Tag: شہبازشریف

  • ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے دھرنے کی جوابی کاروائی کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس ضمن میں پچھلے 24 گھنٹے باقاعدہ سٹارٹ اپ کہے جاسکتے ہیں۔

    کل کے دن میں وزیر اعظم نے تین اہم پیغامات دیے :
    1۔ چیف آف آرمی سٹاف سے ون آن ون اور پھر شہبازشریف صاحب اور چوہدری نثار کی موجودگی میں ملاقات سے یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم کا براہ راست اور اپنے ایلچیوں کے ذریعہ فوج (جنرل راحیل شریف) سے رابطہ متواتر اور مستحکم ہے۔ جنرل صاحب کی ’’خفگی‘‘ کی خبریں دینے والےسوچ سمجھ لیں۔
    2۔ دو سال بعد اچانک پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وزیراعظم صاحب کی اندرون پارٹی حمایت پوری طرح برقرار ہے اور مستحکم ہے۔ وزیر اعظم کے جارحانہ خطاب کے ساتھ ساتھ خوشامد اور سرفروشی کے روایتی مظاہروں نے اس بات کو مزید واضح کرنے میں مدد دی۔
    3۔ پارلیمانی پارٹی سے اپنے خطاب میں میاں صاحب نے فرمایا کہ چین سی پیک کے معاملہ میں ان کے برسر اقتدار آنے کا منتظر تھا۔

    یہ ہے وہ چھکا جو میاں صاحب نے اپنی دانست میں اپوزیشن کے اس دعوی پر لگایا ہے کہ وزیر اعظم کرپٹ ہیں اور پانامہ لیکس اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کے مطابق چین جیسا ملک ان کو پاکستان کی پوری سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اور Honest سمجھتا ہے اور محض ان پر تکیہ کرتے ہوئے 46 ارب ڈالر کا ایک اسٹریٹیجک منصوبہ ترتیب دیتا ہے اور یہاں کی اپوزیشن ہے کہ ان کو خائن قرار دینے کے چکر میں ہے۔ یہاں انہوں نے سب کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہلے‘‘ تو کافی کچھ ہل جائے گا۔ پھر نہ کہنا۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ایک بیان میں فرمایا کہ سی پیک کا ڈی ریل ہو جانا (نواز حکومت کا غیر فطری اختتام) سن 71 جیسا سانحہ ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ تو قوم کی خدمت کے لیے اس منصب پر ہیں، اقتدار کے لیے نہیں، اور انہیں اقتدار کی کوئی پرواہ نہیں۔
    یعنی وہ بھی اس کھیل کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور کسی بھی طرح پریشر میں نہیں اور نہ ہی آئندہ چل کر اس کی کوئی امید رکھی جائے۔ البتہ عوام یہ جان لیں کہ وہ یہ سب صرف عوام کی محبت میں کر رہے ہوں گے جبکہ حزب مخالف محض اقتدار کے لیے دھماچوکڑی مچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
    وزیر اعظم نے فوج کے ساتھ بظاہر غیرمعاندانہ تعلقات، پارلیمنٹ میں بھاری سیاسی حمایت، سی پیک اور اس سے منسلک معاشی امکانات کو اپنے مخالفین کے خلاف دفاعی لائن بنایا ہے۔
    اپوزیشن کے پاس کیا ممکنہ کارڈز ہیں ۔۔۔۔ یہ کل اور پرسوں ، 6 اور 7 اگست کو کافی حد تک سامنے آجائے گا ۔

  • ن لیگ سے تبدیلی کی توقع کیوں غلط ہے؟ بلال ساجد

    ن لیگ سے تبدیلی کی توقع کیوں غلط ہے؟ بلال ساجد

    بلال ساجد مسلم لیگ ن سے پرفارم کرنے کی توقع لگانے والے یا بہتری کی امید رکھنے والے احباب احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کے سیاسی ڈھانچے پہ غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس سے بنیادی اصلاحات جیسے تعلیم، صحت، پولیس، عدلیہ اور پٹوار میں بہتری کی توقع رکھنا کیوں غلط ہے!

