Tag: شخصیت

  • شخصیت و کردار – عمر خالد

    شخصیت و کردار – عمر خالد

    عمر خالد شخصیت و کردار کے تمام اصول (principle) محدثین نے ”عدالت“ کے مشمولات (Content) میں ذکر کیے ہیں، عدالت کا ایک بنیادی عنصر ”مروت“ ہے، جس کا تمام تر تعلق زمان و مکان سے جڑا (Related) ہے، مثال کے طور پر: سر ڈھانکنا عربوں کا رواج تھا، اور ننگے سر باہر نکلنا پست حرکت شمارہوتی تھی، اس کے برعکس مغرب میں سر ڈھانکنے کا کوئی رواج نہیں بلکہ وہاں بزرگوں کے روبرو ننگے سر رہناہی آداب حاضری گردانی جاتی ہے، اسی طرح آج عرب چاول مٹھی بھر کے دیسی طرز کے مطابق کھاتے ہیں جبکہ برصغیر میں خوب سلیقہ مندی کے ساتھ انگلیوں میں نوالہ بنا کر نوش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی ہزارہا مثالیں ہیں جس سے انسانی اجتماعیت و معاشرت میں امتیاز پیدا ہوجاتا ہے، ایک ہی چیز کسی خطہ ارض میں قابل تحسین ہوسکتی ہے جبکہ دوسرے خطہ میں ناگوار و کمتر، فرد کی نفاست و کردار کا تعین انہی بنیادوں پر ہوتا ہے، اور انہی اصولوں کی روشنی میں شخصیت کی تشکیل سوسائٹی میں اثر انگیز افراد پیداکرتی ہے۔ جب ہم کسی کو دیسی Uncivilized کہتے ہیں تو دراصل اس فرد کی اجتماعی زندگی سے لاپرواہی و عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ، یا پھر دوسرے لفظوں میں تعلیمی و تربیتی نشونما کے دوران باقی رہ جانے والی خامیوں کی نشاندہی ۔

    اخلاق و مروت سے انسانی حکمت ودانش کا بھی تعین ہوتا ہے، جن لوگوں نے جاہلی عربیوں کی تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی کیا ہوگا انہیں عربوں میں حکمت و دانش کی معراج کا اندازہ ہوگا، بہت سے دیسی عمر رسیدہ حضرات زندگی کی تلخیاں برت کر حکمتوں بھری باتوں سے نوازتے رہتے ہیں، اور ہمارے نیم خواندہ اسے عبرت نامہ یا رہنمائے حیات سمجھ کر ساری زندگی سینہ سے لگائے صبح روشن کی جستجو کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ یہ مایوس نامہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو برباد کرنے کا پورا سامان کررہا ہوتا ہے۔

    کردار سازی یا شخصیت سازی کا سارا مدار فتوحات ذہنی کی کڑیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جیسے ہر کامیابی ایک نئی کامیابی کی نوید ہے، ویسے ہی ہر ناکامی کا اگلا قدم ایک اور مایوسی کی جانب اٹھتا ہے۔ یہاں تفریق کی شدید ضرورت ہے، ورنہ بصورت دیگر اخلاق و مروت یا تو تکلف کا مظہر رہ جائیں گے یا پھر حسرت جاں فقط۔

    یہ سچ ہے کہ تکلف کی آمد سادگی کو رخصت کردیتی ہے اور تکلف کی نشونما مروت و سلیقہ مندی کے چشمہ سے ہوتی ہے، لیکن یہ بجائے خود کوئی ذریعہ نہیں، تصنع و تکلف ہمیشہ احساس محرومی سے پیدا ہوتے ہیں، احساس محرورمی جدید دور کا ایک وبائی اور عام مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اندر گھائل کررہا ہے، اس تناظر میں محرومی کے بنیاد اسباب سیاسی اور معاشی برتری کی لالچ ہے، لہذا تکلف و تصنع کی روایت بھی انہی سرچشمہ سے پھوٹ کر اثرانداز ہورہی ہیں ۔ اورعقل، سوچ، صلاحیت، قابلیت الغرض تمام انسانی خصوصیات کا رشتہ اقدار سے توڑ کر غیر فطری اصولوں سے وابستہ کرچکی ہے، چنانچہ آج کے دور میں Civilized ہونے کا مطلب ہوگا، جو معاشی یا سیاسی برتری حاصل کرچکا ہو، اس زاویہ نگاہ سے جب دینی اقدار کے پیکر میں کسی “شخصیت” کی رونمائی ہوتی ہے تو اسے قبول کرنے میں ایک نامحسوس حجاب سامنے آجاتا ہے، اور واقعاتی تناظر میں ایک دھندلی یادداشت بن کر رہ جاتا ہے۔

