Tag: شیعہ سنی اختلاف

  • شیعہ سنی اختلاف کیسے ختم ہو؟ مفتی سیف اللہ

    شیعہ سنی اختلاف کیسے ختم ہو؟ مفتی سیف اللہ

    مفتی سیف اللہ شیعہ سنی کے مابین جھگڑا کس بات کا ہے؟ بلاوجہ کی بدگمانیاں اور دوریاں ہیں۔ سینئر صحافی آصف محمود صاحب نے اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ دلیل پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں انھون نے فریقین کو باہمی رنجشیں بھلا کر اخوت اور روداری سے رہنے کی تلقین کی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ کاوش ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

    آصف محمود صاحب نے اہل بیت اطہار کے ساتھ اپنی محبت و نسبت کو بیان کیا اور اس کی چند عام فہم مثالیں بھی پیش کیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت بھی اہل بیت سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔

    جناب آصف محمود صاحب! جھگڑے کی وجہ محض بدگمانی ہےتو لیجیے اس کا ازالہ میں کیے دیتا ہوں، میرا تعلق اہل سنت سے ہے جبکہ میرا سلسلہ نسب عم رسول سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے جو اہل تشیع کے ہاں غازی عباس علمدار کے نام سے معروف ہیں۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت میرا ایمان ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے، وہ اللہ و رسول کا دشمن ہے۔ ان سے محبت وعقیدت کی بنا پر بچوں کے نام انھی سے موسوم کیے ہیں چنانچہ بھانجے اور بھتیجے کے نام حسن و حسین اور بھتیجی فاطمہ ہے جبکہ دوستوں میں قاسم، عقیل، شبیر اور تقی سب پائے جاتے ہیں۔

    محرم کے پہلے دس دن عشرۂ فاروق و حسین رضی اللہ عنہم کے طور پر مناتا ہوں اور ان کے نام پر منعقد کردہ مجالس میں جا کر ان کی عظمت و شان کو سننا اور بیان کرنا باعث فخر و سعادت اور ذریعہ نجات سمجھتا ہوں۔

    جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہمیں بھی امام زین العابدین رح اور امام جعفر صادق رح کے علم و فضل سے مستفید ہونا چاہیے تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ دونوں ائمہ کرام امام ابوحنیفہ رح کے بالواسطہ اور بلاواسطہ اساتذہ میں شامل ہیں تو اس طرح اہل سنت نہ صرف ان کے علم و فضل اور تقوی و ورع کے قائل ہیں بلکہ ان سے علمی و روحانی استفادہ اور کسب فیض بھی کرنے والے ہیں۔

    اب آنجناب سے عرض ہے کہ ہماری غلط فہمی کو بھی دور کیجیے تاکہ بدگمانی نہ ہو، اہل تشیع کا کوئی ایسا خاندان بتا دیجیے جہاں بچوں کے نام ابوبکر، عمر، عثمان اور بچیوں کے نام عائشہ اور حفصہ ہوں حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزندان کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان تھے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
    کیا خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو امام اور خلیفہ تسلیم کیا جائے گا جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا امام تسلیم کیا اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے۔ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیادت قبول کی جائے گی کہ جن کے ہاتھ پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اور انہیں اپنا امام بنایا۔

    چلیے نام نہ رکھیں اور برحق کا معاملہ بھی چھوڑ دیں، کم از کم یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدین، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کا احترام ہو، برسرعام گالی دے کر ان کی توہین نہ کی جائے، اور جو شخص ان میں سے کسی کی توہین کرے، اسے اہل تشیع احباب خود ہی روک دیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی مصالحت کی ضرورت نہ پڑے گی، معاملہ خود بخود حل ہو جائے گا، اور پھر وحدت و یکجہتی میں جو روڑے اٹکائے گا، اس سے اہل سنت خود نپٹ لیں گے۔

  • شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    شیعہ سنی اختلاف، جھگڑا کس بات کا ہے؟ آصف محمود

    آصف محمود شیعہ اور سنی میں جھگڑا کس بات کا ہے؟ لہو رنگ زمینی حقیقتوں کے باوجود میرے پیش نظر چند دنوں سے یہی ایک سوال ہے۔
    میں شیعہ نہیں ہوں ۔اللہ نے مجھے دو بیٹیوں کی نعمت کے بعد بیٹے سے نوازا تو میں نے اس کا نام علی رکھا۔ ہمارے گھر میں آنے والا پہلا ننھا وجود میری بھتیجی کا تھا، اس کا نام فاطمہ ہے۔ میری چھوٹی بہن کے خاوند کا نام حسن ہے۔ اپنے خاندان میں ادھر ادھر نظر دوڑاؤں تو شبیر، عباس، حسن اور حسین کے ناموں کی ایک مالا سی پروئی نظر آتی ہے۔ حسین ؓ کا ذکر آئے تو دل محبت اور آنکھیں عقیدت سے بھر جاتی ہیں۔ میری پہلی کتاب شائع ہوئی تو اس کا انتساب میں نے ’اپنے آئیڈیلز سیدنا عمر ؓ اور سیدناحسین ؓ ‘ کے نام کیا۔ یہ کتاب سی ٹی بی ٹی پر تھی اس کے صفحۂ اوّل پر میں نے یہ شعر لکھوایا:
    جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
    قائم رہو حسین کے انکار کی طرح

