Tag: عدالت

  • ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق ہمارے جج صاحبان بالعموم الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ ان کے عہدے کا بھی تقاضا ہے کہ ان کا لوگوں میں زیادہ گھل مل جانا مناسب نہیں ہوتا۔ کچھ ان کی ٹریننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک عام سول جج بھی چند مہینے اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد خود کو بڑی توپ شے سمجھنے لگتا ہے۔ پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان تو بہت ہی اعلی مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ ساری حکومتی مشینری ان کے سامنے جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر کوئی ”مائی لارڈ“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ عدالت میں، اور عدالت کے باہر بھی، ایک خاص قسم کی پروقار خاموشی ان کی زندگی کی خصوصیت بن جاتی ہے۔
    پھر اچانک وہ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اچانک؟ حالانکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کس عمر میں ریٹائر ہونا ہے۔ ہاں! اچانک، کیوں کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے دن تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ریٹائرمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اور اگر انھیں واقعی اچانک ہی ریٹائر ہونا پڑے، جیسا کہ بعض اصول پرست جج صاحبان کسی آمر کی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرکے واقعی اچانک ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں، تو زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجاتا ہے۔
    فوجی آمروں اور سیاسی بادشاہوں سے ہمارے جج صاحبان عموماً مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مسئلہ ”پیسہ“ نہیں ہوتا۔ انھیں سوئس اکاؤنٹس، یا لندن فلیٹس، میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ انھیں بس یہ درکار ہوتا ہے کہ جیسے کل انھیں مائی لارڈ کہا جاتا تھا، اب بھی انھیں مائی لارڈ نہ سہی تو کم از کم ”مائی باپ“ کہہ کر ہی پکارا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں کوئی بڑا عہدہ ملے، کوئی ایسا عہدہ سے جو بے شک ”فیصلے“ کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن کم از کم اس کا ایک دبدبہ ہو، ایک نام ہو۔
    آسان الفاظ میں، ہمارے جج صاحبان بالعموم حبِ مال کے فتنے میں نہیں بلکہ حبِ جاہ کے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ ساغر و مینا کا شوق بے شک نہ رکھتے ہوں، بلکہ یہ شوق ”افورڈ“ نہ کرسکتے ہوں ، لیکن چاہتے یہی ہیں کہ ساغر و مینا ان کی آنکھوں کے سامنے رہیں، خواہ ان کے ہاتھوں میں جنبش کی سکت بھی باقی نہ ہو۔
    ہمارے شریفوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ جج صاحبان کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے انھوں نے بالعموم حب جاہ کے شکنجے میں گرفتار اور پارسائی کے زعم میں مبتلا جج صاحبان کو اسی طرح استعمال کیا ہے۔
    ہاں! چند ایک جج صاحبان کے اندر کا ”عام آدمی“ جج بن جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ تو ان کے لیے ہمارے شریفوں کے بریف کیس حاضر رہتے ہیں۔

  • پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    میں انصاف ہوں.
    آج عدالت میں کھڑا تھا.
    مقدمے کی دوبارہ سماعت ہو رہی تھی.
    جج صاحب نے فیصلہ سنایا.
    ”شواہد نا کافی ہیں … پھانسی نہیں دی جا سکتی ..“
    یہ سن کر میں بے اختیار اپنے بال نوچنے لگا.
    دونوں بھائی تو کب کے پھانسی پر لٹک چکے تھے.
    دراصل مجھے پھانسی ہو چکی تھی.

  • دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ عام طور پر جرم کے تین ارکان بیان کیے جاتے ہیں :
    مجرمانہ فعل (actus reus)؛
    مجرمانہ ذہن ( mens rea)؛
    اور ان دونوں کے درمیان رابطہ سببیہ (causal link)،
    یعنی یہ ثابت کیا جائے کہ یہ مجرمانہ ذہن ہی اس مجرمانہ فعل کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔

    مثال کے طور پر ”ازالۂ حیثیتِ عرفی“ (defamation) کا جرم لے لیجیے۔ زید نے بکر پر کوئی الزام لگایا۔ اب الزام تو ہوا مجرمانہ فعل؛ لیکن کیا اس نے یہ الزام بدنیتی سے (malafide) لگایا؟ یا کیا اسے علم تھا کہ اس کی اس بات سے بکر کی حیثیتِ عرفی کو نقصان پہنچے گا (وہ بدنام ہوگا )؟ اگر زید نے ثابت کیا کہ اس نے جو کہا، یا لکھا، وہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، یا اسے علم نہیں تھا کہ اس کا کہا یا لکھا بکر کی بدنامی کا باعث بنے گا ، بہ الفاظ ِ دیگر اس نے یہ نیک نیتی سے (in good faith)کیا تھا، تو اسے مجرم نہیں کہا جاسکتا۔ (اسی وجہ سے اخبارات اور میڈیا والے لوگوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور بچ جاتے ہیں!)

    بعض اوقات کسی فعل کو اتنا سنگین سمجھا جاتا ہے کہ محض اس فعل کا ارتکاب ہی کافی قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے guilty mind یا mens rea کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے اسلامی قانون میں زنا کا الزام ہے۔ جس نے کسی شخص پر زنا کا الزام لگایا، وہ لازماً اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ پیش کرے گا، ورنہ اسے قذف کی سزا (اسی کوڑے) دی جائے گی۔ (اس سے استثنا صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو وہ لعان کا طریقہ اختیار کرے گا اور اگر الزام کے بعد لعان کرنے سے انکار کرے تو اسے قید کیا جائے گا۔)

    پھر بعض حالات میں ایک ہی فعل کی سزا مختلف ہوجاتی ہے اگر نیت مختلف ہو۔ مثال کے طور پر اگر زید کا ارادہ بکر کو قتل کرنے کا تھا اور اس ارادے کے ساتھ اس نے بکر کو قتل کیا تو یہ قتل عمد ہے جس کی سزا قصاص ہے؛ تاہم اگر اس کا ارادہ صرف بکر کو چوٹ لگانے کا تھا لیکن اس چوٹ سے بکر کی موت واقع ہوئی تو اسے شبہ عمد کہا جاتا ہے، جس کی سزا دیتِ مغلظہ ہے؛ اور اگر اس کا ارادہ ہرن پر گولی چلانے کا تھا لیکن گولی بکر کو لگی، یا جسے اس نے ہرن سمجھ کر گولی چلائی وہ بکر نکلا (جو پتہ نہیں کیوں چوپایوں کی طرح چل رہا تھا) ، تو ان دونوں صورتوں میں یہ قتل خطا ہے اور اس کی سزا دیتِ مخففہ ہے۔
    قتل کی ان تینوں صورتوں میں بکر کا قتل زید کے ہاتھوں ہوا ہے لیکن ارادے کے اختلاف سے سزا میں فرق آیا۔

    یہ ارادہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟ یہ تو دل کی بات ہوتی ہے۔ دل میں عدالت کیسے جھانک لیتی ہے؟ کیا عدالت پر وحی کا نزول ہوتا ہے؟
    نہیں، یہ سوالات صرف اسی صورت میں اٹھائے جاتے ہیں جب ہم کسی ہندو، مسیحی یا یہودی کو کافر کہیں!

  • اختیاراور وابستگی کا منفی پہلو – بابر ستار

    اختیاراور وابستگی کا منفی پہلو – بابر ستار

    بابر ستار ابراہم لنکن نے اپنے ساتھی وکلا کو بصیر ف افروز نصیحت کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’مقدمات کی حوصلہ شکنی کیجیے۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے ہمسایوں کو سمجھوتہ کرنے پر آمادہ کریں۔ بطور صلح جو، ایک وکیل کے پاس اچھا انسان بننے کے بہت اعلیٰ مواقع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بزنس میں کمی نہیں آئے گی ۔‘‘یہ لنکن، جناح، گاندھی، ہملٹن، مارشل، منڈیلا اور دیگر بہت سوں کی کہانیاں ہیںجو نوجوان افراد کو قانون کے مطالعہ کا درس دیتی ہیں، نہ کہ اپنے پیشے اور معاشرے کی ہر برائی کا اخلاقیات کی تمام حدود پار کرتے ہوئے دفاع کرنے پر آمادہ وکلا۔

