ہوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کیلئے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ہے مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کیلئے گندم نہیں)
    4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ہوتی ہے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ہوتا چلا جائے (کیونکہ ارتکاز سرمایہ کے بغیر بڑھوتری سرمایہ ممکن نہیں)

    ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں:
    1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپیدہوجاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے (اور فرد کے ان کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں)، یوں معاشی، معاشرتی و سیاسی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے
    2) عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ جدید معاشی مفکرین نے اس رویے کو غیر عقلی باور کرایا، اس کے مقابلے میں جدید معاشیات ایک فرد کو اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو بطور جائز و عقلی مقصد قبول کرنے کا درس دیتی ہے۔
    3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficient ہوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ہے)
    4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جسکے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو اسی طبقے کی باجگزار ہوتی ہے
    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی آبادی کا وہ عظیم ترین حصہ جو نان پراڈکٹو ہے وہ سب کہاں جائیں ؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کیلئے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔ یہاں انکا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ روابط کی کونسی تریب رحمت ہے۔

    چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ”بے کار“ (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں ”پاگل“ افراد کہ اس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن ”’کام نہ ہونے“ کی کیفیت کا نام ہے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندہوں پر اٹھائیں جسکی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوپاتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کے لیے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (ظاہرہے انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کرسکیں اور یہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ہے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رہتا ہے۔ یہ اس نظام کا ایک دیرینہ تضاد ہے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اسکے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ہے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency ) ہی کے نام پر۔

    سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کیلئے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ہی یہی ہوتی ہے) وجود میں آجاتا ہے،] مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی و بھانڈ کے حقوق کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز) وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ”فلاحی ادارے“ مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کے لیے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ہو رہا ہے تو کوئی اس کا مداوا بھی کررہا ہے) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔

    دھیان رہے خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلا بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اس کا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتاہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اس کا حال ہوتا ہے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اس کی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ہے کہ اس کے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ہے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ ادارہ ہے نا، وہ یہ کام کردے گا)۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ہو جہاں ”پروفیشنل“ (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کر دیے گئے ہوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ہے۔

    جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس ‘ترقی یافتہ’ نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذہن فریفتہ ہوا چلا جارہا ہے، دین کو جس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارہا ہے، جس کی چکا چوند کے آگے اسے اپنی تاریخ و طرز معاشرت ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ ابھی ہمارے یہاں وسیع تر خاندان (extended family) کے باقیات ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نادار افراد اس نظام کےتحفظ میں ہیں، اگر یہ جلد ہی ختم ہوگیا تو یہ کروڑوں لوگ امیروں کو نوچ کھائیں گے کیونکہ ہماری ریاست میں فی الوقت انہیں سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔

    اب غور کیجیے! برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات“ کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جبکہ مارکیٹ نظم ان کے لیے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ہے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دھیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رہے ہوں گے؟ سوچیے کون سا معاشرتی نظم انسانیت کے لیے رحمت تھا؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ہوچکا وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ہے وہاں، کیا انسانیت و اعلی اخلاقیات ہیں! یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق محبت و رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا ہمارے یہاں کے مرعوب ذہن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہو، اس کے ماننے والے آج اپنے یہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ہو رہے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مقام عبرت ہے۔

  • غریبی میں بھی ادائیں امیری کی – شیخ خالد زاہد

    غریبی میں بھی ادائیں امیری کی – شیخ خالد زاہد

    شیخ خالد زاہد قدرت نے ہاتھی کو خشکی کے جانوروں میں‌ سب بڑا جانور بنایا ہے۔ قدرت نے دیوہیکل جسامت والے ہاتھی کو بہت چھوٹی آنکھیں دی ہیں جس کا جواز ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ اگر ہاتھی کی آنکھیں بھی جسامت کی مناسبت سے ہوتیں تو یا کم از کم ہرن کی طرح بھی ہوتیں تو ہاتھی اپنے بھاری بھر کم جسم کی بدولت تباہی اور بربادی پھیلاتا پھرتا اور ہمارے قابو میں آسانی سے نہ آتا۔

    قدرت نے انسان پر رحم ہی رحم کیا ہے اور عقل جیسی نعمت دے کر اپنی تخلیقات میں افضل ترین یعنی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ اپنے نائب کا درجہ بھی دے دیا۔ اربوں انسان اس دار فانی میں آئے، اپنی اپنی زندگیاں اپنے اپنے طرز پر جیے اور رخصت ہوئے۔

    یہ بات تو طے ہے کے قدرت کے کارخانے میں ایسےمصور بیٹھے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے انسان کی شکلیں مختلف بنا رہےہیں۔ جبکہ بنیادی اعضاء جب سے لے کر آج تک وہی ہیں یعنی دو آنکھیں، دو کان، ناک اور ہونٹ مگر ہلکی پھلکی مشابہت کے علاوہ ہر چہرہ دوسرے سے مختلف بنا رہےہیں۔ خدوخال مختلف بنانا اگر کوئی بات نہیں ہے تو ہر انسان کے احساسات مختلف بنارہے ہیں، سوچ مختلف بنا رہے ہیں، بولنے کا انداز مختلف، چلنے کا انداز مختلف، کھانے کا انداز مختلف، غرض یہ کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں۔ شاذ و نادر آپ کو جڑواں اور دو سے زیادہ پیدائش کی خبریں بھی ملتی ہیں۔ جن میں ایک جیسے خدوخال بھی مل جاتے ہیں اور ایک جیسی عادت بھی لیکن ایسا بہت کم کم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد قدرت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی، قدرت اپنی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ”اللہ ہر شے پر قادر ہے”۔

    ہر انسان کو قدرت نے کسی نا کسی ایسی خاص صفت سے نوازا ہے جو اسے دوسروں سے منفرد کرتی ہے مگر اس صفت کو اخذ کرنا، جانچنا یا اپنے اندر سے نکالنا ایک ایسے عمل کا محتاج ہے جسے “ریاضت” کہتے ہیں۔ اہلِ تصوف تو اس عمل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں مگر ایک عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔ ریاضت سے مراد ایسا عمل جو آپ کو اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچاننے میں مدد فراہم کرے اور قدرت کے رازوں سے شناسائی دے۔ اس عمل کی بدولت جہاں انسان میں خود آگہی کا شوق پیدا ہوتا ہے، وہیں تحمل اور بردباری بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کسی بھی اچنبھے سے باہر آجاتا ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ گنجلک اور آلودہ ماحول سے باہر آجاتا ہے، ظاہری سطح سے بلند ہو جاتا ہے، وہ بظاہر تو زمین پر چل رہا ہوتا ہے مگر درپردہ اس کے پیر زمین پر نہیں ہوتے، وہ عام انسانوں سے بلند ہوجاتا ہے، اس کی ذہنی کیفیت عام انسانوں سے مختلف ہوتی چلی جاتی ہے۔ اپنی خصوصیت کی بناء پر وہ خاص ہوتا جاتا ہے۔

    آج دنیا میں رہنے والے انسانوں کو جنھیں اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے، بہت برے حالات و واقعات کا سامنا ہے۔ ہم اپنے دشمن خود ہی بنے بیٹھے ہیں۔ انسان کے دل میں خدا بننے کی خواہش اسے اس حال تک پہنچا چکی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی بد نظمی سے گریز نہیں کرتے۔ یہاں تک کے انسانیت کا قتلِ عام کر دیتے ہیں۔ اس دور میں حق کی بات کرنا اور کہنا بلکل بے معنی ہوچکا ہے۔ آج جھوٹے کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر سچ کو کوئی پوچھتا نہیں۔

    ہمارے ملک کی اکثریت آبادی غربت کی لکیر کو چھو رہی ہے، باقی متوسط طبقے میں آجاتے ہیں۔ بات دراصل کچھ یہ تھی کے عاشورہ کے دن ایک طرف تو سوگ ہی سوگ اور رنج، علم و ماتم تھا تو دوسری طرف تقریباً ہر گھر سے کچھ نہ کچھ بانٹا جا رہا تھا، ہر گھر سے بچہ، بچی، بوڑھا جوان ہاتھ میں کچھ نہ کچھ لیے بانٹنے جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ کھانے سے لے کر بچوں کی آئس کریم تک بٹتے دیکھی۔ ایک عجیب سی گہما گہمی تھی۔ کچھ بچے اپنی جیب خرچی سے ٹافیاں خرید کر بانٹ رہے تھے۔ بانٹنے کی ایسی تربیت، اس بات سے قطع نظر کہ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جنہیں یہ بھی نہیں پتہ ہوگا کہ وہ کیوں بانٹ رہے ہیں۔ ہاتھی کی آنکھیں چھوٹی کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آگئی مگر کم حیثیت والے بڑھ چڑھ کر اپنے دین سے محبت میں بڑے سے بڑے امیر کو پیچھے چھوڑتے دیکھے جاتے ہیں۔

    یہی ہم پاکستانیوں کی خوبی ہے کہ جب کبھی بھی وطن سے محبت کا ثبوت دینا ہو تو یہ غریب قوم ریکارڈ خرچہ کر کے ملک کے گلی کوچوں کو سجاتی ہے۔ جب دین سے اسلام سے محبت کا ثبوت دینا ہو تو اپنے لہو سے بھی چراغاں کرتے ہیں اور اتنا کھلاتے ہیں کے کھانے والے کم پڑجاتے ہیں۔ یہ ہم غریب پاکستانیوں کی امیری کی وہ ادائیں ہیں جن سے ہمارا دشمن بھی خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ یہ قوم اپنے ملک اور مذہب کی خاطر “شھد کی مکھیوں” کا جتھا بن جاتی ہے۔ ہم پاکستانی اپنے ملک اور اپنے مذہب کے لیے نہ مارنے سے ڈرتے ہیں اور نہ مرنے سے، اور ہم یہ محبت بغیر کسی ریاضت کے کرتے ہیں۔

