Tag: شہید

  • وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    بابا بابا! مجھے یہ والے کھلونے چاہیے۔ معاذ نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے کھلونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    اچھا میرے بیٹے کو کون سا کھلونا چاہیے؟
    یہ جہاز والا اور یہ گن بھی۔ معاذ نے خوشی سے کہا۔
    آپ ان کا کیا کرو گے؟میں نے تجسس سے پوچھا۔
    بابا! میں جہاز اڑا کر گن سے سارے دشمنوں کو ختم کر دوں گا۔ ایسے ٹھیشا ٹھیشا۔ اس نے ہاتھ سے گن بناتے ہوئے ٹھیشا ٹھیشا کرتے ہوئے کہا۔ مجھے اس کی معصومیت پہ بےاختیار پیار آیا تھا۔

    آج معاذ چھ سال کا ہوگیا ہے۔ کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں نے اسے پہلی بار گود میں اٹھایا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کی امی تو اس کی پیدائش کے وقت ہی وفات پا گئی تھی۔ تین سال تک اس کی خالہ نے اس کی دیکھ بھال کی۔ میں نے بھی سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بچے کا خود خیال رکھا۔ آج بھی کھلونے دیکھ کر مچل اٹھتا ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ نیک بنائے۔ آمین۔ رشید صاحب نے ڈائری بند کرتے ہوئے سوچا تھا۔

    سنیں بابا! ہوم ورک کرتے ہوئے معاذ نے پکارا تھا۔
    بابا! آج سر کلاس میں پوچھ رہے تھے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ میں نے کہا۔ فوجی۔۔ تو سر ہنسنے لگے۔ کہتے بیٹا، آپ ایک چوٹ سے رونے لگتے ہو۔۔ وہاں کیسے رہ پاؤ گے۔ میں ہنس پڑا۔
    بابا آپ بھی ہنس رہے۔۔ آپ دیکھنا میں یونیفارم میں کتنا اچھا لگوں گا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پہ خوشی کے رنگ تھے تو آنکھوں میں خوابوں کا عکس۔۔
    اللہ اسے نظر بد سے بچائے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
    معاذ اتنا بڑا ہوگیا ہے۔ کل تک میں اسے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا تھا۔ آج وہ ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہے۔ میرے کام کر دیتا ہے۔ کل کہہ رہا تھا، بابا! آپ سست سے ہوگئے ہیں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اللہ میرے بچے کو زندگی دے۔ آمین۔ تنہائی میں ان کی ڈائری ہی ان کی دنیا ہوتی تھی۔

    آج سیکنڈایئر کی الوداعی تقریب تھی۔ والدین نے بھی شرکت کی تھی۔ معاذ کی نمایاں پوزیشن تھی۔ محنتی وہ ہمیشہ سے تھا۔ استاتذہ سے ملتے اور اسٹیج پہ چلتے پھرتے میرا بچہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ آج اسے انٹر کی ڈگری بھی مل گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی میں داخل کروا دوں۔ کل میں نے پوچھا بھی تھا معاذ سے۔ وہ فوج میں جانے کا کہہ رہا تھا۔ میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ میں اسے اپنے سے دور کیسے بھیج سکتا ہوں۔ سمجھاؤں گا اسے۔ چھوٹا ہے نا ۔۔ اسی لیے سمجھ نہیں آتی اسے۔
    بابا گھر چلیں ۔۔ کہاں گم ہیں آپ؟ معاذ نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا اور میں نے سوچوں سے نکل کر سر ہلا دیا۔
    معاذ بیٹا! یہیں داخلہ لے لو۔ میں تمہیں دور کیسے بھیج سکتا۔ ہم دونوں کے علاوہ ہمارا ہے ہی کون۔ میں نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سن رہا تھا۔
    بابا آپ ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم ان کی امانت ہیں ۔۔ جب چاہے لے لیں ۔۔ ہمیں بس اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہی ہوتی۔ ہمیں کبھی نا امیدی اور مایوسی کو پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔
    وہ بول رہا تھا۔ میں سن رہا تھا۔ میں کیوں یہ بھول گیا۔ ہم پہلے اولاد کو سارے سبق پڑھاتے ہیں ۔۔ اور جب وہ سیکھ جاتے تو ہم بھول جاتے ہیں۔ میں سوچوں میں گھرا تھا۔
    کیا سوچ رہے بابا ۔اگر آپ کا دل نہیں مان رہا تو نہیں جاتا۔ اس نے اداسی سے کہا تھا۔ نظریں میرے چہرے پہ ٹکی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔
    ٹیسٹ کب ہے تمہارا۔ میں نے سنجیدگی سے کہا تھا اور وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا۔ اس کی خوشی ہی میری خوشی تھی۔

    معاذ ٹریننگ کے لیے جا چکا ہے۔ میرا دل بہت اداس ہو رہا اس کے بغیر۔ کل اس کا فون آیا تھا تو کہہ رہا تھا بابا اپنا خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کہ اب کی بار تم آؤ گے تو اپنا اور تمہارا خیال رکھنے والی پیاری سی بیٹی لے آؤں گا۔۔ ہنس کر کہنے لگا۔۔ میں اپنے لیے مما ڈھونڈتا ہوں ۔۔ اور آپ بیٹی ۔۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔
    وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کہ نوکری کو بھی کافی سال ہو گئے ہیں۔ فون پر بتا رہا تھا کہ بارڈر پہ تعیناتی ہوگئی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے معصوم لوگوں پہ فائرنگ کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ ختم کر دوں ۔۔ وہ بول رہا تھا ۔۔ میں پریشان ہو گیا۔ حالات بھی تو ایسے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت کرے۔ آمین

