Tag: شعور

  • جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    مجیب الحق حقی نئی اصطلاحات میں آپ نے جدیدیت Modernism ضرور سنی ہوگی، یعنی جدّت پسندی۔ جدیدیت کو عام تو کیا اکثر تعلیم یافتہ بھی لفظی معنوں میں ہی قبول کرتے ہیں یعنی جدید بمعنی نیا new ۔گویا عام لوگوں کے خیال میں جدیدیت میں جدید سائنسی دریافتیں اور نئے طرز ِ زندگی اور فیشن وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    حالانکہ جدیدیت کے رد میں ایک اور فلسفہ مابعد جدیدیت Post-Modernism بھی متعارف ہوچکا ہے، جس کے مطابق جدیدیت ناکام ہوچکی ہے اور انسان کا تعارف نئی بنیادوں پر ہونا ہے، لیکن ہمارے اس محدود اور سطحی جائزے کے حوالے سے ان میں خاص جوہری فرق نہیں بلکہ دقیق فلسفیانہ اختلاف ہے۔ آئیے ہم جدیدیت کوبہت سادہ طور پر سمجھتے ہیں۔

    جدیدیت:
    جدیدیت کی آمد سے پہلے دنیا میں الہامی اور خدائی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ انسان کسی نہ کسی پیرائے میں خدا کی حاکمیت کو مانتا اور اپنے دنیاوی اور روحانی مسائل کے لیے اس کی طرف رجوع کرتا تھا۔ لیکن اٹھارویں صدی میں خاص طور پر صنعتی انقلاب نے سوچ کے نئے افق متعارف کرائے۔ اس لہر نے فنون لطیفہ سے سفر کرتے ہوئے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ تبھی جدید فکر یعنی جدّت پسندی یا جدیدیت modernism کے فلسفے نے سر اٹھایا اور کمزور پڑتے مذہب کی اتھارٹی کو للکارا اور انسان کو ہر طرح کی پابندی سے جو اس کی سوچ پر قدغن لگاتی ہو، آزاد ہوجانے کا راستہ دکھایا۔ یہ مذہب اور خدا سے کھلی بغاوت کی ابتدا تھی۔

    خدا کے بجائے انسان کی عقل کو رہبرمان لیا گیا۔ انسان بندے کے بجائے آزاد ارادے کا حامل قرار پایا۔ مذہب سمٹ کرگھر اور ذات میں مقید ہوگیا۔ معاشرے میں خدائی احکام اور پیغمبرکی جگہ فلسفی معتبر ٹھہرے۔ فلسفی معاشرے کے رہنما بن گئے۔ ہر چیز کا محور اب انسان ہوا۔ انسان کے لیے ریاست قائم ہوئی جہاں پر قوانین کا منبع رائے عامہّ بنی، یہی جمہوریت کہلائی۔ گویا قوانین اور معاشرتی اصول کی تدوین انسان نے خدا سے لے کر کلّی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی۔

    جدیدیت میں صرف اور صرف انسان ہی حقیقت ہے، وہ مختار و قادر ہے اور ہر طرح کی بیرونی رہنمائی سے بے پرواہ اپنی ذات میں مکمّل اور ہدایت سے مبرّا ہے۔ فلسفہ ٔجدیدیت کے مطابق انسان ہی مرکز ِکائنات ہے، خدا مرکز ِکائنات نہیں کیونکہ انسان کے وجود میں شک نہیں! انسان ہی عقل کُل ہے۔ اسی جدیدیت کی فکر سے ہی کمیونزم، سوشلزم، لبرل ازم، سیکولرازم، جمہوریت، تحریک ِ نسواں اور دوسرے نظریات نکلے۔ اس فکر کو جدیدیت یا ماڈرن ازم کا نام دیا گیاجس کی منشا یہ ہے کہ ماضی کے ہر آثار کو جسے عقل قبول نہ کرے، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دینا چاہیے۔

    جدید انسان:
    جدید انسان وہ ہے جو صرف شعوری، حواسی، تجرباتی اور سائنسی ذرائع علم پر بھروسہ اور یقین رکھتا ہے کہ یہی سچ ہے اور ہر اس علم اور ہدایت کو مسترد کرتا ہے جس کی انسان کے حواس تصدیق نہ کرسکیں جیسا کہ وحی۔ اسی لیے وحی اور اس سے ماخوذ قوانین اس کی نظر میں دقیانوسی، غیر عقلی اور جہالت کے دور کے پروردہ ہوتے ہیں۔

    ہمارے اس تجزیے کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ جدیدیت کے نظریے نے انسان کو جس ارفع مقام پر لا کھڑا کیا، اس کی تصدیق سائنس، منطق اور حقائق کی روشنی میں کریں کہ کیا واقعی انسان کا مرتبہ یہی ہے۔

    جدیدیت کی عقلی بنیادیں:
    اوپر درج سطور سے آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ اس فلسفے میں کس شدّ و مد سے انسانی شعور و عقل کو رہبرِاعلیٰ مانا اور ان کے فیصلوں کو سچ کا درجہ دیا جارہا ہے کہ جیسے یہی حتمی اور مستند سچّائی ہو۔ چلیے کچھ حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر کوئی فلسفہ حیات ٹھوس بنیادوں پر نہ ہو یعنی خود انسان اور اس کی عقل اور شعور کی ابتدا اور ماہیّت جانے بغیر اگر فلسفہ تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سوال ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ فلسفی کے دلائل بےشک بڑا دقیق علم لیے ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد کبھی مناسب اورمضبوط منطق سے خالی بھی ہوتی ہے۔

    فلسفی کی سواری اس کا شعور ہی تو ہے، لیکن اس شعور میں موجود فلسفی یہ کیوں نہیں جاننا چاہتا کہ: شعور کیا ہے؟ کیا وہ خود شعور ہے؟ جو کہ نہیں ہے کیونکہ وہ شعور کا حوالہ دیتا ہے، تو پھر وہ خود کہاں ہوتا ہے؟ کیا وہ ایک خیال abstract ہے جبکہ جسم اس کا لباس اور شعور اس کا ہتھیار؟ انسان شعور میں ہے یا شعور انسان میں؟ عقل کا منبع کیا ہے؟ کیا یہ یہاں سے پہلے بھی کہیں تھی؟ اگر تھی تو کہاں؟، اور نہیں تھی تو یہاں کیسے وارد ہوئی؟

    جدیدیت نے انسان کی عقل کو رہبر تو مانا لیکن دوسری طرف انسان اور کائنات کی اصل پر اسی عقل کے اُٹھائے ہوئے بےشمار سوالات کا جواب جدید افکار میں ندارد ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے فلسفوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان نہ کہیں سے آیا اور نہ ہی اسے کہیں جانا ہے بلکہ یہیں ظاہر ہوا اور اسے یہیں معدوم ہونا ہے۔