  • بھوک کی تازہ رپورٹ-وسعت اللہ خان

    بھوک کی تازہ رپورٹ-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پچھلے اکتالیس برس سے دنیا میں بھوک اور غربت کی رپورٹنگ کر رہا ہے اور اس بابت ماہرین کے تجویز کردہ حل بھی پیش کرتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ ہر سال گلوبل ہنگر انڈیکس ( بھوک کا عالمی اشاریہ ) بھی جاری کرتا ہے۔گذشتہ ہفتے جاری کی گئی سالانہ بھوک رپورٹ کے مطابق اگرچہ سن دو ہزار سے اب تک بھوک کی شرح میں انتیس فیصد کمی آئی ہے مگر آج بھی اس کرہِ ارض پر اسی کروڑ انسان رات کو بھوکے سوتے ہیں۔حالانکہ ان سب کا پیٹ بھرنے کے لیے اناج بھی ہے ، وسائل بھی ہیں ، ٹیکنالوجی بھی ہے۔ سیاسی ارادے کی کمی ، نیت کے کھوٹ اور بدانتظامی پر قابو پا لیا جائے تو کل رات سے اس کرے پر کوئی بھی بھوکا نہ سوئے۔

    یہ سن کے دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ ہماری زمین جو خوراک پیدا کرتی ہے اس کا ایک تہائی یعنی تیرہ لاکھ ٹن کھیت سے پیٹ تک نہیں پہنچ پاتا۔کہیں راستے میں ہی کسی نہ کسی مرحلے پر ضایع ہوجاتا ہے۔اس ایک تہائی خوراک کو پیدا کرنے میں جو سرمایہ ، محنت ، پانی ، بیج ، کھاد ، زرعی ادویات استعمال ہوتی ہیں ان کا زیاں الگ۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ خواہشوں کے پر ہوتے تو سور بھی پرواز کر رہے ہوتے۔

    گذشتہ برس پیرس میں عالمی سربراہوں نے عہد کیا کہ دو ہزار تیس تک دنیا سے غربت اور بھوک کا خاتمہ کردیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو ہزار تیس کے بعد خطِ غربت کی تعریف بھی بدل جائے گی جو اس وقت یہ ہے کہ اگر کسی شحض کی روزانہ آمدنی دو ڈالر ہے تو وہ غریب ہے اور ایک ڈالر ہے تو نہائیت غریب۔اور اگر کسی مرد کو روزانہ اٹھارہ سو کیلوریز سے کم اور عورت کو بارہ سو کیلوریز سے کم غذائیت مل رہی ہے تو وہ ناکافی غذائیت اور بھوک کے گرداب میں ہے۔بچوں کو بڑھوتری کے زمانے میں معیاری غذا نہ ملے تو اثرات زندگی بھر محسوس ہوتے رہتے ہیں۔بالخصوص پندرہ برس کی عمر تک کے ناکافی غذائیت کے شکار بچے کا وزن اور قد نارمل سے کم رہ جاتا ہے اور ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔جسمانی مدافعتی نظام بیماریوں کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔ناکافی غذائیت کی شکار بچیاں صحت مند مائیں نہیں بن پاتیں۔ یوں ایک نسل کی کمی اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

    جس دنیا میں آج رات اسی کروڑ لوگ بھوکے سوئیں گے اسی دنیا میں آج رات پکے ہوئے کھانے کی چالیس فیصد مقدار بھی ضایع ہو جائے گی۔( اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل آج بھی نو سو کلو گرام کے لگ بھگ کھانا ضایع کرے گا۔اس سے آپ پورے ملک کے حال کا اپنے کچن سمیت اندازہ لگا سکتے ہیں )۔

    دنیا کے دو علاقے اس وقت بھوک سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔صحارا پار سیاہ فام افریقہ اور جنوبی ایشیا۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھوک رپورٹ میں ملکوں کی ہنگر گریڈنگ کرتے ہوئے چار عناصر کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔یعنی شرحِ غربت ، بے روزگاری کا تناسب ، صاف پانی تک رسائی اور صحتِ عامہ کی سہولیات۔اس اعتبار سے ایک سو اٹھارہ ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے سینٹرل افریقن ری پبلک ، چاڈ اور زمبیا ہیں جہاں لگ بھگ پینتالیس فیصد آبادی بھوک اور ناکافی غذائیت کے بقائی مسئلے سے دوچار ہے۔مگر اچھی خبر یہ ہے کہ روانڈا ، کمبوڈیا اور برما میں گذشتہ پندرہ برس کے دوران بھوک اور غذائیت کی کمی میں پچاس فیصد تک پیش رفت ہوئی ہے۔

    ایک سو اٹھارہ ممالک کے احوال پر مشتمل بھوک انڈیکس کے مطابق جنوبی ایشیا اور قرب و جوار کی رینکنگ کچھ اس طرح ہے۔چین انتیسویں نمبر پر ( یعنی سب سے بہتر ) ، نیپال بہترویں ، برما پچہترویں ، سری لنکا چوراسیویں ، بنگلہ دیش نوے ، بھارت ستانوے ، پاکستان ایک سو سات ویں اور افغانستان ایک سو گیارہویں نمبر پر ہے۔

    بنگلہ دیش کی رینکنگ سن دو ہزار کی انڈیکس میں چورانوے نمبر پر تھی تاہم اتنی بہتری ضرور ہوئی ہے کہ اب اس کی رینکنگ نوے تک آ گئی ہے۔بھارت میں اس وقت ناکافی غذائیت میں کمی کے لیے دنیا کے دو سب سے بڑے منصوبے جاری ہیں۔ایک منصوبہ چھ برس تک کی عمرکے بچوں کو توانا بنانے کے لیے اور دوسرے منصوبے کے تحت اسکولوں میں دوپہر کا کھانا دیا جا رہا ہے۔مگر کام اتنا آسان نہیں۔ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی میں سے لگ بھگ بیس کروڑ نفوس بھک مری اور ناکافی غذائیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں انتالیس فیصد کی عمر پندرہ برس تک ہے۔

    پاکستان میں آخری مردم شماری اٹھارہ برس پہلے ہوئی تھی لہذا یہ اندازہ ٹھیک ٹھیک لگانا مشکل ہے کہ کتنی آبادی انتہائی غربت میں ہے۔اپریل میں وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک سیمینار میں بتایا کہ پاکستان کی لگ بھگ چھ کروڑ آبادی ( تقریباً تیس فیصد ) خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ( یعنی وہ لوگ جن کی ماہانہ آمدنی تین ہزار روپے سے کم ہے )۔

    پاکستان میں دو ہزار ایک میں یہ کہا جاتا تھا کہ سو میں سے تریسٹھ فیصد لوگ غربت کی تعریف پہ پورا اترتے ہیں۔آج کہا جا رہا ہے کہ اب صرف تیس فیصد کے لگ بھگ غریب رہ گئے ہیں۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ گذشتہ پندرہ برس میں پاکستانی غریبوں کی تعداد میں تینتیس فیصد کمی ہو چکی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر باقی دنیا کو بھی پاکستان کی تقلید کرتے ہوئے سیکھنا چاہیے کہ غربت کیسے کم کی جاتی ہے ؟ اتنی جلد تو ڈبل شاہ رقم دوگنی نہیں کرتا تھا جتنی جلد پاکستان میں غریبوں کی تعداد آدھی رھ گئی۔

    تعجب ہے کہ اس قدر انقلابی چھلانگ کے باوجود بین الاقوامی بھوک انڈیکس میں پاکستان نیپال سے پینتیس ، سری لنکا سے تئیس ، بنگلہ دیش سے سترہ اور بھارت سے دس درجے نیچے اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔اگر واقعی پاکستان میں پچھلے پندرہ برس میں شرحِ غربت کم ہوئی ہے تو اس عرصے میں بھوکوں کو کھانا کھلانے والے اداروں میں اضافہ کیوں ہوگیا ؟ اس وقت کم ازکم قانونی تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے۔جو یقیناً پندرہ برس پہلے کی ماہانہ لازمی تنخواہ سے دوگنی ہے۔لیکن آج اگر احسن اقبال یا اسحاق ڈار چودہ ہزار روپے میں چار رکنی اوسط کنبے کا گھریلو بجٹ مکان کا کرایہ شامل کیے بغیر ہی بنا کے دکھا دیں تو میں زاتی غلام بننے پر آمادہ ہوں۔ہم تو اس پر ہی خوش ہونے کے لیے رھ گئے ہیں کہ آج پاکستان کے زرِ مبادلہ کے زخائر چوبیس ارب ڈالر کی ریکارڈ توڑ سطح تک پہنچ گئے۔

    پاکستان نے اکیسویں صدی کے شروع میں انسانی ترقی کے لیے دو ہزار پندرہ تک جو ملینیم اہداف پورے کرنے کی حامی بھری تھی۔پندرہ برس بعد ان اہداف میں سے بمشکل بیس فیصد پورے ہوئے۔پھر بھی پاکستان نے پچھلے برس مروتاً یہ حامی بھر لی کہ دو ہزار تیس میں غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔شائد اس بار یہ آس باندھی گئی ہے کہ بابا سی پیک لائے گا غربت مٹائے گا۔

    اچھا چھوڑئیے اس بک بک کو۔ایک کام کرتے ہیں۔کل سے گھر میں جتنے نفوس ہیں ان سے زیادہ کا کھانا نہیں پکے گا۔اگر پکے گا تو اگلے وقت وہی کھایا جائے گا یا کسی ضرورت مند کو دیا جائے گا۔اس طریقے سے پاکستان کی مڈل کلاس ، اشرافیہ اور ریستوراں روزانہ سب کی نہیں تو کم ازکم ایک ملین لوگوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں۔جو ویہلے نوجوان ادھر ادھر بیٹھے ٹیم پاسی کرتے رہتے ہیں وہ مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں تشکیل دے سکتے ہیں اور یہ تنظیمیں اضافی کھانا مقامی سطح پر ایک کے ہاں سے جمع کر کے دوسرے تک انفرادی یا اجتماعی انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔

    اب آپ کہیں گے کہ یہ تو قوم کو بھکاری اور ہڈ حرام بنانے کی تجویز ہے۔چلیے میں تجویز واپس لے لیتا ہوں۔آپ ذرا کھانے کا انتظام کر دیجیے۔یا پھر خود مہینہ بھر روزانہ ایک بار بھوکے رہنے کی مشق کر کے دیکھئے۔تاکہ ایک پلڑے میں جعلی انا اور دوسرے میں بھوک کا وزن ہو سکے ( میں ڈائیٹنگ کی بات نہیں کر رہا )۔