    بریکنگ نیوز ۔۔ بھارتی افواج کی جانب سے دو فوجی اور کئی شہری زخمی ۔ پاکستانی فوج کی بھرپور جوابی کاروائی۔ وزارت خارجہ کو طلب کر لیا گیا۔
    آج پھر وہی خبر چل رہی تھی، یہ تو اب روز کا معمول تھا۔ ہر ایسی خبر پہ میرا دل کسی بچے کی طرح روتا اور معاذ کی خیریت کی اطلاع ملتے ہی خاموش ہو جاتا جیسے بچے کو ماں نے پیار کیا ہو ۔۔ میرا دل بہت پریشان ہو رہا تھا۔ فون کی گھنٹی پر میں نے فورا ریسیور اٹھایا۔۔
    معاذ بیٹا ۔۔ میں نے اٹھاتے ہی بےساختہ کہا تھا۔
    بولنے والی آواز کسی گولی کی طرح میرے سینے کے پار ہوئی تھی۔ ٓآپ کے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ کا بیٹا بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ پہ اک شخص کو بچاتے دشمن کو گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
    اللہ آپ کو صبر کی تو فیق دے۔ خبر تھی کہ گولی۔۔؎۔۔ میرا دل چھلنی ہوگیا۔۔ درد تھا بےانتہا درد ۔۔ اپنے لخت جگر کی موت پہ دل نے سسکنا چاہا۔ میں گم صم سا بیٹھ گیا۔میرے دماغ میں اس کی باتیں گونج رہی تھی۔۔ اور پھر جیسے رب کی رحمت نے مجھے اپنے سائے میں لیا ہو ۔۔ یہ قربانی تھی ۔۔ شہادت تھی ۔۔ اس وطن کے لیے جسے پانے میں ہم نے ایک دن میں لاکھوں لوگ گنوائے ۔۔ میرے اللہ نے اس کی خواہش کو پورا کر کر اسے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا تھا ۔۔ بےشک ہم سب اللہ کی امانت ہیں ۔۔ میرا بیٹا شہید ہوا تھا۔دل و دماغ خالی ہو رہے تھے۔ میں نے خود کو سنبھالا ۔۔ آنسوؤں پہ بھلا کس کا اختیار؟

    انہی آنکھوں نے اسے بڑا ہوتا دیکھا تھا.. اس کی میت پہنچا دی گئی تھی.. لوگوں نے نعرہ لگاتے، اسے رخصت کیا تھا ۔۔ میں اسے اس کی آخری آرام گاہ میں پہنچا آیا ۔۔ اب روز وہاں جاتا ہوں اور مسکرا کر آنکھ میں آئے آنسو صاف کر کر کہتا ہو ں ۔۔گواہ رہنا۔۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔۔ اس کے کتبے پہ بڑے واضح لفظوں میں لکھوایا گیا تھا۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا
    کہ تمہاری آس میں
    بہت کچھ لٹایا ہے
    تم سے بے لوث محبت میں
    بہت سوں کو گنوایا ہے
    وطن کی مٹی گواہ رہنا

