Tag: طاہر القادری

  • عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    عمران خان صاحب، سماج پر رحم کیجیے – آصف محمود

    آصف محمود پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔
    نرگسیت کے گھونسلے سے سر نکال کر خان صاحب نے فرمایا:
    ’’ ناراضی کس بات کی، مارچ کی دعوت دینے جا رہا ہوں، رشتہ لینے تو نہیں جا رہا‘‘۔
    گویااخلاقیات کے علمبرداروں نے اپنے کزن طاہر القادری کو بھی نہیں بخشا، حالانکہ کزنز کا ’دادا‘ ایک ہوتا ہے۔

    اختلاف ایک چیز ہے ،جسے گوارا کیا جانا چاہیے کہ یہ زندگی کا حسن ہے اور سماج میں شعوری بیداری کی علامت لیکن اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو پست ذہنیت کی علامت ہے۔ شیخ رشید جیسوں کی صحبت صالح نے اب معلوم نہیں عمران خان کو بدل دیا ہے یا صرف بے نقاب کیا ہے، تاہم وہ جو زبان استعمال کر ہے ہیں، وہ ان کے فکری افلاس اور اخلاقی بحران کا اعلان عام کر رہی ہے۔

    تحریک انصاف نے اور کچھ کیا یا نہیں بدتمیزی اور گالیوں کو ایک کلچر بنا دیا۔ ہماری صدیوں کی تہذیب و روایت ہے کہ مائیں، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ اختلاف بھلے دشمنی تک بھی پہنچ جائے، مائوں بیٹیوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اس تصور کو بیچ بازار پامال کر دیا ہے۔ جب قائد محترم ہی تہذیب نفس سے محروم ہوں تو ٹائیگرز کا تو کیا ہی کہنا۔ بعض تو اسم بامسمی ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ ان سے ہم نے کیا توقعات وابستہ کر لیں لیکن یہ کتنے چھوٹے اور کتنے بودے نکلے۔

    مریم نواز کے بارے میں تحریک انصاف کے عام کارکنان نے نہیں، مرکزی عہدیداروں نے جس زبان میں گفتگو فرمائی اور جس طرح کے ٹویٹ کیے، وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا اخلاقی بحران کتنا شدید ہو چکا ہے۔ جواب آں غزل کے طور پر ٹیرن خان کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ویسی ہی بد تہذیبی اور بد اخلاقی کہلائے گی جس کا مظاہرہ تحریک انصاف کر رہی ہے۔

    عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی عمر صالح کا غالب ترین حصہ ’چھڑے‘ کے طور پر گزرا ہے۔گھر، آنگن، چاردیواری میں پنپنے والے رشتوں کی لطافت سے وہ محروم ہی رہے۔ انہیں اس لطیف احساس کی بھی کوئی خبر نہیں کہ بیٹی کیا ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا آنگن بیٹی کے قہقہوں اور اور اس کی شرارتوں سے محروم ہی رہا۔ انہیں خبر ہی نہیں باپ اور بیٹی کا رشتہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ رات گئے جب بیٹی ضد کرے ’’ بابا پیپسی کی بھوک لگی ہے‘‘ تو اس ضد کو پورا کرنے کے لیے گھر سے گاڑی نکالنا کتنا پیارا تجربہ ہوتا ہے۔بیٹی کی مسکراہٹ اور قلقاریوں میں کیسا امرت ہوتا ہے، انہیں معلوم نہیں۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ بیٹی کی آنکھ پر نم ہو جائے تو من کی دنیا کیسے اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔ انہیں قدرت نے ایک باپ کی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع بھی نہیں دیا۔ عالی ظرف جمائما بھابھی ہی بچوں کا باپ بھی بن گئیں۔ مقبول ترین آدمی کی زندگی کا یہ پہلو آدمی کو اداس کر دیتا ہے۔ وہ اس حوالے سے قابل رحم ہیں۔

    لیکن وہ ایک رہنما بھی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لاکھوں دل ان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ وہ اگر تہذیب نفس سے بےنیاز ہو کر عامیانہ طرز گفتگو اختیار کریں گے تو یہ سماج کی اخلاقی بنیادیں کھود ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سما ج پر رحم کیجیے۔

