Tag: صحافت

  • غیر جانبداری، مطلوب یا مکروہ؟ – اسامہ الطاف

    غیر جانبداری، مطلوب یا مکروہ؟ – اسامہ الطاف

    غیر جانبداری صحافتی دنیا کا ایک بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے، قارئین و ناظرین بھی غیر جانبدار صحافی کو ہی دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کیا مطلقا کسی انسان کا غیر جانبدار ہونا ممکن بھی ہے؟ یعنی انسان کی اپنی کوئی ذاتی رائے یا وابستگی نہ ہو، یاکم از کم وہ اس وابستگی کو ظاہر نہ کرے؟

    یہ خاصیت صحافتی مفہوم کی حد تک تو صرف صحافیوں میں ہی نہیں بلکہ ہر انسان میں ہونی چاہیے کہ انسان حقائق جاننے کے لیے شواہد و دلائل کو اپنی سابقہ رائے اور اپنی مذہبی و سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھے، خاص طور ہمارے معاشرے میں کہ جہاں حقیقت ایک اجنبی اصطلاح بن گئی ہے. افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جذبات حقائق پر غالب ہیں، حتی کہ ہمارے حکمران پانچ سال تک لوٹتے ہیں، اور پھر انتخابات قریب آنے پر ایک دو آنسو بہالیتے ہیں، رکشہ پر سواری اور ڈھابے پر چائے پی لیتے ہیں، یا دو چار نعرے لگا لیتے ہیں تو ہم ان کے سابقہ جرائم کو بھلا کر واپس ان کو اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں. یہی حال نسلی، صوبائی یا مذہبی فرقہ بندی کا بھی ہے، ایک تقریر سن کر ہمارے جذبات ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ ہم اپنے مخالف کی گردن کاٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں! وجہ یہ ہے کہ جہاں جذبات کی حدود ختم ہوتی ہے، وہا ں سے ادراک (عقل اور سمجھ) کی ابتدا ہوتی ہے، اور عقل صرف حقائق کو قبول کرتی ہے، اور حقاءئق تک پہنچنے کے لیے جذبات سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔

    یہ غیر جانبداری کا جو رخ سابقہ سطور میں واضح کیا گیا، وہ تصویر کا مثبت پہلو ہے. دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر جانبداری ہر جگہ پر مطلوب نہیں ہے. یہ حقیقت جاننے کا یا حقائق بتانے کا ایک وسیلہ ہے، لیکن ایک مرتبہ حق واضح ہو جائے تو حق و با طل کے درمیان کسی غیر جانبداری کی گنجائش نہیں، بلکہ اس صورت میں مکمل طور پر حق کا ساتھ دینا ضروری ہے. ہم ہر نماز میں ہدایت طلب کرتے ہیں اور گمراہی سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔

    یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ بحیثیت مسلمان کچھ ایسے اصول اور ضوابط اسلام نے متعین کیے ہیں کہ ان میں مزید نظر اور اجتہاد کی ضرورت نہیں، لہذا ان صولوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، بلکہ ان اصولوں کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ہونا چاہیے جو عقل کی حدود سے متجاوز ہو۔

    خلاصہ یہ ہے کہ عقل اور جذبات دونوں کا الگ الگ دائرہ کار ہے. دین سے وابستگی کا ایک وسیع مفہوم ہے جو کہ عقل کے محدود دائرہ کار میں نہیں آسکتا، جبکہ باقی امور عقل کی پہنچ میں ہیں، اس لیے ان میں جذبات کا داخل ہونا کسی صورت مفید نہیں۔

  • صحافت کرنا ضروری تو نہیں-وسعت اللہ خان

    صحافت کرنا ضروری تو نہیں-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    جس طرح کے شش سمتی دباؤ کی پاکستانی صحافت ستر برس سے عادی ہے اس طرح کا دباؤ بھارت میں ابھی شروع ہوا ہے۔تازہ مثال ’’ قومی سلامتی ‘‘ خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں این ڈی ٹی وی چینل کی نشریات ایک دن ( نو نومبر ) کے لیے بند کرنے کا فیصلہ ہے۔

    گذشتہ ہفتے دہلی میں اسی برس پرانے اخبار انڈین ایکسپریس کی سالانہ ’’رام ناتھ گوئنکا جرنلزم ایوارڈ ’’کی تقریب منعقد ہوئی۔اس ایوارڈ کوتوقیری اعتبار سے آپ بھارت کا پلٹزر انعام بھی کہہ سکتے ہیں۔انڈین ایکسپریس کے بانی کی یاد میں قائم یہ ایوارڈ صحافتی پیشے کی حرمت قائم رکھنے والے گنے چنے صحافیوں کو ہی ملتا ہے۔اس بار ایوارڈ تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیرِ اعظم نریندر مودی تھے۔ انھوں نے گرتے ہوئے صحافتی معیار پر ایک تفصیلی بھاشن دیا۔تقریب کے آخر میں انڈین ایکسپریں کے چیف ایڈیٹر راج کمل جھا نے مہمانِ خصوصی کا شکریہ جن الفاظ میں ادا کیا اس کی وڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

    راج کمل جھا نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ ’’صحافت کا معیار پروفیشنل رپورٹرز اور ایڈیٹرز ڈیفائن ہی کرتے ہیں۔مگر آج کل سیلفی جرنلسٹ بڑھ رہے ہیں۔ سیلفی جرنلسٹ سے میری مراد وہ صحافی ہے جو اپنے عشق میں مبتلا ہے۔اسے کوئی غرض نہیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔اسے صرف اس سے مطلب ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔اس کا چہرہ کیسا لگ رہا ہے۔اس کے اپنے خیالات کیا ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ کیمرہ اسی پر فوکس رہے۔اس کے لیے سب سے اہم شے اس کی اپنی آواز اور صورت ہے۔باقی سب ثانوی ہے بلکہ ایک بیک ڈراپ ہے ، ایک لایعنی شور ہے۔

    سیلفی جرنلسٹ کے لیے حقائق کی کوئی اہمیت نہیں۔ سیلفی جرنلسٹ اپنی ذات کے فریم میں کوئی ایک جھنڈا لگاتا ہے اور اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔اس اخبار کے بانی رام ناتھ گوئنکا نے ایک رپورٹر کو اس لیے نوکری سے فارغ کردیا کیونکہ ایک چیف منسٹر نے گوئنکا سے کہا کہ آپ کا رپورٹر بہت اچھا کام کر رہا ہے۔

    آج کی صحافی نسل ری ٹویٹس اور لائکس کے دور میں جی رہی ہے۔اور اس نسل کو نہیں معلوم کہ سرکار کی طرف سے ناپسندیدگی کسی صحافی کے لیے تمغہِ عزت ہوتا ہے۔صحافی کا بنیادی منصب اس کے سوا کیا ہے کہ اس کے حقائق درست ہوں اور لوگوں کی اکثریت اس کی خبر پر اعتماد کرے۔اور یہ اعتماد صحافی یا صحافتی ادارہ ہی پیدا کرسکتا ہے۔کوئی اور نہیں۔

    ایسا نہیں کہ اچھی صحافت مر رہی ہے یا سکڑ رہی ہے۔ لیکن بری صحافت اتنا شور مچا رہی ہے کہ اس شور میں اچھی صحافت دبتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ہمیں اس شور سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔دیکھنے والے کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ایک بڑی طاقت ہے۔ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہیے ’’۔اس دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی ہاتھ ملتے ہوئے چیف ایڈیٹر راج کمل جھا کی باتیں سننے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔

    قلم اور حرف استرے کی طرح ہے۔حجام کے ہاتھ میں ہے تو اوزار ہے۔اناڑی کے ہاتھ میں ہو تو ہتھیار ہے اور بندر کے ہاتھ میں ہو تو آلہِ آزار ہے۔اپنے لیے بھی اور سامنے والے کے لیے بھی۔

    خبر اور سیلاب منہ زور ریلہ ہوتے ہیں۔اگر ڈیم بنائے جائیں تو سیلاب کو زمین کی آبیاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر بیراجی فلڈ گیٹس کے ذریعے محفوظ طریقے سے گذارا جاسکتا ہے۔ خبری سیلاب کو بھی ایڈیٹوریل ڈیمز بنا کر ملک و سماج کی زرخیزی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔فلڈ گیٹس کے ذریعے آنے والی خام خبر کو پیشہ ور ہاتھ پکے اخباری نالوں کے ذریعے اطلاعات کی بھوکی ذہنی زمین کو سینچنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

    لیکن خبر کو اگر بنائے سنوارے بغیر خام حالت میں ہی گذرنے دیا جائے اور اس میں سے ذاتی خواہشات کے گھاس پھونس ، تھرڈ پارٹی ایجنڈے کی آلودگی اور آدھے سچ کو آدھے جھوٹ کی آمیزش سے پیدا ہونے والے فضلے سے الگ کیے بغیر میدانوں میں پھیلنے دیا جائے تو ایسا خبری سیلاب رہی سہی سماجی زرخیزی کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

    آپ سیلابی پانی کو پئیں گے تو کئی جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اسی طرح جب آپ خام خبر کو پئیں گے تو ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوتے چلے جائیں گے۔لہذا انفارمیشن بھلے خبر کی شکل میں ہو یا پھر اداریے ، مضمون ، کالم کی شکل میں یا الیکٹرونک میڈیا کی بریکنگ نیوز کی شکل میں۔ اسے پینے کے قابل پانی کی طرح بالکل شفاف شکل میں کنزیومر کے پاس پہنچنا چاہیے جیسا کہ ہر پروڈکٹ کے بارے میں کنزیومر کا حق ہے۔اور یہ کام خبر کا کارخانہ یعنی میڈیا ہاؤس اور اس کارخانے میں کام کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ٹویٹر اور وٹس ایپ کے دور میں خبر کی پروڈکٹ کو آلودگی سے پاک کرنے کی ذمے داری اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ اب ایک ایک خبر اور تصویر کو پھونک پھونک کر جانچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ڈاکٹرڈ یا ایجنڈے سے آلودہ تو نہیں ہے۔

    آج کی صحافت کو معیاری بنانے کی راہ میں ایک اور بڑا چیلنج ریٹنگ کی وبا ہے جس نے خبر کو انفوٹینمنٹ اور پھر انفوٹینمنٹ کو سٹرپٹیز میں بدل ڈالا ہے۔سٹرپٹیز بذاتِ خود ایک آرٹ ہے۔مگر یہاں تو کپڑے اتار کر الٹا سیدھا ناچنے کو ہی سٹرپٹیز کہا اور سمجھا جا رہا ہے۔

    میرے خیال میں ریٹنگ کے تصور کے موجد بس اور ویگن ڈرائیور ہیں۔جنھیں مالکان مجبور کرتے ہیں کہ جتنی زیادہ سواریاں اٹھاؤ گے اتنا کمیشن ملے گا۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو سفر ایک گھنٹے کا ہے۔ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے آدھے گھنٹے میں ہی طے کر لیا جائے اور پیچھے آنے والی ویگن کے مسافر بھی اٹھا لیے جائیں۔اس چکر میں ان بسوں اور ویگنوں کی اندھی ریس شروع ہو جاتی ہے اور سڑک پر ایک طوفان آجاتا ہے۔حادثات ہوتے ہیں۔کئی بسیں الٹ جاتی ہیں یا مسافر کچلے جاتے ہیں۔

