Tag: شراب

  • شاخِ نازک پہ آشیاں – رضوان اسد خان

    شاخِ نازک پہ آشیاں – رضوان اسد خان

    اسلام آباد، جہاں غالباً سوائے اسلام کے سب کچھ آباد ہے، کے لبرل والدین کو اپنی بچیوں کی چائے والے کے ساتھ سیلفیاں دیکھنے، سراہنے اور ان پر اترانے سے فرصت ملے تو کچھ اپنی اولاد کے سکولوں، کالجوں کی بھی خبر لیں جہاں سے انہیں بدکاری کا ایندھن مہیا کیا جا رہا ہے.

    جی ہاں، ہمارے ہاں “جہاز” اب صرف چائنہ کے تعاون سے فیکٹریوں میں ہی نہیں بلکہ بھارتی را اور امریکی بلیک واٹر کے تعاون سے دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں بھی تیار کئیے جا رہے ہیں.
    نہیں سمجھے؟
    جناب، جن سکولوں میں آپ مولویوں کو گالیاں دینے کی تربیت دیکر، مذہب کو افیون بتلاتے تھے، ذرا قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ انہی سکولوں کے 53 فیصد بچے خود افیمچی بن گئے ہیں.

    کیا فرمایا؟ ایسا کچھ نہیں کہا جاتا وہاں؟ ابھی چند ماہ قبل ہی تو اسی اسلام آباد کے سکول کے ایک استاد کا کلپ وائرل ہوا ہے جس میں وہ جنت، خدا اور مولوی کا مذاق اڑاتا نظر آ رہا ہے.

    ”جہالت“ کی نرسریاں مدرسے نہیں محترم، بلکہ “جاہلیت” کی نرسریاں یہ سیکولر سکولز ہیں جہاں:
    میوزک کلاسز نصاب کا لازمی جزو ہیں،
    مغربی گویوں، بھانڈ میراثیوں کو بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے(آنکھوں دیکھا حال)،
    پاڑٹیز میں شرفاء کی بیٹیاں مجرے کرتی ہیں،
    بچے باپ کے پستول سے دوسرے بچوں کا قتل کرتے ہیں،
    استادوں، ساتھیوں اور حتی کہ کینٹین تک سے منشیات لیکر سوٹے لگاتے ہیں،
    گروپ سیکس سے کم پر بات نہیں ہوتی،
    ہم جنس پرستی کو ”نارمل بی ہیوئیر“ سمجھا جاتا ہے،
    اور پھر مغربی فلسفے اور تہذیب سے متاثر آخر میں پوری ایک کھیپ ”ابو جہلوں“ کی معاشرے میں برامد کر دی جاتی ہے.

    اور اب یہ جاہلیت کے سرخیل،
    پارلیمنٹ، عدالتوں، بیوروکریسی، میڈیا، صحافت، شعبہ تدریس وغیرہ میں اعلی عہدوں پر پہنچ کر مغربی آقاؤں سے وفاداری کا عہد نبھاتے ہیں،
    عوام کی قسمت کے فیصلے دشمن کی پالیسیز، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے مطابق کرتے ہیں،
    اپنی نجی محفلوں میں شراب و کباب، حسن و جمال اور رقص و سرود کا بندوبست کرنا فخر سمجھتے ہیں،
    بیگمات کو بطور رشوت پیش کرنے کو عار اور بے غیرتی نہیں، ”ٹیکٹ“ سمجھتے ہیں،
    سود کے حق میں غامدیت کے فتوے جمع کرتے ہیں،
    شراب پر پابندی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں،
    بچوں کی شادیوں کو بزنس اور زنا کو قابلیت سمجھتے ہیں
    اور پھر کہتے ہیں یہ لبرل، سیکولر معاشرے کا حسن ہے کہ انسان Pursuit of Happiness میں آزاد ہو….!!!

  • شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

    شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب سندھ ہائیکورٹ نے شراب پر پابندی کا جب حکم دیا تو میں کمرہ عدالت میں موجود تھا، فیصلہ سن کر کانوں کو یقین نہ آیا، لیکن بار بار غور سے سننے اور عدالت میں موجود کچھ سرکاری و غیر سرکاری قانون دانوں اور صحافیوں سے دریافت کیا کہ جو میں نے سنا، کیا وہ ہی عدالتی حکم ہے، جواب ہاں میں ملا تو یقین آیا۔

