Tag: عوام

  • ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    ڈونلڈ ٹرمپ اور ہم – عبدالسلام

    عبد السلام پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات سے لے کر ایک عام آدمی تک، سب امریکی صدارتی انتخابات میں کافی سرگرم نظر آئے۔ہر جگہ تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے کہ اگر ہیلری صدربنی توہم پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔اور اگر ٹرمپ بن گیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ایک پریشانی جو کہ چارسو پھیلی ہوئی تھی ہمیں بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکی۔ لیکن بھلا ہو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا۔ جس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ امریکی صدر کوئی بھی بنے۔ پاکستان کے لئے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ لہٰذا کم ازکم ہمیں تو اطمینان ہوگیاکہ جو مرضی امریکی صدر بنے کچھ بدلنے والا نہیں ۔ پاکستان کے ساتھ وہی دوغلی پالیسی اور ڈو مور کے مطالبے ہوں گے اور بھارت کو علاقے کا چوہدری بنانے کی مہم جاری رہیگی۔ لیکن دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت سے ہم پھر بھی باز نہ آئے اور مسلسل براہ راست کوریج کے ذریعے امریکی انتخابات کو مانیٹر کرتے رہے۔ اس دوران معلوم یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگ ٹرمپ سے خوف زدہ ہے جبکہ ہیلری کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔پورے دن کی خبروں ، تجزیوں اورسروے رپورٹس کی جھلکیوں سے ہم نے ہیلری کلنٹن کو امریکی صدر تسلیم کر لیا اور دل ہی دل میں سوچھتے رہے کہ واہ کیا قسمت پائی ہے میاں بھی ایک سپر پاور ملک کا صدر رہا اور اب بیوی بھی۔ اس بات پر بھی خوش ہوتے رہے کہ امریکہ میں بھی ہماری طرح خاندانی سیاست سرایت کر رہی ہے۔ اور امریکی سیاست بھی زوال پذیر ہونے جارہی ہے۔ لیکن شام تک حالات پریشان کن حد تک تبدیل ہو گئے اور اس بدلتی صورتحال میں پنسلوانیا کے نتائج نے ایک کاری ضرب لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر بنا دیا۔ اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا حیرت کدہ بن گئی کہ کیا امریکی عوام ٹرمپ جیسے آدمی کو بھی اپنا صدر بنا سکتی ہے۔ منفی شہرت کے حامل شخص کو کوئی بھی مہذب قوم اپنا لیڈر کیسے بنا سکتی ہے۔

    ٹرمپ جو کہ ایک بڑے کاروباری شخصیت ہے سیاست سے دور دور تک ان کا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ ان کے مقابلے میں ہیلری کی ملک کے لئے چالیس سالہ سیاسی خدمات سے سب واقف تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ اب امریکہ کا صدر ہے۔ اور اس کے صدر ہونے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں اور آپ کیا سوچھتے ہیں یا امریکہ کے چند شہروں میں چند ہزار مظاہرین کیا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ وہ امریکہ کے اکثریت کا منتخب نمائندہ ہے۔

    اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔اور اس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے۔ تجزیہ نگار اس کی مختلف وجوہات پر سیر حاصل تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قومیں ہمیشہ نڈر اور بے باک قیادت کو اسلئے پسند کرتی ہے کیونکہ وہ بولڈ فیصلے کرنے سے نہیں کتراتے، چیلنجز کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں اورڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کوئی ایسا آپشن موجود ہو لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ترکی کا طیب ارودوان ہو یا بھارت کا نریندر مودی، ان کی باقی خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن ان میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اپنے موقف کوبھرپور انداز میں بیان کرتے ہیں اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور بولڈ فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے بلا جھجھک اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور امیگرینٹس کو امریکہ کے بڑے مسائل میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اس کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ گزشتہ نصف صدی سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں غیر مسلموں کی اکثریت تمام مسائل کی جڑ اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے لگی۔ ایسے میں ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر نے امریکہ کے ووٹر کو متاثر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے تناظر میں نئے مواقع اور نوکریاں دینے کے اعلان نے بھی ٹرمپ کے سپورٹرز میں اضافہ کیا۔

    اس الیکشن کے نتائج سے ایک اور پہلو بھی نمایاں ہو گیا کہ امریکی عہدیدار جو کہ ہمیں اعتدال پسندی کا درس دیتے نہیں تھکتے، خود وہاں کے عوام نے ایک انتہا پسند شخص کو منتخب کر کے یہ واضح کر دیا کہ امریکی معاشرہ خود کتنا انتہا پسند ہے۔ عورت کا مرد کے برابر ہونے کا بھاشن دینے والے ملک میں اکثر ووٹرز نے ہیلری کو اسلئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاتون کو امریکہ کا صدر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔اس الیکشن سے امریکی معاشرہ بری طرح ایکسپوز ہوگیااور ان کے دوہرے معیارات بالکل واضح ہو گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ آج کے جدید دور میں بھی امریکہ کالے اور گورے میں بری طرح تقسیم ہے۔ خواتین کو برابری کے دعوے کے با وجود برابری حاصل نہیں ہے۔ لبرل معاشرے کا تاثر اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کی اکثریت ہے۔ جبکہ علاقائی اور نسلی تعصب بھی انتہاپرہے۔اب ٹرمپ کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وقت ثابت کر دیگا کہ وہ اپنے ووٹرز کے توقعات پر پورا اترتے ہیں یا دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ٹھیک ثابت کرتے ہیں۔

    جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پہلے بھی نشانے پر تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہمیں امریکی انتخابات کے بعد اب اپنے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ آئندہ عام انتخابات میں کسی ایماندار ، دیانت دار، محب وطن اور ملک وقوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والا راہنما چننا ہوگا۔ ورنہ یہ کرپٹ، خود غرض اور بے حس حکمران اس ملک کو کھا جائیں گے۔

  • عوام کی سوچ کا تناظر سمجھیے – عابد حسین

    عوام کی سوچ کا تناظر سمجھیے – عابد حسین

    عابد-حسین.jpg ہمارے کئی دانشور.. خاص طور پر سوشل میڈیا کے.. اپنی سوچ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں. اگر کوئی پی ٹی آئی کو پسند کرتا ہے یا پی پی پی سے ذہنی مطابقت رکھتا ہے تو دونوں کے لیے.. ن لیگ کی تعریف کرنے والا.. پٹواری کے درجے سے کبھی اوپر نہیں آسکتا۔ پی پی کی کسی اچھی کاردگی کا معترف، باقی دونوں کے متعلقین کے نزدیک، بھٹوز کی ذہنی غلامی کے طعنے کا پورا پورا حقدار ہے. اسی طرح کوئی چاہے PTI کی سیاسی حکمتِ عملی کا ناقد ہو مگر عمران خان کے کسی مؤقف یا ہار نہ ماننے کے جذبے کی تعریف کر بیٹھے تو وہ جمہوریت کا دشمن اور کئی کے نزدیک بوٹ پالیشیا ہی ہوگا.