  • معاشی ترقی اور عام آدمی – شاہد اقبال خان

    معاشی ترقی اور عام آدمی – شاہد اقبال خان

    معیشت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ قومی خرانے میں کتنے ڈالرز کا ریزرو جمع ہے، نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں سو بڑی کمپنیوں نے اپنے کاروبار میں کتنا اضافہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی بھی کاروبار کے مالک نے کتنا منا فع کمایا چاہے وہ زراعت ہو یا انڈسٹری، اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہماری بر آمدات میں کتنا اضافہ ہوا؟
    تو معیشت کا مطلب ہے کیا؟
    خط غربت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنی آمدنی سے بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ غریب ہونے کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص اپنی بنیادی ضروریات تو پوری کر سکے مگر اس سے زیادہ خرچ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو جیسے کہ زندگی کی آسائشیں ۔پاکستان میں20 فیصد لوگ خط غربت سے بھی نیچے رہ رہے ہیں جبکہ 40 فیصد لوگ غریب ہیں۔ معیشت کا مطلب ہوتا ہے وہ طریق کار جس سے ان 60 فیصد لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو۔

    اگلا اہم سوال یہ ہے کہ معاشی ترقی کو کیسے ماپا جائے؟
    معاشی ترقی کو ماپنے کے لیے عمومی طور پر حکومتیں جو طریقہ استعمال کرتی ہیں وہ اسٹاک مارکیٹ انڈیکس اور فاریکس ریزرو کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری ہے مگر یہ کسی بھی طور پر عام آدمی کی ترقی کو نہیں ماپنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
    عام آ دمی کی معاشی ترقی کو ماپنے کے لیے 3 طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
    سب سے اہم طریقہ بیروزگاری کی شرح ہے، کسی بھی ملک سے اگر بےروزگاری کم ہو جائے تو لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے، اور ان کے پاس اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں تین سالوں میں بہت معمولی ہی سہی یعنی 1 فیصد مگر کمی ضرور ہوئی ہے۔
    دوسری اہم بات 60 فیصد لوگوں کی فی کس اوسط آمدن ہے۔ اگر اس میں اضافہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ حکومت عام طور پر پوری آبادی کی اوسط فی کس آمدن بتاتی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے غربت کے خاتمے یا کمی کی علامت نہیں ہوتی کیونکہ امیروں کی آمدنی میں اضافے سے اوسط آمدن میں تو اضافہ ہو جائے گا چاہے غریبوں کی آمدن میں اضافہ نہ ہوا ہو۔
    تیسری اور آخری اہم بات یہ ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے یا کم از کم انہیں برقرار رکھا گیا ہے یا نہیں۔ اگر بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تو اس سے براہ راست غریب آدمی کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ اس میں ایک اور اہم بات جو قابل غور ہے، وہ یہ کہ اگر ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو تو وہ فی کس آمدن میں ہونے والے اضافہ سے کافی کم ہونا چاہیے. 2016ء کے اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہونیوالی کمی کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بہت معمولی سی یعنی 2 فیصد کمی آئی ہے جو کہ عالمی منڈی میں ہونے والی 35 فیصد کمی سے بہت کم ہے ۔

  • ضلع لیہ کے مظلوم اور ظالم-رؤف کلاسرہ

    ضلع لیہ کے مظلوم اور ظالم-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    لیہ میں اپنے گائوں جیسل کلاسرا جانا اب خوشی سے زیادہ بوجھ کا سبب بن گیا ہے۔
    وہ دن گئے جب انتظار ہوتا تھا کہ اب کی دفعہ گائوں جائیںگے، کچھ آرم، گپ شپ، پرانے دوستوں سے ملاقات، بہن بھائیوں کے ساتھ وقت۔۔۔۔ لیکن اب یہ سب ماضی کا قصہ ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ گائوں جانے سے پہلے اپنی کونسلنگ کرنی پڑتی ہے اور واپسی پر بھی ماہر نفسیات کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ نارمل ہو سکوں۔

    گائوں میں نوجوان بچے کی موت ہوئی۔ میرے بیٹے کی عمرکا تھا۔ دل دکھ سے بھرگیا۔ ہمارے بچپن کا دوست جسے سب پیار سے بھٹوکہتے ہیں،کا پندرہ سالہ نوجوان بیٹا حادثے میں فوت ہوگیا۔ اس کی طویل کہانی ہے۔ اپنے گھر میں غربت اور چھوٹے بہن بھائیوںکو دیکھ کر برداشت نہ ہوا۔ سکول میں گرمیوںکی چھٹی ہوئی تو تونسہ چلا گیا جہاں آٹے کی چکی پرکام کیا کہ کچھ روپے گرمیوں کی چھٹیوں میںکما کر گھر کی ضروریات پوری کرے گا اور پھر سکول بھی جائے گا۔ لیکن وہاں جا کر حادثے کا شکار ہوگیا۔ ڈی جی خان میں مناسب علاج نہ ہوسکا۔ سات دن بے ہوش رہا۔ ماں باپ پندرہ سالہ نوجوان بیٹے کی لاش اٹھا کرگائوں لے آئے۔

    میں جب بھی گائوں جاتا وہ بھاگ کر آجاتا۔ مجھے ماموں کہتا۔ ماموںکوئی کام ہو تو بتائو۔ میں واپسی پر اس کی جیب میں خرچی ڈال دیتا۔ وہ گھر جا کر ماںکو دے دیتا۔ میرے لیے اس کی ماں اور باپ سے تعزیت کرنا مشکل مرحلہ تھا۔ اس کی ماں مجھے دیکھ کر بہت روئی۔ اس کی بہن اس کا موبائل فون اٹھا لائی جس میں اس نے میرے ٹی وی شوکی تصویریں لی ہوئی تھیں۔کہنے لگی وہ تمہارے شوکے وقت کسی اورکو کچھ نہ دیکھنے دیتا۔ بعض دفعہ باتیں سن کر قہقہے لگاتا۔ اگر اس کا باپ کوئی بات کرتا تو فوراً کہتا کروں ماموں رئوف کو فون۔ اس نے گھرکو مسائل سے نکالنے کے لیے پڑھائی کے ساتھ ساتھ مزدوری کی۔ ابھی اس نے نویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا۔ ماں بتانے لگی کہ اس نے مزدوری کرکے پانچ ہزار روپے بھیجے تھے۔کچھ خرچہ کم ہو رہا تھا تو بولاکوئی بات نہیں، اپنا موبائل بیچ کر تمہیں پیسے دے دوںگا۔ ایک ماںکو روتا دیکھ کر دل دکھ سے بھرگیا۔

    گھر لوٹا تو ایک باپ اپنے دس سالہ بیٹے کو اٹھا لایا جس کا ہر ماہ ملتان میں علاج کے لیے جانا ہوتا ہے۔ تیرہ ہزار روپے کی دوائیاں خریدنا ہوتی ہیں۔ چار پانچ کنال کا مالک کسان اب کہاں سے ہر ماہ تیرہ ہزار روپے لائے۔ میں نے کہاکچھ کرتے ہیں۔ دو غریب عورتیں ملنے آئیں۔ پتا چلاوہ سرائیکی ارائیں ہیں۔ زمین پر بیٹھنے لگیں۔ دریا سندھ ان کی زمینیں کھاگیا تھا۔ دربدر ہوکر ہمارے گائوں کے قریب آ بیٹھے ہیں۔

    دریاکی وجہ سے کل کے کھاتے پیتے لوگ فقیر ہوگئے ہیں۔ مشکل سے انہیں اٹھا کر صوفے پر بٹھایا۔ وہ ڈری ہوئی تھیں۔ پتا چلا کچھ عرصہ قبل ان کے گھر پر حملہ ہوا تھا۔ ان کے رشتہ دار نے کسی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ بعد میں صلح ہوگئی لیکن ہمارے گائوں کے لوگوں نے ہی اس کے گھر پر حملہ کیا۔ اس عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ کہانی بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوئوںکی برسات جاری ہوگئی۔ اس غریب عورت اور اس کے شوہر نے مزدوری کرکے ایک ماچھی سے ایک کنال زمین لی تاکہ بچوں کے لیے کمرہ بنا لیں۔ ماچھی آج کل غنڈہ بنا ہوا ہے۔ پچاس ہزار روپے لے کرکھا گیا۔ زمین کا انتقال نہیں ہونے دیا۔ اصرارکیا تو الٹا دھمکیاںدیں۔ غریب لوگ عدالت تک گئے،کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ الٹا گھر میںگھس کر عورتوں پر تشدد کیا گیا۔ مقدمے میں چند سخت دفعات شامل ہوئیں۔ پتا چلا ہے کہ ایس ایچ او تھانہ کوٹ سلطان نے ایک سیاسی فرعون کے کہنے پر وہ دفعات ہٹا دی ہیں۔ ایک مظلوم عورت پر تشدد تھانیدار کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اگر تھانیدار ہو بھی کھوسہ! مفت میں کون کام کرتا ہے۔ تھانیدارکو دیر نہ لگی، یہ انصاف کیا۔ مجھے یہ سب سن کر دکھ ہوا۔گھر میں گھس کر عورتوںکو مارنا۔۔۔۔کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں رہا۔ ظلم سے بچنے کے لئے پیٹھ پر کسی کا ہاتھ ہونا چاہیے۔کوئی ایم پی اے ساتھ ملا لیں یا کونسلر یا تھانیدار۔ یہ سب ملے ہوئے ہیں۔ ان عورتوں پر ہونے و الے تشدد کی کہانی سن کر مجھے نواز لیگ کے سینیٹر یعقوب
    ناصر کا جملہ یاد آ گیا کہ یہ غریب تو پیدا ہی ہوتے ہیں امیروں کی نوکری کے لیے۔ چلیں نوکری کرا لیں، لیکن امیر لوگ ان پر تشدد کیوں کرتے ہیں اور تھانیدارکو ملا کر اپنے خلاف دفعات بھی ہٹو ا دیتے ہیں۔ لیہ کے ڈی پی اوکو علم نہیںکہ اس کے کوٹ سلطان جیسے تھانے کیسے بک رہے ہیں۔کون سا ایس ایچ اوکس ظلم میں شریک ہے۔کیسے ان سیاسی لوگوں نے غریبوں کو غلام بنا لیا ہے۔