    آپ کو آگے چل کر اندازہ ہو جائے گا کہ آخر کیوں جدیدیت Modernism، مابعد جدیدیت Post-Modernism اور دوسرے نظریات، ان میں پسماندہ طبقات کے علمبردار اشتراکیت کو بھی شامل کر لیں، ہر طرح کے دعووں کے باوجود صدیوں میں بھی انسان کو فلاح نہ دے سکے۔

    اس صورتحال میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اس نظریے کی عقلی بنیاد میں کیا کوئی تضاد یا جھول ہے؟
    یہ ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا سوال ہے جس کا جواب بھی وسیع پیرائے یعنی انسان کی حقیقی صلاحیتوں اور ان کی وسعت کار میں تلاش کرنا ہوگا۔ یعنی خود انسان کی تعمیری جبلّت اور اجزائے ترکیبی کی ماہیت کا علم اس کی ذہنی اُپچ کے پیرائیوں کا اظہار کرے گا۔ تو آئیے سب سے پہلے تخلیق کے پیرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    تخلیق کے مدارج:
    انسان کی اپنی ڈیزائن کردہ تخلیق کے تکمیل پذیر ہونے کے تین مدارج ہیں؛ ارادہ، عمل اور تشکیل پذیری، جو ہمارے حواس اور عقل و قوّت کے استعمال کا حاصل ہے۔ گویا خام شکل سے تکمیل تک مراحل کے تین درجے ہوئے:
    شے کی خام شکل میں موجودگی یا اس کا قدرتی منبع، پہلا مرحلہ
    اس کی تخلیق کسی علم اور عمل سے کی گئی، دوسرا مرحلہ
    انسان کی بنائی شے وجود پذیر ہوئی، تیسرا مرحلہ
    دیگر الفاظ میں یہ تینوں مدارج کسی بھی تخلیق کے وجود کی حقیقت آشنائی کے پہلے سے دوسرے پر محیط و متّصل تین دائرے ہیں۔ انسان کی ہر تخلیق ان تینوں مدارج ارادہ (پلاننگ)، عمل اور ظہور یا تکمیل کی عقلی اور تحریری تشریح رکھتی ہے۔ وجود خواہ جاندار ہو یا بےجان حقائق کے تین دائروں میں مقیّد ہوتا ہے۔ پہلا دائرہ مادّی وجود، اس پر محیط دوسرا دائرہ تخلیقی مدارج اور اس پر محیط تیسرا دائرہ تخلیقی علم کی تمام جہتیں بشمول خالق۔ خالق تخلیقی عمل کے تیسرے وسیع تر دائرے میں مقیم ہوتا ہے خواہ کوئی کیوں نہ ہو۔ فطری آثار کی سائنسی جانچ اُلٹ یعنی معکوس سمت میں چلتی ہے یعنی تحقیق کی ابتدا شے کی موجودگی یا تخلیق کی تکمیل سے شروع ہو کر تمام تخلیقی عمل کو پرکھتے ہوئے تخلیق کی ابتدا پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے آگے کا مرحلہ خالق کی شناخت ہے۔

    اب ایک اور رخ پر توجّہ فرمائیں۔
    انسان بھی فطرت اور کائنات کا حصّہ ہے۔ انسان خود بھی موجود ہے، یہ سچائی ہے۔ کیسے پیدا ہوا اور بڑھا؟ اس کا علم سائنسی علوم سے کشیدہ سچائی ہوئی۔ اب انسان کے حوالے سے یہی عقل استفسار کرتی ہے کہ،
    انسان ظاہر ہونے سے پہلے کہاں تھا یا کیا تھا؟ اس کی خام کیا ہے؟ یہ کیوں بنا؟
    یہ منطقی اور سائنسی سوالات ہیں جن کا جواب بھی سائنس، عقل یا حواس کے بموجب تلاش کیا جائے گا کیونکہ یہ اُٹھے ہی انہی بنیادوں پر!
    مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حواس اور عقل جدید ترین سائنسی علوم کی روشنی میں انسان کے وجود کی تشریح طبعی مدارج تک ہی کر پاتے ہیں جبکہ طبعی وجود سے قبل کے مرحلے کے حوالے سے متعلق سوال ہر سائنسی و فلسفیانہ دماغ کو معطل اور زبان کو گُنگ کر دیتا ہے! آپ دیکھیں گے کہ جدیدیت، لبرل یا کوئی بھی جدید حیاتی فلسفہ بمع سائنسی علوم ان سوالات کا ایسا مکمل عقلی اور منطقی جواب دینے سے قاصر ہیں جو جدیدیت کے ممدوح انسان کو ہر طرح مطمئن کرسکے۔

    اس کا حل کیا ہے؟
    کیا ہم یہ سوال کوڑے دان میں ڈال دیں کہ انسان پیدائش سے پہلے کہاں ہوتا ہے؟ اس کی ہیئت کیا ہوتی ہے؟ اس کا شعور کہاں ہوتا ہے؟ اس میں زندگی کیوں آتی ہے؟
    جب ہر موجود شے سچ کے تین مدارج کے ساتھ انسان کے علم میں ہے یا ہو سکتی ہے تو خود انسان کیوں نہیں؟ یعنی انسان ظاہر ہونے سے پہلے خود کیا تھا؟ اس کا شعور کہاں تھا؟ زندگی کہاں سے وارد ہوئی؟ تخلیق کے ان مدارج کو جانے بغیر عقل کیسے مطمئن ہوگی اور جدیدیت کی آزاد خیالی کو منطقی جواز کیسے ملےگا؟
    اس کا جواب ہر اس نظریۂ حیات کو دینا ہوگا جو انسانیت کی رہنمائی کا دعویدار ہے۔ کیا جدیدیت یا مابعد جدیدیت اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟ نہیں!

    اس کی وجہ یہی ہے کہ ان مکاتب فکر کی ابتدا انسان کے جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد سے شروع ہوتی ہے جبکہ اس کے وجود سے پہلے کے مراحل کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی مناسب عقلی تشریح ان کے پاس نہیں۔ ان ہی محدود زاویوں اور نامکمل علم کے بموجب تمام فلاسفر زندگی کے حقائق کا تجزیہ کرتے چلے آرہے ہیں اور نت نئے نظریات پیش کرتے رہے ہیں جن پر ریاستوں نے عمل بھی کیا۔ اب تو تاریخ خود ہی گواہ بن چکی ہے کہ ہر فلسفہ ایک دور کے بعد اپنی خامیاں ظاہر کرتا ہے اور فلسفی نئے نظریات کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔

    تو پھر انسان کا مقام متعیّن کرنے کی تحقیق میں خامی کہاں ہے؟ آئیے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
    انسان اپنی تخلیق پر کنٹرول رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی اپنی تخلیق کے تینوں درجے: یعنی(1) تخلیق کا شعوری علم اور قدرت، (2) تخلیقی پراسس یا طریقوں کا اطلاق اور (3) تخلیق کی تکمیل۔ انسانی حواس کی گرفت میں رہتے ہیں اور انسان مکمل تخلیقی علم کے ساتھ اپنی ہر تخلیق کا خالق بن کر عیاں تو ہوجاتا ہے مگر دوسری طرف انسان کی بنائی کوئی بھی چیز اپنے تیاّر کنندہ کو نہیں جان سکتی۔ فلسفوں کی ناکامیوں کی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ مغربی فلسفیوں کے پاس حقیقت کے تیسرے دائرے کا علم نہیں ہے یعنی عدم کا علم کہ جہاں انسان کا خام شکل میں ہونا منطقی ہے اور کسی خالق کی شناخت بھی اتنی ہی ضروری۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسان کس طرح عدم اور خالق کو جان سکتا ہے جبکہ اس کی اپنی تخلیق اس کو نہیں پہچانتی؟

    خالق کا عرفان:
    ایک چڑیا اگر گھونسلہ بناتی ہے تو یہ اس کی تخلیق ہے۔ گھونسلہ پہلے صرف بہت سے بکھرے تنکے ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی بنائی مشین پہلے خام لوہا ہوتی ہے۔ کیا گھونسلہ یا مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا؟ یقیناً نہیں کیونکہ ان میں شعور نہیں ہے۔ گویا کوئی جاندار کسی بےجان کی تخلیق کرنے میں اپنا تخیّل تو طبعی شکل میں تخلیق میں منتقل کردیتا ہے لیکن اپنی ذات کاشعور نہیں کر پاتا، اسی لیے نہ ہی گھونسلہ اور نہ مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا۔ جب تک کوئی تخلیق کار اتنا قادر نہ ہوجائے کہ اپنی تخلیق میں اپنی ذات کی پہچان کے عناصر پیوست کردے، اس کی تخلیق اس طور پر ادھوری رہے گی کہ وہ اُسے پہچان نہ سکے گی جبکہ کمال درجے کی تخلیق اور مخلوق وہی ہوگی جس میں اپنے خالق کو پہچاننے کی جبلّت بھی ہو۔
    اگرچہ انسان مصنوعی شعور اور ذہانت بنانے کا علم حاصل کرتا جا رہا ہے، پھر بھی فی الحال کوئی انسانی تخلیق اپنے خالق (انسان) کے وجودی پیرائے نہیں جان سکتی الِّا یہ کہ انسان کسی طرح مادّے سے خود انسانی شعور کو بنا کر اپنی تخلیق میں منتقل کرسکے! ایسی صورت میں ہی انسان کی بنائی چیز انسانی شعور کی رمق لے کر شاید انسان کوجان پائے لیکن یہ واضح رہے کہ اُس صورت میں اس کی وجہ خالق (انسان) اور تخلیق کی جبلّت کی کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ہوگی۔ یعنی انسان کسی طرح اپنے علم، شعور یا وجود کے کسی گوشے کی رمق یا راز اپنی ہی تخلیق کے حوالے کرکے اسے اپنی ذات کی سمجھ کا وسیلہ دے دے توصرف اسی صورت میں انسانی ایجادات اپنے بنانے والے کی حقیقت جان پائیں گی، دوسرے لفظوں میں اپنے خالق کا عرفان حاصل کرلیں گی۔

    تخلیق اکبر:
    اب خالق کی ذات کی پہچان کے عناصر یا عنصر وہی مئوثر ہوں گے جو اس کی ذات سے ہی متعلق ہوں کیونکہ اسی طرح فطری طور پر مخلوق میں اور خالق میں ایک غیر مرئی ہم آہنگی پیدا ہوگی جس کے باوصف مخلوق کسی نہ کسی پیرائے میں خالق کو جان سکے گی۔ اب اس پہچان کے درجے کا انحصار خالق کی مرضی پر ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور تخلیقی علم اور تخلیقی عمل پر کتنی قدرت رکھتا ہے؟ اس کو اس طرح بھی سمجھیں کہ انسان کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کو نہیں جان سکتیں کیونکہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حاصل علوم کے باوصف ان کی تکمیل پر اپنے اُس علم کے کمال پر پہنچتا ہے جو طبعیات تک محدود ہیں لہذا اس کی تخلیقات زیادہ سے زیادہ طبعی پیرامیٹر تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف خود انسان کے اندر کیونکہ انسان کے خالق نے اپنی ذات کی صفات اور کچھ نادیدہ قوت ودیعت کر دی ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے خالق کو جاننے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس کے وجود اور عدم وجود کے سوالات کے ساتھ ہی ہر فلسفۂ حیات کی ابتدا پر مجبور ہوتا ہے۔ گویا انسان کے خالق نے اپنی ذات کے حوالے سے بنیادی سوال انسان کی جبلّت میں پیوست کردیے ہیں۔
    قصّہ مختصر! اگر خالق نہیں ہے تو اس سے متعلّق سوال بھی معدوم ہوتا! ہم یہ سوال کرتے ہی کیوں ہیں کہ خداہے یا نہیں، یا خدا کو کس نے بنایا؟ یہی عالیشان تخلیق کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہمارے علم کے پیرائے میں یہی تخلیق ِاکبر ہے۔ ابھی جدید سائنس کو بھی پتہ نہیں کہ خیال کیوں آتے ہیں۔ اسی لیے خدا سے انکار ہی غیرفطری ہے۔

    شعور:
    انسانی شعور کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ شعور سائنسی طور پر موجود ہے! اب اگر شعور کا موجود ہونا قابل قبول ہے تو منطقی طور پر شعور کی بھی کوئی تخلیقی سائنس یا کیمسٹری تو ہوگی، تو وہ کیا ہے؟ کیا اس کا جواب جدیدیت یا جدید سائنس کے پاس ہے؟
    درحقیقت انسانی و حیوانی شعور ایک پہیلی ہے جو جدیدیت اور الحاد کے مفکّرین و فلسفیوں کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ ان کا مسئلہ یہی ہے کہ اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ عیاں حقیقت ہے، مگر آج تک کوئی اسکالر، کوئی فلاسفر، کوئی منکر خدا، کوئی سائنسدان شعور کی ماہیت کی تشریح نہیں کرسکا، نہ بتا پایا کہ یہ جانداروں میں کہاں سے اور کیوں آیا؟
    حقیقت شعور سے لاعلمی ہی وہ کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے فکرجدید کی اڑان صرف مذکورہ دو حقیقتوں کے دائروں میں ہی محو پرواز رہتی ہے جبکہ انسانی وجود کے حوالے سے کائناتی حقیقت درج ذیل تین پرَتی دائروں میں گردش کرتی مجموعی حقیقت ہے۔
    پہلادرجہ ذیلی سچائی (مادّہ) ہے جو موجود ہے یعنی مادّی وجودیت کا دائرہ۔
    اس دائرے پر محیط ایک اور دائرہ ہے جو حواسی اور شعوری سچائی یا حقیقت یعنی طبعی علوم کائنات کا دائرہ۔
    اور اس پر محیط الوہی علم کا لا محدود دائرہ، ایک ابدی، اُلوہی یا روحی سچائی ہے جو تخلیق کا اصل عالم ہے، جہاں ایک ارادہ ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح انسان اپنی تخلیقی دنیا میں ایک طبعی خلّاقی کے دائرے میں ہوتا ہے۔
    جدید انسان دوسرے دائرے کے کنارے پر کھڑا، مگر آگے کے سامانِ سفر سے تہی دست مسافر ہے۔