    خبر کی ٹرانسپورٹ کرنے والے میڈیم اور مسافروں ڈھونے کی ہوس میں مبتلا ٹرانسپورٹ میں کچھ تو فرق رہنا چاہیے۔

    نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا اور شام کے گرما گرم اخبار میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔یوں لگنے لگا ہے گویا خبر دی نہیں جا رہی۔خبر کی قے کی جا رہی ہے اور رات بارہ بجے تک رائے عامہ کا پورا فرش ان خبری الٹیوں سے بھر جاتا ہے اور پھر اگلی صبح دوبارہ قے شروع ہو جاتی ہے۔یہ صحافت نہیں ہلکے پیٹ کی بیماری ہے۔اس کا علاج ہونا چاہیے۔

    اخبار تو ایک دن بعد آتا ہے۔اس لیے خبر اور تجزیے پر پیشہ ورانہ انداز میں غور کرنے کے لیے زیادہ وقت مل جاتا ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بھنڈی خریدے ، چھیلے ، پکائے ، پلیٹ میں ڈالے اور پھر پیش کرے چنانچہ بریکنگ نیوز کی تھالی میں کچی بھنڈیاں بھوکے کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔کھاؤ تو کھاؤ ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔

    جس طرح ایک پیشہ ور فوج ایک موثر ڈسپلن کے سوا کچھ نہیں اور اگر اس کا دل دفاع کی بنیادی فرض کے علاوہ ادھر ادھر کی اٹریکنشنز میں لگ جائے تو پھر وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔اسی طرح اگر میڈیا کی فوج سچی ، متوازن اور شفاف خبر کے حصول اور اسے قاری یا ناظر تک پیشہ ورانہ انداز میں پہنچانے کے بنیادی کام کو ثانوی سمجھنا شروع کردے اور مراعات ، غیر ضروری تعلقات اور اپنا الو سیدھا کرنے کے کام میں لگ جائے تو پھر بقول سراج اورنگ آبادی یوں ہوتا ہے کہ

    خبرِ تحئیرِ عشق سن نہ جنوں رہا ، نہ پری رہی
    نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا ، جو رہی تو بے خبری رہی

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گھٹن بہت ہے۔صحافی اور صحافت اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے محاصرے میں ہے۔تحقیقی صحافت جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔اس راہ میں جاں کا ضیاع بھی ہو جاتا ہے۔پاکستان ویسے ہی صحافیوں کے لیے پانچ سب سے غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔صحافی بھی بال بچے دار ہوتے ہیں۔

    یہ سب باتیں اور خدشات بالکل درست ہیں۔مگر پھر کس نے کہا تھا کہ آپ صحافت ہی اختیار کریں۔ آخر اس ملک کو اچھے کلرکوں ، منشیوں ، ڈاکٹروں ، انجنیروں ، مکینکوں ، کورئیرز وغیرہ کی بھی تو بہت ضرورت ہے ، کسی اشتہاری کمپنی میں ہی چلے جائیں۔کچھ اور نہیں تو ڈاکخانے کے باہر بیٹھ کر لوگوں کے خط لکھنا شروع کردیں۔

    آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔کس نے مشورہ دیا کہ آپ ایک میڈیا ہاؤس ہی بنائیں۔اگر آپ کو صرف منافع اور پیسہ کمانے سے غرض ہے تو پھر میڈیا ہاؤس کے بجائے کسی صابن فیکٹری میں پیسہ لگا دیں ، کوئی اسکول کھول لیں ، سرکاری ٹھیکہ پکڑ لیں ، کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی پروڈکٹس بیچنے کی دلالی کر لیں۔کچھ بھی کر لیں۔مگر میڈیا کو تو نہ خراب کریں۔اسے جیسا کیسا لنگڑا لولا چلنے دیں۔قوم کا غم ہے تو سیاسی جماعتیں بہت۔دین کا دکھ ہے تو مذہبی تنظیمیں بہت۔ منافع و ملاوٹ زدہ صحافت سے کیا لوگوں کو ذہنی بیمار کرنا ضروری ہے۔اس سے تو بہتر ہے آپ جنسی حکیم بن جائیں۔محنت بھی کم اور منافع بھی زیادہ۔

    لہذا مجھے کوئی یہ نہ بتائے کہ صحافت مشکل ہے۔ہاں مشکل تو ہے۔مگر آپ خود کو کیوں مشکل میں ڈال رہے ہیں۔مرچوں سے زبان بھی جل رہی ہے اور کھانا بھی نہیں چھوڑ رہے۔مت دھوکا دیں خود کو۔اور پھر ہم سب کو۔

  • خاتون رپورٹر کو تھپڑ، صحافت گئی تیل لینے! علی رضا شاف

    خاتون رپورٹر کو تھپڑ، صحافت گئی تیل لینے! علی رضا شاف

    علی رضا صحافت کے اصول اور دور رواں کی ریٹنگ پالیسیاں دونوں میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے اگر صحافتی اور اخلاقی اصولوں پر چلا جائے تو میڈیا مالکان کی ریٹنگ متاثر ہو جاتی ہے اور اگر ریٹنگ کی پالیسیوں کو مد نظر رکھا جائے تو صحافت کہیں جاکر دفن ہو جاتی ہے۔

    کراچی میں نادرا آفس میں ایک واقع پیش آیا جس میں ایف سی کے ایک اہلکار نے خاتون رپوٹر کو تھپڑ رسید کر دیا، پورا میڈیا سیخ پا دکھائی دیا ، صحافت کے چند حلقے ، حقوق نسواں کی موم بتی ساز تنظیمیں یا چند ایسے لوگ جو وردی والوں سے ذاتی بغض رکھتے ہیں تنقید پر تنقید کر رہے ہیں لیکن اگر اس معاملے کو دقیق نظری سے دیکھا جائے تو فیصلہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ صحافت کے اصولوں کی پاسداری ہو رہی تھی یا پھر معاملے کو ذاتی انداز میں جذبات کی بنا پر دیکھا جا رہا تھا خاتون رپورٹر کے مطابق نادرا دفتر میں خواتین کیساتھ بد تمیزی کی جاتی ہے اور انہیں مسلسل فون کالز موصول ہو تی رہی ہیں جس پر بظاہر انہوں نے خود ہی ایک سرکاری افسر کی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے اہلکار کو گھر میں ماں بہن کا طعنہ اور ”وردی”سے پکڑ کر کھینچا تانی کی ، یہاں پر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کسی بھی صحافتی اصولوں میں یہ درج ہے کہ آپ کسی معاملے کو دیکھ کر وہاں ایک پارٹی بن کرفیصلہ کریں اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موصوفہ معاملے کو دیکھ کر جذباتی انداز میں ایک پارٹی کا کردار ادا کرنے لگیں ۔۔۔کیا صحافت کے اصولوں میں یہ بھی درج ہے کہ آپ سرکاری وردی میں ملبوس کسی اہلکار کو اس کی وردی سے پکڑ کر ”اوئے”سے مخاطب کریں۔

    اس امر سے انکار نہیں کیا جا رہا ہے کہ وہاں لوگوں کیساتھ ناروا سلوک نہیں ہو رہا تھا لیکن اگر ناروا سلوک ہو رہا تھا تو رپورٹر کو ایک صحافی کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے نشر کرنا چاہئے تھا لوگوں تک اور اعلیٰ حکام تک پہنچانا چاہئیے تھا اس دوران وہ اس اہلکار کا مو قف بھی جان لیتی وہ جتنے بھی تلخ لہجے میں گفتگو کر رہا تھا اسے کیمرے کے سامنے پیش کرتیں اور متوازن طریقے سے اپنے فرائض انجام دیتی باقی فیصلہ حکام بالا کی جانب سے کیا جا تا ۔صورتحال میں تلخی تب آئی جب اہلکار کی وردی کو چھوا گیا یہاں پر واضح کرتا جاؤں ایف سی اہلکار یا کوئی بھی وردی والا وردی پہنتے ہوئے وردی کے تحفظ و حرمت کا حلف بھی اٹھاتا ہے وہ کیسے اس پر اوچھے انداز میں حملہ برداشت کر سکتا ہے تاہم خاتون پر ہاتھ اٹھانا بھی کسی اخلاقی اصول کے زمرے میں نہیں آتا اہلکار نے بھی حدودوقیود کی خلاف ورزی کی جس کی مذمت کی جانی چاہئیے لیکن اس سے پہلے معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا اسے بھی ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔

    اس سے پہلے بھی صحافت کے کچھ ایسے آپریشنز صحافیوں کو نقصان پہنچا چکے ہیں وہ اقرار الحسن کی جانب سے سٹنگ آپریشن کی صورت میں ہوں یا موصوفہ کی جانب سے کی گئی کاروائی کی صورت میں دونوں نے صحافیوں اور سرکاری ملازمین کے درمیان باہمی تعاون کے رشتے کو ضرور متاثر کیا ہے ۔اور ایسے آپریشنز یا واقعات کی صورت میں ہمیشہ میڈیا چینلز کی جانب سے بھی پارٹی کا کردار ہی سامنے آیا ہے ان کی جانب سے بھی تمام صحافتوں اصولوں کو بھلا کر اپنے رپوٹر یا اینکر کی طرف داری کی جاتی رہی ہے اور ہمدردیوں کیساتھ ساتھ ریٹنگ بھی سمیٹی جا تی رہی ہے کیوں کہ صحافت کے اصول اور دور رواں کی ریٹنگ پالیسیاں دونوں میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے اگر صحافتی اور اخلاقی اصولوں پر چلا جائے تو میڈیا مالکان کی ریٹنگ متاثر ہو جاتی ہے اور اگر ریٹنگ کی پالیسیوں کو مد نظر رکھا جائے تو صحافت کہیں جاکر دفن ہو جاتی ہے ۔

  • صحافی کیوں بنتے ہیں؟ تنزلی کے محرکات کیا ہیں؟ حسن تیمور جکھڑ

    صحافی کیوں بنتے ہیں؟ تنزلی کے محرکات کیا ہیں؟ حسن تیمور جکھڑ

    حسن تیمور سائیڈ پہ ہوجائیں، ادھر سے ہٹ جائیں، ہمیں کام کرنے دیں۔
    بھائی! ہم اپنا کام کر رہے ہیں، ہمیں کیوں روک رہے ہو؟
    چل چل تو کیمرہ لگا، دیکھ لوں گا ان ۔۔۔۔۔۔ کو!