    یہی سوچ آگے بڑھ کر اُس نسلی و صوبائی عصبیت کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے، جس میں ان دانشوروں کے مطابق پنجاب کے عوام بحیثیتِ مجموعی نواز شریف کی رعایا قرار پاتے ہیں جو بنا سوچے سمجھے صرف پنجابی ہونے کے ناتے اسے ووٹ دیتے ہیں اور سندھ کے باسی اندھے بہرے بن کر بوجہ زبان، PPP اور MQM کو ووٹ دیتے ہیں. ان کی دانش کی تان ہی اس پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ عوام اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال بنا سوچے سمجھے کرتے ہیں.

    مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے دیہی و شہری علاقوں کے معاشرتی, سماجی اور معاشی تانے بانے اور لوگوں کے مختلف طبقات کے اندرونی و باہمی رویوں سے کتنے واقف ہو کر ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جبکہ بدیہی طور پر ہم اپنی روزمرہ ذندگی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص، نہ تو اپنی ذاتی حیثیت میں، جمع تفریق کیے یا فائدہ نقصان دیکھے بنا کوئی فیصلہ کرتا ہے نہ کسی چھوٹی یا بڑی اجتماعیت میں شامل ہو کر اپنے مفاد کو پسِ پشت ڈالتا ہے. پھر یہ الزام کیوں کہ وہ بنا سوچے سمجھے ووٹ ڈال دیتا ہوگا. اس کا جواب، عام لوگوں اور مختلف طبقات کے مسائل کی تفہیم چاہے وہ کتنے ہی سطحی ہوں، اور مقامی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے دعوے داروں کی سیاسی حیثیت و اہمیت میں مضمر ہے. اس معاملے میں پنجاب کا ووٹر اور اندرونِ سندھ کا ووٹر فیصلہ سازی کے ایک جیسے طریقے پر عمل کرتا ہے، یعنی وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ان پرانے دعوے داروں کو چیلنج کرنے والے، کس حد تک قابلِ بھروسہ ہیں. پھر وہ نئے اور پرانے دعوے داروں کو ایک آنکھ سے دیکھ کر جمع تفریق نہیں کرتا بلکہ جب تک نیا دعوے دار, پرانے سے ڈیڑھ گنا طاقتور یعنی مسائل حل کرنے کی بظاہر زیادہ استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ کم ہی اپنا فیصلہ بدلتا ہے. اس ایک نقطہ پر مطابقت کے باوجود، اندرونِ سندھ اور پنجاب کے ووٹنگ رجحان میں بہت سی باتیں مختلف بھی ہیں جو ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے.

    اس لیے میں اس استدلال کو لغو خیال کرتا ہوں کہ عوام بحیثیتِ مجموعی بنا سوچے سمجھے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے وفادار، اندھے بہرے بن کر اپنی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں. عوام کی مجموعی ذہنیت و فیصلہ سازی کو قابلِ اعتراض نہ سمجھیے. عوام کے مختلف طبقات کی ترجیحات میں تفاوت یا تطابق ہونے کا منطقی نتیجہ، وقت کے کسی خاص لمحے یا دور میں اگر کسی ایک پارٹی کے حق میں جا رہا ہو تو، اس پارٹی کو چیلنج کرنے والی قوتوں کو اپنی اسٹریٹجی میں جوہری تبدیلی اور عوام کے چھوٹے سے چھوٹے گروہ تک، اپنی بات پہنچانے اور اس کی نظر میں اپنی وقعت بڑھانے میں ذیادہ بہتر کاوشیں کرنے کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے. اس وقت بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے.

  • اب کیا ہوگا؟ محمود فیاض

    اب کیا ہوگا؟ محمود فیاض

    محمود فیاض اگر آپ لوگوں نے کسی مصروف بازار میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے جیب کترے کو مار کھاتے نہیں دیکھا تو شائد یہ بات اتنی مزیدار نہ لگے، کیونکہ میں صرف اشارے کرنے والا ہوں۔
    ۔
    جیب کترے کو جب کچھ راہگیروں سے ایک دو ہاتھ پڑ چکے ہوتے ہیں تو ایک زرا نکلتے قد کا بندہ آگے بڑھتا ہے، اور اس جیب کترے کو کالر سے پکڑ لیتا ہے۔ اور ایک دو آواز دار ہاتھ جڑتا ہے۔ غور کیجیے گا، کرارے نہیں آواز دار، تاکہ اردگرد کے لوگوں کو لگے کہ ٹھیک ٹھاک مارا گیا ہے۔
    ۔
    پھر وہ اسکو پولیس تھانے لے جانے کی دھمکی دیتا ہے اور ساتھ آٹھ دس گالیاں بھی۔ سین پر موجود سارے کردار مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب اسکو سزا مل کر رہے گی۔ ویسے بھی ہر کسی کو اپنے کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ پہلے پہل کی ایکسائٹمنٹ کے بعد شغل میلہ زرا کم ہوتا ہے تو یار لوگ چھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔
    ۔
    لمبے قد والا اسکو لے کر ایک طرف کو چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک دو اور لوگ اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ جن میں ایک شائد وہ ہوتا ہے جو جیب کترے کا آخری شکار ہوتے ہوتے بچتا ہے۔
    ۔
    اب لمبے قد والا کہتا ہے، ٹھیک بھائی لوگوں آپ میں سے کون تھانے کچہری بھگتے گا، میں ہی اسکو لے جاتا ہوں۔ ساتھ وہ ایک آدھ دھول دھپا جیب کترے کو پھر لگاتا ہے۔ باقی لوگ بھی اپنی راہ لیتے ہیں۔ ڈھیٹ بندہ جسکی جیب کٹنے والی تھی ،رہ جاتا ہے، وہ تھانے ساتھ جانے پر مصر ہوتا ہے۔
    ۔
    یہاں آکر لمبے قد والے کا لہجہ تھوڑا بدل جاتا ہے۔ وہ درشت لہجے میں اس سے پوچھتا ہے، تیرا کوئی نقصان تو نہیں ہوا نا ؟ تو چل پھر اپنی راہ ناپ۔ میں ہوں نا۔ جا جا شابش ۔ ۔ یہ بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں، پورا گینگ ہوتا ہے ان کا۔ تم نہیں جانتے۔ چل بچے شابش، تو بھی نکل۔
    ۔
    جیب کٹنے سے بچنے والا حیرانی سے نہ سمجھنے کے انداز میں اس لمبے قد والے کو دیکھتا سائڈ پر رک سا جاتا ہے۔ اور لمبے قد والا جیب کترے کو کالر سے پکڑے اگلی سڑک سے بائیں مڑ جاتا ہے۔
    ۔
    جیسے ہی وہ دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں، لمبے قد والا ایک لات اس جیب کترے کی کمر پر رسید کرتا ہے، اور کہتا ہے، الو کے پٹھے، کتنی بار کہا ہے، ہاتھ دیکھ بھال کر مارا کر۔ کھوتے کا کھوتا ہی ہے تو، سال ہو گیا تجھے ۔ آیندہ دھیان سے۔ اچھا ، چل اب روٹی شوٹی کھاتے ہیں۔ چل آجا۔
    ۔
    آج کل بھی ایک لمبے قد والا جیب کترے کو دھول دھپا کر رہا ہے۔ اور تماشائی خوش ہو رہے ہیں کہ اب جیب کترا جیل جائے گا۔ بس تماشہ ختم ہونے کی دیر ہے۔ پھر روٹی شوٹی کھاتے بندے آپ خود ہی پہچان جائیں گے۔

