Tag: عامر خاکوانی

  • سیک سمینار 2016، جو دیکھا، جو سنا – محمد عامر خاکوانی

    سیک سمینار 2016، جو دیکھا، جو سنا – محمد عامر خاکوانی

    سیک سمینار کی روداد تفصیل سے لکھنے کا ارادہ تھا، مگر تاخیر ہوئی جا رہی ہے اور اب لگتا ہے کہ نہ لکھنے سے کچھ لکھ دینا بہتر ہے۔ آج دو دن کے لیے لاہور سے باہر جانے کا ارادہ ہے، پھر اگلے ہفتے کے شروع ہی سے کام کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وقت نکالنا مشکل ہوجائے گا۔ اس وقت طبعیت بھی ٹھیک نہیں، بخارکی کیفیت چل رہی ہے، اوپر سے لاہور میں جس خوفناک دھند نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اس سےسانس کا مسئلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس لیے اس روداد کو صرف اپنے تاثرات تک محدود رکھنا پڑ رہا ہے۔
    %d8%b9%d8%a7%d9%85%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%da%a9%d9%88%d8%a7%d9%86%db%8c
    سیک سمینار مجموعی طور پر بہت کامیاب رہا۔ اگر موازنہ کیا جائے تو لاہور کی نسبت مجھے اسلام آباد کا سمینار زیادہ بھرپور، مؤثر اور دلچسپ لگا۔ اس میں تقریباً سوفیصد شیڈول پر عملدرآمد ہوگیا اور بعض سیشنز کے وقت میں رد و بدل ہوا، مگر مجموعی طور پر بہت عمدہ رہا۔ ثاقب ملک مبارک باد کے مستحق ہیں، ان کی ٹیم نے بھی شاندار کام کیا۔ لاہور کے سمینار میں برادرم ظفر اقبال مغل کا حصہ بہت شاندار اور مرکزی رہا۔ ظفر بھائی نے فنانس کے ایک بڑے حصے کا بوجھ اٹھایا اور ہر کام میں ساتھ ساتھ رہے. میرا خیال ہے کہ ثاقب ملک ظفر بھائی کے بغیر شاید اتنا اچھا سمینار کرنے میں کامیاب نہ رہتا۔ ظفر بھائی ایک شاندار انسان ہیں، نہایت منکسر، حلیم ، محبت کرنے والے اورغیرمعمولی کشادہ دل۔ ایسا خوبصورت شخص کم ہی دیکھنے کو ملا۔ خرم مشتاق صاحب نے بھی اچھا تعاون کیا، شاہد اعوان اسلام آباد کی طرح اس بار بھی مددگار رہے. عماد بزدار نے بڑے دل و جاں سے کام کیا۔ عماد اپنی دلکش واسکٹ میں سب سے منفرد اور ممتاز لگے۔ ثاقب ملک کے حوصلے، کمٹمنٹ اور جذبے کی داد دینی چاہیے، جس نے اتنے مشکل ٹاسک کا انتخاب کیا اور پھر اسے کر دکھایا۔ ویل ڈن ثاقب ملک، ٹیم ثاقب ملک۔ عامر مغل کی فوٹوگرافی بہت ہی عمدہ تھی، عامر مغل خوبصورت نوجوان ہیں، ان کے کام میں وہ ٹچ آف کلاس اور خوبصورتی ہے جو بڑے بلکہ مہا قسم کے فنکاروں کا حصہ ہے۔ آفیشل فوٹوگرافر ناگی صاحب نے بھی عمدہ کام کیا۔ ثاقب ملک کی نظامت پہلے کی طرح اچھی تھی، ظفر مغل نے ہمایوں احسان صاحب کا تعارف دل سے کرایا اور ہمارے دل جیت لیے، شاہد اعوان نے بھی کچھ دیر کے لیے مہارت سے کمپیئرنگ کی۔

    فلیٹیز لاہور کے اچھے ہوٹلوں میں سے ہے، ان کا ہال خاصا خوبصورت ہے، مگر مجھے دو حوالوں سے خاصی مایوسی ہوئی۔ ایک تو ان کا ہال ساؤنڈ پروف نہیں تھا، کسی اچھے ہوٹل کے ہال میں پہلی بار ایسا دیکھا کہ ساتھ والے ہال کی آوازیں ادھر سنائی دینے لگیں۔ یہ فلیٹیز کی ناکامی تھی۔ اس کا بہت برا امپریشن پڑا۔ ساتھ والے ہال میں جو تقریب جاری تھی، اس کا شور یہاں آتا رہا اور بعض مقررین ڈسٹرب ہوئے۔ کھانا مناسب تھا، مگر میں مناسب سے زیادہ اچھے کھانے کی توقع کر رہا تھا۔ بریانی گزارے لائق تھی، اور قورمہ جسے بادامی قورمہ کہا گیا، میرے حساب سے وہ قورمہ ہی نہیں تھا، مرغ شوربہ اسے البتہ کہا جا سکتا تھا۔ سٹیم روسٹ بہتر تھا، مگر اس طرح کے فنکشن میں کھانا چلتے پھرتے اور باتیں کرتے ہی کھایا جاتا ہے، سٹیم روسٹ تو بیٹھ کر کھانے کی چیز ہے، اسے چھری کانٹے یا چمچ کے ساتھ نہیں کھایا جا سکتا۔ میرے خیال میں کباب، تکہ بوٹی وغیرہ ہونی چاہیے تھی، بیشتر سمینارز میں ایسا ہی دیکھا ہے کہ بریانی کے ساتھ قورمہ، کباب، تکہ بوٹی ہوتی ہے، بلکہ بعض میں تو چائنیز رائس اور ساتھ کوئی ایک آدھ چائنیز ڈش بھی ہوتی ہے۔ کھانے کا بل بہت زیادہ بنا اور جتنے پیسے فلیٹیز نے لیے، اتنا اچھا کھانا فراہم نہیں کیا۔ چائے بہت ہی تھکی ہوئی تھی، اور اگرچہ میں چائے کی میز پر نہیں جا سکا، مگر مجھے محسوس ہوا کہ چائے کے ساتھ سنیکس یعنی بسکٹ وغیرہ یا تھے نہیں یا کم تھے۔
    %d8%b9%d8%a7%d9%85%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%da%a9%d9%88%d8%a7%d9%86%db%8c-%d9%82
    سیک سمینار کے حوالے سے اہم ترین بات لوگوں کا مختلف علاقوں سے شامل ہونا ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی، جب معلوم ہوا کہ چترال سے دو ساتھی تشریف لائے، پشاور سے عامر ککےزئی آئے، آزاد کشمیر سے دوست آئے، دیر، بونیر وغیرہ کے صاحبان شامل ہوئے، سانگھڑ سندھ سے رندھاوا صاحب طویل سفر طے کر کے آئے، ادھر ملتان، تونسہ جبکہ اسلام آباد سے کئی لوگ آئے۔ یہ ایک مثبت روایت ہے۔ لاہور سے زیادہ لوگ شامل ہونے چاہیے تھے، ثاقب ملک کی وال پر لاہور، فیصل آباد وغیرہ کے کئی لوگوں نے معذرت کی، مگر مجھے ان کی بات عذرلنگ ہی لگی۔ اکثر کے پاس کوئی جواز نہیں تھا نہ آنے کا۔ اتنی بڑی ایکٹیوٹی تھی، مہینہ بھر سے زیادہ عرصے سے پبلسٹی ہوتی رہی اس کی، مگر لاہور بیٹھے یہ لوگ نہیں شامل ہوئے۔ اپنی ملازمت یا دوسری مصروفیت کی تو یہ حقیقت ہے کہ اگر خدانخواستہ اس روز انہیں بخار ہوا ہوتا تو انہوں نے گھر ہی بیٹھ جانا تھا، سب کاموں پر تین حرف بھیج کر۔ تو بات ترجیحات کی ہوتی ہے۔ ثاقب کو چاہیے کہ ایسے لوگوں پر جرمانے لگائے، خاص کر وہ خواتین جو بچگانہ سے ایکسکیوز کر رہی ہیں، ان کے عذر قبول نہیں کرنے چاہییں، جو تین چار خواتین شامل ہوئیں، انہوں نے ہمت کی، ان کی ستائش ہونی چاہیے، خاص کر دو بہنوں سعدیہ بٹ اور زرقا اطہر کی۔ ڈاکٹر رامش فاطمہ نے تو خیر ملتان سے سفر کیا، مگر ان کا ذکر مقررین میں ہوگا۔ عامر ککےزئی نے اپنے اخلاق، عجز اور انکسار سے ہر ایک کو متاثر کیا۔ اپنے کمنٹس سے وہ جارحانہ قسم کے آدمی لگے، مگر ان کی شخصیت یکسر مختلف تھی۔ انہتائی انکسار سے وہ ہر ایک سے ملتے رہے، مجھے تو وہ بہت خوبصورت دل والے کوئی درویش لگے۔ عامر ککےزئی اور سانگھڑ سے رندھاوا صاحب نے ثاقب ملک کو اجرک اور پشاوری گرم شال بھی ڈالی۔ خاکسار ہر دو چیزوں کو کنکھیوں سے دیکھتا رہا، اجرک پر ہماری خاص نظر تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ رندھاوا صاحب نے اپنے ایک روم میٹ پر بھی ایک عدد اجرک وار ڈالی۔ افسوس کہ پہلے علم نہ ہوا ورنہ ثاقب سے ساز باز کر کے ہم بھی اسی ہوٹل میں مکین ہوجاتے۔ خیر اللہ خوش رکھے ان دونوں کو، دور سے آئے اور اپنی محبت سے سب کو فتح کر ڈالا۔

    سمینار کی روداد میں نے پڑھی، مختلف لوگوں نے اپنے اپنے تاثرات بیان کیے۔ مجھے دلی خوشی ہے کہ پروفیسر ہمایوں احسان کی تقریر کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ خاکسار پچھلے کئی برسوں سے پروفیسر ہمایوں احسان اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا پبلسٹی ایجنٹ ہے۔ ہمایوں صاحب ہمارے مینٹور، مہربان استاد اور گرو ہیں، جبکہ ڈاکٹر عاصم صاحب سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ ان دونوں کی تقریر کو بہت پسند کیا گیا، تو ہر داد اور تعریف مجھے اپنی تعریف محسوس ہو رہی تھی۔ ہمایوں صاحب کا خطاب واقعی میری زندگی کی دو تین متاثر کن ترین تقریریوں میں سے ایک تھا۔ جن لوگوں کو اس کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا ، وہ یقیناً میری بات کی تصدیق کریں گے۔ ڈاکٹر عاصم کی تقریر خاصی دیر سے آئی، انہیں کچھ جلدی بات کرنی چاہیے تھی، مگر بہت عمدگی سے وہ بولے اور اپنا مخصوص دلکش نقش ذہن میں چھوڑ گئے۔

    رعایت اللہ فاروقی صاحب کا سیشن بہت عمدہ رہا۔ مجھے خطرہ تھا کہ فاروقی بھائی پر حملوں کی بوچھاڑ ہوگی، مگر انہوں نے کمال مہارت سے افغان ایشو کو نبھایا اور ہر ایک کو حیران کر دیا۔ ان کا سٹانس خاص طور سے بہت اہم، دلچسپ اور بولڈ رہا۔ کم ہی رائٹسٹ اتنی دلیری اور تیقن سےوہ بات کہتے ہیں جو فاروقی صاحب نے کہی۔ ان کے بلاگ آپشن سے کئی نوجوان ناخوش تھے، مگر فاروقی صاحب نے اپنے اخلاق سے سب کے دل جیتے۔ سیک سمینار تو مجھے لگتا ہے منعقد ہوا ہی پروفیسر ہمایوں احسان کا سکہ جمانے اور رعایت اللہ فاروقی صاحب کی جانب سے اپنے امیج کو یکسر بدل دینے کے لیے تھا۔ فاروقی صاحب محفل پر چھا گئے تھے۔ ان کی باتوں میں بہت کچھ دیکھنے کے لیے تھا۔

    فرنود عالم نے حسب معمول عمدہ تقریر کی۔ وہ اچھا اور نہایت رواں بولتے ہیں، ایسے ترتیب کے ساتھ خیالات کہ لگتا ہے جیسے لکھا ہوا پڑھ رہے ہوں۔ انہوں نے البتہ پچھلے سمینار والی کئی باتیں دہرائیں۔ ان جیسے تازہ خیال نوجوان کو ہر بار نئی باتیں کہنا چاہییں، دہرائی باتیں بار بار کہی جائیں، ان پر ہی بات ہو تو مزا نہیں رہتا۔ ید بیضا کے نہ آنے سے مایوسی ہوئی۔ انہیں آنا چاہیے تھا۔ وجاہت مسعود صاحب کے نہ آنے کا افسوس بھی ہوا اور دکھ بھی۔ ان کی جانب سے آخر وقت تک آنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ بعض لوگ وجاہت مسعود صاحب کو سیک سمینار میں آنے سے روک رہے ہیں، وہ ایسا کیوں کر رہے تھے، یہ میری سمجھ سے باہر تھا، تاہم مجھے امید تھی کہ وجاہت مسعود ایک بااصول آدمی ہیں، جب وہ وعدہ کر لیں اور ان کے حوالے سے بار بار فیس بک پر تشہیر بھی ہوچکی ہو تو وہ لازمی شامل ہوں گے۔ ان کے نہ آنے سے مایوسی ہوئی۔ ان کی جانب سے کوئی معذرت کا پیغام بھی دوران سیمینار تو کم از کم موصول نہیں ہوا تھا۔ وجاہت صاحب اگر آ جاتے تو سمینار کو رونق لگتی، مگر شاید ان کی بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی۔ جمالیات کے حوالے سے خالد صاحب کو بہت کم وقت ملا، مگر انہوں نے کئی عمدہ نکتے اٹھا کر داد وصول کی۔ ان سے کسی اور نشست میں تفصیل سے بات سننے کی ضرورت ہے۔

    عظیم الرحمن عثمانی کا آن لائن سیشن شاندار تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی متاثر کن گفتگو کم ہی سنی۔ عثمانی بھائی کی زبان میں تاثیر ہے، اللہ انہیں جزائے خیر دے، کمال بولے۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی ایک فیس بک پوسٹ ڈیلیٹ کر دی ان کی باتیں سننے کے بعد۔ انعام رانا کی گفتگو متاثر کن تھی۔ کمنٹس ان کے شگفتہ ہوتے ہیں، مگر انہوں نے نہایت معقولیت سے مدلل گفتگو کی، ایک دو سوالات کے جواب بھی عمدہ دیے۔ انعام رانا نے بھی بہت سوں کو متاثر کیا۔ میرے خیال میں تو عارف انیس ملک کا سیشن بھی شاندار تھا۔ وہ اعلیٰ درجے کے موٹی ویٹر ہیں، اچھا بولے اور ان کا ہپناٹزم کا سیشن بہت اچھا تھا۔ میں نے اسے اچھے طریقے سے کیا اور مجھے خاصا ریلیف محسوس ہوا۔ اتنے دور سے اس قدر بڑے مجمع کو ہپناٹائز کرنا آسان کام نہیں۔ عارف انیس ملک نے کمال کر دکھایا۔ احمد حماد کی شاعری کا سیشن اسلام آباد کی طرح بہت اچھا رہا۔ انہیں شعر کہنا بھی آتا ہے اور پڑھنا بھی۔ اس بار انہوں نے پنجابی بولیوں سے خوب رنگ جمایا۔ بہت اچھا بولے۔

    پینل ڈسکشن کے لیے وقت بہت کم ملا، مزا نہیں آ سکا۔ اس کے لیے کچھ زیادہ وقت چاہیے تھا۔ ڈاکٹر رامش نے تو صرف ایک فقرہ بولا، ملتان سے لاہور تک کا سفر ایک فقرے کے لیے۔ سیک سمینار کے لیے ان کا اتنا وقت دینا اچھا لگا۔ عامر ککےزئی نے اپنے مخصوص انداز میں بات کی۔ ہم نے بھی وہی کہا، جو کہتے رہتے ہیں، ڈاکٹر عاصم نےالبتہ عمدہ نکتہ اٹھایا، فرنود عالم کو بھی تفصیل سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اگلے سمینار میں اس سیشن کو زیادہ وقت دینا چاہیے ۔

  • سیرل المیڈا، عامر خاکوانی اور ناقدین – معظم معین

    سیرل المیڈا، عامر خاکوانی اور ناقدین – معظم معین

    معظم معین ا ڈان کے صحافی سیریل المیڈا کی خفیہ خبر کا آج کل ”طوطی“ بول رہا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کا ترجمہ و تشریح کر رہا ہے۔ ہم خدانخواستہ کوئی صحافی نہیں مگر آزادی رائے کے اس دور میں جب ہر کوئی چیخ چیخ کر بولے چلے جا رہا ہے اور سننے والا کوئی نہیں تو ہم نے کہا ہم بھی ہجوم میں چلانا شروع کر دیتے ہیں کون سا کوئی سن رہا ہے۔