    حقیقت اکبر:
    اپنے شعور کے تئیں انسان کے طبعی حواس کے لیے یہی اُلوہی عالم حقیقت اکبر ہوگا، مگر انسانی علوم کی وہاں تک نارسائی کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت علوم کے میرکارواں جدیدیت کے پیروکار اسکالر و فلاسفر ہیں۔ انسان ان کے غیرحقیقی نظریات کی وجہ سے حقیقت اکبر تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جدیدیت روح کو مسترد کرتی ہے اور شعور کی حقیقت سے بھی نابلد ہے جبکہ شعور روح سے منسلک ڈائمنشن ہے۔ یہ روح کی طرح ہمارے وجود کا غیرمرئی گوشہ ہے۔ گویا موجودہ صورتحال میں شعور کی تخلیقی جہتیں یا تخلیقی منازل کا علم ہی جدید سائنس کو حقیقت کبریٰ کی سمجھ کی طبعی قوّت دے گا۔ تو ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب تک انسان مادّے اور شعور کا تعلّق، اس کی جہتیں اور کیمسٹری نہیں جان لیتا، وہ مادّی اور طبعئی طور پر حقیقت ِاکبر کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکتا خواہ طبعی سائنسی علوم آسمان کی بلندی تک ہی نہ جا پہنچیں۔ وجہ اس کی یہی ہوگی کہ انسانی عقل الوہی علوم کے حقائق تک رسائی کے ذرائع یعنی روحی خصوصیات کی امداد سے محروم رہے گی۔

    منکرین کا مسئلہ:
    منکرین کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ علم کے اہم ذریعے یعنی وحی کو مسترد کرتے ہیں لہذٰا وہ روح اور روحانی صفات کی قوّتوں سے بےگانہ ہوجاتے ہیں جبکہ یہی واحد ذریعہ ہے جو ہر تخلیق کے منبع یعنی انسان کے خالق تک لے جاتاہے۔ یہی انکار ایک سختی سے پیوست تاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر منکر فلاسفر عقل کی سرحد پر پہنچ کر ایک ناقابل عبور دیوار پاتا ہے تو راستہ بدل بدل کر حواسی حقائق کے بھنور میں بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کا تذکرہ شروع میں کیا گیا کہ انسان ان خود ساختہ رکاوٹوں کے تئیں اس دیوار کے اندر ہی سینکڑوں سال سے مقید ہے اور فلاسفر نئے نئے فلسفے سوچ رہے ہیں کہ اس بھول بھلیّاں سے کسی طرح نکل جائیں۔ جدیدیت کی غلطی یہ ہے کہ اس نے عقل کے بموجب روح کو مسترد کیا جبکہ خود عقل بھی روحی ڈائمنشن کا جز ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذہب میں روح کا تصوّر سائنسی ہے کیونکہ شعور، لاشعور، تحت الشعور، جذبات، خیالات اور دوسرے غیر مرئی آثار جیسے خواب وغیرہ اسی سے منسلک ہیں۔ شعور بھی انسانی روح کی ایک جہت ہے جو انسان کے تخیل کے پیرائیوں کو وہ مہمیز عطا کرتی ہے کہ انسان حواسی سچّائی کا بیرئیر توڑ کر برتر تخلیقی اور روحانی علوم کی حدود میں جا پہنچتا ہے۔ اس عالم سے تعلّق انسان کو پس پردہ حقیقتیں آشکارا کرتا ہے جو اس کی روح کو آسودہ کرتا ہے۔ یہی تعلّق انسان کو اس کے ہر سوال کا جواب سمجھاتا ہے۔

    عقیدے کی فصیل:
    ہر انسان اپنی عقل کی بنیاد پر ایک عقیدے کو قبول کرتا ہے اور انسان کے خیالات اسی خود مرتّب کردہ عقیدے کی فصیل میں ہی مقید ہوجاتے ہیں۔ کسی نئے خیال کی قبولیت کا انحصار اس قلعے کی وسعت اور کُھلے دریچوں پر ہوتا ہے۔ جدیدیت اور الحاد بھی عقیدہ ہے جس کی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے. اب ظاہر ہے کہ اس کی بےثباتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ الحاد خود اپنی بنیاد یعنی عقل کی تشریح سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ اسی عقل کے اُٹھائے سوالات کے جواب بھی نہیں رکھتا۔ یہی فکر کی بھول بھلیّاں ہے جس میں جدیدیت غلطاں ہے اور حقیقت کی طرف صرف دو منازل چڑھنے کے بعد ہانپ رہی ہے۔ انسان کی قیادت جب سے انسان (فلسفی ) کے ہاتھ آئی ہے، کبھی ذرائع پیداوار اور طبقات کی بنیاد پر ڈاکٹرائن بنتے ہیں، کبھی انسانی آزادی اور بنیادی حقوق پر نظریات تشکیل پاتے ہیں، کبھی کمیونزم اور سوشلزم کے نعرے لگتے ہیں اور کبھی کچھ کبھی کچھ، اب مابعد جدیدیت نے سب درہم برہم کردیا. تو انسان جتنا نظریاتی گمراہ آج ہے پہلے کبھی نہ تھا۔

    ان گزارشات سے یہ عیاں ہوا کہ فلسفیانہ نظریات جیسے جدیدیت، مابعد جدیدیت اور الحاد وغیرہ حقیقت آشنائی کے صرف دو دائروں میں مقیّد سوچ ہیں جو انسان کو اس کی اصل بتانے سے قاصر ہیں۔ کئی سو سال میں جدیدیت کے پروردہ بڑے بڑے نامور سائنسدان، اسکالر اور فلاسفر ان ہی دو دائروں میں گھومتے اپنے نظریوں اور فلسفوں کی تشنہ کہانیاں سنا کر چلے گئے۔ آج کے اسکالرز بھی انھی غلام گردشوں میں گردش میں ہیں اور ان کے ساتھ جدید انسان بھی۔ انسانیت آج بھی نظریاتی طور پر یتیم ہی ہے۔
    اس کے مقابلے میں اسلام انسان کو فکر کے ایک کُشادہ تر ماحول کا ادراک عطا کرکے مکمل حقیقت آشنا بناتا ہے اور اس کو اس ماحول سے تعلّق کا موقع عطا کرتا ہے جہاں پر انسان کا لامحدود پیار کرنے والا خالق جلوہ افروز ہے۔ روح اس ذات باری کی ہستی کے کسی گوشے کا عکس ہوسکتی ہے جو انسان کو وہ ذرائع عطا کرتے ہیں کہ وہ ان سے اپنے خالق کو جان سکتا ہے۔ روح کا علم انسان کو کم دیا گیا ہے لیکن اتنا ضرور دیا گیا ہے کہ حقیقت اکبر کو سمجھ لے۔ اسی لیے جدیدیت کے مقابل اپنے وسیع تر افق کے ساتھ مذہب اسلام ایک عالیشان نظریہ حیات کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔ میٹا فزکس اور فزکس کا بہترین امتزاج لیے یہ مذہب ہی ہے جو انسان کی اصل کیمسٹری کو جانتا ہے اور روح کی قوّت اور اس کی صفات و پرواز کے تئیں اس حقیقت کبریٰ تک انسان کو رسائی دیتا ہے جس کی جانکاری کے لیے جدیدیت اور جدید الحادی سائنس سو سال سے زائد سے بھٹک رہی ہیں۔
    ہمیں یہاں چند لمحے رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بھی ازل اور ابد سے اپنے تعلّق سے حقیقی طور پر واقف ہیں؟ ہم یہاں کیوں آئے اور کہاں جانا ہے۔ اس سوال کا جواب ہم کو بتا دے گا کہ باطنی طور پر ہم کیا ہیں؟ جدیدیت کے پروردہ یا اپنے خالق کو جاننے والے۔

