Tag: عراق

  • مجھے جنگوں سے نفرت ہے – رضوان اللہ خان

    مجھے جنگوں سے نفرت ہے – رضوان اللہ خان

    رضوان اللہ خان ’’کبھی تاریخ پڑھو تو تمہیں نظر آئے کہ جنگوں میں کیا ہوتا ہے، لوگ کیسے بھوک سے مرتے ہیں اور معیشت کیسے تباہ ہوتی ہے؟‘‘ میرے ایک کالم نگار دوست جنگوں کے نقصانات بیان کر تے ہوئے مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے سو فیصد متفق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں لیکن تم تو بہت کم نقصانات بتا رہے ہو، شاید تم نے تاریخ کا مطالعہ صرف اتنا ہی کیا ہوگا کہ معیشت کہاں سے کہاں پہنچی اور بھوک سے کُل کتنے لوگ دنیائے فانی سے رخصت ہوئے‘‘۔

    درحقیقت جنگوں میں نقصان کس قدر زیادہ ہوتا ہے اس کو دیکھنے کے لیے امتِ محمد ﷺ کی تاریخ سے بھی پہلے کی تاریخ تک جانا ہوگا۔ جہاں وقت کی فراعین گھر گھر میں پیدا ہونے والے بچے کا سر قلم کروادیتے، جہاں ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو بادشاہ کی کنیز سمجھا جاتا تھا، جہاں غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کر جانوروں سے بھی سخت کام لیا جاتا۔ ایسے دور میں جنگوں کا بھلا کیا حال ہوتا ہوگا کیا کبھی کسی نے جاننے کی کوشش بھی کی؟ اگر نہیں تو دیکھیں اہل مصر جنگوں میں چھوٹے بچوں کو بھی آگ لگا دیا کرتے، فراعین عورتوں کی کھالیں تک اُتار دیا کرتے، بڑے بڑے جنگجو جنگ سے لوٹنے پر غلام عورتوں کی عزت لوٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے، درندگی کی حد تو یہ تھی کہ چھوٹی بچیاں اپنے خوبصورت نین نقش کے حساب سے کسی بڑے کمانڈر کو تحفہ دی جاتیں۔

    جنگ جیتنے کے بعد ہاتھ آنے والے بچے ننگے بدن سار ا سارا دن کام کیا کرتے، بوڑھوں کے بوڑھے کاندھے منوں بوجھ تلے دبا دئیے جاتے اور جوانوں کے عضو خاص تک کاٹ دئیے جاتے تھے۔ سقراط کے ایتھنز اور پورے یونان کی جنگوں کا حال دیکھ لیجئے کہ عین جنگ کے دوران ہی فوج کے شرابی نوجوان کسی گھر میں گھس جاتے، تمام مردوں کو قتل کردیا جاتا اور عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا۔ کئی کئی راتیں انہی لڑکیوں کو اپنے گھوڑوں پر باندھے رکھتے اور جہاں رات ہوئی وہیں سب چیل کوؤں کی طرح ان پر جھپٹ پڑتے اور سارا جسم نوچ لیتے۔

    قیصر وقیصریٰ کی فوج بھی کچھ مختلف نہ تھی، وہ جہاں جاتے شہر کے شہر روند ڈالتے، گھروں اور کھیتوں کوآگ لگا دیتے ، عورتوں اور بچوں کو گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا کرتے۔ پھر ان چودہ سو سالہ تاریخ میں جنگیں بھی اسی طرز پر ہوتی رہیں، اندلس فتح کرنے کے بعد عیسائیوں نے سزائوں کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے، جو شخص عیسائی ہونے سے انکار کر دیتا اس کی ایک ٹانگ ایک گھوڑے کے ساتھ اور دوسری ٹانگ دوسرے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر انہیں مختلف سمت میں دوڑا دیا جاتا۔ اینکویزیشن جیسی دہشت گردانہ اور سفاکانہ سزا پادریوں کی ایجاد تھی جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عیسائی نہ ہونے والی یا خفیہ نماز پڑھنے والی لڑکیوں کے بھی بدن سے کپڑے چھین لئے جاتے اور میخوں سے بھری میز پر لٹا دیا جاتا ۔ اللہ اکبر کبیرا ۔۔۔اینکویزیشن میں کیسی کیسی سزائیں تھیں مجھ میں ہمت نہیں کہ ابھی انہیں بیان کرسکوں سو موجودہ دور میں جنگوں میں برپا کئے جانے والے ظلم کی بھی چند جھلکیاں دیکھ لیتے ہیں۔

    عراق پر امریکی حملہ : سکول جاتی بچیوں کا ریپ، چھوٹے بچوں کو سنائپر سے نشانہ بنا کر قہقے لگانا، عورتوں پر اپنے نشانے سیٹ کرنا ، زندہ لوگوں پر ٹینک چڑھا دینا۔۔۔
    افغانستان پر امریکی حملہ: کم عمر لڑکیوں کو اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں لے جا کر ریپ کرنا اور ہوائوں سے اس کا مردہ بدن زمین پر پھینکنا، ڈیزی کٹر بم، کارپٹ بمباری، گھر تباہ، سکول تباہ، حوس کے پجاری چھوٹے بچوں کو بھی حوس کا نشانہ بناتے ہوئے، لاکھوں لوگوں کی جانیں صرف خود کو سپر پاور ثابت کرنے کی خاطر۔
    برما میں بدھوں کا ظلم : اپنی عصمت کی حفاظت میں عورتوں کا دریائوں میں کودنا، بچوں کے اوپر سے گاڑیاں گزاری گئیں، کُند چھریوں سے گلے کاٹے گئے، لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، بوڑھوں کی داڑھیاں نوچی گئیں۔۔۔
    افریقہ میں عیسائیوں کا ظلم: کلہاڑوں اور چھریو ں سے مسلمانوں کی گردنیں کاٹنا، ان کے جسم کو چیر پھاڑ دینا، ان کے کلیجے اور دل چپبانا، پوری پوری ٹانگ کاٹ کر اس کا گوشت کھانا۔۔۔
    شام میں بشار کا ظلم: عمر ، ابوبکر، عائشہ، حفصہ اور عثمان نام کے لڑکے لڑکیوں کو زندہ آگ لگانا، بچیوں کی ننگی لاشیں بجلی کی تاروں پر لٹکا دینا، عمر نام کے بچوں کے جسم کو آگ لگا کر عضو خاص کاٹ ڈالنا، حلب کو خون میں نہلا دینا۔۔۔
    کشمیر میں بھارتی ظلم: کون نہیں جانتا اس ظلم سے متعلق، کوئی آج کل کی تو بات ہے نہیں، ایک طویل کہانی ہے جہاں ہر صفحہ خون آلود، ہر صفحے پر عصمت دری، ہر صفحے پر گردن زنی اور ہر صفحے پر ہندوئوں کی دہشت گردی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ۔۔

    ہزاروں جنگیں اور ان میں برپا کیا جانے والا ظلم بیان کرنے اور ان کا احاطہ کرنے کے لیے سینکڑوں جلدوں پر مشتمل کتب بھی کم پڑجائیں گی لیکن سچ کہتا ہوں میرا رب جانتا ہے اس ظلم اور سفاکی کی وجہ سے جب بھی کوئی جنگ کرنے اور جنگ ہونے کی بات کرتا ہے تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے، کیونکہ ظلم کی ان طویل داستانوں کی وجہ سے مجھے جنگوں سے نفرت ہے اور جب کوئی مسلمان کسی ملک سے جنگ کی بات کرتا ہے تو سوچتا ہوں کہ ارے نادان جس اُمت کو رب نے ’’جہاد‘‘ جیسا فریضہ دے رکھا ہو، وہ ایسی جنگوں کی بات کیسے کر سکتا ہے؟

    یہی بات اپنے ان کالم نگار دوست کے لیے بھی کہتا ہوں کہ معیشت اور بھوک سے نکل کر بھی جنگوں کی تاریخ دیکھیں اور ان سب کا موازنہ مسلمانوں کے جہاد کے ساتھ کریں، جس جہاد کے خلاف دلائل دینے کے لئے انہوں نے جنگوں کے بیان کا سہارا لیا ۔ ایک ایسا فریضہ جس میں حکم ہی یہی ہے کہ صرف مدِ مقابل فوج ہی کو قتل کر سکتے ہو اس کے سوا، بچے، بوڑھے، عورتیں، گرجوں اور عبادت گاہوں میں مصروف لوگ اور ان کے مال مویشی کبھی تمہاری تلواروں کی زَد میں نہ آئیں۔ اورتاریخ گواہ ہے کہ اوپر بیان کردہ جنگیں ہم پر تب تب مسلط کی گئیں جب جب جہاد کے منکرین جہاد کے خلاف میدانوں میں نکل آئے اور مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو کم کرنے یا ختم کرنے کی گھنائونی سازش میں مصروف ہوئے۔

    سو ایسے ہر دانشور کو جان لینا چاہیے کہ کشمیر کی حریت پسند تحریکیں جو اپنا لہو جہادی ولولوں کے ساتھ پیش کررہی ہیں یہ سب اس غزوہ ہند کے شرکاء ہیں جس غزوہ کا اعلان چودہ سو سال قبل نبی رحمتﷺ نے اپنی مبارک زبان سے فرما دیا تھا اور یہ بھی یاد رکھا جائے جب بھی بھارت سے جنگ ہوگی تو وہ ان کی جانب سے جنگ لیکن مسلمانوں کی جانب سے جہاد ہوگا جوکہ غزوہ ہند کا آخری وار ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ

  • سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

    سعودی عرب اور ایران میں لڑائی کیوں ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟ نقصان کس کا ہے؟ ناصر فاروق

    فارس کے جنگجو بیڑے یمن کی سمندری موجوں میں اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ ”دور رس“ نگاہیں تہران سے کوفہ اور مدینہ تک خون کا سمندر موجزن دیکھ رہی ہیں۔ نجران اور جیزان کے ساتھ ساتھ چلتی حجاز کی حدوں میں حوثیوں کا ہجوم جمع ہو رہا ہے۔ دوسری جانب آل سعود خوفزدہ نگاہوں سے جاتے ہوئے دن دیکھ رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل اور تیل کی دھار چمک کھو رہی ہے۔ ریاض حکومت کا ریونیو لڑکھڑا رہا ہے۔ سعودی عوام کی سبسڈیز اچھے دنوں کی یاد بنتی جا رہی ہیں۔ خارجی مزدوروں کے غلامانہ شب و روز نامراد ہوئے جاتے ہیں، واجب الادا مزدوری تک ملنا محال ہو رہا ہے۔ نسل پرست آل سعود تلے کچھ آسودہ نہیں رہا ہے۔

    صاف نظر آرہا ہے، آگ یمن میں بل کھا رہی ہے۔ خلیج عدن کے کنارے عرب و فارس تعصب سے جھلس رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جواب جتنا سادہ اتنا ہی عام فہم سے دور ہے۔ آگ اور مٹی کا ازلی تماشا ہے۔ روایت شیطان ابلیس سے چلی، اور بنی اسرائیل کي فضیلت سے عرب و عجم کی درجہ بندی پر پہنچ چکی۔ یہی ہے مسلم امہ کا اصل مسئلہ۔ یہی شیطان کا مؤثر ترین ہتھیار ہے، اسی ہتھیار سے مغرب لیس ہے۔

    خبریں مسلسل خبردار کر رہی ہیں۔ ایران کے پریس ٹی وی پر فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل مسعود جزائری کا بیان نقل ہوا ہے کہ ”ایران سے جنگ سعودی اتحاد کے بس کی بات نہیں، یہ اتحاد ایران کے مقابلہ میں بہت کمزور ہے۔“

    فارن پالیسی جریدے نے رپورٹ کیا کہ ایران کے دوجنگی جہاز خلیج عدن پہنچ چکے، جہاں امریکہ کے جنگی بیڑے پہلے سے موجود ہیں۔ ایران کے جہاز الوند اور بوشہر جدید جنگی صلاحیتوں اور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

    رائٹرز سے خبر آئی ہے کہ روس نے s-300 میزائلوں کی طے شدہ کھیپ ایران کو مہیا کر دی ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد نے غلط معلومات کی بنیاد پر یمن کے دارالحکومت صنعا میں جنازے پر بمباری کی، سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے۔

    ان خبروں کے علاوہ دو تجزیاتی پروپیگنڈے بھی مغربی منصوبے کی پیش رفت سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔

    دی اکانومسٹ کا مضمون The West should help Saudi Arabia limit its war in Yemen، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مغرب کو جنگی مکر و فریب کی نئی ضرورت سمجھا رہا ہے۔ مضمون مغربی نقادوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ ”وقت آگیا ہے کہ مغرب سعودی عرب سے شرمناک اتحاد ترک کر دے۔ اخلاقا اور شاید قانونا امریکہ اور برطانیہ سعودی عرب کی حرکتوں میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سعودی عرب کو جنگی جہاز اور اسلحہ فروخت کرتے ہیں، اور ہدف کو نشانہ بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔“ ( صنعا جنازے پر حملہ کے حوالے سے یہ معنی خیز بات ہے)۔ آگے چل کر مشورہ دیا گیا ہے کہ ”توازن کے لیے ضروری ہے کہ مغرب سعودی عرب کو لگام دے، یمن میں اس کی فضائی کارروائیوں سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کرے، اور حتمی طور پر رکوا دے۔“

    اسلامی تہذیب کے احیاء پرگہری نظر رکھنے والے پروپیگنڈسٹ امریکی مصنف ولی رضا نصر کی کتاب Shia Revival اور کچھ عرصہ پہلے کا ضمیمہ نما مضمون War for Islam مغرب کی حالیہ پالیسی کا بیانیہ واضح کر سکتا ہے۔ مضمون کے اختتام پر نصر مشرق وسطی کی صورتحال کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے، ”مشرق وسطی کو نئے آرڈر کی ضرورت ہے۔ خطے کے زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ اب شیعہ خطے کی سیاست میں بالادست کردار چاہتے ہیں۔ ایران کو محدود رکھنے والی دیوار ڈھائی جا چکی۔ بظاہر، اس صورتحال کو امریکہ کی خاموش رضامندی حاصل ہے۔ سعودی اتحاد چاہتا ہے کہ مشرق وسطی کی صورتحال 2003ء سے پہلے کی سی ہوجائے، مگر وقت آگیا ہے، نئی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایران خطے کی غالب قوت بن چکا ہے۔ اسی اعتراف پر امن کا انحصار ہے۔“

    مغرب کے پالیسی سازوں کی اسٹریٹجی ایسا کھلا راز ہے، جسے چند مرحلہ وار اقدامات میں سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ شیعہ سنی تفریق کے باوجود مشرق وسطی کی تاریخ ماضی قریب تک پرامن رہی ہے۔ مگرعراق پر امریکہ نے حملہ کرکے شیعہ اکثریت کا توازن سنی اقلیت کے خلاف دہشت ناک طریقوں سے بگاڑا، پھر سنی اقلیت کی محرومی و مایوسی کو کرائے کے دہشت گردوں کا شکار کر دیا۔ مشرق وسطی میں ایسی شیعہ سنی جنگ چھڑ چکی ہے، جسے روکنا بظاہر مشکل ہے۔ امريکہ اور روس کی قیادت میں مغربی دنیا دونوں کو اسلحے سے لیس کر رہی ہے۔ اقلیت ہونے کے باوجود ایران کے حق میں توازن پیدا کیا گیا ہے۔ امریکہ ایک جانب سعودی عرب کی حمایت کا ڈرامہ کر رہا ہے، اور دوسری جانب تہران حکومت کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔

    سعودی عرب اور ایران کی خود ساختہ دوقطبی حکومتیں جاہ پرستی و نسلی فضیلت کی جنگ میں کشت و خون پر جُتی ہیں۔ عقلوں پر پردہ پڑا ہے، اور اس پردے پر جو منظر ہے، وہ ایک ایسے میدان جنگ کا ہے جہاں دو لشکر آمنے سامنے ہیں، مگر ایک لشکر میلہ سجائے دوسرے لشکر کے باہمی کشت و خون سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ باہمی خون خرابے میں لت پت لشکر مسلم امہ کا ہے، جبکہ تماشائی لشکر روس، امریکہ اور اسرائیل پر مشتمل ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ مشرق وسطی میں تمام ہی ممالک جنگی خطرات سے دہشت زدہ ہیں، سوائے اسرائیل کے۔ ریاض سے تہران اور بیروت تک جنگجوؤں کی فوج در فوج پورے خطے کو خاک و خون میں ملا رہی ہے، سوائے اسرائیل کے۔ سعودیہ کو کسی سے خطرہ ہے توایران سے۔ ایران کو کسی سے خطرہ ہے تو سعودیہ سے۔ مسلم امہ کا یہ باہمی خوف دور ہوسکتا ہے۔ آسان سا طریقہ ہے۔ عربی، فارسی، حوثی، سنی، شیعہ، اور ديگر مسلکی پہچان، نسلی فضیلت، قومی تعصب، اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر شناخت یا تفاخر ترک کر دیں۔ واحد شناخت ”مسلمان“ ہی کو باہمی فخر کا ذریعہ سمجھیں، اور تقوٰی ہی کو واحد معیار کردار ٹھہرائیں۔ باہمی قتل و غارت میں یہاں تک جو ہوا وہ امت وسط کا عظیم نقصان ہے، اگرنسلی تعصب کی یہ دست درازی حجاز میں ہوئی، تو تہران و ریاض ناقابل تلافی نقصان کے مرتکب ہو جائیں گے۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔

  • غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    خورشید ندیم دورِ جدید میں باب الفتن اور ملاحم کی روایات کا زیادہ تر اطلاق افغانستان پر ہوا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے لے کر طالبان کے ظہور تک، مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ان روایات میں قرب ِقیامت کے باب میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں، آج کا افغانستان ان کا مصداق ہے۔ اس سلسہ ءمضامین کے پہلے حصے میں، میں نے ”جہادِ افغانستان سے ظہورِ مہدی تک“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ذکر کیا تھا۔ یہ ابو عبداللہ آصف مجید نقشبندی صاحب کا مرتب کردہ ہے۔2002ء سے 2005ء تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے۔ اس کتابچے پر لاہور اور حاصل پور کے پانچ مقامات کے پتے درج ہیں جہاں سے یہ کتابچہ مل سکتا ہے۔

    اس میں درج ایک روایت کے مطابق، جو مستدرک حاکم سے لی گئی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمہارے خزانے کے لیے تین اشخاص جنگ کریں گے۔ یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے۔ یہ خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ ان سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے جو پہلے کسی نے نہیں کی ہوگی۔“ اس کتابچے میں اس روایت کو اپنے عہد پر منطبق کرتے ہوئے لکھا گیا: ” شاہ فہد کے تین بھائی ہیں۔ یہ تینوں بادشاہت کے امیدوار ہیں۔ شہزادہ عبداﷲ چونکہ امریکہ کی پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو انہوں نے ہی تسلیم کیا تھا، اس لیے امریکہ شہزادہ عبداﷲ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ وہ یقیناً دوسرے دو بھائیوں میں سے کسی کو آگے لانا چاہے گا۔ جس کے بعد یہ تینوں خلفا کے لڑکے آپس میں جنگ کریں گے لیکن حکومت کسی کے ہاتھ نہ آئے گی۔ ایسے حالات میں حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوگا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے افغانستان کے مجاہدین سیاہ پرچم کے ساتھ نمودار ہوں گے۔“(صفحہ 71) شاہ عبداﷲ کا انتقال ہو چکا۔ امریکہ نے ان کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ’شہزادوں‘ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ وہاں کی روایت کے عین مطابق، اقتدار دوسرے بھائی کو منتقل ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے روایت کے اس مصداق کو درست مانتے ہوئے، افغانستان میں اپنی جان دی، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟

    ایک اور روایت دیکھیے:یہ مشکوۃ سے لی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فر مایا: ” قیامت نہیں ہوگی جب تک دریائے فرات سونے کے پہاڑ سے نہ سرک جائے۔ لوگ اس کے حصول کے لیے لڑیں گے۔ (لڑائی اتنی سخت ہوگی کہ) سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔“ کتابچے کے مصنف نے اس کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا: ”دریائے فرات عراق میں ہے۔ صدام حسین نے دریائے فرات کے رخ کو موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سے دریا کا پانی خشک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں، جب دریائے فرات سونے کے پہاڑ کو ظاہر کر دے گا جس کے حصول کے لیے جنگ ہوگی۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف روایت کا ان واقعات پراطلاق کرتے ہیں اور ساتھ ’واللہ اعلم‘ بھی کہتے ہیں۔ جب ہر بات کا اصل علم اللہ کے پاس ہے تو ہم لوگوں کو کس دلیل کی بنیاد پر مقتل بھیج رہے ہیں؟ اس کا اذن ہمیں کس نے دیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سند پر بغیر تحقیق لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنا دیں؟

    یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ لوگوں نے تاریخی واقعات کو دینی سند فراہم کر نے کے لیے ان روایات کو استعمال کیا ہو۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے گزشتہ مضمون میں جب ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے باب میں ماضی کی بعض آرا کا ذکر کیا تھا تو مقصد ان کی تائید نہیں، یہی نکتہ واضح کر نا تھا۔ میں نے لکھا: ”مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے“۔ اس کے بعد یہ سوال بےمعنی ہے کہ سیوطی کی ’تاریخ الخلفا‘ مصدقہ ہے یا نہیں۔ میں نے جس کتابچے کا ذکر کیا ہے، اس میں بھی افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کو اسی روایت کا مصداق مانا گیا ہے جس میں’ خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کاذکر ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دین قیاس یا ظن پر نہیں کھڑا کہ اس کے مصداق کا تعین ہی نہ ہوسکے۔ جن باتوں کا تعلق ایمان سے ہے، اللہ تعالیٰ اور رسالت مآبﷺ نے اس طرح واضح کردی ہیں کہ قیامت کی صبح تک، ان کی سند اور ان کے مصدقہ ہونے کے بارے میں ابہام نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس امت کی تاریخ میں اخبارِ آحاد سے دین کو ثابت نہیں کیا گیا۔

    مولانا مودودی نے یہ بات اس بلاغت کے ساتھ بیان کرد ی ہے کہ شاید میں اس پر کچھ اضافہ نہ کرسکوں۔ انہوں نے لکھا: ”یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے، اور جن امور پر انسان کی نجات مو قوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن میں بھی ان کو اشارتا یا کنایۃ بیان نہیں کیا گیا بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ان علینا للھدیٰ(اللیل۲۹:۲۱) ”(اور ہمارا کام سمجھا دینا ہے)۔ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو، اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علمِ یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کو فرق واقع ہوتا ہو، انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔“ (رسائل و مسائل، صفحہ 124 )۔

    میں نے اپنی بات کو ان روایات کے اطلاق تک محدود رکھا تھا۔ ان کی صحت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں لکھا۔ مولانا مودودی ایک اصولی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ روایات جس طرح چند افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کی بنیاد پر انہیں اسلام و کفر کے لیے قولِ فیصل نہیں مانا جا سکتا۔ مولا نا تو اس سے بھی آگے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر واحد (جس کے روایت کرنے والوں صرف چند افراد ہوں) دین کے باب میں یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ ممکن ہے بعض ناقدین اسے انکارِ حدیث قرار دینے کے لیے بےتاب ہوں۔ ان سے صبر کی درخواست کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ یہ رائے صرف مولانا مودودی کی نہیں ہے، جمہور احناف کی ہے۔ خود مولانا نے شمس الآئمہ امام سرخسی کی رائے کو اپنی تائید میں نقل کیا ہے۔

    مولانا مودودی امام مہدی سے متعلق روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہ بھی پڑھ لیجیے: ”اب ’مہدی‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہے۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبیﷺ بھی دو چار آدمیوں سے اس کو بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آ پ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جوشخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی اہمیت ہو، اسے محض اخبارِآحاد پر چھوڑ دیا جائے اوراخبارِآحاد بھی اس درجے کی کہ امام مالک اورامام بخاری جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔“ (رسائل و مسائل،صفحہ124)

    یہ کسی منکرِ حدیث کی رائے نہیں، اس شخص کا موقف ہے جس نے پاکستان میں منکرینِ حدیث و سنت کے خلاف سب سے بڑا علمی معرکہ لڑا۔ ہمارے ہاں جب کوئی صاحبِ علم کسی روایت کی صحت پر گفتگو کرتا ہے تو عام لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے اور ایسے عالم پر منکرِحدیث کا فتویٰ لگا دیا جا جاتا ہے۔ میں نے یہ بات مو لا نا مودودی کے حوالے سے اسی لیے بیان کی ہے کہ ہما شما کو ہدف بنانا آسان ہو تا ہے۔ اب کوئی ہمت کرے اور کہے کہ مو انا مودودی منکرِ حدیث تھے۔