    لیہ میں جو پہلے ڈی سی او تھا اس کی کرپشن کی داستانیں ضلع بھر میں اب تک زبان زد عام ہیں۔ تخت لاہور جس ڈی سی او کو انعام دینا چاہتا ہے اسے لیہ بھیج دیتا ہے کہ بیٹا جائو مزے کرو۔ جس نے مزے کیے اور محاورے کے مطابق کسی کے گھرکاکتا بھی رشوت میں نہ چھوڑا اسے وہاں سے ہٹا کر انٹی کرپشن میں لگادیا گیاکہ صاحب تم نے لیہ میں کم کرپشن کی تھی اب یہاں زیادہ لوٹو۔ جس ڈی سی اوکو انٹی کرپشن محکمے کوگرفتار کر نا چاہیے تھا وہ اسی محکمے کے ایک ڈویژنل ہیڈکوارٹرکا سربراہ لگا ہوا ہے۔ یہ تماشہ ہے اس ملک میں! پس ماندہ علاقوںکی آواز میڈیا تک نہیں پہنچتی۔ پہنچ بھی جائے توکون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔

    میرے گھر میں بیٹھی مسلسل روتی دو غریب عورتوںکوکون سمجھائے کہ ان پر جو تشدد ہوا، یہ کارنامہ انجام دینے والے میرے اپنے ہی گائوں کے بدمعاش ہیں اور انہیں سیاسی لوگوںکی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے! تھانے میں ایم پی اے کا نام چلتا ہے ۔گائوںکے دو تین بدمعاش ایم پی اے کے چمچے بن جائیں پھر وہ جو چاہیں کریں۔ تھانیدار ان کا غلام۔ جنہیں خود چھتر لگنے چاہئیں وہ غریب عورتوں کوگھروں میںگھس کر مار رہے ہیں۔ یہ ہے جمہوریت کا حسن اور ڈی پی او لیہ کی کارگردگی۔

    دوسری طرف بیروزگاری گمبھیر مسئلہ ہے ۔گائوں میں غریبوں نے بھی اپنے بچے پڑھانے شروع کردیے کہ وہ صاحب بن جائیں گے۔ اب حالت یہ ہوئی کہ انہیںنوکری نہیں ملتی۔ تین برس قبل میں نے گائوںکے دس غریبوںکے بچوںکو ڈیلی ویجز پر نوکری دلوائی تھی۔ ڈھائی سو روپے دیہاڑی ملتی تھی۔ نواز لیگ کے پیر بھائی ایم این اے کو پتا چلا تو اس نے اس افسرکو گالیاں دیں۔ قومی اسمبلی میں اس کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرائی کہ کیسے ان بچوں کو ڈیلی ویجز پر کام ملا۔ وہ سب لڑکے برطرف ہوئے۔ آج کل وہ گائوں کی گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ باپ دادا کا کام وہ نہیں کرسکتے کیونکہ پڑھ لکھ گئے ہیں اور انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ کون لوگوںکی شیوکرے یا برتن بناکر بیچے۔نوکری ملی تو ایم این اے نے نہیں کرنے دی۔ میں جب بھی جائوں وہ سب آجاتے ہیں۔ وہ نہیں تو ان کے ماں باپ یا بہن بھائی منت ترلہ کرنے آجاتے ہیںکہ ان کا کچھ کر دیں۔ وہی ایم این اے جو خوف کے مارے قومی اسمبلی میں بات نہیں کرسکتا لیہ میں دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد سے ایم این ایز اپنے علاقوں میں غریبوں کو ڈراتے ہیں۔ ان پر ظلم کرتے ہیں۔ تھانیدار استعمال کر کے ان پر تشدد کراتے ہیں۔ جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر تشدد کرانا معمول ہے۔ ایک غریب عورت نے ساری عمر مانگ تانگ کر بیٹے کو بی اے کرایا۔ اس کو بھی ڈیلی ویجز پرکام لے کر دیا۔ اسے بھی ایم این اے نے نکلوادیا۔ وہ ہر دفعہ آتی ہے،گھرکے دروازے پر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے۔ شاید اس دکھیاری ماں کی دل سے نکلی ہوئی آہ کبھی آسمان تک پہنچ جائے۔

    اور سن لیں! تین سال ہوگئے جمن شاہ کے قریب سے ایک بوڑھا بزرگ میرے پاس آیا۔ اس نے اور اس کی بیوی نے اپنے نواسے کو پال پوس کر بڑاکیا۔ اب وہ بی اے کر چکا ہے۔ جب بھی جائوں وہ آتے ہیں۔ اس دفعہ پھر آئے۔ آنے سے پہلے اس لڑکے کی چھوٹی بہن جو تیسری جماعت میں پڑھتی ہے نے کہا اسے ساتھ لے جائیں وہ بات کرے گی۔ وہ اسے پہلے دن ساتھ نہ لائے کہ کیا بات کرے گی؟ دوسرے دن وہ ضدکرکے آئی ۔ سات آٹھ برس کی ہوگئی۔ میرے پاس آئی اور سب کی موجودگی میں بولی آپ کی بھی میری عمر کی بیٹی ہوگی۔ آپ مجھے بیٹی سمجھ کر ہی میرے بھائی کی نوکری کرادیں! میں خاموش نظروں سے اس معصوم بچی کو دیکھتا رہا جو بھائی کی سفارش بن کر آئی تھی۔گائوں کے وہ دس غریب نوجوان یاد آئے جنہیں ڈیلی ویجز پر لگوایا تھا اور وہ سب نواز لیگ کے ایم این اے کا نشانہ بن گئے۔

    یہ کہانیاں ہرگائوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مظلوم ہیں تو ظالموں کی بھی کمی نہیں۔ میں تو اب گلہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہا۔ اب تو ظالم اور بدمعاش میرے اپنے گائوں میں ہی پیدا ہوگئے ہیں جو غریب عورتوں کے گھرگھس کر تشدد کرتے ہیں، بشکریہ مقامی سیاستدان اور تھانہ کوٹ سلطان ۔

    تخت لاہور چن چن کر پولیس افسران اور ڈی سی اوز کو لیہ بھیجتا ہے جو انسانوں کی بجائے ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایزکی غلامی کرکے معصوم انسانوں پر تشدد اور زیادیتاں کراتے ہیں۔ ڈی پی اور تھانیداراب سیاسی لوگوںکے ٹائوٹ بن کر نوکری کرتے ہیں۔ بڑے افسران مال بناتے ہیں اور ہر ماہ خرچہ بیوی بچوںکو لاہور بھیجتے ہیں۔ اور تو اور لیہ کا سابق ڈی سی او جو لوٹ مارکے بعد جیل جانے کی بجائے انٹی کرپشن کا ڈویژنل سربراہ لگ گیا۔

    لگے رہو منے بھائی کیونکہ آپ ظالموں کو پتا ہے۔۔۔۔ہونا کُجھ وی نئیں۔۔۔!

  • داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کی دو تین کمیٹیوں میں گیا۔ جب میں اپنی خودساختہ دانشوری سے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی ذہنی نشوونما کے لیے پارلیمنٹ چلا جاتا ہوں۔ وقفہ سوالات مجھے بہت پسند ہے؛ اگرچہ ایم این ایز کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وزرا کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ بھی نہیں آتے۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم اور اپنی وزارت کے وزیر کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی، لہٰذا وہ بھی وہاں نہیں آتے۔ تاہم میری پروفیشنل نشوونما میں پارلیمنٹ کے وقفہ سوالات کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جائوں۔ وہاں بھی پاکستان کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں، نئے نئے انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔

    خوش ہوتا ہوں کہ چلو میرا دال روٹی چلے گا اگرچہ یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے کے بقول اس ملک میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے۔ جب بھی کرپشن کی بڑی کہانی ان اجلاسوں میں کھل کر سامنے آتی ہے تو ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ اتنی ہی اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہنستے ہیں یا اپنے غیر سنجیدہ پن پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں پتا ہے کہ وہ بھی یہی کام کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے۔ دل پشوری چلتی رہتی ہے۔ ادھر ادھر سب کو اس بربادی پر ہنستے دیکھ کر میں بھی اپنی آواز ان قہقہوں کی گونج میں شامل کر دیتا ہوں۔ میں منہ بسورکر کیوں بیٹھا رہوں۔

    جو کچھ وہاں دیکھا اور سنا وہ تو آپ کو آنے والے دنوں میں ضرور پڑھائوں گا تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کیسے پاکستانی اشرافیہ پاگل ہوگئی ہے؛ تاہم لوٹ مارکی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے راجن پور کے علاقے داجل میں پولیس کی دہشت گردی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا تھا۔ پروگرام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے بہت سارے لوگوں نے جن میں میرے کچھ جاننے والے بھی تھے، دہائی دی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے کیونکہ راجن پور کی پولیس نے حد کردی ہے۔ پولیس جو کچھ وہاں کر رہی ہے، اکثر لوگ فیس بک پر اس کا موازنہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے کر رہے تھے ۔

    پتاکیا تو معلوم ہوا کہ دو بھائی موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستے میں کسی نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار دی۔ ایک بھائی وہیں مر گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ پولیس علاقے کے بدمعاشوں کے ساتھ مل کر قتل جیسی وارداتیں کرا رہی ہے۔ یہ لوٹ مار میں بھی برابر کے شریک ہے۔ لوگ تھانے شکایت لے کر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ظالموںکو وہاں کرسی اور مظلوم کو گالیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو تھانے میں شکایت درج کرانی ہو تو وہ اکیلے نہیں جاتا، وہ اپنے ساتھ علاقے کے چند لوگوں کو لے کر جاتا ہے تاکہ کہیں پولیس اس پر ہی کوئی کیس نہ ڈال دے۔ جب لوگوں نے ایک ہی گھر کے دو نوجوانوں کو گولیاں کھاتے اور ایک کو مرتے دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ تھانے کا گھیرائو کر لیا گیا۔ اس دورا ن ایک پولیس کانسٹیبل نے ہوائی فائرنگ کر دی جس سے بپھرا ہوا مجمع مزید بپھرگیا اور پر تشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور خاصا ہنگامہ ہوا۔