  • غریب شہید اور میڈیا کے دعوے – خالد ولید سیفی

    غریب شہید اور میڈیا کے دعوے – خالد ولید سیفی

    کسی بھی سانحے کے بعد رپورٹر اور اینکرز صاحبان مرنے والوں کے والدین اور گھر والوں کا خود ساختہ فخریہ چہرہ بیان کرنا شروع کردیتے ہیں، اور چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ بیٹوں کی شہادت پر والدین کا سر فخر سے بلند ہے. سانحہ کوئٹہ کے بعد بھی الیکڑانک میڈیا میں فخر سے لبریز روش دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ یہ بھی بتا رہے کہ یہ نوجوان ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر پولیس میں بھرتی ہوئے اس لیے ان کی شہادت پر ان کے خاندان کا سر فخر سے بلند ہے، ممکن ہے کہ میڈیا میں مجموعی صورتحال نہ ہو لیکن یہ افسوسناک پہلو کافی حد تک دکھایا جارہا ہے، اپنے میڈیا کی خدمت میں عرض ہے کہ
    پولیس میں بھرتی ہونے والوں میں کسی کے دل میں وہ جذبہ نہیں تھا، یہ سب غریب گھرانوں کے چشم و چراغ تھے جن کو نوکری ملنے کی خوشی میں ان کے گھروں میں جشن منایا گیا ہوگا، یہ نوجوان دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے نجانے کتنے جتن کرکے بھرتی ہوئے تھے. نہ ہی ان کی شہادت سے ان کے والدین کے سر فخر سے بلند ہیں، ان کے والدین دن میں کئی بار بےہوش ہوتے ہیں، اپنے بیٹے کی تصویر سے لپٹ کر روتے ہیں، ان کے کپڑوں کو چومتے ہیں، ان کے جوتوں کو گلے لگا کر سسکیاں لیتے ہیں، ان کے گھروں میں کسی قسم کا جشن نہیں ہے
    ماتم ہے، نوحہ ہے
    چیخیں ہیں جو آسمان کو چیرتی ہیں
    واویلا ہے، آنسوؤں کا سیلاب ہے
    درد کے کوہ گراں ہیں
    ماضی کی یادیں ہیں
    بچپن کی پرکیف شرارتوں کی یادیں
    کھیل کھود کی یادیں
    ناشتہ نہ کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی یادیں
    اسکول نہ جانے کی ضد کی یادیں
    ماں کی گود میں سر رکھ کر سونے کی یادیں
    بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی دہلیز، کوئی بڑا عرصہ نہیں ہے، پلک جھپکتے گزر جاتا ہے
    ان میں سے کتنے تھے
    جن کی شادی کے جوڑے ماں کے سرہانے رکھے تھے
    کتنے تھے جن کی شادی کی بہاریں مسکرا رہی تھیں
    کتنے ارمان، کتنےخواب
    کتنی خواھشیں تھیں جو حسرت و یاس بن گئیں
    سر فخر سے بلند کے چرچے میڈیا کے اسکرین پر اچھے لگتے ہوں گے، کسی ماں کے سینے میں یہ سانپ بن کر رینگتے ہیں، یہ رومانوی فلسفے میڈیا کو مبارک ہوں، ماں کو ایسا فخر نہیں چاہیے.
    اسے اپنے گھبرو بیٹے سے محبت ہے،
    اس کی مچلتی جوانی کی شوخیوں سے لگاؤ ہے،
    ماں کو ان مسکراھٹوں کی ضرورت ہے جو اس کے بیٹے کے لبوں سے بکھر کر ماں کی روح میں اترتی تھیں،
    ماں کو اس چہرے کی ضرورت ہے جسے دیکھ کر وہ سکون محسوس کرتی تھیں،
    اب کون ہے جو ماں سرہانے کھڑے ھوکر پوچھ لے،
    امی شام کی دوائیاں کھالی ہیں،
    امی دوپہر کا کھانا ٹھیک سے کھا لیا ہے،
    امی کھانسی کی شکایت بہتر ہے،
    امی میری شادی اپنی پسند سے کرنا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،
    امی بس اب مجھے نوکری مل گئی ہے، تیرے برے دن ختم ہوگئے ہیں،
    امی اب تجھے دوسروں کے گھر میں برتن مانجھنے کی ضرورت نہیں ہے،
    امی میری تنخواہ ہماری کفالت کے لیے کافی ہے،
    بشارتیں دینے والوں سے عرض ہے کہ ماں نے انہیں اس بے دردی سے مرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا،
    سچ یہ ہے کہ موت کا جشن نہیں منایا جاتا ہے،
    موت پر شادیانے نہیں بجتے ہیں،
    موت کا درد کیا ہے، اسے ایک ماں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا،
    یہ سارے غریب طبقے سے تھے، دو روٹی اور نان شبینہ ان کا فخر تھا،
    کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچنا ان کے لیے جشن تھا،
    اس دن ان ماؤں کا سر فخر سے بلند ہوا جب ان کے بیٹوں نے پہلی تنخواہ ان کے ہاتھوں پر رکھی،
    اس دن ان کا سر فخر سے بلند ہوا جب بیٹے کی تنخواہ سے انہوں نے اپنا قرضہ ادا کیا ہوگا
    آپ کے فخر کے اپنے زاویے ہوں گے
    لیکن غریبوں کے فخر کا اپنا نکتہ نظر ہے
    ان غمزدہ ماؤں کا دل مزید نہ دکھائیے
    اگر ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو نمک بھی نہ چھڑکیے.

  • شہداء کا مقام اور ہمارے لیے پیغام – مفتی سیف اللہ

    شہداء کا مقام اور ہمارے لیے پیغام – مفتی سیف اللہ

    مفتی سیف اللہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو شاید ہی کوئی دن ہوگا جس میں اسلام کے لیے قربانی پیش نہ کی گئی ہو، چنانچہ اسلامی سال کے پہلے دن یکم محرم الحرام کو مراد رسول، تاجدار عدل و انصاف سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ کی شہادت ہوتی ہے جبکہ دس محرم کو نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سمیت جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ شہدائے اسلام کی ہر شخصیت اور تاریخ اسلام کے ہر ورق سے ہمیں شہادت کا درس ملتا ہے۔

    شہادت کیا ہے؟
    ”شہادت“ اللہ کی راہ میں اپنی جان فدا و قربان کر دینے کا نام ہے۔ اللہ کی طرف سے انعام یافتہ لوگوں میں پہلا طبقہ انبیائے کرام، دوسرا صدیقین جبکہ تیسرا طبقہ شہدائے کرام کا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی تمنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیاجاؤں۔