    جب کسی روایت پر جرح ہوتی اور اسے رد کیا جاتا ہے تویہ حدیثِ رسول پر جرح نہیں ہوتی۔ کوئی مسلمان یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی بات پر جرح کرے۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ یہ جرح دراصل اس بات پر ہوتی ہے کہ روایت کی رسول اللہ ﷺسے نسبت ثابت ہے یا نہیں۔

    اگر امام مہدی جیسی روایات کا معاملہ، مولانا مودودی جیسے عالم کے نزدیک یہ ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کالے جھنڈوں جیسی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت کیا ہوگی۔ اسی لیے میں لوگوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کسی بات کو رسول اللہﷺ کی طرف نسبت دیتے وقت سو بار سوچنا چاہیے۔ جہاں لاکھوں لوگوں کے ایمان، جان اور مال کا معاملہ ہو تو وہاں زیادہ احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ باتیں اخلاصِ نیت سے کی جا تی ہوں گی لیکن کسی بات کی صداقت کے لیے محض اخلاص کافی نہیں، ضروری ہے کہ اس کی عقلی توجیہ ممکن ہو۔ دین کے نام پر کچھ کہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے اس کی سند بھی ثابت ہو۔ محض ظنی علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان اور جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

    ہمارے ہاں چونکہ ارتکازِ توجہ کے ساتھ علمی مباحث کا رواج نہیں، اس لیے بحثیں اکثر خلطِ مبحث کا شکار ہوجا تی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اعتراض اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی صاحبِ علم کی کوئی بات تائید میں نقل کی جاتی ہے۔ اب اس رائے کی صحت پر کچھ کہنے کے بجائے، یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسی صاحبِ علم کی فلاں بات آپ کیوں نہیں مانتے۔ میں نے مو لانا مودودی کی ایک رائے نقل کی تو کہا جائے گا کہ ان کی فلاں رائے بھی ہے، آپ اسے تو نہیں مانتے۔ جیسے پچھلے کالم کے حوالے سے سیوطی کے بارے میں کہا گیا۔ یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر ہم فزکس میں نیوٹن کی بات کو درست کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مسیحت کے بھی قائل ہو جائیں کیونکہ وہ مسیحی تھا۔
    ملاحم اور باب الفتن کی روایات کی صحت اور ان کے اطلاق پر عمومی گفتگو کے بعد، ان شااللہ اگلے مضمون میں اس سوال کو موضوع بنایا جائے گا کہ کیا پاکستان کا قیام کوئی الہی منصوبہ تھا اور اس کے قیام سے کیا غزوہ ہند کی روایات کا کوئی تعلق ہے؟

  • جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    وہ دونوں بھائی رات بھر قبر کھودتے رہے۔ رتی رتی مٹی اپنے نوکیلے اور وحشی ناخنوں سے کھرچتے اور پاس ہی ننھی منی ڈھیریوں میں ڈھالتے چلے جاتے۔ قبر کی مٹی ابھی تازہ تھی۔پانی کی بوندوں سے اٹی سوندھی سوندھی مٹی کے ساتھ بھینی بھینی خوشبو بکھیرتے دلکش سرخ گلابوں تلے کوئی ابھی کچھ ساعتوں قبل ہی دنیا کے دل آزار بکھیڑوں سے مکتی پا کر گہری نیند سویا تھا۔ ابھی آج ہی کی گہری شام کے سائے تلے تو وہ وجود اس مٹی کی آغوش کو سونپا گیا تھا۔ دونوں بھائی کسی دور کی بیگانی قبر پر بیٹھے اس کی تدفین کا نظارہ کر رہے تھے۔ تازہ انسانی گوشت بنا کسی سرانڈ اور خراش سے پہلے، وہ خراش جو مٹی کے ہمجولی حشرات کے اس لاش کو بھنبھوڑنے سے ماس پر آجاتی ہے، جہاں کالا پڑتے لہو کی جمی ہوئی قطار گوشت کو بد ذائقہ اور بدنما کر دیتی ہے، اس سے پہلے کا انسانی گوشت ان دونوں بھائیوں کی مرغوب غذا تھا۔ انہیں اس مردم خوری کی خواہش پاگل کر رہی تھی۔ کام جلد از جلد نپٹانے کے لیے وہ وقتاً فوقتًا پاس رکھی کھرپیوں سے بھی مدد لے رہے تھے۔ پسینے کی غلیظ اور ناقابل برداشت باس بکھیرتے قطرے ان کے مکروہ چہروں کو اور بھی زیادہ کریہہ بنا رہے تھے۔ کسی کسی لمحے خوف کی تھر تھری ان کے وجود میں چھوٹتی لیکن فوراً ہی ان کے اندر کی درندگی اور ہوس ان کی گھبراہٹ پر قابو پاکر ان کے وجود میں پلنے والی وحشی بھوک کو جگا دیتی۔ انہیں انسانی وجود کی بوٹیاں نوچنی تھیں۔ بہت دن گزر گئے تھے انسانی لہو کا ذائقہ چکھے۔

    کہتے ہیں انسان کو انسانی ماس نوچنے کی عادت ورثے میں ملی ہے۔ نسل انسانی کے ارتقائی مراحل کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو مردم خوری اس کی جبلت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جنوب مغربی جرمنی میں دریافت ہونے والی، انسان کی تین ہزار سال پرانی قدیمی باقیات پر تحقیق کرنے سے بھی آدم خوری کے شواہد بآسانی مل جاتے ہیں۔گو کہ یورپ میں پتھر کے دور کے آغاز میں آدم خورموجود تھے۔ لیکن اگر تاریخی شواہد کا مزید مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ انسان کی مردم خوری کے آثار کسی ایک انسانی خطے میں نہیں بلکہ اس کائنات کی تقریباً تمام انسانی آبادیوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رسم عموماً مذہبی تقریبات کا ایک خاص حصہ سمجھی جاتی تھی۔ کبھی سخت قسم کے قحط کی صورتحال میں بھی دشمن قبیلے کے افراد کو مار کر کھایا جاتا تھا۔ انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی رشتے دار کے مر جانے پر احتراماً بھی اس کے مردہ جسم کے کچھ حصے کو غذا کے طور پرکھایا جاتا تھا۔ بعض قبائل دنیا سے رخصت ہوجانے والے کے سر کو دفنا کر اس کا باقی ماندہ وجود اپنی خوراک کا حصہ بنا لیا کرتے۔ انیسویں صدی میں افریقہ اور بحرالکاہل کے بعض جزائر میں تحقیق کاروں نے ایسے علاقوں کی کھوج لگائی جو باقی دنیا سے بلکل کٹے ہوئے تھے اور ان کی غذا کا سب سے آسان وسیلہ مردم خوری ہی سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ میں بعض ایسے افریقی قبائل بھی پائے جاتے ہیں جو تبلیغ کے لیے آئے مشنری عیسائیوں کو سزا کے طور پر مار کر اپنی خوراک کا حصہ بناتے۔ تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہندوﺅں میں ”آگوری قبیلہ“ بھی انسانی گوشت رغبت سے کھایا کرتا تھا۔ اس قبیلے کے سادھو گنگا جمنا سے انسانی لاشیں نکال کر ان کا بھوجن کرتے۔ ویسے تو عموماً قدیم ہندو بھی اپنے مُردوں کو شمشان گھاٹ میں جلایا کرتے تھے لیکن کچھ ہندو کبھی کبھار اپنے مُردوں کو گنگا جمنا میں بھی بہا دیا کرتے۔ اور جنہیں یہ سادھو نہ صرف طویل العمری پانے کی خاطر اپنے منہ کا نوالہ بناتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ اس طریقے سے کچھ مافوق الفطرت شکتیوں کا حصول بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ ایسے سادھو آج بھی شمالی بھارت کی پہاڑیوں میں قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے قریب بحرالکاہل میں واقع ملک نیوگنی کے دور افتادہ جنگلوں میں آج بھی مردم خور قبیلہ موجود ہے۔ فجی کو تو آدم خوری کی وجہ سے کسی زمانے میں ”آدم خوروں کا جزیرہ “ کہا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران سردیاں شروع ہوئیں تو فوجیوں کے لیے پرندے ،چوہے اور دوسرے جانور دستیاب ہونا ختم ہو گئے تو ایسے کڑے وقت میں پیٹ کی آگ بجھانے کو فوجیوں نے مردہ اور سڑے ہوئے جسموں کو کھا کر اپنی بقاءکا انتظام کیا۔گویا مردم خوری کا تعلق بہت شدید حد تک انسان کی بھو ک سے رہا ہے۔ اور بہت ہی قلیل طور پر کسی ذہنی و دماغی عارضے سے۔

    شاید انسان اپنے ارتقاء کے پہلے مرحلے میں ایسا نہ رہا ہو شاید محض جڑی بوٹیاں اور جنگلی بیریاں ہی اس کی غذا رہی ہوں۔ پھر انسان کی وحشت کے ایسے دور کا آغاز ہوا جب اس نے جنگلی جانوروں سے اپنی جان کے تحفظ کی خاطر اپنا پہلا ہتھیار ایجاد کیا۔ وہ درختوں پر اپنا بسیرا کر کے، شکار کی تاک میں رہتا اور نا صرف اپنے ہتھیار سے خود اپنی جان محفوظ بناتا بلکہ ان جنگلی جانوروں کا شکار کر کے اپنی بھوک بھی مٹاتا تھا۔ لیکن پھر اس ہتھیار کو خود انسان پر بھی آزمایا جانے لگا۔ کبھی زندہ دشمن نما انسان کا شکار تو کبھی مردہ انسان کے جسم سے گوشت نوچنا اس نے سیکھ لیا۔ بعد ازاں جنگلوں سے نکل کر دریاﺅں اور پہاڑوں کا رخ کیا تو خوراک کی جدوجہد نے اسے جنگلوں کو کاٹ کر کھیتوں اور کھلیانوں میں بدلنا سکھایا۔ وہ اپنی وحشی فطرت کو قابو کرنے میں قدرے کامیاب ہوا ۔پھر لوہے کے ہتھیاروں کا استعمال بھی بڑھا ۔اور اس کے استعمال میں بھی بہت جدت اختیار کی گئی۔ لیکن جب دنیاوی سفر کو آسمانی ضابطے عطا ہوئے ،تو یہی آسمانی ضابطے ،انسانی اخلاقیات کو قانونی اور آئینی شقوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے اور انسان کو انسان سے اماں ملی۔