    میری شریکِ حیات کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے۔ وہ بھی شیعہ نہیں لیکن ان کے ہاں یہ روایت ایک فخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ ان کی نسبت سیدنا علی ؓ سے جا ملتی ہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے کس وارفتگی سے کہا تھا:
    ’’حقاکہ بنائے لا الٰہ است حسین۔‘‘
    والہانہ پن تو دیکھیے اقبال کہتے ہیں:
    اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
    اِک ضرب ید اللہی ، اک سجدہِ شبیری

    مجھے بچپن کے وہ دن آج بھی یاد ہیں جب ہم سب مسجد میں اہتمام سے جایا کرتے تھے جہاں ہمارے خاندان کے قابلِ قدر بزرگ پروفیسر صفدر علی واقعہ کربلا سناتے، نہ سنانے والا شیعہ تھا نہ سننے والے اہلِ تشیع، لیکن دکھ اور درد ہڈیوں کے گودے میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ دیوبندیوں کے حسین احمد مدنی ہوں یا جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، نام ہی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمارے ہیں حسین ؓ، ہم سب کے ہیں حسین ؓ ۔‘‘ ہمارے تو بابائے قوم ہی محمد علی جناح ہیں، سفر آخرت پہ روانہ ہوئے تو جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔ سوچتا ہوں پھر جھگڑا کیا ہے؟ سوائے بدگمانی کے؟ شیعہ بھائی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اہلِ بیت کی محبت کے یہ مظاہر ہمیں ایک مالامیں نہیں پرو سکتے؟ کیا یہ بدگمانی مناسب ہے کہ ہر غیر شیعہ کو یزیدی سمجھا جائے؟ کیاآج پاکستان میں کوئی ایک آدمی بھی ہے جس کی ماں نے اس کا نام یزید رکھا ہو؟ سپاہِ صحابہ میں بھی ہمیں علی شیر حیدری کا نام ملتا ہے۔ کیا اتنی نسبتوں کے صدقے ہم مل جل کر نہیں رہ سکتے؟

    بات اب کہہ دینی چاہیے، گھما پھرا کے بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل مسئلے کو زیرِبحث اب لانا ہی پڑے گا۔ اس کو مخاطب کیے بغیر محض امن امن کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ نفرتوں کی آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔ کیا گھر جل جانے کا انتظار ہے؟ اہلِ تشیع بھائی کیسے ہمیں اہلِ بیت کی محبت میں خود سے پیچھے سمجھ سکتے ہیں۔
    حسین ؓ میرے بھی اتنے ہیں جتنے ان کے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ محبتوں کا انداز جدا جدا ہے لیکن ’حسین مِنی وانا من الحسین‘ کے ارشاد مبارک کے بعد کونسا دل ہوگا جس میں حسین ؓ کی محبت نہ ہو گی۔ رہے ان کے اختلافی معاملات تو اتنی مشترک محبتوں کے صدقے کیا ان معاملات کو اللّٰہ پر نہیں چھوڑا جا سکتا؟ کیا ایک دوسرے کی دل آزاری ضرور کرنی ہے؟ زندہ معاشروں میں اختلافات ہوتے ہیں، ان اختلافات کو ایک دائرے میں رہنا چاہیے اور ان اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔ مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب یہ اختلافات بدگمانی میں ڈھل جاتے ہیں۔ بدگمانی پھر حادثوں کو جنم دیتی ہے۔ اختلافات تو امام خمینی اور بنی صدر میں بھی ہو گئے تھے۔ اور ابھی کل کی بات ہے ہم نے حسین موسوی، ہاشمی رفسنجانی، محسن رضائی، اور مہدی کروبی کو احمدی نژاد صاحب کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا۔

    سنی حضرات کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ شیعہ کے آئمہ کرام سے کیا ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ کیا امام زین العابدین سے ہمیں کوئی نسبت نہیں؟ کیا امام جعفر صادق سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں؟ کبھی ہم نے غور کیا یہ ہستیاں کون تھیں؟ کس عظیم اور مبارک خانوادے سے ان کا تعلق تھا؟ یہ ہمارے ہی بزرگ تھے۔ یہ بھی ہماری ہی شان اور آبرو ہیں۔ ہم نے انہیں کیوں بھلا دیا؟ ہم نے انہیں کیوں نظر انداز کر دیا؟ ان کی تعلیمات ہمیں کیوں نہیں بتائی جاتیں؟ ان کی دینی خدمات سے ہم محروم کیوں؟ان کے فہم دین سے ہم فیض کیوں نہیں حاصل کرتے؟ ہم ان کے علمی کام سے اجنبی کیوں ہیں؟ یہ بیگانگی کیوں ہے؟ دین کے فہم کے باب میں انہوں نے بھی تو زندگیاں صرف کر دیں، یہ بھی تو ہمارا اجتماعی اثاثہ ہیں۔ کیا ہماری باہمی نفرتیں اور جھگڑے اب اتنے منہ زور ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑے بھی بانٹ لیے، ہم نے ان سے بھی منہ موڑ لیا، ہم اپنے ہی چشمہ ہائے علم سے محروم ہو گئے؟

    میری ہر دو اطراف کے بزرگان سے التجا ہے: آئیے اس کلمے کی طرف جو ہم سب میں مشترک ہے۔