    شہید کیوں کہا جاتا ہے؟
    اس لیے کہ شہید ”مشہود لہ بالجنہ“ ہے، اس کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے تین لوگ بتاۓ گئے، شہید، حرام سے بچنے والا اور ایسا شخص جو اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے اور اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کرے۔ (ترمذی)
    نیز شہید بوقت شہادت اللہ کی طرف سے مغفرت اور جنت میں اپنے مقام کا مشاہدہ کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید کو چھ انعامات دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بوقت شہادت اسے جنت میں اپنا مقام دکھایا جاتا ہے. (ترمذی )
    یہی وجہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی کے خاتمہ کا احساس تک نہیں ہوتا
    شہید کی وجہ تسمیہ ایک اور بھی ہو سکتی ہے کہ وہ توحید و رسالت کی شہادت اپنے عمل سے دیتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شہادت ایک عظیم عمل ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شہید کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، سواۓ قرض کے۔ (ترمذی)

    حیات جاودانی اور تمنائے شہادت
    جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ مرگئے ہیں اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا لیکن درحقیقت انہیں ہمیشہ کی زندگی دے دی گئی۔
    چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے۔ (سورہ بقرہ۔ ١٥٤)
    ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ جو اللہ کے راستہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں جنہیں رزق دیا جاتا ہے (سورہ آل عمران ١٦٩)
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جہاں چاہیں جاتی ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آجاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں. ان کے رب نے ان سے پوچھا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ تو کہنے لگے کہ ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ ہم پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے لکھ دیا ہے کہ موت کے بعد کوئی بھی دنیا کی طرف نہیں بھیجا جائے گا. (مسلم)
    یعنی شہداء کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں جبکہ شہداء کے جسموں کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہوتا ہے، جس کی بناء پر اللہ کی طرف سے شہداء کو خاص زندگی عطاء کی جاتی ہے۔
    فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
    جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

    شہداء کا پیغام
    شہید اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ہمیں کیا پیغام دیتے ہیں؟
    اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک شہید کا ذکر فرمایا جسے انبیائے کرام کی تائید کرنے کی وجہ سے شہید کیا گیا، پھر اس کے پیغام کو بیان فرمایا جو اس نے اپنی قوم کو دیا، شہید کو کہاگیا کہ جنت میں داخل ہوجا، تو کہنے لگا کہ کاش میری قوم کو علم ہوجائے جو میرے رب نے میری بخشش کی اور مجھے عزت والوں سے کردیا. (سورہ یس آیت ٢٦ـ٢٧)
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا کہ جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ جل شانہ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی پھل کھائیں، جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے نیچے لٹکتی قندیلوں میں آرام کریں۔ جب کھانے پینے اور رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش ہمارے بھائیوں کو بھی ان نعمتوں کی خبر مل جائے تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ میں جہاد سے تھک کر نہ بیٹھ جائیں. (مستدرک حاکم)

    خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے ہاں شہداء کا بہت بڑا مقام ہے، انہیں حیات جاودانی حاصل ہے اور وہ ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ تم بھی ہماری راہ پر چلتے ہوئے اس مقام و اعزاز کے حقدار بن جاؤ۔
    شہداء نے پکارا ہے جنت کے بالاخانوں سے
    ہم راہ وفا میں کٹ آئے، تمہیں پیار اپنی جانوں سے

  • تین بار شہید ہونے والا مجاہد – احساس بھٹی

    تین بار شہید ہونے والا مجاہد – احساس بھٹی

    احساس بھٹی وہ مقبوضہ کشمیر میں سوپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین نے ایک مرتبہ اس کی موت کا ماتم تو اس وقت کیا جب وہ نو دس سال کی عمر میں ٹی وی پر دور درشن کا کوئی ڈرامہ دیکھ کر بچپنے میں اسی عمل کو دہراتے ہوئے گلے میں چادر ڈال کر خود کو پھانسی دے بیٹھا۔ اس کو بے ہوشی کی حالت میں جب نیچے اتارا گیا تو اس کے والدین اسے مردہ سمجھ کر رو پیٹ رہے تھے کہ اسی اثنا میں اسے ہوش آگیا۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی پہلی موت تھی جس کے بعد گھر کا ماحول کئی دن تک سوگوار رہا۔ والدین کی نظر میں وہ دوسری مرتبہ اس وقت شہید ہوا جب وہ آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ انہی دنوں مقبوضہ وادی میں آزادی کی مسلح جدوجہد اپنے جوبن پر تھی۔نوجوان دھڑا دھڑا مسلح تحریک میں شمولیت کے لیے سرحد پار کر رہے تھے۔ جب پوری وادی کے نوجوانوں میں تحریک کا بخار سر چڑھ کر بول رہا تھا تو وہ بھی اپنی شوخ طبیعت کے باعث ہر سرگوشی میں اپنے کان گھسا دیتا تھا۔ جب سولہ سترہ سال سے لے کر چوبیس پچیس سالہ جوانوں میں ’’اے کے 47‘‘ اٹھا کرغاصب بھارتی فوج سے آزادی اور بدلہ بیک وقت لینے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس کے اندر بھی ایک مجاہد پرورش پا رہا تھا۔ اس نے بھی دل ہی دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ بھی مجاہد بن کران بھارتی فوجیوں کو ’’جہنم واصل‘‘ کرے گا۔ جس دن اس کے گاؤں سے چند افراد پر مشتمل مختصر قافلہ اس دشوار سفر پر روانہ ہوا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ اس کے ساتھی اسے بچہ سمجھ کر اپنے ساتھ لے جانے پر تیار نہ تھے لیکن اس کے پاس انہیں منانے کے لیے کارگر دھمکی موجود تھی کہ اگر وہ واپس گیا تو ان کے گھر جا کر بتا دے گا کہ وہ سرحد پار کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بادل نخواستہ اس ’’ضدی مصیبت‘‘ کو ساتھ لے جانے کی حامی بھرلی۔ جیسے تیسے وہ سرحد پار پہنچا تو مجاہدین کمانڈر نے اتنے چھوٹے بچے کو ساتھ لانے پراس کے ساتھیوں اور گائیڈز کو سخت برا بھلا کہا لیکن اب واپسی کا راستہ تو بند تھا لہذا اسے بھی ’’ٹریننگ‘‘ میں شریک کر لیا گیا۔ ادھر اس کے والدین نے اس کی تلاش شروع کی اور تھک ہار کر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ مرچکا ہے۔ یہ اس کے والدین کی نظر میں اس کی دوسری موت تھی۔ رونا دھونا بھی ہوا اور ماتم بھی لیکن جب تک والدین اپنے لخت جگر کی لاش اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں انہیں اس کی موت کی خبر پر پوری طرح یقین نہیں آتا۔