    کیا عام شہری ہم وکلا کی عزت کرتے ہیں؟ کیا ہمارا تاثر زیادہ تر ایک ’لازمی برائی‘ کے طور پر نہیں ہے؟ بنک عام طور پر وکالت کے پیشے کا منفی تاثر رکھتے ہوئے ہمیں کریڈٹ دینے سے گریز کرتے ہیں، عام افراد اپنی جائیداد ہمارے ہم پیشہ ساتھیوںکو کرائے پر دینے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں۔اُن کا خیال ہے کہ ہم اپنے وعدے سے پھرتے ہوئے اُنہیں مقدمے میں گھسیٹ لیں گے ۔ ہم نے 2007 ء میں آئین کو پامال کرنے والے آمروں کے سامنے کھڑے ہونے کی بار کی شاندار تاریخ کو دہرایا، ہم آئین اور قانون کی بالا دستی کے لئے کھڑے ہوئے ، اور یوں ہم نے عوام کی نظروں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کی ۔ تاہم عدلیہ کی بحالی کے بعد ، نیک نام وکلا کی قربانیوںاور نظام ِ انصاف اور شہریوں کو لیگل سروسز کی فراہمی میں بہتری لانے کے جذبے کو بار آور کرنے کی بجائے بعض پیشہ ور وکلا مغروراور منہ زور ہوگئے ۔ وکلاتحریک کی کامیابی سے حاصل ہونے والے احساس نے ہمارے اندر خود سری بھردی، جس کا اظہار ہماری ہڑتالوں اور جج حضرات، سائلین، پولیس اور صحافیوں کے ساتھ ہمارے لڑائی جھگڑے سے ہوتا رہا۔ ہماری اس فعالیت نے ڈکشنری میں ایک نئے لفظ ’’وکلا گردی‘‘ کا اضافہ کردیا۔ ایک بڑے شہر کی بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے عدالت کے اندر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ بدتمیزی کی کیونکہ جج صاحب نے اُس کے کلائنٹ کے خلاف حکم پاس کر دیا تھا۔ جج صاحب نے ہائی کورٹ میں شکایت درج کرائی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں ایک سپروائزی کمیٹی نے اُس وکیل کو شوکاز نوٹس بھیجا، لیکن اس نے سماعت کے لئے آنا بھی گوار ا نہ کیا۔ اس پر ہائی کورٹ نے ’لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 ‘ کے سیکشن 54(2) کے تحت اس کا لائسنس منسوخ کردیا، اور مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 41 کے تحت حتمی فیصلے کے لئے شکایت بار کونسل کے پاس بھیج دی۔ یہاں ایک غیر معمولی کارروائی ہوتی دکھائی دی جب بار کونسل نے وکیل کے خلاف شکایت کا میرٹ پر فیصلہ کرنے کی بجائے فوراً ہی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا۔بار نے یہ موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جو وکلا کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے کوئی سپروائزی کمیٹی قائم کرسکے۔ اس موقف کا آئینی پہلو ایک طرف، ایکٹ کے سیکشن 54 کی رو سے ایک صوبائی بار لاہورہائی کورٹ کی آئینی اتھارٹی کا تعین کرنے کی کسی طور پر مجاز نہ تھی۔

    تاہم اس معاملے کا قانونی پہلو کے علاوہ اپنائے گئے موقف سے بنیادی، گروہی اور ذاتی مفاد کی جھلک نمایاں ہوتی ہے ۔ بار نے سوچا کہ چونکہ جج حضرات اپنے ساتھی جج کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تو اُنہیں بھی اپنے ساتھی وکیل کا ساتھ دینا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ایسے تنازعات میں صیحح اور غلط کا تصور گروہی مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ کچھ استثنات کے ساتھ، بار اور بنچ خود کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا ممتاز کلب سمجھتے ہیں جو اپنے مفادات کے ڈھانچے کا دفاع کرنے اور ہر قسم کے بیرونی احتساب کے خلاف متحد اور پرعزم ہے ۔ ہم اپنے قوانین کی مقصدیت پر بحث کرسکتے ہیں۔ کیا مذکورہ ایکٹ کا سیکشن 54 جو عدالت کو برا رویہ دکھانے کی پاداش میں وکلا کا لائسنس معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے، ایک اچھا قانون ہے؟کیا عدالت کو حاصل یہ اختیار آرٹیکل 10A(جو طریق کار کے متعلق) ، آرٹیکل 18 ( پیشے کے انتخاب کا حق) اور آرٹیکل 9 (جان ومال کا حق)پر ایک ناروا قدغن کے مترادف ہے ؟کیا تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے پیشہ ور بداخلاقی کا سدباب کیا گیا، یا کیا یہ ججوں اور وکلا کے درمیان معاملات میں ایک فریق کے ہاتھ چابک پکڑانے کے مترادف ہے؟

    کیا ہمارا توہین عدالت کا قانون آزادی ٔ اظہار ، جو کہ عدالتی طرز ِعمل کی جانچ کے لئے ضروری ہے ، اورایک قابل ِاعتماد عدالتی نظام ، جو کسی مداخلت کے بغیر انصاف فراہم کرے، کے درمیان درست توازن پیدا کرتا ہے ؟کیا توہین کے قانون کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے عوامی مفاد کے تحفظ کے لئے بروئے کار لایا گیااور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو سزا دی گئی، یاعدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا، یا پھر اسے کچھ ججوں کو شرمندہ ہونے سے بچانے اور ناپسندیدہ وکلا کو سبق سکھانے کے لئے استعمال کیا گیا؟ یہ قانون کسی طور پر نتائج دیتا دکھائی نہیں دیتا۔ بااختیار بار کونسل کو حاصل طاقت کا مقصد وکلاکو نظم میں رکھنا اور عوامی مفاد میں ان کا لائسنس معطل کرناہونا چاہیے ، اور اس کے لئے ایمانداری، پیشہ ورمہارت اور خلوص کو دیکھا جائے ۔ اسی طرح جوڈیشل احتساب اس بات کو یقینی بنائے کہ کہیں جج حضرات اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھا رہے ۔ ہمارے ملک میں کم و بیش اس بات پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ ہمارا جوڈیشل سسٹم شہریوں کو مایوس کررہا ہے ۔ عدالتیں بہت کم اور بہت تاخیر سے انصاف مہیا کرتی ہیں۔ وکلاکو مشکوک نظروںسے دیکھا جاتا ہے ، اور انہیں جسٹس سسٹم کی خرابیوں کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ لئے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نظام ِانصاف کو مجموعی طور پر بدعنوان اور غیر موثر سمجھتے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماری سپریم جوڈیشل کونسل عشروں پر محیط عرصے کے دوران جوڈیشل بے ضابطگی پرکوئی کارروائی نہ کرسکی؟کیا ہم نے کبھی ایسا سنا کہ کسی بار نے کسی وکیل کے خلاف بددیانتی یا پیشہ ور نااہلی کی بنا پر کوئی ایکشن لیا ہو؟

    حال ہی میں اس ضمن میں ایک پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے ۔ ایک غیر معمولی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججوں کے انتظامی ایکشن بھی دیگر عوامی عہدیداروں کی طرح جوڈیشل نظر ِ ثانی سے گزر سکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی گئی تقرریوں کا بہت ناقدانہ جائز ہ لیا،اور اُنہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ چیف جسٹس صاحبان کے پاس قوانین کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے ، یا اپنی من مانی کا اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے طویل التوا کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی فعال کردیا۔ یہ سب اپنی جگہ پر درست ، لیکن ہم نے بارز میں اصلاحات لانے کی بات تاحال نہیں سنی۔ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز بلاشبہ ملک کے سب سے زیادہ جمہوری ادارے ہیں۔ ان میں ہرسال باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں ۔ ان انتخابات میں ایک بڑی تعداد میں وکلا ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار چنتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست، لیکن جسٹس اور لیگل سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا یا وکلا کی تربیت یا اُن میں پیشہ ور اخلاقیات اجاگر کرنا کبھی بھی انتخابی مہم کا حصہ دکھائی نہیں دیتا۔
    ایک حوالے سےبارز بھی انہی مسائل کا شکار ہیں جو ہمارے سیاسی اداروں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں، جو کہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ ہم شکاری جانوروں کے ایک ایسے غول کا روپ دھار چکے ہیں جو مل کر شکار کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچائو اس گروہ کے ساتھ غیر مشروط طور پر وابستہ رہنے میں ہے ۔ اگر ہم اس گروہ سے نکلیں گے تو تمام مشکلات کے سامنے ہم اکیلے ہوں گے ۔ اصلاح کے لئے ہمیں اس غول سے بلند ہوکر آنے والے وقت کے تقاضوں کو بھانپنا ہوگا۔ تاہم عملیت پسندی کے تقاضے اصولوں پر غالب آجاتے ہیں۔

  • کریڈٹ کارڈ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا – مصطفی ملک

    کریڈٹ کارڈ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا – مصطفی ملک

    مصطفی ملک سر، ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے؟
    جی، آجائیں، اس نے آہستہ سے کرسی سرکائی اور میرے سامنے بیٹھ گیا، آفس میں بطور اسسٹنٹ کام کرنے والا نوجوان مجھے کئی دنوں سے پریشان نظر آرہا تھا، اس سے پہلے کہ میں اس سے پوچھتا، شاید وہ خود ہی بتانے کے لیے آگیا۔
    سر! کچھ پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے،گھر میں کچھ پریشانی ہے۔
    میں نے پوچھا، کتنے ؟
    جی بیس ہزار، جی آئندہ تنخواہ پر لوٹا دوں گا، میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ تو پندرہ ہزار ہے تم بیس ہزار کیسے لوٹا دو گے؟
    بس جی اگلے ماہ ایک کمیٹی نکلنی ہے۔
    مجھے آج ہی اہلیہ نے پچیس ہزار روپے دیے تھے بیٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے لیے، میں نے اس کی مشکل حل کرنے کے لیے اسے دراز سے 20 ہزار روپے نکال کر دے دیے۔ اس نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے دوبارہ بر وقت ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی۔

    ابھی وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ دوسرا اسسٹنٹ آ گیا، کہنے لگا، سر کتنے پیسے لے گیا؟
    کیا مطلب؟ میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ سر جی آپ تو بھولے بادشاہ او، اس کا تو کام ہی یہی ہے، کریڈٹ کارڈ بنوانے کا شوق تھا، اب ادائیگیاں نہیں ہو رہی ہیں، بنک والے پیچھے پیچھے اور یہ آگے آگے، بس اب بھول جائیں اپنے پیسوں کو، میں نے اسے بتایا کہ وہ مجھ سے پیسے لینے نہیں بلکہ اپنے کارڈز کے سلسلہ میں مشورہ کرنے آیا تھا ۔