  • قصور وار کون ہے؟ قدسیہ مدثر

    قصور وار کون ہے؟ قدسیہ مدثر

    جس معاشرے میں غربت ایک گالی بن گئی ہو، غریب فاقوں کے سبب خود کشی کر لے، غربت کا مارا بچہ والد کے انتقال کے بعد خاندان کا واحد کفیل بن کر دیہاڑی کے چند روپے کمائے تا کہ بیمار ماں کا علاج کروا سکے مگر دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے سبب وہ علاج نہ کروا سکے اور بےبسی کی تصویر بنے ماں کو قبر میں اتار دے تو اس کا قصور وار کون ہے؟

    تھر میں خوراک اور علاج کی ناقص سہولیات کی وجہ سے موت کی آغوش میں جانے والے بچوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہو۔ سرکاری ہسپتال چوہوں کی آماجگاہ بن چکے ہوں اور آئے روز بچوں کے ہاتھ ناک کاٹ رہے ہوں۔ سرکاری ہسپتال میں معذور بچی کی بھی عزت محفوظ نہ ہو اور حکومت ان سب پر عملا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو سمجھاؤ، کس کا گریبان پکڑیں، قصور وار کون ہے؟

    فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں خراب مشینری کے سبب ٩ ماہ میں ٢ہزار ٩٨ بچے جاں بحق ہو جائیں، بہاولنگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال میں ١٢٢ بچوں کی ہلاکت سامنے آئے، لاہور میں صحت،تعلیم، نکاسی آب کی ٧٨٨ اسکیمیں فنڈز کی منتظر ہوں اور لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال میں کالے یرکان اور بون سکین ٹیسٹ کی سہولت میسر نہ ہو، اور عوام بےبسی اور لاچاری سے حکمرانوں کی طرف سوالیہ نشان بنے دیکھ رہے ہوں تو بتائیں قصور وار کون ہے؟

    ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری کے سبب ایک دیہاڑی دار مزدور مجبور باپ جب خالی ہاتھ گھر لوٹے اور بچوں کی منتظر نگاہیں باپ کے ہاتھوں میں پھل اور گوشت تو دور کی بات سوکھی روٹی نہ دیکھ پائیں، بھوک سے بلک اور ترس رہے ہوں تو سمجھائیں کہ قصور کس کا ہے؟

    ملک کے سنگین معاشی اعداد و شمار کے بعد جب یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ ملک کے وزیراعظم نے خاندان سمیت غریب عوام کا پیسہ بیرونی ممالک کے اکاؤنٹس میں جمع کروا رکھا ہے، بےنام ناموں سے بزنس کمپنیاں قائم ہو چکی ہیں اور بچے چند سالوں میں اربوں کے مالک بن گئے ہیں جبکہ دوسری طرف غریب عوام 3 سالوں میں مزید 500 ارب قرضوں میں پھنس چکے ہوں، اور پھر بھی وہ کرسی پر قوم کا مقدر بن کر بیٹھے رہیں تو بتائیے کہ قصوروار کون ہے؟

    قوم کو تعلیم اور علاج سے محروم رکھ کر، اسے میٹرو کی لال بتی کے پیچھے لگانے والے حکمران خود معدے جیسی معمولی بیماری کے علاج کے لیے بھی بیرون ملک فرار ہو جاتے ہوں، تو اس جمہوریت نما بادشاہت کا ذمہ دار کون ہے، یہ بادشاہت کس کے کندھوں پر قائم ہے، قصورا کون ہے؟

    کیا یہ المیہ نہیں کہ حکمرانوں کے اثاثہ جات پانامہ لیکس میں عیاں ہو رہے ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کی جائیدادیں ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خاندانوں کے خاندان اور وزیروں کے وزیر کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، جن کے لیے اپنے ملک کی قدر چند میٹرو بسوں اور سڑکوں کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا غور تو کرنا چاہیے نا کہ یہ سب کس کی بدولت ممکن ہو رہا ہے اور کون قصور وار ہے؟

    سچی بات یہ ہے کا قصوروار کوئی اور نہیں یہی مجبور، بےبس، تعلیم و علاج اور سہولیات سے محروم عوام ہے جو بار بار ان کو لا بٹھاتی ہے اور یہ عد میں اسی کرسی اقتدار تک لانے والی عوام کا خون چوستے ہین۔ اب تو سب کچھ بےنقاب ہو چکا ہے، چہروں سے ماسک ہٹ چکا ہے، اب بھی اگر میرے وطن کی عوام مسیحا کی تلاش میں پھر انھی حکمرانوں کو مسیحا سمجھے تو میں کس کو قصوروار سمجھوں، کس کا گر یبان پکڑوں اور کس سے اپنے ملک کی شکستہ خالی کا رونا روؤں؟

  • عوام اور نظام عدل – زیڈ اے قریشی

    عوام اور نظام عدل – زیڈ اے قریشی

    زیڈ اے قریشی تاریخ گواہ ہے کہ عدل و انصاف کا نظام دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس وقت نافذ کیا جب اس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کا مشہور فرمان ہے کہ اگر میری بیٹی فاطمؓہ بھی چوری کرتی تو اُس کے بھی ہاتھ کاٹےجاتے“۔

    اگر Priciples of Natural Justice کی طرف جائیں تو بھی ہمیں یہی فلسفہ ملتا ہے کہ All are equal before law and No one is the above Law لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ آج نہ دین اسلام پر عمل کیا جارہا ہے اور نہ ہی Man made Laws کو اپنایا جا رہا ہے. اگر ہم انہی قوانین پر عمل شروع کردیں تو ہمارے ملک میں کافی حد تک امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک آج بھی انگریزوں کی ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکا۔

    بہت دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے نظام عدل میں جدت کی ضرورت ہے لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے. یہ کیسا نظام ہے جہاں دو دو نسلیں انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتے دنیا سے رُخصت ہو جاتی ہیں لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ آج ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ اتنے قریب ہوتے ہیں جیسے کہ ایک ساتھ بیٹھے ہوں لیکن ہمارے نظام عدل کا حال وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ سو سال قبل تھا، افسوس کہ کوئی اس نظام کو بدلنے کا خواہاں بھی نہیں ہے۔