    اپنی دوسری موت کے تقریباً پانچ سال بعد اس نے اسی علاقے کے کسی مجاہد سے دور پار کا فون نمبر لے کر اپنے گھر پیغام بھیجا کہ وہ صحیح سلامت ہے اور آزادکشمیر میں ہے، یوں انہیں یقین آیا کہ ان کا بیٹا دلاور خان (فرضی نام) زندہ ہے۔ ادھر اس کی کم عمری کے باعث مجاہد کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ ابھی اس کی پڑھنے کی عمر ہے لہذا اسے کیمپ سے نکال کر ایک فلاحی ادارے کے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک اور مجاہد جو اس کا ہم نام تھا وہ ایک فدائی حملے کے بعد بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہوگیا۔اس کی لاش بھی ناقابل شناخت ہوکر رہ گئی۔ وادی میں جب دلاور خان کی شہادت کی خبر پھیلی تو اس کے والدین تک بھی پہنچ گئی۔ نیز ان کے کسی جاننے والے مجاہد نے انہیں خود جا کر بتایا کہ شہید ہونے والا دلاور ہی تھا۔ یہ اس کی تیسری شہادت یا موت تھی۔ ان دنوں سرحد کے دونوں اطراف موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے لہذا اس نے اپنے والدین کے تیسرے ماتم کے کافی عرصے بعد کسی طرح فون کرکے ان سے بات کی تو انہیں اس بات پر یقین نہ آیا کہ وہ ان کا بیٹا ہی ہے۔ اس نےاپنے بچپن کے قصے سنا کر اور گھر کی کچھ باتیں بتا کر انہیں پھر سے یقین دلایا کہ وہ زندہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب بھی وہ گھر پرفون کرتا تھا، اس دن ان کے گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا کیونکہ تھوڑی دیر بعد بھارتی فوج آ کر اس کے گھر پردھاوا بول دیتی تھی۔ اس کے والد اور بھائیوں پر تشدد کیا جاتا۔ وہ دن تو زخم سہلانے میں گزرجاتا۔

    اس کے والد کا انتقال دو سال پہلے ہی ہوا ہے لیکن جب تک وہ زندہ رہے ہر ہفتے انہیں پولیس سٹیشن پر جا کرحاضری دینا پڑتی تھی۔ دلاور جب گھر سے نکلا تھا، اس وقت وہ چودہ پندرہ سال کا بچہ تھا لیکن اب وہ چھتیس سال کا باشعور آدمی ہے۔ میری زندگی کے کئی سال اس کی رفاقت میں گزرے ہیں۔ میں اس کے شب و روز کا گواہ ہوں۔ میں نے اسے مسلح تحریک کے بانیوں کو کوستے بھی سنا ہے۔گزشتہ عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر پاکستان کی خاموشی کے باعث ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اس کے شکوے بھی سنے ہیں لیکن اب عمر کے اس حصے میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک نے اس کے اندر چودہ سالہ دلاور کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ماں اور باپ کو تین بار اپنی شہادت کی خبر سنانے والا دلاور اب اکیلی ماں کو اپنی چوتھی شہادت کی خبر سنانے کے لیے بےتاب نظر آتا ہے۔

  • غدّار-حامد میر

    غدّار-حامد میر

    hamid_mir1

    برہان وانی نے اپنی زندگی میں کبھی یہ سوچا نہ ہوگاکہ ایک دن پاکستان کا وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کا نام لے گا جس کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں کشیدگی اتنی بڑھے گی کہ دہلی میں پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کرنے کی ترکیبوں پر غور ہوگا۔ جب سے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اکیس سالہ کشمیری حریت پسند برہان وانی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خراج تحسین پیش کیا ہے بھارتی میڈیا اپنی حکومت کو پاکستان پر حملے کی ترغیب دے رہا ہے۔ برکھادت سمیت کئی بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ برہان وانی ایک دہشت گرد تھا جو بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں ایک دہشت گرد کو ہیرو بنانے کی کوشش کی لہٰذا پاکستان کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ بھارتی ٹی وی چینلز پر کہا گیا کہ اگر پاکستان کی طرف سے ہمارے غدّاروں کو ہیرو بنایا جارہا ہے تو ہمیں پاکستان کے غدّاروں کو ہیرو بنانا چاہئے۔ گزشتہ دنوں جیو نیوز پر عائشہ احتشام کے پروگرام میں ایک بھارتی صحافی اوماشنکر سنگھ نے اقوام متحدہ میں برہان وانی کا نام لینے پر نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پاکستان کھلم کھلا دہشت گردوں کی حمایت کررہا ہے۔

