Tag: عقائد

  • انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    انسانی چہرے اورجسمانی ڈیل ڈول پر ’’اعمال‘‘ کے اثرات – ادریس آزاد

    ادریس آزاد کسی مذہبی شخص کی دولت وہ عقائد نہیں جو اس کے دماغ میں بھرے ہوئے ہیں اور جنہیں وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے پختہ ایمان کا نام دیتاہے بلکہ اس کی دولت اس کی وہ قلبی کیفیات ہیں جو بعض اعمال کی وجہ سے گاہے بگاہے پیدا ہوتی اور اُسے مذہب کی قدروقیمت یاد دلاتی رہتی ہیں۔ مذہب کسی سکول کا مضمون نہیں کہ اسے عقلی سطح پر یاد رکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عملی نظام ہے جس کا عادی ہوجانا پڑتاہے۔ چونکہ مذہب کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے اس لیے اس کی حیثیت کسی دوا کی سی ہے نہ کہ فقط لکھے ہوئے نسخے کی سی۔ مذہبی لوگوں کے ساتھ مباحث میں عقائد پر بات کرنے والے مخالفین ہمیشہ اس بڑی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ شخصیت کی گہرائیوں میں پرورش پانے والا ایک ایسا نظام ہے جو انسانی وجود کی فقط ذہنی ہی نہیں کیمیائی ساخت کو بھی تبدیل کردیتاہے۔ یہ سب باتیں تو ہمیں اہل تصوف کی کتابوں میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ یہاں میرا مدعا جس حقیقت سے ہے وہ قدرے مختلف ہے۔

    دیکھیں! فرض کریں، ایک شخص جھوٹ کا عادی ہے۔ وہ مسلسل جھوٹ بولتاہے۔ تو مسلسل جھوٹ سے کیا ہوگا کہ سب سے زیادہ واضح اثرات اس کے چہرے پر نظر آئیں گے۔ میں اس سے بھی آسان الفاظ میں بات کرتاہوں۔ آپ ایک دوست فرض کریں جسے آپ ملنے کے لیے گئے اور آپ نے نہایت مجبوری کے عالم میں اس سے تھوڑے سے پیسے قرض مانگے۔ اُس کے پاس پیسے پڑے ہوئے تھے، وہ آپ کو دے سکتا تھا لیکن اس نے نہیں دیے بلکہ آپ سے کہا، ’’اوہ ہو! آپ ایک دن پہلے آئے ہوتے تو ضرور بندوبست ہوجاتا‘‘۔ ایسا کہتے وقت ظاہر ہے وہ ایک خاص قسم کی شکل بنائے گا۔ فرض کریں کہ وہ یہ شکل دن میں کئی بار بناتاہے اور گزشتہ بیس سال سے بنا رہا ہے تو کیا یہ عین سائنسی بات نہیں کہ اس کی شکل ایک خاص قسم Shape اختیار کرجائے گی۔ کتنے بچوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ جب وہ معصوم بچے تھے تو فرشتے معلوم ہوتے تھے اور جب وہ دنیا میں رہے، بڑے ہوئے، ایک خاص قسم کی تربیت حاصل کی تو اب ہمارا دل بھی نہیں کرتا کہ اُن کی طرف چہرہ گھما کر بھی دیکھ لیں۔ اور ایسے بھی کتنے لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو بچپن میں کالے پیلے، بیمار، موٹے ہونٹوں والے اور نالائق قسم کے ہوتے تھے لیکن وقت کی ٹھوکروں، غموں، حادثات اور اچھی تربیت نے انہیں ایسا بنادیا کہ اب ہم ان کے پاس بیٹھ جائیں تو اُٹھنے کو دل نہیں کرتا۔

    شکل و صورت بظاہر تو مادی چیز ہے لیکن اس کا نہایت گہرا تعلق اعمال کے ساتھ ہے۔ دل کی خوبصورتی اور کمینگی دونوں ہی وقت کے ساتھ ساتھ چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں قران کہتاہے فی قلوبہم مرضٌ ، ان کے چہروں پر اتنا موٹا موٹا لکھاہوتاہے کہ ’’جی ہاں! ہمیں دل کا عارضہ لاحق ہے‘‘ اور عارضہ ہرگز وہ عارضہ نہیں جس کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی جسم کا ڈیل ڈول اور چہرے کی ساخت کا نہایت گہرا تعلق انسان کے اعمال ِ حسنہ اور اعمالِ سیٗہ کے ساتھ ہے۔ ملاوٹ والا دودھ بیچنے والے تین چار گوالوں کو ایک ساتھ کھڑا کرکے دیکھیں! آپ کو حیران کن حد تک ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت نظر آئے گی جسے آپ الفاظ میں بیان نہ کرپائینگے لیکن پہچان ضرور جائینگے۔ ویسے ایک بہت آسان مثال بھی موجود ہے۔ پولیس میں اور خاص طور پر پنجاب پولیس میں ہمیں بہت سے ایسے کردار مل جاتے ہیں جنہیں اگر ایک جگہ اکھٹا کھڑا کردیں تو ان میں ایک خاص قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مزید گہرا مشاہدہ اور معلومات کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ ان تمام لوگوں کی کوئی قباحت مشترک تھی۔