    ذرا سوچیں!
    تو دوستو، ہمیں اس سوچ کو خیرباد کہنا ہوگا کہ سائنس اور اسلام دو جدا چیزیں ہیں۔ یہ تاثر کہ سائنس برتر ہے، غلط ہے۔ جدید سائنس دراصل خالق کائنات کی برتر سائنس کی تشریح کر رہی ہے۔ کائنات کی تخلیق کو خالق کی سائنس سمجھیں، جو بہت برتر تخلیقی سائنس ہے جو کہ ہر طرح کی تخلیق میں جاری اور ساری ہے۔ انسان میں شعور، نفس، ضمیر اور عقل اس کی برتری اور پراسراریت کی مثال ہیں۔اسلام اِسی برتر سائنس کا نمائندہ ہے۔ جس دن مادّہ پرستی میں غرق اور بھٹکی ہوئی جدیدیت کو روح کی حقیقت کا سائنسی ادراک ہوجائے گا، جدیدیت اپنا رخ خود بدل لے گی۔ ہم انتظار کرتے ہیں، وہ بھی کریں۔

    امید ہے ان سطور سے قارئین کسی حد تک واقف ہو گئے ہوں گے کہ جدّت پسندی اور جدیدیت کی اصل جڑ root کیا ہے اور کتنی، فطری، منطقی اور عقلی ہے اور انسان کا اپنے آپ کو مر کزِ کائنات کہنا اس کی ذہنی اختراع ہی ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں. یہ بھی غیر عقلی ہے۔

  • خدا کو کس نے بنایا؟ ایک سائنسی رُخ – مجیب الحق حقی

    خدا کو کس نے بنایا؟ ایک سائنسی رُخ – مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی شعور کے خوگرانسان کے لیے خدا کا وجود ہمیشہ ایک معمّہ ہی رہا ہے اور ہر دور میں علم، منطق اور عقل کی روشنی میں خدا کو جاننے کی کاوشیں جاری رہی ہیں۔ آئیے! اسی عقل، منطق، علم اور سائنس کی دریافتوں کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے وجود کا پیرایہ سمجھنے سے پہلے وجود کی ماہیّت سمجھنا ضروری ہے کہ وجودیت خود کیا ہے!

    وجود کا قفس : Cage of Existence
    انسان اور اس کی عقل و شعور کا موجود ہونا بذات خود ایک عجوبہ ہے۔ انسان جب کائنات کی تخلیق کے حوالے سے خدا کے وجود پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل اس لیے معطّل ہوجاتی ہے کہ وہ وجودیت کے پیرائے کو اپنے شعور میں ایک فطری اور سختی سے پیوست تاثر کا پرتو ہی سمجھنے پر مجبور ہے۔ انسان طبعی وجودیت میں قید ہے اور اپنے محدود شعور کے باوصف وجود کے حوالے سے اسی طبعی وجودیت کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی ایسی بھول بھلیّاں ہے جس میں انسان صدیوں سے گھوم رہا ہے اور نکل نہیں پا رہا۔ جدید علوم اور نئی دریافتوں نے اس مخمصے میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت آشنائی کے لیے اب کسی اچھوتی سوچ کی ضرورت ہے جو اس طبعی وجودیت کے قفس کے قفل کو توڑدے جس میں انسانی تخیّل مقیّد ہے اور ایک عقلی اور شفّاف نقطۂ نظر سے کائنات، وجودیت اور خدا کو جانے۔ اس کے لیے سائنسی طریقہ کار اپنانا ہوگا کہ مفروضات hypothesis کا سہارا لے کر علم اورعقل کی کسوٹی پر ان کو پرکھاجائے۔ آئیں ہم غور کرتے ہیں کہ کیا وجودیت اور زندگی خود بھی مخلوق ہیں؟

    زندگی کی ساخت: Fabric of Life
    وجود زندگی سے ہے اور زندگی کی ساخت ایٹم اور خلیے سے ہے۔ایک نکتہ یہ بھی مدّنظر رہے کہ ہر عنصر کی اکائی ( ایٹم) ایک پس پردہ فطرت اور جبلّت کی خوگر ہوتی ہے۔آکسیجن اگر آگ جلاتی ہے تو کاربن اسے بجھاتی ہے۔ یہ ان کی جبلّت ہے۔ سائنس اسے خاصیّت یا property کہتی ہے۔ کسی بھی عنصر کی کارکردگی اس کی جبلّت کے طابع اور متعیّن حدود میں ہی ہوگی۔ منطقی طور پر کسی بھی زندگی کی حواسی اور شعوری صلاحیّت اس کو پروان چڑھانے والے بنیادی عوامل کی جبلّت کے رنگ میں ہی عیاں ہوگی۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اگر زندگی فوٹون سے ابھرتی ہے تو کیونکہ فوٹون غیرمرئی ہے اور اس کی جبلّت بے قراری ہے یعنی یہ ایک سیماب صفت اکائی ہے جو بہت رفتار سے چلتی ہے تو اس سے متعلق زندگی بھی غیرمرئی اور برق سے زیادہ تیز رفتار ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عناصر اور کائناتی قوتوں کی اکائیاں بھی اپنی جدا خاصیّتوں کے ساتھ موجود ہیں۔