    کہتے ہیں انسانی ماس جب کسی کے منہ کو لگ جائے تو اس کی لت کبھی چھٹتی نہیں، وقتاً فوقتاً مختلف روپ میں ڈھل کر اس کی ہوس کو تسکین دے ہی لیتی ہے۔گو کہ وقت کے پنے بدلتے رہے۔ انسانی اخلاقیات کے ضابطے روز بروز نکھرتے رہے۔ انسان نے علم اور شعور کی منازل بھی بڑی سرعت سے طے کیں۔ وہ اپنے فلسفے اور خیال کی ندرت کے ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔اس کے افکار کو انوکھے پر لگ گئے ۔دریافت کا زمانہ آیا اور انسان اپنے ہنر اور بے پایاں صلاحیتوں کے عوض اس دنیا کی افضل ترین مخلوق بن گیا۔ لیکن انسان اپنی جبلت نہ بھول سکا۔ وہ محفوظ ہو کر بھی غیر محفوظ ہی رہا۔ وہ معاشرت کے انسانی جنگلوں میں بھی وحشت کے سبق کو قصہءماضی نہ بنا پایا۔ وہ بربریت کے اصولوں کو اخلاقی ضابطوں کے صحیفوں سے بدل نہیں پایا۔ وہ” آدم خوری “جیسے قبیہہ فعل کو آزماتا ہی رہا۔ اس کی ہوس اور وحشت، کامیابی کے زعم، انا کی تسکین اور طاقت کے حصول جیسے عناصر میں ڈھل گئی۔ انسان اپنی خونی جبلت کی تسکین خونی جنگوں سے کرتا رہا۔ کبھی مذہب اور سیاست کے نام پر ،کبھی فلسفے اور نظریے کے دام میں آ کر تو کبھی جمہوریت و آزادی کے حصول کی جدوجہد میں وہ جنگیں لڑتا رہا۔ اور اپنے جیسے لاکھوں انسانوں کے وجود نوچتا رہا اوربارود سے اس کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ انسان نے تین ہزار سالوں میں پانچ ہزار جنگیں لڑیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں کی قتل و غارت گری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھی اور موت و ہلاکت کا یہ سلسلہ بحیرہ روم کے کناروں تک پھیل گیا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں لاکھوں کروڑوں انسانی وجود نگل گئیں۔ کئی خوبرو اور با صلاحیت ،غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان بڑی بے دردی سے قبروں میں اتار دیے گئے۔ میدانوں میں لاشیں مکئی کی کٹی فصلوں کے ڈھیر کا نظارہ پیش کرنے لگیں۔ آسمان سے بارود مون سون کی بارش بن کر برستا رہا۔ ہیرو شیما میں 66 ہزار ،اور ناگا ساکی میں 39ہزار جیتے جاگتے انسان آن ہی آن میں لقمہءاجل بن گئے۔ ہٹلر کی مردم خوری کی جبلت 6 ملین انسان نگل گئی۔ انسان جیت گیا انسانیت ہار گئی۔ ان جنگوں کے علاوہ فلسطین میں 50 لاکھ اور کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا قتل، عراق میں2003ء سے اب تک پانچ لاکھ انسانوں کا قتل، شام میں چار لاکھ ستر ہزار بے گناہ شہریوں کا قتل انسان کی انسانیت کا منہ چڑاتا رہا۔ کون کہاں ،کیسے اور کس قدر انسانی خون اور لوتھڑوں کا تماشا برپا کیے ہوئے ہے یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن کیا عالمی طاقتیں، عالمی ادارے مردم خور نہیں؟ جو اپنے مفادات کی خاطر غریب اور بے بس انسانوں کو لڑاتے اور مرواتے ہیں اور خود چپ سادھے رہتے ہیں۔ دل دھلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ جدید نیوکلئیر ہتھیار ان ہتھیاروں سے طاقت میں اس قدر مہلک ہیں کہ محض 50 ہتھیار استعمال کر کے 2 ارب لوگ ہلاک کیے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے آئن سٹائن سے جب کسی نے پوچھا کہ تیسری عالمی جنگ کیسی ہوگی تو اس نے جواب دیا ”تیسری عالمی جنگ کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ تلواروں اور ڈنڈوں سے ہو گی۔“ یعنی تیسری عالمی جنگ کی ہولناکی کی لپیٹ ایسی شدید ہو گی کہ انسانی تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔

    اب پہلی کہانی کے باقی حصے کی طرف آئیں، دونوں بھائی بہت محنت اور ریاضت کے بعد اس لاش کو باہر نکال پائے۔ وہ بہت عجلت سے کفن کو کھول کر لاش کا جائزہ لینے لگے۔وہ11,12 سال کے ایک معصوم بچے کی لاش تھی۔ دونوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگی وہ سوچنے لگے کہ اس لاش کو بوری میں بھر کر اطمینان سے اس کے پارچے بنا کر پکائیں گے۔ یکایک وہاں پولیس پہنچ گئی۔ شاید ان کے فرار سے پہلے ہی مخبری ہو چکی تھی۔ وہ یہ واردات پہلے بھی لاتعداد مرتبہ ڈال چکے تھے اور کم سے کم 40 انسانی لاشوں کو اپنی خوراک بنا چکے تھے۔ لیکن اس بار کامیاب نہ ہو سکے۔ ان پر مقدمہ چلا اور انہیں سزا بھی ہوئی لیکن انہیں کوئی پشیمانی نہ ہوئی۔ ان کی ہر پیشی پر لوگوں کا ہجوم بےقابو رہتا اور ہر کوئی اس مکروہ دھندے کو چلانے والے ذہنی بیمار درندوں کے منہ پر تھوکنا ، یا انہیں زدوکوب کرنا چاہتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ لاشوں کو کیوں کھاتے تھے؟ وہ کہنے لگے ”بھوک مٹانے کو“. کسی نے سوال داغا کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر خود اپنے آپ سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی؟ لیکن وہ کہہ رہے تھے۔”کون مردم خور نہیں۔ یہاں سب مردم خور ہیں۔ ہاں ہم میں اور ان میں انسانیت کا کچھ فرق ہے، لوگ زندہ انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور ہم مردہ لوگوں کا۔“ کس کا فعل زیادہ قبیح ہے، اس کا فیصلہ مشکل تو نہیں۔

  • دہشت گرد کون، مغرب یا مسلمان؟ محمد عتیق الرحمن

    دہشت گرد کون، مغرب یا مسلمان؟ محمد عتیق الرحمن

    عتیق الرحمن سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ’’ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ و آرام دہ دنیا کو خار زار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘

    دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہم سب کی واقفیت ہے اور پاکستانی اسے کئی بار سن چکے ہیں۔ ہم دہشت گردی کو قرآن مجید کی رو سے فساد فی الارض سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اسلام بمعنیٰ سلامتی ہے۔ پیغمبر اسلام رحمۃ اللمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ اللعالمین بن کر آئے۔ اسلام ساری دنیا میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو امن دیتا ہے وہیں غیر مسلموں کے ایسے حقوق رکھے ہیں جن سے ان کی جان، مال، عزت اور آزادی محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ خبردار جس نے ذمی کافر پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لیا یا اس سے کوئی تھوڑی سی چیز بھی بغیر اس کی رضا کے لی تو کل قیامت کے دن میں ایسے شخص سے جھگڑوں گا۔جس نے کسی ذمی کافر کو اذیت پہنچائی تو میں اس کا مخالف ہوں اور جس کا میں مخالف ہوا قیامت کے دن اس کی مخالفت ہو گی۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے’’ جو کسی جان دار (انسان یا جانور) کو مْثلہ کرے (شکل و صورت یا حلیہ بگاڑے) اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور بنی آدم سب کی لعنت ہے۔‘‘

    مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے علاقوں میں غالب اکثریت اسلام کے ماننے والے ہیں جبکہ چین، مشرقی یورپ اور روس میں بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی آباد ہے۔مسلم مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں آباد ہے۔ جہاں عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت جلد اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مغربی ممالک میں دیگر مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اگر ایک طرف اسلام کی اشاعت سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف عالم اسلام میں معدنیات کے خزانے ان کی حریصانہ نظروں میں ہیں۔ سید عاصم محمود 1990-91 کے سالوں کے متعلق لکھتے ہیں’’ابھی مغرب اور القاعدہ کا باقاعدہ تصادم شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے ناپسندیدگی و نفرت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے تھے۔‘‘ تاہم اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن اس وقت یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اسلام مخالفت میں جہاں انفرادی طور پر لوگ مصروف عمل ہیں وہیں باقاعدہ طور پر یورپ میں اسلام مخالف تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو وقتا فوقتااسلام کے مختلف اصولوں پر طعن و تشنیع اور پابندیوں کا مطالبہ کرتے اور اسلام کو دہشت گرد مذہب گردانتے نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ کا اسلام مخالف Greet Wilders جو کہ چوتھی بڑی سیاسی پارٹی کا بانی اور سربراہ ہے، اٹھتے بیٹھتے اسلام مخالف زہر اگلتا رہتا ہے اور قرآن مجید کو ہٹلرکی آپ بیتی سے تشبیہ دیتا ہے (نعوذباللہ )۔

    اسلام اور اس کے ماننے والے امن کے داعی ہیں جبکہ بڑے بڑے حادثات میں غیر مسلم ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہوتے ہیں۔ اگر ہم پہلی جنگ عظیم کی بات کریں جو 28جون 1914ء کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد اور شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ کو سلاو دہشت گرد کی طرف سے گولی مارنے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ میں 1 کروڑ ہلاک ہوئے. ’’پچھلے ایک سو برس میں ہوئی لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ‘‘ اور دو کروڑ دس لاکھ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ یکم جولائی 1916ء کو ایک دن کے اندر اند ر 57 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73ہزار سے زائد، روس کے 17 لاکھ کے قریب اور فرانس کو اپنی 16 فیصد فوج سے محروم ہونا پڑا۔ کیا یہ جنگ اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں نے انسانیت پر مسلط کی تھی؟ دوسری جنگ عظیم میں 13 سے 15 فروری 1945ء تک 3 ہزار 900 ٹن کے قریب بارود اور دیگر دھماکہ خیز مواد انسانیت پر برسایا گیا۔ یہ جنگ بھی اسلام نے انسانیت پر مسلط نہیں کی تھی۔ 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے والا ایڈولف ہٹلر بھی مسلمان نہیں تھا۔ یورپ اور جرمنی میں آج بھی ہٹلر کی حمایت اور ہولوکاسٹ کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ شاہ لیوپولڈ ثانی کے ہاتھوں مرنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ 1880ء سے 1920ء کے دوران اس کے زیر قبضہ علاقے کی 50 فیصد آبادی کم ہوئی۔ شاہ کے جبری مزدوری فلسفے کو بعد میں فرانس، جرمنی اور پرتگال نے اپنے نوآبادیاتی نظام میں اپنایا۔ میسولینی ایتھوپیا پر قبضہ کے دوران وہاں کی 7فیصد آباد ی کو قتل کیا اور 1936ء میں ہٹلر کے ساتھ اتحاد کے بعد جنگ عظیم میں کود پڑا اور جوزف سٹالن کے ہاتھوں 8 لاکھ افراد کو موت دی گئی، جبری کیمپوں میں 17لاکھ کے قریب افراد مارے گئے اور جبری ہجرت کے دوران مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 90 ہزار سے زائد تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے چین، کوریا، گوئٹے مالا، انڈونیشیا، کیوبا، بلجن کانگو، پیرو، لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا،گریناڈا، سوڈان، یوگوسلاویہ، افغانستان، عراق اور شام سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جنگ کی یا پھر اتحادی ہونے کی صورت فضائی بم باری میں حصہ لیا۔ مصنف ایلیٹ لیٹن نے نکتہ اٹھایا کہ ‘تناسب کے اعتبار سے امریکہ، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قاتل پیدا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان قاتلوں کے ذاتی، سیاسی اور مذہبی نظریات ہوں مگر یہ نہ تو کسی منظم سیاسی یا مذہبی جماعت کے رکن ہوتے ہیں اور نہ ان کی سرگرمیاں کسی پارٹی کے ایجنڈے کا حصہ، جیسا کہ آج کل دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

    ایرن ملر کا کہنا ہے کہ’’2004ء سے 2013ء کے درمیان ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں میں سے نصف حملے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہوئے اور 60 فی صد ہلاکتیں انھی ممالک میں ہوئیں اور یہ تینوں مسلم ممالک ہیں۔‘‘ دنیا میں دہشت گرد حملوں میں مرنے والے 95 فی صد مسلمان ہیں جیسے دعووں پر شک ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ دعویٰ سچ سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ ایرن ملر نے اس حوالے سے کہا’’مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر حملے مرکوز ہونے کی صورت حال میں یہ دعویٰ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔‘‘ 2004ء سے 2013ء کے درمیان برطانیہ میں 400 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر شمالی آئرلینڈ میں ہوئے لیکن زیادہ تر میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اسی درمیان امریکہ میں 131 حملے ہوئے اور 20 سے بھی کم ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس میں اس مدت میں 47 حملے ہوئے جبکہ اس دوران عراق میں 12 ہزار حملے ہوئے اور ان میں 8ہزارسے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ذرا مزید ماضی بعید میں جائیں تو یورپی ممالک اور شمالی امریکہ باقی دنیا کو سینکڑوں برس سے تشدد، جنگ وجدل، قتل وغارت گری اور دیگر ہتھکنڈوں سے فتح کیے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے فلپائن پر چڑھائی کی اور فلپائنی عوام کو قتل کیا، انگلستان نے ہندوستان پر قبضہ کیا، فرانس نے الجزائر پر چڑھائی کی اور بیلجیئم نے افریقہ کے لاکھوں افراد کو قتل کیا. یورپ کی تاریخ تو خانہ جنگی سے بھرپور تاریخ ہے۔ برطانیہ نے واشگٹن کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ سترہویں صدی کی ایک جنگ میں جرمنی کی ایک تہائی آبادی ہلاک کر دی گئی تھی اور بیسیویں صدی کے بارے میں توکچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جس میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم اور ہٹلر، میسولینی اور جوزف سٹالن جیسی شخصیات پیدا ہوئیں۔ افغانستان کے اوپر مسلط ہوئی جنگ میں 1ل اکھ 73ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں امریکہ اور نیٹو اتحاد ہے۔ اس سے پہلے افغانستان پر روس گرم پانیوں کی تلاش میں یلغار کرچکا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کی صورت میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے محتاط اندازے کے مطابق 1لاکھ 10ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ و روس جیسی طاقتوں کی پراکسی وار سے 4 لاکھ 70کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اور مہاجرین کی تعداد اس کے ماسوا ہے جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور بھوک،گرمی، سردی اور بیماری سے جوہلاکتیں ہوئیں وہ الگ ہیں۔

