Tag: عشق

  • طلاق اور خلع کی وجوہات: جنس اور عشق – حافظ محمد زبیر

    طلاق اور خلع کی وجوہات: جنس اور عشق – حافظ محمد زبیر

    حافظ محمد زبیر ہمارے معاشروں میں طلاق اور خلع کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ میاں بیوی کے اختلافات، جھگڑوں اور علیحدگی کے پیچھے بلاشبہ بیسیوں اسباب ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس وقت ان اسباب میں سے دو اہم اسباب کا ذکر کرنا ہے کہ جو میاں بیوی میں اختلاف، جھگڑوں اور علیحدگی کا ایک بہت بڑا سبب ہوتے ہیں لیکن معاشرہ تو کجا بعض اوقات خود میاں بیوی اس قدر شرمیلے واقع ہوتے ہیں کہ اس بارے اپنے فریق مخالف کو کوئی واضح پیغام پہچانے سے قاصر رہتے ہیں۔

    اللہ عزوجل نے مرد میں جنس کا جذبہ بہت قوی رکھا ہے جبکہ عورت کو رومانس کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عورت کو مرد کی اس مجبوری کا علم ہے، کسی کو تھوڑا اور کسی کو زیادہ، اور گھر میں معمول کے اختلافات کے نتیجے میں عورت اپنے شوہر سے اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کے حوالے سے بچنے اور دور رہنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ اس کا شوہر بھی دباؤ میں رہے۔ اور بعض عورتوں کا خیال ہوتا ہے کہ شاید ان کے مردوں کا اس بارے تقاضا بہت زیادہ ہے لہذا وہ اس عمل سے چڑان (irritation) کی کیفیت میں رہتی ہیں اور اسی چڑ کی کیفیت میں ان سے دور بھاگتی ہیں۔

    شادی کے بعد مرد کا اگر جنس کا جذبہ پورا نہ ہو تو وہ فرسٹریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر بے دین ہو تو باہر منہ ماری کر لیتا ہے اور اس طرح گھر میں طاقت کا توازن بحال رکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ ثابت کرے کہ وہ بیوی کے سامنے مجبور نہیں ہے۔ اور اگر دیندار ہو تو یا تو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے عورت کے سامنے جھک جائے گا یا اگر مرد ہونے کا احساس غالب رہا تو طلاق دے کر رخصت کر دے گا، بھلے طلاق کی وجوہات عجیب وغریب بیان کرے گا اور عورت بھی اس پر مطمئن نظر آئے گی کہ طلاق کی وجوہات فلاں فلاں تھیں حالانکہ گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو وجہ وہ نہیں ہوتی جو ظاہر کی جا رہی ہوتی ہے۔اسی لیے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    [pullquote]إذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأتَہ إلَى فِرَاشِہ، فَابَتْ أنْ تَجِيءَ، لَعَنَتْھا المَلاَئِكَۃ حَتَّى تُصْبِحَ[/pullquote]

    ”اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اس عورت پر رات بھر لعنت بھیجتے ہیں۔“

    اب عورتیں اگر یہ کہیں کہ اس حدیث میں ہمارے جذبات کا دھیان نہیں رکھا گیا کہ ہم ساس سُسر کی خدمت بھی کریں اور جب دن بھر کے کاموں سے تھک ہار جائیں تو اب میاں کو خوش کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ عورتوں کی سوچ کا یہ انداز درست نہیں ہے کہ جنس کے معاملے میں مرد کی ضرورت، عورت سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ پس اگر مرد کی ضرورت پوری نہ ہوئی تو وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو توڑ دے گا۔ شاید اسے بعد میں اس پر افسوس بھی ہو لیکن یہ جذبہ اتنا قوی ہے کہ اسے وہاں تک پہنچا دیتا ہے۔

    اور عورت کی ضرورت جو کہ رومانس ہے، مرد پوری نہ کرے تو اگر بے دین ہو گی تو فون، فیس بک وغیرہ پر باہر یاریاں لگائے گی۔ عورت کو مرد سے تعریف چاہیے، چاہے جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اسے مرد سے تحسین (appreciation) چاہیے، چاہے مبالغہ آمیز ہی کیوں نہ ہو۔ اسے مرد سے اگر لمس بھی چاہیے تو اس لیے نہیں کہ مرد اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ قدرت کا ایک ایسا عظیم شاہکار ہے کہ جسے چھونا مرد کے لیے ایک خوش نصیبی ہے۔ اور وہ اس بارے میں ویسی ہی مجبور ہے جیسا کہ مرد جنس کے بارے میں۔