    خلوی زندگی:Cellular Life
    سائنسی دریافتیں بتاتی ہیں کہ وجود میں آنے کے بعد کائنات رفتہ رفتہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، پھر ایک وقت میں زمین پر حالات ایسے سازگار ہوئے کہ پانی میں ایٹم سے بنے خلیے سے زندگی پھوٹ پڑی جس میں طویل ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بقول سائنسداں انسان اپنے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔
    سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟
    زندگی ایک فعّال اور بے چین معمّہ یا “چیز” ہے جو اپنے آپ کو خاص ماحول میں عیاں کرنے کی جبلّت رکھتی ہے۔ زندگی ایک آزاد اور کھلا راز ہے جو ہر طرح کے ماحول میں ابھرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر مرئی سچّائی اور وقوعہ Phenomenon ہے جو موجود ہے۔
    سائنس کے مطابق کائنات ایٹم سے بنی اور زندگی خَلیے cell میں شعور کا نام ہے۔
    تو پھر شعور کیا ہے؟
    شعور احساس زندگی ہے مگر سائنس کے مطابق شعور زندگی کی پہیلی کا ایک حصہ اور غیر حل شدہ عُقدہ ہے۔
    اب سوال اٹھتے ہیں کہ:
    کیا حیات صرف خلیات ہی میں محصور ہے؟
    کیا حیات صرف اور صرف پانی سے ہی ابھر سکتی ہے؟

    اجنبی حرارتی اورمقناطیسی زندگی: Alien Thermal & Magnetic Life
    اب ایک دوسرا رخ بھی دیکھے۔ سائنس کے نظریے کے مطابق کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی۔ اس نظریے کا سادہ سا تجزیہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی وقت میں نہ صرف توانائی اور قوّتیں موجود تھیں بلکہ ہر طرح کے مادّے، اجرام فلکی اور ہر طرح کی حیات اور فطری قوانین بھی آپس میں ضم تھے۔ شروع میں ہر طرف آگ تھی جو ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اورجوں جوں کائنات پھیلی تو رفتہ رفتہ تمام چیزیں عیاں ہوتی گئیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران زندگی کی سچّائی بھی ایک غیرمرئی صورت میں موجود رہی ہوگی اور مختلف ادوار میں قدرتاً مختلف صورتوں میں عیاں ہوئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ جس طرح عناصر خلیات بناتے ہیں اسی طرح کچھ مخصوص پارٹیکل یا قوّتیں مل کر ایسی چیز بناتے ہوں جس میں ایک بالکل جدا پیرائے کی حیات اور شعور ابھرتے یا ظاہر ہوتے ہوں! پانی سے پہلے کیا زندگی توانائی، قوّت اور حرارت کے پیرائے جیسے روشنی یا ثقل سے پیدا ہوکر کسی اجنبی شعور کے ساتھ ارتقاء پذیر نہ ہوئی ہوگی؟ ہم کس منطق یا علم کے تحت ایسی حیات کو مسترد کریں گے جو شاید کائنات کے کسی گوشے میں موجود بھی ہو۔

    سوال یہ ہے کہ: ایسا کیوں نہیں ہوا ہوگا؟
    کیونکہ زندگی موجودہ دور میں بھی زمین پر آتش فشانی ماحول میں ایک اچھوتے پیرائے میں خود کو ظاہر کر رہی ہے لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں خود کو آتشی ماحول میں عیاں کرنے کی قوّت ہمیشہ سے موجود ہے۔ ہماری زمین پر ہی سمندر کی گہرائی میں آتش فشانی وینٹ میں حالیہ دریافت شدہ ٹیوب وارم جو سورج کی روشنی کے بغیر زندہ ہیں اور توانائی حاصل کرنے کے لیے کیمیکل پر انحصار کرتے ہیں، ایک عجوبہ ہیں۔ یہ شعاع ِ ترکیبی photosynthesis کے بجائے کیمیا ترکیبی Chemosynthesis سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گو کہ دونوں طریقوں میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی استعمال ہوتے ہیں لیکن کیمیا ترکیبی میں آکسیجن کے بجائے سلفر خارج ہوتی ہے۔
    Instead of photosynthesis, vent ecosystems derive their energy from chemicals in a process called “chemosynthesis.” Both methods involve an energy source (1), carbon dioxide (2), and water to produce sugars (3). Photosynthesis gives off oxygen gas as a byproduct, while chemosynthesis produces sulfur.
    http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2001/ast13apr_1/
    اس سے ہمارے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات میں حرارت اور روشنی سے مختلف حیات کاعیاں ہونا بعید از قیاس نہیں کیونکہ اِس وقت زمین پر معتدل حالات میں بھی مذکورہ بالا زندگی کاایک نئی طرز میں ظاہر ہونا زندگی کی اپنی طاقتور اور ہمہ جہت جبلّت اور وصف کا مظہر ہے۔ یعنی زندگی کا وقوعہ of Life Phenomenon مختلف ماحولیات میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔ گویا یہ کثیر الجہت dimensional Multi ہے۔ ایک منطقی بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر زندگی کی جہتیں ایک سے زیادہ ہوں گی تو وجود کی ماہیّت بھی مختلف ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی آفرینش کے جبلّی پیرائے غیرطبعی اور عام انسانی حواس سے ماورا ہوں گے لہذا اس بنیاد پر پیدا ہونے والی زندگی بھی اپنے وجود کے حوالے سے انسان کے لیے نہ صرف غیرمرئی ہوگی بلکہ انسانی حواس سے ماورا ہوگی جیسے ثقل، مقناطیس، روشنی سے منسلک زندگی نامعلوم پیرائیوں میں موجود ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے اپنے وجودی پیرائے میں زندہ ہوں گی اور اپنے اپنے شعوری اور عقلی دائرے میں علمی ارتقاء کی طرف گامزن بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی انسان ہی اپنے علم کے تئیں کائناتی زندگی کی ابتدا کو پانی تک محدود سمجھتا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔

    مشترک اور مختلف جبلّت : Common & Diverse Intrinsic
    ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ زندگی کے لیے مانوس ماحول ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پیدا ہوا تو اور دوسرے عناصر کے ملاپ سے کیوں نہ پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دو عناصر ایک ایسی چیز بناتے ہیں جس کی جبلّت سے زندگی کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت مانوس یا ہم آہنگ Compatable ہے جس کی وجہ سے حیوانی زندگی پانی میں نمودار ہوئی۔ ہم اس لیے اس زندگی کو بآسانی پہچانتے ہیں کہ زندگی اور ہمارے ذہن و دماغ ایک ہی مشترک خلوی منبع cellular origin سے ابھری ہیں اور یہ فطری اور جبلّی طور پر آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ اسی طرح جب تخلیقی جبلّت مختلف ہوگی تو کسی غیر عنصر یا توانائی وحرارت سے متعلّق زندگی کا ادراک جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ذہن اور حواس سے ماوراء ہوگا اور وہ ہمارے لیے معدوم اور “بے وجود ” ہی رہے گی۔ اس کا منطقی اور اصولی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر نامعلوم پیرائے کی زندگی ہمارے لیے طبعی طور پر معدوم رہے گی۔