    ہنگامہ تھما تو پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اب تک داجل کے چودہ سو افراد کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے جا چکے ہیں۔ جن کا نوجوان مارا گیا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ان پرچوں کے بعد پولیس نے داجل کے شہریوں پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ رات گئے گھروں میں داخل ہوکر جو ہاتھ لگے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کرتے اور پھر گھسیٹ کر تھانے لے جاتے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے۔ داجل ایک قیامت سے گزر رہا ہے جس کا اس لئے پتا نہیں چل سکا کہ میڈیا کو اس میں دلچسپی نہیں۔ داجل میں جاری دہشت گردی کی رپورٹ کون کرتا۔ پنجاب حکومت کا بھی میڈیا پر بہت زور چلتا ہے، دوسرے داجل اور راجن پور کے مقامی رپورٹر پولیس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ہی دہشت گردی کا مقدمہ نہ درج ہو جائے۔ پولیس نے چودہ سو نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا اور اب جو ہاتھ لگتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کا نام ایف آئی آر میں نامعلوم کے خانے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

    خیر ہم نے اپنے پروگرام میں داجل کے اس واقعے کو اٹھایا۔ ڈی پی او عرفان اللہ کو دعوت دی اور پوچھا کیسے چودہ سو افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا،کیسے ایک ہی ہلے میں اتنے دہشت گرد پیدا ہو گئے؟دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد بدترین تشدد کے واقعات پیش آئے۔ جہاں عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا وہاں گرفتاریاں ہوئیں لیکن کہیں یہ نہیں پڑھا کہ امریکی پولیس نے امریکیوںکو دہشت گردی کے الزام میںگرفتارکر لیا ہو۔ عرفان اللہ ہمیں دہشت گردی کا قانون سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی فلاں دفعہ میں کیا لکھا ہے۔

    میرا کہنا تھا کہ سرائیکی علاقے کے لوگ پر امن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ تخت لاہور وہاں کے سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ مل کر زیادتیاں کرتا ہے، وہ بے چارے پھر بھی لاہورکے بادشاہوں اور ان کے سیاسی خادموںکو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کو ترقیاتی فنڈ میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایک مرکزی پل نشتر گھاٹ پچھلے پندرہ برس سے نہیں بن سکا جبکہ لاہور میں پچھلے دنوں ایک رنگ روڈ اور بائی پاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا اور جمعہ کے روز کالا شاہ کاکو پر ستائیس ارب روپے کے نئے روڈ کا افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں آپ جائیں تو کانپ جائیں کہ کس دنیا میں یہ لوگ زندہ ہیں۔

    آخر کیا وجہ ہے کہ پُر امن سرائیکی لوگ بھی پر تشدد کارروائیوں پر مجبور ہوگئے، انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ بھی ہتھار اٹھا لیں اور پولیس کے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ مرنے مارنے پر تل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب پسماندگی نے اپنے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ کیا اب لوگ غربت اور پسماندگی کے ہاتھوں تنگ آکر ڈکیتی اور دہشت گردی پر اتر آئے ہیں؟ پولیس اور مقامی سرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے آخر صرف داجل جیسے چھوٹے سے شہر میں ہی چودہ سو دہشت گرد کیوں پیدا کردیے ہیں۔ توکیا جو لوگ تھانے میں پولیس کی دہشت گردی کے شکار ہوکر لوٹیںگے وہ چھوٹو گینگ نہیں بنائیںگے؟

    جب مقابلے کا وقت تھا داجل کے یہ ”دجال‘‘ بھاگ گئے تھے، اب نہتے اور بے بس لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ روزانہ نئے چھاپے اور نئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
    ایک ایسے ہی چھاپے کی روداد پر مبنی خبر پڑھیں جو میری نظر سے گزری۔

    خبر کے مطابق راجن پورکے ڈی پی او عرفان اللہ نے پولیس پارٹی تیارکی اورکہا کہ آج ہم اس علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کے گھر پر چھاپہ مارنے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اپنی گنیں پکڑیں اور چل پڑے۔ اس سے ایک روز قبل اس خطرناک ڈاکو کے ایک بھائی پھالو کو پولیس نے مار ڈالا تھا۔ آج اس کے دو خطرناک بھائیوںکو مارنے کا پلان تھا۔ پولیس نے جاتے ہی ڈاکو کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس خطرناک ڈاکو مطاہرا کے گھرگرفتاری کے لیے پہنچی توسب یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے کہ دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈکیت کا پورا خاندان دیواروںکے بغیر جھونپڑی میں رہ رہا ہے ۔ خطرناک ڈاکو کی تین سالہ بیٹی سخت بیمار تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے پانچ افراد کے لیے دو چارپائیاں جبکہ کنستر میں صر ف دوکلو آٹا تھا۔ بچی کے علاج معالجے کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈی پی اوکو بچی کی حالت دیکھ کر رحم آیا اور جیب سے دو ہزار روپے نکال کر دیے اور واپس لوٹ گئے۔

    یہ ہیں داجل کے ڈاکو جن کا ایک بھائی ایک دن پہلے پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ کیا اس کے دو بھائیوںکو بھی دجال پولیس جلد مارکر انصاف کا بول بالا کرے گی؟ داجل کے یہ کیسے ڈاکو ہیں جن کی تین سالہ بیٹی بیمار ہے اور علاج کے لیے ٹکا نہیں، کنستر میں صرف دو کلو آٹا اورسونے کے لیے چارپائیاں تک نہیں! یہ کیسے ڈاکو ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جن کو مارنے کے لیے پولیس جاتی ہے اور الٹا دو ہزار روپے دے کر لوٹتی ہے۔ بہت جلد اس جھونپڑی کے دیگر خطرناک ڈاکو بھائی بھی مارے جائیں گے۔

    اب ان تین خطرناک ڈاکو بھائیوںکے انجام کے بعد اس جھونپڑی کی بچ جانے والی مالکہ۔۔۔۔ ایک بے بس ماں ہے جو جلد بیوہ ہونے والی ہے۔ اس کے چار چھوٹے بچے یتیمی کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والے ہیں۔کیا جانیں داجل کے یہ دجال! مجال ہے دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف گلے پھاڑنے والوں میں سے کسی نے داجل میں جاری اس دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو! واہ رے داجل اور داجل کے دجال۔۔۔!

  • جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    rouf clasra

    2010 ء کے سیلاب کے بعد پہلے ہالی ووڈ کی خوبصورت اداکارہ انجلینا جولی نے ہمارا پول اپنی رپور ٹ میں کھولا تھا، رہ سہی کسر اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے نے پوری کر دی ہے۔

    مارک آندرے نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ سب حیران ہیں کہ ایک غیرملکی کو پاکستان اور اس کے غریبوں سے اتنی محبت کیسے ہوگئی۔ وہ ان کا درد کیونکر محسوس کرتا ہے جن سے اس نے ووٹ نہیں لینا، جن کے ٹیکسوں پر اس نے عیاشی نہیں کرنی اور نہ ہی ان کے ملک کے پیسے سے لندن، دبئی یا پاناما میں جائیدادیں بنانی ہیں۔ آندرے کو یہ خوف بھی دامن گیر نہیں ہواکہ وہ ایک حکومت، سول ملٹری بیوروکریسی، سیاستدانوں اور امیر طبقات کو اپنا دشمن بنا رہا ہے جو اس کی اقوام متحدہ کے سربراہ سے شکایت بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ننگا کرنے پر تل گیا ہے جو اس کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔

    آخر مارک کو اس دشت کی سیاحی میں کیا ملے گا۔ وہ کیوں طاقتور لوگوں سے بگاڑ کر پاکستان سے جا رہا ہے۔ اسے پاکستان کے غریبوں کی بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ کیوں رومن جنرل سیزرکی لاش پر مارک انٹنی جیسی شہرہ آفاق تقریرکرہا ہے۔ وہ کیوں رومن شہریوں کی طرح پاکستانی غریبوں کی لاشوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ وہ کیوں دہائی دے رہا ہے کہ اگر پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو ایک دن پاکستانی معاشرہ اس کے بدترین اثرات بھگتے گا۔ اس نے کتنی دکھ بھری آواز میں کہا کہ ملک ایسے نہیں چلتے جیسے پاکستانی اشرافیہ چلا رہی ہے۔

    یہی بات جولی نے کہی تھی جو اب تک پاکستان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرین اور افغان مہاجرین کے لیے پچاس ملین ڈالر (پانچ ارب روپے) کا چندہ دے چکی ہے۔ جولی کو بھی پاکستان پہنچ کر جھٹکا لگا تھا، جب وزیراعظم ہائوس میں اس کے سامنے کھانوںکی طویل میز سجائی گئی تھی۔ اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا نے جگتیں ماری تھیں۔ ہر کوئی جولی کے ساتھ تصویریں بنوانے کے چکر میں تھا۔ اسے متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جولی جاتے وقت سیلاب زدگان کے لیے پانچ ملین ڈالر کا عطیہ دے گئی تھی۔ اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ اقوا م متحدہ کے لیے رپورٹ لکھی جس میں حیرت ظاہر کی کہ وہ اپنی آمدن میں سے اس ملک کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ دے آئی ہے مگر وہاں کسی کو پروا نہیں کہ غریب مرے یا جییے۔کیمپوں میں لوگ مر رہے تھے اور وزیراعظم ہائوس میں کھابوںکی طویل فہرست تھی جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔

    کیا ہماری اشرافیہ کو جولی کی رپورٹ پڑھ کر شر م آئی تھی کہ اب مارک آندرے کی دل سے کہی ہوئی باتوں پر یہ طبقہ شرما جائے گا؟ مارک آندرے چار سال تک پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارے کا سربراہ رہا۔ اس نے اس دوران چاروں صوبوں کا دورہ کیا۔ فاٹا کے علاوہ ملک کے ان حصوں میں بھی گیا جہاں جانا انتہائی دشوار تھا۔ اسے سکیورٹی کی وارننگ بھی نہ ڈرا سکی۔ معلوم نہیں کب اسے پاکستان کے غریب لوگوں سے پیار ہوگیا۔ ان کے دکھ دردکا احساس ہوا۔ مارک آندرے کو لوٹ مارکرنے والے اشرافیہ سے چڑ ہوگئی۔ وہ حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ملک کو کیسے چلا رہی ہے۔کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں۔