    پاکستان، سعودی عرب، اور ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔ جس میں نام نہادمسلمان (انہیں مسلمان کہنا بھی لفظ مسلمان کی توہین ہے ) جنہیں پورے عالم اسلام میں سے کسی بھی اسلامی رہنما یا معروف اسلامی سکالر کی حمایت حاصل نہیں ہے ملوث پائے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق خبریں اور انٹیلی جنس رپورٹس کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ داعش کے متعلق تو میڈیا میں خبریں آچکی ہیں کہ اس کو بنانے میں امریکہ و مغرب کا کردار ہے۔ فلسطین وکشمیر میں یہود و ہنود کس کی ملی بھگت سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں؟ فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور کشمیریوں کی حمایت تک کرنے والوں کو بھارت دہشت گرد ڈکلیئر کروا دیتا ہے۔ پچھلے 75دن سے بھارت کشمیر میں مسلمانوں پر جدید ترین ٹیکنالوجی آزما رہا ہے۔ اسرائیلی ڈرونز، پیلٹ گنز اور دیگرجدید اسلحہ ان کشمیری حریت پسندوں پر چلایا جا رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ برما میں مسلمانوں کو بدھ مت گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں، جہاں بھر کا ظلم ان پر برما کی حکومت روا رکھے ہوئے ہے،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں برمی مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل بیت المقدس کے محافظ نہتے فلسطینیوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اکٹھا کرکے شہید کر رہا ہے۔ کبھی غزہ کا پانی بند کردیا جاتا ہے تو کبھی عین سکول کی چھٹی کے وقت بمباری کرکے معصوم فلسطینی بچوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ دنیا میں فساد کی جڑ اسلام کے نام لیوا بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلم ممالک میں خانہ جنگی کروائی۔ کہیں خود جنگ مسلط کی اور کہیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے خانہ جنگی کروادی۔ عالم اسلام اس وقت جس اضطراب کی کیفیت سےگزر رہا ہے، اس میں عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔ دہشت گرد کسی بھی روپ میں ہو، اسلام پسند بالکل نہیں ہوسکتا۔ دنیا پر جو جنگ مسلط ہوچکی ہے یا مستقبل قریب میں ہوگی اس میں عالم اسلام کی پالیسیوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہٹ دھرمی اور عالم اسلام کی دولت پر قبضہ کرنے کی خواہش اس کی بنیادی وجہ ہوگی۔ جدید ترین جنگوں میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے میڈیا کو اس حوالے سے تیار کرنا ہوگا تاکہ اسلام اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کرسکے۔ عالم اسلام کو اتحاد عالم اسلامی کی جانب جلد سے جلد بڑھنا ہوگا تاکہ جو جنگ اسلام کے نام پر حرمین شریفین کے دروازوں پر پہنچ چکی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔

  • شامی تنازعہ اور عالمی طاقتوں کی ضد – محمد عتیق الرحمٰن

    شامی تنازعہ اور عالمی طاقتوں کی ضد – محمد عتیق الرحمٰن

    عالم اسلام اس وقت شدید اضطراب کی کیفیت سے گزر رہاہے۔ اگر کشمیر میں پچھلے ایک ماہ سے زائد بھارتی کرفیو اور پیلٹ گن جیسے اسلحے کے بہیمانہ استعمال سے مسلمانان عالم دکھ میں مبتلا ہیں تو فلسطین میں اسرائیل آئے دن کوئی نیا حربہ آزما رہا ہے۔ عالم اسلام کا کون سا ایسا ملک ہے جس میں امن و سکون ہو، جس میں جان کا خطرہ نہ ہو اور جس میں بم دھماکے اور افراتفری نہ ہو؟ افغانستان، عراق، یمن اور شام میں خون آشام دیو اپنے خونی پنجے گاڑے خون مسلم پی رہا ہے۔ افغانستان کو 9/11 کی آڑ میں تباہ کرکے رکھ دیا. اس کا قصور افغانی طالبان کی اسلامی حکومت تھی، عراق پر نام نہاد الزامات کی آڑ میں جنگ مسلط کی، یمن میں حوثی قبائل بیرونی اشاروں پر بدامنی و انتشار پھیلانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں مداخلت کی اور شام میں عالمی طاقتیں اپنی اپنی طاقت منوانے کی کوشش میں فریق مخالف اور نہتی شامی عوام پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔ مغرب کی انسانیت ویسے تو سوئی رہتی ہے لیکن کبھی کبھی جاگ اٹھتی ہے اور کچھ نہ کچھ نیند میں بڑبڑا کر پھر سے سو جاتی ہے۔ شامی ایلان کردی ہو، امران دقنیش ہو یا پھر حلب میں ملبے تلے دبا چیختا گیارہ سالہ احمد، یہ سب مسلمان بچے ہیں اور ان کو اس حال میں پہنچانے تک امریکہ و مغرب کا کلیدی کردار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے امران دقنیش کے حوالے سے سرخی لگائی ”حلب میں مصائب کا نشان“ اور ٹیلی گراف کی طرف سے شامی فضائی حدود کو نوفلائی زون قرار دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ امران دقنیش کی تصویر کو لے کر جہاں مغربی ذرائع ابلاغ کی انسانیت جاگی تھی وہیں کچھ مغربی ویب سائٹس کی طرف سے اسے ڈرامہ قرار دیاگیا۔ پانچ سالہ جنگ میں پچاس ہزار سے زائد بچے مارے جا چکے ہیں جبکہ صرف حلب میں اگست کے مہینے میں ایک سو چالیس سے زائد معصوم پھول مرجھا چکے ہیں۔

    شام تاریخی اہمیت کا ملک بحیرہ روم کے مشرقی کنارے واقع ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ تاریخی شہر دمشق صلاح الدین ایوبی ؒ کی سرکردگی میں لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کا مرکز رہا۔ حمص، طرطوس، سلامیہ اور حلب اس کے مشہور شہر ہیں جبکہ یہاں کی زرعی پیداوار، تیل،گیس، نمک، لوہا اور کرومائٹ جیسی دیگر معدنیات قابل ذکر ہیں۔ اندازاََ دو کروڑ آبادی والے ملک شام میں 90% سے زائد مسلمان ہیں، جن میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ شیعہ و علوی بھی کافی تعداد میں ہیں۔ عرب سپرنگ کے اثرات کے تحت شامی عوام نے بشارالاسد کے خلاف 15مارچ 2011ء سے درعا میں مقامی سکول کی دیواروں پر انقلابی نعرے لکھ کر احتجاج شروع کیا۔ علوی مسلک سے تعلق رکھنے والا آمر بشار الاسد اور اس کے حمایتی اس بات کو ہضم نہ کرسکے اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا جس پر درعا کی عوام نے اسدی حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا، جسے سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی، کئی مظاہرین زخمی اور کئی مظاہرین مارے گئے۔

    اسدی حکومت طاقت کے زور پر ماضی کی طرح مظاہرین پر کنٹرول کرنا چاہتی تھی لیکن 4 ماہ کے عرصے میں ہی پورا شام مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا جس پر اسدی حکومت نے مزید طاقت کا استعمال کیا، ہزاروں افراد کو اسدی حکومت نے پابند سلاسل کیا اور ہزاروں افراد کو ناحق قتل کیا اور جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ان سب سے الگ ہیں۔ ردعمل میں مظاہرین نے بھی مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا، یہ وہ نقطہ تھا جس نے شام میں خانہ جنگی کی بنیاد رکھ دی جو ہنوز جاری ہے۔ اسدی افواج نے شامی عوام کے حقوق روندے اور ظلم وجبر کی نئی تاریخ رقم کی۔ حکومت مخالفین نے جلد ہی شام کے اہم شہروں اور علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اسدی افواج کی مدد کے لیے شیعہ ملیشیا حزب اللہ سمیت دیگر شیعہ گروپس سامنے آئے، 2013ء میں داعش کے داخلے سے شامی تنازعہ مزید گہرا اور پیچیدہ ہوتا گیا۔ داعش جس کا وجود مبینہ طور پر امریکہ اور یورپی ممالک کی مرہون منت ہے، نے شام میں اسدی افواج کو چھوڑ کر سنی مزاحمتی گروپس کی تکفیرکی اور انہیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ شام میں بلامبالغہ داعش کا سب سے زیادہ فائدہ بشارالاسد کو ہوا۔ مرد و بوڑھوں کا قتل عام کیا، نوجوان عورتوں کے اغوا وقتل کے ساتھ ان کے زبردستی نکاح پڑھائے گئے اور اس طرح اسلام کا لبادہ اوڑھنے والوں نے ہر وہ کام کیا جو شریعت اسلامیہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں جلایا گیا، لوگوں کے ساتھ بم باندھ کر دھماکے کیے گئے اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اسدی و داعشی افواج کی طرف سے کیا گیا۔ داعش نے جولائی 2014ء تک شام کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کیا اور تیل کی اکثر تنصیبات اس کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ 21اگست 2013ء کو مشرقی غوطہ میں شہریوں پر میزائل فائر کئے گئے جس سے سارین گیس کا اخراج ہوا۔ چھتیس سو سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 1500سے زائد شہید ہوئے جن میں 426 کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ ان بچوں کی اکثریت فضا میں گھٹن کی وجہ سے سانس نہ لے سکی اور نتیجتاََ وہاں پہنچ گئی جہاں جنگ وجدل کا نام و نشان نہیں ۔

    اقوام متحدہ کی 2013ء میں منظور کی گئی قرار داد کے بعد سے شام میں 139کیمیائی حملے کیے جاچکے ہیں۔ شام میں روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایرانی افواج زمینی طور پر اسدی فوج کے ساتھ لڑ رہی ہیں جبکہ روسی فضائیہ نیپام اور فاسفورس بموں سے حملے کرنے میں پیش پیش ہے۔ حلب میں شیعہ ملیشیا اور اسدی افواج کی ناکامی کے بعد روس زمینی طور پر بھی جنگ میں شریک ہوچکا ہے۔ اپوزیشن مزاحمتی گروپس کو سعودی عرب، قطر، ترکی، امریکہ و دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ گروپس کو القاعدہ کی حمایت حاصل ہے تو کچھ گروپس داعش کے ساتھ دوسرے تمام مزاحمتی گروپس کو کافر و مرتد قرار دے کر ان سے برسرپیکار ہیں۔

    شام میں اسلام کے نام پر اور حکمرانی کے شوق میں جو قتل ناحق کی طویل داستان رقم کی جارہی ہے اس کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔ اس قتل عام میں جہاں بشارالاسد، شیعہ ملیشیا، روسی فوج اور داعش جیسی تنظیمیں شریک ہیں، وہیں وہاں پر میڈیا کو آزادی نہیں ہے، جنگ زدہ علاقوں میں جاکر خبریں نکالنا موت کے منہ میں جانے کے مترداف ہے۔2011ء سے اب تک 100 کے قریب صحافی اس جنگ میں موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والے افراد کاتخمینہ 2,50,000 لگایا ہے جبکہ دیگر ذرائع یہ تعداد 4 لاکھ 70ہزار سے متجاوز بتاتے ہیں۔ 50ہزار کے قریب بچوں کی تعداد ہے۔ 13.5 ملین شامیوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری ضرورت ہے.