    یہ ان بہت سے جملوں میں سے چند ہیں جو فیلڈ میں ہمارے صحافی بھائیوں کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں صحافت ایک مقدس پیشہ ہونے کے بجائے طاقت کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھی جانے لگی ہے۔ ہم میں سے بہت سے دوست (معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ تقریباسبھی دوست) یہی سوچ کر اس میدان میں آتے ہیں کہ وہ صحافی بن کر استثنیٰ نامی وہ سلیمانی ٹوپی حاصل کر لیں گے جس کے بعد وہ اخلاقی تقاضوں اورقانون نامی”بلاؤں“ سے ”محفوظ“ رہ سکیں گے۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے کی اول تو کسی میں ہمت نہ ہوگی، اوراگر ہوئی بھی تو اس جادوئی ٹوپی کی موجودگی میں وہ ان کے سامنے سے ”گدھے کے سر سے سینگ“ جیسے غائب ہوجائے گا۔

    سرکاری عمارات ہوں یا حساس مقامات
    جلسے جلوس ہوں یا کسی کا گھر
    خوشی کی تقریب ہویا کوئی حادثہ
    ان کو استثنیٰ حاصل ہوگا کہ جو جی میں آئے کرتے پھریں اور باز پرس یا اخلاق و ضابطے سے بالکل ماورا ہوں۔

    فیلڈ والوں کو چھوڑیں، ڈیسک اور ٹیکنکل والے بھی کچھ کم نہیں ہوتے، وہ بھی بارہا اپنے طرزعمل سے اس پیشے اور ادارے کی ”نیک نامی“ میں مزید اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔

    آج کل ایک واقعہ کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے جس میں ایک ”مظلوم“ خاتون صحافی کو ایک ”ان پڑھ جاہل اور ظالم“ مرد گارڈ نے اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکتے ہوئے تھپڑ جڑ دیا۔ وہ ویڈیودیکھنے، باربار دیکھنے کے باوجود بھی میں اس میں سےگارڈ کی کوئی خاص غلطی نہیں نکال سکا، سوائے اس کے کہ اس نے تھپڑ ہی کیوں مارا۔

    میں احترام عورت کا قائل اور حقوق نسواں کا علمبردار بھی ہوں، لیکن احترام آدمیت کی قیمت پر نہیں۔

    واقعہ کی ویڈیو

    یہ ویڈیو کسی انفرادی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی طرز عمل کی عکاس ہے جو اس فیلڈ سے وابستہ افراد میں کسی سرطان کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ اس پر لکھنے اور بولنے کو بہت کچھ ہے لیکن اپنی کم علمی، مضمون کی طوالت اور عوام کی سہولت کےلیے صرف اسی واقعہ پر توجہ مرکوز رکھناچاہتا ہوں۔ سو اس تازہ ترین واقعہ کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ ان محرکات پر نہ صرف غور کیا جائے بلکہ اس کے سدباب کےلیے اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔

    پہلا محرک: صحافت میں کمرشل ازم کی آمد
    اس کو بلیک میلنگ، پراپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ نے جہاں صحافت کو تباہ کر کے رکھ دیا وہاں اس سے وابستہ افراد (چیف سے لےکر ڈرائیورتک) میں مجرمانہ سوچ کوفروغ دیا۔ زرد صحافت، بلیک میلنگ اور فوائد کے نام پر رشوت ستانی جیسی برائیاں اس فیلڈ کا جزولاینفک بن کر رہ گئیں.

    دوسرا محرک: مؤثرنگرانی کافقدان، سرکاری اداروں کی مجرمانہ چشم پوشی
    اس محرک نے صحافت کو بگاڑنے میں سب سے کلیدی کردار ادا کیا، کیوں کہ جس طرح انسان بنیادی طور پر لالچی اورگناہ کی طرف جلد مائل ہونے والا ہے، ادارے بھی اسی طرز پر کام کرتے ہیں۔ صرف مؤثر نگرانی اور تعزیر کا خوف ہی ان کو کسی غلط کام سے روک سکتا ہے۔ نگرانی نہ ہونے سے مقدس پیشہ اور ریاست کا چوتھا ستون کہلانے والے ادارے وہ جونکیں اورگدھ بن گئے جو صرف اپنا پیٹ بھرنے کےلیے دوسروں کاخون پینے اور کسی کو مارنے میں قعطاً کسی ہچکچاہٹ کاشکار نہیں ہوتے۔ اس میں سراسر قصور انتظامیہ اور حکمرانوں کا ہے۔

    تیسرامحرک: تنخواہوں کی عدم ادائیگی یااس میں تاخیر
    یہ محرک ان بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس نے صحافی کو عزت کی بلند مچان سے گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میدان صحافت میں موجود بہت سے ادارے یا تو ورکرز کو تنخواہیں سرے سے ادا ہی نہیں کر رہے یا پھر ان میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ ورکرز کے گھر فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایسے میں اخلاقی اقدار اور پیشہ وارانہ اصولوں کی پاسداری دیوانے کاخواب بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ کہیں اپنی ”صحافت“ بیچنے پہ مجبور ہوتے ہیں تو کہیں ”بدمعاشی“ دکھاکر ”پیسے“ پورے کرتے ہیں۔ یہی وہ محرک ہے جس کے تحت کم پڑھے لکھے (سرے سے ان پڑھ بھی شامل کرلیجیے) افراد بھی اس پیشے کاحصہ بنے اور پھر اپنا آپ خوب دکھایا۔

    چوتھامحرک: تربیت کی کمی، احتساب کافقدان
    میڈیا کے اداروں میں پروفیشنل ازم کا فقدان تو ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے ورکروں کی ذہنی و عملی استعداد بڑھانے کے لیے تربیت نامی چڑیا کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ پرانے ورکرز کے لیے ریفریشر کورسز تو دور، نئے آنے والےساتھیوں کو بھی کسی قسم کی عملی تربیت نہیں دی جاتی۔ زیادہ تر ادارے ویسے ہی نوآموز طلبہ کو لے کر اپنے پیسے بچانے کے چکر میں لگے ہیں جس کا نتیجہ نت نئے ”بھنڈ“ کی صورت میں نظر آتا رہتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ رپورٹرز نامی مخلوق میں احتساب نامی ڈنڈے کا خوف بھی ناپید ہو چکا ہے۔ وہ کسی نوعیت کی بھی غلطی کر لے، اسے کسی نوعیت کی سزا کا ڈر نہیں ہوتا (نہ محکمانہ نہ ہی اس کا جس کےخلاف وہ غلط خبر دی گئی ہو)۔ کسی سنگین غلطی کی صورت میں بھی زیادہ سےزیادہ ادارے ایک لفظ ”معذرت“چھاپ کر ”گنگا“ نہاجاتے ہیں۔

    ان محرکات کے علاوہ بےشمار دیگر وجوہات بھی ہیں جو اس پیشے کی تنزلی کی بنیاد ہیں۔ ان تمام محرکات کو روکنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے اور کیا کیا جا چکا ہے۔ اس پہ بحث کرنا یہاں ممکن نہیں کیوں کہ یہ ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے اور اپنے بس سے باہر بھی۔ مسائل کی نشاندہی کرنا پہلا اور بنیادی قدم ہے جس کے بعد ہی اس کے حل کی نوبت آتی ہے، سو میں نے اپنے تئیں کچھ باتیں بیان کردی ہیں، اب میں اپنے ”صاحب اقتدار“ صحافی دوستوں سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس کےسدباب کے لیے اپنی اپنی سطح پر اقدامات اٹھائیں، بصورت دیگر اپنے حصے کا تھپڑ کھانے کے لیے تیار رہیں۔ اور ضروری نہیں کہ آپ کو یہ عزت کسی گارڈ کے ہاتھوں ہی ملے، وہ کوئی چپڑاسی بھی ہوسکتا ہے۔

    (حسن تیمور جکھڑ دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، 92 نیوز میں اسائنمنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)

  • صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اس وقت پاکستان کا صحافتی منظرنامہ دو واقعات سے گونج رہا ہے۔ ابھی سیرل المیڈا کی خبر پر اٹھنے والا شور وغوغا مدھم نہیں ہوا تھا کہ عروس البلاد کراچی میں ایک خاتون اینکر کو رینجرز کے ایک اہل کار نے ’کارِ سرکار میں مداخلت پر‘ چٹاخ سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ دونوں واقعات کا بظاہر ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق بھی نہیں نظر نہیں آتا لیکن اگر احتیاط سے دیکھا جائے تو دونوں واقعات کے ڈانڈے ایک ہی جگہ سے جا کر ملتے ہیں۔

    کوئی دور تھا کہ صحافت میں صرف اہل الرائے اور نظریاتی لوگ ہی آیا کرتے تھے، کیوں کہ صحافت میں تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں اور وہ بھی کبھی کبھار ہی ملتی تھیں۔ جب ہم جیسے جونیئرز اپنے سینیئرز سے اس حوالے سے شکوہ کناں ہوتے تو جواب ملتا کہ ’جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘؟ صحافیوں کو معاشرے میں بیک وقت رحم اور خوف کی نگاہوں سے دیکھا جاتا۔ ہمیں بتایا جاتا کہ صحافت واحد شعبہ ہے جس میں پچاسی فی صد سے زائد لوگوں کو تنخواہ تو ملتی ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے ضلعی اور علاقائی نامہ نگاروں کا حوالہ دیا جاتا جو ہر گلی محلے میں اعزازی طور پر کام کرتے اور کسی عوضانے یا تنخواہ کے طلب گار نہ ہوتے۔ بڑے بڑے اخبارات بھی ان کو فی سطر کے لحاظ سے ادائیگی کرتے جو ان کے قلم کی سیاہی کا خرچ بھی پورا نہ کرپاتی۔

    پھر گذشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں لاہور میں ایک رحجان ساز تبدیلی آئی جب کچھ صحافیوں نے ایڑیاں اٹھا کر میڈیامیں شامل ہونے کی کوشش کی اور علاقائی نامہ نگاروں کو کہہ دیا گیا کہ ’’اپنا کھا آنا، اور ہمارے لیے لیتے آنا‘‘یعنی ان اخبارات نے پورے ملک کے ہر گلی محلے میں پھیلے اپنے نمائندگان اور نامہ نگاروں کے ذمے لگایا کہ وہ ہر محلے سے انہیں اس قدر رقم بھیجیں ، بھلے وہ اخبار اس قابل ہے یا نہیں کہ اس کو اشتہار دیا جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے پورے معاشرے میں بلیک میلروں کے سیلاب کا ایک ریلا کھول دیا۔ کبھی تھانے بکتے ہوں گے یا پھر ائیرپورٹس پر امیگریشن کے کاؤنٹر بکتے ہوں گے اب شہروں کے بیورو بھی بکنے لگے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اخبارات نے پولیس کے متوازی ایک حکومت قائم کر لی جو ہر سرکاری ادارے کی بدعنوانی کے یا تو حصہ دار تھے یا پھر پشتی بان۔ اور جہاں پر وہ یہ نہ ہوتے تو اس کی خبر چھپ جاتی۔

    ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارا رشتہ گیا تو ہماری ہونے والی زوجہ محترمہ کی نانی (مرحومہ) نے دریافت کیا کہ ’لڑکا کرتا کیا ہے‘‘ تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اخبار نویس ہے۔ اس پر انہوں نے بڑے تحمل سے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن کام کیا کرتا ہے؟ ہماری بیٹی کو کہاں سے کھلائے گا؟ ہم انہیں شادی کے دس سال بعد تک نہ سمجھا پائے کہ اس شعبے میں بھی تنخواہ دینے کا رواج ہو گیا ہوا ہے۔ اس صدی کی ابتدا تک اگرچہ حالات بہت خراب ہو چکے تھے لیکن بلیک میلنگ کے لیے آنے والے صحافی کا قلم جیب میں ہی چھپا ہوا تھا اور خال ہی باہر آتا، جب اسے اپنا تعارف کروانے کی ضرورت ہوتی۔