  • مثبت سوچ اور کامیابی کا بنیادی اصول – عثمان عابد

    مثبت سوچ اور کامیابی کا بنیادی اصول – عثمان عابد

    عثمان عابدزندگی کو پرمسرت اور خوشگوار بنانے کا فن صدیوں سے موجود ہے ۔ ہر مذہب نے زندہ رہنے کے اصول سِکھائے ہیں۔ خواہ دانشور ہوں یا ماہرین نفسیات۔۔۔ سب نے اس کی اہمیت کا پرچار کیا ہے۔ Psycology کے ماہرین کے مطابق انسان کی شخصیت اُس کی سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اپنے ذہنی نقوش کی زندہ تصویر ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں کا عکس ہوتے ہیں ۔ ہمارے خیالات ہمارے کردار کی تعمیر کرتے ہیں ۔ ہم ارادی طور پر یا غیرارادی طور پر جو کچھ سوچتے ہیں وہ ہماری شخصیت اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے ۔ اگر ہمارے خیالات منفی نوعیت کے ہیں تو ہماری زندگی منفی اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Negativity جھلکے گی۔ اس کے بر عکس اگر ہمارے خیالات مثبت نوعیت کے ہوں گے تو ہماری زندگی مثبت اثرات کا عکس ہو گی اور ہمارے ہر عمل سے Positivity جھلکے گی۔

    آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں انسان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے انسان تو میری بنائی ہوئی چیزوں پر غور کیوں نہیں کرتا ؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات پر غور کریں تو ہمیں آفاقی قوانین دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے انھی آفاقی قوانین کے مطابق چل رہی ہے ۔ جو انسان اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے ان قوانین کو تلاش کرتا ہے اور تلاش کرنے کے بعد ان پر عمل کرتا ہے تو وہ کامیاب کہلاتا ہے۔

    اس کالم میں ہم صرف ایک قانون پر بات کریں گے اور وہ ہے’’قانون ثبات‘‘۔ اسے انگریزی میںLaw of Consistency کہتے ہیں ۔ قانون ثبات کے اور بھی کئی نام ہیں جیسا کہ قانون مکافاتِ عمل یا قانونِ استحکام ، یہ ناقابل تغیر آفاقی قانون ہے ۔ جب سے یہ دنیا معرض و جود میں آئی ہے تب سے یہ آفاقی قانون لاگو ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک رہے گا۔ ہم جتنی مرضی کوشش کرلیں ، اسے تبدیل نہیں کر سکتے یہ قانون فطرت ہے ۔ اس کا بنانے والا قادر مطلق ہے ۔ Law of Consistency اپنی پوری طاقت و توانائی کیساتھ اس کائنات میں وقوع پزیر ہو رہا ہے ۔ ۔۔ ثبوت چاہیے تو اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیے۔۔۔ثبوت ہر جگہ موجود ہے صرف تلاش کرنے والی آنکھ کی ضرورت ہے ۔