    جب میں نے پوچھا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس متنازع علاقے میں برہان وانی ایک قابض فوج کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو وہ دہشت گرد کیسے ہوگیا؟میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اوما شنکر سنگھ توں تڑاک پر آگیا تو میں نے پوچھا کہ بھگت سنگھ نے ایک انگریز پولیس افسر کو قتل کیا اور اسمبلی میں بم چلایا اسے بھارت میں حریت پسند کیوں کہا جاتا ہے؟ اگر بھگت سنگھ حریت پسند ہے تو پھر برہان وانی بھی حریت پسند ہے۔ بھارتی صحافی لاجواب ہوگیا لیکن اس واقعے کے بعد کئی پاکستانیوں نے مجھے پوچھا کہ بھگت سنگھ کون تھا اور آپ نے برہان وانی کو ایک غیر مسلم سے کیوں تشبیہ دی؟ ایک پولیس افسر نے کہا بھگت سنگھ تو غدّار تھا برہان وانی شہید کشمیر ہے۔ اس جملے پر میں سٹپٹا کر رہ گیا لیکن پھر برہان وانی کے والد مظفر وانی کا ایک انٹرویو سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ تاریخ میں میرے بیٹے کو بھی بھگت سنگھ کی طرح ایک حریت پسند کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مظفر وانی کی طرف سے بھگت سنگھ کے ذکر کے بعد کچھ پاکستانی کرم فرمائوں کے علم میں یہ لانا ضروری ہوگیا ہے کہ بھگت سنگھ کون تھے اور ان کو غدّار کیوں کہا گیا؟ آج میں اپنے ناقص علم کے مطابق آپ کو لفظ’’غدّار‘‘ کے پس منظر سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ کچھ لوگوں نے اس لفظ کو گالی بنادیا ہے لیکن بھگت سنگھ کے لئے یہ لفظ خراج تحسین تھا۔

    لفظ غدّار دراصل غدّر سے نکلا ہے۔ غدّر کا مطلب بغاوت اور غدّار کا مطلب باغی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں غدّر کا لفظ1857ءمیں مقبول ہوا اور برطانوی حکومت نے1857ءکے غدّر میں حصہ لینے والوں کو غدّار کہنا شروع کردیا۔1913ءمیں کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے، سٹین فورڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کچھ سکھ، ہندو اور مسلمان طلبہ نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں غدّر پارٹی قائم کی۔ غدّر پارٹی کے قیام کا مقصد متحدہ ہندوستان میں مسلح جدوجہد کے ذریعہ برطانوی راج کا خاتمہ تھا۔ غدّر پارٹی نے سان فرانسسکو سے ہفت روزہ’’غدّر‘‘ کے نام سے ایک جریدے کا اجراء کیا جو بعدازاں گورمکھی میں بھی شائع ہوتا تھا۔ ہفت روزہ غدّر کی پیشانی پر واضح الفاظ میں لکھا ہوتا تھا ’’انگریزی راج کا دشمن‘‘ ۔1914ءمیں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو غدّر پارٹی نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ٹوکیو یونیورسٹی جاپان میں اردو کے استاد برکت اللہ بھوپالی کے ذریعہ کابل میں مقیم مولانا عبید اللہ سندھی سے بھی رابطہ کیا۔ 1915ءمیں غدّر پارٹی نے ایک جلا وطن حکومت قائم کی جس کا صدر راجہ مہندر پرتاپ، وزیر اعظم برکت اللہ بھوپالی اور وزیر داخلہ مولانا عبید اللہ سندھی کو بنایا گیا۔