    المیڈا نے ڈان میں خبر لگائی کہ کسی سرکاری میٹنگ میں حکومتی اور فوجی عہدیداران کے مابین کچھ کھٹ پٹ ہوئی ہے۔ حکومتی لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کو کہا کہ آپ کی وجہ سے ہم دنیا میں تنہا ہو رہے ہیں ورنہ تو اگلا اولمپکس پاکستان میں ہی ہو جانا تھا۔ اس پر صحافی برادری کے سینئر لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں تنقید کی۔ یہاں ہمارے مدنظر عامر ہاشم خاکوانی صاحب کا کالم ہے جس میں انہوں نے دو تین پہلوؤں سے اس بات پر توجہ دلائی کہ ایسی اہم خبر کو یوں شائع کرنا آزادی صحافت نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کی علامت ہے۔

    اس پر بعض ناقدین نے خاکوانی صاحب کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کرتے ہوئے ہم جیسے طالب علموں کو بڑے بڑے نام لے کر ڈرانے کی کوشش کی کہ یہ یہ لوگ اور وہ وہ عالمی ادارے آزادی صحافت کے علمبردار ہیں، چپ ہو جاؤ ورنہ وہ پکڑ لیں گے۔ امریکہ کا صدر، یو این او کا قانون، ایکٹ نمبر فلاں، جز نمبر فلاں کا شق نمبر فلاں، اور پھر فلاں، اور اس کے بعد پھر فلاں۔ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ صحافی کو اپنا سورس چھپانے کا حق حاصل ہے۔ وہ جو چاہے چھاپے، جس مرضی کے بارے میں چھاپے، اسے حق حاصل ہے کسی مولانا کی پگڑی اچھالے، چند دن سب مزا لیں، اس کے بعد کسی اداکارہ کو پکڑ لیں، پھر کسی حکومتی اہلکار کی باری آ جائے، پھر کسی اور کی پھر کسی اور کی، اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ ہاں کسی کو اعتراض ہے تو وہ صحافی سے خبر کا سورس معلوم کر سکتا ہے، اگر معاملہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہو یا بہت بڑا جرم ہو رہا ہو، کسی کی جان خطرے میں ہو، آسمان گرنے والا ہو، یا قیامت آنے والی ہو مگر اس کے لیے یو این او کا اجلاس بلانا ہوگا، سارے ملک مل کر بیٹھیں گے، پھر فیصلہ ہوگا کہ صحافی اپنا سورس بتائے یا نہیں۔ اتنی لمبی تفصیلات کے بعد اب بتاؤ بچو سورس معلوم کرنا چاہتے ہو۔۔۔؟

    سیدھی سی بات کو پٹوار خانے کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ بات آگے بڑھے گی۔ گو کہ خاکوانی صاحب نے وہیں کمنٹ میں بات صاف کر دی تھی مگر بحیثیت طالب علم ہمارے ذہن رسا میں بھی سوالات کلبلانے لگے تھے۔

    بات سیدھی سی تھی کہ کیا موجودہ حالات میں ایسی خبر لگانا بنتی تھی۔ جس وقت کشمیر کی جدوجہد تاریخ کے ایک اہم دور سے گزر رہی ہے، بھارت کے حکمران پاکستانی قوم کو دھمکیاں لگا رہے ہیں، اور نہ صرف دھمکیاں اور باتیں، بلکہ عملی طور پر سرحدی جھڑپوں میں پاک فوج کے دو قیمتی جوانوں کی جانیں بھی لے چکے ہیں، سرجیکل سٹرائیک کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں قوم کو جس یکجہتی اور اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تمام قوم کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ایسی خبریں پھیلانا جس سے یہ صورت سامنے آئے کہ یہ قوم متحد نہیں کس کا مقدمہ مضبوط کرتی ہے؟ خبر صحیح بھی ہو مگر قوم کی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صحافتی آزادی کی آڑ میں چھاپ دینا کیا یہ حب الوطنی ہے؟ کیا کوئی محب وطن سوچ سکتا ہے کہ ایسی خبر ایسے حالات میں موزوں ہے؟ کیا یہ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا سبب نہیں بن سکتی؟ کیا یہ اپنی قوم کے بجائے دشمن کا مورال بلند کرنے کا سبب نہیں بنے گی؟

    ہم سیکولرز کو ملک دشمن نہیں سمجھتے مگر یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ ہر نازک لمحے میں ان کی سی کیوں نکل جاتی ہے۔ قوم سے ان کا مؤقف جدا کیوں ہوتا ہے؟ یہ بھی کوئی حسن اتفاق ہے کہ ان کا وزن دوسرے پلڑے میں جا پڑتا ہے اور قوم دیکھتی رہ جاتی ہے کہ یہ بھی تو ہم میں سے تھے، انھوں نے بھی سائیڈ بدل لی اور مخالف سمت میں جا کھڑے ہوئے، جب جب قوم متحد ہو رہی ہو تب ہی ایسے شوشے کیوں چھوڑے جاتے ہیں۔ قیام کے وقت کیوں سجدے کرنے لگتے ہیں؟ کیا کوئی سمجھا سکتا ہے؟؟؟

  • سیرل المیڈا اور عامر خاکوانی – ظفر عمران

    سیرل المیڈا اور عامر خاکوانی – ظفر عمران

    ظفر عمران عامر خاکوانی میرے دوست ہیں، احترام کے مرتبے پہ فائز ہیں، لیکن جس تن دہی سے انھوں نے یہ کالم لکھا، کہ ”سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار، اور حکومت کی چالاکیاں“ اسے پڑھ کر سر دھننے کو جی چاہا۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ خاکوانی صاحب سے پوچھا جائے، آزادی صحافت کو وہ کیا سمجھے ہیں؟ وہ اپنے کالم کی ابتدا یوں کرتے ہیں ”صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں‌ ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں‌ کرنا چاہیے۔“

    سب سے پہلے تو یہ سمجھانا چاہا، کہ پہلے منہاج برنا، حسین نقی کے مرتبے پہ فائز ہو جاؤ، پھر جو کہو گے، وہ آزادی صحافت کا معاملہ ہوگا۔ اس جملے پہ غور کیجیے، ‘ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا“۔ آگے یہ لکھا، کہ ”اس معاملے کے اصل کردار حکومت کی چالاکیوں، اور حکومتی مشیروں کی اوور سمارٹنس کا ہے“۔ جناب خاکوانی یہیں اپنا مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگلنے سے مراد ہے، کہ اسٹیبلشمنٹ کا قد کاٹھ چھوٹا کرنے کی کوشش منہگی پڑ گئی؟ اور ساتھ ہی بہت سادگی سے ثبوت کی بنیاد پہ ”حکومت کو چالاک، اور حکومتی مشیروں کو اوور سمارٹ قرار دے دیا“۔ یہ ہے وہ ذمہ دارانہ صحافت جس کا جناب خاکوانی بھرپور دفاع کرنے آئے ہیں۔ یہ ہماری صحافت کا المیہ ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں‌ کو بنا ثبوت جو مرضی کہہ دیں، مثلا بعض صحافی یہ کہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے وزیراعظم کو ڈانٹ دیا، تو یہ آزادی صحافت کی عمدہ مثال ہے، لیکن یہ لکھنا، کہ شہباز شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو کہا کہ ہم جسے پکڑتے ہیں اسے چھڑوا لیا جاتا ہے، ایسا لکھنا گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے۔ مجھے تسلیم کہ یہ گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے، لیکن حضور آزادی ٹھنڈے یخ لقمے نگلنے، یا گرم لقمے اگلنے سے سوا ہے۔

    آگے چل کر انھوں نے بتایا کہ صحافیوں کو کیسے کیسے خبریں موصول ہوتی ہیں، اور میرے الفاظ میں یوں کہ دیکھنا یہ ہوتا ہے، کون سا گرم لقمہ ہے، اور کون سا ٹھنڈا ٹھار۔ پھر یہ لکھا کہ ذرائع اس کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیں، تو وہ ”خبر“ نہیں رہتی۔ وغیرہ۔ سیرل المیڈا کی اسٹوری کے حوالے سے ڈان اور سیرل المیڈا دونوں ہی کا مؤقف یہ ہے، کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں، یعنی انھوں نے تردید سے انکار کر دیا ہے۔ ایک عام سا صحافی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جب کوئی ادارہ اپنی خبر واپس لینے سے انکار کرتا ہے، تو یہی بات اس کی کریڈیبلٹی بناتی ہے کہ اس کی خبریں باؤنس نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ”غلط خبر“ چھاپنے پر کوئی قانونی چاری جوئی کی جائے، تو ادارہ اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ یہ دفاع ثبوت کی بنا پر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں، کہ کسی کو ”چالاک یا اوور اسمارٹ“ کہہ کر نکل جائیں۔ کیا خاکوانی صاحب یہی زبان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال کرنے کی جرات رکھتے ہیں؟۔ ان کی طرف سے میں جواب دیتا ہوں، ”جی نہیں“ کیوں کہ یہ گرم لقمہ نگلنے والی بات ہے۔ جناب آپ گرم لقمہ نہیں نگل سکتے مت نگلیے، یہ گرم لقمہ سیرل المیڈا نے نگلا، تو اس کی حمایت نہ کیجیے، مخالفت کی وجہ تو ڈھنگ سے بیان ہو۔

    جناب خاکوانی اپنے کالم ہی میں یہ فرماتے ہیں، ”اگر یہ خبر درست ہے اور حکومت نے خود لیک کرائی تاکہ قومی اداروں کو دباو میں‌ لیا جا سکے اور اب مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس خبر کی تردید کی جا رہی ہے، تب یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ ایسی حکومت کو ملک چلانے کا کوئی حق نہیں۔“ یعنی اگر مگر کرتے فرض کر لیا، کہ یہ ”لیک“ حکومت ہی نے کی ہے۔ اس اگر مگر میں ایک بار بھی نہیں سوچا، کہ یہ ”لیک“ اسٹیبلشمنٹ نے کی ہو، تا کہ حکومت کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ آزادی صحافت کی سنہری مثال ہے، اور کچھ نہیں۔ جناب آزادی صحافت یہی ہے، جو آپ کے کالم کے عنوان سے ظاہر ہے؟

    جناب خاکوانی، آپ ایک مدت سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بتا سکتے ہیں، کہ بلوچستان اور ضربِ عضب کے دوران کتنے صحافیوں کی رپورٹنگ اخباری صفحات کی زینت بنی؟ کیا آپ فوجی تناظر کے حوالے سے وہی خبریں نہیں چھاپتے، جو آئی ایس پی آر ریلیز کرتی ہے؟۔ کیا آپ اس خبر کی تصدیق کسی آزاد ذرائع، یا اپنے ہی مقامی رپورٹر سے کرتے ہیں؟ تو پھر آزادی صحافت کا ذکر ہی کیوں؟ صاف کہیے، جو خبر اسٹیبلشمنٹ کی جگ ہنسائی کا باعث ہے، وہی قومی مفاد کے خلاف ہے؟ کہہ دیجیے، قومی مفاد، دراصل اسٹیبلشمنٹ کا مفاد ہے؟ لیکن ایسا کہنا، گرم لقمہ نگلنے والی بات ہوگی، اس لیے آپ محتاط ہیں؟۔

    جہاں‌ تک ڈان اور سیرل المیڈا کا تعلق ہے، حکومت سمجھتی ہے، اس نے غلط بیانی کی ہے، تو عدالت تک گھسیٹ سکتی ہے۔ اگر حکومت ہی کو اپنی عدالت کے انصاف پہ بھروسا نہیں، تو الگ بات۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دیتے کہ ڈان کے مدیر نے اپنے اداریے میں مذکورہ خبر کا بھر پور دفاع کرتے، اپنے آپ کو ذمہ دار کہا ہے۔ محترم بھائی خاکوانی، آزادی صحافت کی تعریف حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو نہیں، صحافیوں کو کرنا ہوتی ہے، اگر آپ اس آزادی صحافت کی اس تعریف کے قائل ہیں، کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی مٹی پلید کرو، وردی پہ داغ نہ آنے دو، تو یہ کالم اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔

  • محمد عامر خاکوانی عوام کی عدالت میں

    محمد عامر خاکوانی عوام کی عدالت میں

    عامر خاکوانی محمد عامر ہاشم خاکوانی کالم نگاری کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر سب سے زیادہ فعال کالم نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ دلیل ڈاٹ پی کے نام سے انہوں نے ویب سائٹ قائم کی جو اس وقت لکھنے والوں کے لیے اہم ترین پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ گزشتہ روز فیس بک کے معروف گروپ ”میری پہچان“ میں عامر خاکوانی کا انٹرویو کیا گیا۔ انٹرویو ملک جہانگیر اقبال نے گروپ ممبرز کی مدد سے کیا۔ اس کا انداز ”تبادلہ خیال“ سا تھا، جس میں انٹرویو نگار نے سوالات کے ساتھ کئی جگہوں پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔ علاوہ ازیں یہ فوری نوعیت کا انٹرویو تھا۔ سوال آنے کے ساتھ ہی فوری اس کا جواب ٹائپ کردیا جاتا، اس لیے جوابات میں بے ساختگی کا عنصر زیادہ ہے۔ اس انٹرویو میں جہاں عامر خاکوانی نے خوشگوار انداز میں اپنی عام زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات دیے ہیں، وہیں اہم ترین ایشوز پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ دلیل ٹیم ضبط وترتیب کے مراحل سے گزارکر یہ انٹرویو آپ کے لیے پیش کررہی ہے۔

    سوال: عام اور سوشل میڈیا کے عامر خاکوانی میں کیا فرق ہے؟

    جواب: سوشل میڈیا اور عام زندگی کے عامر خاکوانی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عامر خاکوانی اپنی عام زندگی میں ایک نہایت عام آدمی ہے۔ رات کو جس ٹرائوزر یا جینز میں سویا، اسی میں گروسری وغیرہ لینے چلا گیا۔ جہاں جی چاہا، ریڑھی والے سے چنے چاول، دہی بڑے یا کچھ اور کھالیے، کسی ٹینشن کے بغیر۔

    سوشل میڈیا کے عامر خاکوانی کو بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ کوئی کمنٹ کرتے وقت بھی وہ لبرٹی نہیں لے سکتا کہ اس کا ایک ہلکا کمنٹ پوری صحافتی برادری کی ’’ناک کٹوانے‘‘ کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگ فوراً کہتے ہیں کہ اچھا! آپ صحافی ایسے ہوتے ہیں۔ کسی کی وال پر کوئی ہلکا پھلکا کمنٹ بھی بعض اوقات گلے پڑجاتا ہے۔ کبھی ویسے ہی کسی ایشو پر کمنٹ کردیا تو پھر ہفتوں، مہینوں بعد اس کمنٹ کا حوالہ کسی دور دراز کی جگہ ملتا ہے کہ دیکھیں فلاں بات عامر خاکوانی نے کہی تھی۔ مقصد اپنی مقبولیت کا ڈھول بجانا نہیں، یہ بتانا ہے کہ صحافی اور کالم نگار کے طور پر اپنی حقیقی آئی ڈی سے سوشل میڈیا میں آکر کس قدر احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ کبھی تو یہ تنی رسی پر چلنے جیسا لگتا ہے۔

    سوال: سوشل میڈیا اور اخبار میں لکھنا… کیا یہ ایک جیسا ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا پر زیادہ لکھنے کی وجہ سے اخباری کالم میں فرق پڑے؟ (مثبت سے زیادہ منفی فرق) کیوں کہ کالم پڑھنے والی آڈینس، فیس بک کے سٹیٹس پڑھنے والی آڈینس سے زیادہ متحمل مزاج ہوتی ہے۔

    جواب: سوشل میڈیا پر لکھنا کالم لکھنے سے مختلف ہے یا کم از کم اسے مختلف ہونا چاہیے۔ اخبار میں کالم ایک باقاعدہ قسم کی تحریر ہے،جس کا اپنا ریکارڈ ہے۔ وہ ہر جگہ کوٹ ہوتی ہے، اسے کہیں بڑی ریڈرشپ سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اخبار کی پالیسیاں اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایڈیٹنگ کے مرحلے سے وہ گزرتا ہے۔ اسے آپ تھرڈ پارٹی آڈٹ سمجھ لیں۔ اس کا زبان وبیاں بہتر اور عمدہ ہونا چاہیے۔ اخبار کا کالم ٹیسٹ کرکٹ ہے۔ جہاں کھلاڑی کی تکنیک، ٹمپرامنٹ اور خصوصیات چیک ہوتے ہیں، ان کا پتا چلتا ہے۔