    سب سے پہلی بات تو یہ جان لیجیے کہ مسلم لیگ ن کسی نظریے کا نام نہیں۔ کسی زمانے میں اسے دائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا، آج کل میاں صاحب کو لگتا ہے کہ لبرل پاکستان کا نعرہ مغرب میں زیادہ مقبول ہے تو یہ اپنا نام دائیں بازو کی صف سے کٹوا کر بائیں بازو والوں کے ساتھ لکھوانے کے لیے بے چین ہوئے پھرتے ہیں۔ ایک زمانے تک میاں صاحب فوجی آمر کا ادھورا مشن پورا کرنے کا نعرہ لگاتے رہے، آج جمہوریت کا چہرہ کہلوانے پہ مصر ہیں۔

    دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے برعکس مسلم لیگ ن کے پاس کوئی ایسا چہرہ نہیں جس کی بنیاد پہ ووٹ مانگا جا سکے۔ پیپلز پارٹی ایک عرصہ قائدِ عوام کے سائے تلے اور پھر اُن کے خون پہ زندہ رہی، اُس کے بعد بی بی محترمہ نے اپنے والد کی وراثت کو سنبھالا اور صرف سندھ نہیں بلکہ پنجاب سے بھی عوام نے بھٹو کی بیٹی کو ووٹ دیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے پاس عمران خان ہیں، کرکٹ کے سابقہ ہیرو جو اپنی کرشماتی شخصیت سے لوگوں کو اپنی ذات کے گرد اکٹھا کر لیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اس طرح کا کوئی بندہ نہیں ہے۔ شہباز شریف کی جلسوں کی تقاریر میں ضرورت سے زیادہ تصنع، بھونڈا پن اور غیر ضروری انقلابیت باقاعدہ الحمرا ہال والا تاثر چھوڑتی ہے، میاں نواز شریف نے 1997ء میں بزرگوں کی آشیرباد سے جو دوتہائی اکثریت لی، اُس میں اُنہوں نے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی اور وہ قرضہ اتارو ملک سنوارو والی مہم میں لوگوں نے اپنا سب کچھ میاں صاحب کو دان بھی کر دیا تھا لیکن پھر فوجی آمر کے سامنے جس دلیری اور بہادری سے شیر نے آنسو بہائے، اُس نے میاں نواز شریف کی لیڈری کی رہی سہی کسر نکال دی۔ نکتہ صرف یہ ہے کہ لوگ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی ذات کو ووٹ نہیں کرتے۔

    تیسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مسلم لیگ ن کسی قسم کی تبدیلی یا انقلاب کی خواہش ہی نہیں رکھتی۔ اُس کی لیے لفظ سیاست بمعنی خدمت یا انتظام نہیں بلکہ بمعنی کاروبار مستعمل ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ نکتہ وہ ہوتا ہے جب مسلم لیگ ن کے لیڈران تحریک انصاف پہ تنقید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اجی ہم تو ہیں ہی چور ڈاکو اور برے ۔۔۔”ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کیا کر لیا؟ “ یعنی باالفاظِ دیگر وہ اس بات کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو اس ملک کو جو کچھ دے سکتے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے لیکن دے آپ کو تحریک انصاف والے بھی کچھ نہیں سکتے۔

    یہاں ایک منطقی سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود مسلم لیگ ن کو وفاقی اور صوبائی حکومت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ جواب بہت سادہ ہے اور اگر ہم اس جواب کو سمجھ لیں تو اُس کے بعد میرا یہ دعوی کے مسلم لیگ ن سے تبدیلی یا بہتری کی امید لگانا بے وقوفی ہے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

    مسلم لیگ بنیادی طور پر روایتی سیاست کی چمپیئن ہے۔ یہ جانتی ہے کہ کہاں کس بنیاد پہ ووٹ ملتا ہے اور یہ اُس جگہ پر مطلوبہ بھیس بدلنے میں مہارت رکھتی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ووٹ دینے کے پیمانے مختلف ہیں، شہروں میں بھی پرانے محلوں جیسا کہ اندرون لاہور اور نئے علاقوں جیسا کہ ڈیفنس وغیرہ میں ووٹ دینے کا معیار مختلف ہے اور مسلم لیگ ہر جگہ کے حساب سے اپنی پلاننگ کرتی ہے۔ دیہاتوں میں مسلم لیگ ن کا سارا فوکس بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کو اپنے ساتھ ملانا ہوتا ہے۔ سیٹ جیتنے کے لیے سالوں پرانے تعلق کو توڑنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا جاتا۔ میرے شہر اٹک سے ملک سہیل کمڑیال اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مشرف دور میں ملک سہیل نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا کہ جب چوہدری نثار جیسے لوگ بھی منظر سے غائب تھے لیکن 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بشمول چوہدری نثار نے محسوس کیا کہ ملک سہیل مناسب ووٹ لینے کے باوجود سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں تو انھیں سائیڈ لائن کرنے میں ایک سیکنڈ کی دیر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔

    ایک قدم اور آگے بڑھیں، مسلم لیگ اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کے امیدوار کو سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں لامحدود تصرف دیتی ہے۔ ایم این اے کے حلقے میں موجود ایک تھانے کے ایس ایچ او اور پٹواری سے لیکر ضلعی کمشنر تک کوئی ایسا بندہ ٹک نہیں سکتا جو ایم این اے کو قبول نہ ہو۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تبدیلی سے لے کر مختلف سرکاری اداروں میں بھرتیوں تک ایم این اے یا ایم پی اے کی پرچی یونیورسٹی ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ مسلم لیگ ن کا ایم این اے ہارا ہوا ہو یا جیتا ہوا، تھانے، کچہری اور پٹوارخانے میں اُس کا اثر و رسوخ ایک جیسا رہتا ہے اور عام آدمی کو اس بات پہ مجبور کر دیا جاتا ہے کہ اگر کام کروانا ہے تو مسلم لیگ ن کی مقامی یا ضلعی قیادت کو ساتھ لائیں یا پرچی لے کر آئیں۔ آپ نے سوشل میڈیا پہ وہ پرچیاں گردش کرتی ضرور دیکھی ہوں گی کہ ۔۔۔ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب، حاملِ پرچی ہذا بلال ساجد اپنا عزیز ہے، خصوصی شفقت فرمائیں۔ منجانب ایم این اے فلاں ابن فلاں۔ تو حضور عرض یہ ہے کہ آپ کا ملک اس طرح کی پرچیوں پر چل رہا ہے اور یہ پرچیاں نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے سیاسی بدن میں دوڑتا خون ہے۔

    اس سیاسی ڈھانچے کے ساتھ مسلم لیگ ن سے کسی ٹھوس تبدیلی کی امید رکھنا ۔۔۔ چہ معنی دارد؟

  • وزیراعلی پنجاب کے نام – نسیم الحق زاہدی

    وزیراعلی پنجاب کے نام – نسیم الحق زاہدی

    نسیم زاہدی وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی بے پناہ محنت اور نتائج پیدا کرنے کی سعی نے اکثر پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک محترک سیاسی شخصیت اور قوت فیصلہ سے مالا مال ہیں. اسی خصوصیت نے انھیں دوسرے سیاستدانوں اور وزرائے اعلیٰ سے ممتاز بنا دیا ہے. انہوں نے دوسرے تمام محکموں کی طرح محکمہ پولیس میں بھی بہت سے اچھے اور مثبت اقدامات کیے ہیں، تھانوں کو مظلوں کے لیے دارالامن اور مجرموں کے لیے قید خانہ بنانے کا تصور قابل تحسین ہے مگر افسوس کہ اس کے باوجود جرائم پر قابو پایا جا سکا ہے نہ پولیس کا قبلہ درست ہوا ہے.

    جس محلے میں رہتا ہوں، وہاں ایک پولیس افسر کا گھر ہے، ان کے آوارہ لڑکے رات کو گھر کے آگے بیچ گلی میں آوارہ لڑکوں کو لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اونچی آواز میں بیہودہ گانے اور آوازیں کستے ہیں. کئی بار اپیل کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی. ایک بار تو حد ہوگئی، شراب پی کر گالم گلوچ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تو پولیس تھانے میں کال کی مگر انہوں نے کسی اعلیٰ افسر کی کال تھانہ میں کروائی تو ہم مجرم بن گئے اور وہ مظلوم. تعلق بھی بڑی چیز ہے، وہ آج بھی ویسے ہی کھڑے ہوتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں. اگر پویس والے ان کے خلاف مناسب کارروائی کرتے اور ان کو واننگ دیتے تو وہ باز آجاتے. اگر پولیس والے رات کو گلیوں محلوں کا باقاعدہ گشت کریں اور فضول اور بلاوجہ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ہونے والے نوجوانوں کو منع کریں تو بہت سے سنگین حالات جنم ہی نہ لیں مگر ایسا ممکن نہیں. ہمارے دوست حکیم منصورالعزیز بینز فیکٹری ملتان روڈ (لاہور) پر المنصور کے نام سے مطب اور فارمیسی چلاتے ہیں، پندرہ روز پہلے ان کی کی فارمیسی پر دن دہاڑے ڈکیتی ہوئی. تھانہ سبزازار میں ان کی FIR تو درج ہوچکی ہے. انویسٹی گیشن آفیسر کو سی سی ٹی وی ویڈیو اور اور تصاویر بنوا کردی گئی ہیں مگر اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی رابطہ پر آفیسرکا کہنا تھا کہ جب موڈ ہوگا کارروائی ہوگی، میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں. اب بتائیے انصاف کہاں سے ملے گا؟