    50 فیصد سے زائد شامی آبادی بےگھر ہوچکی ہے۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق 4.5 ملین سے زیادہ شامی پناہ گزین ترکی، لبنان، عراق اور مصر میں ہیں۔ سب سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد اس وقت ترکی میں ہے جن کی تعداد 2.5 ملین ہے، لبنان 1.1ملین شامیوں کو پناہ دیے ہوئے ہے، اردن میں اس وقت 635,324 شامی ہیں، عراق میں جہاں پہلے ہی امریکہ کی بہادری کی وجہ سے 3.9 ملین سے زائد افراد بےگھر ہیں وہاں 245,022 شامی پناہ گزین ہیں اور مصر میں 117,658 شامی پناہ لیے ہوئے ہیں۔

    داریا مشرقی غوطہ کا سب سے بڑا شہر جس کی آبادی 2 لاکھ 55ہزار تھی جسے2012ء کے شروع میں فری سیرین آرمی کی ذیلی تنظیم نے اسدی افواج سے چھینا تھا۔گذشتہ 3سال سے زائد عرصے میں اسدی افواج اور اس کے حمایتیوں نے کئی بار آتش گیر نیپام بم گرائے اور سب سے زیادہ بیرل بم برداشت کرنے والا شہر بھی داریا ہی ہے۔ ہزاروں شہریوں کی شہادت کے بعد ایک ہفتے سے جاری کامیاب مذاکرات کے بعد داریا کے مزاحمت کار قریبی شہر ادلب منتقل ہوگئے اور شہری اسدی حکومت کے زیر انتظام پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کردیے گئے۔ یوں تقریباََ 4 سال تک اسدی افواج کے سامنے سینہ سپر اور بےشمار قربانیاں دے کر بھی سرنڈر نہ کرنے والا داریا اسدی گماشتوں نے کیمیائی وبیرل حملوں کے ذریعے ہڑپ کرلیا۔ سقوط داریا کے بعد ہی حمص شہر کے محصور علاقے ’وعر‘ پر بھی نیپام بم گرائے گئے جو شامی مزاحمت کاروں کے زیر قبضہ ہے ۔حلب میں فری سیرین آرمی کے زیرانتظام علاقے میں ایک تعزیتی خیمے پر 27اگست کو فضائی حملہ کیا گیا ،پہلے بیرل حملے کے بعد لوگ مدد کے لیے جمع ہوئے اور ایمبولینس پہنچی تو ایک اور فضائی حملہ کیا گیا جس میں ایمبولینس مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور 23 کے قریب افراد شہید ہوگئے۔ ان دوحملوں میں درجنوں زخمی ہوئے جن میں شدید زخمی بھی تھے جس سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    ترکی سرحد پر داعش اور کردجنگجوئوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے ترکی میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ترکی نے ’’فرات کی ڈھال ‘‘ نامی آپریشن شروع کیا ہے جس کا مقصد بتاتے ہوئے ترک وزیر خارجہ چاوش اولو کا کہنا تھا کہ وائی پی جی کے جنگجو جتنی جلدی ہوسکے دریائے فرات کی مشرق کی جانب چلے جائیں، جب تک یہ لوگ ایسا نہیں کرتے یہ ہماراہدف ہوں گے۔ وائی پی جی نے ترکی کے قریبی شامی علاقے پر قبضہ کے بعد وہاں نسل کشی کی ہے۔ فرات کے مغرب میں واقع منبج شہر کے اطراف میں جنگ سے پہلے کی صورت حال رہنی چاہیے۔ اس علاقے کو کرد جنگجوئوں نے داعش سے چھڑوایا تھا اور یہاں اکثریت عربوں کی ہے۔ کرد ملیشیا کے ساتھ ساتھ ترکی فوج داعش کے خلاف بھی ’’فرات کی ڈھال ‘‘ آپریشن شروع کرچکی تھی جس کا مقصد ترکی کی سرحدی سلامتی کے ساتھ ساتھ شام کی علاقائی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ فرات کی ڈھال نامی آپریشن کے چھٹے روز تک 30 گائوں ترکی اور شامی مزاحمتی گروپس نے جرابلس کے نواح میں آزاد کروا لیے تھے۔ مغربی میڈیا اپنی روایت کے مطابق ترکی کے خلاف کوئی بھی خبر اچھالنے اور ترکی کو بدنام کرنے کی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ شامی کردوں کی امریکہ کی حمایت کرنے کا مقصد شام کو تقسیم کرنا یا پھر ایران، عراق اور ترکی وشام میں پھیلے کردوں کو ایک مرکز تلے اکٹھا کرنا ہے لیکن عراقی کرد اس معاملے میں پرجوش نظر نہیں آتے۔ عراقی کرد لیڈر رواں ہفتے انقرہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ 15 اگست کو ترکی اور امریکا کے مابین ہوئی ڈیل کے مطابق شامی کرد جنگجو دریائے فرات سے پیچھے ہٹ جائیں گے لیکن امریکہ نے اس اعلان کو بالکل نظرانداز کر دیا تھا۔ اسدی افواج نے دوسرے مخالفین کی طرح شامی کردوں کے خلاف اقدامات نہیں کیے تھے اگر کچھ گڑبڑ ہوئی بھی ہے تو اس کے فوراََبعد اسدی حمایتیوں اور کردوں کے مابین امریکہ کی وجہ سے جنگ بندی کا نفاذ ہوجاتا ہے۔ امریکہ نے بشارالاسد کو خبردار کیا ہے کہ وہ الحسکہ یا کردوں پر حملہ کرنے سے باز رہے یعنی ایک طرح سے کرد علاقے نوفلائی زون ہیں۔ حالانکہ یہی امریکہ دیگر علاقوں میں نوفلائی زون اقدامات کو مسترد کر چکا ہے جس کی وجہ سے نہتی شامی عوام اور مزاحمتی گروپس شدید مشکلات کا سامنا کرچکے ہیں۔

    شام عالمی طاقتوں کی تجربہ گاہ بن چکا ہے، روس، ایران اور شیعہ ملیشیا اپنے مفادات کی خاطر بشارالاسد کا ساتھ دے رہے ہیں، امریکہ ایک طرف فری سیرین آرمی اور اپوزیشن مزاحمتی گروپس کی حمایت کر رہا ہے تو وہیں کرد ملیشیائوں کی حمایت کرکے ترکی کے لیے مشکلات بڑھا رہاہے۔ عالمی طاقتیں اپنی ضد، انا، ہٹ دھرمی اور طاقت کے خمار میں مست شام کے مسئلے کو مزیدالجھا رہی ہیں تاکہ مسلمان ممالک کے وسائل و افرادی قوت کواپنے قابو میں رکھا جاسکے اور مسلمانوں کو اسلحہ و جدید ٹیکنالوجی مزید ڈرا کر بیچی جاسکے۔ ایسے میں عالم اسلام کے اتحاد کی مزید ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ کسی اور کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کیے جا سکیں۔

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو ملکوں کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کا اور ایک محاذ خلیج کی جنگ کی صورت میں کھل گیا. ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ممالک نے اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر فیصلے کیے. امریکہ اور برطانیہ نے کیمیکل ویپن (Chemical weapon) عراق کو دیے اور ساتھ میں guaranteed loan یعنی امریکا کے ٹیکس payer کا پیسہ ڈبل کیا. فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکہ کی جن کمپنیز نے چور دروازے سے عراق کو اپنی ٹیکنالوجی بیچی، ان میں نامی گرامی ہیولٹ پیکارڈ Hewlett – Packard، اور Tektronix اور میٹرکس (Matrix) شامل تھیں. فرانس نے عراق کو ہائی ٹیک فوجی سازوسامان اور یورینیم فروخت کی. پرتگال نے بھی یورینیم فروخت کیا. برطانیہ نے عراق کو Sodium cyanide for chemical weapons، اور پلوٹونیم، اور گیس سپیکٹرومیٹر ( gas spectrometer) فروخت کیے. جبکہ ایران کو اسرائیل نے 75 ملین امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیار اسرائیل ملٹری انڈسٹریز کے اسٹاک سے فروخت کیے. اس خلیجی جنگ میں سعودی عرب کا پوائنٹ آف انٹرسٹ عراق کو سپورٹ کرنا تھا، وہاں پاکستان کا پوائنٹ آف انٹرسٹ ایران کو سپورٹ کرنا تھا، اس وقت کے صدر ضیاء الحق جس کو آج ہر سیکولر گالی دینا فرض بلکہ سیکولرزم کی معراج سمجھتا ہے، اس کے لیے عرض ہے کہ اسی ضیاء الحق نے عراق ایران جنگ میں ایران کا نہ صرف ساتھ دیا تھا بلکہ surface-to-air missile دیے اور خفیہ مالی امداد بھی کی، باوجود اس کے سعودی عرب اور امریکہ کا بہت زیادہ پریشر تھا. اس کے علاوہ چائنیز ہتھیار ، اور امریکہ کے وہ ہتھیار جو افغان جہاد کے نام پر لیے گئے تھے، وہ بھی ایران کو دیے گئے.

    اس خلیجی جنگ کی گود سے مسلم ممالک میں جو تنازع پیدا ہوا، وہ سنی شیعہ جنگ کا روپ اختیار کرکے فرقہ وارانہ شکل میں ڈھل گئی. مذہبی رہنمائوں نے ایک دوسرے پر قسم قسم کے حملے کیے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونے لگے، ایک طرف توہین آمیز لٹریچر، صحابہ کرام کو گالیاں، ازواج مطہرات پر بہتان سامنے آئے تو نتیجتا دوسری طرف سے کفر کے فتویٰ سر عام ہونے لگے. اس توہین آمیز لٹریچر کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ وارنہ اختلاف کتابوں سے نکل کر سڑکوں اور تقریروں میں آ گئے، اور پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کی طرف دھکیلتے گئے. اس کےلیے تنظیمیں بنیں، جنھوں نے بعد ازاں مسلح جتھوں کی صورت اختیار کر لی. یہ تھی وہ سوغات جو ایران عراق کی صورت میں پاکستان کو نصیب ہوئی. اس فرقہ وارانہ جنگ میں جہاں دوسرے ممالک نے اپنا اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کیا وہیں خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ان تنظیموں کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا اور ان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے اور جیتے. برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے فرقے کی تنظیموں کو نہ صرف فنڈنگ فراہم کی بلکہ گوریلا ٹریننگ سے بھی لیس کیا جس کے شواہد اب سامنے آ رہے ہیں. آج اس فرقہ واریت کا ملبہ ضیاء الحق اور افغان جہاد پر ڈالا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیجی جنگوں کا شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کرنا پاکستان میں اس فرقہ واریت کی بنیادی وجہ ہے. توہین آمیز لٹریچر کی اشاعت سے اشتعال پھیلا، شدت میں اضافہ ہوا اور اس نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی جس میں دونوں طرف مرنے والے عام شہری ہیں. اگر فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو نہ صرف بلاتفریق کالعدم تنظیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا بلکہ توہین آمیز لٹریچر پر بھی پابندی لگانی ہوگی اور دیگر ممالک کی مداخلت کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا.

    نوے کی دہائی میں پاکستانی توجہ کشمیر جہاد اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سہارا دینے میں مرکوز رہی. پاکستان کے اندر فرقہ وارنہ تنظیموں پر سیاسی چھتر چھایا ہونے کی بدولت پولیس اور دوسرے اداروں نے اسے کنٹرول کرنے کو خاص ترجیح نہیں دی جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ فرقے کے وہ نامی گرامی علمائے کرام، پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی قتل ہوئے جن کا فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا. سیاسی جماعتوں نے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے عسکری ونگز سے چشم پوشی کی. وہ ممالک جن کے پوائنٹ آف انٹرسٹ اس وجہ سے بڑھ گئے تھے انہوں نے بھی اس فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھاوا دیا، ان دنوں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ریاستی ادارے ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف رہے، اور اندرونی معاملات پولیس جیسے ادارے پر چھوڑ دیے گئے. سیاسی قیادت اور ایلیٹ کلاس نے ہر کیس میں سیاسی مداخلت کو جیسے فرائض میں شامل کر لیا ہو، مقصود اپنی قوت میں اضافہ ہو، اس تناظر میں معیشت کی مضبوطی پر توجہ نہ رہی، نتیجتا بےروزگاری بڑھتی گئی اور نوجوان ان تنظیموں کے ہاتھ چڑھتے گئے !
    (جاری ہے)

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • تباہ حال شام-ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

    تباہ حال شام-ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

    Hussain

    عرب دنیا میں قدرتی حسن و جمال کے اعتبار سے شام کو لبنان کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ تاریخی ورثے کے اعتبار سے عالم عرب کا کوئی دوسرا ملک شام کا ہم پلہ نہیں۔ ہزاروں سال قبل مسیح آباد ہونے والا یہ قدیم ترین شہر تب سے لے کر اب تک مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔ اس شہر کو تاریخ کے مختلف ادوار میں اہل فارس یونانیوں ، رومیوں، بنو امیہ ، ترکوں اور عثمانیوں نے علم و ادب اور آرٹ و فن تعمیرات کا گہوارہ بنایا۔ میں جب 1980ء کے اوائل میں شام کی سیاحت کے لئے اپنی بیگم کے ساتھ گیا تو دمشق نے ہمارا دامن دل بھی اسی طرح موہ لیا جیسے اس نے مشہور سیاح ابن جبیر اور ابن بطوطہ کو اپنے حسن اور رعنائی کا اسیر بنالیا تھا۔