    لیکن نجی ٹی وی کی آمد نے تو بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑ دیا۔ اب تو صحافی (خصوصاً علاقائی) ہاتھ میں مائیک ایسے لہراتا ہے جیسے مولا جٹ گنڈاسہ لہرایا کرتا تھا۔ لاہور کے ایک ٹی وی نے اپنے ایک نامہ نگار کو ایک جعلی ڈی ایس این جی محض اس لیے بنوا کر دی ہے کہ وہ اپنے علاقے کو کنٹرول کر سکے۔ یار دوستوں کو معلوم ہے کہ اس وین کے اوپر جڑی ڈش کا مصنوعی سیارے سے دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن اس سے کسی کو کیا لینا دینا، ساہی وال کی نواحی اوکاڑہ چھاؤنی کے علاقے کا یہ شاہکار رپورٹر مختلف صنعت کاروں اور تاجروں کے گھروں کے باہر اپنی یہ ڈی ایس این جی کار کھڑی کرتا ہے اور انہیں دھمکی دیتا ہے کہ وہ ان کے کاروبار کی بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں پر ’براہِ راست‘ نشریات شروع کرنے لگا ہے۔ اور من کی مراد پا کر واپس آتا ہے۔ ایک دفعہ جب ایک کثیر القومی ادارے کے مقامی دفتر نے ان کے مطالبات پورے کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے خبر چلوا دی کہ اس ادارے کے پاس لاکھوں ایسی سمیں موجود ہیں جو طالبان کو فراہم کی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل میڈیا نے بغیر تحقیق کے اس پر پروگرامات بھی کر ڈالے۔ وہ تو بعد میں جب اصل حقیقت آشکار ہوئی تو مقامی پولیس اور ملک کے سب سے بڑے ’خفیہ ادارے ‘ نے مل ملا کر معاملہ دبا دیا۔ کیوں کہ اس میں کچھ ’پردہ نشینوں‘ کے بھی نام آتے تھے۔

    لیکن اب ہوا یہ ہے کہ اس معاشرے نے دو دہائیوں میں میڈیا متاثرین کی جو ایک نسل تیار کی ہے وہ اب پیسے کے زور پر میڈیا مالکان کی صف میں شامل ہو رہی ہے۔ چوں کہ ان کو بلیک میل کر کے ان کی راتوں کی نیند حرام کرنے والا صحافی دراصل ایک رپورٹر ہی ہوا کرتا تھا، اس لیے صحافت اور صحافی (رپورٹر) سے نفرت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس لیے نئے میڈیا مالکان کا بس نہیں چلتا کہ وہ صحافیوں کو ذلیل کر کے اپنی عزتِ نفس مجروح کرنے کا انتقام ان سے لیں۔

    اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے ایک اجلاس کی اندرونی کہانی کی خبر ایک ایسے صاحب نے دی جن کا رپورٹنگ کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں۔ ایک پیدائشی رپورٹر کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ جس طرح کی سمری موصوف کے ہاتھ لگی ہے، اس طرح کی بہت سی دستاویزات روزانہ کی بنیاد پر ایک رپورٹر کے ہاتھ لگتی ہیں، لیکن اس کے اندر کا سنسر بورڈ فوراً اس طرح کی خبروں کو مسترد کر دیتا ہے۔ چوں کہ موصوف کے فرشتوں نے تمام عمر ایسا کام نہیں کیا تھا بلکہ انہیں تو سکھایا ہی چھپی ہوئی خبر پر تبصرہ کرنا تھا، اس لیے موصوف نے اپنی خبر میں وہ اعلیٰ قسم کی بونگیاں ماری ہیں کہ صحافت سر پیٹتے ننگے سر بازار میں نکل آئی ہے۔

    میڈیا مالکان نے دوسرا انتقام صحافت سے یہ لیا ہے کہ صحافی کون ہے؟ اور اس کی اوقات کیا ہے؟ صحافی کو اس کی اوقات یاد دلوانے کے لیے اسے کیمرے کے سامنے سے اٹھا کر کیمرے کے پیچھے بٹھا دیا گیا اور کیمرے کے سامنے ایک حشرسامان بیگم جان براجمان ہو گئی ہیں۔ محرومی اور ڈپریشن کا شکار خبر سننے کے لیے رکے یا نہ رکے، اس بیگم جان کو دیکھنے کے لیے ضرور رکتی ہے۔ جس خاتون کو ’مدعہ ای اے بھائی‘ کہہ کر پورے رپورٹنگ روم میں منہ نہیں لگایا کرتا تھا، اب وہ ملک کی ٹاپ رینکنگ اینکر ہوتی ہے۔ یہ وہ انتقام ہے جو ہر میڈیا مالک نے ہم جیسے صحافیوں سے لیا ہے۔ دوسری طرف ہر تعلیم فروش، سوتر فروش، سگریٹ فروش، کیبل فروش اور ضمیر فروش اب میڈیا مالکان کی صف میں گھس آیا ہے۔

    اب کراچی میں تھپڑ کھانے والی خاتون کو اگر میڈیا پروڈکشن یا صحافت کے معیار کے طور پر دیکھیں تو کسی طور بھی پرائم ٹائم کیا انہیں سرے سے ہی سکرین پر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سہاگن وہ جو پیا من بھائے۔ چوں کہ وہ اس چینل کے مالک صاحب کو پسند ہیں ، اس لیے ’ضروری ہیں‘۔ اس کے بعد انہوں نے جو حرکت فرمائی وہ سبحان اللہ۔ ہمیں پہلے دن بتایا گیا تھا کہ ادارے کا نکتہ نظر اس کے سربراہ سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اگر پولیس کا آئی جی نہ ملے تو کم ازکم ڈی آئی جی سے کم بات نہ کرنا۔ لیکن موصوفہ نے تو ایک سپاہی کو ہی بتانے کی کوشش کی کہ اس کے گھر میں ماں بہن ہوتی ہے کہ نہیں۔

    بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب کی اعلیٰ پالیسیوں کے باعث ان کے ادارے کے بارے میں لوگوں کی پسندیدگی اس انتہا کو پہنچی تھی کہ ادارے کو یہ بات نوٹی فائی کرنا پڑی تھی کہ ادارے کا کوئی افسر یا ملازم یونیفارم میں عوامی جگہوں پر نہ جائے۔ یہ دور صحافت میں آیا ہی چاہتا ہے کہ کسی بھی جگہ صحافی کا تعارف کروانے پر لوگ باقی کام چھوڑ کر آپ کی ’آؤ بھگت‘ میں مصروف ہو جائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ پیشے کے خانے میں استاد، لکھنا شروع کردیں کہ اب صحافی کا تعارف کروانا بھی ایک جرم سا لگنے لگا ہے۔
    ان دونوں واقعات کے پس منظرمیں صحافتی پیشہ وراریت کی نہیں اخلاقی تربیت کی شدید کمی کارفرما نظر آتی ہے اور اس عمر میں ان کو یہ باتیں تو سکھائی نہیں جاسکتیں کیوں کہ یہ بنیادی باتیں انہیں ماں کی گود سے سیکھنا تھیں جہاں سے نکلے انہیں عرصہ بیت چکا ہے۔

  • ”میں اس برادری ازم سے بری ہوں“ – سبوخ سید

    ”میں اس برادری ازم سے بری ہوں“ – سبوخ سید

    سبوخ سید اس طرح تو محلے کی ماسیاں بھی نہیں کرتیں جس طرح یہ محترمہ جرنلزم کر رہی ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک رویہ ہے۔ چینل مالکان جو ”دِکھتی ہے وہ بکتی ہے“ کے اصول پر جرنلزم نہیں، بلکہ دھندے بازی میں مصروف ہیں ۔

    موصوفہ جن کا نام صائمہ کنول بتایا جاتا ہے، کراچی21 نامی چینل پر ”کراچی کی آواز“ کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔ اس پروگرام کا موضوع بہت اچھا اور وہ ایک اہم مسئلہ کی جانب نشاندہی کر رہی تھیں۔

    آپ نے اگر ویڈیو نہیں دیکھی تو یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔

    https://youtu.be/d-dxYuk7nQI

    موصوفہ کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے یہ عورتوں کی بے عزتی کر رہا تھا، جس کی وجہ سے انہیں غصہ آگیا۔ جس وقت انہیں غصہ آیا، اس وقت وہ صحافی نہیں بلکہ فریق بن گئیں۔ انہوں نے اپنی فیس بک وال پر اپنے دفاع میں لکھا کہ
    ”وہ حلال زادی ہیں۔ مائوں بہنوں کی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتی۔“

    میری گزارش ہے کہ یہ محترمہ کشمیر و فلسطین نکل جائیں، ونی، سوارا، کاروکاری، جبری تبدیلی مذہب، کم عمری اور جبری شادیوں کے مسئلے پر آواز اٹھائیں۔ اس موضوع پر ایک تنظیم بنائیں اور تحریک شروع کریں۔ میں بھی آپ کا ساتھ دوں گا لیکن جو کچھ آپ کر رہی ہیں یہ ایکٹوازم تو ہے جرنلزم نہیں۔

    انہیں چاہیے تھا کہ وہ عورتوں کی بےعزتی کرنے کا منظر ریکارڈ کر کے اپنے چینل پر دکھاتیں۔ اس شخص کا مؤقف لینے کی کوشش کرتیں۔ اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو اس کی فوٹیج بنا تیں۔ جن عورتوں سے بدتمیزی کی، ان کا مؤقف لیتیں اور نشر کردیتیں۔

    موصوفہ ایکٹر نما اینکر کی غصے سے لرزتی آواز، ان کا اشتعال پیدا کرنے والا انداز، ان کا سپاہی کی وردی کھینچنا، اس پر ہاتھ اور مائیک سے حملہ آور ہوجانا صحافت نہیں، ان کی ذاتی لڑائی بن چکا ہے۔

    یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں۔ بالکل ٹھیک کہا لیکن یہ عورت سپاہی کی وردی پر ہاتھ اٹھانے کے بعد صحافت اور احترام کا حق کھوچکی تھیں۔ ہاتھ اٹھائوگے تو ہاتھ اٹھایا جائے گا۔

    تاہم دو غلط مل کر ایک ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہاں اس عورت نے چار غلطیاں کیں۔

    (1) جرنلزم کے بجائے ایکٹوازم شروع کردیا۔
    (2)ایکٹوازم کے بعد مدعی بن گئیں۔
    (3) مدعی بننے کے بعد جج بن کر فیصلہ کردیا۔
    (4) جج بننے کے بعد سزا دینے کے لیے انتظامیہ بن گئی۔

    پھر ایک تھپڑ کھا کر مظلوم بن گئی۔

    جو لوگ اس خاتون اینکر کو سپورٹ کر رہے ہیں، انہیں جرنلزم کا ککھ پتا نہیں۔ وہ بھی چھاتہ بردار ہوں گے۔ سپاہی کا عورت پر ہاتھ اٹھانے کی میں مذمت کرتا ہوں، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ سپاہی غریب ہے، ملازم ہے، اپنی مزدوری کر رہا ہے، جو حکم ہے اسے پورا کر رہا ہے۔ اَن پڑھ ہے لیکن دوسری جانب پڑھی لکھی، قوم کی اصلاح کرنے والی، ایران توران سے لے کر کاغان ناران تک، ہر موضوع مملکت کی سرخیل کھڑی ہے۔ بات مذمت کی ہوگی تو پہلی مذمت اینکر کی اور پھر دور کہیں جاکر سپاہی کی ہوگی۔

    فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ نام نہاد ایکٹرز نما اینکرز آئے روز مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بندر کے ہاتھ میں استرے والی بات ہے۔ اس موقع پر صحافتی حقوق کی تنظیموں کا رویہ انتہائی افسوس ناک ہوتا ہے کہ وہ غلط کو غلط کہنے کے بجائے برادری کے ساتھ کھڑے ہونا شروع کردیتی ہیں۔ میں اس برادری ازم سے بری ہوں۔ جو غلط ہے، وہ غلط ہے۔ چاہے میرے والد محترم کریں، میرا بھائی کرے، میرا دوست کرے یا میری اولاد کرے۔ صرف یہ رویہ ہی ہمیں ایک اچھا شہری بناسکتا ہے اور ہم ایک اس رویے سے ایک اچھا معاشرہ تخلیق کرسکتے ہیں۔

  • دُہرا معیارکب تک؟-افتخار گیلانی

    دُہرا معیارکب تک؟-افتخار گیلانی

    m-bathak.com-1421247195iftekhar-jelani
    میڈیا اور دیگر اداروں نے پاکستان کے انگریزی اخبار کے صحافی سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا نوٹس لے کر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ جو اظہار یکجہتی کیا وہ قابل ستائش ہے۔ جمہوری نظام میں طاقت کے نشے میں چور ایگزیکٹو کے بے لگام اور سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے اور اس کی لگام تھامنے کے لئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کا ذمہ دار اور آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ فوج اور سویلین انتظامیہ کے درمیان مبینہ چپقلش کی خبرکی بنا پر المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنا غیر ضروری تھا۔کوئی بھی ایجنسی اس خبر کے محرک کی تفتیش اس کے بغیر بھی کرسکتی تھی۔ دنیا بھرکے میڈیا اداروں، امریکی حکومت، آزادی اظہار اور جمہوریت کے علمبرداروں نے اس اقدام پر حکومت پر سخت نکتہ چینی کی۔ بھارت میں دانشوروں، ادیبوں، مقتدر صحافیوں اور ٹی وی اینکرز نے اس ایشو کی آڑ میں پاکستان کی فوج اور سویلین حکمرانوں کے درمیان مبینہ تلخیوںکو خوب اچھالا۔

    ہمیں اس پر یہ شکوہ ہے کہ جب اس طرح کے واقعات بھارت اورکشمیر میں وقوع پذیر ہوتے ہیں تو یہ نام نہاد دانشور‘ ادیب‘ مصنفین اور ٹی وی اینکر چپ کیوں سادھ لیتے ہیں۔ شاید انہیں یاد ہی نہیںکہ 30 ستمبر سے کشمیر کے ایک مقتدر انگریزی اخبار”کشمیر ریڈر‘‘ کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً سرینگر کے اخبارات کو ترسیل پر پابندی کی وجہ سے اپنی اشاعت موقوف کرنا پڑی۔ اظہار رائے کی آزادی کے یہ ”مجاہد‘‘ اس وقت بھی خاموش رہے جب 2010 ء میں امریکی مصنف اور دانشور پروفیسر Richard Shapiro کو حکومت ہند نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 2010ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر David Barasmian اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انہیں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا۔2011ء میں حقوق انسانی کے مشہور کارکن گوتم نولکھا کا واقعہ شاید لوگ ابھی نہیں بھول پائے ہوںگے۔ گوتم اپنی اہلیہ کے ہمراہ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے کہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر انہیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے پر مجبورکر دیاگیا۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ حقوق انسانی کے کارکن خرم پرویزکو اندرا گاندھی ایئرپورٹ سے نہ صرف واپس بھیجا گیا بلکہ اگلے روز سرینگر جا کر ان کو بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ایسے واقعات اس کثرت سے پیش آتے ہیں کہ ان کی گنتی کرنا مشکل ہے۔

    میں خودای سی ایل کا شکار رہا ہوں۔ 2004ء میں ایک ٹریک ٹو کانفرنس میں شرکت کے لئے میں بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ آنجہانی ایس کے سنگھ کے ہمراہ کٹھمنڈوجا رہا تھا کہ ای سی ایل میں شامل ہونے کے باعث دہلی ایئر پورٹ سے مجھے واپس لوٹا دیا گیا۔ ایس کے سنگھ نے جو چند ماہ بعد صوبہ اروناچل پردیش کے گورنر مقرر ہوئے،امیگریش افسروںکی منت سماجت کی، فون پر وزارت خارجہ اور داخلہ سے بھی رابطہ کیا مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ آج بھی جب مجھے ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تو امیگریشن کے کائونٹر پر سوالات کی ایک بوچھاڑ میری منتظر ہوتی ہے۔ کئی بار پاسپورٹ اور ویزے کی جانچ ہوتی ہے۔ ہر صفحے کی فوٹو کاپیاں لی جاتی ہیں۔ اہلکار اپنے سینئرافسروں سے فون پر رابطہ کرتے ہیں اور صبر آزما لمحات کے بعد امیگریش کا دریا پارکرنے کی اجازت ملتی ہے۔

    کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل 2008ء تا 2010ء اور پھر 2013ء میں افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے کے دنوں میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی فورسز‘ عسکری تنظیموں اور حکومت نواز تائب جنگجوئوںکے درمیان انہیں چکی کے پاٹوںکی طرح پسنا پڑتا ہے کیونکہ صحافی ہی سب سے آسان شکار ہوتے ہیں۔ حکام کی طرف سے صحافیوںکو کرفیو پاس جاری نہ کرنے اور فورسزکے ذریعے انہیں ہراساں کرنے کی وجہ سے سرینگر سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات کو شورش کے دوران کئی کئی دن اپنی اشاعت بند رکھنی پڑی، لیکن بھارت میں صحافیوں اور اخبارات کی بڑی تنظیموں مثلاً پریس کونسل آف انڈیا‘ ایڈیٹرزگلڈ اوردیگر تنظیموںکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ 1990ء میں عسکری جدوجہد کے آغازسے اب تک تقریباً ایک درجن صحافی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں صحافت کی روح کو زندہ و تابندہ رکھنے والے ان صحافیوںکو ایک آدھ واقعات کے سوا قومی اور بین الاقوامی صحافتی برادری کی طرف سے بھی نظر اندازکیا جاتا رہا۔

    پولیس اور سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں فرضی انکائونٹرز میں بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات ان دنوں سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جبراً لاپتہ کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ”تکبیر‘‘ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ان کی بیوی اور بچے آج بھی ان کے منتظر ہیں اور بد حال زندگی بسر کرنے کی زندہ تصویر ہیں۔ عسکری تنظیموں کی طرف سے میڈیا کو دھمکیاں دینے‘ صحافیوںکو اغوا کرنے اور اخبارات کی اشاعت بند کرانے کے بے شمار واقعات ہیں۔ حکومت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی۔ 1990ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ معروف صحافی شجاعت بخاری کو کئی بار نامعلوم بندوق برداروں نے اغوا کیا۔ 2010ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے ان کے اخبار رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموںگریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔ وزارت داخلہ کشمیر ٹائمزکے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑی اوراس کی مالی حالت اس قدر خستہ کر دی گئی کہ انہیں سرینگر کا پریس بیچ کر سرکولیشن کم کرنا پڑی۔ فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور ہیں) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر قید میں رہنے کے بعد جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل سے رہا ئی پاسکے۔ حکومت نے انہیں رہا کرنے کے لئے جموں و کشمیر ہائیکورٹ اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواستوں پر بھی کان دھرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم سافما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائیکورٹ نے حکومت سے دو مرتبہ کہا کہ کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لئے جائیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

    یہ سوال قابل غور ہے کہ انسانی حقوق کی اتنی صریح خلاف ورزی کے باوجود دہلی یا ملک کے دوسرے حصوں میں صحافی برادری میں ہمدردی کی معمولی سی لہر بھی آخر کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ جن معاملات میں عسکریت پسند ملوث رہے ہیں، ان میں صحافیوںکی ہلاکت کی تفتیش میں بھی پولیس نے کبھی دلچسپی نہیں لی۔1991ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ 1989ء میں صادق شلوری کو سی آر پی ایف نے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ انہیں لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ 1992ء میں ایک دوسرے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہائشگاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر عام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ صحافیوں کو سر عام بے عزت کرنا ‘ سکیورٹی فورسز اور جنگجوگروپوں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ ایک اہم سیاسی پارٹی کے رہنما نے ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر کو صرف اس لئے بھرے بازار میں ننگے پائوں گھومنے پر مجبورکیا کہ اس کے اخبار نے ایک ایسی رپورٹ شائع کردی تھی جس سے پارٹی کے مفادات پر آنچ آتی تھی۔ اسی طرح کی بنیاد پر دو سیاسی جماعتوں نے موقر ہفت روزہ ”چٹان‘‘ کے دفتر پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا تھا۔ تقریباً بیس برس قبل جمو ں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ متحارب دھڑوں نے اخبارات کو مخالف گروپ کی خبریں شائع کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی جس کے بعد کشمیر کے اخبارات گیارہ دنوں تک شائع نہیں ہوئے تھے۔

    اسی گروپ کے ایک دھڑے نے حضرت بل کمپلیکس میں صحافیوں کی اس لئے دھنائی کردی تھی کہ وہ پریس کانفرنس میں آدھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچے تھے۔ یہ صحافی اس بات کی دہائی دیتے رہے کہ وہ اپنے ایک ساتھی صحافی کے عزیز کی تدفین کے بعد سیدھے یہاں آرہے ہیں۔کشمیر لائف کے ایڈیٹر مسعود حسین کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ انہیںبھارت نواز تائب جنگجوئوں اور عسکری تنظیموں کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑا۔ ایک دہائی قبل حزب المجاہدین نے ان کے خلاف موت کا وارنٹ جاری کیا تھا۔ اس کے دو برس بعد تائب جنگجوئوں کے لیڈر ککا پرے نے بھی ان کا ایسا ہی موت کا وارنٹ جاری کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسعود حسین اب تک حیات ہیں‘ لیکن معلوم نہیں کب تک!
    کشمیر میں ہر صحافی کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔ بی بی سی اور رائٹرزکے لئے کام کرنے والے مشہور سینئر صحافی یوسف جمیل کو کئی بار نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ جس پارسل بم سے مشتاق کی موت ہوئی تھی وہ دراصل یوسف جمیل کے لئے ہی بھیجا گیا تھا۔2003ء میں ایک اور معروف صحافی احمد علی فیاض کو بی ایس ایف کے سینئرافسر کی طرف سے دھمکی آمیز فون موصول ہوا تھا۔ افسر نے اپنی شناخت ڈپٹی انسپکٹر جنرل دیس راج بتائی تھی اور فیاض کوگولی سے اڑا دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلے کی آخری کڑی پرویز سلطان تھے جوایک مقامی نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر تھے۔ عسکری تنظیموں کے دو دھڑوں کے درمیان چپقلش کی خبریں دینے کی پاداش میں انہیںگولیوں سے بھون دیا گیا۔

    کشمیر میں پریس کودرپیش سنگین حالات غماز ہیںکہ اگر آج ہمارے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو کل آپ بھی انہی حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آزادی اظہار کے حق کے لئے تعصب، منافرت اور دْہرے معیارکی عینک نہیں لگائی جا سکتی۔ جس طرح سیرل المیڈا کے ایشو پر دنیا کے جمہوری اداروں نے آواز بلند کی، اس کا عشرعشیر بھی کبھی کشمیری صحافیوں کے حصہ میں نہیں آیا۔ آخر یہ جانبداری کب تک؟

  • لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

    لفافے کا الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں؟ رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اختلافِ رائے ہو سکتاہے، لیکن اختلافِ رائے کے بھی کوئی بنیاد ی اصول ہوتے ہیں، کوئی دلائل ہوتے ہیں اور بہترین انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اختلافِ رائے کے باوجود بھی دوسرے کے کردار پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ ایسا صرف جنگجو اقوام یا اداروں میں ہوتا ہے کہ ’’یا تم میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف‘‘ اور اگر تم مجھ سے متفق نہیں ہو تو تم برے ، تمہاری ماں بری، تمہارا پورا خاندان بُرا۔

    سماجی ابلاغ پر اب یہ ایک عام سی چیز ہے۔ دوسرے فقرے پر ہی مخالف فریق کو پٹواری، لفافہ یا یوتھیا کہہ کر مسترد کر دینا؟ پہلے پہل ہمیں جب کوئی یہ کہتا تو تن بدن میں آگ سی لگ جاتی، اب نہیں لگتی۔ جس طرح پنجابی سٹیج ڈراموں کے تمام صداکاروں کی پوری گفتگو کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طور دوسرے فریق کی گھریلو خواتین کو اخلاق باختہ ثابت کیا جا سکے، بالکل اسی طرح سوشل میڈیا پر روبہ عمل ایک پوری نسل کا مطمع نظر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ’’تمہاری اپنی کوئی رائے نہیں، تم ایک بکے ہوئے لفافہ باز شخص ہو‘‘۔ ساری عمر اسی تگ و دو میں گزار دی ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘‘ لیکن اب اس اصول سے رجوع کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ خاکسار کی ناقص رائے میں سماجی ابلاغ کے اس انقلابی دور میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے ’’کون کیا کہہ رہا ہے‘‘؟

    ایسی رائے کون اور کس طرح کے لوگ دیتے ہیں، اس کا ایک اتفاق گزشتہ دنوں ہوا اور دل کو تسلی ہو گئی کہ اگر ایسے بےکردار ے اور اخلاق باختہ لوگ یہ کہتے ہیں تو ان کی بات کا برا ماننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ میرے اس وقت کے ادارے پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) نیوز ایجنسی کی طرف سے ہمیں بتایا گیا کہ مریدکے مرکزِطیبہ میں جا کر ایک بہت بڑے اجتماع میں شرکت کرنا اور اس کو رپورٹ کرنا ہے۔ بتانے والے زاہد امیر بیگ صاحب نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ طیبہ کی ’ی‘ پر شد نہیں بلکہ زبر ہے۔

    ہمارے گھر والدِ محترم نے ایسی صلح کل قسم کی تربیت کی کہ دین سے جڑے کسی بھی شخص یا گروہ کا احترام ہم پر واجب ٹھہرا، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بابا فرید گنج شکر کے عرس میں شرکت کرنے، پروفیسر ساجد میر کی تقریر سننے اور تبلیغی جماعت کے مرکزی اجتماع میں جانے کے ہر تین کاموں میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوا اور ہر جگہ پر احترام اور عقیدت کا جذبہ فراواں رہا۔ ہم تو اب بھی امام بارگاہ سے ملحقہ مسجد میں نماز بھی پڑھ آتے ہیں، اگرچہ اس پر بہت سے دوستوں کو اعتراض ہوتا ہے اور فوراً فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ ہماری وہ والی نماز نہیں ہوئی مگر ہماری تربیت کا جواب ہوتا ہے ’’میری نماز تو ہو گئی ہے، آپ اپنی فکر کریں کیوں کہ قیامت کے روز آپ سے میری نہیں، آپ کی اپنی نماز کے بارے میں سوال ہو گا‘‘۔

    خیر ہم مرکزِ طیبہ کی اجتماع گا ہ پہنچے، ان کے اجتماع کو ایک صحافی کے طور پر دیکھا، اس کی روداد پوری پیشہ ورانہ دیانت سے نوٹ کی اور اس کے بعد دوپہر کے کھانے میں پروفیسر حافظ سعید صاحب نے مجھ سمیت سب صحافیوں کو شرف ملاقات بخشا۔ بڑے بڑے برتنوں میں سے ہاتھوں سے کھانا کھانے کے ’تلخ‘ تجربے سے گذرے۔ وہاں پر کچھ ایسے لوگوں سے بھی تعارف کروایا گیا جو محض عربی بول سکتے تھے اور افغان جہاد میں جاتے جاتے ادھر رکے تھے۔ خیر جب واپسی پر روانہ ہونے لگے اور سب لوگ واپس لانے والی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف کر کے کھڑی کر دی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو ڈرائیور نے استفسار پر زیر لب ہنسی میں بتایا کہ کچھ لوگوں سے ’مذاکرات‘ ہو رہے ہیں۔ اکتا کر اس گاڑی میں سے اترا اور مذاکرات کرنے والوں کی سمت سمت چل پڑا۔ روزنامہ مساوات کے رپورٹر ’آغا‘ صاحب مرحوم کا آخری فقرہ جو ان کے پاس پہنچتے ہوئے میرے کان میں پڑا تھا، وہ خاکسار کے بارے میں تھا ’’رضی بڑا ڈاہڈا رپورٹر ہے، وہ ایک پر نہیں مانے گا، اس کے دو دیں‘‘۔ کچھ آگے بڑھنے پر پتہ چلا کہ ’مذاکرات‘ لفافوں کی تقسیم پر ہو رہے تھے، اور آغا صاحب ہمارے دو لفافے وصول کرنے پر مصر تھے۔

    ہم نے وہاں پہنچ کر ساری صحافت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دونوں فریقین کی اس قدر بلند آواز میں ایسی شدید ’’عزت افزائی‘‘ کی کہ گاڑی کے سارے مسافر اتر کر ہمیں پکڑنے پہنچ گئے۔ ہمارا نقطہ نظر تھا کہ آپ اپنا لفافہ پکڑیے، ہمارا لفافہ پکڑنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ ہمارے بعض ساتھیوں نے ہمارے اس ’خودکش‘ حملے کی مذمت کر دی اور کچھ نے آغا صاحب کی حرکت کی۔ ہمارا آخری فقرہ یہ تھا کہ ’’اگر کسی دن ہمیں لفافے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مودے کنجر کے پاس جا کر انٹرن شپ کر لیں گے لیکن جب تک صحافت میں ہیں، یہ کام نہیں کریں گے‘‘۔ ویسے بھی بی اے قریشی، چاچا میر رفیق اور ثقلین امام اور جناب ایم اے نیازی جیسوں نے ہماری ایسی صحافتی تربیت کی تھی کہ لفافہ پکڑنا ہمارے نزدیک ماں بہن سے پیشہ کروانے سے گھناؤنا کام ہو گیا ہوا تھا۔

    اس بدمزگی کے بعد مرید کے سے لاہور تک کا سفر کیسے گزرا، یہ ایک تاریخ ہے لیکن اس شام خبر فائل کرنے کے بعد ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ بتایا گیا کہ مرکزِ طیبہ والوں کے دو لوگ ملنے آئے ہیں۔ ان دونوں میں ایک ’’صاحب‘‘ نے بتایا کہ وہ روزنامہ جنگ لاہور میں کام کرتے ہیں اور مرکز طیبہ والوں کی سوچ سے متاثر ہیں اور صبح والے واقعے پر معذرت کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے ہماری سوچ اور کردار کی بہت تعریف کی اور آپس کی بات ہے کہ ہمیں ان کی باتیں سن کر بہت اچھا لگا، اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔ اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک واقفیت سی ہو گئی، جب بھی پریس کلب میں یا سرِ راہ ملاقات ہوئی، سلام دعا، حال احوال اور مسکراہٹوں کا تبادلہ معمول رہا۔ ’صاحب‘ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ملٹری اکیڈمی سے اخلاقی معاملات کی بنا پر نکالے گئے تھے اور صحافت ان کو پناہ گاہ نظر آئی، اس لیے یہاں چھپ گئے۔ ہمیں چوں کہ اسلام پسند لوگوں کے احترام کی تربیت تھی اس لیے ہم نے اس طرح کی کسی بات پر کان نہ دھرا اور اطلاع دینے والے کی سرزنش کی کہ ضرور وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی بنا پر نکالے گئے ہوں گے۔
    پھر جب ملک میں ٹی وی کی صنعت میں پھیلاؤ آیا تو روزنامہ جنگ میں ہونے کے باعث ’صاحب‘ میرٹ پر جیو کو پیارے ہو گئے۔ ہمیں اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب اگلی ملاقات میں ’صاحب‘ کا چہرہ ڈیڑھ فٹ لمبی داڑھی سے صاف ہو چکا تھا۔ دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ صاحب یہ کیا ماجرہ ہے؟ اتنی چھوٹے سے مالی معاملے پر اپنے نظریات پر اس قدر شرمندگی اور رجوع؟ ایسے بندے کو تو انسان کہنا انسان کی توہین ہے۔

    یادش بخیر جب تیسری یا چوتھی دفعہ شیو کے بعد ہم نے سنت رسول رکھنے کا ارداہ ظاہر کیا تو والد صاحب نے اپنی شیو بناتے ہوئے آئینے میں دیکھتے ہوئے با آوازِ بلند فرمایا تھا کہ ’’دیکھ لو! سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا، میں پھر اس کو صاف نہیں کرنے دوں گا‘‘۔ الحمد للہ لڑکپن کے اس فیصلے پرآج تک بدستور قائم ہیں اور فیصلے پر کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔

    اس کے بعد ’صاحب‘ سے ایک اور ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ جیو چھوڑ کر ایک اور چینل کو پیارے ہو چکے ہیں۔ استفسار کی ضرورت نہیں تھی لیکن پاس کھڑے انھی کے ایک ادارے کے بندے نے بتایا کہ ایک دن تہجد کے وقت ’صاحب‘ اپنے ٹی وی کی ایک نہایت خوبصورت نیوزکاسٹر کو دفتر کی ایک میز کے پیچھے چھپ کر ’خبریں‘ پڑھنے کے ’’اسرار و رموز‘‘ سمجھا رہے تھے کہ انتظامیہ کے کلوز سرکٹ کیمروں میں آنے کے باعث رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، لہٰذا انتظامیہ نے دونوں کو فارغ کر دیا۔ تاہم ’صاحب‘ کی ادارے کے ساتھ دیرینہ تعلق کی بنیاد پر ان کو استعفیٰ دینے کی رعایت دی گئی تھی جو انہوں نے دے دیا۔ نئے چینل میں جہاں انہوں نے نوکری کی تھی، وہاں کے مالک بھی انھی کے ’ہم مسلک‘ تھے اور فجر کی تکبیر اولیٰ اور اپنی کوئی خاتون اینکر انہوں نے نہیں چھوڑی۔ اب تو بعض ٹی وی مالکان دین اور دنیا میں اس قدر توازن رکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ سے براہِ راست اذان پر نماز بھی ادا کرتے ہیں اور اپنی خاتون اینکرز کے حقوق بھی حقوق زوجیت سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں۔