    اور اگر عورت دیندار ہو گی تو یا تو گھٹن سے زندگی کے دن پورے گی، خود بھی تنگ رہے گی اور اپنے مرد کو بھی تنگ رکھنے کی ممکن کوشش کرے گی، اور اگر کچھ خود اعتماد ہوئی یا اس کے پاس کچھ ذرائع آمدن ہوئے، تو خلع کے رستے علیحدگی کی طرف جائے گی۔ آپ  نے عورتوں کو نازک آبگینے کہا ہے۔ پس دو لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو بیوی کے نام پر لونڈی چاہیے اور عورت کو شوہر کے نام پر عاشق۔ اور ان دو انتہاؤں کے مابین گزارہ کرنا ہے دونوں نے اور اسی کا نام ازدواجی زندگی ہے۔

    میاں بیوی کی بڑی لڑائیوں کی وجوہات ہمیشہ چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر بیوی کے کسی عزیز یا سہیلی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے دونوں گھر سے نکلے ہیں تو بیوی نے رستہ بتلانے میں غلطی کر دی کہ جس سے تاخیر ہو گئی۔ میاں کو غصہ آ گیا اور اس طرح ایک دوسرے پر تبصرے ہونے لگے یہاں تک کہ بیوی نے جذبات میں آ کر کہا کہ اس سے تو بہتر تھا کہ آپ مجھے لے کر ہی نہ جاتے۔ اور اس پر شوہر صاحب بھی اتنے فرمانبردار نکلے کہ اسی لمحے گھر کی طرف گاڑی کا رخ موڑ لیا۔ پس اس طرح ایک چھوٹی سی بات ایک بڑے لڑائی جھگڑے کی بنیاد بن گئی۔

    میاں بیوی کا کہنا یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہمیں خواہ مخواہ دوسرے سے چڑ محسوس ہو رہی ہوتی ہے، معلوم بھی نہیں ہوتا کہ چھوٹی سی بات پر اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے؟ چھوٹی سی بات پر اگر زیادہ غصہ آئے تو کوئی نہ کوئی وجہ تو ایسی ہوتی ہے کہ جو خود آپ کو بھی نہیں معلوم۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اس وجہ کو ڈھونڈنے کی اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ شوہر اپنے آفس کے کام کے بوجھ یا تناؤ کی وجہ سے تھکا ہارا گھر آتا ہے اور آرام کے لیے مناسب وقت نہ مل سکنے کی وجہ سے مزاج میں خواہ مخواہ کا چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ بس چھوٹی چھوٹی بات پر لہجہ کاٹ کھانے والا ہوتا ہے ۔ اس کا مناسب حل یہی ہے کہ آرام کے ذریعے اپنی تھکاوٹ دور کر لی جائے۔ اسی طرح کا معاملہ بیوی کا بھی ہو سکتا ہے کہ گھر کے کام کاج کی کثرت کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا ہے لہذا شوہر کی ذرہ ذرہ سی بات پر پارہ چڑھ رہا ہو اور خود بھی سمجھ نہ آ رہی کہ اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میاں بیوی کچھ دنوں سے ایک دوسرے کی ازدواجی یا رومانس کی ضرورت پوری نہ کر رہے ہوں اور اسی سبب سے رد عمل کی ایک فضا میں پہنچ چکے ہوں۔ بعض اوقات اس کی وجوہات خارجی بھی ہو سکتی ہیں کہ نظر وغیرہ لگ گئی ہو یا کسی رشتہ دار نے حسد میں کوئی تعویذ گنڈا کروا دیا ہو۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کو خواہ مخواہ کے باہمی کھچاؤ کی وجوہات کو تلاش کر کے انہیں ختم کرنا چاہیے اور کھچاؤ ختم کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی کوتاہی کے بارے برداشت اور تحمل کا رویہ پیدا کریں اور دوسرا یہ کہ اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو اللہ عزوجل کے سامنے سجدے میں گر جائیں کہ پروردگار! کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا معاملہ ہے؟ آپ ہی اصلاح فرما دیں اور اس بارے اللہ عزوجل سے رو رو کر دعا کریں۔