    میں نے اسے اگلے دن بلالیا، بھائی کیا بنا تمہاری پریشانی کا؟ جی ۔۔ جی ، وہ ۔۔۔ جی
    بھائی مجھے اصل بات بتاؤگے تو میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں گا۔ وہ چند لمحے خلاؤں میں گھورتا رہا، اچانک اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گیا، میرے لیے یہ غیر متوقع صور حال تھی، سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں، میں نے جلدی سے دروازہ اندر سے لاک کر دیا، اسے حوصلہ دیا۔ بس وہ ایک ہی بات کیے جا رہا تھا، سر مجھے بچا لیں، میرے بہت چھوٹے بچے ہیں، میں خود کشی کر لوں گا، میرے بچے رل جائیں گے سر! میں نے کہا کہ بھائی حوصلہ کرو، کچھ بتاؤ گے تو بات بنے گی ناں۔

    سر! میں نے ایک کریڈٹ کارڈ بنوا لیا تھا، تین لاکھ کا، پہلے چند ماہ تو بہت مزا آیا، بیوی اور بچوں کو لے کر خوب گھومے، اسی کے لون پر موٹر سائیکل بھی لے لی، پھر بیوی کی بہن کی شادی تھی، بیگم کے کہنے پر جی بھر کے شاپنگ بھی کر لی اور اس کی بہن کے لیے تحائف بھی لے لیے، بیگم کہنے لگی، بنک کا کیا ہے، قسطوں میں ہی تو واپس کرنا ہے، ایک سال تک تنخواہ سے جیسے تیسے قسطیں دیتا رہا ہوں، ایک سال بعد دیکھا، وہ تین لاکھ تو وہیں کہ وہیں اور الٹا کچھ انٹرسٹ اور اوپر چڑھ گیا ہے، تنخواہ ان کو دیتا ہوں تو کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا، ان کو نہیں دیتا تو بنک ریکوری افسران گھر آ کر گالی گلوچ کرتے ہیں، پچھلے ماہ بیوی کا کچھ زیور بیچ کر شارٹ قسطیں جمع کروائیں تو پتہ چلا وہ ساری رقم لیٹ پیمنٹ اور جرمانوں کی مد میں جمع ہو گئی، سر میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں، میں بس اب خود کشی کرلینی ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا، اٹھا کر کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ پہلے پانی پیو، پھر بات کرتے ہیں، اس کو حوصلہ دیا اور اس کے لیے چائے بنوائی۔

    اس کی ساری رام کہانی سننے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب حوصلہ کرے، رونے کی ضرورت نہیں، نہ ہی پریشان ہونے کی، بنک کے اہلکار آئیں تو انہیں پیسے جمع نہیں کروانے بلکہ انہیں مجھ سے ملوانا ہے، کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک نوجوان کے ساتھ اسی طرح کا المناک واقعہ پیش آیا جب بنک کے ریکوری نمائندوں نے اسے ڈرایا دھمکایا اور اس کے گھر جاکر گالی گلوچ کی جس کے نتیجہ میں اس نے خود کشی کرلی۔ عدالت عالیہ نے اس کا نوٹس لیا جس کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یہ قوانین لاگو کردیے کہ بنک کا کوئی بھی نمائندہ بغیر اپنے کلائنٹ سے ایڈوانس اپوائنٹمنٹ کے اس کے گھر یا دفتر نہیں جا سکتا، اس کے علاوہ اس کے کسی عزیز سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا اور اگر اس سے ملاقات ہو بھی تو دن کے اوقات میں ہوگی۔ اگلے ہی دن اس نے بتایا کہ بنک کا ایک نمائندہ آیا ہے، میں نے اس کو ملاقات کے لیے بلوا لیا، اور پوچھا کہ کیا تم نے اسٹیٹ بنک کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے، کس بنیاد پر اس کو اور اس کے گھر والوں ں کو ڈرا دھمکا رہے ہو، جائیں ہم رقم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ اپنے بنک کو بتا دیں کہ وہ بنکنگ کورٹ میں ہمارے خلاف دعویٰ کر دے۔ آپ نے ایک شریف آدمی کی ساری جمع پونجی بھی لوٹ لی ہے اور اسے ڈرا دھمکا بھی رہے ہو، ہم الٹا تمہارے خلاف کیس بنوائیں گے، اسے بات کی سمجھ آ گئی، اور اس نے اجازت لینے میں ہی عافیت جانی. میں نے اسے کہا کہ اگر آپ نے اپنی رقم واپس لینی ہے تو کوئی پلان بنا کر لے آئیں، ہم اپنی سہولت کے مطابق آپ کو رقم واپس کردیں گے کیونکہ یہ ہمارے ذمہ ہے مگر آئندہ دھونس نہیں چلے گی۔

    کریڈٹ کارڈ ایک شیطانی چال ہے لوگوں کو پھنسانے کی، اس کا انجام صرف ڈیفالٹر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ان ڈیفالٹرز کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو بے چارے گھر پر ”نہیں ہوتے“ فون پر ”نہیں ہوتے“ اور آفس یا کاروبار پر ”نہیں ہوتے“ کیونکہ ان سب کو بنک کے ہرکاروں کا ڈر ہوتا ہے جو کہلاتے تو ریکوری افسر ہیں لیکن دراصل ”بھائی لوگ“ یا ”کن ٹٹے“ ہوتے ہیں”

    کریڈٹ کارڈ ایک دھوکے کا نام ہے جس کے چکر میں ہزاروں لوگ اپنے گھر برباد کر چکے ہیں کیونکہ ایڈوانس رقم بغیر کسی محنت کے حاصل ہوتی ہے، اس لیے اسی طرح خرچ ہو جاتی ہے ، پھر انسان اس کی ادائیگی کرنے کے لیے اور کریڈٹ کارڈ بنوا لیتا ہے، پھر اس کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، تو پھر دوستوں سے آدھا، گھر کی اشیاء، بیوی کے زیور تک بکنے کے لیے آجاتے ہیں مگر ادائیگیاں نہیں ہوتا اور انسان سود درسود کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے ، پھر اگر بات عدالتوں تک چلی جائے تو وکلاء کے اخراجات، پیشیوں پر پورے پورے دن کا ضیاع ، پھر سزا اورگرفتاری کا خطرہ۔

    پھر اس کا حل کیا ہے؟ بس اس کا حل یہی ہے کہ اپنے اخراجات کو محدود رکھیے، سود کو اللہ رب العزت نے اپنے سے جنگ قرار دیا ہے تو پھر کون اللہ سے جنگ جیت سکتا ہے، اس لیے سود سے بچیں لیکن اگر آپ اس چنگل میں پھنس چکے ہیں تو گھبرانے کے بجائے، ان کو ماہانہ ادائیگیوں کے بجائے کسی وکیل سے مشورہ کریں، بنک والوں کے پاس آپ کو ڈارنے دھمکانے یا بلیک میل کرنے کا اختیا نہیں، ان سے وعدہ کیجیے، ادائیگیوں کا پلان بنوائیں، یکمشت ادائیگی میں بنک تیس فیصد سے زیادہ چھوٹ دے دیتا ہے، وہ بھی اصل زر میں سے، سود سارا معاف ہو جاتا ہے، تین یا چار قسطوں میں بھی بنک مان جاتا ہے اور چھوٹ بھی دے دیتا ہے، اگر بنک عدالت میں بھی چلا جائے تو عدالتیں حسب معمول پانچ پانچ سال لگا دیتی ہیں فیصلے کرنے میں، ایسے میں کہیں نہ کہیں سے، کوئی چھوٹی موٹی کمیٹی ڈال کر رقم کا بندوبست کریں اور جس موڑ پر چاہیں بنک کو کچھ لے دے کر اپنی جان چھڑوالیں کیونکہ سود بہت بری چیز ہے، سب کچھ کھا جاتی ہے۔ بس یاد رکھیں کہ ڈرنا نہیں، ایک غلطی کر لی، اب دوسری غلطی نہ کریں، بنک سے براہ راست بات کریں لیکن پہلے ہی چھوٹی چھوٹی قسطوں میں انہیں ادائیگی نہ کریں۔

  • مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    taufiq butt

    مائی لارڈ!میں آپ کا شکرگزار ہوں 19سال بعد میرے کیس کا فیصلہ ہوگیا، میری پھانسی کی سزارد کرکے مجھے باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں تھا قدرت مجھے پہلے ہی ”بری“ کرچکی ہے، میرے انتقال کو دوبرس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہواِس ملک میں انصاف کا انتقال کب ہوا تھا ؟۔ مجھے پتہ تھا میں نے قتل نہیں کیا۔ اِس کیس میں مجھے پھنسایا گیا تھا۔ اِس کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج نے کی تھی۔ مجھے عدلیہ پرپورا اعتماد تھا۔ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے میرے پاس ٹھوس شواہد تھے۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا، میں بے گناہ ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وکیل کرسکوں، کچھ لوگ مجھے کہتے تھے وکیل کے ساتھ تمہیں کچھ اوربھی کرنا پڑے گا، ورنہ ساری زندگی انصاف کو ترستے رہو گے۔ بڑی مشکل سے میرے والدین نے گھر کا کچھ سامان بیچ کر وکیل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا اِس مقصد کے لئے میری ماں نے زیور بیچا تھا، باپ نے گھر گروی رکھا تھا،