  • عمران قادری گٹھ جوڑ-خورشید ندیم

    عمران قادری گٹھ جوڑ-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    عمران خان اور طاہرالقادری صاحب ایک بار پھر ہم سفر ہیں۔ ان راہنماؤں سے اس قوم کو ایک سادہ سا سوال ضرور پوچھنا چاہیے۔ اگر وہ جواب نہ دیں تو پھر اپنے آپ سے۔ 2014ء میں اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟

    یادداشت کے باب میں بطور قوم ہماری شہرت بہت اچھی نہیں۔ 2014ء کو گزرے مگر بہت دن نہیں ہوئے۔ ابلاغ کے جدید ذرائع نے ان شب و روز کے ایک ایک لمحے کو منکر نکیر کی طرح محفوظ کر دیا ہے۔ کتنے لوگ جمع ہوئے؟ کیا کیا کہا گیا؟ کس عزم کا اظہار ہوا؟ بات کہاں سے چلی اور کہاں تک پہنچی؟ پی ٹی وی پر حملہ۔ امپائر کی انگلی۔ ایک خاص لمحے میں چہرے پر مچلتی بشاشت۔ ہجوم کا چھٹنا۔ طاہرالقادری صاحب کے مریدوں کا موسم کی شدت میں کسی سائبان کے بغیر مشقت اٹھانا۔ نوجوانوں کا سڑکوں پر راتیں بسر کرنا، بچوں کا بلکنا اور اس پر راہنماؤں کے پُرتعیش کنٹینرز۔ یادداشت ناقابل بھروسہ سہی لیکن ایسی بھی نہیں کہ دو برس پہلے کے مناظر آنکھوں اور ذہن میں محفوظ نہ ہوں۔

    اِن دنوں CPEC کا بہت شہرہ ہے۔ آرمی چیف نے بھی دبنگ لہجے میں بتا دیا کہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی جائے گی۔ کیا اس قوم کو یاد ہے کہ یہی دھرنے کے دن تھے جب چین کے صدر کو پاکستان آنا تھا اور وہ نہیں آ پائے تھے؟ اس قوم کا ایک سال سعیء لاحاصل کی نذر ہو گیا۔ عدالتی کمیشن بنا، اس نے فیصلہ دیا لیکن کسی نے مان کر نہ دیا۔ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔ فطری تقاضا یہی ہے کہ چھ سات سال کے بچے کو بھی یہ روداد یاد ہو۔ آخر اس ملک کے میڈیا نے کتنے پاپڑ بیلے کہ اس تاریخ ساز واقعہ کا ایک ایک لمحہ نہ صرف محفوظ کیا جائے بلکہ براہ راست پوری قوم کو دکھایا بھی جائے۔ کون کب کنٹینر پر چڑھا۔ کون کب اترا۔ کس نے کہاں ناشتا کیا، اس میں کیا کھایا۔ نوجوانوں نے کپڑے کیسے پہنے۔ اس اہتمام کے بعد اس قوم کو سب کچھ یاد ہونا چاہیے اور اگر ذرا ذرا بھی یاد ہے تو اُس کو ان راہنماؤں سے پوچھنا چاہیے کہ اس وقت جب لوگوں کو گھروں سے نکالا گیا۔ ملک کو ایک آزمائش میں مبتلا کیا گیا۔

    اسلام آباد چار ماہ تک ایک شہر بے اقتدار کا منظر پیش کرتا اور جگ ہنسائی کا باعث بنا رہا۔ اس سب کچھ کے بعد اس قوم کو کیا ملا؟ کیا نواز شریف کا اقتدار ختم ہو گیا؟ کیا کرپشن کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا ملک میں کوئی تبدیلی آئی؟ ایک بات کہی جاتی رہی ہے کہ عوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ جب صبح شام میڈیا پر اظہار خیال کی سہولت میسر ہے تو شعوری تبدیلی کے لیے، کیا یہ کافی نہیں؟ وہ خطبات جو دھرنے میں ارشاد فرمائے گئے، کیا ٹی وی کی زبانی پہلے بھی نہیں سنوائے جا رہے تھے؟ محض اس ‘بیداری‘ کے لیے قوم کو اس عذاب میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟

    اس دوران میں، قادری صاحب اور عمران خان نے اس قوم کی نفسیات پر جو منفی اثر ڈالا، اس کے اثرات سمیٹنے میں نہیں معلوم کتنے سال لگ جائیں۔ اس قوم کو جس طرح ہیجان میں مبتلا کیا گیا، کاش کوئی ماہر نفسیات اس کا تجزیہ کرے اور بتائے کہ اس نے نوجوانوں کے اصل اثاثے، قوت برداشت کو کس طرح پامال کیا۔ ان کی شخصیت کی باگ عقل سے چھین کر جذبات کو تھما دی۔ انہیں تعمیر کے بجائے تخریب کے راست پر ڈالا۔ گفتگو اور اختلاف کی اس روایت کو پامال کیا جو باہمی احترام پر مبنی ہے۔ جس میں اختلاف ہوتا ہے دوسروں کی توہین نہیں۔ یہ خسارے کا ایسا سودا ہے، جس کے اثرات مدتوں رہیں گے۔ مو لانا مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کی برسوں کی محنت چار ماہ میں برباد کر دی گئی۔

    بارہا لکھا گیا کہ سماج کی مضبوطی اور تعمیر کے بغیر، کوئی سیاسی عمل تنہا حالات میں جوہری تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ وہاڑی اور جہلم کے انتخابات اسی کا اظہار ہیں۔ عوام کو روایتی خاندانوں اور دھڑوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ماضی میں ن لیگ کے مقابلے میں یہ دھڑا پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے جمع تھا۔ آج اسے تحریک انصاف کا بینر میسر ہے۔ تحریک انصاف نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دوسرے دھڑے کو اپنا کندھا پیش کر دیا ہے۔ ن لیگ کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ روایتی سیاست کی علامت ہے۔ تحریک انصاف نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ بھی اسی سیاست کا حصہ ہے۔ کیا ایسی تبدیلی کے لیے پورے ملک کو اضطراب میں مبتلا کرنا چاہیے؟ کیا اس کے لیے لوگ گھروں سے نکلیں اور ایک انتشار کا حصہ بنیں؟ کیا کرپشن اس طرح ختم ہوتی ہے؟

    CPEC کا منصوبہ پاکستان کی معاشی سالمیت کے لیے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جو سیاسی مفادات مضمر ہیں، وہ معاشی مفادات سے بھی اہم تر ہیں۔ قوم کو پہلی بار ایک تعمیراتی سوچ کے ذریعے مجتمع کیا جا رہا ہے۔ یہ تعمیر اور ترقی کی ایک نہر ہے جو پانچوں صوبوں کو سیراب کر ے گی۔ گوادر پاکستان کے ایک جدید ترین شہر کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ ترقی کی یہ شاہراہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے گزرے گی۔ سندھ، پنجاب اور گلگت سے بھی۔ اگر صوبے صرف اپنے اپنے مفاد میں سوچیں تو بھی یہ منصوبہ انہیں مجبور کر دے گا کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے دوسرے صوبوں کا خیر چاہیں۔ پھر امن سب کی مشترکہ ضرورت بن جا ئے گا۔ یوں سب ایک دوسرے کے دست و بازو ہوں گے۔ کوئی چاہے تو اس کا کریڈٹ نواز شریف یا موجودہ حکومت کو نہ دے۔ چاہے تو یہ ہار کسی اور کے گلے میں ڈال دے۔ لیکن اُسے اس منصوبے کی افادیت کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے۔

    اگر یہ مقدمہ درست ہے تو مان لینا چاہیے کہ اس کی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس میں چین شامل ہے۔ چین وہ ملک نہیں جو ہماری طرح وقت کی قیمت سے بے خبر ہے۔ اس کے لیے ایک ایک دن اہم ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو سالوں کا سفر دنوں میں طے کر رہی ہے۔ اگر ہم نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو اس کا نقصان ہم ہی کو اٹھانا ہے۔ پھر کیا ہم اس سے بھی بے خبر ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے بھارت اور دوسرے ہمسایہ ممالک کیا سوچ رہے ہیں؟ تاریخ کے کٹہرے میں کتنے بڑے مجرم ہوں گے وہ لوگ جو ان نازک لمحوں میں، امکان کے روشن چراغوں کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کریں گے۔

    ایک سوال وہ ہے جو ماضی کے بارے میں ہے: 2014ء میں کزنز کے اس گٹھ جوڑ نے پاکستان کو کیا دیا؟ ایک سوال مستقبل کے حوالے سے ہے: اس مر حلے پر احتجاجی تحریک کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس سے کرپشن ختم ہو جائے گی؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ عمران بہت زور لگائیں تو بھی اس تحریک میں سال گزر جائے گا۔ ایک آدھ مہینہ تو عید کی نذر ہو جائے گا۔ بات 2017ء تک جا پہنچے گی۔ تو کیا یہ مناسب نہیں کہ اس دوران میں وہ پُرامن طور پر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کریں؟ اس کارِ خیر میں میڈیا ان سے چار قدم آگے ہے۔ وہ اس دوسرے کزن کی مدد سے رائے عامہ پر اثر انداز ہوں اور انتخابات کے ذریعے چہروں کو تبدیل کر دیں۔ تین کزنز مل جائیں تو کیا نہیں کر سکتے۔؟