    پولیس میں بھرتی ہوتے وقت عوام کی حفاظت کرنے کی قسمیں کھانے والے اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کرتے ہیں؟ تنخواہوں کے باوجود مٹھائی کی عادت کیوں ہے؟ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پر تھانوں کی بولیاں لگتی ہیں. بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی. یقین جانیے شریف آدمی اپنے ساتھ زیادتی برداشت کر لیتا ہے مگر تھانے جانے سے ڈرتا ہے. کراچی میں حکیم اے این عسکری اور ان کے بیوی بچوں کو سات مسلح افراد نے باندھ کر شدید زدوکوب کیا، لوٹ مار کی اور سامان گھر سے باہر پھینک کر مکان پر قبضہ کر لیا. فون پر بتا رہے تھے کہ پولیس والے کوئی تعاون نہیں کر رہے تو میں نے عرض کی کہ حکیم صاحب اگر پولیس والے وقت پر اپنا فرض اداکریں تو یقین جانیے مجرم انجام کے خوف سے گناہ چھوڑ دے. اگر تھانوں میں ٹیلی فون کلچر رشوت مٹھائی سفارش سسٹم ختم ہوجائے تو پاکستان جرائم فری ہو جائے. محکمہ پولیس کے اندر چھپی ہوئی چند کالی بھیڑوں نے اچھے اور ایماندار افسران کو بھی بدنام کیا ہوا ہے. سمجھ نہیں آتا کہ اس وردی کے اندر کیا ہے کہ جو اس کو پہن لیتا ہے اس کے نزدیک اس کے علاوہ دوسرے کسی انسان کی کوئی عزت وقعت نہیں رہتی.

    نبی مکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے جس میں قانون امیر کے لیے کچھ اور ہوتا ہو اور غریب کے لیے کچھ اور. اسلام نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہی ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں. مشہور واقعہ ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو نبیﷺسے درخواست کی گئی کہ اس عورت نے چوری کی ہے لیکن شریف گھرانے کی ہے، اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے کوئی اور سزا دی جائے، آپﷺنے فرمایا کہ قومیں اسی طرح تباہ ہوئی ہیں کہ ان میں جو بااقتدار اور شریف سمجھے جاتے تھے انہوں نے اگر کوئی غلط کام کیا توان کو سزا نہیں دی جاتی تھی اور جو کمزور تھے ان کو سزائیں دی جاتیں تھیں. آپﷺ نے وہ تاریخی جملے ارشاد فرمائے جو صرف آپﷺ ہی ارشاد فرماسکتے تھے کہ اس عورت کی جگہ اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں محمدﷺآج اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا (متفق علیہ) قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں. یہ اتنا صاف اور واضح تصور ہے کہ قانون کی برتری کا اس سے بہتر اور واضح تصور پیش نہیں کیا جا سکتا.

    ایک سینئر صحافی دوست عمرہ سے واپس آئے تو ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا. اسلامی قانون کے بارے میں بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں سوچ رہا تھا کہ سعودی عرب میں ہر دسویں بندے کے ہاتھ کٹے ہوں گے مگر مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا انسان نہیں ملا. اس سے مجھے اسلامی سزائوں کی فضیلت کا اندازہ ہوا کہ جب ایک انسان کو علم ہو کہ اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی تو وہ کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا اور انجام کے خوف سے گناہ نہیں کرے گا. جب ایک انسان کو اس بات کا علم ہو کہ اگر وہ کوئی بھی غلطی کرے گا تو اس کے پیچھے اس کا بااثر باپ ہوگا، اس کا تعلق کسی اعلیٰ افسر سے ہوگا اور اسے تھانے میں پر وٹوکول ملے گا تو وہ گناہ کیسے نہیں کرے گا؟ مجھ جیسا ایک سفید پوش غریب انسان جو دو وقت کی روٹی مشکل سے کماتا ہو، وہ ایسے بااثر افراد کی ز یادتی کی شکایت بھی نہیں کر سکتا. وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ ابھی تبدیلی کی اور ضرورت ہے. عوام کے محافظوں کو عوام کی خدمت پر لگائیں اور اختیارات کا ناجائز استعمال روکنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کریں.