    ہمارے حکمران اکثر کہتے ہیں ہم عوام کو سستا انصاف فراہم کریں گے۔ اِس کا مطلب ہے اُنہیں پتہ ہے انصاف مہنگا ہے۔ حکمران شاید چاہتے بھی یہی ہیں انصاف مہنگا ہو۔ ”سستا انصاف“ ہرکوئی خرید سکتا ہے، جبکہ ”مہنگا انصاف“ صرف حکمران خرید سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں، مجھے اپنی عدالت پر پورا یقین تھا، شاید اِس لئے کہ اِس سے قبل کِسی عدالت سے میرا واسطہ نہیں پڑا تھا، اب میں سوچتا ہوں میں ”عادی مجرم“ ہوتا تب بھی اپنی عدالت پر مجھے پورا یقین ہوتا۔ تب شاید عدالت میرے یقین پر پورا بھی اُتر جاتی۔ ایک بار جیل میں میرا ایک عزیز مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے جج سے متعلق کچھ ایسی بات کی کہ میں نے اُس کے منہ پر تھپڑ ماردیا، وہ چُپ کرکے چلا گیا۔ میرا وکیل مجھے پوری تسلی دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا ”ہم گناہ گاروں کو بچا لیتے ہیں، تم تو ویسے ہی بے گناہ ہو “۔ میں بھی یہی سوچتا تھا۔ میں جیل میں روروکر دعائیں مانگتا تھا ”اے میرے مالک تو سب جانتا ہے، تجھے سب پتہ ہے میں بے گناہ ہوں، پھراِس آزمائش سے مجھے نکال دے، یہ شاید کِسی اور گناہ کی سزا ہے، میرا وہ گناہ بخش دے “ ….ہربار نئی تاریخ مل جاتی،”تاریخ پہ تاریخ“ کے ”تاریخی کلچر“ کے بارے میں نے سنا ضرورتھا۔ اُس کا شکار خود ہوجاﺅں گا ، یہ نہیں سوچا تھا، ہر تاریخ پر میرا وکیل مجھ سے کہتا ”اگلی تاریخ پر تم بری ضرور ہو جاﺅ گے“۔

    اگلی تاریخ پر پھر نئی تاریخ مِل جاتی، جو لوگ جیل میں مجھ سے ملنے آتے اکثر مجھ سے کہتے ”پولیس کی طرح ہمارے کچھ وکیل بھی دونوں پارٹیوں سے پیسے پکڑ لیتے ہیں “۔ میں اُن سے کہتا ”کوئی اور وکیل کروں گا وہ بھی تو ”وکیل“ ہی ہوگا۔ پھر ایڈیشنل سیشن کورٹ سے میرا کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔ دوسری طرف جیل کی زندگی بھی اِک عذاب بن گئی تھی۔ ایک جیب عدالت میں کٹتی دوسری جیل میں کٹ جاتی تھی۔ میرے والدین نے جوکچھ بیچا تھا، اُس سے حاصل ہونے والی ساری رقم خرچ ہوگئی تھی، گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوگیا، پھر وہ بے چارے رشتہ داروں سے اُدھار مانگ مانگ کر ”تاریخےں“ بھگتتے رہے، پھر رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیے۔ وکیل صاحب کو پیسے ملنا بند ہوگئے، اُن کا رویہ بدل گیا، پہلے ہر تاریخ پر وہ خود جاتے تھے، پھر اُن کا منشی جانے لگا۔ آہستہ آہستہ منشی نے بھی جانا بند کردیا۔ جب تک جیل کے عملے کی جیبیں گرم ہوتی رہیں وہ مہربان رہا۔ پھر اُس کارویہ بھی بدل گیا، اس دوران میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ اُنہیں میری ”فِکر کی بیماری“ تھی، یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ میں اُن کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ یہ میری زندگی کا سب بڑا دُکھ تھا…. مائی لارڈ اللہ نہ کرے یہ دُکھ آپ کے بچوں کو کبھی اُٹھانا پڑے۔

    ابا جی کی وفات پر میں نے سوچا کاش اب تک مجھے پھانسی ہوگئی ہوتی، یہ لمحات میری زندگی میں کبھی نہ آتے۔ زندگی کی سب سے قیمتی شے رخصت ہورہی تھی، میں اُس کی میت کو کاندھا تک نہ دے سکا، مائی لارڈ اُس روز مجھ پر جو گزری اللہ نہ کرے آپ کے بچوں پر کبھی گزرے۔ ….والد کے بعد کیس کی پیروی اپنی ہمت اوقات کے مطابق چجا کرنے لگے۔ جانے کتنے برس بیت گئے۔ کیس اب ہائی کورٹ میں تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کیس ابھی تک ”ایڈیشنل سیشن کورٹ “ سے باہر نہیں گیا۔ اُمید آہستہ آہستہ دم توڑرہی تھی۔ اِس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ”سربلندی“ کا بڑا شور اُٹھا ۔ میں اُن کی بحالی کے لئے رات دِن دعائیں مانگتا رہا۔ صرف میں نہیں پورا جیل دعائیں مانگتا رہا۔ پھر وہ بحال ہو گئے۔ مجھے یقین ہے اب انصاف اگلے دو چار روز میں ہی مجھے مل جائے گا۔ ایک بار ایک عزیز جیل میں مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے بتایا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اداکارہ عتیقہ اوڈھو کی شراب نوشی کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ مجھے لگا میرا مسئلہ بھی حل ہونے والا ہے۔ کوئی ازخود نوٹس ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کے بارے میں بھی اب وہ لے لیں گے، یا اُن کیسوں کے بارے میں بھی لیں گے جو سالہا سال سے عدالتوں کی الماریوں میں بند پڑے ہیں، افسوس وقت تیزی سے گزر گیا، وہ ریٹائرہوگئے، اور وہ اُمید فوت ہوگئی جسے ان کی بحالی پر نئی زندگی ملی تھی۔ پھر میرے چچا بھی فوت ہوگئے۔ باپ کی وفات کے بعد وہی میرے باپ تھے۔ میرا دوسرا باپ چلا گیا۔

    میں بے بس تھا۔ میں سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کرسکا۔ میرے خونی رشتے داروں نے ہمت نہ ہاری۔ کیس کی پیروی میرے دوسرے چچا کرنے لگے۔ مجھے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے جو اُن سے بن پڑا، اُنہوں نے بھی کیا، پھر وہ بھی فوت ہوگئے۔ پھر میں بھی فوت ہوگیا۔ موت نے میرے وہ سارے دُکھ دور کردیئے جو اِس ملک کے عدالتی نظام نے ٹنوں کے حساب سے مجھے دیئے تھے، ….مائی لارڈ آپ کو شاید پتہ نہیں تھا میں مرچکا ہوں، آپ کو شاید یہ بھی پتہ نہیں عدالتی نظام کی بہتری کے حوالے سے تقریباً ساری اُمیدیں مرچکی ہیں۔ آپ کو میری موت کا پتہ چل جاتا آپ شاید اِس کیس کو دبا رہنے دیتے۔ کیونکہ کسی بے گناہ کی موت کے بعد اُسے باعزت بری کرنے سے عدالتی نظام مزید ننگا ہوجاتا۔ آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے مجھے بری کردیا۔ مگر مجھے اب اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو بھی شاید کوئی فائدہ نہ ہو۔ آپ نے ”پوراانصاف “ نہیں کیا۔ پورا انصاف یہ تھا ماتحت عدلیہ کے جن ججوں نے اِس کیس کو غیرضروری طورپر لٹکائے رکھا، جن پولیس والوں نے اس کیس میں مال بنایا، جن وکیلوں نے اُلو سیدھے کیے، سب کے خلاف کسی نہ کسی کارروائی کا آپ حکم دیتے۔ اُن سب کو سزا ملتی۔ کوئی مثال قائم ہوتی ….جِس وقت یہ فیصلہ آپ نے سنایا میرا کوئی عزیز عدالت میں نہیں تھا، ورنہ بہت سوال آپ سے کرتا ؟۔مگر ایک وقت روز حساب کا مقرر ہے۔ اب سارے سوال وہیں ہوں گے۔

    میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جج اور وکیل میں فرق اب صرف ریٹ کا ہوتا ہے، مگر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا لوگوں کو صاف ستھرا، سچا انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ نشان کب مٹے گا ؟۔ کسی ملک کسی معاشرے کا نظام عدل ٹھیک ہو، اُس کے سارے نظام خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ہمارا نظامِ عدل کب ٹھیک ہوگا؟ وہ وقت کب آئے گا جب کوئی غریب، کوئی عام آدمی یہ سوچ سوچ کر نہیں مرجائے گااُس کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہو گئی کوئی ادارہ اُسے انصاف فراہم نہیں کرے گا۔ اللہ نے شاید ”روز حشر“ اِسی لئے مقرر کیا تھا اُسے پتہ تھا ہمارے جج لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے ….مائی لارڈ، اس کیس کی نذر ہونے والی تین زندگیاں آپ واپس لاسکتے ہیں ؟؟ چلیں وہ نہیں تو عدلیہ کی روزبروز گرتی ہوئی ساکھ ہی واپس لے آئیں !