  • رگِ عاشقی ‌- نیرنگ خیال

    رگِ عاشقی ‌- نیرنگ خیال

    ذوالقرنین چوراہے کے ایک طرف مرزا اور رائے صاحب بیٹھے محو گفتگو تھے۔ کافی دیر سے صنف نازک کے موضوع پر بڑی ہی تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ مرزا اپنے وسیع تر تجربے کی وجہ سے حاوی ہوتے جاتے تھے، جبکہ رائے صاحب بھی کسمسا کر اپنی شد بد ثابت کرنے کو کوشاں تھے۔ باتوں باتوں میں حسن بھی زیر بحث آگیا۔
    میاں یہ حسن کو سمجھنا بھی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ یہ حس صدیوں میں بیدار ہوتی ہے۔ آج کل کے لونڈے لپاڑے کیا جانیں کہ حسن کو پرکھنے کا معیار کیا ہے۔ مرزا نے فخریہ انداز میں کہا۔
    رائے صاحب پہلو بدلتے ہوئے، آپ پھر بڑے مرزا (صاحبہ والے) کی طرف جا رہے ہیں۔ یقین مانیے کہ وہ تاریخ میں ہوس انگیز مشہور ہے۔
    نہیں رائے! تم جانتے نہیں۔ اہل ہند میں اگر کسی نے حسن کو سمجھا ہے تو وہ صرف مرزا ہیں۔ مرزا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
    میں آپ کی بات سے اتفاق ضرور کر لیتا۔ اگر تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم نہ رہا ہوتا۔ رائے صاحب نے اصرار کیا۔
    مرزا نے بھنویں اچکاتے ہوئے۔ تاریخ کس قسم کی تاریخ؟
    چھوڑیے حضور! ’’سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں‘‘ رائے صاحب نے شرارتی انداز میں کہا۔
    تم پھر اسلاف کی کردار کشی کی طرف جا رہے ہو۔ اس بار میں بالکل بھی برداشت نہیں کروں گا۔ مرزا بھڑک کر بولے۔
    اس سے پہلے کہ دونوں میں بحث زور پکڑتی۔ گلی کی نکڑ سے ایک منحنی سا نوجوان، بکھرے بالوں اور شاعر نما چہرے سے اداسی مترشح، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا، ڈولتا، ڈگمگاتا، نمودار ہوا۔
    یہ اناڑی عاشق ہے۔ مرزا نے رازدارانہ انداز میں رائے صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔
    عاشق اناڑی نہیں ہوتا۔ رائے صاحب نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
    رائے یار عاشق اناڑی ہوتا ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں۔ جس طرح ہر چیز کے درجے ہوتے ہیں۔ اس طرح عاشقی کے بھی درجات ہیں۔ مرزا نے یوں کہا جیسے کسی ناسمجھ بچے کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
    یاحیرت! رائے صاحب نے انگشت بدنداں کی عملی صورت پیش کرتے ہوئے کہا۔
    ہمارے ساتھ رہو گے تو سیکھو گے۔ پہلے پہل اس عمر میں جس سے یہ نوجوان گزر رہا ہے۔ انسان ہر کسی پر عاشق ہی ہوا رہتا ہے۔ عاشقی کو روٹی کی جگہ استعمال کرتا ہے۔ دن کو عاشقی رات کو عاشقی چلاتا ہے۔گریبان چاک کیے رہتا ہے۔ ’’دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں‘‘ کی عملی صورت ہوتا ہے۔ اس ابتدائی درجے میں حسن کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ زیادہ تر عاشقی محض عاشق کہلانے اور عمر کا تقاضا سمجھ کر کی جاتی ہے۔ اس کے بعد کے عشق میں کچھ پختگی آتی ہے۔ محبوب کا معیار بھی نسبتاً بلند ہوجاتا ہے۔ البتہ حال وہی ہوتا ہے کہ ’’ایک نام اور شام لے کر بیٹھ گئے۔‘‘ اس کے بعد کچھ مزید پختگی آتی ہے۔ انسان جب کوئی دس کے قریب عشق کر گزرتا ہے تو اس کو آہ کرنے کے آداب آتے ہیں۔ اور جب کوئی عاشق پختہ ہوجائے تو زمانہ اس کو ہوس انگیز کہنے لگتا ہے. اس بات کو یکسر نظر انداز کر کے کہ اس نے کیسی کیسی نہریں کھود ڈالی ہیں۔ مرزا نے عشق و عشاق کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    یعنی بڑے مرزا (صاحبہ والے) پختہ عاشق تھے، اور فرہاد بھی مرزا تھا، رائے صاحب نے استعجابی انداز میں پوچھا۔
    کس کند ذہن سے پالا پڑ گیا ہے۔ مرزا جھلا کر بولے۔ میاں فرہاد ایک ہی نہر میں پار ہوگیا تھا۔
    اوہ۔ لیکن مجھے تو یہ عاشق کم شاعر زیادہ نظر آتا ہے۔ رائے صاحب نے اس لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئےکہا، جو اب بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