    آخر کیوں، وجہ کیا ہے؟
    دراصل سب کے مفادات اس نظام سے جُڑ چکے ہیں اور کوئی اس نظام کو بدلنا نہیں چاہتا. ہر صاحب اختیار کا یہی ماننا ہوتا ہے کہ میں نے ہی نظام میں بہتری کا ٹھیکہ تھوڑی اُٹھایا ہوا ہے، دفعہ کرو جو کوئی نیا آئے گا، وہی نظام میں بہتری لائےگا، ہمارا عدالتی نظام پنکچر زدہ قوانین و ضوابط پر قائم و دائم ہے، کوئی بھی شخص اس نظام کو اسلامی ضابطہ اخلاق پر استوار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مغرب اپنے نظام کو بہتر کرنے میں مصروف ہے لیکن ہم پرانے انگریزی نظام کی غلامی میں ہی خوشی محسوس کرکے بےسکونی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کا ناقابل تلافی نقصان ہماری آنے والی نسلوں کو اُٹھانا پڑے گا۔

    اب کچھ بات ہو جائے اصلاحات کی!
    اگر ہم کبھی فرصت کے لمحات میں اسلامی تعلیمات اور فقہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بہت آسانی سے عدل و انصاف کا اسلامی نظام رائج کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ سے نہ صرف معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے، بلکہ دہشتگردی، افراتفری اور انتہاپسندی کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے
    ۱. عوام کا اعتماد بحال ہوگا
    ۲. معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہوگا

    جس نظام سے بہتری کی اُمید نہ ہو اُس کو بدل دینے میں بہتری ہوتی ورنہ محرومیاں جنم لیتی اور پھیلتی رہتی ہیں۔ اگر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی مقصود ہے تو اس بوسیدہ نظام کو Speedy Justice System سے تبدیل کرنا ہوگا ورنہ دنیا ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی اور ہم فقط اپنی تباہی کا منظر بڑی بے بسی سے دیکھیں گے۔

    (زیڈ اے قریشی، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ، وزٹنگ لیکچرار لاء، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

  • مظلوم عوام بے حس حکمران – کرن وقار

    مظلوم عوام بے حس حکمران – کرن وقار

    کرن وقار انسانی تاریخ میں عہد فاروقی کو جو مقام حاصل ہے وہ صبح قیامت تک قائم رہےگا۔ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ اپنے دورخلافت میں رعایا کے اس قدر خیرخواہ تھے کہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اگر میری سلطنت میں کوئی کتا دریائے فرات کے کنارے پیاسا مر گیا تو میں اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں گا۔ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں بہت سے ادارے اور محکمے بنائے، اور تمام محکموں کے منتظمین کو احکامات صادر فرمائے کہ وہ عوام کے خدمت گزار بن کر کام کریں اور جو کوئی ایسا نہ کرتا، اس کی سخت سرزنش کرتے۔ ان کے عہد خلافت میں خوشیوں کی ساعتیں بھی یوں گزر گئیں جیسے خوشی کی بات نہ ہو۔ عہد حاضر میں ہم اس دور کا تصور ہی کر تے ہیں کہ کاش آج کے حکمران بھی ہمارے حال سے باخبر رہتے اور ہمارے درد کی دوا بنتے۔

    پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، مگر مقتدر طبقات نے اپنے مفادات کے لیے اسلام کے سنہری اصول فراموش کر دیے اور خود قومی وسائل پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان زخموں سے چور ہوگیا اور اس کے عوام روز ایک نیا ستم سہنے پر مجبور ہوگئے۔ پاکستان اور اس کے بدنصیب عوام کو ہر روز کسی نہ کسی اندوہناک سانحے یا المناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میرے مادر وطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ جس طرف دیکھتی ہوں پریشانی، بےچینی اور بےیقینی کا سماں ہے. حکمرانوں کے سینوں میں شاید دل نہیں پتھر دھڑکتے ہیں۔ ہر طرف ایک نیا امتحان اور ایک طوفان ہے۔ ملک میں دہشت گردی، خود کش حملے، لوڈشیڈنگ، بجلی و گیس کی بندش، بےروزگاری، غر بت، مہنگائی، بدعنوانی، تعلیم کی کمی، صحت کے مسائل نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج ہم کس حال میں جی رہے ہیں۔ ہمارا تو درد زباں پر بیاں نہیں ہو سکتا۔ کوئی سننے کو تیار نہیں، ہمارے منتخب کردہ نمائندے اقتدار میں آکر عوام کو بھول جا تے ہیں۔ پھر وہ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں نہ کوئی اشک شوئی کرتا ہے اور نہ انہیں ہماری آواز سنائی دیتی ہے۔

    ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیر طبقات امیر سے امیر تر، اور بے چارے غریب سے غریب تر ہوتے جا ر ہے ہیں۔ عوام الناس ضروریا ت زندگی کو تر س رہی ہے، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ مہنگائی کا طوفان تھم نہیں رہا، ضروریات زندگی کی مصنوعی قلت اور ٹریڈرز کی من مانی سنگین مسائل کاسبب بن رہی ہے، مہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،ب ھوک اور غربت سے تنگ آ کر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی پر تو کنٹرول دور کی بات حکومت نے مہنگائی میں پچھلی حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت سے سیاست بھی تجارت ہے، مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی، امیر تو اپنا گزر بسر کر لیتے ہیں جبکہ غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے، ملک میں بجلی کی گھنٹوں تک غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام کا روزگار بری طرح سے متا ثر ہوا ہے، خاص طور پر محنت کش طبقات مشکلات کا شکار ہیں۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کے بجا ئے ملک میں بجلی کا بحران دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے، فیکٹریاں اور کاروبار جو زیادہ تر بجلی کی مرہون منت ہیں، لوڈشیڈنگ کی بندش کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں، جس سے بےروزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بےروزگاری اور افلاس سے تنگ آکر لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ خو د کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

    قوم کو روزانہ نوید سنائی جا تی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ہزاروں میگاواٹ اضافہ کے لیے معاہدہ کرلیا گیا ہے مگر لوڈشیڈنگ جوں کی توں ہے۔ بدامنی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، حکومت کی رٹ کمزور نظر آرہی ہے۔ اس جد ید دور میں بھی شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور حصول تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ معاشرے میں عدل و انصاف، میرٹ کی با ا دستی، اور پرامن ماحول کا قیام تعلیم کے ساتھ ہے۔ تدریسی عمل تو متاثر ہو رہا ہے۔ جس ملک میں بجلی دستیاب نہیں وہاں بچوں کے ہا تھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا نے کا کیا مقصد تھا۔ بہتر تو یہ تھا کہ لیپ ٹاپ کے بجائے غریب طلبہ کے وظائف مقرر کیے جاتے تاکہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے اور مستقبل میں ملک و قوم کی خدمت کرتے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی مزید بہتری کے لیے دور رس اقدامات کرے۔ نظام تعلیم میں اسلامی اقدار کے مطابق کچھ تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ بہتر تعلیمی نظام رائج کیا جا ئے۔ نئی نسل کو جدید تعلیم کے ذریعے ہنرمند اور معاشرے کا بے مثال شہری بنانا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست کیوں نہیں ہے۔ اس کے لیے بہتر ین حکمت عملیاں بنانا ہوں گی۔ اس وقت ملک میں بہت سی پسماندہ آبادیاں ایسی ہیں جہاں کوئی مرکز صحت موجود نہیں ہے۔ ڈسپنسریاں نہ ہو نے کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے بےشمار مسائل ہیں۔ صاف پانی کی دستیابی نہ ہونے کے باعث علاقے میں بہت ساری پیٹ کی بیماریاں ہیں۔ بروقت علاج نہ ہونے کے باعث لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