    شعورکی قسمیں : Forms of Conciousness
    اسی کرۂ ارض پر خلیات پر مبنی حیات جانور، پرند، حشرات الارض، درختوں اور پھولوں کی شکل میں بھی موجود ہے جو شعور کے حامل ہیں اور جوڑے pairs بھی رکھتے ہیں، گویا خلوی حیات کے کئی متوازی نظام ہمارے سامنے رواں دواں ہیں مگر اس کے باوجود ابھی انسان ان کے شعور اور آپس کے روابط کی حقیقت نہیں جان پایا جس سے انسان کی کم علمی بھی عیاں ہے۔ ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور کی لا تعداد قسمیں ہمارے سامنے ہیں تو غیر خلوی حیات اور اس سے منسلک شعور اور وجود بعید از قیاس کیسے ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے انسان کیوں کسی اجنبی پیرائے کی حیات کی تصدیق نہیں کر پاتا؟

    وجود کا دائمی ذہنی ادراک: Constant Mental Perception of Existense
    اگر زندگی کسی توانائی مثلاً فوٹون Photon سے آشکارا یا نمودار ہو تو کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ:
    اس کے شعور کے پیرامیٹر کیا ہوں گے؟
    اس کے حواس کس طرز کے ہوں گے؟
    اس کی قوتوں کے پیرائے کیا ہوں گے؟
    اُس طرزِحیات کے ارتقاء کے مراحل کیسے ہوں گے اور اس کی عقل اگر ہوئی تواس کی ماہیّت کیا ہوگی؟

    یقینا ہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کے حوالے سے ہمارے تصوّر اور تخیّل کے پیرائے ہماری اساس یعنی خلوی حیات cellular life سے نتھی یا منسلک ہیں، ہمارے ذہن میں وجود کا متعیّن ادراک فطری طور پر طبعی ہے۔ ہم کبھی بھی کسی اجنبی وجودیت یا اجنبی زندگی کے حقیقی پیرائے Alien Life Parameters کو اپنے تخیّل کے فطری خلوی پیرائے Cellular Thought Parameters Natural میں رہتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ یہ آپس میں مانوس اور ہم آہنگ compatible نہیں ہیں۔ اسی اساسی خلوی جبلّت کے پرتو ہمارے ذہن میں وجودیت ایک خاص طبعی پیرائے میں اس سختی سے ثبت ہے کہ یہ ادراک perception اب ایک جنّیاتی ورثے Genetic Heritage کی طرح ہر خاص و عام کا مستقل ذہنی وصف بن چکا ہے۔ تمام انسان بشمول اسکالر اور سائنسداں اپنے اطراف کے پُراثر طبعی ماحول کے پیدائشی اور مستقل اسیر ہوتے ہیں اور وجود اور عمل سے منسلک خیالات اور احساسات بھی خلوی شعور کے زیر اثر ایک خاص طبعی تاثر کے آفاقی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے لیے کسی اجنبی پیرائے میں زندگی کا وجود ذہناً ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔ اپنے شعور اور عقل کے با وصف ہم یہ نتیجہ تو اخذ کرسکتے ہیں کہ زندگی مختلف نہج Dimensions میں ظاہر ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے لیکن جبلّی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کیونکہ ہم اپنے تجربات، عقل اور علم کی روشنی میں کسی غیر خلوی حیات کی نمو پذیری کی تصدیق نہیں کر پاتے، اسی لیے ہم اس کو اپنی عقل کے پرتو مسترد کرتے رہے ہیں۔

    خلوی شعور کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ آگ سے ابھرنے والی زندگی اور اس کے شعوری پیرائے آتشی ہی ہوں گے، اسی طرح برقی جبلّت سے آشکارا یا نموپذیر زندگی کا شعور بھی برقی شعور ہی کہلائےگا کیونکہ اس کی اساس برقی ہوگی جبکہ روشنی کے پیرامیٹر کی زندگی کا شعور شُعاعی ہوگا۔ ایسی کسی حیات یا وجود کی طبعی یا سائنسی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں بلکہ ان کی قبولیت ایمانیات اور عقائد کے زیر اثر ہی ہو سکتی ہے۔

    وجودیت کے پیرائے : Parameters of Existence
    اس بحث سے صرف یہ اخذ کرنا تھا کہ ہم جسے وجود کہتے ہیں، وہ ایک مخصوص احساس یا تاثر ہے جو ہمیں کسی ایسی ہستی یا چیز کا ادراک دیتا ہے جس کا تعلّق کسی یکساں، مختلف یا منفردحیات سے ہوسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کائنات میں موجود مختلف عناصر اور توانائیوں میں حیات کے ابھرنے کے مواقع منطقی بنیاد پر دور از کار نہیں۔ گویا وجود مختلف دائروں میں مختلف جہتوں میں جلوہ گر ہو سکتا ہے۔ اس طرح وجود کے ایک دائرے میں رہائش پذیر حیات دوسرے دائرے کی حیات سے جدا خصوصیت کی حامل ہوگی۔ ان کا آپس میں ربط ان کے بنیادی اجزاء کی باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہوگا۔

    ہم نے ابھی یہ سمجھا کہ موجود ہونے کے بہت سے پیرائے یا رنگ ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف دائروں میں عیاں ہو سکتے ہیں۔ کائنات اور خود انسانی تمدّن میں جاری نظم ایک آفاقی حقیقت ہے، اس کے بموجب یہ قیاس کرنا منطقی ہوگا کہ وجود یا موجود ہونے کے کائناتی نظام پر حاوی کوئی نظام ہوسکتا ہے جو وجودیت کو مختلف پیرائے اور رنگ دینے کی صلاحیّت رکھتا ہو ورنہ مختلف طبعئی حیات کا ہونا غیر حقیقی ہو جائے گا۔ اب اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ حیات یانظم یا قوّت، جس نے وجود کے دائرے تخلیق کیے، وہ یقیناً تمام موجود کائناتی حیات سے انتہائی جدا اور برتر ہوگی۔ اسی نے انسان کو ایک ذہنی قید خانے محصور کر رکھا ہے۔

    جب ہم ایک وائرلیس ریموٹ کے ذریعے بہت دور سے کسی مشین کو کنٹرول کرتے ہیں تو بظاہر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت وہ مشین ایک نہ نظر آنے والے نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک لا علم کے لیے یہ ایک عجوبہ یا Baffle ہوگا جبکہ جاننے والوں کے لیے یہ ایک مربوط نظام ہے۔ بالکل اسی طرح انسان اطراف میں مخفی نظام ہائے کائنات کی ہیئت سمجھنے میں مشغول تو ہے لیکن مکمّل نظم System کو ابھی تک سمجھنے سے قاصر اور حقیقی کائناتی نظام سے بہت حد تک لاعلم ایک مخلوق ہے۔ مختصراً، اگر کائنات ایک تخلیق ہے تو اس میں موجود زندگی بھی ایک تخلیق ہی ہے اور انسان کے شعور کے بموجب وجودیت بھی ایک غیرمرئی مخلوق ہوئی الّا یہ کہ جدید علوم عملی طور پر Practically یہ ثابت کردیں کہ عدم سے وجود یا نیست سے ہست things from nothing خود بخود کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اچانک کائناتی تخلیق spontaneous creation میں زندگی اور شعور کا عیاں ہونا بھی ایک ناقابل تشریح عجوبہ ہی ہے۔

    وجود خدا کی حقیقت: Reality of Existence of God
    وجود ایک ذہنی تاثر ہے جس کی وجہ سے ہم موجود ہونے کو ہی وجود گردانتے ہیں کیونکہ ہماری نموپذیری شعور کے احساس وجود میں ہوتی ہے۔ خدا ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ نظام تخلیق کردیا جس میں موجود ہونے کا شعور ہی زندگی کہلایا۔ ہمارا خلوی شعور وجود کا ایک فطری طبعی تاثر ہمارے ذہن میں تخلیق کیے رہتا ہے۔ انسان خدا کو سمجھنے کی کوشش وجود اور عدم وجود یا حاضر اور غائب کے اُنھی طبعی پیرایوں میں کرتا ہے جو خلوی شعور کے بموجب مستقل فطری تاثر بن چکے ہیں۔ یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا؟ تجسّس میں اسی فطری تاثر سے اٹھتا ہے اور انسان خدا کو بھی اپنی طرح کی زندگی اور وجود کا خوگر سمجھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہے جو کہ خداکے حوالے سے ایک غیر حقیقی تصوّر illusion ہے۔ خدا یقیناً ایک زندہ ہستی ہے لیکن اس ہستی کا پیرایہ کیا ہوگا اُس کو انسان اپنی عقل کی خلوی ساخت Cellular Based Wisdom کی وجہ سے سمجھنے کا مکلّف ہی نہیں ہے۔

    دیکھیے بجلی یا برق Electric کی ساخت کی بھی ایک جبلّت ہے جس کو قابو کر کے انسان نے کمپیوٹر اور روبوٹ بنا کر ان کو مصنوعی زندگی اور مصنوعی عقل دی۔ جس طرح انسان کے تخلیق کردہ الیکٹرانک ماحول میں مقیّد کوئی سپر روبوٹ بھی اپنی برقی Electronic جبلّت کی محدودیت اور نامانوس جبلّی ساخت کی وجہ سے خلوی زندگی Cellular life کے پیرائے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اس کی رمق تک بھی نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح انسان خدا کو طبعی اور خلوی پیرایوں میں مقیّد رہ کرشاید کبھی نہ سمجھ پائے۔ ریڈار ایک مصنوعی “حواس” کا خوگر نظام ہے کہ اس سے خارج ہونے والے سگنل کسی جسم سے ٹکرا کر اس کا الیکٹرونک تاثر لے کر واپس آتے ہیں اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اسٹیلتھ تکنیک Stealth Technology اس کو غیر مئوثر کردیتی ہے۔ یعنی اگر چار جہاز اُڑتے آرہے ہیں اور ان میں ایک اسٹیلتھ ساخت کا ہے تو ریڈار صرف تین جہاز دکھائے گا۔ اسٹیلتھ نظام سے آراستہ کوئی جسم اس کو نظر نہیں آئے گا۔ گویا جہاز، ایک ٹھوس جسم کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے لیکن ایک مقیّد ماحول یعنی ریڈار کے کنٹرول روم، یعنی کسی خاص پیرائے میں موجود سے معدوم ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال انسان کے حواس اور تخیّلات کے بموجب خدا کے وجود کی ہے کہ انسان سب کچھ دیکھ سکتا لیکن خدا کو نہیں کیونکہ کائنات کا ماحول اسی ریڈار کے کنٹرول روم کی طرح ہے جس میں انسان اپنے حواس کے طابع ہر چیز کا شعور حاصل کرسکتا ہے جبکہ خدا کسی نامعلوم اسٹیلتھ جیسے پیرائے میں رہ کر ہر چیز پر حاوی ہے۔ اگر خدا اس طبعی ماحول سے کسی ایسے پیرائے میں بھی منسلک ہوتا جس کا فی الوقت انسان کو علم ہے توانسان اب تک خدا کے وجود کا پیرایہ جاننے کی طرف پیش قدمی کر چکا ہوتا۔ در حقیقت میٹافزکس جوں جوں فزکس میں ضم ہوتی رہے گی، خدا کو سائنسی طور پر قبول کرنے کے مواقع اتنے ہی بڑھیں گے۔

    منکرین کے مخمصے : Confusion of Nonbeleivers
    الحاد دراصل کائنات اور وجود کی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں سوچتے ہوئے انسانی ذہن کا مخمصہ ہے اور بس! کیونکہ کوئی بھی بڑے سے بڑا منکرخدا خواہ وہ کوئی عظیم اسکالر یاسائنسدان ہی کیوں نہ ہو، آج بھی کائنات اور زندگی کے عجوبے کی تشریح خدا کو خارج کر کے نہیں کرسکا۔ ان کے پاس نہ زندگی اور شعور کی سائنسی وضاحت ہے اور نہ ہی انسانی جذبات و خیالات کے اجراء کی توضیح ہے۔ علم، عقل اور منطق کے سہارے سائنسی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے جہاں بےبس ہوجاتے ہیں تو کچھ اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایک حیران کن مسٹری ہے جس کا پتہ کبھی چل جائے گا۔ سائنس کی محدودیت اس بات سے ہی عیاں ہے کہ یہ صرف ان سوالات کا جواب دیتی ہے جو کیا اور کیسے سے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے انتہائی ضروری ‘کیوں’ سے شروع ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ لفظ کیوں اس کی لغت سے ہی خارج ہے۔
    سائنس آج بھی جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی ان میں سے چند یہ ہیں۔
    کائنات عدم سے خود بخود کیسے ظاہر ہوئی؟ کائنات کیوں بنی؟
    بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کائنات میں ہر جگہ ایک نظم کیسے ہے؟ اور کیوں ہے؟
    زمین کے ہر گوشے میں پیدا ہونے والی زندگی اپنے گروپ میں یکساں اور آفاقی جبلّت کیوں رکھتی ہے؟
    بےپایاں علوم بھی کیا بگ بینگ سے قبل موجود تھے؟ ان کا منبع کیا ہے؟
    زندگی کیا ہے اور کیوں ہے؟ شعور کیا ہے اور کیوں ہے؟
    اچھے برے خیالات کا اجراء کہاں سے اور کیوں ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
    جدید علوم خدا کا متبادل پیش کرنے میں کھلے ناکام ہیں اسی لیے ہراسکالر، فلاسفر اور ہر دہریہ کسی بھی مباحثے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ملے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اپنی محدودیت کی وجہ سے انسان کی صرف خادم بن سکتی ہے رہنمانہیں۔

    ان گزارشات سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خدا کے ناقد عقلی، منطقی اور سائنسی طور پر کسی حد تک یہ جان چکے ہوں گے کہ موجودہ فزیکل پیرایوں میں یہ سوال کہ خدا کو کس نے بنایا، غیر متعلّق Irrelevant ہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے جو سوالات ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
    انسان کیوں ہے؟ کیسے بنا ؟ کس نے بنایا؟
    ذرا سوچیے!
    (خدائی سرگوشیاں سے ماخوذ)