    ’صاحب‘ وہاں کافی بے عزتی کے ساتھ فارغ ہوئے اور صحافتی منظرِعام سے غائب ہو گئے اور پتہ چلا کہ صاحب تعمیرات کے کام سے منسلک ہو گئے ہیں۔ پھر ایک دن ’صاحب‘ اسی ٹی وی پر آ براجمان ہوئے جس ادارے کے اخبار کے ساتھ ہم بھی منسلک تھے لیکن باریک اور زنانہ آواز کے باعث یہاں پر بھی ان کا کام چندماہ کے بعد بند ہو گیا۔ اس دوران جب صاحب کو ادارے میں جب کوئی کمرہ بیٹھنے کو نہ ملتا تو وہ ہمارے کمرے میں براجمان ہو جاتے اور ہماری ’ایڈیٹری‘ کا براہ راست نظارہ کرتے۔ یہ تھا صاحب کے ساتھ ہمارے تعارف کا پورا پس منظر، اس میں ان کی کردار کشی مقصود نہیں بلکہ پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ موٹروے پولیس اور ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے درمیان ایک جھگڑا ہوگیا جسے سماجی میڈیا پر خوب اچھالا گیا اور ظاہر ہے کہ ہمارا وزن موٹروے پولیس کے پلڑے میں جانا تھا۔ ایسے میں صاحب سے ایک پوسٹ پر منہ ماری ہوئی اور انہوں نے تیسرے فقرے پر ہمیں ’لفافے‘ لے کر رائے دینے والا ’کافر‘ قرار دے ڈالا۔ پہلے تو شدید دکھ ہوا، اتنا شدید کہ بس سے باہر۔ ایک شخص ہمیں اس قدر قریب اور اس قدر مدت سے جانتے ہوئے بھی اس اس قدر ڈھٹائی سے بات کر سکتا ہے؟ ہم نے ان کو بلاک اور ’ان فرینڈ‘ کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر تصدیق چاہی کہ کیا وہ واقعی ایسا ہی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ہمیں نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ایک دوسرے دوست سے جو ان کی مدد کو آ پہنچا تھا، کیوں کہ سوشل میڈیا پر ایسے چماٹوں کی ایک فوج ظفر موج ہمہ وقت موجود ہوتی ہے، کو مخاطب کرتے ہوئے ’صاحب‘ نے فرمایا ’پتہ نہیں یہ صاحب کون ہیں؟ کوئی سوشل میڈیائی انٹیلکچول ہیں ان کو فوج کے خلاف ہیضہ ہوا رہتا ہے‘۔

    ہم نے بلاک والے بٹن پر انٹر مارتے ہوئے سوچا کہ واقعی لفافے کا الزام ایسا اخلاق باختہ اور بدکردار شخص ہی لگا سکتا ہے۔ اس طرح کا بےہودہ الزام لگانے کے لیے انسان کو مذہبی، معاشرتی اور پیشہ ورانہ حوالے سے اسی قدر ہی بےغیرت ہونا چاہیے۔ ان کے بارے میں مذہب پسند اور پانچ وقت کا نمازی ہونے کے حوالے سے جو نرم گوشہ دل میں تھا، اسی لیے دکھ بہت زیادہ ہوا تھا۔ کافی دن طبیعت مکدر رہی اور اس موضوع پر قلم اٹھانے سے احتراز کیا کہ جذبات کی رو میں سے نکل کر کچھ تحریر کریں گے۔ لیکن اس دن کے بعد ایسے لوگوں کے بارے میں معیار مل گیا اور خود کو اکیلے میں بیٹھ کر سمجھایا کہ یہ جو چھوٹتے ہی ہم جیسوں کو لفافے کو طعنہ دیتے ہیں ناں، وہ بس ایسے ہی ’صاحب‘ لوگ ہوتے ہیں، اس لیے دل کھٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے معاملات ہمارا اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی دنیا اور آخرت میں ہماری لاج رکھے گا، ان شاء اللہ ! لیکن وہ جس طرح کچھ لوگوں کو بے نقاب کرتا رہتا ہے تو بےاختیار اس کے حضور سر سجدے میں جھک جاتا ہے۔ سبحان اللہ

  • یہ بڑے صحافی-عبدالقادر حسن

    یہ بڑے صحافی-عبدالقادر حسن

    abdul-qadir-hassan-columnist

    جس زمانے سے ہم آپ گزر رہے ہیں وہ حیرت انگیز حد تک کاروباری ہے اس قدر کہ خود انسان کا وجود بھی کاروبار کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ آزادانہ بسر کیا اور اسی آزادی میں اپنے عزیزوں سے بھی الگ رہا۔

    یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی دور رہا وہ اپنی زندگی بسر کرتے رہے اور میں اپنی۔ ان کا میری زندگی یعنی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور میرا ان کی ملازمانہ زندگی سے جب ایک بار ان کی ملازمت کے حصول میں ان کی مدد کی تو یہ کہہ دیا کہ نوکری مجھے پسند نہیں ہے لیکن اب جب آپ لوگ اپنی پسند کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ایک عرض ہے یا مشورہ کہ اب آپ نے یہ نوکری اپنی ہمت اور سمجھ بوجھ سے کرنی ہے اس میں میرا یا کسی کا کوئی سفارشی تعلق نہیں ہو گا، کہیں سے کوئی مدد امداد نہیں ملے گی۔

    مختصر سی فیملی نے اپنی ملازمت میں مجھے کبھی تکلیف نہیں دی اگر کبھی دی بھی تو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ایک کے سسر نے کسی زعم میں میری ترقی کے لیے متعلقہ افسر سے میری سفارش کی، اس نے مڑ کر دیکھا اور اتنا کہا کہ آپ جس کی سفارش کر رہے ہیں وہ تو میرا بھتیجا ہے بات ختم۔ میری بیٹی نے قدرتی طور پر تعلیم و تدریس کا شعبہ پسند کیا اور اس میں وہ درجہ بدرجہ زیادہ ہی ترقی کر گئی۔ جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بچے اس سے بھی زیادہ لائق نکلے اور انھوں نے اپنی اہلیت سے سب کو پریشان کر دیا۔

    غرض اس طرح میں اپنی اولاد کی طرف سے مطمئن رہا۔ اگرچہ میں اپنی طرف سے اپنے بارے میں کبھی مطمئن نہیں رہا لیکن اس کی وجہ شاید میری ملازمت سے ناپسندیدگی ہے۔ میں نوکر پیشہ نہیں ہوں ایک آزاد صحافی ہوں اس لیے میں اپنی ملازمت میں کبھی کامیاب نہیں رہا۔ میں یہ بات اپنی نئی نسل سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں، سفارش کی ہر گز توقع نہ کریں مثلاً آپ جن سے سفارش کرانا چاہتے ہیں وہ کیا پیدائشی افسر تھے، بالکل نہیں سب نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔

    آپ بھی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں لیکن ذاتی طور پر عرض کرتا ہوں کہ ملازمت کی طرف نہ جائیں اور اپنا آزاد پیشہ اختیار کریں۔ ملازمت کے معنی ہیں کسی کے حکم پر زندگی بسر کرنا جو ایک انسانی شرف کے مطابق نہیں ہے۔ مجھ سے جب میرے ایک جہاندیدہ استاد نے پوچھا کہ تم کیا بننا چاہتے ہو تو میں نے انھیں پسند کی نوکری کا شعبہ بتا دیا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر کے لیے چپ سے ہو گئے اور پھر کہنے لگے اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی غلامی اور نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو تمہاری مرضی۔ میں تمہارے اندر جو صلاحیت دیکھ رہا ہوں وہ پڑھنے لکھنے کی ہے۔

    تمہاری زبان میں جو لکنت ہے وہ قدرت نے کسی دوسری خوبی کے عوض عطا کی ہے یعنی اس نے تمہیں لکنت کی جگہ بولنے سے زیادہ لکھنے لکھانے کا کام دیا ہے تم اس میں زیادہ کامیاب رہو گے جو تمہاری زبان کی لکنت کا بدل ہو گا۔ آگے تمہاری مرضی اور تمہاری ہمت۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ نوکری کرتے ہو یا کوئی آزادانہ کام۔ مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم کاشتکاری کرو کچھ نے کہا کہ تمہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہے اس لیے پڑھائی لکھائی کی طرف توجہ کرو بہرحال قسمت میں یہ پڑھائی لکھائی تھی اور وہ بھی لکھائی زیادہ چنانچہ میں ایک رائٹر بن گیا اور اس میں میرے مولوی استاد نے زیادہ مدد کی جو کئی مشرقی زبانوں کے ماہر تھے، اس طرح میں آج ایک مشرقی قسم کا رائٹر ہوں اور بڑے اطمینان کے ساتھ وقت بسر کر رہا ہوں۔

    یہ صحافت بھی اپنے استادوں کا مشورہ تھا جو میرے استادوں کے مطابق کامیاب رہا اور میں ایک صحافی بن گیا، اگرچہ صحافی بھی ایک درمیانے درجے کا لیکن کوشش میں ہوں کہ اس میں کچھ ترقی کر جاؤں، صحافت کے شعبے میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش جاری ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس کوشش میں بعض ناپسندیدہ عناصر بھی داخل ہو گئے ہیں جب کہ صحافت ایک ’پیغمبرانہ‘ پیشہ تھا جو انسانوں کی اصلاح کے لیے نہایت موثر ذریعہ تھا۔

    اب بھی صحافت انسانی اخلاق کی اصلاح اور اس کی آراستگی کے لیے ایک نہایت ہی موزوں ذریعہ ہے بشرطیکہ اس شعبے کو اچھے لوگ مل جائیں جو اسے انسانی زندگی کو خوبصورت بنانے پر مصر ہوں اور اس میں ان کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ یہ پیشہ ہی اسی کام کے لیے ہے۔ بہرحال صحافت کے شعبے میں جن لوگوں نے خلوص کے ساتھ محنت کی، اسے بامقصد بنانے کی کوشش کی وہ اس شعبے کی نامور شخصیات ہیں۔

    میں نے ایسے صحافی دیکھے ہیں جو فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور بے لوث تھے۔ انھوں نے اپنی محنت کے ساتھ زندگی بسر کی اور کسی لالچ کے بغیر وقت بسر کرلیا۔ ان کے پاس ان کی نیک نامی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ میں نے بڑے بڑے صحافی دیکھے جو ہر روز پیدل دفتر جاتے اور کسی وقت اندھیروں میں پیدل گھر جاتے اور رات کا کھانا گرم کراتے اور یہ حلال کی روٹی بڑے شوق سے کھاتے۔ ایک سیاستدان نے ایک صحافی کو کچھ رقم بھجوائی جو اس نے معذرت کے ساتھ لوٹا دی، بعد میں انھوں نے ایک بوری آٹے کی بھجوائی جو اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لی کہ آپ کی چونکہ آٹے کی مل بھی ہے اس لیے شکریہ!