    دمشق ہی کیا سارا شام ہی قدرتی حسن کا شاہکار تھا۔ دمشق سے ہم سڑک کے راستے حماۃ ، حمص ، حلب اور الاذقیہ تک گئے۔ اور واپس آئے ۔ہر جگہ سبزہ و گل نے ہما را خیر مقدم کیا ۔
    آج جب میں ویڈیوز کلپس ، ٹیلی وژن چینلز ، ای میلز اور اخبارات وغیرہ میں شام کی تباہی و بربادی کا حال دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ باغوں، سیر گاہوں اور سبزہ زاروں کا ملک قتل گاہوں زندانوں، اور قبرستانوں کا ملک بن چکا ہے۔

    علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا۔
    اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
    کہ خون صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

    گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران شام پر جو جو کوہ غم اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں ٹوٹا ہے وہ بہت ہی دل فگار ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت تک شام میں 4لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ شامی بھوک پیاس اور غذا نہ ملنے سے دم توڑچکے ہیں۔ 40لاکھ شامی دربدر ہیں جن میں سے بہت بڑی تعداد ، ترکی ، اردن اور جرمنی وغیرہ میں پناہ لینے کے لئے تگ و دو کررہی ہے۔

    شام اب خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اگرچہ اس خانہ جنگی کے دو بنیادی فریق ہیں ایک شام کی غیر جمہوری حکومت اور دوسرااپنےتئیں آزادی کی جنگ لڑنے والا جمہوری محاذ جس کا پہلے مرکز تو حمراق تھا مگراب محاذ تقریباً سارے شام میں پھیل چکا ہے۔ ان دو بنیادی فریقوں کے علاووہاں ایران اوربرادر اسلامی ملک پراکسی وار لڑ رہے ہیں جبکہ روس، شامی حکومت کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ عراق میں وجود میں آنے والی تنظیم داعش بھی شام میں کود پڑی ہے۔ شامی حکومت داعش کو اپنا دشمن سمجھتی ہے جبکہ جمہوری محاذ کا کہنا ہے کہ داعش ہمیں نشانہ بنا رہی ہے جس کا بالواسطہ فائدہ شامی حکومت کو پہنچ رہا ہے۔

    آج شام میں ہونے والی تباہی و بربادی کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں مختصراً اس کا پس منظر جاننا ہو گا ۔1972میں اس وقت کے ایئر چیف اور موجودہ شامی صدر بشار الاسد کے والد نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا وہ پہلے وزیر دفاع بنے اور پھر اس نے صدر شام کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔

    اپنے تیس سالہ آمرانہ دور حکومت میں حافظ الاسد نے بحیثیت آمر شام پر بدترین مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اگرچہ بعض مغربی تجزیہ نگارا سے ایک فرقہ وارانہ تصادم سمجھتے تھے۔ تاہم حافظ الاسد اور اس وقت کےغیر سیاسی دور میں اصل مسئلہ سیاسی تھا۔ اس کشاکش کا کسی فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ تاہم جب شام کے لوگ حکومت سے بہت تنگ آئے تو انہوں نے 1982کے اوائل میں پرجوش احتجاج کا آغاز کیا۔حکومت نے اس پر شدید جارحانہ رویہ اپنایا۔ اور پھر فوجیں ٹینکوں، توپوں اور مارٹر گنوں اور بمبار جہازوں کے ذریعے حماۃ پر چڑھ دوڑیں۔ انہوں نے کئی روز تک شدید بمباری اورگولہ باری کی حتیٰ کہ آدھے شہر میں کوئی آہ وبکار کرنے والا بھی نہیں بچا۔دنیا کے تمام اطلاعات کے ذرائع فروری1982میں حماۃ میں رونما ہونے والے واقعہ کو حماۃ قتل عام کے نام سے لکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ 27روز تک شامی افواج نے شہر کا شدید محاصرہ جاری رکھا۔اس واقعہ میں20شہری قتل اور ہزار ہا زخمی ہوئے تھے۔

    حافظ الاسد کے بعد جولائی 2000میں اس کے بیٹے بشارالاسد نے’’ عرب جمہوریہ ‘‘ شام میں صدر کا عہدہ سنبھالا ۔ بشار الاسد نے اپنے والد کی پالیسی کو جاری رکھا بلکہ اس میں مزید شدت پیدا کی۔ 17دسمبر2010کو تیونس سے شروع ہونے والی عرب باد بہاری کے جھونکوں سے آمریت زدہ عربوں نے اپنے حقوق کےلئے ایک نئی جدت اور حرارت محسوس کی۔ اس زمانے میں اکا دکا عرب ممالک کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ مطلق العنانیت کا سورج ڈوبنے لگا۔ عالم عرب کے ہر ملک میں لوگ سیاسی کر پشن، انسانی حقوق کی پامالی ،آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں ،بے روزگاری اور آمرانہ حکومتوں سے بہت تنگ تھے۔ اس لئے پرجوش عوامی ریلے نے تقریباً ہر جگہ پرامن احتجاج اور سول نافرمانی کا راستہ اختیار کیا مگر جہاں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو ریاست اور عوام پر ترجیح دی وہاں تنگ آمد بجنگ آمد اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔

    عرب باد بہار کے نتیجے میں تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو نکال باہر کیا ۔مصر میں صدر حسنی مبارک کو عوامی قوت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی۔ یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کو جانا پڑا۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی خانہ جنگی اور بیرونی فوجی مداخلت کے بعد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    شام میں بھی بدقسمتی سے حکمرانوں نے اول الذکر طریقے کے مطابق عوام کو شریک اقتدار کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہیں جیلوں، ٹارچر سیلوں اور ماورائے عدالت قتل گاہوں کے ذریعے راستے سے ہٹانےکی کوشش کی،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام بھی اپنی تاریخ کی بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔ اس وقت سارے عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران اور روس علی الاعلان بشار الاسد کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔اس طرح لبنانی حزب اللہ بھی بشار الاسد کی پشت پر کھڑی ہے۔ دوسری طرف کچھ عرصے پہلے تک ترکی اور سعودی عرب شام کے جمہوری محاذ کی مالی و عملی مدد کر رہے تھے۔ مگر شام کے ساتھ ترکی کی تازہ ترین گرم جوشی کے بعد صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور ترکی اب صدر بشار الاسد کا اقتدارقبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں داعش کا فیکٹر اس لحاظ سے غیر واضح ہے کہ اس کے اصل اہداف کیا ہیں۔ صدر بشار الاسد کا کہنا یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کارروائیوں میں پیش پیش ہے جبکہ جمہوری محاذ والوں کا دعوی ٰہے کہ وہ ہماری جدوجہد آزادی ہائی جیک کرنے اور در پردہ بشار الاسد کی مدد کرنے کے لئے میدان میں آیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق روسی جنگی جہاز اور شامی گن شپ ہیلی کاپٹر جمہوری محاذ کے سب سے بڑے شہری مرکز حلب پر شب و روز بمباری کر رہے ہیں وہ گھروں، مسجدوں، مدرسوں اور اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک بمباری کے بعد پانچ سالہ بچے عمران و قیش کی وہ تصویر منظر عام پر آئی جس نے ’’عالمی ضمیر‘‘ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا۔

    زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ
    ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں

    ’’عالمی ضمیر ‘‘ میں کسی دعاکا ابھرنا تو محال ہے البتہ ساری دنیا کے انصاف پسند انسانوں کے انفرادی ضمیر میں ہلچل ضرور برپا ہوئی ہو گی۔ بلاد عربیہ میں عرب و عجم کی بڑھتی ہوئی آویزش کو فی الفور ختم کرانے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق آمریتوں کی جگہ جمہوری حکومتوں کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

  • دین لوگوں کی افیون نہیں ہے – علی سودانی

    دین لوگوں کی افیون نہیں ہے – علی سودانی

    علی سودانی کی تحریر عراقی اخبار ’’زمان‘‘ میں شائع ہوئی. طاہر علی بندیشہ نے دلیل کے لیے اس کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.

    ایسے لوگ بھی ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں جو عیسائیوں اور یہودیوں پہ کفر کے فتاوٰی کی یلغار کرتے نہیں تھکتے، ان کے قتل پہ اکساتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں مگر بوقت ضرورت انہی کے ہاں سے کھانے پینے کی اشیاء، اسلحہ، دوائیں، جہاز، گاڑیاں، ریل گاڑیاں، بحری جہاز، ٹیلی فون، کمپیوٹر، ملبوسات، خوشبوئیں، اور دیگر اشیاء درآمد کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ وہ زندگی میں جن نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ کفار کی دریافت شدہ اور ایجاد کردہ ہیں، جنہوں نے انسانیت کی بہتر طور پہ خدمت کرتے ہوئے ایسی ایجادات کیں کہ جن سے آج کے انسان کی زندگی بالکل آسان ہو کے رہ گئی ہے جیسے کہ بجلی، چھاپہ خانہ، موبائل، جدید آلات علاج، بلٹ پروف کاریں، انٹرنیٹ ، سیٹلائٹ اور ایسے ہی بہت سی ایجادات جو تعجب میں ڈالنے والی ہیں اور حیران کن ہیں ان کا انکار کرنا سراسر ناانصافی ہو گی۔

    ان روکھے دنوں میں لوگ ایسے ہو گئے ہیں کہ وہ بکثرت کارل مارکس کا یہ جملہ استعمال کرنے لگے ہیں ملیے ایک ’’دین لوگوں کی افیون ہے‘‘. اگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ جملہ اپنی کشش رکھتا ہے مگر یہ غصے اور مبالغے سے بھرے ہوئے ایک بیان سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں سے قیاس کے مذہب کو یکسر نکال دیا گیا ہے۔ دینِ صحیح وہ ہے جو ستونوں پہ اکتفا کرے اور ایسی تفاصیل سے اجتناب برتا جائے جن میں شیطنیت اور فتنے کی چنگاری مخفی ہو۔ اللہ پاک لوگوں سے چاہتا ہے ’’نماز پڑھیں، روزے رکھیں، اور حسب استطاعت اس کی عبادت کریں۔‘‘ وہ لوگوں سے چاہتا ہے کہ ’’قتل نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، چوری نہ کریں، اور منافقت نہ کریں جو آج کا فیشن بن چکی ہے، پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائیں اگرچہ وہ ان کے دین یا عقیدے کا نہ ہو۔‘‘ مرحوم کارل مارکس کے کلام کی تصدیق کے لیے آئیے ہم بنظرِغائر اور کمال وضاحت سے دیکھتے ہیں کہ آج کا عراق روئے زمین پہ سب سے زیادہ مفسَد ( خراب) مملکت بن چکا ہے (ویسے ہمارے ہاں بھی بہت سےلکھاری ایسے ہی الفاظ وطن عزیز کے بارے میں زینت قرطاس بناتے رہتے ہیں، یہ تو بھلا ہو محترم عامر خاکوانی صاحب کا کہ انہوں نے ٹونی بازان کے حوالے سے ہمیں حوصلہ دیا کہ ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو دماغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے جوہر کی پہچان رکھتے ہیں. مترجم)، گندے انڈوں اور گھٹیا بدمعاشوں کی آماجگاہ کی صورت اختیار کر گیا ہے، اور لوگ اپنے گھروں میں خاموشی کی تصویر بنے گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ اور اس کا سبب ان کا غبی پن، دینی گمراہی، بے حسی اور ابہام سے بھرے ہوئے دماغ ہیں جنہوں نے ان کی عقلوں اور دلوں پہ شدید ضرب لگائی ہے اور اس کے سبب عامۃ الناس بھی ان گندے انڈوں اور منافقوں کے سہولت کار شمار کیے جاتے ہیں ۔