    آج مسئلہ نواز شریف صاحب کا اقتدار نہیں، پاکستان کا استحکام ہے۔ CPEC کا انحصار اسی پر ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کا مستقل بھی اسی میں ہے کہ اسے ہیجان کے بجائے عقل و بصیرت کے راستے پر ڈالا جائے۔

  • قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    قادری آ رہے ہیں – آصف محمود

    آصف محمود طاہر القادری راولپنڈی میں نہیں رکیں گے۔ وہ اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔
    ہو سکتا ہے یہ میرا ضعف بصارت ہو لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک قصاص اور تحریک احتساب کا اصل مقصد وہ نہیں جو بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ مقصد کچھ اور ہے ۔ طاہر القادری صاحب مری روڈ سے اسلام آباد کا رخ ضرور کریں گے۔ یوں دارلحکومت میں وہی کھیل شروع ہو جائے گا جو اس سے قبل ناکام ہو چکا۔

    چند پہلو اس باب میں انتہائی قابل توجہ ہیں۔
    1۔ احتجاج ظاہر ہے جمہوری حق ہے لیکن کیا احتجاج کے نام پر دارالحکومت پر یلغار کرنے کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا اسلام آباد میں آ کر ڈیرے جمانے سے جیسا ماضی میں ہوا ہے، آپ دنیا میں اپنی ریاست کا مذاق نہیں اڑاتے۔
    2۔ اگر کوئٹہ میں ہونے والے دھماکوں کو سی پیک کے خلاف سازش تصور کیا جاتا ہے تو اسلام آباد پر اس طرح کی یلغار کو بھی ایسی ہی ایک سازش کیوں تصور نہیں جا تا۔ اگر ہم سی پیک کی کامیابی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان لشکریوں کو ایک پیغام تک نہیں بھیجا جا سکتا کہ احتجاج ضرور کیجیے لیکن ریاست کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
    3۔ منتخب وزرائے اعظم کو ہمیشہ اس ملک میں ولن بنا کر کیوں پیش کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔
    4۔ بطور ادارہ فوج بہت محترم ہے، اور ہمارا آخری دفاعی حصار بھی۔ اسی طرح پارلیمان بھی بہت محترم ہے اور قومی وحدت کی علامت بھی ہے۔ دونوں کا احترام لازم ہے، اور دستور کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
    5۔ یہ سوچ ختم ہونی چاہیے کہ نواز شریف ملک دشمن ہے اور اسے ملک کی سلامتی اور بقاء سے کوئی دل چسپی نہیں۔ حب الوطنی نصاب نہیں جس کے جملہ حقوق بحق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ محفوظ ہوں۔ سوچنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے اور ایک جمہوری وزیر اعظم کو اس کا حق بھی ہے۔ اس پر تنقید بھی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کی حب الوطنی کا آملیٹ بنانے کی کوششوں کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں۔
    6۔ جو چین آف کمانڈ سپاہی سے آرمی چیف تک ہوتی ہے وہی چین آف کمانڈ آرمی چیف سے وزیر اعظم تک قائم ہونے میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔
    7۔ اس ملک کے نظام قانون و انصاف کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قادری صاحب کے لوگ مرے ہیں۔ حکومت نے نہیں مارے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس نے مارے۔ قاتل پکڑنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ریاست انسانی جان کی حرمت کے بارے میں اس طرح بے نیازی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے۔ کیا اس طرح سماجی توازن قائم رہ سکتا ہے اور انتہا پسندی ختم کی جا سکتی ہے۔
    اور آخری بات کسی کو اچھی لگے یا بری، یہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت اگر غیر فطری طریقے سے گھر بھیجی گئی تو یاد رکھیے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیں گے۔ جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیجیے۔ یہ راستہ کٹھن سہی لیکن راستہ یہی ہے۔ اور کسی راستے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تبدیلی کا یہی ایک فطری راستہ ہے جسے ارتقاء کہتے ہیں۔