    اس ملک کی اشرافیہ اپنے ہم وطن غریبوں کو لوٹ کر لندن، دبئی، نیویارک اور نامعلوم کہاں کہاں جائیدادیں خرید رہی ہے۔ انہیں اس ملک کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں۔ آندرے کا کہنا ہے ایسی اشرافیہ کا اچار ڈالا جائے جو پیسے بنانے کے لیے سستی اور غیر تعلیم یافتہ لیبر کا استحصال کرتی ہے! ایسی اشرافیہ نہیں ہونی چاہیے جو جشن منانے اور موج مستی کے لیے لندن جائے اور خریداری دبئی جا کر کرے۔ مارک کا کہنا ہے پاکستان کے امیر طبقے کو اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پاکستان چاہیے یا نہیںکیونکہ جس طرح کی لوٹ مار ہو رہی ہے اس طرح ملک نہیں چلتے۔ مارک کے مطابق وہ ایسے بہت سے پاکستانی زمینداروں اور جاگیرداروں کو جانتا ہے جنہوں نے صدیوں غریبوںکا استحصال کیا۔ یہ لوگ اقوام متحدہ جا کرمطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پانی، صفائی اور تعلیم کے لیے امداد دی جائے حالانکہ ان کی اپنی جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں۔

    آندرے کے دل میں تکلیف کو آپ سب محسوس کرسکتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ بہت قابل ہیں لیکن وہ اتنی ترقی نہیں کر پا رہے جتنی ان میں صلاحیت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس ملک میں آٹھ کروڑ لوگ غریب ہوں وہ ایسے نہیں چل سکتا۔ وہ کراچی کی صورت حال کو خطرناک قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے اگر کراچی کو ملکی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے تو پھر وہاں عوامی مفاد کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ مارک خبردار کرتا ہے کہ پاکستان میں حالات اب صحارا (افریقہ) جیسے لگتے ہیں۔ چند اضلاع کو دیکھ کرافریقہ یاد آ جاتا ہے۔ باقی چھوڑیں، پاکستان اب تک مردم شماری نہیں کرا سکا۔ فاٹا جائیں تو لگتا ہے وہاں کے لوگ سترہویں صدیں میں جی رہے ہیں۔

    وہاں اصلاحات کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں، عورتوں اور فاٹا کے لوگوں کے بنیادی حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے تو بنا دیے گئے ہیں لیکن نہ ان کے پاس اختیار ہے نہ فنڈ۔ تاہم خیبر پختونخوا میں مارک کے بقول کچھ اچھا کام ہوا ہے ۔ ایک تو خیبر پختونخوا کا بلدیاتی اداروںکا قانون پنجاب اور سندھ سے بہت بہتر ہے، دوسرے وہاں بلدیاتی اداروںکو اربوں روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب اور سندھ میں بہتر قانون بنایا گیا نہ ان اداروں کو فنڈز دیے گئے ۔ مارک کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ الیکشن کرادیں اور پھر بات ختم۔ آپ انہیں اختیارات دیں، فنڈز دیں۔

    مارک پہلا اور آخری غیرملکی نہیں جو پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اور بے حسی پر پھٹ پڑا ہے۔ اداکارہ جولی کے بعد برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں بھی اس طرح کی تقریریں سننے کو ملیں۔ برطانیہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کے لیے تقریباً ایک ارب پائونڈ امداد دیتا ہے۔ ہائوس آف کامنز میں بحث ہوئی تھی کہ اس امداد کا پاکستان کے عام لوگوں کوکیا فائدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنے لوگوںکے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی آمدن سے پاکستان کو ڈیرھ سو ارب روپے امداد اس لیے دیتا ہے کہ اس کے غریب پڑھ جائیں، انہیں بہتر زندگی میسر ہو۔ برطانوی ارکان نے پوچھا تھا کہ اگر پاکستان اتنا غریب ہے تو پھر پاکستانی حکمران لندن میں اربوںکی جائیدادیں کیسے خرید لیتے ہیں؟ پاکستانی عوام پر جو لوگ حکمرانی کرتے ہیں وہ سب کچھ لوٹ کر برطانیہ لے آتے ہیں اور یہاں جائیدادیں بناتے ہیں۔

    برطانیہ کے ہائوس اف کامنزکے بعد اس طرح کی گفتگو امریکی کانگریس میں بھی سننے کو ملی جب وہاں پاکستان کو ایف سولہ طیارے رعایتی نرخوں پر دینے کے بل پر بحث ہوئی۔ اس بل کے تحت امریکہ، پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر اپنی طرف سے ایف سولہ بنانے والی کمپنی کو دینے پر راضی تھا۔ پاکستان نے سات سو ملین ڈالرکی اس ڈیل میں ڈھائی سو ملین ڈالرادا کرنے تھے؛ تاہم کانگریس نے اس کی منظوری نہ دی جب رکن نے کھڑے ہوکر پاکستانی اشرافیہ کو ننگا کر دیا اور پوچھا کہ امریکی عوام کا پیسہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کو عیاشی کے لیے کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کو جہاز چاہئیں تو وہ پوری رقم ادا کرے۔ امریکی لوگوں کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت میں سے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالرکی خیرات کیوں دی جائے؟ سب اس رکن کی تقریر سے متاثر ہوئے اور بل روک دیا گیا۔

    پانچ سو ملین ڈالرمعمولی رقم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین جمع کرنے کے لیے یورو بانڈ کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین قرضہ نیویارک میں لیا جس پر دس برس میں پاکستان چار سو دس ملین ڈالر سود ادا کرے گا۔ یہ اورکہانی ہے جو سینیٹ کے کمیٹی میں دم توڑ گئی۔ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کون سے شرفا نے پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے بھیج کر یہ مہنگے یورو بانڈ خریدے جو دس برس بعد لمبا مال کمائیںگے۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے سلیم مانڈوی والا اورکمیٹی کے ممبران کو ایسا ڈرایا کہ انہیں دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

    ایک عالمی این جی او اکسفام نے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون لیڈر کی سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد میں لوٹ مار پر کا رونا رویا تھا۔ جو پیسہ بیرون ملک سے سندھی سیلاب زدگان کے لیے بھیجا گیا وہ ادی اور ادی کے حواری کھاگئے۔

    بیرونی قرضوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرکا قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا گیاوہ سب اس نے اپنے پچھلے قرضے کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر لیا۔ ماہر معاشیات اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے بیرونی قرضوں کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ حفیظ پاشاکو سنیں تو رات کو نیند نہیں آتی کہ کتنا قرضہ لیا جا رہا ہے اورکس بے دردی سے خرچ ہو رہا ہے۔ انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارت کار نے خبردارکیا ہے کہ جب پاکستان کا قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچے گا تو دنیا پاکستان کے نیچے سے قالین چھین لے گی اور نیوکلیر پروگرام ختم کرنے سے کم پر ڈیل نہیں ہوگی۔ حفیظ پا شا کہتے ہیںکہ 2018ء تک یہ قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

    دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کی تقریریں سنیں اور شہبا ز شریف کی چین سے ترکی تک کی آنیاں جانیاں دیکھیں تو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ نے پاکستان کی خوشحالی دیکھ کر پاکستان سے دس ارب ڈالرکی امداد مانگ لی ہے!

  • بھارت سے پاکستان کا کیا موازنہ؟-ہارون الرشید

    بھارت سے پاکستان کا کیا موازنہ؟-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔

    بھارتی اخبارات دیکھے جائیں تو شاید کچھ اور تفصیلات مل جائیں۔ تفصیلات سے مگر کیا حاصل۔ چھوٹی سی کہانی ہے مگر عبرت کی ایک پوری دنیا۔ اڑیسہ کے سرکاری ہسپتال میں دانا ماجھی کی بیوی نے دم توڑ دیا۔ روپیہ نہ تھا کہ ایمبولینس کا کرایہ ادا کر سکتا۔ کمبل میں نعش لپیٹ کر اس نے کندھے پر رکھی اور اپنے گائوں کی طرف چلا۔ سولہ کلومیٹر تک چلتا رہا تاآنکہ ایک ٹی وی چینل کو خبر ہوئی۔ انہوں نے گاڑی کا بندوبست کیا مگر اس سے پہلے فلم بنانے میں کوتاہی نہ کی۔چھوٹی سی کمسن بیٹی اس کے ساتھ روتی ہوئی بھاگتی جاتی تھی۔

    یہ ہے بے درد بھارت کا اصل مکروہ چہرہ‘ ہمارے بعض لیڈراور دانشور جس کی مدح کرتے مرے جاتے ہیں۔ ہندوستان جاتے تو لوٹ کر آنے پر طرح طرح کی طلسمی کہانیاں سناتے ہیں۔ فکری بِھک منگے اور کھوکھلے۔ اس معاشرے کے باطن میں کم ہی جھانکتے ہیں جو آج کی دنیا میں‘ واحد بت پرست سماج ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ہمارے وزیراعظم اور وہ میڈیا گروپ بھی جو سب سے بڑا ہونے کا دعویدار ہے۔ ایک اعتبار سے پورا میڈیا ہی‘ خبرنامے مکمل نہیں ہوتے اگر کسی بھارتی فلم یا اداکارہ کاجلوہ نہ ہو۔

    47 سال قبل 1969ء میں صحافت سے وابستہ ہونے کے لیے لاہور آیا تو تلخ تبصرے اکثر سننے میں آتے۔ ہندوئوں نے لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال بنایا‘ گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا‘ مسلمانوں نے کیا کیا؟ پاکستان وجود میں آیا تو اس خطے میں فی کس آمدنی 80 ڈالر تھی اور بھارت میں 180 ڈالر۔ مسلمان غریب تھے۔ کاروبار سے وہ کبھی وابستہ ہی نہ تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان صدیوں پہلے انہوں نے بھلا دیا تھا کہ رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں رکھے گئے۔ کاشتکاری کو انہوں نے شعار کیا یا سپاہ گری اور دوسری نوکریوں کو۔ نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا۔