    قانون ثبات ہے کیا ؟ ’’جو بوؤگے وہی کاٹو گے ‘‘۔ یہ ہے قانون ثبات! اگر آپ گندم کو زمین میں بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے ۔ گندم کی جگہ مکئی نہیں اُگے گی ۔ اس لیے کہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔ Law of Consistency ہماری زندگی کے ہر شعبے میں کارفرماہے ۔ آیئے اس قانون کو ایک اور زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ذہن میں ناکامی کے بیج بوئیں گے تو ناکامی کی فصل اُگے گی ۔ ناکامی کا تصور کبھی بھی کامیابی میں نہیں بدل سکتا ۔ کیونکہ یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کامیابی کا بیج بوئیں گے تو کامیابی کی فصل اُگے گی ۔

    انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ۔ ہم جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کر تے ہیں ۔ وہی چیز ہمارا مقدر بن جاتی ہے ۔ آپ نے اپنے ذہن کو ناکامی کے تصور پر مرکوز رکھا اور اس کا عمل یا نتیجہ ناکامی ہی کی شکل میں نکلا۔ اس میں قصور حالات کا نہیں اور نہ ہی آپ کے مقدر کا ہے ۔ آپ نے جو کچھ سو چا وہ پورا ہوگیا ۔ قانون ثبات ناکامی کے تصور کو کامیابی کی شکل میں نہیں بدل سکتا ۔ اگر آپ کامیابی کا سوچیں گے تو کامیابی آپ کا مقدر ہوگی ۔ اگر آپ دوسروں کی بھلائی کے متعلق سوچیں گے تو دوسرے بھی آپ کا بھلاسوچیں گے۔ اگر آپ محبت کریں گے تو آپ سے محبت کی جائے گی ۔ یہی Law of Consistency ہے۔ ہماری شخصیت، ہماری زندگی دراصل ہمارے تصورات کا عکس ہوتی ہے۔ ہماری کامیابیوں یا ناکامیوں کا دارو مدار ہمارے تصورات ، ہمارے خیالات اور ہماری سوچ پر ہوتا ہے ۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ:
    ’’ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں (سوچ) پر ہے ‘‘۔

    میرا خیال ہے کہ اب آپ اس اصول کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے ۔ لہذا آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا پختہ ارادہ کرلیں ۔ آپ کا Sub-Concious mind (تحت الشعور ) آپ کیلئے اسباب مہیا کرئے گا۔ اور آپ کامیاب ہو جائیں گے ۔ Sub-Concious mind ہے کیا اور یہ ہماری زندگی کو کیسے کنٹرول کرتا ہے ؟ انشاء اللہ یہ کسی اور کالم میں گوش گزار کروں گا۔
    اللہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی زندگی میں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

  • شخصیت پرستی اور اسلام – عاطف الیاس

    شخصیت پرستی اور اسلام – عاطف الیاس

    عاطف الیاس انسان ازل سے شخصیت پرستی کے پھیر میں پڑا رہا ہے۔ شخصیت پرستی یا ہیرو ازم انسان کی فطری کمزوری ہے جس پر دلیل سے غالب آنا چاہیے۔ فطرت کی اس کمزوری نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اندھی عقیدتوں میں روشنی تلاش کرتا رہا اور تاریکیاں مقدر بنیں۔ آباؤ اجداد، حکمران، عالم دین، سپہ سالار، دانشور جس کسی کو سر آنکھوں پر بٹھایا، اسے مقدس اور کامل بنا دیا۔ ہر خطا سے پاک، انمول اور ہدایت یافتہ۔ بت پرستی بھی اسی فطری کمزوری کا ایک مظہر ہے جو انسان کی اندھی عقیدتوں سے جنم لیتی ہے۔

    حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ سترہ سال تک حق کا نور آپ کے سامنے چمکتا رہا، قبول کیوں نہیں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے سامنے جو لوگ تھے، ان کی عقلوں کو ہم پہاڑ کی طرح سمجھتے تھے۔ ابو جہل، ولید بن مغیرہ، عتبہ یہ وہ لوگ تھےجو قریش کے اس لاڈلے کے آئیڈیل تھے۔ جب یہ پہاڑ ہٹ گئے تو حق نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے دل ودماغ کو منور کردیا۔ سیدھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ سیف اللہ کا لقب پایا، مشرق و مغرب میں اسلام کی دعوت کو لے کر پہنچے اور سرخرو ہوئے۔ پھر یہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، شام اور ایران کی فتوحات تھیں، ایک امیج تھا، لوگوں کے پسندیدہ تھے، ایک پکار پر سپاہی کٹ مرنے کے لیے تیار رہتے تھے، میدان جہاد کے بہترین شہسوار تھے۔ لیکن ایک غلطی کر بیٹھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے برعکس مال امر امیں تقسیم ہوا۔ دربارخلافت میں خبر پہنچی اور پھر انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ نہ کوئی دبدبہ کام آیا نہ شہرت۔ یہ ہے شخصیت پرستی پر وہ زد، جو اسلام لگانا چاہتا ہے۔ غلط اور صحیح کا تعین شخصیت کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ اللہ کے حکم کی بنیاد پر ہوگا۔

    ہمارے ہاں اسی کمزوری نے ایک المیے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہم حکمرانوں، علما اور دانشوروں کو آئیڈیل بناتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے۔ انسان چاہے جتنا ہی بہترین کیوں نہ ہو، غلطی کرسکتا ہے۔ اردگان کا معاملہ ہو یا سعودی حکمرانوں کا یا ایرانی زعما کا یا پھر ہمارے اپنے ہی سیاسی اور فوجی حکمران ہوں، کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم اندھی سیاسی، مسلکی اور ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ان کی غلطیوں کو جواز دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلائل گھڑتے ہیں، خطاکار کو نیکوکار بنانے کی سعی کرتے ہیں، غلطی کو سٹریٹیجی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس! بھلے آدمی! مان لو کہ انسان خطا کرسکتا ہے اور وہ ایک شخص بھی ایک انسان ہی ہے۔ اور اگر وہ حکمران ہے تو اس کی غلطی پر گرفت تو اور بھی لازم ہوجاتی ہے کہ اسلام کی رُو سےیہ ایسا فرض ہے جس پر کارہائے سیاست کا سارا دارومدار ہے۔

    ذرا مدینہ کا ایک منظر دیکھیے: مسجد نبوی کا منبر ہے اور جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر میں صحیح چلوں تو میری پیروی کرو اور اگر میں قرآن و سنت سے ہٹ کر راہ اپناؤں تو مجھے روک دو۔ کیسا منظر ہے کہ معیار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہیں ، قرآن اور سنت ہیں۔ سیدنا ابوبکرصدیق کے شحصیت کو ایک طرف رکھ دیجیے اور عمل کو اسلام کی بنیاد پر پرکھیے۔ یہ ہے کرنے کا کام جس کا حکم دیا گیا ہے۔

    پھر ایک اور منظر دیکھیے: حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں کھڑے ہیں اور ایک نیا حکم جاری فرما رہے ہیں جو عورتوں کے حق مہر کے حوالے سے ہے۔ لوگوں کو پابند کررہے ہیں کہ وہ اتنی اتنی رقم سے زیادہ حق مہر نہ مقرر کریں، ایک بوڑھی عورت کھڑی ہوتی ہے اور سخت آواز میں اس شخصیت سے مخاطب ہوتی ہے جس کے رعب اور دبدبے سے شیطان بھی ڈرتے تھے۔ “اے عمر! تم کون ہوتے ہو،اسے پابند کرنے والے جبکہ اللہ قرآ ن کی فلاں آیت میں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اگر انھیں خزانے بھی دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔” اور جواب میں کوئی پولیس حرکت میں نہیں آتی، کوئی ایجنسی اس خاتون کی نہیں اُٹھاتی، کہیں یہ آواز نہیں اُٹھتی کہ تمھیں ہمت کیسی ہوئی۔ بلکہ جناب عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوتے ہیں، جواب میں فرماتے ہیں کہ اے لوگو! اس معاملے میں، میں غلط تھا اور یہ عورت ٹھیک ہے اور اپنا حکم واپس لے لیتے ہیں۔