    سوشل میڈیا تو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہے۔ تیز رفتار، جارحانہ۔ تکنیک کمزور ہے تب بھی چل جاتا ہے، اس میں چھکے چوکے لگنے چاہییں۔ زبان کی غلطیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ حقائق کمزور ہونے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ ہاں شائقین یہاں زیادہ تیز، بے لگام اور کبھی بدتمیز بھی مل جاتے ہیں، جو انڈے، ٹماٹر سے لے کر پتھر مارنے تک سے گریز نہیں کرتے۔

    سوال: جیسا کہ آپ سات آٹھ سال سے فیس بک پر سرگرم ہیں، یقیناً آپ نے فیس بک اور اردو تحریریں لکھنے والوں کی مختلف محفلوں میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں گے۔

    جواب: پہلے بلاگز کا دور تھا تو بلاگر فارم بنے۔ پھر صفحات کا دور آیا تو صفحات میں اردو رائٹرز جانے لگے اور اسی طرح گروپس بنے اور اب ایک نیا ٹرینڈ آیا ہے ویب سائٹس بنانے کا۔

    سوال: آپ ویب سائٹس کے نئے ٹرینڈ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ اردو کی ترویج کے لیے ہے یا پھر اب ناک کا مسئلہ بنالیا گیا ہے؟ مانا کہ بظاہر ہر طرف دوستی اور خیر سگالی ہی دکھائی دیتی ہے (محض بڑے لکھاریوں میں) لیکن کیا اس کی وجہ سے نئے لکھنے والے تقسیم نہیں ہورہے؟ کسی سائٹ میں لکھنے والا مولوی بھی لبرل کہلاتا ہے اور کسی پر لکھنے والا لبرل آدمی بھی مولوی تصور ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ مثبت مقصد کو لے کر شروع ہونے والی سرگرمی ”سیاسی“ ہوتی جارہی ہے اور ایک نئی نظریاتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔

    جواب: میں تو سوشل میڈیا پر چلنے والے مباحث کو خوش آیند سمجھتا ہوں۔ اس کے مختلف فیز ہیں۔ اردو کی ترویج تو یقیناً ہوئی ہے۔ میں نے اپنے سامنے بے شمار لوگوں کو انگریزی، اور رومن سے اردو لکھتے دیکھا، پھر انہیں اس کا لطف آگیا اور آج ان میں سے کئی بہت عمدہ لکھاری بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اردو کو کئی اچھے لکھاری اور بہت سے اچھے قاری دئیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی، غیر سیاسی، فکری، فرقہ ورانہ، لسانی وغیرہ یہ سب مباحث چلتے رہیں گے۔ ان سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ویب سائیٹس کا فیز بھی ساتھ چل رہا ہے۔ اس سے فیس بک کے بہت سے لکھاری ویب سائٹس پر شفٹ ہورہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ”الٹرنیٹو“ (متبادل) میڈیا بھی ہے اور لکھنے والوں کی تربیت، تہذیب کا عمل بھی ساتھ جاری ہے۔ میں تو سوشل میڈیا سے بہت پرامید ہوں۔

    سوال: اس میں کتنی سچائی ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف اس وقت تک اچھے ہو جب تک آپ میرے سیاسی لیڈر یا مذہبی عقائد کو سب سے بہتر نہ مانو؟ بطورِ کالم نگار آپ کو حد درجہ غیر جانبدار ہوکر لکھنا پڑتا ہے تاکہ حقائق کی اصل تصویر بھی سامنے آئے، مگر جانبداری کا ٹھپہ بھی نہ لگے، لیکن کیا کبھی ایسا ہوا کہ حقائق بیان کرنے کی کوشش میں کچھ دوست ناراض ہوگئے ہوں؟ اور کہیں ایسے لوگوں سے بھی سخت دلبرداشتہ ہوئے ہوں جنہیں آپ حقیقت پسند سمجھتے تھے؟

    جواب: یہ بات آپ کی درست ہے کہ لوگ اپنے لیڈروں، سوچ یا تعبیرات سے مختلف بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح کا ردعمل تو آتا ہے۔ مثلاً ایم کیو ایم والے کب اپنی پارٹی پر تنقید برداشت کریں گے یا پیپلزپارٹی پر تنقید کی جائے، زرداری دور حکومت کو بدترین گورننس کہا جائے تو ان کی تیوریوں پر بل پڑجاتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کی حمایت میں لکھنے پر مسلم لیگ ن والے تلملاتے اور طعنےد یتے ہیں۔ تنقید کی جائے تو ظاہر ہے عمران خان کے ڈائی ہارڈ فینز دلبرداشتہ ہوتے ہیں۔ ویسے مجھے زیادہ سخت تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میرے فیس بک قارئین مجھے رعایت دیتے رہے ہیں۔ خاص کر پی ٹی آئی پر تنقید پر مجھے خال ہی انصافین کی تنقید سننی پڑی ہو۔

    سوال: آپ کا تعلق میڈیا سے ہے، آپ اس کا کردار کیسا محسوس کررہے ہیں؟ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا۔ اس وقت کیا میڈیا ہماری نوجوان نسل اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی کوشش میں نظر نہیں آرہا؟ کیا میڈیا کا مقصد اب صرف پیسا بنانا اور ریٹنگ نہیں رہ گیا؟ اگر میڈیا مثبت کردار ادا کررہا ہے تو کس حد تک‎ اور میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا ذمہ دار آپ کس کو ٹھہراتے ہیں؟

    جواب: میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ایک عفریت ہے، روزانہ جسے منوں کے حساب سے راتب چاہیے۔ اس کے لیے یہ کچھ بھی کر گزرے گا، نہیں ملے تو اپنے بچے کھا جائے گا۔ چوبیس گھنٹے چینل کا پیٹ بھرنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پھر چینلز میں کرئیٹیو لوگ نہیں ہیں۔ آئیڈیاز کا بحران ہے۔ اس میں جو چیز چل جائے، سب اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ ریٹنگ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ٹی وی چینلز کو کوئی پروا نہیں کسی کی اخلاقیات کی۔ یہ اس کا مسئلہ ہی نہیں۔ وہ سراسر کمرشل ہیں۔ یہ تو عوامی طبقات کو چاہیے کہ وہ اپنی حساسیت کا مظاہرہ کریں، جو کہ ہم نہیں کرپارہے یا پھر پیمرا جیسے اداروں کو سختی سے قوانین اور ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے۔

    دنیا میں چینلز پر دو چیزیں سب سے زیادہ بکتی ہیں؛ لڑائی یعنی تصادم اور سیکس۔ ہمارے ہاں سیکس کو ایک حد تک دیا جاسکتا ہے، اس حد کو کراس کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں، مگر بہرحال پھر بھی کچھ نہ کچھ حدود آجاتی ہیں۔ پہلے پر چونکہ پابندی نہیں، اس لیے دل کھول کر لڑائیاں کرائی اور دکھائی جاتی ہیں۔

    ویسے یہ بتاتا چلوں کہ میں دانستہ، ارادتاً ٹی وی پر نہیں ہوں۔ مجھے یہ میڈیم پسند ہی نہیں۔ وہاں ریٹنگ کی غلامی کرنی پڑتی ہے اور دوسرا، ٹی وی میں سٹریس بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول ٹی وی میں گرین لائیٹ ہے ہی نہیں، ہر وقت اورنج لائیٹ جلتی رہتی ہے اور اکثر اوقات سرخ لائیٹ۔ سگنل لائیٹس کی طرف اشارہ ہے۔ مجھے اخبار پسند ہے۔ اس میں آج بھی کسی حد تک ٹھہرائو اور میچورٹی ہے۔

    سوال: الیکٹرانک میڈیا کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کا گلیمرائز ہونا تو نہیں؟ اگر آپ اینکر پرسنز یا نیوز کاسٹر دیکھیں تو ان کا صحافت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، محض اچھی شکل اور آواز کی تیزی سے ”صحافی“ بنے بیٹھے ہیں۔ کیا الیکٹرانک میڈیا وہ کوا تو نہیں جو ہنس (صحافیوں) کی چال چلنے کی کوشش کر رہا ہے؟

    جواب: الیکٹرانک میڈیا کے زوال پذیر ہونے کا تو پتا نہیں۔ مگر غیر معیاری یا زیادہ معیاری نہ ہونے کی وجوہات میں ریٹنگ کے باعث سنسنی خیر صحافت کو اپنانا، آئیڈیاز کی قلت، تخلیقی لوگوں کو اکٹھا نہ کرنا اور ڈنگ ٹپائو پر کام چلانا اور یہ لش پش کرتی لڑکیاں، لڑکے بھی کسی حد تک وجہ ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک خوشگوار تاثر بھی پیش کرتے ہیں۔ مگر بڑی وجہ عوام کا معیار پست ہونا بھی شامل کرنا چاہیے۔ لوگ بھی ایسے فضول پروگرام دیکھتے ہی ہیں۔

    سوال: پوری دنیا میں سیاست کا ایک نظام رائج ہے جسے دو مختلف کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے جسے ”لفٹ ونگ اور رائٹ ونگ پالیٹکس“ کہا جاتا ہے، کیا وجہ ہے کہ یہی لفٹ رائٹ جب پاکستان میں آتا ہے تو مذہب اور خود کو لبرل کہنے والوں کے درمیان کی جنگ بن کر رہ جاتا ہے؟ آپ کے خیال میں اس کی حقیقی تعریف کیا ہے؟ کیا یہ محض سیاسی اور جذباتی نعرے ہیں ووٹ حاصل کرنے کے یا اپنے اندر کوئی تاریخی حیثیت و اہمیت بھی رکھتے ہیں؟

    جواب: رائٹ ونگ ہر جگہ کچھ نہ کچھ مذہبی اور قدامت پسندی کے قریب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل لیفٹ ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ لبرل، سیکولر کیمپ نے لے لی ہے۔ مذہب پر حملہ آور بھی یہی ہوتے ہیں، اس لیے رائٹ ونگ والے بھی جواباً ان پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں۔ دراصل رائٹ ونگ کے نزدیک اخلاقیات اہم موضوع ہے۔ فحاشی کے خلاف رائٹ ونگ میں ہمیشہ ردعمل رہتا ہے۔ خواہ وہ پاکستان کا ہو ، بھارت کا یا امریکا کا۔ ہمارا رائٹ ونگ چونکہ مذہبی مسلمان ہے، اس لیے وہ اخلاقیات کے حوالے سے اسلامی تعبیرات کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ لبرل، سیکولر کیمپ کے بعض مسائل ان اخلاقیات سے ہیں تو یوں یہ جنگ بڑھتی جاتی ہے۔

    سوال: اگر بات ادب کی کریں تو کیا آپ کو لگتا ہے پاکستان کے ادیب نے پاکستان کو بطورِ قوم منظم کرنے کے لیے خاطر خواہ کام کیا ہو؟ ہم اگر ادب کی جانب دیکھتے ہیں تو آزادی کے بعد جو ادیب آیا، وہ تقسیم پر نوحہ گری کرتا رہا۔ اس کے بعد کا دور آپ کو کمیونزم سے متاثر نظر آئے گا اور ایک وقت تو یہ بھی تھا کہ پاکستان کو کوسنا ہی ادب کے زمرے میں لیا جانے لگا۔ چند ادیبوں کے سوا (جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے) پاکستانیت کے فروغ کے لیے کام کرتا نہیں دیکھا گیا، ایک نوزائیدہ قوم کو کس طرح سنبھالا جاتا ہے، اس پر قلم خاموش رہا۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

    جواب: اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے کہ میں ادیب نہیں ہوں، کم از کم اس وقت تک تو نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ادیب نے ایسا کچھ نہیں کیا، پاکستانیت کے حوالے سے۔

    سوال: لبرل و سیکولر طبقہ کا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ جو اصول یا قانون، کوئی معاشرہ اکثریت رائے سے بناتا ہے، اسے قبول کرنا چاہیے۔ مغرب میں حجاب پر پابندی اور لبرلز کی اس قانون کی حمایت اس کی مثال ہے، لیکن وہی لبرل جب پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اکثریت کے بنیادی مذہب کے قوانین کو یکسر ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں ، جیسے آپ نے ایک تحریر میں لکھا کہ لبرلز کے لیے اسلامی نظریہ ہی کوئی چیز نہیں، تو کیا ایسے میں صحت مند مکالمہ پرورش پاسکتا ہے جب آپ ایک قانون کو سرے سے ہی غلط مانتے ہیں؟

    جواب: میرے خیال میں ہمارے سیکولر، لبرل دوست پاکستانی معاشرے کے فیبرک سے ناواقف ہیں۔ یہی دراصل ان کی ناکامی کی وجہ بھی ہے۔ ویسے ایک اہم فیکٹر اور بھی ہے، جس سے لبرل دوست انکار کرتے ہیں، مگر میرے خیال میں وہ بہت اہم ہے۔ وہ ہے مابعداطبعیات۔ اصل چیز میٹر بھی یہی کرتی ہے کہ کیا آپ خدا، رسول اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ ہمارے سیکولر ساتھیوں میں سے کچھ یا یہ کہہ لیں ایک بڑا حصہ اس مابعدالطبعیات کا قائل نہیں، یا وہ تشکیک کا شکار ضرور ہے۔ جب وہ روز آخرت ہی کو نہیں مانیں گے تو پھر مذہب کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہوگی؟ اسی طرح مذہبی قوانین، الہامی احکامات، مذہبی اخلاقیات وغیرہ ان کے نزدیک کس قدر اہم رہ جائیں گے؟

    سوال: اب ذرا اپنے پسندیدہ موضوع کی جانب آتا ہوں ”اسٹیبلشمنٹ“۔ یہ لفظ آپ نے یقیناً سنا ہوگا۔ اس لفظ کی خاصیت ہے کہ یہ اپنی جگہ متعین رہتا ہے جب کہ اس کے لاحقہ بدلتے رہتا ہے جیسے ”ملٹری اسٹیبلشمنٹ“، یا پھر ”پنجابی اسٹیبلشمنٹ“ کیا یہ ایک مفروضہ ہے یا پھر لسانیت کی جانب راغب کرنے والا نعرہ؟

    جواب: اسٹیبلشمنٹ دنیا بھر میں ہے اور بیشتر جگہوں پر وہ ٹھیک ٹھاک طاقتور ہوتی ہے۔ کم از کم نیشنل سکیورٹی ایشوز میں۔ امریکی اسٹیبلشمنت کی طاقت دیکھیں کہ اوباما جیسے انقلابی کو بھی بش کی وار پالیسیز جاری رکھنے پر مجبور کردیا۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے۔ من موہن سنگھ شرم الشیخ میں مذاکرات کا مان جاتے ہیں، واپس دلی پہنچ کر انڈین ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ انہیں یوٹرن لینے پر مجبور کردیتی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے نٹورسنگھ کی کتاب آئی، اس نے بتایا کہ راجیو گاندھی کے دور میں فوج کی موومنٹ خود وزیراعظم راجیو کے علم میں لائے بغیر آگئی اور پاک انڈیا جنگ کی نوبت آگئی تھی۔

    تو اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں فوج اس کا مرکزی جز ہوتی ہے، مگر ٹاپ لیول کی سول ملٹری بیورو کریسی، ٹاپ بزنس مینز، طاقتور میڈیا ہائوسز وغیرہ بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ امریکا میں تو ایک خاص سطح پر اکیڈیمیا بھی اس کا حصہ ہے۔ خاص کر رینڈ کارپوریشن جیسے تھنک ٹینک بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔

    مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ زیادہ تر فوج ہی ہے۔ بیوروکریسی اب اتنے جوگی رہی نہیں، غلام اسحاق خان اس کے آخری نمایندے تھے، مجید نظامی صاحب جیسے دیوقامت صحافی ایڈیٹر بھی نہیں رہے، وہ بھی ایک حد تک اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے۔ ہمارے ٹاپ بزنس مین چور لٹیرے ہیں۔ تو پھر فوج ہی بچتی ہے یا ایجنسیاں۔ اب فوج میں چونکہ پنجاب کی اکثریت ہے تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں پنجاب کا حصہ زیادہ رہتا ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ ہی کہنا چاہیے، پنجابی اسٹیبلشمنٹ کہنا غلط اصطلاح اور حقیقت سے دور ہے۔ مشرف تو پنجابی نہیں تھا تو دس سال وہ نکال گیا اور اس کے دور میں اردو سپیکنگ جنرلز کی تعداد خاصی بڑھ گئی تھی۔