  • موت کے بعد عدالت کا انصاف – محمد عمیر

    موت کے بعد عدالت کا انصاف – محمد عمیر

    مظہر حسین کا تعلق اسلام آباد کے نواحی علاقے سہالہ سے تھا۔ 1997ء میں اسماعیل نامی شخص کے قتل کا الزام مظہر حسین پر لگا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، مظہر حسین الزامات کی تردید کرتا رہا تاہم پولیس نے اسے مجرم قرار دیتے ہوئے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا۔ پولیس کی ضمنیوں اور تفتیشی پولیس افسر کے بیان پر مظہر حسین کو سزائے موت سنادی گئی۔ والدہ پولیس افسران کے سامنے روتی رہی کہ اس کا بیٹا بےگناہ ہے، والد مدعیوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ ایک بےگناہ شخص کو سزا دلو ا رہے ہیں مگر اس غریب پر کسی کو رحم نہ آیا۔ مظہر حسین کے دو کمسن بیٹے اپنے ماں باپ پر گزر رہی قیامت سے بےخبر تھے۔ بدقسمت مظہر حسین اپنے بیٹوں کو کھلھلاتے ہوئے دیکھ سکا نہ اسے اپنے جگرگوشوں کے لیے کھلونے لانے کا وقت ملا۔ نہ تو اسے بچوں کو ہوا میں اچھالنے کر خوش کرنے کووقت ملا اور نہ ہی وہ ان کو سکول چھوڑنے جا سکا۔ اس کی بیوی ہر پیشی کے دن خدا کے حضور سجدے میں جا کر رہائی کی دعائیں مانگتی رہی مگر مجسٹریٹ سے سیشن کورٹ، سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ ہر عدالت نے علاقہ مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس دکھیاری کی دعاسے کوئی عدالت نہ ہلی نہ کسی کا دل دہلا نہ کسی کو رحم آیا۔

    کیس کی پیروی کرتے ہوئے مظہر حسین کا والد دارفانی سے کوچ کرگیا۔ اس کی والدہ کی بینائی چلی گئی۔ اس کی بیوی اپنے زیورات بیچ کر وکیل کی فیس ادا کرتی رہی۔گھر میں فاقے پڑنے لگے مگر انصاف نہ ملا۔ مظہر حسین کی گرفتاری کے وقت اس کے بڑے بیٹے کی عمر 8 سال تھی جبکہ چھوٹے بیٹے کی عمر 6 ماہ تھی۔ ان دونوں کو کبھی بھی اپنے باپ کی شفقت نہ مل سکی، انہوں نے اپنے باپ کو ہمیشہ سلاخوں کے پیچھے ہی دیکھا۔ قتل کیس چلتے چلتے2010ء میں سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کو حقائق تک پہنچتے 6 سال لگ گئے اور چند روز قبل سپریم کورٹ نے ناکافی شواہد اور عدم ثبوتوں کی بنا پر مظہر حسین کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ وکلا خوشی خوشی رہائی کا پروانہ لے کر جیل پہنچے تو معلوم ہوا کہ مظہر حسین تو 2 سال پہلے انتقال کرچکا ہے۔ دنیا میں انصاف سے پہلے خدا نے اسے اپنی عدالت میں طلب کرلیا۔

    مظہر حسین کی والدہ، والد، بیوی، بچوں اور بھائیوں کو انصاف نہیں ملا، مظہر حسین پولیس کے بوسیدہ نظام تفتیش اور عدالتی راہداریوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے اس کے جرم نے نہیں اس نظام نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مظہرحسین اکیلا نہیں جس کو اس نظام نے پھانسی دی ہے، عدالتوں اور تھانوں کا چکر لگائیں تو آپ کو ہر شخص مظہر حسین ہی نظر آئے گا. دادا نے کیس دائر کیا تھا تو اب پوتا کیس کی پیروی کررہا ہے، وکیلوں کی فیس دیتے گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے مگر انصاف نہیں ملتا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ بیٹا 302 کے کیس میں ہرے درخت خشک ہوجاتے ہیں مگر یہ کیس ختم نہیں ہوتا۔ مظہر حسین کے کیس میں جمہوریت کا دور بھی آیا، مارشل لا بھی لگا، اس کے کیس کے دوران پاکستان کی تاریخ کے سب سے طاقتور چیف جسٹس کا دور بھی آیا، اس کیس نے پیپلز پارٹی کا دور بھی دیکھا اور نواز شریف کا دور بھی، سب کو دیکھا مگر کسی نے اس کیس کو نہیں دیکھا۔ عوام کو گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے حکمران، ہماری عدالتیں اور پولیس، سب مظہر حسین کے مجرم ہیں۔ کیا کوئی ان کو سزا دے گا؟ کیا کوئی اس نظام کو بدلنے کی سعی کرے گا؟ کیا کوئی اس تفتیشی پولیس افسر، علاقہ مجسٹریٹ اور عدالت کے جج سے سوال پوچھے گا؟ کیا ان میں سے کسی کا احتساب ہوگا؟ ان سوالوں کا جواب”نہیں“ ہے۔ کچھ بھی نہیں ہوگا، چند دن کی بات ہے، میں آپ اور ہماری عدالتیں مظہر حسین کو بھول جائیں گی. ہمیں مظہر حسین کو بھول ہی جانا چاہیے، اس نے ہمیں کیا دیا ہے کہ اسے یاد رکھا جائے۔

  • کربلا، لال مسجد، جہادی تنظیمیں، عدالت اور سوشل میڈیا – سبوخ سید

    کربلا، لال مسجد، جہادی تنظیمیں، عدالت اور سوشل میڈیا – سبوخ سید

    سبوخ سید بیانیہ کیا ہوتا ہے؟
    آج کل فیس بک پر ہمارے کئی دوست واقعہ کربلا پر بحث و مباحثے میں مصروف ہیں. دونوں کا اپنا اپنا بیانیہ ہے. بیانیے کی تعریف یہ ہے کہ پہلے بیانیہ تشکیل دو اور پھر اس کے مطابق قرآن و حدیث، تاریخ اور آثار بیان کرو. بیانیہ ہمیشہ حالات اور وسیع تر مفاد کے مطابق ہی ترتیب دیا جاتا ہے.

    فیصلہ کہاں ہوتا ہے؟
    سوشل میڈیا پر بھی ہمارے کئی دوست احباب وکیل بنے دلائل دے رہے ہیں اور جج بنے فیصلے صادر کر رہے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ یزید کے حامی و مخالف کربلا کا کیس کسی عدالت میں اوپن کرائیں تاکہ فیصلہ ہو جائے۔ میڈیا کو اجازت دی جائے کہ وہ عدالتی کارروائی کے دوران پیش کیا گیا فریقین کا مؤقف براہ راست نشر کرے ۔

    دلائل تو دونوں کے پاس ہیں.
    یہ حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے صاحبان علم و فضل کے پاس دلائل کے انبار بھی ہیں اور کتب کے دیار بھی۔ عقیدتوں کی عبا بھی ہے اور عدل کی ردا بھی۔ اور سچی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے لوگوں میں حسن نیت بھی ہے کیونکہ ہر شخص (استثنا کے ساتھ) اپنی حیات عاقبت سنوارنے کے لیے گزارتا ہے، بگاڑنے کے لیے نہیں۔ اس مسئلے میں کسی کی ذاتی انا و عناد نہیں، جو جس کو حق اور سچ سمجھتا ہے، اسے بیان کر رہا ہے۔ نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے اور ہم کسی کی نیت پہ فیصلہ صادر نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہ سارا معرکہ اپنے اپنے بیانیوں کے تحت لڑنے کے بجائے ضروری ہے کہ اسے کسی جاندار اور مؤثر فورم پر زمانے کے اصول و قواعد کے مطابق لڑا جائے تاکہ نتیجہ خیز اور فیصلہ کن ہو۔ ایک فیصلہ تاریخ میں ہو چکا ہے، دوسرا فیصلہ آپ عدالت میں کر لیجیے۔

    میرا ماضی
    میں ایک دور میں خود ان معاملات میں بہت زیادہ الجھا ہوا تھا۔ خود تین برس تک مکتب تشیع کی طرف جھکا رہا۔ مجالس میں شرکت اس دور کا معمول تھا جو ابھی تک جاری ہے، اس دوران مطالعہ اور سوچنے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ ان موضوعات پر فریقین کی کئی کتب پڑھیں اور غالبا دو برس پہلے فیس بک پر ان سب کے نام لکھے بھی تھے۔ مجھے اس ساری بحث، جنگ وجدل کے بعد جو چیز حاصل ہوئی، وہ پوری دیانت داری کے ساتھ آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتا ہوں ۔

    تاریخ کیا ہے؟
    تاریخ پہلے وقت کے حالات واقعات اور حادثات کا علم ہے اور اسے بیان کرنے والے اس کے سارے پہلو نہیں بیان کر سکے۔ اگر وہ پوری دیانت داری کے ساتھ یہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوتے تو تب یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ہر واقعے کی پوری تفصیلات سامنے رکھ سکتے۔ جب وہ کسی واقعے کے تمام پہلو سامنے نہیں رکھ سکے تو لازمی سی بات ہے کہ نتیجہ اخذ کرنے کا سارا عمل ہی مشکوک ہو گیا۔ یہ تاریخ جزئی ہوتی ہے، مجموعی اور کلی نہیں ہوتی۔ تاریخ میں صرف ان واقعات کا علم ہوتا ہے جو ماضی میں ہو چکے ہوتے ہیں۔ تاریخ میں واقعات صرف نقل ہوئے ہوتے ہیں، عقلی اور منطقی نہیں ہوتے۔