  • پاک بھارت میڈیااورممکنہ جنگ-سلیم صافی

    پاک بھارت میڈیااورممکنہ جنگ-سلیم صافی

    saleem safi

    گزشتہ مارچ کے مہینے میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں دہلی جانا ہوا۔ پلڈاٹ اور ایک بھارتی تھنک ٹینک نے مل کر اس کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں پر دونوں ملکوں کے میڈیا سے متعلق میں نے جو اظہار خیال کیا تھا ، اس کا خلاصہ 12مارچ کو روزنامہ جنگ میں ان الفاظ کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ :’’بحیثیت مجموعی دونوں ممالک کے میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے لیکن پاکستانی میڈیا کی بہ نسبت بھارتی میڈیاکے منفی کردار کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ تجزیہ کرتے وقت کسی بھی فرد یا ادارے کے ارد گرد کے ماحول، مجبوریوںاور صلاحیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا بہت بڑا میڈیا ہے اور سائز میں امریکہ جیسے ممالک کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا بہت چھوٹا میڈیا ہے ۔بھارت کاآزاد الیکٹرانک میڈیا جوانی کے منازل طے کرکے بڑھاپے کی طرف جارہا ہے جبکہ پاکستان کا آزاد الیکٹرونک میڈیاابھی لڑکپن کے مراحل سے گزررہا ہے۔ فلم انڈسٹری (جو اب کئی حوالوں سے میڈیا کا حصہ تصور کی جاتی ہے) کے میدان میں بھارت ،امریکہ کے ہالی وڈ سے مقابلہ کررہا ہے جبکہ پاکستان میں فلم انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سوشل میڈیا کودیکھاجائے تونریندرمودی کا ٹوئٹر اکائونٹ دنیا کے سب سے زیادہ فالو کئے جانے والے اکائونٹس میں سے ایک ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم ٹوئٹر پر نظر ہی نہیں آتے۔

    بھارتی میڈیا اگر اپنی اسٹیبلشمنٹ کے موقف کے خلاف بولنا اور لکھنا چاہے تو وہ آزاد ہے اور کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں میڈیا پی ٹی آئی کے دھرنوں کے بعد اسی کی دہائی جیسی غلامی کے دور میں پھر واپس چلا گیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے تحفظ کے لئے آزاد پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ موجود ہے لیکن پاکستانی میڈیا کو ان میں سے کسی کا بھی تحفظ حاصل نہیں ۔ پاکستان میں سینکڑوں صحافی مارے گئے لیکن کسی کے قاتل کو سزا نہیں ملی ۔ جو برائے نام عدالتی کمیشن بنے ، وہ بھی کسی کو انصاف نہ دلواسکے۔ اسی طرح پاکستانی میڈیااگر ہندوستان سے متعلق ناپختگی کا مظاہرہ کررہا ہے تو وہ ملک کے اندر بھی ایسا کررہا ہے اور بعض اوقات خود اپنے ملک کے لئے بھی بڑے نقصان کا موجب بن جاتا ہے لیکن ہندوستانی میڈیا داخلی حوالوں سے بہت ذمہ داری اورپختگی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا معاملہ ہو، چھوٹی ذات کے ہندوئوں کا ایشو ہو، جواہر لال یونیورسٹی کے طلبہ کا مسئلہ ہو ، ہر موقع پر ہندوستانی میڈیا قومی مفادات سے ہم آہنگ رپورٹنگ اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن پاکستان سے متعلق وہ بائولے پن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ تاہم جب ہم دونوں ممالک کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ اور تجزیے کا تجزیہ کریں تو پاکستانی میڈیا کا پلڑا بہت بھاری نظر آتا ہے ۔ ہمارے چھ سات بڑے میڈیا گروپس میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ہندوستان کے خلاف نفرت کوبطور گروپ ہوا دے رہا ہو۔ بلکہ بعض میڈیا گروپس جن میں میرا جنگ گروپ بھی شامل ہے، کو ہندوستان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرم رویے کی سزا ملی اور بعض پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے ۔ ماضی میں نوائے وقت گروپ ہندوستان کے خلاف جنگجویانہ ماحول بنانے کے لئے مشہور تھا لیکن نئی قیادت مل جانے کے بعد اس گروپ کا رخ بھی یکسر بدل گیا ہے ۔

    اس کے برعکس ہندوستان کے تمام بڑے میڈیا گروپ بغیر کسی استثنیٰ کے پاکستان کے خلاف جنگجویانہ فضا پیدا کررہے ہیں ۔ پھر اگر معروف ٹی وی اینکرز کو دیکھاجائے تو پاکستان میں چند ایک ضرور ایسے ہیں کہ جو ہندوستان کے خلاف نفرت کا منجن بیچ رہے ہیں لیکن ان چند کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں درجنوں اینکرز ایسے ہیں کہ جو ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ایسے بھرپور وکیل ہیں کہ ملک کے اندر انہیں ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کا تناسب نکالا جائے تو پاکستان میں یہ تناسب بیس فی صد بھی نہیں لیکن اس کے برعکس بھارت کے بڑے اینکرز سب کے سب پاکستان کے خلاف یک زبان ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت میں پاکستان سے متعلق مثبت سوچ کو فروغ دینے والے اینکرز کا تناسب نوے فی صد سے زیادہ ہوتا لیکن آپ کے ہاںیہ تناسب دس فی صد بھی نہیں جبکہ ہم جن حالات میں کام کررہے ہیں ، اس کی وجہ سے ہمارے ہاں یہ تناسب دس فی صد ہوتا تو بھی غنیمت ہوتی لیکن ہمارے ہاں مثبت بات کرنے والے اینکرز اسی فی صد سے زیادہ ہیں ۔ اسی طرح اگر بڑے لکھاریوں کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے ہاں یہ تناسب پچاس فی صد سے زیادہ ہے ( اس پر حاصل بزنجو صاحب نے اضافہ کیا کہ پچاس نہیں اسی نوے فی صد سے زیادہ ہے ) لیکن آپ کے لکھاریوں میں ہمیں دو تین ناموں کے سوا کوئی نظر نہیں آتاجو پاکستان سے متعلق مثبت بات کہنے کی ’’غلطی‘‘ کا ارتکاب کررہا ہو۔ ہم نے اتنی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اپنے سینمائوں میں آپ کی فلمیں چلادیں اور جب بجرنگی بھائی جان جیسی مثبت سوچ کی فلم آپ لوگوں نے بنا کر بھیج دی تو ہم پاکستانیوں نے اس کی آپ بھارتیوں سے بڑھ کر تعریفیں کیں لیکن اس کی آڑ میں آپ لوگوں نے اس کے بعد’’ فینٹم‘‘ جیسی فلم بنادی جس میں پاکستان کی تضحیک کی گئی ہے اور ایسی فلمیں بنانے سے باز نہ آئے کہ جن میں پاکستانیوں کو لاہور کے گندے نالے کی پیداوار کہا گیا ہے ۔

    یوں اگرچہ دونوں ممالک کا میڈیا مجرم ہے لیکن بھارتی میڈیا بہت بڑا اور پاکستانی میڈیا بہت چھوٹا مجرم ہے ۔ خرابی میں بھارتی میڈیا کا حصہ بہت زیادہ اور پاکستانی میڈیا کا حصہ بہت کم ہے ۔ اب اصلاح کی کوششوں میں پہل بھی پاکستانی میڈیا کررہا ہے اور اصلاح کی کوششوں میں اس کا حصہ بھی بہت زیادہ ہے حالانکہ اصلاح کے لئے پہل ہندوستانی میڈیا کو کرنا چاہئے اور پاکستانی میڈیا کے دس فی صد کے مقابلے میں ہندوستانی میڈیا کا حصہ نوے فی صد ہونا چاہئے ۔ آپ لوگوں نے اصلاح میں پہل نہیں کی اور حصہ بقدر جثہ نہ ڈالا تو دونوں ممالک کے عوام نفرتوں کی آگ میں جلتے رہیں گے اور جس حساب سے چینلز کی ریٹنگ بڑھے گی ، اس حساب سے خطے میں نفرت اور تشدد بھی بڑھے گا ۔ اگرچہ دونوں ممالک کے عوام شعوری طور پر جنگ نہیں چاہتے لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ کسی وقت میڈیا ان کو بادل ناخواستہ جنگ پر مجبور کردے ۔ شکریہ‘‘
    زیرنظر کالم سال رواں مارچ کے مہینے میں (12مارچ) میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ۔بھارتی میڈیا یوں تو تسلسل کے ساتھ مذکورہ منفی کردار ادا کررہا ہے لیکن اوڑی کے واقعہ کے بعد جیسے وہ بائولا ہوکر بھونکنے کے ساتھ ساتھ کاٹنے پر بھی اتر آیا ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز میں تو ٹوٹل ایک درجن کے قریب ایسے جعلی اینکرز یا صحافی سرگرم ہیں جواپنے صحافتی گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جنگی فضا کی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے بھارتی میڈیا (چند کے سوا) بالاجماع اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کے لئے ٹرکوں کے حساب سے ایندھن فراہم کر اور پھر اس پر ٹینکروں کے حساب سے تیل چھڑک رہا ہے ۔ اپنی بڑی آبادی اور بڑے رقبے یا پھر امریکہ جیسی طاقتوں کی دوستی کے زعم میں مبتلا ہو کر وہ شب و روز پاکستان پر حملے کا درس دے رہے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پاکستان تو پہلے سے حالت جنگ میں ہے ۔ فرق پڑے گا تو اتنا کہ جزوی حالت جنگ سے پاکستان مکمل جنگ میں داخل ہوجائے گالیکن ہندوستان کا کیا ہوگا۔ کیا ان بقراطوں نے سوچا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے ہندوستان میں اپنے شہریوں کو ایک ٹریول ایڈوائزری جاری ہونے سے ممبئی اسٹاک ایکسچینج کا کیا حشر ہوگا۔ جنگ ٹی وی ٹاک شو نہیں کہ اینکر اپنی مرضی سے شروع اور اپنی مرضی سے ختم کریں۔ اگر ہندوستان کی مرضی سے شروع ہوگا تو ضروری نہیں کہ اس کی مرضی سے ختم بھی ہو۔ اسی طرح یہ گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا کہ جنگ محدود ہوگی ۔ ہندوستان نے اگر جنگ چھیڑ دی تو پھر وہ محدود کبھی نہیں رہے گی ۔ ٹی وی ٹاک شوز میں تو اینکرز اور چند شرکا کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ بحث کو کس دائرے میں رکھیں لیکن جنگ کی حدود کا تعین کسی ایک بندے یا ایک فریق کے ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ یہ خواتین وحضرات ہندوستان اور پاکستان کی آبادی کے موازنے کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پورا ہندوستان تباہ نہیں ہوگا اورکوئی حصہ تو بچ جائے گا جبکہ خاکم بدہن پاکستان مکمل تباہ ہوجائے گالیکن یہ نہیں سوچتے کہ جنگ کی صورت میں ہندوستان کو دس پاکستانی بھی ایسے نہیں ملیں گے کہ جو اپنے ملک کے خلاف ہندوستان کا ساتھ دیں

    لیکن ہندوستان میں لاکھوں کشمیری بلکہ شاید سکھ اور دلت وغیرہ بھی دہلی کے مقابلے میں اسلام آباد کا ساتھ دیں گے ۔ان کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ماضی کی جنگوں میں سوویت یونین مکمل طور پر جبکہ امریکہ کسی حد تک آپ کے ساتھ ہوا کرتا تھا لیکن اب روس اسی طرح بھارت کے ساتھ نہیں ۔ تب بھی چین پاکستان کا دوست تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم نہیں بنے تھے ، جس طرح اس وقت بن گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تب پاکستان ایٹمی قوت نہیں تھا لیکن اب الحمدللہ وہ ایک ایٹمی قوت ہے ۔ سب سے بڑی بات کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ہندوستان میں ادارہ جاتی اور علاقائی تفریق کو جنم دے گی لیکن بھارت وہ واحد نکتہ ہے کہ جس کے ساتھ تنائو یا جنگ سے پاکستانی یک آواز بن جاتے ہیں ۔ جنگ قابل نفرت فعل ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے لیکن کچھ حوالوں سے یہ مصیبت پاکستان کے لئے غنیمت بھی بن سکتی ہے لیکن ہندوستان کے لئے یہ مصیبت ہی مصیبت ہوگی۔