    ایسی ہی ایک شکل بعض میڈیکل ڈاکٹروں کے چہروں پر مشترک ملتی ہے۔ اور خاص طور پر ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچروں کو باقاعدہ ریسرچ کے ارادہ سے جاکر ملیں، آپ کو ان میں ایک خاص قسم کی قباحت، سب کے سب میں، مشترک نظر آئے گی۔

    دوسروں کی قباحتیں گنوانا کوئی اچھی بات نہیں۔ میرا مدعا کسی کی قباحت گنوانا نہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ مذہب اگر فقط عقائد کا نظام ہوتا تو اس کے اثرات ’’روح کی کھڑکی یعنی آنکھوں میں‘‘ اور چہرے پر اتنی شدت سے مرتب نہ ہوتے۔ کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ بغیر کوئی مذہب تسلیم کیے بھی تو ایسے اچھے برے اثرات سے چہرے کو روشن یا تاریک بنایا جاسکتاہے۔ ہاں ایسا ممکن ہے لیکن آپ کبھی ان چہروں کو غور سے دیکھیں جو ایسے ہیں۔ جو ایتھسٹ ہیں لیکن بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ اس میں بلاشبہ تنکا بھر شک نہیں کہ وہ بھی اچھے اعمال کی بدولت بہت من بھانونے اور خوبصورت ہوجاتے ہیں لیکن اگر ایسے چند لوگوں کو ایک ساتھ کھڑ اکرکے ان کا سائنسی نظر سے مشاہدہ کریں تو آپ کو ان میں بھی ایک شئے مشترک نظر آئے گی جو ’’بے رُوح‘‘ ہونے جیسا کچھ ہوگا۔ حی و قیّوم خدا کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہونے کی صورت میں، وقت کے ساتھ ساتھ جیسی لاپرواہ اور قدرے خشک شکل بن جاتی ہے وہ خوبصورت ضرور ہوسکتی ہے لیکن اس میں ایک اضافی چمک جسے شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول شہیدؒ کے ’’اِلُمینیشنزم‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتاہے، قطعی طور پر مفقود ہوتی ہے۔

  • اسلامی نظام کا نفاذ کیسے؟ حماد احمد

    اسلامی نظام کا نفاذ کیسے؟ حماد احمد

    حماد احمد کہتے ہیں کہ جب افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کابل میں حجاموں کی دکانوں پر داڑھیاں منڈوانے والوں کا وہ رش تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا. کہتے ہیں کہ بڑی وجہ شریعت کا زبردستی نافذ کروانا تھا. ایک افغانی دوست کے مطابق وہ خود اس خودساختہ شریعت کا شکار ہونے ہی والے تھے کہ نکسیر نے بچا لیا. انھی دوست کے مطابق ایک قصہ اور مشہور ہے کہ سقوط امارت اسلامیہ کے بعد طالبان مخالف افراد انتقام کی آگ میں ایسے جل رہے تھے جس کی مثال نہیں ملتی.
    کہتے ہیں ایک داڑھی رکھے ہوئے بندے کو کسی نے آواز دی
    ”امیر صاحب“!
    جواب ملا: امیر ہوگا تیرا باپ
    اتنا تلخ جواب نفرت یا خوف اللہ ہی جانے، لیکن دونوں صورتوں میں تشویشناک ہے

    ایرانی شریعت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جن کو وہاں زبردستی باپردہ کیا ہوا ہے. وہ بیرونی ممالک میں پردے اور حیا کا کیا حشر کرتے ہیں، وہاں مقیم افراد زیادہ بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں

    یہ کوئی لطیفے نہیں بلکہ تلخ حقائق ہیں. آج بھی کسی قبائلی سے پوچھ لیں، وہ آپ کو بتائےگا کہ ہمارے قمیض کے کالر کاٹ کر درختوں پر باندھے جاتے تھے کہ یہ یہودیانہ لباس ہے تاکہ اور عبرت حاصل کریں.