    لوگوں نے اپنے دین سے ہجرت کر لی ہے اور سنی، شیعہ اور دیگر فرقوں میں جا کے سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالی، نبی کریم صلى اللہ تعالی و علی الہ و سلم اور حسين شہید علیہ السلام سے جنگ کر لی ہے اور ان کے عظیم پیغام کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ آسان قرآن کو چھوڑ کر قیل و قال کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ تفاسیر و تاویل کی بحث میں الجھ کے مزید قوی اور ضعیف، صحیح اور مجروح کی تکرار میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے اپنے اپنے مجسمے بنا لیے ہیں اور ان کی پوجا میں مصروف ہیں جیسے کہ ’’ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوہاب، خمینی، حکیم سیستانی، حسن البنّا، سید قطب، اسامہ بن لادن، خامنئی، خائری اور بغدادی۔‘‘ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، رکوع بھی کرتے ہیں اور بعد ازاں رشوت کا بازار بھی سجاتے ہیں اور قتل و غارت بھی کرتے ہیں۔ عنقریب انہیں دنیا کی آگ بھی کھائے گی اور ان کے لیے کوئی اور لائحہ عمل نہیں آئے گا یہانتک کہ انہیں آخرت کی آگ آ پہنچے گی۔ سو اے لوگو ! عقل پکڑو، اپنے دماغوں اور دلوں کو خوب پاک صاف کرو اور اپنے اللہ تعالی کے حکم، رحمت اور جوہر کی طرف لوٹ آؤ، بے شک وہ باقی رہنے والا ہے اور اسے موت نہیں آنی۔ نئی تماثیل فتنہ کی جڑ ہے اور یہ فکر تلخ مباحثہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اوپر مذکور شدہ عالمین نے اپنے اپنے کلام، فتاوٰی اور وصایا کو مقدس روپ دے کے اس کی پیروی عوام کے لیے لازم کر رکھی ہے۔ اور عوام نے اپنی جہالت سے اس رویے کو اپنا کر اسے سچ کر دکھایا ہے اور یہ بڑھکتی ہوئی آگ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔

  • سیکولر، لبرل، قوم پرست دہشت گردی (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    سیکولر، لبرل، قوم پرست دہشت گردی (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    orya

    یہ لوگ تو ایک سیکولر معاشرے میں آباد سیکولر طرز زندگی کے حامل گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین سیکولر اخلاقیات اپنائے ہوئے تھے۔ پورا معاشرہ اور ان کی ریاستیں سیکولر‘ لبرل اور جمہوری اقدار پر عمل پیرا تھیں۔ آج کے دور میں یورپ اور خصوصاً مغربی یورپ کی تمام ریاستیں سیکولر ازم اور لبرل ازم کی معراج سمجھی جاتی ہیں۔

    ان افراد نے تعلیم بھی ایسے اداروں سے حاصل  کی جن کا نصابِ تعلیم خالصتاً سیکولر بنیادوں پر مرتب کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے ارد گرد بسنے والے پڑوسیوں‘ دوستوں یا خاندان کے افراد کو بھی انھی سیکولر اقدار پر کار بند دیکھا تھا۔ ان ریاستوں کی بنیاد یہ تصورات ہیں کہ ‘ مذہب خونریزی پیدا کرتا ہے‘ مذہب ایک افیون‘ مذہب فرسودہ رسم و رواج کا مجموعہ ہے‘ مذہب کو صرف انسان کی ذات اور گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا چاہیے‘ اس کا تو معاشرے کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے‘ اگر ہم مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونگے تو ہمارے معاشرے پرامن رہیں گے‘ انسانوں کو اختیار ہے کہ وہ مذہبی تصورات سے بالاتر ہو کر جس طرح کی جنسی زندگی چاہیں اختیار کریں‘ بے شک وہ حیوانوں کی طرح کی اجتماعی ریوڑ جیسی ہی کیوں نہ ہو‘ جہاں جوڑے کا کوئی تصور نہیں ہوتا‘ ہم جنس پرستی تمہارا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے خواہ یہ فطرت کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔

    ایسے لاتعداد تصورات ہیں جو ریاستی‘ معاشرتی‘ خاندانی‘ تعلیمی اور میڈیا کی سطح پر اس معاشرے میں مسلسل پھیلائے جاتے ہیں اور ان پر زبردستی عمل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہی سیکولر اور لبرل معاشروں کی آزاد روش ہے جس سے فحش فلموں کا کاروبار جنم لیتا ہے‘ پروان چڑھتا ہے اور ان کے لیے افرادی قوت بھی یہی سیکولر معاشرے فراہم کرتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق امریکا سب سے زیادہ فحش فلمیں بناتا ہے جب کہ دوسرا نمبر جرمنی کا ہے۔ دونوں ہر ہفتے چار سو فلمیں فی ملک بناتے ہیں۔ اسی سیکولر معاشرے کی سب سے بڑی انڈسٹری فحاشی ہے۔

    اس فحاشی کی انڈسٹری نے گزشتہ دو دہائیوں سے معاشرے کی سیکولر بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے خاندان کے ادارے اور رشتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے مقدس رشتوں کے درمیان جنسی تعلق پر مبنی فلمیں بے تحاشا تعداد میں بنانا شروع کر دی ہیں‘ جن میں ماں بیٹا‘ باپ بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتوں کے تصور کو بھی پامال کیا گیا ہے۔ سیکولر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی بلکہ مادر پدر آزادی کی وجہ سے ان فلموں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، چاہے اس کے نتیجے میں معاشرے سے ان مقدس رشتوں کا احترام ختم ہو جائے ۔

    اس طرح کے سیکولر معاشروں میں جنسی جنونی قاتلوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جنم لیاہے جنھیں سیریل کلر کہا جاتا ہے۔ یہ ان معاشروں میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور انھوں نے اپنے جنون میں لاکھوں عورتوں کو قتل اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ جیک دی رپر سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انھی فلموں نے ایک اور تصور بھی معاشرے کو دیا کہ عورتیں اجتماعی زیادتی میں لطف اٹھاتی ہیں۔ اس تصور کو  Rape fantacy کہا جاتا ہے اور پھر مردوں کو اکسایا گیا کہ یہ تو کوئی ایسا جرم ہی نہیں‘ تم تو عورتوں کے پوشیدہ خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کرتے ہو ۔

    سیکولر معاشروں کی غلاظت‘ تعفن اور بدبو تو ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایک عمر بھی لکھا جائے تو کم ہے۔ لیکن ان معاشروں نے گزشتہ چند دہائیوں سے ایک الزام کس قدر کامیاب میڈیا مینجمنٹ سے مسلمان معاشروں پر لگانا شروع کیا ہے کہ وہاں سے متعصب اور دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اس پراپیگنڈے کا آغاز سوویت یونین کے زوال کے بعد شروع ہوا اور گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کے بعد اپنے عروج پر جا پہنچا۔ مسلمانوں میں شدت پسندی یا مغرب کی نظر میں دہشت گردی کی وجوہات تو واضح نظر آتی ہیں۔

    فلسطین میں ظلم و تشدد کی ایک صدی‘ کشمیر میں ظلم‘ افغانستان‘ عراق‘ بوسنیا‘ چیچنیا‘ غرض ہر جگہ مسلمان آبادی کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا‘ کچھ سہم کر خاموش ہو گئے اور کچھ انتقام کی آگ میں سلگتے ہوئے اپنے حواس کھو بیٹھے۔ یوں ان کے انتقام کی زد میں جو آیا ان کا نشانہ بن گیا۔ لیکن سیکولر معاشروں خصوصاً مغربی یورپ کے معاشروں پر تو ایسا کوئی ظلم کسی نے نہیں کیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں سے دہشت گرد کیسے جنم لینا شروع ہو گئے۔ یوں تو ٹیموتھی جیمز میک وگ “Timo jhy James Mcveigh” کا قصہ بھی اتنا پرانا نہیں۔ اس شخص نے 1991 میں پہلی عراق جنگ میں حصہ لیا۔اس دوران اس نے اتنے بے گناہ لوگوں کی لاشیں دیکھیں تھیں کہ اس کا ذہنی توازن برقرار نہ رہا اور نفرت کی وجہ سے امریکی حکومت کی کسی بڑی بلڈنگ کو نشانہ بنانے کے چکر میں پڑ گیا۔

    یوں اس نے 10اپریل 1995 کو اوکلوہاما سٹی میں ایک فیڈرل گورنمنٹ بلڈنگ کے ساتھ بارود بھرا ٹرک کھڑا کیا اور دور جا کر اسے ریموٹ سے اڑا دیا‘ جس کے نتیجے میں 168 لوگ مر گئے اور چھ سو زخمی ہوئے۔ اس کی سوانح عمری 2002 میں چھپی جس میں اس نے اپنے ملحد اور سیکولر ہونے کا اقرار کیا۔ اس نے کہا “Idont belive in hell and science is my religion” ’’میں جہنم پر یقین نہیں رکھتا اور سائنس میرا مذہب  ہے‘‘۔ اس کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس نے اپنے آخری بیان میں کہا۔ ’’اگر واقعی جہنم نام کی کوئی چیز ہے تو پھر میرے ساتھ وہ امریکی فائٹر پائلٹ بھی ہوں گے جو محض جنگ جیتنے کے لیے معصوم لوگوں پر بم برساتے تھے‘‘۔2001میں گیارہ ستمبر کا واقعہ ہو گیا۔

    اس واقعے کی کوکھ سے ایک اور سیکولر دہشت گرد نے جنم لیا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے یورپ میں دہشت گردی کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ ناروے کا رہنے والا پیڈر جینسن (Peder Jensen)۔ 1975 میں پیدا ہونے والا یہ شخص یورپ کا سب سے مشہور بلاگر ہے جو جہاد مخالف (Counter Jihad) بلاگ تحریر کرتا ہے۔ وہ ناروے کی وزارت خارجہ کا افسر تھا جس نے باقاعدہ عربی سیکھی اور مصر اور اسرائیل کے سفارت خانوں میں کام کرتا رہا۔ گیارہ ستمبر کے بعد اس نے  Fjordman کے قلمی نام سے بلاگ لکھنا شروع کیے۔ یہ شخص شدید قوم پرست نظریات رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ سے نکال دیا جائے ورنہ یہاں ایک سول وار ہو جائے گی اور لوگ انھیں مار دیں گے۔

    اس نے اپنی تحریروں سے بہت سے لوگوں کی ذہن سازی کی جو یورپ میں موجود ہر مسلمان سے نفرت کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک اینڈرس بریوک Anders Breivik ہے جس نے اس کے نظریات سے متاثر ہو کر یورپ کی اسلام سے آزادی کی تحریک شروع کی۔  وہ نظریاتی طور پر hip کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے اور سیکولر قوم پرست ہے۔ وہ یورپ کے مسلمانوں کو ’’ٹرائے‘‘ کا گھوڑا سمجھتا تھا۔ یعنی مسلمان دھوکے سے یورپ میں داخل ہو کر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔اس نے 1518 صفحات کا ایک مینی فیسٹو تحریر کیا۔ صلیبی جنگوں والا لباس پہنا‘ اپنی ویڈیو بنائی کہ وہ حملہ کرنے جا رہا ہے اور پھر 22 جولائی 2011 کو اوسلو کی گورنمنٹ بلڈنگ میں گیا‘ دھماکا کیا جس سے 8لوگ مر گئے‘ وہاں سے وہ یوٹوا UTOYA جزیرے گیا‘ وہاں ایک یوتھ کنونشن ہو رہا تھا‘ اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور 68 لوگوں کو قتل کر دیا۔

    مقدمہ چلا‘ اسے عدالت نے کہا تم نے یہ سب کیوں کیا‘ جواب دیا اس لیے کہ یورپ کو مسلمانوں سے آزاد کرواؤں‘ کیا تم عیسائی ہو‘ جواب دیا‘ یورپی ہوں‘ معاشرتی طور پر عیسائی‘ نظریاتی طور پر سیکولر۔ لیکن اب جب‘ اس کے ٹھیک پانچ سال بعد جب اوسلو میں قتل و غارت کی سالگرہ تھی‘ ایک ایرانی اور جرمنی شہریت کے حامل لڑکے علی ڈیوڈ سنبلی نے میونح میں چھ ترک اور عرب بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خود مارا گیا لیکن اس کا کمرہ‘ کمپیوٹر اور دیگر اشتہار میں ہر طرف اوسلو دھماکوں کا شخص اینڈ بریوک ہیرو نظر آتا ہے۔

    وہ اسے اپنا ہیرو سمجھتا تھا۔ مغرب کے ان سیکولر دہشت گردوں پر مغرب کا میڈیا خاموش ہے لیکن حیرت پاکستانی میڈیا پر ہوتی ہے جسے سانپ سونگھ چکا ہے‘نہ اسے امریکا کے ہم جنس پرست کلب کی فائرنگ یاد آتی ہے اور نہ اوسلو کے مقتول اور نہ ہی میویخ کا قاتل۔ یوں لگتا ہے اگر کوئی سیکولر دہشت گرد اور قاتل بھی ہو جائے تو معزز ہی رہتا ہے۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے