Tag: ضرب عضب

  • اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو – محمد عامر خاکوانی

    اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی یہ فقرہ ہم پچھلے چند برسوں سے مسلسل اور تواتر سے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں کام اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ بات دو اعتبار سے درست ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ پاکستان واقعی حالت جنگ میں ہے، اس کے دشمن ایک سے زیادہ ہیں اور ان میں بڑی قوتیں بھی شامل ہیں، دوسرا یہ کہ واقعتاً حالت جنگ میں عام قاعدے قوانین بدل جاتے ہیں اور جہاں ریاست کو بعض غیر معمولی اختیارات تفویض کر دیے جاتے ہیں، وہاں شہری بھی کچھ سمجھوتے کرنے پر رضامند ہوجاتے ہیں۔

    سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعتا ہمارا ریاستی اور حکومتی رویہ حالت جنگ سے دوچار ممالک اور اقوام جیسا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ ایسا قطعی نہیں ہے۔ ہماری حکومت، اپوزیشن، انتظامیہ اور خود عوام کا رویہ بالکل بھی اس درجہ ذمہ دارانہ اور میچور نہیں ہے، جیسا کہ ایسے سنگین بحرانوں میں گھرے کسی ملک اور وہاں کے لوگوں کا ہونا چاہیے۔

    سب سے پہلے حکومت اور وزیراعظم کو لے لیتے ہیں۔ تین اعتبار سے ان کی ناکامی مترشح ہے۔ دہشت گردوں اور شہریوں میں پوشیدہ ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے سویلین سیٹ اپ (پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو) کو مضبوط اور طاقتور بنانا ازحد ضروری ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے شروع میں جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا اور قوم کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ تمام انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون اور مشترکہ جدوجہد کے لیے پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے، جس کے ذریعے موثر کارروائیاں کرنا ممکن ہوسکے گا۔ آج کسی کو علم نہیں کہ نیکٹا کیا کر رہا ہے، کس حد تک متحرک رہا اور آئندہ کے کیا امکانات ہیں؟ اگر کوئی خوش نصیب صاحب کشف انسان اس حوالے سے کچھ جانتا ہے تو براہ کرم اس اخبارنویس کو بھی مطلع فرمائے کہ اپنے جنرل نالج کو اپ ڈیٹ رکھنے میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ رہا سیاسی استحکام تو اس کے لیے وعدوں پر عمل کرنا لازمی ہے۔ جہاں حکومت کا تمام تر دارومدار سیاسی چالبازیوں، معاملات کو لٹکانے اور اپوزیشن کے خلاف تند وتیز حملے کرنے پر ہو، وہاں پولرائزیشن بڑھنا لازمی ہے۔ اب پانامہ لیکس والا ایشو ہی دیکھ لیجیے، ایک بڑے حلقے کا شروع سے خیال تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا واحد مقصد معاملے کو لٹکانا ہے اور اس میں فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی حکومت کا ساتھ دے گی۔ پچھلے دو ڈھائی مہینے کی کارکردگی دیکھنے کے بعد کون ہے جو اس سے انکار کر سکے گا؟ اس طرح کی چالیں سیاسی کامیابی تو دلا سکتی ہیں، جو حکومت کو حاصل ہوئیں مگر پھر حکومتی وعدوں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔

    پاکستان کو جس قسم کی دہشت گردی سے واسطہ ہے، اس پر قابو پانے میں سب سے بنیادی کردار پولیس اور تھانوں کا ہے۔ گلی محلے کی سطح پر خبریں اکٹھی کرنا اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا تھانوں کے مخبر سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ تھانے زیادہ بنائیں جائیں، نفری میں اضافہ ہو، سیاسی بنیادوں پر افسروں کا تقرر و تبادلہ نہ ہو۔ اچھے اور اہل افسر تعینات کیے جائیں اور انہیں مطلوبہ افرادی قوت دی جائے، ڈیوٹی ٹائمنگ مناسب ہو اور اسلحے و دیگر جدید آلات کی مناسب تعداد میں فراہمی یقینی بنائی جائے تو یہ پولیس سسٹم غیر معمولی نتائج دے سکتا ہے۔ ایسا مگر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ اگلے دن ایک باخبر صاحب بڑے افسوس سے بتا رہے تھے کہ دو ہزار ایک تک لاہور میں 80 تھانے تھے اور گریڈ اٹھارہ کا ایس پی شہر کا انچار ج ہوتا تھا۔ آج گریڈ اکیس بائیس کا ایڈیشنل آئی جی لاہور پولیس کا مدارالمہام ہے اور کئی ڈی آئی جی، ایس ایس پی صاحبان ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں، تھانے مگر صرف تراسی ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا، شہر کی پولیس فورس نہیں بڑھائی گئی اور افسروں کی فوج ظفر موج شہر میں تعینات کر دی۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ افسر صاحبان اپنا عملہ بھی اسی پولیس فورس سے لیں گے اور نتیجے میں تھانوں میں نفری مزید کم ہوجائے گی۔ پنجاب میں تو خیر سے جناب خادم پنجاب ہی آٹھ برسوں سے براجمان ہیں، ان سے کیا شکوہ کیا جائے؟ یہ کم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے وہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا بیان داغ دیتے ہیں۔ اگر ایسا بھی نہ کرتے تو ہم آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟

    سندھ کا یہ حال ہے کہ بیس پچیس برسوں سے رینجرز کراچی میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے، سندھ حکومت رینجرز کے اخراجات کے لیے بھاری فنڈز کا بوجھ اٹھاتی ہے، مگر کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ شہر کے لیے اچھی پولیس فورس ہی تیار کر لی جائے۔ یہی فنڈز پولیس پر خرچ ہوجائیں تاکہ آئندہ کے لیے رینجرز کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ پچھلے آٹھ برسوں سے پیپلزپارٹی وہاں حکمران ہے، اس سے پہلے والوں کا وتیرہ بھی یہی رہا۔ کے پی کے میں تحریک انصاف نے پولیس میں کچھ بہتری تو کی، مگر جس سطح کے چیلنجز ہیں، ان کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ رہا بلوچستان تو وہاں کا حال سب سے پتلا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں صوبے کے بہت سے شہروں کو بی کیٹیگری سے اے میں لانے پر اربوں خرچ ہوئے، رئیسانی صاحب کی حکومت میں پورا عمل ہی ریورس کر دیا گیا۔ بلوچستان میں ایف سی نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے، مگر اس کا کام بٹانے کے لیے مستعد، متحرک پولیس فورس موجود نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ پولیس کو بہتر بنانے کی بات پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، تکرار سے بات کا حسن ختم ہوجاتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے خاتمے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اس کے بغیر اسے جڑوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ جلدیا بدیراسی پر فوکس کرنا ہوگا۔ پھر وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟

    ہمارے اداروں کی آپریشن ضرب عضب میں کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ ایک بظاہر ناممکن نظر آنے والے ٹاسک کو فوج نے اپنے جذبے، عزم اور قربانیوں سے ممکن بنا دیا۔ وہ کچھ کر دکھایا، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی، اس میں وقت لگے گا۔ دراصل دہشت گردی کا تازہ ترین فیز غیرملکی قوتوں کی فنانسنگ اور سپورٹ کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ اب معاملہ صرف ٹی ٹی پی کا نہیں۔ اس کا تو بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا، بچے کچھے افغانستان کی پہاڑیوں میں جا چھپے، کچھ بلوں میں گھسے وقت گزرنے کا انتظار کر رہے اور اسی میں پکڑے اور مارے بھی جا تے ہیں۔ حالیہ لہر کو پچھلے چند ہفتوں میں فرانس، صومالیہ، عراق، ترکی وغیرہ میں ہونے والی بڑی کارروائیوں کے ساتھ ملا کر بھی دیکھنا چاہیے۔ کئی جگہوں کو ایک ساتھ ڈسٹرب کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ہمارے منصوبہ ساز ان تمام نکات پر غور کر رہے ہوں گے۔ ان پر اعتماد کرنا چاہیے، مگر اب دہشت گردی کے جلد خاتمے والی بات بار بار نہیں دہرانی چاہیے۔ فرانس جیسے صاحب وسائل ملک میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات نہیں روکے جا رہے، ہمارا تو ابھی سسٹم بنا ہی نہیں ، ہم تو فائر فائٹنگ ہی کر رہے ہیں کہ پھیلتی آگ کو جو دستیاب ہے، اسی سے روکنا چاہیے ۔ دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے، ہم اپنی مستعدی اور عمدہ حکمت عملی سے اس خطرے کو کم یا مزید اچھا پرفارم کر کے بہت کم کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان واقعات کو زیرو کرنا شائد ابھی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم اپنے پولیس سسٹم کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان شااللہ اگلے دو تین برسوں میں دہشت گردی کا یہ آسیب سر سے ٹل سکتا ہے۔

    ہمارے دانشوروں، تجزیہ کاروں، میڈیا اور عوامی حلقوں کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم ترین موڑ پر ہے۔چائنا پاک اکنامک کاریڈور کی کامیابی کی صورت میں بطور قوم ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے دشمنوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔ وہ اس منصوبے کو بار بار درہم برہم کرنا چاہیں گے۔ بلوچستان ہمیشہ ان کا مرکز رہے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت کرے اور اپنی امان میں رکھے، مگر دشمن اپنی سی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی چھ سو کوششیں ناکام بنا لی جائیں مگر ایک واردات کامیاب ہونے پر سب کچھ بظاہر خاک میں مل جاتا ہے۔ یہ سانحہ روح فرسا ہے، دکھ شدید اور گہرا ہونے کے باوجود ہمیں اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ مایوسی، فرسٹریشن اور بے یقینی سے ہر صورت بچنا ہوگاکہ ہمارے دشمنوں کا یہی سب سے بڑا حربہ ہے۔ یہ جنگ ہم نے لڑنا اور جتینا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حالت جنگ کے تقاضے بھی ہم نے ہی نبھانے ہیں۔ مستقل اور دیرپا کامیابی کا یہی راز ہے۔

  • سانحہ کوئٹہ کے بعد…؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    سانحہ کوئٹہ کے بعد…؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش دہشت گردی کی پیچیدہ دنیا میں جہاں نفسیاتی عوامل انتہائی اہمیت کے حامل ہوں اور انسانی جانوں کے بہیمانہ خاتمہ کے ساتھ ساتھ انسانی ذہنوں کو مغلوب کرنا اصل مقصد ہو وہاں بیانیہ کے ساتھ ساتھ بیانات کے متعلق حساس رہنا بہت اہم ہے۔ یہاں تک کہ زبان حال کے متعلق بھی محتاط رہنا بہت ضروری ہے کہ حرکات و سکنات بھی دیکھنے والوں کو غلط سگنل دے سکتی ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔

    کل آرمی چیف نے فرمایا کہ دہشت گردوں کو خیبر پختونخوا میں شکست فاش ہوئی اور اب انہوں نے بلوچستان کا رخ کرلیا ہے۔

    بظاہر سادہ سے اس بیان میں گھمبیر نتائج کے امکانات مضمر ہیں۔

    اول، یہ سوال کہ کیا ضرب عضب جیسی بڑے عسکری آپریشن کے تناظر میں ضروری Contingency Planning کی گئی؟

    جب بھی کوئی ملٹری آپریشن پلان کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ توجہ اسی شعبہ پر دی جاتی ہے کیونکہ بالعموم تجربہ یہ ہے کہ یہ فتح اور شکست کے مابین فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس سے صرف نظر ہو جائے تو بظاہر فتح مندی کی صورتحال بالکل 180 درجہ زاویہ پر برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران سرپرائز دینا ہوتا ہے ، سرپرائز لینے کا کوئی آپشن نہیں۔ تو کیا یہ طے نہیں تھا کہ جب پریشر آئے گا تو عسکریت پسند یا تو افغانستان کو بھاگیں گے یا اندرون ملک۔ اور بلوچستان کی جانب نکل جانا تو نسبتاً بہت آسان ہے۔ اس کی توقع نہیں تھی یا پیش بندی میں کہیں سقم رہ گیا۔

    دوسرا نکتہ اس سے بھی اہم ہے۔

    خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کو شکست فاش کا کہنے سے دہشت گردی میں ملوث قوتوں کے لیے نفسیاتی جنگ میں برتری کا ایک بڑا موقع پیدا ہوگیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مضمون میں ذکر ہؤا کہ یہ مجرد دہشت گردی نہیں، یہ معاندانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پاکستان کے خلاف “Psy-Ops offensive” ہے۔ بالفرض اگر وہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑی کاروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستانی افواج اور قوم پر اس کا کیا اثر پڑے گا، ضرب عضب جیسے کامیاب آپریشن کی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر اندرونی اور بیرونی ناقدین اس بات کو کیسے سینگوں پر لیے لیے پھریں گے۔ نہایت اہم بات اب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سیکورٹی کو بلند ترین سطح پر رکھا جائے، اس ضمن میں کسی تساہل، کسی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔

    اس تناظر میں نہایت اہم ہے کہ باقاعدہ عرق ریزی سے طے کیا جائے کہ ایسے کسی بھی سانحہ کے ہنگام کیا کہنا ہے۔ درست ہے کہ ایسے اوقات میں عوام حوصلہ کے لیے اپنے رہنماؤں اور سینئیر حکام کی جانب دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ان بیانات کو صرف عوام نہیں سن رہے ہوتے، وہ بھی ان کے سامع ہوتے ہیں جو ان مسائل کے پیچھے ہیں۔ اس حوالہ سے کم سے کم احتیاط یہ ہوگی کہ کسی بھی ایسی بات سے گریز کیا جائے جو دعوی لگ سکتی ہو۔

    جہاں زبان قال اہم ہے وہیں زبان حال کی اہمیت بھی دوچند ہے۔ پینک یا افراتفری کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ ایسے اقدام نہ کیے جائیں جو بظاہر اچانک یا ہنگامی محسوس ہوں۔ گویا یہ حادثہ نہ ہوتا تو وہ بھی نہ ہوتے۔ پھر ایسے اقدامات پر عملدرآمد میں غیر ضروری عجلت بھی نہ دکھائی جائے کہ کس معصوم کے ساتھ زیادتی کا احتمال پیدا ہو۔ یاد رہے، مقامی آبادی کی حمایت اصل فیصلہ کن عنصر ہے. کسی قسم کی زیادتی یا اس کا تاثر عوامی ہمدردی کا پلڑا مخالف کے حق میں جھکا سکتا ہے۔

    یہاں اس بات کا تذکرہ برمحل ہوگا کہ پاکستان کے تناظر میں اگر دہشت گردی کے خلاف حقیقی کامیابی حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے دو بنیادی اقدام اٹھانا ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں.

    1۔ تمام انٹیلی جنس اداروں کا ہمہ گیر تعاون تاکہ Actionable Intelligence ترتیب پا سکے

    اور

    2۔ تمام ملک میں، بلا استثناء صوبہ و علاقہ ، پروفیشنل، تربیت یافتہ اور ڈسپلنڈ پولیس فورس کا قیام۔ پولیس وہ نکتہ ہے جس کے ارد گرد امن و امان کا سارا تانا بانا قائم ہوتا ہے۔ یہ انٹیلی جنس کا ذریعہ بھی ہے اور فوری ایکشن کا بھی۔ اس کی غیرموجودگی میں امن کا ہر منصوبہ محض ایک سراب ہے۔

    ایک اور بات، جو ان حالات میں ایک بڑا گیم چینجر ثابت ہوگی، یہ کہ ہر سطح پر بحیثیت ایک اٹل پالیسی اپنا لیا جائے کہ ہم پراکسی وارز میں الجھنے سے ہر قیمت پر گریز کریں گے، اور اپنے لوگوں کو تو کبھی بھی اس کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ فوری طور پر تمام مسلح گروپس کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں اپنی زندگیاں ایک نئے سرے سے شروع کرنے کے مواقع دیے جائیں۔ اس سے عوام میں کنفیوژن ختم ہوگا اور وہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے رہ کر حتمی فتح کے لیے جدوجہد کر سکیں گے۔

    قوم کی سطح پر ہم سب کے لیے بھی سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ اب ایک عالمی معاملہ ہے اور اب اس لعنت کا شکار وہ بھی ہونے لگے ہیں جو خود کو مکمل طور سے محفوظ تصور کیے ہوئے تھے۔ ہمارے جیسی دوسری اقوام جو اس سے نبرد آزما ہیں اور ہمارے بعد ان حالات کا شکار ہوئیں، ان کی حالت بھی دیکھ لیجیے اور اپنی بھی۔ پھر یہ کہ خود اپنے ماضی کی نسبت آج کے حالات دیکھ لیجیے، بھلے وہ کراچی ہو، فاٹا، خیبرپختونخوا یا بلوچستان۔ لیکن اب بھی یہ ایک آنکھ مچولی ہے جس میں کبھی دشمن کا داؤ چل بھی جاتا ہے۔ نیز، دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی اور طویل وقفہ دشمن کی رحمدلی یا کرم نوازی کی دین نہیں، اس کے لیے پاکستان کے اداروں کی محنت اور ان اداروں میں کام کرنے والوں کے خون کے طفیل ہم آج یہاں کھڑے ہیں کہ وقفہ امن اب بریکنگ نیوز نہیں ہے بلکہ لگ بھگ ایک معمول ہے۔

    آنے والا وقت اس سے کہیں بہتر ہوگا، بس صرف یہ کہ سب ہی کو اپنے اپنے دائروں سے نکل کر قومی دائرہ میں آنا ہوگا۔