    مملکت خداد پاکستان میں شراب نوشی اور شراب خانوں سے شراب کی کھلی عام فروخت سے متعلق تین درخواستیں سندھ ہائیکورٹ میں کافی دنوں سے زیر سماعت تھیں۔ یقین اس لیے نہیں آ رہا تھا کیونکہ ایک سماعت کے دوران درخواست گزار کی استدعا تھی کہ مسجد مدرسہ اور اسکول کے قریب مسلم آبادی میں شراب خانہ موجود ہے، اسے بند کروایا جائے تو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اس وکیل سے دریافت کر رہے تھے کہ قانون بتائیں کہ کس قانون کے تحت لائسنس شدہ شراب خانہ بند کرنے کا حکم دیاجائے۔ عدالت نے پولیس سے رپورٹ طلب کی، امن عامہ کے مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا ذکر بھی کیا لیکن سمجھ نہیں آرہاتھا کہ لائسنس شدہ شراب خانہ بند کیسے کیا جائے۔ یہ اس لیے بھی مشکل ہو رہا تھا کہ فریق مخالف یعنی شراب خانے کے مالک کی وکالت کر رہے تھے ملک کے چوٹی کے وکیل جناب فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ، جن کا اصرار تھا کہ شراب خانے کا لائسنس 1997ء میں جاری ہوا اور قانونی شراب کی فروخت کو روکا نہیں جاسکتا۔

    یہ معاملہ تھا کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں قائم ایک شراب خانے کا، عدالت نے اس سے رپورٹ منگوائی، قانون کی تلاش شروع کی، وکیلوں سے معاونت کا کہا، ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے شراب خانے کے خلاف درخواست آئی تو معاملہ ایک اور رخ اختیار کرگیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی ایکسائیز کو طلب کیا اور دریافت کیا کہ سندھ بھر میں کتنے شراب خانوں کو لائسنس جاری کئے گئے، اور لائسنس کے اجراء کا طریق کار کیا ہے؟ ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے ضلع جنوبی میں بسنے والی اقلیتی برادری کی آبادی کا ریکارڈ بھی طلب کیا، اور سماعت کے لیے 18 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی۔ مقررہ تاریخ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کی گئی۔ ڈی جی ایکسائز نے کراچی کے علاقے ڈیفنس، کلفٹن میں موجود گیارہ شراب کی دکانوں کی خرید و فروخت اور اسٹاک کی تفصیلات پیش کیں اور ہم عدالت میں موجود چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھتے رہے، اچانک چیف جسٹس نے حدود آرڈیننس 1979ء کا سیکشن 17 نکالا اور ڈی جی ایکسائز سے استفسار کیا کہ قانون پڑھ کر بتائیں کہ شراب خانے کے لائسنس کا اجرا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ چیف صاحب بولے کہ کیا کسی شراب کی دکان کے لائسنس کے اجراء سے پہلے کسی پنڈت یا کسی بشپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے کس مذہبی تہوار کے لیے شراب کتنی اور کب درکار ہے۔ دکھائیں ہے کوئی دستاویز۔ چیف جسٹس کا یہ کہناتھا کہ ڈی جی ایکسائز جناب شعیب صدیقی ہکا بکا رہ گئے اور بولے جناب یہ تو پریکٹس ہی نہیں، ان سے پوچھنے کا کوئی پروسیس نہیں۔ چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور وہ یمارکس دیے جو سن کر میں خود دم بخود رہ گیا۔

    چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ حدود آرڈیننس 1979ء کے سیکشن 17 کے تحت اقلیت کو بھی صرف ان کے مذہبی تہوار پر شراب کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ چیف صاحب بولے جا رہے تھے اور میں نوٹ کرتا جا رہا تھا. چیف صاحب نے پوچھا کہ شراب کی دکانیں سال کے 365 دن کس قانون کے تحت کھلی رہتی ہیں؟ پنڈتوں اور بشپ کو بھی بلا کر پوچھیں گے کہ ان کا مذہب کب اور کن تہواروں میں شراب کی اجازت دیتاہے؟ ایسے میں شراب خانوں کے مالکان کی وکالت کے لیے موجود وکلاء نے جب کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں جھاڑ پلادی، اور بولے کہ بومبے (بمئی) کا قانون یہاں نہیں چل سکتا۔ ڈی جی ایکسائز بولے کہ 1979ء سے پہلے ایسے ہی لائسنس جاری ہوتے تھے۔ چیف صاحب نے کہا کہ 1979ء کے بعد کیسے ہوسکتے تھے؟ یہ سب غیر قانونی ہیں۔ وکلاء پھر بولے کہ ہمارے مؤکل کا کاروبار ہے، لائسنس کی فیس دی ہے، ہمیں سناجائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ شراب بیچنے اور پلانے کے لیے پوری سہولت دی گئی ہے، لائسنس فیس بھی معمولی رکھی گئی ہے تاکہ شراب عام ہوسکے۔ اسمبلیاں موجود ہیں، اگر شراب عام ہی کرنی ہے تو اسمبلیاں قانون بنا دیں، پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ قانون کیسے بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا کہ جو وکلاء شراب خانوں کی وکالت کے لیے آئے، آئندہ قرآن و حدیث پڑھ کر آئیں۔ قرآن میں شراب پینے کو ممنوع اور حدیث میں شراب پینے پلانے اور اس کی راہ ہموار کرنے والے مسلمانوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 120 شراب خانے اور صرف ضلع جنوبی مں 24 شراب خانوں کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ الیکشنں کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ضلع جنوبی کراچی میں اقلیتوں کی آبادی بیس ہزار ہے۔ ضلع جنوبی میں جتنی دکانیں اور شراب کی خرید و فروخت بتائی گئی، بیس ہزار اقلیتی شہری اگر شراب سے نہا بھی لیں، تب بھی ختم نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا محض نام استعمال کیا جاتاہے، اصل کہانی اور ہی ہے۔ بےچارے ہندو اور عیسائی اتنی مہنگی شراب افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ اقلیتوں کو بدنام نہ کیا جائے۔ پنڈتوں اور بشپ کو بلا کر بھی پوچھا جائےگا کہ ان کی مقدس کتابیں کیا سارا سال شراب پینے کی اجازت دیتی ہیں۔ قانون کے مطابق اقلیتوں کو ہولی، دیوالی اور کرسمس یا کسی اور مذہبی تہوار سے صرف پانچ دن پہلے شراب کی فراہمی کے لیے میکینزم بنایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ سندھ بھر مں شراب خانوں کے لائسنس واپس لے کر آج ہی ان کی فہرست جاری کی جائے۔ آئی جی سندھ کو حکم دیا گیا کہ فوری طور پر تمام شراب خانوں کو بند کر دیا جائے۔عدالت نے ڈی جی ایکسائز کو حکم دیا کہ اقلیتی برادری کے مذہبی پشواؤ ں سے دریافت کیا جائے کہ کن کن مذہبی تہواروں پر اقلیتوں کے لیے کتنی شراب کی ضرورت ہے۔ عدالت نے حکومت سندھ، آئی جی سندھ اور ڈی جی ایکسائز سے عملدرآمد کے بعد جواب بھی طلب کرلیا۔

    یہاں سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سالہا سال غیر قانونی شراب خانے کھولے جاتے رہے، اقلیتوں کے نام پر مسلم آبادی میں شراب کا کاروبار چمکتا اور پروان چڑھتا رہا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسی نے سوچا نہ نوٹس لیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی کوئی قانونی، اخلاقی یا مذہبی گنجائش ہے بھی کہ نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ جو پارلیمان قانون سازی کرتی ہے، اس کے قانون کی عملداری کو جانچنے کا بھی کوئی مکینزم ہے کہ نہیں؟ سوال اسمبلیوں میں بیٹھے ان منتخب قانون سازوں سے بھی بنتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں اور آپ آنکھ موندے رہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اقلیت کے نام پر شراب سے استفادہ مسلمان اٹھاتے رہے اور حکومتیں اس کے لیے سہولت کاری کا باعث بنتی رہیں۔

    اگر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ حدود آرڈیننس اور شراب خانوں کے اجراء کے لیے سیکشن سترہ سامنے نہ لاتے تو شراب ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جاتی، جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ کہتے ہیں کہ شراب پی کر انسان دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوجاتاہے تو کیا مملکت خداداد پاکستان کے کرتا دھرتا سارے ہی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی نشے میں دھت اپنی بدمست زندگی کو عیش وعشرت کے ساتھ گزارنے کے لیے پورے معاشرے کو بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔

    مجھ سمیت یقینا ہر حساس پاکستانی کے دل میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کے اس حکم کے بعد شراب کی دکانیں بند ہوجائیں گی؟ کیا اقلیت کے نام پر شراب جیسے حرام نشے کی لعنت سے ہم اپنے معاشرے کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ کیا واقعی عدالتی احکامات کے باوجود آئندہ پھر شراب کی دکانیں کسی قانون یا قانون ساز کے سہارے کھول دی جائیں گی؟ جب ہندوستان میں ریاستیں شراب پر پابندی لگا رہی ہیں، حال ہی میں بہار میں پابندی زیر بحث رہی ہے تو یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کو اس کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا 1979ء سے اب تک جاری کیے گئے شراب خانوں کے لائسنس جاری کرنے والوں اور قانون کو پاؤں تلے روندنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا؟ یا یہ عدالتی حکم کسی اور عدالت سے جاری کسی حکم امتناع کی نذر ہوجائے گا۔ آنے والے دنوں میں یہ سب واضح‌ ہو جائے گا۔