    مرزا اس لڑکے کا یوں جائزہ لینے لگے کہ جیسے قصاب آنکھوں آنکھوں میں جانور کو تولتا ہے۔
    ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ ہلکے سروں میں وہ لڑکا گنگناتا پاس سے گزرتا چلا گیا۔
    دوندا ہے۔ مرزا نے انکشاف کیا۔
    دوندا؟ دوندے سے کیا مراد ہے آپ کی۔ رائے صاحب نے حیرت سے مرزا کو دیکھا۔
    دو عشق فرما چکا ہے۔ اناڑی پن سے دونوں کو کھو چکا ہے۔ مرزا نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ رائے کو دیکھا۔ جو کسی کرامت پر مرید کی حیرانی سے کھلی آنکھیں دیکھ کر پیر کے چہرے پر نمودار ہوتی ہے۔
    لیکن یہ تو کوئی کاروباری آدمی لگتا ہے۔ رائے صاحب نے اپنی ہٹ قائم رکھی۔
    یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا؟ مرزا کے چہرے پر پہلی بار حیرت کے آثار دیکھے گئے۔
    کچھ چلن اور کچھ غزل کے انتخاب سے۔ رائے صاحب نے اپنی جہاں دیدہ رائے پیش کی۔
    نہیں میاں! گلشن کا کاروبار محض مرزا یاروں کی وجہ سے قائم ہے۔ مرزا نے بڑے تفاخر سے گردن اکڑا کر کہا۔
    ہیں! رائے صاحب کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ لیکن مرزا تو مار کر کھانے کے عادی تھے۔’’خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبت زاغ۔‘‘ ایسا کب سے؟
    اوہ یار! ہمارا مطلب کہ چمن پر بہار ہم سے ہے۔ یعنی فصل عشق کی آبیاری ہم سے عمدہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مرزا تڑپ کر بولے۔
    اوہ اچھا! میں سمجھا۔ رائے صاحب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ بات کاٹ کر کہنے لگے۔ تمہاری عقل کا ماتم بنتا ہے۔
    ویسے یہ بچہ باذوق ہوگا جو مہدی حسن کی غزل گنگنا رہا تھا۔ رائے صاحب نے بات کا رخ موڑنے کو کہا۔
    میاں! یاد رکھو۔ عورت کی آواز ہی سر صحیح لگا سکتی ہے۔گائیکی مردانہ کام نہیں۔ مرزا نے گائیکی کے اسرار و رموز بیان کرنے شروع کیے۔
    لیکن یہ تو مہدی نے ہی گائی ہے۔ رائے صاحب نے اصرار کیا۔
    بھئی گائی مہدی نے ہو یا کسی چوراسی گھرانے کے فرد نے، لیکن کبھی تم اس کو فریدہ خانم کی آواز میں سنو۔
    آپ ہمیشہ بوڑھی عورتوں کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔ رائے صاحب نے جھلا کہا۔
    بھئی ہم بے وفا نہیں۔ بچپن کے تمام عشق بازیوں کے قصے ابھی تک سینے سے لگا رکھے ہیں۔ مرزا نے پکے ٹوٹے عاشق کے انداز میں کہا۔
    آپ کا ان سے معاشقہ رہا ہے۔ رائے صاحب نے سوالیہ نشان بن کر کہا۔
    یکطرفہ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر مرزا نے کہا۔
    خیر۔ یہ بلونگڑا یہاں اس اڑن کھٹولے کے لیے آیا ہے جو تین پہیوں پر نوجوان اٹھا کر لے جاتا ہے۔ میں اس کو کئی دن سے دیکھ رہا ہوں۔ مرزا نے پرانے زخموں کو کریدنے سےگریز کرتے ہوئے کہا۔
    لیکن بوڑھے اور بچوں کا کیا قصور ہے۔ رائے صاحب بھی خاموش کہاں ہونے والے تھے۔
    اوہ بھائی! ’’نو‘‘ ’’جوان‘‘۔ ایک تو یہ زبان کی باریکیوں نے ہم کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ مرزا سٹپٹا کر بولے۔
    اچھا وہ آیا تو تھا ایک۔ لیکن یہ اس پر بیٹھا کیوں نہیں۔ رائے صاحب نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    بیٹھے کیسے؟ اس میں گلشن نہیں بیٹھی ہوئی میاں، جب تک گلشن نہیں آئے گی، یہ یہیں کھڑا دھوپ کو سزا دیتا رہے گا۔ مرزا شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے بولے۔
    مرزا آپ کے تجربے کے مطابق یہ دوسرا عشق ہے۔ رائے صاحب نے کہا۔
    نہیں میاں۔ یہ نوجوان اب تیسرے کے لیے پر تول رہا ہے۔ لیکن حالات اس کے عشق اولیں والے ہی ہیں۔ یعنی کچھ سیکھ نہیں پایا ۔
    اتنے میں ایک اڑن کھٹولے میں ایک دوشیزہ جلوہ افروز نظر آئی۔ وہ نوجوان اس کی طرف یوں لپکا۔ گویا کسی عوامی مرکز پر آٹا ملنے لگا ہو۔ اور یہ جا وہ جا۔
    اس کے بعد بڑی دیر تک خاموشی رہی۔ پھر جو لب ہلے تو موضوع عارفانہ ہو چلا تھا۔