    غدّر پارٹی کے ارکان امریکہ اور کینیڈا سے ہندوستان آئے اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر برطانوی فوج میں موجود مقامی سپاہیوں کو بغاوت پر اکسانے لگے۔غدّر پارٹی کی قیادت نے لاہور کے علاقے میاں میر کی فوجی چھائونی اور فیروز پور کی فوجی چھائونی پر حملہ کرکے اسلحہ قبضہ میں لینے کا منصوبہ بنایا تاکہ دہلی پر حملہ کیا جائے لیکن لاہور میںغدّر پارٹی کے خفیہ مرکز پر چھاپہ مارکر کرتار سنگھ، حافظ عبداللہ، ہرنام سنگھ سیالکوٹی، بابورام اور دیگر کو گرفتار کرلیا گیا۔ بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ بھی غدّرپارٹی میں شامل تھے۔ انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ سینٹرل جیل لاہور میں کرتار سنگھ اور حافظ عبداللہ وغیرہ پر مقدمہ چلا کر ان سب کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔غدّر پارٹی کے یہ بہادر قائدین بھگت سنگھ کا آئیڈیل تھے۔ بھگت سنگھ نے نوجوان بھارت سبھا قائم کی اور پھر ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہو کر انگریزی راج کے خلاف جدوجہد میں شریک ہوگئے۔ 1928ءمیں بھگت سنگھ نے ایک انگریز پولیس افسر کو قتل کردیا۔ 8اپریل1929ءکو بھگت سنگھ نے سینٹرل اسمبلی میں دو بم پھینکے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اسمبلی میں موجود تھے لیکن وہ اس حملے میں زخمی نہ ہوئے۔ بھگت سنگھ کو گرفتار کرلیا گیا۔ جیل میں امتیازی سلوک کے خلاف بھگت سنگھ نے بھوک ہڑتال شروع کردی تو ایک تین رکنی ٹربیونل نے بھگت سنگھ کو عدالت میں پیش کئے بغیر ان کے غلاف مقدمے کی سماعت شروع کردی۔ 12ستمبر 1929ءکو قائد اعظم نے سینٹرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھگت سنگھ نے جو کیا اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن سوچا جائے کہ اس نے یہ سب کیوں کیا۔

    انہوں نے بھگت سنگھ کے ساتھ ناانصافی کی مذمت کی اور اسے آزادی پسند قرار دیا۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ بار نے بھگت سنگھ کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے ٹریبونل کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ ٹربیونل کے ایک مسلمان جج کو ہٹا دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ بار کے اس بیان پر علامہ اقبال نے بھی دستخط کئے۔23مارچ 1931ء کو 23سالہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو لاہور میں پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ یہی وہ سال تھا جب جموں و کشمیر میں تحریک آزادی نے زور پکڑا۔ اپریل 1931ءمیں مفتی محمد اسحاق جموں کے میونسپل پارک میں عید کا خطبہ دے رہے تھے۔ خطبے کے دوران انہوں نے فرعون کے بارے میں تنقیدی الفاظ کہے تو ایک ہندو انسپکٹر نے انہیں تقریر سے روک دیا۔ یہاں سے احتجاج شروع ہوا اور سرینگر پہنچا۔ سرینگر کی جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرنے والے ایک نوجوان عبدالقدیر کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کو بھی بھگت سنگھ کی طرح غدّارقرار دیا گیا۔ عبدالقدیر کی گرفتار کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان مظاہروں میں’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘ کو ترنم سے گایا جاتا تھا۔ عبدالقدیر کے خلاف مقدمے کی سماعت سینٹرل جیل سرینگر میں ہورہی تھی۔ 13جولائی 1931ءکو اس جیل کے باہر کشمیریوں نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین پر فائرنگ میں22کشمیری شہید ہوگئے اور یوں وہ تحریک شروع ہوئی جسے 14اگست1931ء کو علامہ اقبال نے موچی دروازہ لاہور کے جلسے میں تحریک آزادی قرار دیا۔ یاد رکھیئے، پاکستان1947ءمیں قائم ہوا اور کشمیریوں کی تحریک آزادی1931ءمیں شروع ہوئی۔ 13جولائی آج بھی کشمیریوں کا یوم شہداء ہے۔

    انگریزی حکومت نے بھگت سنگھ اور عبدالقدیر جیسے حریت پسندوں کو غدّارکہا حالانکہ وہ ملک دشمن نہیں بلکہ اپنے ملک پر غیر ملکی قبضے کے خلاف تھے۔ پھر انگریزی فوج کی باقیات نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ اور افضل گرو کو غدّارقرار دے کر پھانسی پر لٹکایا۔ آج بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا برہان وانی کو غدّاراور دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔

    ذرا سوچئے کہ 21سالہ برہان وانی اور 23سالہ بھگت سنگھ میں کیا فرق ہے؟ صرف نام اور زمانے کا فرق ہے۔ دونوں غیر ملکی تسلط کے خلاف نبرد آزما تھے۔ دہلی میں بم چلانے والے بھگت سنگھ کے نام پر دہلی میں ایک یونیورسٹی قائم ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پلوامہ اور سرینگر میں بھی برہان وانی کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔ سامراجی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ ہر دور میں حریت اور آزادی کے متوالوں کو غدّار قرار دیتے ہیں لیکن تاریخ ان غدّاروں کو ہیرو بنادیتی ہے اور انہیں غدّار قرار دینے والے وطن دشمن کہلاتے ہیں۔

  • شہید کون ہوتا ہے؟ عقیل احمد جذبی

    شہید کون ہوتا ہے؟ عقیل احمد جذبی

    11745930_1612950025611509_1259653573613321079_nشریعت کی نظر میں شہید کسے کہتے ہیں اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ ذیل میں اس کا جائزہ پیش کیا جائے گا.