    نتیجہ کیسے حاصل کریں؟
    میں اس چیز کو یوں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ قیام پاکستان، سقوط ڈھاکہ، ذوالفقار علی بھٹو کا قتل، بےنظیر بھٹو کا قتل، لال مسجد آپریشن، 2013 کا الیکشن، اکبر بگٹی کا قتل، بلوچستان کا مسئلہ، طالبان، ملا عمر کی موت سمیت کئی ایسے واقعات ہیں جن میں سے اکثر سے آپ باخبر ہیں اور اکثر آپ کے سامنے ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج تک ان واقعات کی مکمل تصویر آپ کے سامنے نہیں۔ آپ کے سامنے جتنا ہے، آپ اسی کے مطابق ہی تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہیں۔ اب آپ پانچ منٹ کے لیے رک جائیں اور ذرا سوچیں کہ بےنظیر بھٹو کے قتل سے متعلق آپ نے کیا کیا کہا تھا اور کیا کیا سنا تھا؟ آپ کے ذہن میں بے شمار الفاظ اور بےشمار چہرے آئیں گے لیکن آج تک آپ کنفیوژ ہیں۔

    تحقیق کے باوجود جواب نہیں، کیوں؟
    آپ کے پاس وقت ہے تو ذرا سوچیں کہ کیا بے نظیر بھٹو کے قتل کے حواالے سے سکاٹ لیڈ یارڈ نے کام نہیں کیا، کیا اقوام متحدہ کی ٹیم پاکستان نہیں آئی تھی، کیا پاکستانی ایجنسیوں نے تحقیق نہیں کی تھی اور کیا سب کے جوابات مختلف نہیں تھے اور مجھے بتائیں کیا آپ کو آپ کے سارے سوالوں کے جوابات مل گئے؟ نہیں ملے تو تاریخ اتنی واضح سچائی نہیں ہوتی کہ جس کی بنیاد پر عقیدت اور عقیدے گھڑے جائیں۔ ایک واقعے کے طور سے اسے قبول کیجیے اور اگر آپ سمجھتے ہیں تو اس سے اس دور میں کوئی فائدہ لیا جا سکتا ہے تو ضرور اس پر کام کیجیے۔

    عدالت میں جانا کیوں ضروری ہے ؟
    میرے خیال میں یہ بحث عدالت میں اس لیے بھی جانی چاہیے کہ لال مسجد، طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، القاعدہ، داعش اور اکثر مذہبی جماعتیں اپنی تحریکوں کی بنیاد سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک غاصب اور غیر عادل حکمران کے خلاف خروج کیا تھا۔ میں نے طالبان اور لال مسجد والوں کا یہی بیانیہ سنا۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز صاحب اور مقتول نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی صاحب سے اس بارے میں 2007ء میں ایک مفصل نشست بھی ہوئی تھی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی لال مسجد کو کربلا سے تشبیہ دی جاتی تھی اور مکتب تشیع کے علماء نے اس کے خلاف اپنا رد عمل بھی دیا تھا کہ لال مسجد والوں کی کربلا والوں سے کیا نسبت؟

    لال مسجد والوں کا بیانیہ
    ایک روز میں، حامد میر صاحب، طارق عظیم صاحب (اس وقت وزیر ممکت تھے، آج کل مسلم لیگ ن میں ہیں) اور مرحوم ڈاکٹر خالد علوی صاحب لال مسجد میں کیپیٹل ٹاک پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے گئے۔ علامہ عبدالرشید غازی صاحب نے یہی مؤقف اختیار کیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی غیر آئینی اور غیر اخلاقی حکومت کے خلاف خروج کیا۔ مشرف کی حکومت بھی غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی مؤقف ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تو غیر آئینی حکومت کے خلاف خروج کیا تھا اور سیاسی جماعتیں پارلیمان میں بیٹھی اسے مضبوط کر رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کون سا کام ہے جو یزید سے منسوب ہے اور مشرف نہیں کر رہا؟

    عدالت جانے سے کیا فائدہ ہو گا؟
    عدالت میں لے جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے کم از کم ”خروج“ کی وضاحت ہوگی۔ جدید ریاستی نظم سمجھ میں آئے گا اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کا بیانیہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی تقریبا تمام مذہبی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی و جمیعت علمائے اسلام، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز کہہ چکی ہیں۔

    خروج کا اقرار و انکار
    اب یہ الگ بحث ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ کربلا کے واقعے کو خروج مانتا ہے، کچھ نہیں مانتے۔ ماننے والے کہتے ہیں کہ سیدنا حسین علیہ السلام کربلا میں اپنے نانا کا دین بچانے گئے تھے، یہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ اتمام حجت کے لیے جہاد کی سب سے بڑی شکل تھی جس میں امام عالی مقام اپنے چھ سالہ بچے کو بھی لے کر گئے تھے۔ دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ خروج کے لیے کوئی بھی اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لےکر نہیں جاتا۔ بہرحال یہ مختلف مؤقف جو تاریخ میں درج ہیں، ان سے آپ آگاہ ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو فیس بک پر اس وقت کئی سنجیدہ احباب اس مسئلے پر علمی، عقلی، جذباتی اور عقیدت میں گندھی ہوئی بحث کر رہے ہیں، وہ آپ پڑھ لیں۔

    یزید سے متعلق دارلعلوم دیوبند کی رائے
    قابل احترام حضرت مفتی صاحب،
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    کیا یزید کو امیرالمومنین اور رضی اللہ عنہ لکھا جا سکتا ہے، ہم نے بعض علماء کو (یزید پلید) کہتے سنا ہے، دوران تقریر اگر تذکرہ آیاتو ”رضی اللہ عنہ“ بھی کہنے سےگریز کرتے ہیں. براہ کرم مع حوالے کے تفصیلی جواب مرحمت فرمایئں.
    2۔ کیایزیدکی امارت کو تسلیم کی گئی ہے؟ اس کی امارت سے متعلق کیا رائے ہے؟
    3۔ جن اصحاب رسول نے یزید سےمتعلق اچھے کلمات کہے ہیں یا بیعت کی ہے، اس پر کیا کس حکم کا اطلاق ہوتاہے؟
    قاری کرامت اللہ اسعدی۔

    الجواب و باللہ التوفیق
    یزید کو نہ کافر کہنا جائز ہے نہ ملعون کہنا۔ علیہ السلام یا رضی اللہ عنہ یا امیر المؤمنین کہنا بھی باتفاق علماء امت جائز نہیں ہے بلکہ ان کلمات کی توہین ہے۔ زیادہ سے زیادہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کو مرحوم کہاجاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کا وہ مستحق نہیں۔
    ہر شخص کو اپنے ایمان وعمل کی فکر کرنی چاہیے۔ یزید کے فسق و صلاح کی بحثوں میں پڑنا کوئی شرعا ضروری چیز نہیں ہے۔ تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یزید کے بارے میں توقف فرمایا ہے۔ ہمیں بھی توقف کرنا چاہیے۔ درمختار میں ہے [pullquote]ویستحب الترضی للصحابہ الخ۔۔۔کتاب الخنثی۔مسائل شتی 754/6۔[/pullquote]

    شامی میں ہے
    [pullquote]حقیقۃ اللعن المشھورہ ھی الطرد عن الرحمہ وھی لاتکون الا لکافر۔ الخ۔416/3۔سعید کفایت المفتی91/3 ۔ و جلد اول صفحہ 351۔ وصفحہ140۔ فتاوی عثمانی 307/1۔محمودیہ 164/19۔۔[/pullquote]

    یزید نے خلافت کا دعوی نہیں کیا تھا بلکہ امیر معاویہ نے اس کو انتہائی مدبر تصور کرتے ہوئے اپنی زندگی ہی میں اس کو خلافت کا ولی عہد بنادیا تھا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اس کو اس کا اہل نہیں سمجھتے تھے، اس کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے انہوں نے اس کے خلاف خروج کیا۔ اس وقت تک یزید کی خلافت مستقر نہیں ہوئی تھی۔ استقرار خلافت کے چار طرق ازالۃ الخفاء میں بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ سے اس کی خلافت اس وقت تک ثابت نہیں ہوئی تھی اس لیے امام عالی مقام سمیت جمہور صحابہ اس کے خلاف تھے، بعد میں اس کی طاقت مستحکم ہوگئی اور خلافت بھی مستقر ہو گئی۔
    جن صحابہ سے اس کی تائید ثابت ہے، وہ ما بعد استقرار خلافت پر محمول ہے۔ ابن حجر نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ اولا صحابہ سے انکار ثابت ہے ۔ابن حجر لکھتے ہیں؟
    [pullquote] عن نافع ان معاویہ اراد ابن عمر ان یبایع لیزید فابی وقال لا ابایع لامیرین ۔فتح الباری کتاب الفتن ۔باب اذا قال عند قوم شیئا۔ الخ جلد 13۔صفحہ 87۔قدیمی ۔لسان المیزان میں ہے وامتنع من بیعتہ الحسین بن علی وعبد اللہ بن عمر وعبد اللہ بن الزبیر ۔واما ابن عمر فقال اذا اجتمع الناس بایعت۔الخ۔ لسان المیزان 293/6۔[/pullquote]