    قائداعظمؒ کے سارے قول سچے ہوئے۔ بار بار انہوں نے کہا تھا : پاکستان لامحدود وسائل کی سرزمین ہے۔ مسلمان کی سرشت میں آزادی ہے۔ ترکی اور ملائشیا کی طرح مواقع فراہم ہوں تو وہ کرشمے کر دکھاتا ہے۔ شرط وہی ہے کہ اجتماعی حیات میں ابدی اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ پاکستان جب تک مکمل طور پر شورش اور بدعنوان حکمرانوں کی گرفت میں نہ آ گیا‘ بھارت کے مقابلے میں اس کی شرح نمو زیادہ رہی۔ بعض اوقات دو سے تین گنا تک۔ 1988ء تک ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھلتے پھولتے رہے‘ تاآنکہ ہم نے اس جمہوریت کا مزہ چکھا‘ جس کے کرتا دھرتا سیاست کے نام پر تجارت کرتے رہے۔ لوٹ لوٹ کر ملک کی دولت ملک سے باہر بھیجتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف۔ اس اثنا میں بھارت نے جواہر لعل نہرو کے سوشلزم سے نجات پائی اور آزاد منڈی کی نعمت کا ادراک کر لیا۔ نوکر شاہی کی گرفت ڈھیلی کر دی گئی اور دوسرے ملکوں کے ساتھ لین دین کے دروازے کھول دیے۔

    پاکستان کی کاروباری قوت کو پہلے بھٹو نے کچلا‘ پھر ان کی اولاد اور شریف خاندان نے۔ بینک‘ انشورنس کمپنیاں اور بڑی بڑی صنعتیں قومیائی گئیں۔ صرف بینکوں کو اچک لینے سے ملک کو 25ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ سماجی انصاف ‘جی ہاں انصاف ضروری تھا۔ اللہ کی زمین پر عدل سے بڑی کوئی سعادت نہیں‘ جہاں اس کے بادل برستے ہیں آسودگی کی فصل وہیں اگتی ہے۔ بھٹو نے عام آدمی کو آواز عطا کی۔ سیاست میں اس کے کردار کو فروغ دیا۔ مگر یہ کیوں ضروری تھا کہ کاروباری طبقے کی کمر توڑ دی جائے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر کوئی معاشرہ آسودہ نہیں ہو سکتا۔ اس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جیسا کہ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کمال اختصار اور کمال بلاغت سے‘ مالک بن اشتر کے نام اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔

    عرب کبھی تجارت کے سب اسرار سے آشنا تھے۔ ان میں سے ایک سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہا کہ مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر وہ گھوڑے پالنا چاہتا ہے ۔ فرمایا: ضرور‘ مگر مدینہ کا چارہ تم استعمال نہیں کر سکتے۔ اس نے احتجاج کیا اور اپنے حق کے لیے وہ احتجاج کرنے والے لوگ تھے۔ فرمایا: چارہ محدود ہے‘ ایک آدھ گھوڑا پالنے والا بیچارہ کیا کرے گا؟

    بس اتنی سی ضرورت ہوتی ہے ‘کاروبار ہو یا سیاست‘ صنعت یا سرکاری و نجی دفاتر‘ نگرانی کے ایک چُست نظام کی۔ آزادی ہی میں صلاحیت پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ آدمی میں مگر غلبے کی جبلت پائی جاتی ہے۔ بے مہار ہونے کی اسے اجازت نہ ملنی چاہیے۔ اس نکتے کا جس معاشرے نے ادراک کر لیا‘ کوئی چیزاس کے فروغ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مکمل آزادی اور پورا ڈسپلن‘ قانون کی حکمرانی‘ ایسی پولیس اور عدالتوں کے ذریعے جو حکمرانوں کے آلہ کار نہ ہوں۔

    بے شمار الجھنوں اور پیچیدگیوں کے باوجود‘ جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اقتدارپتھر دلوں کے قبضہ قدرت میں ہے‘ پاکستانی معاشرہ‘ بھارتی سماج سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہزاروں بھارتی کسان ہر سال خودکشی کرتے ہیں کہ قرض نہیں چکا سکتے اور بھوک مٹا نہیں سکتے۔ ہزارہا بھارتی عورتیں جنم لینے سے پہلے اپنے بچوں کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں شرح آمدنی بڑھ جانے کے باوجود دس کروڑ سے زیادہ بھارتی شہری فٹ پاتھوں پر پڑے ہیں۔ وہیں جنم لیتے‘ وہیں پروان چڑھتے اور وہیں مر جاتے ہیں۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا‘ ڈاک کا کوئی پتہ نہیں ہوتا‘ درحقیقت کوئی رشتہ اور ناتہ ہی نہیں۔ صرف دہلی میں ہر روز اوسطاً پچیس افراد بھوک سے مر تے ہیں۔ کیا پاکستان میں اس کا تصور بھی کیا جاسکتاہے۔ بہت سے مظلوم اور دکھی ہیں۔

    دکھوںکا مداوا چاہیے‘ اندمال چاہیے۔ جاگیرداروں کے جبر سے انہیں نجات دلانی چاہیے۔ اورنج ٹرینوں اورجنگلہ بسوں پر سرمایہ برباد کرنے کے بجائے ، ایسے منصوبوں پر لگانا چاہیے جن سے ملازمتیں پیدا ہوں۔ اس جورو ستم کے باوجود جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں، بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ؟کسی بھوکے کو اورکہیں کھانا میسر نہ ہو تو داتاگنج بخشؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ اور بری سرکارؒ کے مزارپر لازماً ہو گا۔ شوکت خانم ہسپتال عجب شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے‘ گنگا رام جس کے ایک کونے میں سما جائے۔ ایک کے بعد دوسرا۔جنرل خداداد مرحوم کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے۔ نوے فیصد مریضوں کا مفت علاج کرنے والے الشفا ہسپتال کی سات سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں۔

    لاہور کے ہسپتالوںمیں ہر مریض اوراس کے لواحقین کو بہترین کھانا مفت ملتا ہے۔ پورے احترام کے ساتھ ۔ اپنی غربت اور بیماری کو ہم بہت روتے ہیں۔ بجا کہ لمبے دانتوں والے ستمگر بہت ہیں۔ مگر تیسری دنیا میں کہیں اور بھی کوئی ایدھی فائونڈیشن پائی جاتی ہے۔ کہیں اور بھی کوئی اخوت پائی جاتی ہے، کوئی بھی شہری جس سے بلا سود قرض حاصل کر سکے۔ انسانی خدمت پرنوبل انعام اگر حقدار ہی کو دیا جاتا تو عبدالستارایدھی اورڈاکٹر امجد ثاقب کو بہت پہلے مل چکا ہوتا؛ اگرچہ اس سے وہ بے نیاز ہیں۔

    بیس برس ہوتے ہیں،ڈاکٹر شعیب سڈل سے میں نے کہا: پاکستانی ہرسال 70 ارب روپے خیرات کرتے ہیں۔ پولیس افسر کی نگاہ سماج کی خرابیوں پر زیادہ ہوتی ہے۔ بولے: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عرض کیا: آغا خان فائونڈیشن کا جائزہ ہے۔ بعد کے برسوں میں تصدیق ہوتی گئی۔ اب یہ کم ازکم دس گنا ہے۔ بعد کے مطالعوں سے معلوم ہوا کہ دوسری اقوام کے مقابلے میں اہل پاکستان دوگنا زیادہ خیرات کرنے والے لوگ ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کے طفیل ، ان کے ایک کروڑ سے زیادہ غریب رشتہ دار قوت لایموت پاتے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ رمضان المبارک میں دو کروڑ پاکستانیوں کے لیے افطار کا بندوبست ہوتا ہے۔

    تیس برس ہوتے ہیں ممتاز بھارتی دانشور خشونت سنگھ نے لکھا تھا: پاکستان میں ڈرائیور کو ”بیٹا‘‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ تقریبات میں وہی کھانا اسے دیا جاتا ہے جو دوسرے مہمانوں کو۔ بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ۔

    جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔

  • حاجی صاحب کی قربانی اور انسانیت – محمد سلمان اسلم

    حاجی صاحب کی قربانی اور انسانیت – محمد سلمان اسلم

    محمد سلمان اسلم بقر عید کے دن قریب تھے، حسبِ روایت اس دفعہ بھی حاجی صاحب نے قربانی میں سب پر بازی لینے کی ٹھان رکھی تھی. ایک دن حاجی صاحب نے اخبار میں اشتہار دیکھا جس میں شہر کے مہنگے ترین جانور کا ذکر تھا، انھوں نے پتا نوٹ کیا اور اگلی صبح ملازم کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر شہر کی راہ لی. مقررہ جگہ پہنچے، علیک سلیک کے بعد قربانی پر تھوڑا زور دیا اور ان لوگوں پر شدید تنقید کی جو سال بھر میں اتنی رقم بھی جمع نہیں کر سکتے کہ قربانی کر سکیں. حاجی صاحب کی باتوں سے مالک کافی حد تک متاثر ہوا اور حاجی صاحب کے ایمانی جذبے کی تعریف کرنے لگا. حاجی صاحب نے بغیر بھاؤ تاؤ کے جانور کی منہ مانگی قیمت ادا کی تو مالک کو مصمم یقین ہوگیا اور بزبان پکار اٹھا کہ باخدا یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدولت اللہ ہم سے راضی ہے. بیل کو گاڑی میں لاد کر حاجی صاحب شہر سے روانہ ہو گئے.

    حاجی صاحب کا ملازم ان کے لیے نشر و اشاعت کا کام بھی بڑی ذمہ داری سے انجام دیا کرتا تھا. اس نے جیسے کیسے حاجی صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گاؤں میں بیش قیمت بیل خریدنے کی خبر پہنچا دی. حاجی صاحب نے تمام لوگوں کو اپنا منتظر پایا، بصیرت سے کام لیتے ہوئے اور ملازم کی تعریف کی اور نقد انعام بھی دیا. وہاں پر جمع غریب لوگوں کو دیکھ کر حاجی صاحب نے کسی قدر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے ان کو دولت جیسی عظیم الشان نعمت عطا فرمائی ہے. ادھر موجود غریب لوگوں نے حاجی صاحب کی خوب تعریف کی اور کسی قدر للچائی ہوئی نظروں سے بیل کی طرف دیکھنے لگے. حاجی صاحب کی بصیرت نے بھانپ لیا اور ہمیشہ کی طرح مانگنے کو غیر معاشرتی طریقہ ٹھہرایا اور محنت کی تلقین کی، اور صبر پر اللہ کے انعامات کا درس دیا اور بتایا کہ ان کی دولت بھی صبر ہی کا پھل ہے. کوئی اپنی بیٹی بیاہنے کے لیے حاجت کر رہا تھا اور کوئی بوڑھی ماں کی دوا کے لیے مگر جوں کے توں حاجی صاحب اسے خدائی قانون اور آزمائش ٹھہراتے رہے. ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی حاجی صاحب تو جیت گئے مگر انسانیت ایک دفعہ پھر بیوہ کا روپ دھار کر کہیں ویرانے میں جا آباد ہوئی.

  • بیٹھک اور ٹھیلے والے اشرف میاں – عبد الرحمن قیصرانی

    بیٹھک اور ٹھیلے والے اشرف میاں – عبد الرحمن قیصرانی

    بیٹھک میں چند دوستوں کے ساتھ نشست جاری تھی اور گفتگو کا موضوع بے روزگاری تھا۔ اکرم علی صاحب جو کہ قریبی سکول میں ٹیچر ہیں، بار بار تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے اور بےروزگاری کا حل تعلیم و شعورکا حصول بتلاتے۔ ہمیں کبھی تو اُن سے اختلاف ہوتا اور کبھی ذہن اُن کے دلائل پر لاجواب ہو جاتا۔ حاجی صاحب بھی شریکِ محفل تھے۔ موصوف کافی تجربہ کار تاجر ہیں اور قریبی بازار میں اُنک ی دکانیں ہیں۔ حاجی صاحب علم و ادب سے بہت زیادہ لگائو رکھتے ہیں۔ معاشرتی اصلاح کے موضوع پر اُن کی تجاویز کافی حیرت انگیز اور قابل ِ تحسین ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی وہ ہمیں روزگار کے لیے درکار جدوجہد اور بےروزگاری کے اسباب سے متعلق اپنی رائے دے رہے تھے۔ اسی دوران اشرف بیٹھک میں داخل ہوا۔ وہ ٹھیلے پر سبزی لیے محلے کی گلیوں میں گھومتا ہے۔ اور شام سے ذرا پہلے واپس لوٹتا ہے۔ سبزی بیچنا اُس کا ذریعہ معاش ہے۔ اُس نے اپنے کاندھے سے صافہ کھینچ کر چہرے سے گرد صاف کی اور صافہ واپس کاندھے پہ ڈال دیا۔ ــ’’منشی صاحب! کیسے مزاج ہیں‘‘ سب لوگوں سے علیک سلیک کے بعد اشرف نے ہمیں مخاطب کیا۔ ’’ الحمد للہ ۔اشرف میاں کیسا گزرا آج کا دن‘‘ ہم نے بھی جوابا مصافحہ کرتے ہوئے اُس سے پوچھا۔ ’’او منشی صاحب۔ میرا ہر دن ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ جب ٹھیلہ خالی ہوتا ہے تو میرا دن ختم ہوتا ہے۔ ہاں البتہ کبھی جلدی اور کبھی دیر سے‘‘۔ اُس نے جوابا ہمیں فلسفہ سُنایا۔ جس کی ہم نے حسب توفیق داد دی۔

    اکرم علی صاحب نے ایک بار پھر تعلیم کی اہمیت پر ایک جملہ کہا تو اشرف بولا۔ ’’ماسٹر جی یہ تعلیم ہے تو بہت بڑی نعمت اس میں شک نہیں۔ لیکن اسے بھی ہمارے ارباب اختیا ر نے ایک خاص طبقے کے لیے محدود کر دیا ہے‘‘۔ ہم اُس کی اس بات پر چونک گئے تھے، کہ اشرف نے مزید کہا۔ ’’دیکھیں ناں ماسٹر جی، اب میں نے اپنے زمانے میں آٹھ جماعتیں پڑھ کر اپنے والد کی جگہ یہ سبزی بیچنا شروع کی اور آج تک وہی کر رہا ہوں۔ مجھے مزید پڑھنے کا موقع نہ مل سکا لیکن میں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی ہے۔ بڑے دونوں بچے سولہ جماعتیں پاس کر چکے ہیں۔ چھوٹا بھی گیارہویں جماعت میں ہے لیکن آپ یہ دیکھیں کہ میرا بیٹا اپنا آبائی پیشہ اپنانے کو تیار نہیں۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی دفتری عہدہ پر کام کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے رہنمائوں نے اس کے لیے کسی دفتر تک رسائی کا راستہ نہیں چھوڑا۔ پہلے تو مطلوبہ تعلیم، پھر امیدواروں کا امتحان اور پھر انتخاب کے لیے علاقائی تقسیم اور اس کے بعد نتیجہ ندارد۔ یعنی جگہ جگہ امتحان اور ہر امتحان کے لیے علیحدہ فیس۔ پھر اگر امتحان پاس بھی ہو جاوے تو انٹرویو میں معیار پر پورا نہیں اترتے وغیرہ وغیرہ۔ ماسٹر جی ! جو شخص سولہ سال کی تعلیم کے مختلف امتحان پاس کر چکا ہے، کیا وہ انٹرویو کا واجبی امتحان پاس نہیں کر سکتا۔ لیکن ہمارے ہاں کی جانے والی بندر بانٹ میں وہی امیدوار کامیاب ہے جو جگہ جگہ کے امتحان کی فیس کے علاوہ افسر شاہی اور سیاسی تعلقات کا بھی خوب اثاثہ رکھتا ہو۔‘‘ اب اس کی بات ہماری سمجھ میں آئی۔ ایک نوجوان اگر تعلیم یافتہ ہے تو اُس کی تعلیم اُسے غیرتعلیم یافتہ ہجوم میں منفرد تو کرے۔

    یہاں اکرم علی صاحب نے بےچارگی کے عالم میں اشرف کو اور پھر باری باری ہم سب کو دیکھا اور گلو گیر آواز میں بولے۔ ’’ہاں اشرف میاں! بات تمہاری بھی ٹھیک ہے، لیکن تعلیم کا ہونا انسان کو شعور اور سمجھ جیسی عظیم صلاحیت دیتا ہے جبکہ تعلیم کا فقدان انسان سے یہ دونوں چیزیں چھین لیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے تعلیم کو غیرضروری سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں سند اور ڈگری کو اہم خیال کرتے ہیں‘‘۔ اشرف کہنے لگا۔’’ماسٹر جی ! آپ نے درست کہا لیکن آج کا نوجوان جب یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیر و غریب سب کو ایک جیسا دماغ اور ایک جیسے والدین دیے ۔جو ہر حالت میں اپنے بچوں کی خوشی اور راحت چاہتے ہیں مگر ہمارے معاشرے کے صاحب ثروت لوگ آپ کو اعلیٰ عہدوں پر نزاکت و نفاست کی زندگی گزارتے ملیں اور مجھ جیسے غریب کے بیٹے کے لیے اپنے باپ کا سبزی والا ٹھیلہ منتظر ہو، جبکہ اُمراء کے بچوں نے بھی وہی ڈگری حاصل کی جو ہمارے بچوں نے لی ہے تو پھر کیونکر ہمارے بچے بے وزگاری کی زد میں رہیں؟۔ ماسٹر جی! تعلیم کے ہوتے ہوئے ہم لوگوں کی پسماندہ زندگی ہمارے با اختیار طبقہ کی دین ہے۔‘‘ اُس نے بات مکمل کی۔ سب کو خاموش پا کر پھر بولا۔ ’’ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو پھر کیوں نہ فرنگیوں کی طرح ہر شے میں طبقاتی تقسیم رکھی جائے۔ امیروں کے لیے تعلیم ، ڈگری اور عہدے الگ ہوں اور غریبوں کے لیے الگ۔ تاکہ غریب عہدہ کا امیدوار صرف غریب ہی ہو۔ اب تو سب کے سب امراء کے زیرِ دست ہیں۔ چاہے کچھ ہو جائے امیدوار وہی کامیاب ہوتا ہے جو اربابِ اختیار کا منظورِنظر ہوتا ہے۔ جب میرا بیٹا اپنے ہی طبقے کی تعلیم لے گا تو ممکن ہے وہ یہ ٹھیلہ بخوشی سجا لے کہ ہماری قابلیت یہی تھی لہذا یہی ہمارا کام بھی ہے‘‘۔ اشرف کی بات سن کر ہمیں واقعی اپنے افسران کے رویے پر افسوس ہوا۔ ایک غریب آدمی اپنے دل میں کیا کیا دکھ لیے پھرتا ہے اس کا اندازہ ہمیں اشرف کی اس گفتگو سے ہوا جو اُس نے اپنے بچوں کی بےروزگاری کے غم میں کی۔ اکرم علی صاحب اُس کے اعتراضات کے جواب میں خاموش رہے۔ افسردگی میں حاجی صاحب نے اشرف کو حوصلہ دیا اور کہا کہ ’’ اشرف بھائی! یہ تو ہمارے معاشرے کا ناسور ہے۔ ہمیشہ بااثر لوگ خوشحال رہتے ہیں اور عام آدمی کے لیے مشقتیں اور محنتیں مقدر ہوتی ہیں۔ تم حوصلہ رکھو اللہ خیر کرے گا‘‘۔ ہم نے بھی اشرف کی روداد سن کر کافی دُکھ اور افسوس اپنے اندر محسوس کیا۔ اُس کو تسلی دی اور کہا۔ ’’اشرف میاں ! اُمید پہ دنیا قائم ہے۔ ہمارے ذمہ تو محنت اور خلوص کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو تو غائبانہ ذرائع سے امداد ہوتی ہے۔ اللہ سے بھلائی اور کامیابی کی دعا کرو انشاء اللہ مایوسی دور ہو جائے گی۔حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ اور پھر ان لوگوں کے رویے تو واقعی نامناسب ہیں۔ ہر آدمی کسی نہ کسی طرح ان جیسے لوگوں کا ستایا ہوا ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے اسی طرح ہیں۔