    شہید کا لغوی معنی ہے : گواہ ، کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔
    اور شریعت اِسلامی میں اِس کا مفہوم ہے ::: اللہ تعالی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا ، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں، اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا

    شہادت کی اقسام
    (1) شہیدءِ المعرکہ یعنی اللہ کے لیے نیک نیتی سے میدانِ جِہاد میں کافروں ، مُشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہونے والا
    (2) فی حُکم الشہید، شہادت کی موت کا درجہ پانے والا یعنی میدان جِہاد کے عِلاوہ ایسی موت پانے والا جسے شہادت کی موت قرار دِیا گیا

    اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ مُحمدیہ الصلاۃُ و السلام علی نبیھا ، میں درجہِ شہادت پانے والوں کو صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجہ پر فائزفرمایا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں:۔
    (1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا تُم لوگ اپنے(مرنے والوں ) میں سے کسےشہید سمجھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم اُسے شہید سمجھتے ہیں )، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا اے اللہ کے رسول تو پھر شہید (اور) کون ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (1) جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے، اور (2) جو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا ، یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران ) مر گیا وہ بھی شہید ہے ، اور (3) اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اور (4) جو پیٹ (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے. عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے روایت کر رہے تھے ، کہا ، میں اِس حدیث کی روایت میں تمہارے والد کی (اِس بات کی درستگی) پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (5) ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے

    (2) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا شہید پانچ ہیں (1) مطعون، (2)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، (3) ڈوب کر مرنے والا (4) ملبے میں دب کر مرنے والا (5) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا . صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب 51بیان الشُّھداء ،
    جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں (1) مطعون شہید ہے (2) اور ڈوبنے والا شہید ہے(3) ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے (4) اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا ، (5) اور جل کر مرنے والا شہید ہے، (6) اور ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے، اور (7)حمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہ ہے. سُنن ابو داؤد حدیث 3111/ کتاب الخراج و الامارۃ و الفيء / اول کتاب الجنائز /باب 15 ، مؤطا مالک ، حدیث /کتاب الجنائز /باب 12، اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے،بحوالہ احکام الجنائز صفحہ54،

    (3) راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ کی عیادت (بیمار پُرسی) کے لیے تشریف لائے تو ارشاد فرمایا کہ کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ میری اُمت کے شہید کون کون ہیں ؟ عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (اللہ کی راہ میں مصیبت پر ) صبر کرنے اور اجر و ثواب کا یقین رکھنے والا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا اس طرح تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے (1) اللہ عز وجل کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے اور (2) طاعون (کی موت ) شہادت ہے اور (3) ڈوبنا (یعنی پانی میں ڈوبنے سے موت واقع ہونا ) شہادت ہے اور (4) پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے اور (5) ولادت کے بعد نفاس کی حالت میں مرنے والی کو اُس کی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مر گئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ لے جاتی ہے، اور (6) جلنا (یعنی جلنے کی وجہ سے موت ہونا) اور (7) سل (یعنی سل کی بیماری کی وجہ سے موت ہونا شہادت ہے. مُسند احمد / حدیث راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ ، مُسند الطیالیسی، حدیث 586 ، اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ، بحوالہ احکام الجنائز صفحہ54، سل کی بھی مختلف شرح ملتی ہیں ، جن کا حاصل یہ ہے کہ ”’ سل”’ پھیپھڑوں کی بیماری ہے۔

    (4) عبداللہ ابن عَمر (عمرو)رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا جسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا وہ شہید ہے. صحیح البخاری حدیث 2348 /کتاب المظالم /باب 34 ، صحیح مُسلم حدیث 141/کتاب الاِیمان/باب 62

    (5) سعید بن زید رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (1) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور (2) جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور (3) جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور (4) اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا وہ شہید ہے. سنن النسائی،حدیث 4106/کتاب تحریم الدم /باب24 ، سنن ابو داؤد حدیث4772 /کتاب السُنّہ کا آخری باب ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، صحیح الترغیب الترھیب ، حدیث1411 ، احکام الجنائز و بدعھا

    ان مندرجہ بالا صحیح احادیث میں ہمیں اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتایا کہ شہادت کی موت کون کون سی ہے. اگر ہم ان احادیث میں بیان کی گئی اموات کو ایک جگہ اکٹھا بیان کریں تو مندرجہ ذیل بنتی ہیں
    (1) اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ، یعنی شہید معرکہ ، اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے،
    (2) اللہ کی راہ میں مرنے والا ، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی، مثلاً غازی، مہاجر، وغیرہ ، سورت النساء(4)/ آیت 100 ،
    (3) مطعون ، طاعون کی بیماری سے مرنے والا ،
    (4) پیٹ کی بیماری سے مرنے والا،
    (5) ڈوب کر مرنے والا،
    (6) ملبے میں دب کر مرنے والا ،
    (7) ذات الجنب سے مرنے والا ، (ذات الجنب وہ بیماری جِس میں عموماً پیٹ کے پُھلاؤ ، اپھراؤ کی وجہ سے ، یا کبھی کسی اور سبب سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن) ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے )،
    (8) آگ سے جل کر مرنے والا ،
    (9) حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو،
    (10) ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت،
    (11) پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا ،
    (12) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ،
    (13) جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ،
    (14) جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا،
    (15) جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا،
    ان کے عِلاوہ کِسی بھی اور طرح سے مرنے والے کے لیے اللہ اوراُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ اُسے شہید کہا اور سمجھا جائے ۔ واللہ اعلم