    عرض یہ ہے کہ شریعت کسی ڈنڈے کا نام نہیں جو سر پر مارو اور نافذ ہوجائے بلکہ اس کے لیے سوچ بدلنی پڑتی ہے، اذہان تبدیل کروانے پڑتے ہیں۔ شریعت ایک ٹھوس اور عملی تحریک کا لائحہ عمل ہے، یہ انسانی زندگی پر عملا حکمرانی کے لیے آیا ہے. اور اس کے لیے شدید ضروری ہے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جو عقیدہ الوہیت کا نہ صرف دل و جان سے اقرار کرتا ہو بلکہ اس عقیدے پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو اور ایسا تبھی ممکن ہے جب معاشرے کو اس دین سے پوری طرح پوری تسلی کے ساتھ آگاہ کرکے آشنا کیا جائے.

    ہمارے پاس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جماعت کی مثال سامنے ہے. صحابہ کرام کی قرآن مجید سے ایسی تربیت ہوئی کہ ایک حبشی غلام گرم ریت پر لٹائے جانے کے بعد بھی صرف اللہ احد اللہ احد ہی کہتا رہتا ہے۔ عرب جیسے جاہل معاشرے میں اسلامی تحریک پیدا کرنا اور پھر اس کے نتیجے میں ایسی حکومت بنانا جو عدل کا نظام دے، جو دنیا کی بہترین معاشرت کی مثال بنے، جس کے معاشی نظام کا کوئی ثانی نہ ہو، جس کی سیاست کسی بھی غیر اخلاقی مفاہمتوں سے بالکل پاک ہو، ایک انتہائی مشکل ترین کام تھا لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعلی ترین اخلاق اور صحابہ کرام کی تربیت ہی تھی کہ جس کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا تھا، وہ ہوا اور عرب تاریکیوں کو ایک پاکیزہ نور میں تبدیل کردیا. ایسے وقت میں جب اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوم کے فرد کو مارنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسی سوچ بنی تھی کہ اگر یہ میری قوم کا نہیں تو اس کو زندہ رہنے کا حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے، ایسے ہی وقت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی حالات میں بھی انسانیت کا درس دیا۔

    دیکھیے شریعت کی ذمہ داری صرف عقائد و اعمال میں انقلاب برپا کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے طرز فکر اور انداز نظر کو بدل دینا اور حالات کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں بھی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ہے. کسی اسلام پسند شریعت پسند تنظیم یا تحریک کی کوششوں پر شک نہیں لیکن سوال تو اٹھتے رہیں گے. جس طرح سید قطب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ مخلص خادمین اسلام بعجلت دین کے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں، وہاں وہ ان کو ایک نازک سوال سے دوچار کر رہی ہے کہ جس شریعت کو آپ نافذ کروانے نکلے ہیں، اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ اسے نافذ کرنے کی خاطر آپ نے اس پر کتنی ریسرچ کی ہے؟ کتنے مقالے اور مضامین تیار کر رکھے ہیں اور دراصل یہ سب اسلام پر ایک رکیک طنز ہے۔

    سب جانتے ہیں کہ جب جاہلی معاشرہ باقاعدہ اپنی جیتی جاگتی صورت میں موجود ہو تو اس کو مٹانے اور انسانوں کو از سر نو اپنے خالق حقیقی کے آستانے پر لاکھڑا کرنے کے لیے محض دعوتی نظریہ بےسود ہے بلکہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس جاہلی معاشرے کے مقابلے میں ایسے معاشرے کو لا کھڑا کروانا ہے جس کے اصول حیات بہت معتبر اور اس کا پورا ڈھانچہ ایسا ہو جس میں وہ کوتاہیاں موجود ہی نہ ہوں جو پہلے سے موجود جاہلی معاشرے میں ہوتے ہیں۔

    اس معاشرے کو میدان میں اتارنے والی تحریک اس عزم کے ساتھ اترے کہ اس کی نظریاتی بنیادیں، انتظامی تدابیر، اجتماعی نظم اور تحریک کے کارکنان کے باہمی تعلقات اور پھر پوری امت کے ساتھ ان کے تعلقات ہر ہر پہلو میں جاہلی معاشرے سے قوی اور محکوم تر ہوں۔
    (جاری ہے)