    (سید جواد شعیب جیونیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

  • اِدھر یا اُدھر-جاوید چوہدری

    اِدھر یا اُدھر-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
    امریکا میں 1783ء میں انقلاب آیا، یہ انقلاب سول وار کہلاتا ہے، انقلاب کے بعد برطانوی راج ختم ہو گیا اور امریکا یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا بن گیا، یہ اخلاقی لحاظ سے امریکا کا خوفناک ترین دور تھا، ملک کی 13 ریاستوں میں لاشیں پڑی تھیں، روزگار کے ذرایع ختم ہو چکے تھے، بیماریاں عام تھیںاور اوپر سے عوام بے راہ روی کا شکار ہو چکے تھے لیکن ملک کا سب سنگین مسئلہ شراب نوشی تھا،معاشرہ شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہوگیا تھا، امریکی شہری اوسطاً زیادہ شراب پینے لگے، یہ عادت معاشرتی بگاڑ میں تبدیل ہوئی اور ملک میں زنا بالجبر، چوری، ڈکیتی، ڈاکہ زنی اور رشوت ستانی میں اضافہ ہو گیا، خاندانی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، دنگے فساد بھی شروع ہو گئے، لوگ اس دور میں اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ شراب میں ضایع کر دیتے تھے۔

    یہ حالات سو سال تک جاری رہے یہاں تک کہ ریاست کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہو گئی، 1913ء میں وڈرو ولسن امریکا کے صدر بنے، یہ شراب کے خلاف تھے چنانچہ انھوں نے 16 جنوری 1920ء کو امریکی آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی اور پورے ملک میں شراب کی تیاری، خرید و فروخت اور استعمال پر پابندی لگا دی، ادویات میں بھی اعشاریہ پانچ فیصد سے زائد الکوحل پر پابندی لگ گئی، امریکی قانون سازوں نے اس فیصلے کو ’’نوبل ایکسپیریمنٹ‘‘ یا نیک تجربے کا نام دیا، یہ پابندی خوش آیند تھی، امریکا کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا، جرائم میں بھی کمی ہو گئی اور خاندانی زندگی بھی بحال ہو گئی لیکن یہ سکھ بہت جلد عارضی ثابت ہوا، پابندی کے دو سال بعد ایک نئی صورتحال سامنے آئی، ملک میں شراب کی اسمگلنگ اور غیر قانونی فروخت کا دھندہ شروع ہو گیا، پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے انڈرورلڈ بن گئی۔
    2177

    یہ انڈر ورلڈ گینگز میں بدلی اور گینگز مافیاز میں تبدیل ہو گئے، مافیاز نے کیوبا، کینیڈا، کولمبیا اور برازیل میں شراب کی بھٹیاں لگائیں اور شراب امریکا میں دھڑا دھڑ اسمگل ہونے لگے، امریکی نیوی نے روکا تو مافیا نے نیول افسروں کو خرید لیا، پولیس نے چھاپے مارے تو پولیس آفیسرز کی منتھلیاں لگ گئیں، کسٹم ڈیپارٹمنٹ آگے بڑھا تو انھیں بھی خرید لیا گیا، جو اہلکار بکنے کے لیے تیار نہ ہوئے انھیں گولی ماردی گئی یا پھر بم سے اڑا دیا گیا، مافیا کسٹم، نیوی اور پولیس میں اپنے لوگ بھی بھرتی کرانے لگا، یہ لوگ آہستہ آہستہ اتنے مضبوط ہو گئے کہ یہ پولیس چیفس تک تبدیل کرا دیتے تھے، یہ ریاستوں کی اسمبلیوں کا حصہ بھی بن گئے اور یہ کانگریس اور وائیٹ ہاؤس تک بھی پہنچ گئے۔

    مافیاز نے امریکا میں ایک نیا اور خوفناک کلچر بھی متعارف کرا دیا، یہ کلچر ’’بک جاؤ یا مر جاؤ‘‘ تھا، انسان کو جان پیاری ہوتی ہے چنانچہ امریکا کی زیادہ تر بیوروکریسی اور سیاستدان مافیا کے ہاتھوں میں آگئے، یہ لوگ زیادہ منافع کمانے کے لیے کچی شراب بھی بیچنے لگے، لوگ یہ شراب پی کر مر جاتے تھے یا پھر بیمار ہو جاتے تھے یوں صحت کا سرکاری بجٹ بھی بڑھ گیا، پابندی کی وجہ سے شراب کی قیمت دس گناہ زیادہ تھی، لوگ افورڈ نہیں کر پاتے تھے چنانچہ یہ چوریاں کرتے تھے یا پھر دوسرے نشوں کی طرف چلے جاتے تھے، وہ نشے شراب کے مقابلے میں سو گنا خطرناک تھے، امریکا میں چرس، گانجا، مارفین، ہیروئن اور افیون اسی دور میں متعارف ہوئیں، ہیروئن برطانوی سائنس دان چارلس روملے ایلڈر نے 1874ء میں ایجاد کی تھی لیکن23 سال بعد ایک جرمن سائنس دانFelix Hoffmann نے اسے مزید خوفناک بنا دیا، یہ شروع میں مارفین کا متبادل تھی لیکن یہ 1925ء میں ڈرگ کے طور پراستعمال ہونے لگی، حکومت پابندی سے پہلے انڈسٹری سے اربوں ڈالر ٹیکس لیتی تھی۔