    یہ کیسی جمہوریت ہے کہ حکام عوام کی پرواہ کیے بغیر سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ عوام فطری طورپر اپنے ہر درد کی دواکے لیے حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں مگر حکومت کی ترجیحات عوامی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ جس کا درد بس اسی کا درد، باقی سب تماشائی، ایسا کیوں ہے۔ ملک میں کہیں بھی نظر دوڑائیں تو ہر طرف عوام مایوس اور بے بس ہیں۔ بھوک گلی کوچوں میں دندناتی پھرتی ہے، تھر میں ہرسال سینکڑوں بچے بلک بلک کر مر جاتے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے بہتری کی کوششوں کے تمام دعووں کے باوجود صورتحال میں کو ئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی، وفاق اور سندھ حکومت کو تھر کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنا ہوگا۔ شاہراہوں کے بجائے شہریوں اور انہیں دستیاب سہولتوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستان میں ہر گھڑی مفلس اور نادار پاکستانیوں کے لیے آزمائش اور ابتلاء کی گھڑی کیوں ہے۔ انسانیت کا جذبہ اور فرض کی ادائیگی کاجذبہ حکمرانوں کے ہاں ناپید ہے۔ اگرخلوص اور نیک نیتی کے ساتھ آپس میں سر جوڑے جائیں تومسائل کا پائیدار حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اگرسیاستدان انتخابی اتحاد بناسکتے ہیں توان کے درمیان انقلابی اتحاد کیوں نہیں بن سکتا۔ ریا ستی ادارے عوام کی شرکت کے بغیر اپنے فرائض درست طر یقے سے انجام نہیں دے سکتے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے مقامی سطح پر مشاورت بےحد ضروری ہے تاکہ درست اور دوررس ترجیحات متعین کر کے قومی معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ ٹیکس اداکرنے والے شہری ریاستی اداروں کی خدمات کے بلاامتیاز مستحق ہیں۔ ہرشہری ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون سے گریز کرنے کے بجائے ان کا دست و بازو بنے۔ سیاسی جماعتوں کو متفقہ قومی ایجنڈے پر متحد ہونا ہوگا، سوچ بچار کے بعد ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ارباب اقتدار اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاناہوں گی۔

  • آہ ہم عوام ، واہ ہم عوام – نورین تبسم

    آہ ہم عوام ، واہ ہم عوام – نورین تبسم

    میلہ مویشیاں سجا ہوا، قصاب چاقو چھریاں تیز کرکے سرگرم، معاشرتی جانور ذوق و شوق سے کھنکھناتی بیڑیاں پہنے، ریشمی پٹے حمائل کیے جوق درجوق ایک بار پھر قربانی کے لیے تیار۔ روزِ روشن کا یہ کڑوا سچ دکھائی دیتے ہوئے بھی دکھائی کیوں نہیں دے رہا۔ سب دروازے، کھڑکیاں بےخبری کی میخیں گاڑ کر بند بھی کر دیے، پھر بھی کسی نہ کسی درز سے حالات کی سنگینی کی لُو کیوں جُھلسائے دے رہی ہے۔

    اپنی زندگی کے گودام میں ذخیرہ کی ہوئی آرام وآسائش، عقل و شعور اور آسودگی کی بوریوں کے ڈھیر کیوں طمانیت سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ نیرو کی روح کیوں نہیں جاگتی جو روم جلنے پر چین کی بانسری بجاتی تھی کہ یہی آج کے دور کا چلن ہے۔ ہم خود ساختہ پڑھے لکھے لوگ کیوں تماش بین نہیں بن جاتے۔ ہم تو اپنی ٹھنڈی چھت تلے بھرے پیٹ سونے والے لوگ ہیں۔ ہمیں کیا غرض کون آئے کون جائے۔

    قصور ہمارا نہیں صرف آنکھ کُھلنے کا ہے کہ آنکھـ کُھل جائےتو نیند غائب ہو جاتی ہے۔ اور نیند نہ آئے توغفلت کے خواب بھی نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خاص ہوتے ہوئے بھی خود کو خاص نہیں جان رہے۔ گردش کا پہیہ جب چلتا ہے تواُس کی زد میں خاص وعام سب برابرآتے ہیں. ہم صرف عوام ہیں، چھوٹے چھوٹے لوگ۔ ایک دوسرے سے وابستہ جن کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں اور خواہشیں ہیں۔ جو پوری ہونے لگیں تو اپنے جیسوں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔ بڑے لوگ ہمیں کٹھ پُتلیاں جان کر اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔ تماشا دکھا کرمال بٹورتے ہیں۔ یہ تماش بین ہمیں ایک عام طوائف جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے۔ اُس پر نوٹ نچھاور کرکے اپنے بھرم کا فاصلہ رکھ کرگھرتو چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہم عام عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کر، عزتِ نفس اور فہم کے چیتھڑے اُڑا کر، سرِ بازار رُسوا کر کے، پھردانت تیز کر کے وہیں بیٹھ رہتے ہیں۔ اور ہم ہمیشہ ایک ہدایت یافتہ طوائف کی طرح سنورتے ہیں کہ شاید آنے والا تماش بین نہیں کوئی مسیحا ہو۔ جس کی جھولی میں سفلی خواہشوں کے کیکر نہیں بلکہ ماں کی گود کا سا خمار مل جائے جو کچھ پل کو گردش ِآلام بھلا دے۔

    یہ تماشا کب تک جاری رہے گا؟ کوئی نہیں کوئی بھی تو نہیں. نہیں نااُمیدی کفر ہے، مایوسی موت ہے اور مرنے سے پہلے مرجانا صریح خودکشی ہے۔ حالات کی سنگینی اگر جھانک رہی ہے تو کہیں سے خفیف سی روشنی کی جھلک بھی نظر آرہی ہے۔ اللہ نااُمیدی کی عینک سے بچائے جو اگر لگ جائے تو ہر منظر دُھندلا دیتی ہے۔ آخری وقت تک اپنے آپ پر یقین رکھیں۔ دروازے اگر بند ہوتے جا رہے ہیں تو یہیں کہیں اُن کے کھلنے کی نوید بھی مل رہی ہے۔ لوٹنے والے کہاں تک لوٹیں گے۔ ایمان باقی رہے۔ ہمت ہو تو سفر کٹ ہی جاتا ہے- نیت کا پھل ملتا ہے۔ اعمال کا پھل کیا ملے یہ رب جانے۔

  • پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

    پاکستان کی عزت کا ٹھیکہ دوست ملک کے سپرد-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    فرض کریں آپ کا شمار گائوں کے انتہائی غریب افراد میں ہوتا ہے۔آپ کے کچے گھر کے پیچھے ایک بہت بڑا بنگلہ ہے ۔اس بنگلے میں مقیم آپ کے ہمسائے کی دِقت یہ ہے کہ اسے منڈی تک پہنچنے کے لئے راستہ میسر نہیں۔وہ کہتا ہے کہ اپنے گھر سے ایک راستہ بنانے دو تاکہ اسے باہر تک رسائی ممکن ہو سکے۔یہ پیشکش بھی کی جاتی ہے کہ نہ صرف یہاں سے آمد و رفت کے عوض معقول رقم دی جائے گی بلکہ راستہ بنانے کے لئے تمہارے گھر کے جو افراد مزدوری کر یں گے انہیں معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

    دوطرفہ مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ اس پیشکش کو قبول کر لیا جائے لیکن اگر آپ اس پیشکش کو فیاضی جان کر اپنے متمول ہمسائے کے احسان تلے اس قدر دب جائیں کہ اپنے گھر کا انتظام و انصرام ہی اس کے حوالے کر دیں تو آپ کی سوچ کو اکیس توپوں کی سلامی دینا پڑے گی۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی پالیسی بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔بار بار جتلایا اور بتلایا جا رہا ہے کہ ہمارے دوست ہمسایہ ملک نے اس اکنامک کاریڈور کی صورت میں پاکستان پر جو احسان عظیم کیا ہے اس کا بدلہ ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں چکا سکیں گی۔چند روز قبل وزیراعظم نے ایک تقریب میں انکشاف کیاکہ یہ دوست ہمسایہ ملک پاکستان کی عزت کا محافظ ہے۔اور یہ بات محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس ہمسایہ ملک سے دوستی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ہمارے حکمرانوں نے طویل عرصہ تک ارض وطن امریکہ کو پٹے پر دی ہوئی تھی،پھر معلوم ہوا کہ ملک کے بیشتر حقوق بعض عرب دوستوں کے ہاں رہن رکھے ہوئے ہیں اور اب یہ راز کھل رہا ہے کہ محض گوادر ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بیشتر حصہ ایک دوست ہمسایہ ملک کے ہاں گروی رکھا ہوا ہے۔ہمارے غیرملکی دوست پاکستان کو کس طرح اپنی چراگاہ سمجھتے ہیں ،اس کی ایک ادنیٰ مثال گزشتہ ماہ ملتان میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

    ملتان تا سکھر موٹروے منصوبہ جوسی پیک کا حصہ ہے،اس کے کام کی نگرانی کے لئے 30غیر ملکی باشندے ملتان میں مقیم ہیں۔انتظامیہ نے اپنے معزز مہمانوں کو ملتان کینٹ کے علاقے میں چند کوٹھیاں عارضی قیام گاہ کے طور پر لیکر دیں۔مستقل قیام کے لئے تحصیل جلال پور کے موضع چدھڑ میں 11.5ایکڑ پر مشتمل بیس کیمپ بنایا گیا ہے۔محکمہ داخلہ کے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا تقاضا تھا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی جس میں تمام خفیہ اداروں کی نمائندگی ہوتی ہے ،حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیکر رپورٹ دے اور اس کی روشنی میں سی پی او NOCجاری کرے جس کے بعد یہ غیر ملکی حکام اپنے بیس کیمپ منتقل ہو سکیں۔اگست کے پہلے ہفتے میں ان حکام نے اس بیس کیمپ میں منتقل ہونا تھا مگر حفاظتی انتظامات مکمل نہ ہونے کے باعث تاخیر ہوگئی۔11اگست کو معمول کے مطابق شام کوان غیرملکی حکام نے واپس ملتان آنے سے انکار کر دیا اور بیس کیمپ میں رہنے پر اصرار کیا۔انہیں بتایا گیا کہ جب تک این او سی جاری نہ ہو آپ یہاں نہیں رہ سکتے اور یہ سب آپ کے تحفظ کے لئے کیا جا رہا ہے۔بحث و تکرار کے بعد یہ غیرملکی باشندے واپس آنے پر رضامند ہو گئے۔

    15اگست کو ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے بیس کیمپ کا معائنہ کیا تو 75فیصد انتظامات ادھورے تھے۔SOPکے مطابق ہر 200میٹر کے فاصلے پر واچ ٹاور نہیں بنائے گئے تھے،سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہوئے تھے۔غیرملکی حکام نے کہا کہ ایک ہفتے میں یہ انتظامات مکمل کر لئے جائیں گے لیکن 22اگست کو جب دوبارہ بیس کیمپ پر حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا گیا تو 40فیصد کام مکمل نہیں ہواتھا۔چنانچہ کمیٹی نے این او سی دینے سے انکار کر دیا۔23اگست کو جب 20غیرملکی باشندے معمول کے مطابق صبح یہاں پہنچے تو انہوں نے شام کو ایک مرتبہ پھر واپس جانے سے انکار کر دیا۔انہیں بتایا گیا کہ بیس کیمپ کے چاروں طرف کھیت ہیں،ویران علاقہ ہے،حفاظتی انتظامات کے بغیر ان کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں لہٰذا واپس جانا ہوگا ۔

    ان غیر ملکی باشندوں کے اپنے SOP کے مطابق ہر بیس کیمپ میں ایک ریٹائرڈ میجر کا بطور سیکورٹی انچارج موجود ہونا ضروری ہے جبکہ اس مقصد کے لئے جس شخص کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ،وہ استعفیٰ دیکر گھر جا چکا تھا۔پولیس حکام نے اسلام آباد میں متعلقہ سفارتخانے کے اس افسر سے رابطہ کیا جو اپنے شہریوں کی سیکورٹی کا ذمہ دار ہے،اس نے یقین دہانی کرائی کہ یہ غیرملکی باشندے واپس ملتان چلے جائیں گے۔گفت و شنید کے بعد 20میں سے 14غیرملکی شہری واپس جانے پر آمادہ ہو گئے مگر 6غیرملکی باشندے جن کا تعلق فوج سے تھا ،انہوں نے سیکورٹی پر تعینات ایس ایچ اوتھانہ راجہ رام (ظریف شہید)محمد اشرف پر حملہ کر کے اسے شدیدزخمی کر دیا۔چند دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے۔بعد میں جب پولیس والوں اور ان غیرملکی باشندوں کا طبی معائنہ ہوا تو رپورٹ کے مطابق غیرملکی حکام کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی جبکہ ایس ایچ او کو لگنے والی ضربیں قابل دست اندازی پولیس تھیں۔