    اس کی امارت بعد میں مستحکم ہوگئی تھی۔تب صحابہ اس پر متفق ہوگئے تھے۔ شروع میں کوئی متفق نہیں تھے سوائےمغیرہ بن شعبہ اور بعض معدودے۔ اخیر زمانے میں ان کی امارت کو بھی لوگوں نے تسلیم کرلیا تھا۔
    واللہ اعلم بالصواب
    شکیل منصور القاسمی

    میری تحریک کی وجہ
    گذشتہ روز برادرم آصف محمود صاحب نے اپنی وال محترم عمار خان ناصر صاحب کے مضمون کے جواب میں مضمون لکھا۔ میری ان سے بات ہوئی تو گفتگو کے دوران انہوں نے فرمایا کہ ”آج کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اٹھے اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہے کہ انہوں نے ٹھیک کیا یا غلط کیا، میں نے ان سے گذارش کی کہ یہ بات اگر عقیدت کے حوالے سے کی جا رہی ہے تو بالکل درست ہے، نہ ہم سیدنا حسین کا کردار زیر بحث لا سکتے ہیں اور نہ ہی سیدنا امیر معاویہ کا کردار زیر بحث لایا جا سکتا ہے تاہم اگر آپ تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو تحقیق سچائی کی تلاش ہے جو ہمت، بہادری اور حوصلے کے بغیر ممکن نہیں، اور اس کے نتائج پر اصرار بھی ضروری نہیں، مسلمانوں کی علمی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہمارے اکابرین نے پوری محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے نتائج مرتب کیے لیکن آخر میں یہ بات ضرور لکھی یہ میری طرف سے ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے.“
    میرے ذاتی رائے یہ ہے کہ جب سانپ گزر جائے تو لیکر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسی طرح تماشائیوں کے شور سے پہلوان کشتی نہیں جیت سکتا۔

    اس بحث کافائدہ؟
    محترم عمار خان ناصر صاحب، ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب، محترم ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب، محترم مفتی محمد زاہد صاحب، محترم زاہد مغل صاحب، محترم سید متین شاہ صاحب، محترم عامر خاکوانی صاحب ، محترم آصف محمود صاحب اور کچھ دیگر احباب اس موضوع پر گفتگو فرما رہے ہیں۔ مجھے علم نہیں اس بحث کا علمی یا عملی کیا فائدہ ہے۔ شاید مجھے سمجھ نہ آ رہا ہو لیکن ممکن ہے کہ یہ سب اہل علم ہیں، وہ شاید سمجھتے ہوں کہ اس کا کیا فائدہ ہے۔ اگر اس ساری بحث کا اس زمانے میں کوئی فائدہ ہے تو اسے ضرور جاری رکھنا چاہیے، اور اگر نہیں تو قرآن اٹھارھویں پارے کی پہلی آیات میں مؤمنین کی کامیابی کی کنجی بتاتا ہے کہ کامیاب مؤمن وہ ہیں جو غیر ضروری باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔

    آخری بات
    بات شروع ہوئی تھی اس واقعے کو لیکر عدالت میں جانے کے لیے، دوسری گذارش یہ ہے کہ اگر آپ عدالت نہیں جا سکتے تو پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ اللہ رب العالمین ہے، مالک یوم الدین ہے تو اس معاملے کو اللہ پہ چھوڑ دیں، کیونکہ قرآن کریم نے پہلی پارے کی آخری آیت میں مسلمانوں کو اس بارے میں واضح طور بتا دیا ہے کہ
    [pullquote] تِلکَ اُمَّۃٌ قَد خَلَت ۚ لَہَا مَا کَسَبَت وَ لَکُم مَّا کَسَبتُم ۚ وَ لَا تُسئَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعمَلُونَ [/pullquote]

    یہ امت ہے جو گذر چکی، جو انہوں نے کیا وہ ان کے لیے ہے، جو تم نے کیا وہ تمھارے لیے، تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔

    نوٹ
    یہ تحریر مکتب تشیع سے وابستہ افراد کے لے نہیں لکھی کیونکہ ان کا بیانیہ اہل سنت سے بہت ہی مختلف ہے۔ اس وقت اہل سنت کے ہاں اس مسئلے پر سوشل میڈیا میں بہت زیادہ بات ہورہی ہے۔ یہ مضمون بھی اس تناظر میں لکھا گیا ہے۔

    محرم اور ہماری ثقافت
    باقی محرم الحرام سمیت تمام ذوات مقدسہ کی حیات مقدسہ پر محافل کا اہتمام کرنا، مجالس منعقد کرنا، شہدا کا سوگ منانا، غم اور دکھ کا ظہار کرنا، اہل بیت کا ذکر کرنا، خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ، امہات المومنین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ذوات مقدسہ کی حیات مقدسہ پر محافل کا اہتمام کرنا سب ہماری ثقافت اور روایت کا حصہ ہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ خوشی ہے۔ میں 1998ء سے باقاعدگی کے ساتھ مجالس محرم سنتا ہوں، بچپن میں ٹی وی پر علامہ عقیل ترابی صاحب اور علامہ طالب جوہری صاحب کو شوق سے سنتا تھا۔
    شہید بے نظیر بھٹو کی طرح مجھے بھی بعض ذاکروں کا انداز بیان بہت اچھا لگتا ہے۔ بس اس میں مکاتب اہل سنت کی دل آزاری سے گریز کرانے کی ذمہ داری مجلس کی انتظامیہ کی ہے۔ ایسے ذاکرین پر امام بارگاہوں کے دروازے بند کر دینے چاہییں۔ آپ علامہ نصیر الاجتہادی کی مجالس سنیں، کیا خوبصورت پڑھتے تھے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ دوسرا میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عزاداری کے جلوس، خلفائے راشدین کے ایام پر جلوس ضرور ہونے چاہییں لیکن اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ طریقہ قرآنی تعلیمات، سنت رسول، صحابہ کرام، اہل بیت اور امہات المومنین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ باقی حلیم، پلاؤ، زردہ، خیرات، صدقات سب کرتے رہنا چاہیے اور یہ ہمارے بزرگوں کی روایت ہے۔ اکابر اہل سنت کے ہاں بھی بزرگان کے لیے محافل اور مجالس جاری رہتی تھیں۔
    ہمارے بچپن میں میری والدہ محترمہ اور دادی محترمہ محرم الحرام میں شہدائے کربلا کے نام پر والد صاحب سے چھپا کر پلاؤ اور زردہ ہم سے تقسیم کرواتیں، اس تاکید کے ساتھ کہ تمھارے ابو کو پتہ نہ چلے۔ محرم الحرام اور رمضان میں لوگوں کے گھروں میں کھانے پینے کا سامان آتا جاتا رہتا تھا اور اس سے جو روحانی خوشی محسوس ہوتی تھی، وہ دل ہی جانتا ہے۔ اللہ ہماری دادی محترمہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، بہت یاد آتی ہیں۔

    ایک درخواست
    آج نویں محرم ہے، ایک دو برس سے کافی بحث مباحثے ہوئے اور کئی بار احباب کے ساتھ فیس بک پر تلخ کلامی بھی ہوگئی۔ گفتگو ہمیشہ دلیل اور محبت کے ساتھ ہونی چاہیے، ان دونوں میں کوئی ایک چیز بھی کم کریں گے تو پھر اصل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ کچھ لوگوں نے مجھ پر الزام لگائے، گالم گلوچ کی، انہیں سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا اور سیدناحسنین کریمین کی نسبت سے معاف کیا اور جن سے میری تلخ کلامی یا بےادبی ہوئی، میں ان سب سے بھی معذرت خواہ ہوں اور معافی کا خواستگار ہوں۔

  • مولانا الیاس گھمن کا قضیہ، چند ضروری باتیں – فرہاد علی

    مولانا الیاس گھمن کا قضیہ، چند ضروری باتیں – فرہاد علی

    فرہاد علیمولانا الیاس گھمن صاحب کا قضیہ پورے زور و شور کے ساتھ زیر بحث ہے۔ سوشل میڈیا کی روایات کے عین مطابق تقریبا ہر فرد اس کو اپنے نظریات اور فکری وابستگی کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ اس قضیہ میں چند باتیں قابل غور ہیں۔

    پہلی بات: اس سارے قضیے کی ابتداء ایک خط سے ہوئی۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ خط لکھنے والا ریحان نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک فرضی نام ہے. اصل شخص کو اگرچہ مولانا عزیز الرحمن صاحب کے صاحبزادے مفتی اویس صاحب نے بے نقاب نہیں کیا مگر اتنا ضرور بتا دیا کہ کوئی دوسرا جراتمند پردے کے پیچھے جرات کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ نیز مفتی اویس صاحب نے اس سارے قصہ کو من گھڑت کہا ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر اس سارے قضیہ کی ابتدا کرنے والے معروف صحافی فیض اللہ خان صاحب نے بھی وضاحت کی ہے کہ میں نے محض الزامات کو شائع کرکے غلطی کی ہے اور اس غلطی کی گھمن صاحب سے باضابطہ معافی بھی مانگی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اس طرح کی باتیں اگرچہ زیر گردش ہیں مگر ان کی حیثیت محض الزامات کی ہے جن کو خدا جانے کن محرکات کی بنا پر مرچ مصالحہ لگا کر شائع کیا گیا۔

    دوسری بات: اس پورے قضیہ میں وفاق المدارس کا کردار بھی زیر بحث آیا اور آنا بھی چاہیے مگر میری دانست میں وفاق المدارس اور علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری اس حد تک پوری کی ہے کہ انہوں نے گھمن صاحب سے باضابطہ لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ وفاق کا اظہار لاتعلقی کا اعلان ناکافی ہے۔ اگر وفاق کا اتنا اقدام ناکافی ہے تو وفاق کو کیا کرنا چاہیے؟ وفاق المدارس نہ تو گھمن صاحب کا فریق مخالف ہے کہ عدالت تک جائے اور نہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ کہ گھمن صاحب کو ہتھکڑیاں پہنائے۔ وفاق المدارس اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے لیے مناسب بھی نہیں کیونکہ کل کو کوئی بھی اپنے ذاتی مسائل کے لیے وفاق کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور یوں ایک مشترکہ پلیٹ فارم ذاتی مسائل کی بھینٹ چڑھ جائے گا ۔ البتہ چونکہ مسئلہ پورے دینی حلقہ کا ہے اس لیے علمائے کرام کو اس کا پائیدار حل نکالنا چاہیے مگر یہ بھی ان کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی، قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں۔ اس صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مجموعی طور پر دینی طبقہ نے مسلکی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر اس کہانی کو آشکارا بھی کیا ہے اور انصاف کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ فطری طور پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ باتیں کافی عرصہ سے دینی طبقہ میں گردش کر رہی تھیں تو اس کو اتنے عرصہ تک کیوں پوشیدہ رکھا گیا؟ اس سوال کا جواب پانچویں اور آخری بات کے ضمن میں آئے گا۔

    تیسری بات: اگر یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں ہے تو پھر کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے معاملات کی جانچ پڑتال کرے مگر یہ بھی اس صورت میں ممکن ہے جب متاثرہ فریق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور پولیس میں شکایت کرے۔ اس کے بغیر ریاستی ادارے بھی معاملات کے سلجھاؤ میں ناکام رہیں گے کیونکہ ان کو متاثرہ فریق کا تعاون حاصل نہیں ہوگا جس کے بغیر کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوگی۔ اگر متاثرہ فریق کے عدالت جانے کے بعد بھی دینی طبقہ اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تو پھر اس پر مسلکی تعصب کا الزام درست ہوگا، اس سے پہلے ایسے الزامات قرین انصاف نہیں حالانکہ دینی طبقہ کا ردعمل نہایت مثبت دیکھا گیا ہے۔

    چوتھی بات: جن لوگوں کو مذہب اور مذہبی طبقہ سے خدا واسطہ کا بیر ہے انہوں نے اس پر طرح طرح کی گل کاری کی، دل کے پھپھولے پھوڑے ۔ ان لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب مطالبے سامنے آ رہے ہیں جو ان کی فکری تضاد کے شاہکار ہیں۔ یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ایکشن کیوں نہیں لیتا بلکہ طنزیہ طور پر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حدود کے نفاذ کی باتیں کرنے والے حد کیوں نہیں لگاتے۔ عجیب بات ہے کل تک جو لوگ منبر و محراب تک کے اختیارات ریاست کے سپرد کرنے کی باتیں کر رہے تھے، آج وہ ریاست کے اختیارات اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کل تک جن کو حدود و تعزیرات کے مسئلہ پر بدہضمی ہوتی تھی، آج ان کو حدود و تعزیرات یاد آگئے۔ ہم تو بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ حد چاہے گھمن صاحب پر لگے یا کسی دوسرے شخص پر، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو عدالت میں ثابت کیا جائے۔ لبرلز سے گذارش ہے کہ وہ پہلے پاکستان میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ تو کریں تاکہ ان کے ارمان پورے ہوں مگر نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔

    پانچویں اور آخری بات: جن لوگوں نے اس معاملہ کو خاص لوگوں کی بیچ سے اٹھا کر عوامی سطح پر اچھالا ہے، انہوں نے نہایت خیانت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ان سےصرف مسئلہ پوچھا گیا تھا اور سائل کے معاملات کو پوشیدہ رکھنا ان کی شرعی ذمہ داری تھی مگر انہوں نے بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی طبقہ اگرچہ ان باتوں کے بارے میں جانتا تھا مگر انہوں نے پردہ پوشی کی۔ مسئلہ گھمن صاحب کا نہیں تھا بلکہ ایک خاتون اور اس کے نیک نام خاندان کا تھا خصوصا جب اس خاتون نے خود اس بات کی تشہیر پسند نہیں کی بلکہ علمائےکرام تک محدود رکھنا چاہا۔ محض الزامات کی اشاعت درست اقدام نہیں تھا۔ یہ محض الزامات تھے جن کو ابھی تک کسی فورم پر ثابت نہیں کیا گیا تھا۔

  • الزام، گواہی، صفائی، فیصلہ: سب کچھ عدالت کے بغیر – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    الزام، گواہی، صفائی، فیصلہ: سب کچھ عدالت کے بغیر – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق مسلسل کئی پوسٹس نظر سے گزری ہیں جن میں ایک صاحب پر انتہائی گھناؤنے الزامات لگائے گئے ہیں۔ بعض لوگوں نے ان باکس میں بھی اپنے تئیں ”ثبوت“ فراہم کیے ہیں۔ میں نہ ان صاحب کے بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں، نہ ہی ان ”ثبوتوں“ کا جائزہ لے سکتا ہوں۔ قانونی اور شرعی پوزیشن البتہ بتا سکتا ہوں کہ الزام جب تک عدالت میں ثابت نہ ہو، کسی کو مجرم نہیں گردانا جاسکتا۔ انگریزی قانون کے ماہرین کا مقولہ استعمال کریں تو:
    Accused is the blue-eyed child of law.
    فقہائے کرام فرماتے ہیں:
    [pullquote]الاصل براۃ الذمۃ ۔ [/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ الزام لگانے والا ثبوت پیش کرے گا [pullquote](البینۃ علی المدعی)۔[/pullquote]

    پھر جو الزامات لگائے گئے ہیں، ان میں بعض قذف کی تعریف پر پورا اترتے ہیں اور قذف کے متعلق اسلامی قانون نے نہایت سخت پوزیشن اختیار کی ہے کہ جب تک شرعی معیار پر پورا اترنے والے چار گواہ نہ ہوں جو عدالت میں آکر گواہی دے سکیں تب تک ایسی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر تین گواہوں نے گواہی دی اور چوتھے نے نہیں دی تو پہلے تین گواہوں کو بھی قذف کی سزا دی جائے گی۔

    مسئلہ یہ ہے کہ قذف کے متعلق ہمارا قانون بالکل ہی لولا لنگڑا ہے، چنانچہ اس میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر کسی نے”نیک نیتی“ سے یا ”مفادِ عامہ“ کے لیے ایسا الزام لگایا تو اسے قذف نہیں کہا جائے گا۔ اس سقم کا فائدہ اٹھا کر ہمارا میڈیا لوگوں کی عزت سے کھیلتا ہے اور کئی صحافی قذف کا الزام لگا کر بھی بچ جاتے ہیں کیونکہ جو ان پر قذف کا دعوی دائر کرے گا، اسے ثابت کرنا پڑے گا کہ انھوں نے یہ الزام بدنیتی سے لگایا اور ہمارے صحافی یہ کہہ کر بچ جاتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی وہ ڈیوٹی سرانجام دینے کی کوشش کی ہے جو بطور صحافی ہم پر عائد ہوتی ہے؛ کہ عوام کو باخبر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے.

    حقیقت یہ ہے کہ اس استثنا کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ شریعت کی رو سے قذف strict liability offence ہے۔ عام طور پر جرم کے دو ارکان بیان کیے جاتے ہیں: مجرمانہ فعل (actus reus) اور مجرمانہ ارادہ (mens rea)۔ بعض جرائم ایسے ہیں جن میں صرف فعل کا صدور ہی کافی ہوتا ہے اور guilty mind ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے جرائم کو strict liability offence کہا جاتا ہے اور قذف اس کی ایک مثال ہے۔ جب کسی نے زنا کا الزام لگایا تو یہ قذف ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے یہ الزام نیک نیتی سے لگایا یا بدنیتی سے، مفاد عامہ کی خاطر کیا یا کسی مخصوص طبقے کے مفاد کی خاطر۔

    یاد رکھیے! یہ کسی مخصوص مذہبی گروہ کا اندر کا معاملہ نہیں ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس کا حل نکالیں۔ یہ شریعت اور قانون کی سنگین خلاف ورزی کا مسئلہ ہے۔ اگر ان صاحب نے واقعی ایسا کیا ہے تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جانی ضروری ہے اور وہاں ان کے جرائم ثابت کرکے انھیں قانون کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔ تاہم جب تک عدالت میں ان کا جرم ثابت نہ کیا جائے انھیں شریعت اور قانون دونوں کی رو سے معصوم ہی فرض کیا جائے گا۔ انھیں بھی میرا یہ مشورہ ہے کہ جنھوں نے ان پر الزامات لگائے ہیں، ان کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

    اللہ تعالیٰ ہم سب کے عیوب کی پردہ پوشی کرے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے ہم سب کو بچائے۔ آمین