    یہ ٹیکس بھی صفر ہو گیا، مافیاز نے شراب کی لین دین کے لیے اسلحہ اور خواتین کی اسمگلنگ بھی شروع کر دی یوں امریکا میں طوائفوں اور ہتھیاروں کی منڈیاں بن گئیں، امریکا 1929ء میں بدترین معاشی بحران کا شکار ہوا، یہ بحران ’’دی گریٹ ڈیپریشن‘‘ کہلاتا ہے، اس بحران کا شروع میں شراب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جب مالیاتی بحران کے شکار لوگوں نے ڈیپریشن میں گھر، زیورات اور مال مویشی بیچ کر شراب پینی شروع کر دی تو امریکا تقریباً خاتمے کے دروازے پر پہنچ گیا، حکومت صورتحال کی سنگینی سے آگاہ تھی،یہ اپنا فیصلہ واپس لینا چاہتی تھی لیکن یہ تجزیہ کاروں، پادریوں اور سول سوسائٹی سے ڈرتی تھی، یہ خوف 1933ء تک جاری رہا یہاں تک کہ فرینکلن ڈی روز ویلٹ امریکا کے صدر بن گئے، وہ جرات مند انسان تھے، وہ مخالفت سے نہیں گھبراتے تھے لہٰذا انھوں نے پانچ دسمبر 1933ء کو آئین میں 21 ویں ترمیم کی اور امریکا میں شراب سے پابندی اٹھا لی۔

    حکومت نے پابندی اٹھانے کے ساتھ ہی شرابیوں کے لیے قوانین سخت کر دیے، نشے میں ڈرائیونگ کو ناقابل معافی جرم بنا دیا گیا، کام کے دوران شراب نوشی، دفتری اور سرکاری امور کے دوران نشہ اور نشے کے دوران فیصلوں پر پابندی لگا دی، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی امریکا میں شرابیوں پر سیاست، پولیس، فوج اور سول ایوی ایشن کے دروازے بند ہیں، سیاسی جماعتیں شرابی کو ٹکٹ اور ووٹر ووٹ نہیں دیتے، امریکا کے پچھلے دس صدر ’’نان الکوحلک‘‘ تھے، وائیٹ ہاؤس میں صدر، نائب صدر، کابینہ کے ارکان، صدارتی عملے اور مہمانوں کو شراب پیش نہیں کی جاتی، امریکا کسی سرکاری مہمان کو سرکاری رقم سے شراب فراہم نہیں کرتا، امریکا کا کوئی استاد شراب پی کر کلاس میں نہیں جا سکتا، کوئی جج نشے میں فیصلہ نہیں سنا سکتا، کوئی بینکر چیک کلیئر نہیں کر سکتا اور کوئی سیکیورٹی اہلکار سرکاری اسلحے کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھے تو وہ عہدے سے بھی جاتا ہے، نوکری سے بھی فارغ ہوتا ہے اور اس کا ٹرائل بھی شروع ہو جاتا ہے، امریکا کے لوگ جانتے ہیں ہم میں سے جو شخص ترقی کی منازل طے کرنا چاہتا ہے اسے شراب، سگریٹ، زنا، جھوٹ اور رشوت چھوڑنی ہو گی، اسے ’’مسٹر کلین‘‘ ہونا پڑے گا اور وہ اگر دوران ذمے داری کوئی غلطی کر بیٹھے گا تو وہ عبرت کی نشانی بن جائے گا، خواہ وہ صدر نکسن جیسا جینئس ہی کیوں نہ ہو یہاں پر امریکا کی بات ختم ہوگئی، ہم اب پاکستان کی طرف آتے ہیں۔

    پاکستان میں اسلام بھی ہے، جمہوریت بھی اور مشرقی روایات بھی، ہم نے 1977ء میں شراب پر پابندی بھی لگا دی، میں اس پابندی کا حامی ہوں، میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اسلامی معاشرہ اور شراب دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا پابندی کے باوجود اس ملک میں شراب نہیں ملتی؟ اگر ہاں تو پھر یہ کہاں سے آ رہی ہے؟ لا کون رہے ہیں، بیچ کون رہے ہیں اور پی کون رہے ہیں؟ اور کیا ملک کا کوئی شہری یہ گواہی دے سکتا ہے ہمارے مقتدر ترین ادارے اور مقتدر ترین شخصیات اس حرام سے محفوظ ہیں؟حقائق تو یہ ہیں ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں ۔

    اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان شرابیوں نے پہنچایا، سکندر مرزا کی شراب نوشی نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگوا دیا تھا، یحییٰ خان کی شراب نوشی نے ملک توڑ دیا، بھٹو صاحب کے ’’خون تو نہیں پیتا‘‘ جیسے بیانات نے انھیں پھانسی پر چڑھا دیا اور جنرل پرویز مشرف کے مخمور ساتھیوں نے انھیں وہاں پہنچا دیا جہاں سے 60ہزار لوگوں کی لاشوں کی بو آ رہی ہے اور خود آج ان کی جائیدادیں ضبط ہو رہی ہیں، ہمارے شرابی پائلٹس ائیر پورٹوں پر پکڑے جاتے ہیں ، ہمارے جہازوں سے شراب کی بوتلیں نکلتی ہیں اور ہمارے نام نہاد ’’وی آئی پیز‘‘ جہاز کی سیڑھیوں سے نہیں اتر پاتے، آپ کسی دن اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں سروے کرا لیں، آپ سرکاری افسروں، ججوں، ڈاکٹروں، پروفیسروں اور سیاستدانوں کے ڈوپ ٹیسٹ کرا لیں مجھے یقین ہے آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے، یہ کیا ہے؟ یہ ہماری سماجی منافقت ہے۔

    ہم حقائق جانتے ہیں لیکن ہم میں اعتراف کی ہمت نہیں، ہمارے ملک میں پابندی کا مطلب مہنگائی ہے، ہم معاشرے میں جس چیز کو مہنگا کرنا چاہتے ہیں ہم اس پر پابندی لگا دیتے ہیں،ہمارے ملک میں 1977 ء سے پہلے صرف شرابی تھے، ہم نے اب ان کے ساتھ ساتھ ملک میں لاکھوں ہیروئنچی، چرسی، افیونی اور بھنگی بھی پیدا کر دیے، ہم نے تالیاں بجوانے اور واہ واہ کروانے کے لیے اپنی نسلیں برباد کر دیں، ہمیں بہرحال اس منافقت سے نکلنا ہو گا، ہمیں فرینکلن روزویلٹ بننا ہو گا یا پھر کنگ سعود بن عبدالعزیز، ہمیں ملک کو دوبئی، ملائیشیا، ترکی اور مصر بنانا ہوگا یا پھر سعودی عرب، وہ سعودی عرب جہاں منشیات فروشوں کے سر اتار دیے جاتے ہیں اور نشئیوں کی چمڑیاں، ہمیں بہرحال حقائق کو فیس کرنا ہو گا اِدھر یا اُدھر، ہم بہرحال اس منافقت سے یہ معاشرہ چلا سکیں گے اور نہ ہی ملک۔

  • شاید آپ-جاوید چوہدری

    شاید آپ-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    منظر بہت ہولناک تھا‘ نوجوان ایس ایس پی کی کنپٹی میں سوراخ تھا‘ خون ابل ابل کر اس کے دامن میں گر رہا تھا‘ ہاتھ میں پستول تھا لیکن ہاتھ مردہ حالت میں گود میں پڑا تھا‘ آنکھیں بند تھیں‘ ہونٹ بھنچے ہوئے تھے‘ داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا اور کمرے میں موت کا گہرا سکوت تھا‘ اسٹاف بھی دوڑ کر اندر آگیا‘ ان کے منہ سے بھی چیخ نکل گئی‘ یہ چیخیں پورے صوبے میں سراسیمگی بن کر پھیل گئیں‘ اطلاع چینلز تک پہنچی اور بات ملک بھر کا موضوع بن گئی ’’جہانزیب خان نے خودکشی کر لی‘‘۔

    جہانزیب خان کون تھا؟ یہ پولیس کا شاندار آفیسر تھا‘ خاندان معزز تھا‘ یہ پڑھا لکھا‘ بہادر اور بے خوف شخص تھا‘ سی ایس ایس کیا‘ پولیس سروس جوائن کی اور تیزی سے ترقی کرنے لگا‘ ڈیپارٹمنٹ اس کی ذہانت‘ معاملہ فہمی‘ جرأت اور ایمانداری کی تعریف کرتا تھا‘ شادی کی‘ گھریلو زندگی بھی اچھی گزر رہی تھی‘ چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے دوران جہانزیب خان نے کھوسہ اور بگٹی خاندان کے طاقتور لوگ تک پکڑ لیے‘ یہ کیریئرآفیسر تھا‘ ساتھیوں کا خیال تھا یہ زندگی میں پولیس سروس کا چیف ضرور بنے گا لیکن پھر 15 مئی 2016 ء آگیا اور جہانزیب جیسا پولیس افسر عبرت کی نشانی بن کر رہ گیا‘ یہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کا ایس ایس پی تھا‘ اس کا ایک دوست اسلام آباد کا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھا‘ یہ دوست اپنے کسی عزیز کی تقریب میں شمولیت کے لیے شکار پور گیا‘ اس نے جہانزیب کو بھی شکار پور بلا لیا‘دوست تقریب کے بعد اسے کسی تیسرے رشتے دار کے گھر لے گیا‘ یہ لوگ وہاں رات دیر تک شراب پیتے رہے‘ ہمارے ملک میں شراب کے ساتھ ’’ڈرگز‘‘ لینے کا رجحان شروع ہو گیا ہے۔

    1107467-sspkakar-1463820377-742-640x480

    یہ نشہ آور ادویات کا خوفناک ’’کمبی نیشن‘‘ ہوتا ہے‘ یہ ادویات انسان کو ایک آدھ دن کے لیے دنیا و مافیہا سے بے گانہ کر دیتی ہیں‘ انسان چل پھر رہا ہوتا ہے‘ یہ باتیں بھی کرتا ہے اور یہ جی بھر کر اچھل کود بھی مچاتا ہے لیکن اس کا دماغ سن ہوتا ہے‘ مدہوشی کے یہ گھنٹے اس کے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں‘ میزبان نے یہ گولیاں بھی جہانزیب کے سامنے رکھ دیں‘ وہ شراب کے ساتھ یہ گولیاں بھی نگل گیا‘ گولیوں نے چند لمحوں میں اپنا اثر دکھایا اور جہانزیب نے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا‘ وہ ناچتے ناچتے کپڑے اتارنے لگا ‘ میزبان نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن وہ آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا تھا‘ ان لوگوں نے اسے وہیں چھوڑا اور وہاں سے غائب ہو گئے‘ جہانزیب ننگا ناچتا ناچتا باہر نکلا‘ مکان کی چھت پر آیا اور اونچی آواز میں چیخنے لگا‘ محلے دار جاگ گئے‘ باہر نکلے‘ نوجوان شخص کو چھت پر ننگا ناچتے دیکھا تو انھوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا‘ لوگ جمع ہوتے چلے گئے اور جہانزیب چھتوں پر چھلانگیں لگاتا رہا‘ لوگوں نے موبائل فون سے اس کی فلم بنا لی‘ لوگوں نے اس دوران اسے پکڑا اور مارنا شروع کر دیا‘ وہ مار کھاتا جاتا تھا اور بلوچی‘ سندھی‘ اردو اور انگریزی میں گالیاں دیتا جاتا تھا‘ پولیس کو اطلاع دی گئی۔

    پولیس آ گئی‘ یہ شکار پور کی پولیس تھی‘ یہ اسے نہیں پہچانتی تھی چنانچہ پولیس اہلکاروں نے بھی اسے مکوں اور ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیا‘ پولیس نے اس کے بعد اسے باندھا اوراسی حالت میں گاڑی میں پھینک دیا‘ دوسری طرف اس کا اسٹاف تقریب کی جگہ پر اس کا انتظار کر رہا تھا‘ وہ لوگ پریشانی کے عالم میں ایس ایس پی کو تلاش کرنے لگے‘ یہ لوگ تلاش کرتے کرتے بالآخر اس گاڑی تک پہنچ گئے جس میں جہانزیب پڑا تھا‘ اس کے ہاتھ بندھے تھے اور پورے جسم پر زخموں کے نشان تھے‘ اے ایس آئی رحیم داد نے مقامی اہلکاروں کو’’ملزم‘‘ کا عہدہ بتایا‘ ہاتھ کھلوائے‘ جیسے تیسے سیدھا کر کے اسے کپڑے پہنائے‘ منہ صاف کیا‘ گاڑی میں بٹھایا اور جعفر آباد روانہ ہوگیا‘ جہانزیب کے اسٹاف کے باقی آٹھ لوگ بھی ساتھ تھے‘ راستے میں جہانزیب کے حواس بحال ہو گئے‘ اس نے اے ایس آئی رحیم داد سے پوچھنا شروع کر دیا ’’میں کہاں ہوں‘ میں کہاں تھا‘ میرا جسم کیوں دکھ رہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوا‘‘ وغیرہ غیرہ‘ اسٹاف ٹالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب جہانزیب نے سختی سے پوچھا تو رحیم داد نے ساری بات بتا دی‘ اس نے اسٹاف سے پوچھا ’’کیا تم ان لوگوں کو پہچانتے ہو جنہوں نے میری فلم بنائی‘‘ رحیم داد نے جواب دیا ’’سر یہ ہمارا ضلع نہیں‘ میں ان میں کسی شخص کو نہیں پہچانتا‘‘ جہانزیب شرمندہ ہو گیا‘ وہ سارا راستہ خاموش رہا۔

    جہانزیب گھر گیا اور فریش ہو کر دس بجے دفتر پہنچ گیا‘ وہ شدید ڈپریشن میں تھا‘ اس کے اسٹاف نے اسے انتہائی غیر حالت میں دیکھ لیا تھا‘ وہ محلے کے سامنے رات بھر ننگا ڈانس کرتا رہا تھا اور لوگ اس کی فلمیں بناتے رہے‘ لوگوں نے اسے مارا پیٹا بھی تھا اور گلیوں میں بھی گھسیٹا تھا‘ وہ پولیس کے چھوٹے ملازمین کے ہاتھوں بھی پٹتا رہا اور اسے آخر میں ہاتھ باندھ کر پولیس کی گاڑی میں پھینک دیا گیا‘ وہ جوں جوں یہ سوچتا گیا‘ اس کے ڈپریشن میں اضافہ ہوتا گیا‘ اے ایس آئی رحیم داد معمول کے مطابق دفتر میں داخل ہوا اور ڈائری اور سرکاری پستول اس کی میز پر رکھ دیا‘ جہانزیب نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا ’’آپ کسی کو کمرے میں نہ آنے دیں‘‘ اسٹاف نے لوگوں کو روک دیا‘ جہانزیب نے ہر دس منٹ بعد گھنٹی بجاکر چپڑاسی سے پانی مانگنا شروع کر دیا‘ چپڑاسی اسے پانی دے دیتا‘ وہ ایک سانس میں گلاس خالی کرتا اور چند منٹ میں دوبارہ پانی مانگ لیتا‘ یہ سلسلہ بڑی دیر تک جاری رہا‘ اسٹاف کو اس دوران کمرے کے اندر گولی چلنے کی آواز آئی‘ وہ لوگ گھبرا گئے لیکن انھیں اس کے باوجود کمرے میں جانے اور صورت حال دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

    13178540_1702572776671634_7208376237188839216_n

    ڈی سی زین العابدین جہانزیب خان کا قریبی دوست تھا‘اسٹاف نے اس سے رابطہ کیا‘زین العابدین فوراً جہانزیب کے دفتر پہنچ گیا‘ وہ اندر داخل ہوا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ اندر کا منظر بہت ہولناک تھا‘ جہانزیب کی کنپٹی میں سوراخ تھا‘ خون سوراخ سے ابل ابل کر اس کی چھاتی پر گر رہا تھا‘  سرکاری پستول اس کے ہاتھ میں تھا اور ہاتھ مردہ حالت میں گود میں پڑا تھا‘ زین العابدین نے دوڑ کر گردن پر انگلی رکھی‘ گردن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی‘ آئی جی بلوچستان نے ڈی آئی جی نصیر آباد شرجیل کریم کھرل اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ بلوچستان عبدالرزاق چیمہ کو تحقیقات کی ذمے داری سونپ دی‘ انکوائری ہوئی اور انکوائری میں سارے حقائق سامنے آگئے‘ کمیٹی نے جہانزیب کے دوست عبدالستار عیسانی کے خلاف ’’مس کنڈکٹ‘‘ کی سفارش کر دی۔

    جہانزیب خان باعزت گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‘ یہ کیریئر آفیسر تھا‘ یہ آگے بڑھتا رہتا تو یہ آئی جی کے عہدے تک ضرور پہنچتا لیکن غلط صحبت نے ایک شاندار انسان کی جان لے لی‘ وہ عادی مجرم نہیں تھا‘ وہ غیرت مند اور بہادر تھا لہٰذا وہ خود کو اپنی عدالت سے معافی نہ دلا سکا اور اس نے وردی میں اپنے دفتر میں اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو سزائے موت دے دی‘ جہانزیب خان چلا گیا لیکن یہ بے شمار لوگوں کو بے شمار سبق دے گیا‘ یہ ہمیں بتا گیا انسان کی صحبت اچھی ہونی چاہیے‘ آپ زندگی میں کوشش کریں آپ کے حلقہ ارباب میں برے لوگ شامل نہ ہوں کیونکہ یہ لوگ کسی بھی وقت آپ کو وہاں لے جائیں گے جہاں جہانزیب پہنچ گیا تھا‘ یہ ملک کے بے شمار لوگوں کو یہ سبق بھی دے گیا نشہ تباہی کے سوا کچھ نہیں‘ یہ آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی‘ آپ تھوڑے سے سرور کے لیے وہاں نہ جائیں جہاں آپ کے ہوش آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں‘ یہ زندگی نعمت ہے‘ آپ جہانزیب کی طرح اس نعمت کی توہین نہ کریں ‘ جہانزیب ہم جیسے لوگوں کو یہ پیغام بھی دے گیا دنیا کا ہر گناہ‘ہر غلطی اور ہر جرم قابل معافی ہوتا ہے‘ آپ خودکشی سے قبل معافی اور توبہ کے دروازے پر ضرور دستک دیںاور یہ نوجوانوں کو یہ بھی بتا گیا‘ آپ نشے سے پہلے ایک بار خون میں ڈوبے جہانزیب کی تصویر ضرور دیکھ لیں‘ یہ خون‘ گولی کا یہ سوراخ اور سینے پر جھکی ہوئی یہ گردن شاید آپ کو جہانزیب جیسے انجام سے بچا لے۔