    سوال: جمہوریت کے بارے میں بتادیں۔ مغرب ہو یا امریکا یا پھر سیکنڈ اور تھرڈ ورلڈ ممالک، یہاں آپ کو سب سے خوش نما نعرہ ”جمہوریت“ کا ملے گا۔ پاکستان میں بھی یہ جمہوریت ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، لیکن کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ جمہوریت نامی کوئی شے ایگزسٹ کرتی ہے؟ پاکستان میں دانشور طبقہ فوج کو ملعون کرتا رہتا ہے کہ یہ ملکی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے ترتیب دیتی ہے۔

    جواب: ہمارے ہاں جمہوریت نام کی حد تک ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی جمہوریت کو اپنے مفاد کی خاطر ہی استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں۔ الیکشن تک یہ نہیں کراتے۔ چھ سات خاندان ہیں جو پاکسانی سیاست پر قابض ہیں۔ بھٹواب زرداری صاحب، شریف خاندان، مولوی فضل الرحمن اور ان کے بھائی اسفند یار ولی خان، چودھری برادران، پیر پگاڑا۔۔۔ عمران خان بھی ایک شخصیت ہی ہے، خاندان تو خیر سیاسی اس کا ابھی نہیں بنا۔۔۔ ایم کیو ایم بھی الطاف حسین ہی تھی۔ بلوچ پشتون قوم پرست بھی خاندان، شخصیات کا نام ہی ہیں۔ اچکزئی صاحب، بزنجو فیملی، مینگل صاحب، بگٹی صاحب کے صاحبزادگان، پوتے وغیرہ۔

    میرا خیال ہے کہ سویلین بالادستی تب ممکن ہوپائے گی، جب سویلین دیانت داری اور اہلیت کے ساتھ کام کرنا سیکھیں گے۔ مثال کے طور پر اب دیکھ لیں کہ ستانوے میں بھی اسحاق ڈار شریف فیملی کے ماہر معاشیات تھے، دو ہزار سولہ میں بھی وہی ہیں۔ وہی سرتاج عزیز ستانوے میں، وہی بیس سال بعد۔ سیاستدان خارجہ، معیشت، سکیورٹی ایشوز پر دو تین اچھے تھنک ٹینک ہی بنادیں جو انہیں پالیسیاں بناکر دیں۔ یہ تک تو ہوتا نہیں اور پھر بات بالادستی کی کرتے ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر جب تمام ان پٹ جی ایچ کیو نے دینا ہے تو پھر پالیسی بھی وہی چلائے گا۔

    سوال: سیاست میں سب سے اہم ہتھیار سٹریٹ پاور کا ہوتا ہے جس میں ہماری مذہبی جماعتوں کا کوئی مقابلہ نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اہم مذہبی جماعتوں کو سڑکوں پر تو دیکھنا چاہتی ہیں، لیکن اسمبلی میں نہیں؟

    جواب: جمہوریت میں تو سب سے اہم ”ووٹر پاور“ ہے۔ سٹریٹ پاور تو فریجائل ڈیموکریسز میں چل جاتی ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں منظم تھیں تو سٹریٹ پاور ان کے پاس تھی، مگر اسمبلی میں جانے کے لیے ظاہر ہے ہر حلقے سے اکثریتی ووٹ لینا ضروری ہیں۔ ان کے جیتنے کی ایک وجہ تو یہ خود ہیں؛ مذہب کی سخت گیر، بے لچک تعبیر، کوئی بھی مذہبی شخص اپنے حلیے اور طرز زندگی ہی سے دوسروں سے مختلف لگتا ہے۔ ان کے اخلاق کمزور ہیں۔ مذہبی لوگ اور اچھے اخلاق مترادف لفظ نہیں رہے۔ اس لیے مذہبی جماعتیں اب زیادہ کمزور ہوگئی ہیں۔ ویسے ان کے نہ جیتنے کی بڑی وجہ پنجاب اور سندھ میں الیکٹ ایبلز کی اہمیت، ذات برادری کا اثرورسوخ اور پچھلے بیس برسوں سے تو بے پناہ الیکشن اخراجات ہیں۔

    سوال: کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ لیکن اگر آئینہ کا دوسرا رخ دیکھیں تو پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی افغانستان ہمارا دشمن بن گیا اور قبائلی علاقوں میں حق جتانے لگا۔ بھارت تو تھا ہی دشمن، انقلاب کے بعد ایران سے بھی تعلقات اس نوعیت کے نہیں رہے۔ پاکستان ہر دور میں ہاتھ بڑھاتا رہا، مگر بدلے میں اس کے خلوص پر شک کر کے پڑوسیوں نے زہر ہی اُگلا۔ کیا واقعی ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے یا ہم جغرافیائی طور پر ایسا ملک ہیں جس پر سب کی رال ٹپکتی ہے؟

    جواب: اصل میں ہم لوگ لیبل لگانے کے بہت شوقین ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بات بہت کی جاتی ہے کہ پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا اور لیاقت علی خان نے روس کی جگہ امریکا کا پہلا دورہ کر کے غلطی کی۔ کیسے غلطی کی؟ تاریخ نے تو یہ ثابت کیا کہ وہ فیصلہ درست تھا۔ ہماری خارجہ پالیسی کے تین چار پلر تو پچھلے چالیس برسوں سے ایک ہی ہیں اور وہ درست رہے۔ چین بنیادی پلر رہا، سعودی عرب اور خلیجی ممالک، امریکا اور ویسٹرن ورلڈ کے ساتھ اچھے تعلقات۔ ایران کے ساتھ توازن رکھنے کی کوششیں۔ افغانستان کو اپنے لیے ہوسٹائل بننے سے روکنا۔ بھارتی ایجنڈے کو اس خطے میں کائونٹر کرنا اور اپنے لیے سپیس پیدا کرنا۔ اب کبھی تاریخ کا جبر اسے غلط ثابت کردیتا ہے تو کبھی درست۔

    یہ البتہ ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں مستقبل پر نظر نہیں رکھی جاتی، تھنک ٹینک نہیں، ادارے نہیں جو بیس پچیس سال آگے پر نظر رکھیں تو اس وجہ سے بھی ہم کئی بار مار کھا جاتے ہیں۔ کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمیں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہیے تھا، جیسے سنٹرل ایشین ریاستیں۔ مڈل ایسٹ میں بھی تعلقات بہتر ہونے چاہیے تھے، مگر نہیں رہے۔ غلطیاں بھی ہوئی ہیں ہم سے، مگر بعض ہماری مجبوریاں بھی تھیں۔افغانستان ہمارے لیے ہمیشہ مسائل پیدا کرتا رہا، سوائے طالبان دور کے۔

    سوال: بطور ایک غیرجانبدار صحافی، آپ کی بہت تعریف دیکھتے آئے ہیں، اور بطور صحافی اور کالم نگار یہ اعزاز کی بات ہے۔۔۔ غیر جانبداری کی خصوصیت کیسے پیدا ہوئی؟ یہ طبیعت میں تھی؟ تربیت سے آئی یا وکالت کی تعلیم سے پیدا ہوئی؟ کیونکہ وکیل اپنے دلائل کا سب سے بہتر جج خود ہوتا ہے۔

    جواب: ویسے تو مجھے خوشی ہوگی غیر جانبدارصحافی کی اصطلاح پر۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ مکمل طور پر غیر جانبدار صحافی کوئی نہیں ہوتا نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے میں ایک صحافی، لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں۔ میری مختلف جماعتوں، شخصیات کے بارے میں کچھ آرا ہوں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کوئی رائے ہی نہیں رکھوں۔ ایسا تو صرف فاتر العقل یا بالکل ہی سادہ لوح آدمی کرسکتا ہے۔ میرا تو ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔

    لکھنے والے کی پسند، ناپسند، تعصبات لازمی ہوتے ہیں۔ آپ ان سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرسکتے ہیں، کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صحافی کو دیانت دار اور معتدل ہونا چاہیے۔ دیانت یہ ہے کہ اگر میں عمران خان کا حامی ہوں اور عمران خان کے مخالفین پر تنقید کرتا ہوں تو اگروہی غلطی عمران خان کرے تو مجھے اس پر بھی ویسی گرفت کرنی چاہیے۔ ایسا نہ کرنے پر میری بددیانتی اسٹیبلش ہوجائے گی۔ سو، بات دیانت کی ہے، غیر جانبداری سے زیادہ۔

    دوسرا، لکھنے والے میں توازن اور اعتدال ہونا چاہیے۔ وہ مخالفت میں انتہا تک نہ جائے، دوسرے کو کچھ سپیس دے۔ شدت میں ردعمل ظاہر نہ کرے۔ کئی بار اصل حقیقت درمیان میں ہوتی ہے، دو انتہائوں کے درمیان۔ تو معتدل اور متوازن شخص اس راہ پر چلتا ہے۔ اعتدال سے مراد یہ بھی نہیں کہ آپ کوئی واضح پوزیشن نہ لیں۔ کئی معاملات میں لینا پڑتی ہے۔ جیسے مذہب میری ریڈ لائن ہے۔ پاکستان میری ریڈ لائن ہے۔ پاک فوج میری ریڈ لائن ہے۔ ختم نبوت کا نظریہ میری ریڈ لائن ہے۔ اسی طرح لسانی منافرت کے حوالے سے میں حساس ہوں۔ تو اپنی ریڈ لائنز کا خیال رکھا جائے۔ ان کو کوئی کراس کرے تو پھر واضح اور مضبوط پوزیشن لی جائے، مگر ایسا کرتے ہوئے بھی یہ خیال رکھا جائے کہ جو بات جتنی ہے، اتنی کہی جائے، نہ زیادہ نہ کم۔ ردِعمل اتنا دیں جو متناسب ہو، جتنا بنتا ہو، اتنا ہو، اس لیے اعتدال بعض اوقات افقی کی جگہ عمودی لائن میں دکھانا چاہیے۔ ٹمپریچر ٹاپ پر لے جانے کے بجائے درمیان تک ہی رکھا جائے۔

    سوال:  آپ نے اپنی جتنی ریڈ لائنز بتائی ہیں، یہ بے شک محب وطن و مذہب انسان کا اخلاقی فرض ہے کہ انہیں سرخ لکیر بنائے ، لیکن اب ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ مذہب کو سرخ لکیر بنانے والا کم عقل انتہا پسند کہلاتا ہے، وطن کو سرخ لکیر بنانے والا جنگ پسند و انسانیت کا دشمن جب کہ فوج کو سرخ لکیر بنانے والا بوٹ پالشیا… اگر ایسے خطاب دینے والوں کے چہرے دیکھے جائیں تو عقب سے (بظاہر) مہذب لوگ ہی نکلتے ہیں، ایسے رویہ کی کیا وجوہات ہیں ؟

    جواب: یہ دراصل نفسیاتی جنگ ہوتی ہے۔ بڑی ہنرمندی کے ساتھ متنازع بنایا جاتا ہے، لیبل چسپاں کیے جاتےہیں۔ ایسا دانستہ کیا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی آگے آنے سے گھبرائے۔ اب مذہبی لوگوں کو بنیاد پرست، طالبان، مُلا کہہ دیا جاتا ہے۔ فوج کے حامیوں کو بوٹ پالشیا۔ اسی طرح دیگر لیبل۔ ان سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ اپنے موقف پر سٹینڈ لینا چاہیے۔ میں نے دانستہ خود کو رائٹسٹ اور اسلامسٹ کہلانا شروع کیا کیونکہ محسوس کیا کہ ہمارے لبرل لکھنے والوں نے دانستہ ان اصطلاحات کو اتنا برا بنادیا ہے کہ کوئی ایسا کہنے کی جرات تک نہیں کررہا۔ تب میں نے خود کو ایسا کہلانا شروع کیا، فخریہ۔ حالانکہ میرے فیس بک پروفائل میں ہے کہ رائیٹ آف دی سنٹر۔ میں خود کو ”سنٹرسٹ“ سمجھتا ہوں، جس کا جھکائو رائٹ کی طرف ہو۔ مگر لبرل حملوں نے مجھے باقاعدہ رائٹسٹ بنادیا۔ یہی بات پاک فوج کی حمایت کے حوالے سے بھی سننا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں بھی ڈٹ کر بات کی جائے۔ جیسے تین چار برسوں سے ”غیرت“ کو بھی متنازع بنادیا گیا ہے۔ ”غیرت بریگیڈ“ کی اصطلاح گھڑکر، بلکہ ایک گانا تک بنادیا گیا۔ تو غیرت بریگیڈ کا طعنہ دینے والوں کو میں کہتا ہوں کہ دو ہی بریگیڈ ہیں؛ غیرت یا بے غیرت، آپ اپنا بریگیڈ خود چن لیں۔ ایک بات ضروری ہے کہ آپ اپنا مقدمہ شائستگی سے لڑیں۔ مخالف کو گالیاں نہ دیں۔ سلیقے سے اپنی بات کہیں تو پھر آپ کی اخلاقی برتری قائم رہتی ہے۔

    سوال: زندگی میں کوئی ایسا شخص، جس کا اپنی ذات پر احسان محسوس کرتے ہوں؟ یا کوئی ایسا شخص جس کا آپ کی زندگی میں بہت عمل دخل رہا ہو یا اب بھی ہو؟‎

    جواب: ایسے کئی لوگ ہیں۔ میرے دوستوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں احمد پورشرقیہ۔۔۔ ایک چھوٹے شہر۔۔۔۔ کا رہنے والا تھا۔ لاہور میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ ایک دوست کے ساتھ آ کر ٹھہرا، اس نے بہت ساتھ دیا۔ ہاسٹلز میں آئوٹ سائیڈر کے طور پر دو ڈھائی سال گزارے، میری زندگی کے بہترین سال ہیں وہ۔ بعد میں بھی میرے کئی دوست ایسے ہیں جنہوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ ہر مشکل پڑنے پر ان کی طرف دیکھ سکتا ہوں۔ میرے کالموں کا انتخاب ان شاء اللہ جلد شائع ہونے والا ہے، اس کے دیباچے میں یہ تمام باتیں لکھی ہیں، ان کالم نگاروں صحافیوں کا بھی لکھا جن کا میرا زندگی خاص کر ”کالمانہ زندگی“ پر اثر پڑا۔ اتنے مختصر وقت میں وہ فہرست لکھنا ممکن نہیں۔ میری بیوی سعدیہ مسعود کا میری زندگی پر بہت گہرا اثرا اور عمل دخل ہے۔ میں اسے ”نصف بہتر“ سے کچھ زیادہ سمجھتا ہوں۔ انہیں اپنے جسم، شخصیت کا ساٹھ ستر فیصد حصہ سمجھتا ہوں۔ بچوں کا ظاہر ہے زندگی میں گہرا اثر ہے، ان کے بغیر خود کو مکمل تصور نہیں کرتا۔

    سوال: انٹرویو تو گروپ میں ہر ہفتہ ہوتا ہے لیکن آپ جیسی شخصیت شاذ ونادر ہی ہاتھ لگتی ہے، اس لیے آپ کے علم سے بھرپور استفادہ خود کو اور قارئین کو دینے کی کوشش کررہا ہوں، جس کی وجہ سے ہلکے پھلکے سوالات نہیں کرپارہا تاکہ انٹرویو کی اہمیت قائم رہے، پھر بھی ایک سوال تو پوچھنا بنتا ہی ہے۔۔۔ محبت کی یا ہوئی؟ کس عمر میں دل کے تاروں نے ”تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم“ گانا شروع کیا؟ یا پھر ”ابھی تک دنیا حسینوں کا میلہ“ اور ”میلے میں یہ دل اکیلا“ والا معاملہ ہے ؟

    جواب: محبت کا تو پتا نہیں، صنف مخالف میں کشش تو ظاہر ہے وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ہوئی۔ یہ معاملات ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان کی تفصیل ظاہر ہے بیان نہیں کی جاسکتی۔ میرے ساتھ دو حادثے یہ ہوئے کہ ایک خاص عمر میں یعنی اٹھارہ انیس سے لے کر ستائیس اٹھائیس تک مجھے یہ لگتا تھا کہ مجھ میں شاید اتنی کشش نہیں یا لڑکیاں میری طرف اٹریکٹ نہیں ہوسکتیں۔ میں ویسے کتابی کیڑا سا نوجوان بھی تھا۔ یہ تو برسوں بعد پتا چلا کہ اس وقت بہت سے دل گھائل ہوئے، مگر کم بختوں نے اس وقت پتا نہیں چلنے دیا۔ دوسرا سانحہ میری صحافت اور کالم نگاری کی وجہ سے ہوا۔ چونکہ میرے موضوعات خاصے میچور تھے۔ ریسرچ کرکے لکھتا تھا۔ مذہب اور تصوف بھی میرے پسندیدہ موضوعات تھے تو قارئین نے مجھے کچھ زیادہ ہی شریف اور نیک سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی یہ غلط فہمی ٹوٹنے ہی میں نہیں آتی۔ فیس بک نے دوسرے سانحے کے ساتھ ضمنی سانحہ یہ جوڑ دیا کہ یہاں فین شپ بن گئی اور بعض لوگوں نے دیوتائوں کی طرح پیش آنا شروع کردیا۔ اب ظاہر ہے دیوتا تو لطیف جذبات سے عاری ہوتے ہیں یا عاری سمجھے جاتے ہیں تو پھر کسی فیس بکی ادھے پچچے دیوتا کے پاس کیا آپشن بچتی ہے؟ یہی ناں کہ قسمت پر شاکر ہو۔ تو میں اس حد تک شاکر ہوں کہ اگر صابر شاکر میڈیا میں نہ ہوتا تو اپنا قلمی نام صابر شاکر رکھ دیتا۔ 🙂

    سوال: کل ہی ٹیچرز ڈے منایا گیا، اس مناسبت سے سوال ہے کہ آپ اپنی ترقی میں اپنے اساتذہ کو کتنا کریڈٹ دیتے ہیں؟ پرائیویٹ سکولز مافیا کی لوٹ مار کی روک تھام کے لیے آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟ پاکستان میں ایجوکیشن سسٹم کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟‎

    جواب: بالکل نہیں، کوئی کریڈٹ نہیں۔ میں تو کل ٹیچرڈے کی تصویریں دیکھ کر سڑا بیٹھا ہوں۔ مجھے تو کوئی ایسا اچھا ٹیچر نہیں ملا۔ ایک آدھ ہی ایسا ٹیچر ہے جس کی عزت کرنے کو دل چاہے۔ آپ یہ اندازہ لگائیں کہ میں اپنے شہر کا واحد کالم نگار ہوں۔ پچھلے نصف صدی کا ۔ ایک تحصیل ہے بڑی پرانی وہ۔ ڈگری کالج وغیرہ۔ مطلب کہ کوئی گائوں نہیں۔ اپنے سکول، کالج کی زندگی میں کبھی کسی نے میرے اندر کا لکھاری تلاش ہی نہیں کیا۔ ایک بھی تحریر میری نہیں شائع ہوئی کہیں پر۔ کبھی بزم ادب ٹائپ پروگرام ہی نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اگرچہ میں کتابی کیڑا تھا، مگر کلاس فیلوز کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ میں اتنا پڑھتا ہوں۔ بہت سوں کو بعد میں حیرت ہوئی کہ ہائیں یہ وہی عامر ہے جس کے آج کل کالم شائع ہورہے ہیں۔ تو کوئی ایسا ٹیچر ملا نہ تعلیمی ادارہ جس نے گروم کیا ہو۔

    ایجوکیشن سسٹم کو بالکل بدلنا چاہتا ہوں۔ خاص کر پرائمری کو۔ بچوں کو انجوائے کرنا سکھانا چاہیے۔ ان کے تصورات واضح ہونے چاہییں۔ رٹا نہیں۔ اب تو کتابوں کے بنڈل ہیں۔ بچے بیگ اٹھا نہیں پاتے۔ انہیں زبانیں زیادہ سکھائی جائیں، انہیں تصورات سکھائے جائیں، خواب دیکھنا سکھایا جائے، پڑھائی سے انجوائے کرنا سیکھیں اور کئی سبجیکٹس جیسے میتھ بیشتر بچوں کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میٹرک میں میتھ لازمی صرف ان کے لیے ہو جو انجینئر بننا چاہیں، باقیوں کے لیے گنتی اور دس بارہ تک پہاڑے ہی کافی ہیں۔

    سوال: آج سے کچھ سال پیچھے چلے جائیں تو اولاد کی تربیت ماں کرتی تھی اور اب ماں کی جگہ چھوٹے بھیم اور وہ لال بلی ”ڈورامون“ نے لے لی ہے، جس طرح لنگوٹ کی جگہ پمپر نے لے کر ممتا کو وہ ساری رات جاگ کر بچے کو گیلے بستر سے بچاکر سوکھے بستر پر سلانے والا جملہ آج کل کسی کام کا نہیں رہا، کیا کل کو ہماری آنے والی نسل ماں کی ممتا کی اس لذت سے محروم نہیں ہوجائے گی جسے ہم نے انجوائے کیا؟
    کیا یہ بظاہر آسانی ہماری نسلوں کی سوچ کا رخ نہیں بدل دیں گی اور آپسی محبت اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف برداشت کرنے کی حیثیت سے مشہور معاشرہ اس کے جو نقصانات برداشت کرے گا، یہ لائقِ تشویش نہیں؟ یا پھر اسے زندگی کی آسانی جان کر نظر انداز کردیا جائے؟

    جواب: ذاتی طور پر میں ڈورے مان کے خلاف نہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ اسے دیکھتا ہوں، ویسے وہ نیلی بلی ہے میرے خیال میں۔ درست سوال ہے ویسے۔ مائوں کو بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ انہیں کہانیاں سنائیں، گپیں لگائیں، ساتھ کھیلیں، ان کی باتیں سنیں، انہیں نظمیں سنائیں۔ خاص کر لوک گیت، لوریاں سنائیں۔ بچوں کی تربیت کریں، اخلاقی تربیت خاص کر۔ ابتدائی برسوں ہی میں۔ وہ سب باتیں ذہن میں راسخ ہوجاتی ہیں ۔

    زندگی ہم سب کے لیے آسان ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی سہولیات لینے میں کوئی حرج نہیں۔ پیمپر آگئے تو اچھا ہوا، ماں کو چاہیے کہ اب وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ بچوں کو وقت دے۔ مگر معاشی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ مائیں بیچاری سارا دن ملازمت کریں تو کیا کریں گی رات کو۔ یا پھر تمام دن کے کام کاج تھکا دیتے ہیں، تین چار سال کا وقفہ اگر بچوں میں ہو تو پھر سب پر توجہ دینا آسان ہوجاتا ہے۔

    سوال: جب میرا پہلا کالم شائع ہوا تھا ایک بڑے میگزین میں، تو وہ مجھ سمیت پورے خاندان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی اور مہینوں اس کا چرچہ ہوتا رہا، آپ کی جب پہلی تحریر یا کالم چھپا تو کیا احساسات تھے؟ کیا آپ کو بھی ایسا لگتا کہ تحریریں دراصل لکھاری کو اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہیں۔ جس طرح اولاد کی کوئی تعریف کرے تو فخر محسوس ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح تحریر کی تعریف بھی دلی خوشی دیتی ہے۔ ایسی کونسی شخصیت ہے جس نے آپ کی تحریر کی تعریف کی اور آپ کو واقعی خود پر فخر محسوس ہوا ہو؟

    جواب: میری پہلی تحریر نے تو مجھے بہت خوشی دی۔ میں اس وقت لا کا پہلے سال میں طالب علم تھا۔ کراچی میں تھا۔ ایک دن کالم لکھا، عمر انیس بیس سال ہی ہوگی، جا کر جنگ کراچی کے دفتر ریسپشن پر جمع کرا آیا۔ اگلے روز وہ ادارتی صفحہ پر ارشاد احمد حقانی، حسن نثار، عبدالقادر حسن وغیرہ کے ساتھ شائع ہوگیا۔ خوشی سے میں پاگل سا ہوگیا تھا۔ اسی طرح اردو ڈائجسٹ سے جب صحافت کا آغاز کیا تو پہلی تحریر پر بہت خوشی ہوئی۔ پہلا باضابطہ کالم جب دو ہزار چار میں ایکسپریس میں شائع ہوا تب بھی بہت اچھا لگا۔ آج بھی اچھا لگتا ہے۔

    سینئر صحافیوں کی تعریف سے بہت خوشی ہوئی۔ جیسے ہارون الرشید صاحب کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ میرے سب سے پسندیدہ کالم نویس عامر خاکوانی، تو دل نہال ہوگیا۔ یا پھر جب شامی صاحب کہیں کہ نوجوان لکھنے والوں میں سے نمایاں اور ممتاز لکھاری، الطاف حسن قریشی تعریف کریں، اوریا مقبول جان کو جب میسج کروں اپنے کسی کالم کے حوالے سے تو وہ جواب میں جب لکھیں کہ میں صبح سات بجے ہی کالم پڑھ چکا ہوں۔ جاوید ہاشمی جیسا شخص جب کہے کہ میں آپ کی ہر تحریر پڑھتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے لوگ خاص کر جن کو میں خود پسند کرتا، پڑھتا ہوں، وہ تعریف کریں تو خوشی زیادہ ہوتی ہے۔

    سوال: آپ دائیں اور بائیں بازو کے لکھاریوں کو کیا مشورہ دینا یا نصیحت کرنا چاہیں گے ؟

    جواب: نئے لکھاریوں کو میرے دوتین مشورے ہوتے ہیں؛ ایک تو پڑھنے پر زیادہ توجہ ہو، لکھنے پر کم۔ مطالعہ بڑھائو۔ خاص کر فکشن ضرور پڑھو تاکہ تخلیقی اسلوب بنے۔ زبان سیکھو، ادب کی جمالیات سیکھو، پھر کوئی نظام فکر ہونا چاہیے، سٹرکچرڈ فکر۔ اس کے بعد آپ کا زندگی میں کوئی نظریہ ہو۔ اور پھر کنٹری بیوشن ممکن ہوسکتا ہے۔

    سوال: سوشل میڈیا سے لکھاریوں کی ایک بہت بڑی کھیپ برآمد ہوئی ہے۔ ان لکھاریوں کا ہر موضوع پر بے باکانہ انداز میں لکھنا ایک اچھا عنصر ہے یا اس کے نقصانات زیادہ ہوئے…؟

    جواب: ایسے بہت سے نام ہیں۔ جنہیں میں نے فیس بک پر پڑھا، ان میں سے بعض کالم نگار بھی تھے، مگر بدقسمتی سے میں انہیں نہیں پڑھ سکا تھا، جیسے امت کراچی کو پنجاب میں نہیں پڑھا جاتا تو ان کے کالم نگاروں سے واقف نہیں تھا۔ ان لکھاریوں میں رعایت اللہ فاروقی ہیں۔ فیس بک پر قاری حنیف ڈار کو پہلی بار پڑھا۔ ان کی بعض تحریریں کمال ہوتی ہیں۔ بعض سے سخت اختلاف اگرچہ ہوتا ہے۔ اسی طرح فرنود عالم، ید بیضا، حسنین جمال اچھا لکھنے والے ہیں۔ ہمارے دوست وسی بابا فیس بک پر کمال لکھتے ہیں۔ فیس بک پر میرے سب سے پسندیدہ لکھاری ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ہیں۔ جس کسی نے انہیں نہیں پڑھا تو بہت کچھ مس کیا۔ ڈاکٹر عاصم پاکستان کے چند ایک جینوئن دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ جین سارتر اچھا لکھتے ہیں۔ انعام رانا عمدہ لکھاری ہے۔ عدنان خان کی تحریر میں طنز کم ہوجائے تو اچھا لکھتا ہے۔ عثمان قاضی کمال ہے۔ زبیر منصوری اچھا لکھنے والے ہیں۔ فیض اللہ خان، سبوخ سید اچھے لکھاری ہیں۔ جویریہ سعید اچھا لکھتی ہیں۔ ظفر عمران اچھا لکھتے ہیں۔ حنیف سمانا اچھا لکھتے ہیں۔ مہران درگ کی نثر ظالم قسم کی ہے۔ مگر اتنی زیادہ خوبصورت نثر بھی عذاب بن جاتی ہے، قاری خیال سے ہٹ جاتا ہے ۔ ثاقب ملک کی پیروڈیز کمال کی ہیں۔ آپ کے گروپ کی ثمنیہ ریاض کی وال پر بعض عمدہ تحریریں ہیں۔ ان میں ٹیلنٹ ہے۔ سید متین احمد اچھا مذہبی لکھتے ہیں فیس بک پر۔ اور بھی کئی ہیں، نام فوری شاید یاد نہ آئیں۔

    سوال: آپ نے سوشل میڈیا کے لکھاریوں کو Daleel.pk ویب سائٹ کے طور پر ایک پلیٹ فارم مہیا کیا… ویب سائٹ کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے اور آپ کو اپنے اصل مقصد میں کتنے فیصد کامیابی ہوئی؟

    جواب: دلیل ایک نظریاتی پلیٹ فارم ہے۔ مذہبی فکر، نظریہ پاکستان، قائدین تحریک پاکستان، ہماری اسلامی اخلاقیات وغیرہ کو سلیقے، شائستگی اور دلیل کے ساتھ پیش کرنا مقصد تھا اور ہے۔ یہ ایک واضح پوزیشن ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام کا ایک تصور علم، تصور اخلاق، تصور معیشت، تصور شہریت، تصور اقلیتی آبادی ہے۔ اس تصور کو ہم نے سامنے لانا، دکھانا ہے۔ دلیل کی کامیابی ماشااللہ قابل رشک رہی۔ ڈھائی تین مہینے میں ٹاپ ہزار میں آگئی ہے۔ اس وقت رائٹ یا دوسرے الفاظ میں مضامین کی یہ ٹاپ کی ویب سائٹ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس کی ریڈرشپ جینوئن ہے۔ ایک سٹوری بھی سپانسر نہیں کی گئی۔

    سوال: تصور کیجیے تحریک پاکستان زوروں پر ہے۔ مسلمانان ہند دو دھڑوں میں تقسیم ہیں؛ ایک طرف بہت بڑے علمی نام ہیں تو دوسری جانب محمد علی جناح… عامر ہاشم خاکوانی اس وقت ان حالات میں خود کو کن صفوں میں بیٹھا محسوس کرتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہوگی؟

    جواب: عامر خاکوانی اگر تحریک پاکستان میں ہوتا تو لازمی مسلم لیگی صف میں ہوتا۔ زمیندار میں مولانا ظفر علی خان کے ساتھ اس کا قلمی مورچہ ہوتا۔ میں پاکستان کا بننا ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ ڈیزائن آف نیچر ہے۔ قدرت یہ چاہتی تھی کہ ایسا ہو، مذہب کی بنیاد پر دنیا کا واحد مسلمان ملک وجود میں آئے۔ ورنہ شاید ایسا نہ ہوپاتا۔

    سوال: سوشل میڈیا کی دنیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو مثبت کی جگہ منفی طرزِ تحریر کو کہیں زیادہ پذیرائی ملا کرتی ہے، آپ کی نظر میں لوگ مثبت تحریر کی نسبت منفی تحریر کا اثر کیوں جلدی قبول کرتے ہیں؟‎

    جواب:  میرا نہیں خیال کہ مثبت تحریر کو پذیرائی نہیں ملتی۔ میں نے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی مثال دی۔ وہ اس وقت ہمارے حلقے کے مثبت لکھنے والوں میں سرفہرست ہوں گے۔ ان سے زیادہ پازیٹو، رجائیت پسند لکھاری کوئی اور نہیں اور ان کی تحریروں کو بہت پزیرائی ملی۔ مجھے خود فیس بک پر معقول قسم کی پذیرائی ملی۔ میرے کئی بلاگز پچاس ساٹھ ستر ہزار تک ویوز بھی لے گئے۔ ہزاروں کی فیس بک شیئرنگ اس کے علاوہ۔ ہاں جذباتی انداز کی تحریر زیادہ مقبول ہوتی ہے، سطحی جذباتیت خاص طور پر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت بھی اتنی میچور نہیں ہے تو سطحی چیزیں ان کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ وہ انہیں پسند اور شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ خاص کر مذہب کے حوالے سے۔ کہانیاں بھی زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ واقعاتی انداز میں لکھتے ہیں، وہ بھی پڑھے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ منفی تحریر والے لوگ فیس بک پر اتنے زیادہ مقبول نہیں۔ ویب سائٹس کا میرا تجربہ تو خاص طور پر یہی بتاتا ہے۔ اب پتا نہیں کہ منفی تحریر سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میرا خیال ہے کہ جس طرح مجھے بھی آپ کے اور دیگر لوگوں کے حلقوں میں جانا چاہیے، آپ کو میرے، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، دلیل وغیرہ کے پلیٹ فارم کا چکر لگاتے رہنا چاہیے، پھر شاید آپ کی رائے بدل جائے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ اصل میں فیس بک پر گروپنگ ہے۔ لوگوں کی اپنی پسند ناپسند ہے۔ جس فرد ، نظریے پر تنقید کی جائے، اس کےمخالف اسے فوری لے اڑتے ہیں۔ اسے اپنی وال پر شیئر بھی کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بہت محنت سے بہت عمدہ نظریاتی چیز لکھی گئی مگر حرام ہے کہ کوئی شیئر کرجائے، صرف دو چار لائکس ملتے ہیں، جبکہ کوئی اختلافی تحریر ہو اور اگر وہ مدلل اور مختصر ہو تو سیکڑوں ہزاروں میں شیئر ہوجاتی ہے۔

    سوال: کھانے پینے کے شوقین تو یقیناً ہوں گے۔ کیسی خوراک پسند ہے؟ زمین پر بیٹھ کر فل دیسی ماحول میں کھانا پسند کرتے ہیں یا چمچہ کانٹا کے ساتھ نوڈلز اور دیگر ڈشز کے ساتھ ”جنگ“ کرنا پسند ہے؟ کبھی ایسا ہوا کہ سوچا کچھ اور ہو اور پک کچھ اور گیا ہو اور اتنا بڑا کالم نگار منہ بسورکر بیٹھ گیا ہو کہ جاؤ میں نے نہیں کھانی کوئی روٹی شوٹی۔۔۔

    جواب: کھانے پینے کا میں باقاعدہ شوقین ہوں۔ ایک زمانے میں میرا ایک’’ قول‘‘ خاندان، دوستوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔ ایک دن ہم نے فرمایا کہ نمکین ڈشز مجھے پسند بہت ہیں اور میٹھا میں کھا بہت جاتا ہوں۔

    سو، مجھے کھانے میں باربی کیو ٹائپ چیزیں بہت پسند ہیں۔ تکے کباب، نمکین گوشت، دم پخت وغیرہ۔ پٹھان ہیں تو پسند بھی وہی ہے۔ پلائو مجھے بہت پسند ہے۔ بریانی پسند نہیں اور مجھے سخت اعتراض ہے کہ بریانی کو یوں گلیمرائز کیوں کیا جاتا ہے۔ ایک پلیٹ میں نصف تو وہ نکلتا ہے جسے پھینکنا پڑتا ہے؛ مسالہ، اناردانہ، املی وغیرہ، پتے اور معلوم نہیں کیا کیا۔ قیمہ مجھے پسند ہے۔ اس کی مختلف ڈشز، بھنا ہوا قیمہ، کباب، قیمہ بھنڈی، قیمہ مٹر خاص طور سے۔

    ان کے علاوہ دال بھی پسند ہے۔ خاص کر دال مونگ اور دال ماش۔ دال چاول بھی کھالیتا ہوں۔ اب تو پتلے شوربے بنواتا ہوں اپنے لیے کدو، ٹینڈے وغیرہ کے۔ ایک زمانے میں بالکل سبزیاں نہیں کھاتا تھا۔ پالک پسند ہے۔ قیمہ کریلے اچھے لگتے ہیں۔ قیمہ بھرے بھی۔ چائے پسند ہےمگر، تیز پتی والی، دن میں چار پانچ یا چھ سات بار بھی۔ کافی بھی پسند ہے خاص کر سردیوں میں۔ لاہوری نان پسند نہیں۔ افغان تنوری نان پسند ہیں۔ ہمارے سرائیکی پٹھانوں کی بعض ٹریڈیشنل ڈشز ہیں جیسے کوٹی روٹی۔ یہ دہی کے ساتھ بنتی ہے۔ انڈوں کی کڑی اور کوٹے قیمے کی ٹکیاں، ڈیرہ اسماعیل خان کی ثوبت بہت پسند ہے۔ ترک کھانے پسند ہیں۔ عرب ڈشز بھی۔

    سوال: بہت سے مشکل حالات ایسے آتے ہیں کہ اگر آپ ان میں سرخرو ہوجائیں تو شعوری طور پر ایک نیا ”جنم“ پاتے ہیں۔ پرانے جسم میں نئی روح محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ جب لگا ہو سب ختم ہوگیا ہے، کچھ نہیں رہا اور پھر اسی عدم میں سے عامر نیا روپ لے کر وجود میں آیا ہو؟

    جواب: مشکل وقت میرے اوپر بہت آئے۔ چار پانچ برس پہلے بھی خاصا مشکل وقت گزرا۔ مگر میں نے دیکھا کہ رب تعالیٰ نے ہر مشکل میں میری مدد کی اور ایسے مدد کی کہ میں اپنے رب کی عنایات وکرم پر حیران رہ گیا۔ زندگی میرے لیے سچی بات ہے اتنی مشکل نہیں رہی۔ ایک دن بھی میں بے روزگار نہیں ہوا۔ صحافت میں یہ بڑا مسئلہ رہا ہے۔ روپے پیسے کا مسئلہ نہیں رہا۔ اللہ کا بہت کرم رہا۔ مگر مشکل وقت آتے ہیں، رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، مشکل ٹل جاتی ہے۔ مہلت مل جاتی ہے۔ دعا کریں کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ آمین

  • امیتابھ بچن کے خط کے بعد ایک اور خط – عامرخاکوانی

    امیتابھ بچن کے خط کے بعد ایک اور خط – عامرخاکوانی

    ”میری پیاری بیٹی لائبہ خان خاکوانی !
    یہ خط میں ستمبر کی نو تاریخ کو لکھ رہا ہوں، سال دوہزار سولہ اور مقام لاہور شہر ہے، وہی لاہور جسے سو، سوا سوسال پہلے برصغیر کے ایک عظیم لیڈر سرسید احمد خان نے زندہ دلان کا شہر کہا تھا۔

    بیٹی لائبہ خان! یہ خط ویسے تو تمہارے ہی نام ہے، مگر اس خوبصورت شہر لاہور، ہمارے پیارے ملک پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی ان گنت بچیوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ کاش میری یہ تحریر تمہارے ساتھ ان کے دلوں میں بھی اتر سکے۔ کاش رب تعالیٰ اس لفظوں میں وہ فسوں پھونک دیں، جن کا اثر دیر تک رہے۔ میری بیٹی! تم حیران تو ہوگی کہ آج تمہارے باپ نے گفتگو کے لیے خط کا سہارا کیوں لیا؟ ایک وجہ تو یہی ہے کہ میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا، وہ ایک سے زیادہ بیٹیوں تک پہنچ سکیں، یہ خیال آیا کہ کبھی لکھے الفاظ زبانی گفتگو سے زیادہ مئوثر ثابت ہوتے ہیں۔ اس تحریر کی ایک بڑی وجہ یہ بنی کہ پچھلی رات میں نے مشہور بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے اپنی پوتی اور نواسی کے نام ایک خط لکھا ہے، جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر بھی شیئر کی گئی ہے۔ امتیابھ بچن کو تم جانتی ہوگی، وہی طویل قامت اداکار جو بھوت ناتھ فلم میں بھوت بنا تھا، تمہیں یاد ہوگا کہ اس سلسلے کی دوسری فلم بھوت ناتھ ریٹرن ہم نے اکٹھی دیکھی تھی۔ انہوں نے اپنی پوتی ارادھیابچن اور نواسی نیویا نندا کے نام خط لکھا ہے۔ وہ خط پڑھتے ہوئے مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ مجھے بھی اپنی اکلوتی بیٹی کے نام ایک خط لکھنا چاہیے۔ اپنی بھانجی ایشل فاطمہ، بھتیجی ہما طاہر کو مخاطب کرنا چاہیے، اسلام آباد میں رہنے والی مریم خان اورل اہور کی عنیزہ جاوید ملک جیسی تمہاری سہیلیوں، بلکہ ان تمام مسلمان بچیوں کے نام یہ خط کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اگلے چند برسوں میں اپنی تعلیم مکمل کرنی، اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔

    بیٹی! پہلے میں امیتابھ بچن کے اس خط کی کچھ تفصیل بتانا چاہوں گا، امیتابھ بچن کہتے ہیں، ”آپ دونوں کے نام کے ساتھ چاہے نندا لگے یا بچن، لیکن آپ ایک لڑکی، ایک عورت ہیں! اور چونکہ آپ خواتین ہیں، لہذا لوگ آپ پر اپنی سوچ، اپنی حدود تھوپنے کی کوشش کریں گے۔ ‘وہ آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے، کس طرح کا برتائو کرنا ہے، آپ کو کس سے ملنا ہے اور آپ کو کہاں جانا ہے. ان لوگوں کے نظریات، فیصلوں کے سائے میں زندگی مت گزارنا، اپنی عقل کے مطابق اپنا انتخاب خود کرنا۔ اس بارے میں کسی کی مت سنیں کہ آپ کو کس سے دوستی کرنی ہے اور کس کے ساتھ نہیں، شادی صرف تب ہی کریں جب آپ واقعی شادی کرنا چاہتی ہوں۔ لوگ باتیں کریں گے، وہ کچھ خطرناک باتیں بھی کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو ہر ایک کی بات سننی ہے، اس بات کی کبھی بھی پروا نہ کریں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ دوسرے لوگوں کو اپنے لیے فیصلے مت کرنے دیں۔“

    میری نور نظر، میری لخت جگر ، لائبہ! ممکن ہے یہ خط پڑھ کر تم یہ سو چ رہی ہو کہ اس میں برائی کیا ہے؟ بچن صاحب نے اپنی پوتی، نواسی کو صرف یہ مشورہ ہی دیا ہے کہ لوگوں کی نہ سنو، اپنے فیصلے کرو اور اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرو۔ بات واقعی سادہ، مگر اس کے اندر ہی ایک فتنہ موجود ہے۔ دیکھو میری بیٹی! تم میں اور امتیابھ بچن صاحب کی پوتی، نواسی میں ایک بڑا، بنیادی فرق ہے۔ وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، مگر ایک فرق بہرحال ہے۔ تم ایک خدا کو مانتی ہو، اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺکو اپنا پیغمبر، آقا اور حقیقی رہنما مانتی ہو۔ ایک مسلمان لڑکی، مسلمان عورت کا زندگی کے بارے میں تصور دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے اندر اعتماد، مضبوطی، اپنی شخصیت پر یقین، کچھ کرگزرنے کا عزم، یہ سب ہونا چاہیے، مگر اسے اپنی زندگی اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارنی ہے۔ اس کی زندگی کا فکری، نظریاتی روڈ میپ پہلے سے طے شدہ ہے۔ اپنی عقل و دانش کو وہ استعمال کرتی، اس سے اچھائی برائی میں تمیز کرتی، راہ راست یعنی سیدھے راستے کا انتخاب کرتی اور پھر اپنے رب سے مدد مانگتے ہوئے اس پر چل پڑتی ہے۔ اپنی عقل کو وہ الہامی دانش پر غالب نہیں کرتی۔ جو کچھ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کہہ دیا، وہ اس کے لیے حرف آخر ہونا چاہیے۔ ہمارے رب نے ہمارے لیے کچھ پابندیاں لگائی ہیں، بہت سے معاملات میں آزادی بھی حاصل ہے۔ کچھ چیزوں کو کرنے سے روکا ہے، بہت سی چیزوں کی اجازت دی ہے۔

    میری بچی! میری تمھیں یہی نصیحت، وصیت ہے کہ جن باتوں سے رب نے روکا، ان سے دور رہو، تمہاری عقل خواہ جس قدر بہکائے، نفس دلائل دے کہ یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں، کرنے سے کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ، تم اپنی عقل کو استعمال کرو، مگر رب تعالیٰ کے احکامات سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا طریقہ وضع کرنے کے لیے۔ جو حدود یا جو لائنز اللہ نے لڑکیوں کے لیے مقرر کر دی ہیں، انہیں کبھی کراس نہ کرو۔ شرم، حیا اسلامی معاشرے کا بنیادی جز ہے۔ ہمارے آقا، ہمارے سردار، سرکار مدینہ محمدﷺ نے فرمایا کہ ہر معاشرے کا ایک جوہر ہوتا ہے، حیا اسلامی معاشرے کا جوہر ہے۔ میری بچی اپنی اس شرم اور حیا کی ہمیشہ حفاظت کرنا۔ اپنی عزت، عصمت کی ہمیشہ جان سے بھی بڑھ کر حفاظت کرنا۔ تم جب سکول حجاب لے کر جاتی ہو، تمہارے چہرے پر حیران کن معصومیت اور نرمی آ جاتی ہے، تمہارے باپ کے دل سے ہمیشہ یہی دعا نکلتی ہے کہ زندگی بھر تم ایک باحجاب، باحیا زندگی گزارو۔ میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتا کہ اپنی زندگی کے فیصلے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دو۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ میری خواہش ہے کہ تم میں اعتماد آئے، تمہارے اندر مضبوطی پیدا ہو۔ بطور لڑکی، بطور عورت تم ہرگز کسی سے کم تر نہیں۔ کسی مرد کو کسی عورت پر برتری حاصل نہیں ہے۔ یہ مگر میری خواہش ہے کہ پلیز زندگی میں مرد بننے کی کوشش نہ کرنا۔ تم ایک لڑکی، عورت ہو، کائنات کی خوبصورت ترین مخلوق۔ اس حیثیت سے لطف اٹھائو، اللہ نے تمہارے اوپر کچھ فرائض رکھے ہیں، وہ پورے کرو، تمہارے بہت سے حقوق بھی ہیں، جوتمہیں ان شاءاللہ ضرور ملیں گے۔

    پیاری بیٹی! تم جانتی ہو کہ گھر میں بطور بیٹی فائدے زیادہ ملے ہیں، حق تلفی کوئی نہیں ہوئی، تمہارے تینوں بھائیوں کی نسبت تمہاری زیادہ باتیں، زیادہ فرمائشیں مانی گئی ہیں۔ اس دن میں نے خود سنا کہ تم نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں بابا کی اکلوتی بیٹی ہوں، وہ میری بات نہیں ٹالتے۔ میری بیٹی، میری دعا ہے کہ زندگی بھر یہی طمانیت، آسودگی تمہارے ساتھ رہے۔ اگلے چند برسوں میں تمہارے سامنے یہ سوال بار بار آئے گا، میڈیا کے ذریعے، فلموں کے ذریعے تمھیں یہ بتایا جائے گا کہ ہم لڑکیاں کسی سے کم نہیں، ہم بھی ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ میری بچی! تم سمجھ لینا کہ یہ احساس کمتری کی شکار عورتوں کا بیان ہے۔ لڑکیاں قطعی طور پر مردوں سے کمتر نہیں، مگر ان کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی۔ انسانی جسم میں ہاتھ کس قدر اہم ہیں، مگر پیر بھی کم اہم نہیں، ہاتھ کے بغیر بھی جسم ادھورا، پیر کے بغیر بھی انسان معذور ہے۔ کام دونوں کا الگ الگ ہے۔ آنکھوں کا اپنا کام، کان کا الگ اور زبان کا الگ ہے۔ اگر یہ سب ایک ہی کام کرنے لگیں تو انتشار پھیل جائے، انسان سلامت ہی نہ رہ پائے۔ اس لیے احساس کمتری کا شکار ہونے کے بجائے پورے اعتماد سے ایک عورت کی ذمہ داریاں نبھائو۔ اگر حالات کا تقاضا ہو توگھر سے باہر جا کر ملازمت بھی کرو، اپنے خاندان کی معاشی کفالت میں ہاتھ بٹائو۔ اگر اس کی ضرورت نہیں تو اپنے گھر کو سنبھالنا، اپنے اہل خانہ کا خیال رکھنا، نئی نسل کی بہتر تربیت کوئی کم اہم کام نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کاموں کو اچھے طریقے سے سرانجام دینے والی عورت کو جنت کی خوش خبری سنائی۔ تم جانتی ہو کہ کسی مسلمان کے لیے جنت کی خبر سے بڑی اور اچھی کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔

    میری بچی، میری آنکھوں کا نور! میں تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے خود لو، سوچ سمجھ کر کرو، مگر حق کے آگے جھکنے، سرنڈر کرنے میں کبھی گریز نہ کرنا۔ اگر کوئی تمہارے حق کی طرف بلائے، اچھی نصیحت کرے تو اسے یہ سمجھ کر رد نہ کرنا کہ میں لوگوں کی نہیں اپنی مرضی کروں گی۔ نہیں یہ فتنہ ہے۔ شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال۔ حتمی بات صرف اللہ کے رسول ﷺ کی ہے۔ اپنا آئیڈیل ، رول ماڈل ان کی بیٹی اور جنت میں خواتین کی سردار حضرت بی بی فاطمہ ؓ کو بنائو، اماں عائشہ ؓ کو بنائو، جن کے علم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی رہنمائی کی۔ رب تعالیٰ تمہارے لیے زندگی کا سفر آسان کرے، ہر مشکل وقت پراس کی مدد شامل رہے۔“

  • کالم کیسے لکھا جائے؟ پروفیسر رشید احمد انگوی

    کالم کیسے لکھا جائے؟ پروفیسر رشید احمد انگوی

    آپ کو کالم لکھنا آتا ہے؛ آپ کو کالم پڑھنا اور سمجھن اآتا ہے؛ آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں؛ آئیں ایک کہانی سنیں اور درمیان میں بالکل نہ چھوڑیں۔

    کل کی بات ہے میں ایک جگہ چلا گیا۔ وہاں ایسے لوگ جمع تھے جو کالم لکھ لکھ کر ساری دنیا میں مشہور ہوگئے اور ایسے بھی تھے جو ان جیسے بننا چاہتے تھے اور ہمارے جیسے بھی تھے جو ان سب کو غور سے دیکھے جا رہے تھے۔ ایک لڑکی جو شاید پی ٹی وی کی کوئی اینکر تھی، بار بار ڈائس پر آکر اپنے خوب صورت شعر سنا رہی تھی کہ ہم نے مدتوں سے ایسے شعر سنے ہی نہیں تھے۔ اس نے آتے ہی ایک مصرع پھینک دیا کہ ’’لکھنے پہ جو آجائوں تو قلم سے سرقلم کرنا آتا ہے۔‘‘ ہمیں اکبر الہ آبادی یاد آگئے کہ
    ’’یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
    افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی‘‘
    اور ہمارا دھیان کراچی کی طرف چلا گیا کہ جب قلم سے سرقلم کیا جا سکتا ہے تو شہر کو بوری بند لاشوں سے کیوں منسوب کردیا۔ خیر واپس اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔ یہ شملہ پہاڑی کے قرب میں ایک خوبصورت ہوٹل کے ایک ہال کی کہانی ہے جہاں کالموں سے شہرت پانے اور ان جیسا بننے کی خواہش رکھنے والے میزوں کی ایک مستطیل کے باہر کرسیوں پر جلوہ افروز یا رائونڈ ٹیبل پر تشریف فرما تھے اور وہ لڑکی ڈائس پر اپنا جادو جگا رہی تھی۔

    کراچی، حیدر آباد، آزاد کشمیر، مانسہرہ، بالاکوٹ، چکوال، سیالکوٹ سمیت مختلف شہروں سے شرکاء آئے ہوئے تھے اور ہم خود سلہ جی مرغزار لاہور سے ادھر کھنچے چلے آئے تھے۔ کالموں کی دنیا کے لیجنڈ منو بھائی مہمان خصوصی تھے۔ ورچوئل یونیورسٹی کے ایک استاد صاحب وقت کی قدر و قیمت پر کالم سناتے رہے اور پھر کالم نگاروں کی دنیا کے ایک ہیرو عامرخاکوانی سٹیج پر تھے۔ انہوں نے کالم نگاری کے اصولوں اور تقاضوں پر نہایت خوبصورت لیکچر دیا۔ اپنے لیکچر کی روشنی میں کسی جرنلزم یونیورسٹی میں پروفیسر معلوم ہوتے تھے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کا خیمہ بہاول پور کی وفا کش مٹی سے اٹھا۔ انہوں نے نوجوان کالم نگاروں کو چار بنیادی باتوں پر فوکس کرتے ہوئے ہدایات دیں۔
    1: زبان پر مہارت حاصل کیجیے۔
    2: ادب میں وسعت مطالعہ اپنائیے بشمول شاعری، ناول، افسانہ، مکالمہ، عالمی ادب۔
    3: آپ کا کوئی نظامِ فکر اورکلچر کا شعور ہو اور آپ کو کلچر کے مطالعہ ومشاہدہ کا ذوق حاصل ہو۔
    4: کالم ایک پیکج ڈیل ہے ۔ آپ کی پشت پر ایک مشاورتی و فکری ایسا مجلسی نظام ہو کہ آپ اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کرسکیں اورنئی سے نئی باتیں آپ کے مشاہدے میں آتی رہیں۔ انہوں نے قومی و ملکی اور علاقائی و مقامی سیاسیات و حالات سے متعلق مختلف اخبارات کے ایڈیشنوں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تاکہ آپ کچھ کہنے سے پہلے اچھی طرح باخبر ہوں۔

    منو بھائی بلاشبہ ایک زندہ لیجنڈ ہیں۔ انہیں خطاب کی دعوت دی گئی تو تمام شرکاء احتراماً کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہے تھے۔ منو بھائی نے عامر خاکوانی کے لیکچر کو بہت داد دی اور کئی بار ان کی گفتگو کے حوالے دیے۔ انہوں نے کالم نگار کے لیے چار باتوں کو اہم قراردیا۔ مطالعہ، تربیت، نظریہ، روّیہ۔ انہوں نے نظریے کو ایمان قراردیتے ہوئے جملہ ارشاد فرمایا: ’’زبان اور ایمان کے بغیر آپ کالمسٹ نہیں بن سکتے‘‘۔ انہوں نے ایک ہی چیز کو مختلف انداز سے دیکھنے کو ایک مثال سے واضح کیا۔ یہ مثال درخت کی تھی۔ ’’درخت‘‘ ایک حقیقت ہے اور اسے دیکھنے والے اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں مثلاً لکڑ ہارا اپنی ضرورتوں کے تحت اس پر نظر ڈالتا ہے، مالی اپنی نظر سے، کارپینٹر اپنی نظر سے، گھونسلے کے پرندے اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہر شخص اپنا نظریہ رکھتا ہے۔ سوچ کی بہت اہمیت ہے۔ ہر ایک کی بات کو سننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں سیکولر کا ترجمہ لادینی نہیں بلکہ برداشت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ اسلام جدید ترین مذہب ہے اور ہم تمام انبیاء کو صحیح مانتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور جو چیز فطرت کے خلاف ہے، وہ اسلام کے بھی خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں سچ کی تلاش رہنی چاہیے‘‘۔ ہم سے حقائق چھپائے نہ جائیں اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ کسی وجہ سے حل نہیں ہوسکا۔ انہوں نے خواتین کی تعداد بڑھانے کا مشورہ دیا اورکہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ خواتین ہر شعبہ زندگی میں آگے آ کر ذمہ داریاں سنبھال رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت صرف جسم نہیں عقل، سوچ اورسلیقہ بھی رکھتی ہے۔

    ہر دل عزیز صحافی اختر عباس کو دعوت خطاب دی گئی تو انہوں نے نوجوان کالم نگاروں سے کہا کہ جان لیجیے کہ دس بارہ سال پیشہ ورانہ محنت کے لحاظ سے کاشتکاری کا زمانہ ہے۔ انہوں نے اشفاق احمد مرحوم کی محفل کا ذکر کیا کہ انہیں بتایا گیا کہ مکھی کی سولہ آنکھیں (کمپائونڈ آئی) ہوتی ہیں تو حیرانی سے جواب دیا کہ بیٹھتی تو پھر بھی غلاظت پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی زندگی میں کنٹری بیوٹ کیجیے۔ ان کا ایک خوبصورت جملہ ہے کہ’’انسانوں کو پڑھنا بہت ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کالم نگار کسی سیاسی پارٹی کا سپوکس مین نہ بنے۔ انہوں نے نوجوان کالم نگاروں کو تاریخ اور آٹوبائیو گرافی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر آپ کو اختلاف کرنا نہیں آئے گا تو آپ کالم نگار نہیں بن سکتے۔

    گل نوخیز اختر خوشگوار لب و لہجے میں بات کرنے کا مخصوص سٹائل رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختصر خطاب کیا اور کہا کہ ’’کالم میں نیا پن ہونا چاہیے‘‘۔ کہنہ مشق صحافی اور ادیب سجاد میر نے آتے ہی کالم نگاروں کو تین نکاتی لائحہ عمل پیش کردیا ’’لکھتے رہو، سوچتے رہو اور جیتے رہو‘‘۔ پھر کہا کہ لکھنے کا فن سیکھو اور آپ کی تحریر کا ایک اسلوب بن جائے۔ انہوں نے کالم کی تعریف یہ بیان کی کہ :’’ڈھیلا ڈھالا ابان جو دماغ سینکتا ہے‘‘۔ اور کہا جو دل میں آئے لکھ ڈالو۔ آپ کی تحریر کا اسلوب ہی کالم ہے۔ داد نہ بھی ملے تو بھی لکھتے جائیے.

    اور اب مجیب الرحمن شامی صاحب نے سٹیج سنبھال لیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کالم آپ کے نقطہ نظر کا اظہار ہے اور کالم کسی مسئلے پر آپ کا پرسنل ایڈیٹوریل یا ذاتی تاثر ہے۔ انہوں نے یہ شعر اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کیا:
    ’’سیف اندازِ بیان رنگ بدلتا ہے
    ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں‘‘۔
    انہوں نے انفرادی رنگ کی تائید میں لائف سائنسز کا مشہور ’’نظریۂ تنوع‘‘یا ورائٹی کا تصور پیش کیا کہ دنیا میں کوئی دو انسان ایک جیسے نہیں ہوئے، نہ کسی کے پاس نورجہاں کی آواز آئی نہ کوئی اور غالب و اقبال آئے گا۔ اس لیے آپ کا اسلوب یا سٹائل ہی آپ کا کالم ہے۔ انہوں نے تاکید سے کہا کہ لکھنے سے زیادہ پڑھنا ضروری ہے۔ انہوں نے پتے کی بات یہ بتائی کہ ’’اخبار کی ورتھ کالم ہے‘‘۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ سیاست سے ہٹ کر سائنس، زراعت اور دوسرے شعبہ جات پر بھی لکھیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی فلم کی طرح پہلا کالم بھی ہٹ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے میزبان پی ایف یو سی (پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس) کو تلقین کی کہ آئندہ کالم نگاری کا مقابلہ کرایا جائے اور اعلیٰ کارکردگی پر انعامات دیے جائیں جن میں وہ خود بھی حصہ لیں گے۔ انہوں نے کالم نگاروں کو اپنے اندر سینسر لگانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام کے حوالے سے کہا کہ اسے ٹی وی کالم کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ کالم کو کنکلوڈ کرنا (نتیجہ نکالنا) اپنے قارئین پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ جو چاہیں نتیجہ اخذ کریں۔ شامی صاحب نے جاتے جاتے پی ایف یو سی کے ذمہ داران کو متوجہ کیا کہ اپنے سرٹیفیکیٹ انگلش کے بجائے اردو میں لکھوائیں۔ اسی موقع پر ایک نوجوان کالم نگار رضوان اللہ خان کی کتاب ’’کامیابی ہے منتظر‘‘ کی نقاب کشائی بھی کی گئی اور عملاً یہ پورے پروگرام کا پیغام بھی تھا کہ ہمت کرتے رہیں، محنت جاری رکھیں، یقینا کامیابی آپ کی منتظر ہے کہ علامہ اقبال کاارشاد ہے ’’زندگی جہد است استحقاق نیس‘‘یعنی زندگی جدوجہد ہی کا نام ہے ورنہ کسی شخص کا کوئی حق اس کے سوا نہیں۔ ہم نے حسبِ وعدہ آپ کو کہانی سنا دی۔ جو کچھ ہم نے دیکھا سنا، آپ تک پہنچا دیا۔ شاد و آباد رہیے۔ پاکستان زندہ باد

  • عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    زوہیب زیبی الحمدللہ محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب سے پاکستان پر فتنہ لادینیت کی یلغار اور اس کے سدّباب کے حوالے سے 4 گھنٹوں پر مشتمل ایک بھرپور نشست منعقد ہوئی جس میں سیکولرز کی طرف سے اپنی حدود پھلانگنے کی وجوہات اور انہیں واپس ان کی حدود میں دھکیلنے کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ خاکوانی صاحب نے اپنے مشاہدے و فراست کے مطابق مختلف مشوروں سے نوازا نیز انتہائی اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوران نشست ہی ممکنہ مدد و تعاون کی فراہمی کا آغاز بھی کردیا۔ ان سے مل کر ایک بات پر اطمینان ہوا اور ایک لحاظ سے ڈھارس بندھی کہ پرنٹ میڈیا میں ایسے صحافیوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو سیکولرازم کو اسلام کا متبادل نہیں سمجھتی ہے، اسلامی عقیدے اور نظریے پر سختی سے کاربند ہے اور اس کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔

    خاکوانی صاحب کے بارے میں ان کی تحاریر کی روشنی میں جیسا اندازہ قائم کیا تھا، انھیں اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ بلاشبہ وہ مخلص انسان، سچے پاکستانی، اسلام پسند مسلمان اور معتدل مزاج صحافی ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہم مسلمانوں کے دل کی آواز یعنی دوسرے اوریا مقبول جان بن کر ابھریں گے۔ اگرچہ آغاز نشست میں قدرے تکلف تھا مگر پرتکلف عشائیے کے دوران سارے تکلفات مٹ گئے اور پھر ان سے کھل کر گوناگوں موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

    خاکوانی صاحب کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ان کی آخری حد تک معتدل مزاجی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے ہر سوال کا جواب نیز کسی بھی دیگر معاملے میں قول وسط ہی اختیار کیا۔ ناچیز کے پاک فوج کے حوالے سے جو اشکالات تھے بشمول ممتاز قادری رحمہ اللہ کا حکومت کی جانب سے پرفریب قتل وغیرہ، ان کو بھی بہت حد تک دور کرنے کی کوشش کی نیز بالخصوص آرمی چیف کے بارے ایک قدرے تلخ اعتراض کا بھی اپنی معتدل مزاجی سے بہت حد تک دفاع ہی کیا۔ ان کے علاوہ کچھ باتیں نہاں از دستاویزات ”Off the record“ ہونے کے سبب بیان نہیں کی جا سکتیں۔

    خوش قسمتی سے خاکوانی صاحب ہماری اینٹی سیکولرازم موومنٹ سے قدرے آگاہ ہونے کے سبب ناچیز سے پہلے ہی غائبانہ متعارف تھے، چنانچہ نام و پہچان سنتے ہی نہایت شفقت سے ملے اور سوشل میڈیا کی مہم کو تیز کرنے کے لیے اپنی انقلابی ویب سائٹ جو کہ بلاشبہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے یعنی دلیل داٹ پی کے سے متعلق حتی المقدور تحاریر و تجاویز بھیجنے کا حکم بھی دیا۔

    دوران گفتگو ایک بار کہنے لگے”میری یادداشت، میرے جسم کی مانند ہاتھی جیسی ہے.“ ۔ الغرض کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، میں ان کی شخصیت میں موجود انکساری و سادگی کا قائل ہوتا گیا اور وقت رخصت میں صدق دل سے یہ جملہ کہنے سے نہ رک سکا؛
    ”Sir ! No doubt you are a great person“
    دعا ہے کہ خاکوانی صاحب اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر طور پر نیک مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں ۔۔ آمین

  • فیصلے کا وقت آ گیا   –  عامر خاکوانی

    فیصلے کا وقت آ گیا – عامر خاکوانی

    پہلے ایک منظر فرض کریں۔

    لندن میں پاکستانیوں کا ایک اجتماع جاری ہے۔ لاہور سے ایک مشہور مقرر کی دھواں دھار تقریر سپیکر پر نشر کی جا رہی ہے۔ پاکستانی حاضرین کے جوش وخروش کا ٹھکانا نہیں۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھیں چمک رہی ہیں۔ نقاب پوش اور سکارف لیے لڑکیاں اور خواتین کا جوش دیدنی ہے۔ اتنے میں مقرر کا غیض وغضب انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ چیخ کر وہ کہتا ہے:

    ’’ برطانیہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کا دشمن ہے۔ اس ملک میں آپ رہتے ہیں، مگر اس نے کیا دیا ہے؟ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ تمام دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش یہاں سے پھوٹتی ہے۔ آج اٹھیں اور اپنے ایمان کی قوت ان گوروں کو دکھا دیں۔ انہیں ایسا سبق سکھائیں کہ زندگی بھر یاد رکھیں۔ تمام سازشیں دم توڑ جائیں۔ یہ بی بی سی جو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف گمراہ کن خبریں چلاتا ہے، اسے جاکر تباہ کردیں۔ ان بی بی سی والوں کو سبق سکھائیں۔۔۔۔۔۔“

    یہ فقرے سنتے ہی لوگ جوش وخروش سے اٹھتے ہیں اور باہر کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ پرجوش نوجوان کرسیاں پٹخ پٹخ کر ان کی ہتھیاں توڑ کر ہتھیار بنالیتے ہیں اور باہر پارک کی گئیں گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ خواتین برق رفتاری سے بی بی سی کے دفتر کا رخ کرتی اور وہاں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ موجود لڑکے رپورٹروں پر حملے کرتے، گھونسے برساتے، شیشے توڑتے اور میزیں الٹنے لگتے ہیں۔ حملہ اس قدر شدید کہ ہر کوئی سہم جائے اور پولیس کے آنے تک پورا بی بی سی یرغمال بنا رہے۔ پولیس آ کر ان مشتعل مظاہرین سے ہر ایک کی جان چھڑائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اوپر بیان کیا گیا واقعہ مکمل طور پر فرضی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کہیں پر کچھ نہیں ہوسکتا، نہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود اگر فرض کریں ایسا کبھی ہوا ہوتا تو برطانیہ عظمیٰ کا اگلا ایکشن کیا ہوتا؟ یقینی طور پر ان تمام مشتعل غنڈوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جاتا۔ ایک بھی فرد بچنے نہ پاتا۔ پاکستان پر شدید ترین سفارتی دبائو ڈال کر وہ پاکستانی مقرر جس نے اپنے اشتعال انگیز تقریر سے یہ قیامت اٹھائی، اسے گرفتار کراکر دہشت گردی کی دفعات میں جیل پھینکوا دیا جاتا۔ وہ تمام اقدامات کیے جاتے ، جن سے آیندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو پائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ آج شام کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں۔۔۔ شاید غنڈوں کا لفظ استعمال کرنا بھی سخت نہ ہو۔۔۔ نے جس طرح میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنایا۔ اے آر وائی اور سما پر حملہ کرکے شدید ترین توڑ پھوڑ کی، صحافی زخمی کردئیے، گاڑیاں جلا دیں اور ایک قیمتی جان بھی لے لی۔ کیا حکومت پاکستان اس بھیانک واقعے پر کوئی مضبوط ردعمل دے گی؟ کیا برطانوی حکومت سےسخت ترین سفارتی احتجاج کرکے وہ نیم فاتر العقل شخص، جو برطانوی شہری ہے اور ان کے اپنے سابق راہنما کے بقول شراب کے نشے میں دھت ہو کر، نہایت غلیظ زبان استعمال کرتا، پاکستان کے خلاف نفرت آمیز نعرے لگواتا اور اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے میڈیا اور عوام کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگاتا ہے، کیا اس شخص کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاسکتا؟ اسے ٹیلی فونک خطابات سے نہیں رکوایا جاسکتا؟ کیا برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ بلاکر سخت احتجاج کیا جائے گا؟ اگر پاکستان سے کسی کو برطانیہ تقریریں کر کے اشتعال پھیلانے کی اجازت نہیں تو پھر کسی برطانوی شہری کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں آگ لگانے کا حق کس طرح دیا جاسکتا ہے ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایم کیو ایم کے قاتلوں، ٹارگٹ کلر سکواڈ اور بھتہ خور عناصر کے خلاف آپریشن کو مہاجر قوم کے خلاف آپریشن قرار دیتے تھے، آج پاکستان کے خلاف شرمناک زبان کے استعمال اور چینلوں پر دھاوے اور دہشت گردی کے اس واقعے پر ان کا کیا کہنا ہے؟

    کیا اب بھی وہ اس جنونی شخص کو لیڈر مانتے ہیں، جسے یہ سلیقہ نہیں کہ کس طرح گفتگو کرنا ہے۔ جو ہزاروں کے مجمع میں آرمی چیف، ڈی جی رینجرز کو ننگی گالیاں بکتا اور انتہائی گھٹیا، گندی زبان استعمال کرتا، جو لوگوں کو تشدد، بدمعاشی اور دہشت گردی پر اکساتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والے اس برطانوی شہری کو کس طرح پاکستانی قانون کے شکنجے میں لایا جاسکتا ہے؟ اس کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا؟ اس کی تمام تر جائیداد ضبط، اس کے اثاثے ضبط اور اس کی نفرت انگیر تقریریں سننے والے، ان سے محظوظ ہونے والے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں کے خلاف مقدمات درج نہیں ہونے چاہئیں؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آخر میں صرف یہ کہ کچھ لوگ اس واقعے کا دفاع کرتے ہوئے اس کی طرح طرح تاویلیں کریں گے۔ اسے مہاجر قوم کے خلاف کارروائی کا نام دیں گے۔ عجیب وغریب نکات اٹھاکر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی کوشش کریں گے۔۔۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے بھی کھل کر سوال کیا جائے۔ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جائے اور سوچا جائے کہ اگر پاکستان میں بیٹھ کر ایک برطانوی شہری کے کہنے پر ایسے شرمناک نعرے لگائے جائیں تو غداری یہ نہیں تو پھر کس چڑیا کا نام ہے؟؟؟

  • ’’دلیل‘‘ کی مقبولیت کا اصل راز کیا ہے؟ سید سلیم رضوی

    ’’دلیل‘‘ کی مقبولیت کا اصل راز کیا ہے؟ سید سلیم رضوی

    اس وقت سوشل میڈیا پر جو اُردو سائٹس بہت زیادہ پاپولر ہیں، ’’دلیل‘‘ نے بہت کم عرصے میں نہ صرف ان میں نمایاں جگہ بنا لی ہے بلکہ چند ہی ماہ میں کئی سنگ میل عبور کر لیے ہیں۔ اس کی چند خاص الخاص وجوہ ہیں۔ میں کسی لمبی تمہید میں پڑے بغیر ان کا ذکر اختصار سے کرنا مناسب سمجھوں گا۔

    1۔سب سے بڑا ایڈوانٹیج جو برادرم محمد عامر خاکوانی صاحب کو حاصل ہے، وہ ہے میڈیا کے ساتھ پہلے سے وابستگی، ماشاء اللہ خاکوانی صاحب کی تحریر کا ایک خاص اُسلوب ہے، ان کی تحریر میں بلاکی روانی اور بلاغت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی بات بڑے مدلل پیرائے میں بیان کرنے کا جو ملکہ حاصل ہے، وہ پڑھنے والے کے دل و دماغ پر گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ خوف مجھے یہ ہے کہ میرے توصیفی الفاظ کہیں خوشامد کے زُمرے میں نہ آ جائیں، صرف اتنا بیان کر دوں کہ کم و بیش آٹھ سال سے ان کے کالموں کا باقاعدہ قاری ہوں اور ان شستہ و شائستہ طرز تحریر کا دل وجان سے معترف بھی، تب سے جب وہ روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ تھے اور اپنا پورا نام ’’محمد عامر ہاشم خاکوانی‘‘ لکھا کرتے تھے۔ مجھے غالباً ان کے کالم کی طرف اسی لمبے نام نے متوجہ کیا تھا۔ ایک بالکل نووارد کالم نویس کو مَیں نے محض جانچنے اور پرکھنے کی غرض سے پڑھنے کی کوشش کی تو اِقرار کیے بغیر نہ رہ سکا کہ یہ نوجوان ہمارے کالم نویسوں کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ایک اچھے کالم کی جو خصوصیات ہیں، ان میں سب سے فائق چیز الفاظ کا انتخاب ہے، (میرے خیال میں انتخاب کہنا بھی زیادتی ہوگی کی الفاظ شعوری طور پر چُنے نہیں جاتے بلکہ شاعری کی طرح نثر میں بھی اِن کی آمد ہوتی ہے) تحریر اس قدر مؤثر، دِلکش اور بےساختہ ہو کہ قاری کو اپنے ساتھ لے کے چلے، اور دوسرے یہ کہ علم میں اضافے کا ذریعہ بھی بنے۔ یہی وجہ ہے کہ خاکوانی صاحب اس عرصے میں قارئین کا اِتنا وسیع حلقہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ’’دلیل‘‘ کے نام سے جو بلاگ بنایا ہے ( اسے بےشک سائٹ کہہ لیجیے) اس کے پڑھنے والوں کی بڑی تعداد ان کے پہلے سے موجود قارئین پر مشتمل تھی، جس میں اردہ زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے وہ لوگ تیزی سے شامل ہوتے جا رہے ہیں جن کی براہِ راست انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور ان کے پاس اخبارات کے مطالعے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

    2۔ برادرم عامر خاکوانی نے اپنے چند کالموں میں قارئین کو سوشل میڈیا کی طرف مائل کرنے میں بھی شعوری کردار ادا کیا اور فیس بک کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے قارئین کی دلچسپی سوشل میڈیامیں بھی کئی گنا بڑھا دی ہے۔ جو لوگ اخباری کالموں کو پڑھ لینے پر اکتفا کرتے تھے یقینا اس سے انہیں تحریک ملی اور ان میں سے جن کی رسائی (ACCESS) انٹر نیٹ تک تھی انہوں نے ’’دلیل‘‘ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے اور یوں قارئین کا ایک بہت بڑا حلقہ بالواسطہ طور پر’’دلیل‘‘ کو میسر آ گیا ہے۔

    3۔ میری رائے میں خاکوانی صاحب کی یہ خصوصیت سب پر فائق ہے کہ انہوں نے اپنے قارئین سے ایک اپنائیت بھرا تعلق قائم کر لیا ہے۔ لوگ بڑی چاہت اور خلوص دِل کے ساتھ، بڑے ہی پُر اعتماد انداز سے ان کے ساتھ براہِ راست وابستہ ہو چکے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ خاکوانی صاحب اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے مضامین کے جواب میں کمنٹس کرنے والوں کے خیالات کو نہ صرف بہ نفس نفیس لائیک کرتے ہیں بلکہ جہاں تک بن پڑے ان میں سے کچھ کا جواب بھی دیتے ہیں۔ (آج کل ان کی طرف سے Likes اور جوابی کومنٹس میں خاطرخواہ کمی آ چکی ہے)

    4۔ بیشتر قارئین ’’دلیل‘‘ پر لگنے والے مضامین کو پڑھنے پر اس لیے بھی آمادہ ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف قارئین کی توجہ دلانے میں خاکوانی صاحب کی پر خلوص سفارش بھی شامل ہوتی ہے جو چند خوبصورت اور پر کشش الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یوں ہم جیسے ان کے دیرینہ نیازمند ایسے مضامین کو اس بنا پر نظرانداز نہیں کر سکتے کہ جو بات خاکوانی صاحب کے دل کو چھو گئی ہے، اس میں یقینا بڑا اثر ہوگا۔

    5۔ میں اس بات کا برملا اظہار کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ خاکوانی صاحب بڑے دل گردے کے آدمی ہیں۔ مجھے نہیں خبر کہ’’دلیل‘‘ کو لانچ کرنے کا ان کا کب سے ارادہ تھا یا یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا؟ وجہ کچھ بھی ہو سب سے پہلے خاکوانی صاحب نے برادرم وجاہت مسعود کی سائٹ’’ہم سب‘‘ کا اپنے قارئین سے تعارف کرایا۔ خود میں ان کے ایک کالم میں توجہ دلائے جانے کے باعث’’ہم سب‘‘ سے آشنا ہوا۔ اس میں کچھ کلام نہیں کہ وجاہت مسعود صاحب جس اخبار میں لکھتے ہیں، وہ ایک اعتبار سے خاکوانی صاحب کے اپنے اخبار کا حریف ادارہ ہے اور خبر بازی کی حد تک اِن دونوں اداروں کے مابین ایک طرح کی چپقلش بھی جاری رہتی ہے، تاہم خاکوانی صاحب نے اسے درخورِاعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو وجاہت مسعود سے رُوشناس کرانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

    6۔ برادرم خاکوانی صاحب اپنے قارئین کی کڑوی کسیلی باتیں بھی بڑے حوصلے سے سہہ جاتے ہیں، بلکہ اِن چُبھتی ہوئی جملے بازیوں کو ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔ خود ہم (مراد راقم الحروف) ان کا حوصلہ آزمانے کے لیے اپنے کمنٹس میں کبھی کبھار چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے ہیں لیکن ایسا کوئی ثبوت ہمارے سامنے نہیں آیا جو ہمارے اس ہر دلعزیز بھائی کی ناگواری کا پتہ دیتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ہم جیسے ادنیٰ سے لوگ، خواہ جس بھی حیثیت کے حامل ہیں، ان کا اصل اثاثہ ہیں اور اپنے اثاثے کو کون سنبھال کر نہیں رکھتا۔

    میری درج بالا معروضیات میں شاید کوئی اختلافی پہلو بھی موجود ہو۔ اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ مَیں نے جو محسوس کیا بلا تأمّل لکھ ڈالا ہے، فیصلہ آپ خود اپنی صوابدید اور سمجھ بوجھ کے مطابق کر سکتے ہیں۔

  • وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں – آصف محمود

    وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں – آصف محمود

    آصف محمودبرادر مکرم جناب وجاہت مسعود سے برسوں پرانا تعلق ہے جو اب تعلق خاطر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ ماہ و سال نے یہ رشتہ اب اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ ان سے اختلاف کرتے ہوئے ایک اطمینان ہوتا ہے کہ اختلاف بھلے کوئی سا بھی رخ اختیار کر لے تعلق میں دراڑ نہیں آ ئے گی چنانچہ ’’ ہم سب ‘‘ پر میں نے ان کی فکر سے اتنا شدید اختلاف کیا کہ وجاہت کی جگہ کوئی اور ہوتا تو’’ ہم سب ‘‘ میرے لیے ’’ تم سب ‘‘ ہو چکا ہوتا۔ لیکن اتنا کچھ لکھ دینے کے باوجود، یہی احساس آج بھی قائم ہے کہ اختلاف رائے کی شدت کے باوجود معاملہ ابھی تک ’’ ہم سب ‘‘ کا ہی ہے اور ان شاء اللہ ایسا ہی رہے گا۔
    برادر مکرم جناب عامر خاکوانی سے بھی محبت اور احترام کا رشتہ ہے ۔ ان کی ’’ دلیل ‘‘ سے بھی نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ گاہے اختلاف رہتا ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے یہ اطمینان بھی کہ خاکوانی صاحب برا نہیں منائیں گے۔ باوجود اس کے کہ وہ ’’ اسلامسٹ ‘‘ہیں اور میں صف نعلین میں کھڑا ایک عام گنہ گار پاکستانی مسلمان، (سچ پوچھیے تو مجھے تو اسلامسٹ کی اصطلاح سے ہی اتفاق نہیں ہے ۔مجھے لگتا ہے اس اصطلاح میں ایک خاص تکبر اور زعم تقوی چھپا نظر آ تا ہے ) تاہم تعلق خاطر ہے اور تکلفات اور تصنع سے بے نیاز ہے ۔
    میں ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ دونوں کا ایک ادنی سا قاری ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک آدھ استثناء کے ساتھ دونوں فورمز پر لکھاریوں کی طبع آزمائی کا میدان فکری اور نظریاتی ہے۔ بلاشبہ فکری اور نظریاتی مباحث کی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن اسی کا اسیر ہو کر رہ جانا ایک صحت مند رجحان نہیں ہوتا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ سیکولر احباب خاطر جمع رکھیں وہ اس سماج کو سیکولر نہیں بنا سکتے۔ اسلامسٹ بھی جتنا مرضی زور لگا لیں یہ سماج ان جیسا نہیں ہو سکتا۔ یہ نظری مجادلہ ایک فکری اقلیت کا مشغلہ تو ہو سکتا ہے، عام آدمی اس سے بے نیاز ہے اور اس کے مسائل کچھ اور ہیں
    سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کیوں نہیں لکھا جا رہا؟
    جس طرح اخبارات اور چینلز کو سیاست لاحق ہو چکی ہے اسی طرح ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ پر نظری بحث کی حکمرانی ہے۔ سماج کے دیگر مسائل اور رجحانات جیسے صحت، تعلیم، تہذیب، تربیت، انصاف، روزگار، تخلیق، ادب وغیرہ نظر انداز ہو رہے ہیں ۔ افتاد طبع بھلے کسی ایک موضوع کے انتخاب پر اصرار کرتی ہو سماج لیکن تنوع اور تخلیق کا متمنی ہے۔
    ہو سکتا ہے میرے بھائی میرے اس مشاہدے سے متفق نہ ہوں کہ ان کے ہاں نظری مباحث کی کثرت ماحول کو بوجھل کر رہی ہے لیکن انہیں علم ہونا چاہیے کہ سماج میں میرے جیسے کم علم بھی موجود ہیں جن کی قوت مشاہدہ میری طرح کمزور ہوتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ سماج نہ سیکولرز کی طرح سیکولر ہو سکتا ہے، نہ اسلامسٹوں کی طرح کا اسلامسٹ ہو سکتا ہے۔ ا س لیے اس نظری اور فکری بحث سے نکل کر سماج کی تشکیل و تہذیب کے ان پہلوؤں کو موضوع بنائیے جو سیکولر اور اسلامسٹ ہر دو طبقے کی ضرورت ہیں.