    اس واقعہ کی انکوائری ہوئی تو غیرملکی باشندے قصوروار ٹھہرے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان غیرملکی شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جاتا تاکہ آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے اور باوردی اہلکاروں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی لیکن خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے دوست ملک کے حکام کو خوش کرنے کے لئے تین ایس ایچ اوز اور 6اہلکاروں کو معطل کر دیا جبکہ سی پی او ملتان اظہر اکرم کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا۔

    عالمی تعلقات کا پہلا اور بنیادی سبق ہی یہی ہے کہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نا حتمی دشمن ۔یہاں دوستیاں یا دشمنیاں نہیں نباہی جاتیں بلکہ دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔مگر ہم ہر بار ان عالمی تعلقات کو دوستی کے اٹوٹ رشتے سمجھ کر حد سے گزر جاتے ہیں۔

    جس دوست ملک کے شہریوں نے ملتان میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کیااگر دوستی کے ناتے ایسا کرنا جائز ہے تو کسی دن پاکستانی باشندے بھی ان کے ملک میں باوردی اہلکاروں کی پھینٹی لگا کر دیکھیں تاکہ آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے۔ ہمارے اس دوست ملک کی کمپنیاں توانائی کے بیشمار منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے اس خطے کی تقدیر سنور جائے گی اور چارسو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ہم نے وارفتگی کے عالم میں گوادر پورٹ کا منصوبہ بھی اس دوست ملک کے حوالے کر رکھا ہے۔

    دوستی اور تعلقات اپنی جگہ مگر کوئی بھی ریاست غیر ملکی باشندوں کو قوانین سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیتی۔مگر ہم نے تو چونکہ دیگر بیسیوں منصوبوں کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کی حفاظت کا ٹھیکہ بھی اس دوست ملک کو دیدیا ہے اس لئے کیسی شکایت اور کیساگلہ شکوہ۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے جو فرمایا وہ سب قوم کا سرمایہ مگر کیا ہی اچھا ہواگر لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتا دیں کہ پاکستان کی عزت کی حفاظت کا یہ ٹھیکہ کب اور کیسے اس دوست ملک کو دیا گیا اور اس کی مدت کیا ہے؟کیا اس معاہدے کی رو سے پاکستانی پولیس اہلکاروں کی ’’عزت افزائی‘‘ بھی غیر ملکی باشندوں کا استحقاق ہے؟معزز غیر ملکی مہمانوں کو اس کے علاوہ بھی کسی قسم کے حقوق ودیعت کئے گئے ہیں تو قوم کو آگاہ کیا جائے تاکہ لوگ’’عزت افزائی‘‘ کے لئے تیار رہیں اور غفلت میں نہ مارے جائیں۔

  • جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

    جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان نوم چومسکی اپنی کتاب ”Who Rules The World“ میں لکھتے ہیں کہ جمہوریت کی علمبردار بڑی طاقتوں میں بھی عوام کا ملکی پالیسی پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. امریکہ میں نامور محققین نے اس بات کے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں کہ ”معاشی اشرافیہ اور منظم گروپس جو مخصوص کاروباری مفادات کے حامل ہوتے ہیں، ان کا اثر حکومتی پالیسی سازی پر کافی گہرا ہے اور اپنی الگ انفرادی حیثیت میں ہے، جبکہ متوسط طبقے، عام آدمی اور عوامی مفاد کے نمائندہ گروپس کا اثر یا تو بالکل نہیں ہے اور یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے.“ بنا بریں چند دیگر تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کو بڑے مؤثر طریقے سیاسی عمل سے (عملاً) باہر کر دیا جاتا ہے اور ان کے نمائندے ان کی آراء اور رجحانات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جبکہ معاشی طور پر مستحکم ایک چھوٹا سا طبقہ اس معاملے میں مکمل اجارہ داری کا حامل نظر آتا ہے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو طویل مدتی تحقیق میں امیدواروں کی الیکشن کیمپین کی فنڈنگ ہی پالیسی سازی کے اہم ترین محرک کے طور پر سامنے آتی ہے.

    اس میں ایک سبق تو جمہوریت کے متوالوں کے لیے ہے کہ جن قوموں کو ہم انسانی آزادی اور سماجی ترقی کی معراج پر سمجھتے ہوئے اندھا دھند ان کے نظام جمہوریت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، وہاں عام آدمی کا حکومت کے اصل معاملات اور پالیسی سازی میں کتنا حصہ ہے اسے دیکھ کر عبرت پکڑیں اور دیکھیں کہ اصل سٹیک ہولڈرز کیپٹل ازم کے پروردہ نظام جمہوریت میں بھی سرمایہ دار ہی ہیں اور انھی کی چلتی ہے. جبکہ عام آدمی کے لیے محض سبز باغ ہی ہیں.

    اس ضمن میں ”اسلامی جمہوریت“ کے آکسی مورون (oxymoron: متضاد الفاظ پر مشتمل ترکیب) کے علمبرداروں کو تو دس گنا زیادہ عبرت پکڑنی چاہیے کہ نہ تو اس فضول جدوجہد سے حقیقی جمہوریت ہی ممکن ہے اور نہ ہی اسلام. جمہوریت کے معاملے میں اوپر پیش کی گئی گزارشات دیکھ لیں اور اسلام کے معاملے میں مصر، بنگلہ دیش اور ترکی (ابھی خطرہ مکمل طور پہ نہیں ٹلا) کا حال دیکھ لیں، بلکہ عینک کے شیشے صاف کر لیں تو اپنے وطن عزیز میں بھی کچھ کم مثالیں نہیں.

    ایک بڑا ہی لطیف سبق یہاں ان جہادی تنظیموں کے لیے بھی ہے جو اس ڈاکٹرائن/”اجتہاد“ کی قائل ہیں جس کے مطابق مسلمان علاقوں پر حملہ آور اور مسلمانوں سے جنگ میں مصروف جمہوری کافر ملکوں کے عوام بھی متحارب قرار دیکر مباح الدم سمجھے جاتے ہیں؛ کیونکہ ان کے مطابق وہ ”ووٹ کی طاقت“ سے حکومتی پالیسی کے پشت پناہ اور اس پر اثر انداز ہونے والی مؤثر قوت سمجھے جاتے ہیں. تو بھائی صاحب دیکھ لیں کہ ان ”بےچاروں“ کا اپنے خبیث حکمرانوں کی پالیسیوں میں کتنا ہاتھ ہے. خدارا ان کی جان بخش دیں اور ان تحقیقات کی روشنی میں اپنے اجتہاد پر نظرثانی فرمائیں. ان کی طاقت کو دعوت و تبلیغ سے اپنے حق میں موڑیں نہ کہ ان پہ حملے کر کہ سچ مچ ان کی رائے عامہ کو ویسا ہی بنا دیں جیسا کہ آپ (غلط طور پر) سمجھتے ہیں.

  • میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    احمد بلال پاکستان کو بنے 69 سال ہوچکے ہیں اور ہم اب تک نظریاتی کشمکش کا شکار ہیں. ہم نہیں سمجھ سکے کہ کون سا نظام ہمارے لیے سودمند ہے؟ وہ کون سی اقدار ہیں جن پہ عمل پیرا ہونے سے ہم کسی مثبت نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں؟ کب ہماری زندگی میں تمدن کی کوئی راہ ہموار ہوگی؟ یہ سوال بہرحال موجود ہے اور رہے گا، جب تک کہ ہماری قومی زندگی ہیجان سے نکل کر کسی ایک راستے پہ گامزن نہیں ہو جاتی.

    آج کل بہت شور اٹھ رہا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر طرف فوج کے آنے اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دی جا رہی ہیں. پاکستان نے جمہوریت اور آمریت کے کم و بیش 35،35 سال برداشت کیے ہیں تو کون سا دوراقتدار ایسا تھا جس کے اختتام پہ لوگوں نے خوشی نہیں منائی؟ کون سی ایسی حکومت تھی جس کے خاتمے کے بعد عوام نے سکھ کا سانس نہیں لیا؟ کون سا ایسا سیاست دان یا آمر تھا جس کا انجام قابل رشک ہوا؟

    ہماری مثال اس بیل کی سی ہے جس کی ایک ٹانگ رسی سے بندھی ہو اور رسی کا دوسرا سرا ایک کھونٹی سے باندھا ہو اور وہ مسلسل دوڑ رہا ہو لیکن خود کو ہلکان کرنے کے بعد بھی سمجھ نہ پا رہا ہو کہ وہ ادھر کا ادھر ہی کھڑا ہے جہاں سے اس نے عرق ریزی شروع کی تھی. ہم ایسی بحثوں کا شکار ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہیں. یہ بات کہنا کہ فوج آجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن کیا ہم ہمیشہ کے لیے اس نظام کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے وقار کو بحال کیا ہے اور دہشت گردی کے معاملے میں ان کی حکمت عملی قابل تحسین ہے، لیکن کیا وہ نظام حکومت بھی ایسے ہی چلا سکیں گے؟ کیا ہمیں ہمیشہ راحیل شریف جیسے جنرل میسر ہوں گے؟ یقینا نہیں کہ قدرت کا قانون ہی ایسا ہے، تو گویا پھر سے جمہوری نظام کو عوام اپنا نجات دہندہ گردانے گی؟ کیا ہم پھر سے اس روش کے متحمل ہوسکتے ہیں جسے قیام پاکستان سے 2008 تک جاری رکھا گیا؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے. لیکن یہ نعرہ لگا کر کہیں ہم کسی مغالطہ کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ ذر ا پنے اردگرد نظر دوڑائیے، کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ جمہوریت کا مطلب جمہور یعنی عوام کی حکومت، لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سب سے زیادہ حقوق کی پامالی بھی جمہور کی ہو رہی ہے. کیا اس جمہوری نظام میں امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کوئی حقیقی عوامی نمائندہ جو عوام میں سے ہو، اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے؟ پہنچنا تو دور کی بات ہے عام آدمی کے لیے تو الیکشن لڑنے کا تصور کرنا بھی محال ہے. جب جمہوریت ملوکیت کا روپ دھارنے لگے اور وہی سرمایہ دار، جاگیر دار ، صنعت کار لوگوں پر بار بار مسلط ہو رہے ہوں تو ایسا جمہوری نظام بھی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے! عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ نظام جس کی بنیاد عوام ہیں، اگر اس میں عوام کی نمائندگی ہی نہیں تو یہ کیسے ان کے مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے؟

    “جمہوریت بہتر نظام زندگی ہے” کے دعوے کے اثبات کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جمہوریت میں مفاد کا مرکز عوام ہوتی ہے جبکہ آمریت میں ایک شخص عوامی مفاد کا ٹھیکے دار بنا ہوتا ہے. مگر پاکستانی قوم نے جمہوریت اور آمریت، دونوں کے نام پہ موقع پرست ہی دیکھے ہیں جن کا مقصد محض طاقت کا حصول تھا. ایک سپہ سالار کے لیے اس کی کارکردگی کا امتحان وہ میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی طاقت سے معرکہ آرائی کرتا ہے، اس تناظر میں وہ ریاستی معاملات کو بھی اسی طرح چلانے کی کوشش کرتا ہے، جس کی کوئی قوم متحمل نہیں ہو سکتی. اسی طرح سرمایہ دار اور جاگیردار سیاستدانوں کی سوچ کی گاڑی کاروباری نفع نقصان کے گرد گھومتی ہے، قوم اور عوام کا نفع نقصان ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا. دونوں طرح کے لوگ پبلک آفس کے لیے موزوں نہیں ہوسکتے، اگر وہ ہوتے ہیں تو حال ہمارے ملک جیسا ہوتا ہے. مشرف آمریت کے بعد جمہوریت کو آئے ہوئے اب 9 سال ہونے کو ہیں، مگر کیا ایسی جمہوریت کا متحمل ہوا جا سکتا ہے جس میں مثبت پیش رفت کا سفر جامد ہونے کی حد تک آہستہ ہو؟ کب تک عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے ہی ووٹرز کے سامنے جواب دہی کے احساس سے بے پروا رہیں گے؟ کب تک عوام کی قسمت میں مستقبل کے سہانے خواب ہی باندھے جائیں گے؟

    اب وقت بدل رہا ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا نے زندگی میں ماضی جیسا ٹھہراؤ ختم کر دیا ہے. اب لوگ صرف امید کے سہارے کسی بھی نظام کے ساتھ صبر وتحمل سے جڑے نہیں رہ سکتے. لوگ سوال اٹھائیں گے اور اپنی فہم کے مطابق تنقید بھی کریں گے اورممکنہ راستے کریدنے کی تگ و دو بھی. ماضی کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا. آمریت اور جمہوریت کے حق میں دلیلیں دینے والے اپنے پسندیدہ نظام کو بہتر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں مگر عام آدمی کا استحصال جو گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہا ہے، اسے کس طرح جسٹیفائی کریں گے؟ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں ادوار میں مختلف طبقات نے صعوبتیں برداشت کی ہیں. عام آدمی کی حالت نہ جمہوریت میں بدلی نہ آمریت میں. ابراہم لنکن نے کہا تھا ” آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیشہ کے لیے سب لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے” ۔ اب ہمیشہ جیسا ہوتا آیا ہے ویسا نہیں ہو سکتا، ماضی کی طرح لوگ اب مٹھائیاں تقسیم نہیں کریں گے. عام آدمی کی حالت نہ بدلی تو وہ جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں کے انتقال پہ سکھ کا سانس لے گا. عام آدمی کا مفاد اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے. جمہوریت کی زندگی جمہور سے مشروط ہے. وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی اپنے حق کےلیے کھڑا ہو، آواز بلند کرے، اور فرسودہ جمہوری نظام کو بدلنے کی کوشش کرے. آخر کب تک ہم اس مسخ شدہ موروثی جمہوری بت کی پوجا کرتے رہیں گے؟