    ذرا تصور کیجیے کہ شخصیت پرستی کے بت پر کیسی چوٹ ہے یہ، جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ہمارے سامنے خواہ بہترین انسانوں میں سے ایک بہترین انسان ہی کیوں نہ ہو، معیار قرآن و سنت ہی رہے گا۔ یہ ہے وہ حل جو اسلام اس فطری کمزوری پر غالب آنے کے لیے دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب قریش مکہ کے سامنے اسلام کی دعوت رکھتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو کبھی یہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ہم کیسے مان لیں۔ یہ ہے وہ اندھی عقیدت جو عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جو حق اور باطل میں فرق مٹا دیتی ہے۔ جو انسان کو حق شناسی سے دور لے جاتی ہے۔ اتنا دور کہ وہ قبر کے اندھے گڑھے تک پہنچ جاتا ہے اور روشنی سے محروم رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن انھیں اندھے ، بہرے اور ناسمجھ قرار دیتا ہے۔

    خدارا! اپنی اندھی عقیدتوں اور چاہتوں کو میعار نہ بنائیے۔ انھیں اپنے دماغوں سے نکال کر لوگوں کو پرکھیے، اس سے پہلے کے دیر ہوجائے۔ ہمیں شخصیات کو بنیاد بنانے کے بجائے شخصیات کو اسلام کی بنیاد پر پرکھنا ہے، ان کے اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ اسلام کی بنیاد پر کرنا ہے، جو حق اور باطل کا معیار ہے۔ جو کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنے والا ہے۔ اس لیے جو صحیح کرے، اسے صحیح کہو، جو غلط کرے اسے غلط کہو۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن مسلمان ان اندھی عقیدتوں کے پھیر سے باہر نکل آئے، اسی دن وہ یقینا منزل کی طرف جانے والے راستے کو پالیں گے ۔ان شااللہ

  • انٹروورٹ ہونا کوئی خامی نہیں ہے – سید راشد حسن

    انٹروورٹ ہونا کوئی خامی نہیں ہے – سید راشد حسن

    راشد حسن ’سر! بہت زیادہ لوگ کسی جگہ جمع ہوں یا کوئی فنکشن یا شادی وغیرہ ہو رہی ہو تو وہاں میرے دم سا گھٹنے لگ جاتا ہے۔ مجھ پر عجیب سی بیزاری طاری ہونے لگ جاتی ہے۔ دل وہاں سے بھاگنے کا کرنے لگتا ہے۔ کبھی فیملی میں کوئی سیر کا پروگرام بن رہا ہو یا کوئی دعوت وغیرہ پلان ہو رہی ہو تو میری پہلی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں مجھے شامل نہ ہی کیا جائے، میری اس عادت سے تو لوگ بہت ہی تنگ ہیں۔ مجھ سے زیادہ دوست بھی نہیں بنائے جاتے، نئے اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے تو میری جان جانے لگتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں ایسی کیوں ہوں؟۔‘

    ’تمھاری شخصیت بنیادی طور پر انٹروورٹ (introvert) ہے۔ اس طرح کی پرسنالٹی کے لوگ اپنی دنیا میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے تنہائی اور خود کی کمپنی وہی اکثیری حیثیت رکھتی ہے جیسے جاندار کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔ یہ لوگ بہت زیادہ سوشل ہونا افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ میل جول ان کی پرسنل کیمسٹری کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی دلچسپی زیادہ تر ان مشاغل تک محدود رہتی ہے جن میں کسی اور کا ساتھ نہ چاہیے ہو جیسے کتب بینی، کمپیوٹرگیمز یا دوسرے ان سے ملتے جلتے شوق ان کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ یہ اپنے سے مختلف (extroverts) کے مقابلے میں ہوتے کم تعداد میں ہیں لیکن پھر بھی ایک ریسرچ کے مطابق ہماری سوسائٹی کا ایک چوتھائی حصہ (introverts) پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے تمہاری یہ آدم بیزاری کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔‘

    ’سر ! لیکن یہ دنیا تو صرف (extroverts) کے لیے بنی ہے۔ یہاں وہی کامیاب ہے جس کو لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور بولنا چلنا آتا ہو، جو پراعتماد ہو جو کسی بھی محفل کو (energize) کر سکے۔ جس کی ٹانگیں نئے لوگوں اور سیچویشنز کو دیکھ کر نہ کانپیں۔ اپنے آپ میں گم رہنے والے تو بس ہمارے ہاں مذاق کا نشانہ ہی بنتے رہتے ہیں‘۔ اس کا پوائنٹ ویسے کوئی اتنا غلط بھی نہ تھا یہ درست ہے کہ ہماری بلکہ ہر جگہ کی سوسائٹی (extroverts) کے لیے زیادہ مطابقت (compatibility) رکھتی ہے۔ یہاں لوگوں میں اپنا زور بازو منوانے اور لیڈری چمکانے والوں کی ہی واہ واہ ہوتی ہے اور ہر جگہ ترقی کے دروازے ایسے لوگوں کے لیے زیادہ آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ دوسری جانب انٹروورٹس (introverts) کو ہر جگہ اپنے متلون مزاجی کی وجہ سے طعنہ ہی سننے کو ملتے ہیں۔ ان سب حقائق کے باوجود اس معاملہ کا ایک اور پہلو بھی اس کا بتانا ضروری تھا۔ ’اگر تمہارے پوائنٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیشتر جرائم، قانون شکنی اور اس طرح کے دوسرے قابل گرفت رویے بھی (extroverts) میں پائے جاتے ہیں۔ بری صحبت سے لے کر نشہ کا شکار بھی حد سے زیا دہ خود اعتماد اور رسک لینے والے لوگ کرتے ہیں۔ لوگوں میں نام بنانے کےلیے اس طرح کے لوگ پتہ نہیں کیا کیا بےوقوفیاں کر بیٹھتے ہیں اور کئی تو اپنی جان سے تک ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں انٹروورٹس اس طرح کے گڑھوں میں گرنے سے بچے رہتے ہیں اور ان میں اعتماد کی کمی اور گوشہ نشینی بہت سی مصیبتوں کو ان کے دروازے پر دستک دینے سے روکے رکھتی ہے۔ اس لیے انٹروورٹ ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے‘۔

    یہ بات سن کر کچھ دیر تو وہ خاموش رہی. پھر بولی ’سر ! میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری اس نیچر کو بنانے میں میرے والدین کا بھی اہم رول رہا ہے۔ میں ان سے اکثر شکایت کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے وہ چالاکی اور ہوشیاری نہیں سکھائی جس سے میں لوگوں کے اچھے، برے کو فیس کر سکو‘ ۔ میرے لیے اس کا یہ زاویہ نظر غیرمتوقع تھا، اس لیے میں اسے کریدتے ہوئے پوچھا کہ ’تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی کمی تھی؟ ان کی کوئی عادت یا واقعہ تم (corelate) کر سکتی ہو جس سے یہ اندازہ ہو کہ تمہاری یہ شکایت جائز ہے‘۔

    میرا یہ سوال سن کر کچھ دیر تو وہ سوچتی رہی پھر بولی کہ ’سر ! مجھے بچپن سے ایک شیل (shell) میں بند رہنے کی عادت ہے۔ میرے والدین نے کبھی اس شیل کو توڑنے کی کوشش نہیں کی، انھوں نے نہ تو دوسروں کی طرح میری تنہائی پسندی کو تنقید کا نشانہ بنایا نہ ہی میرے رشتہ داروں اور دوستوں سے کم ملنے جلنے پر زیا دہ اعتراض کیا۔ میرے بابا تو مجھے تحفہ بھی کتابوں کا دیتے رہے تاکہ مجھے دوستوں کی کمی محسوس نہ ہو اور میری اس طرح کی دوسری (one man army type) سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ مجھے شروع سے اپنے لیے کسی کو کچھ کہنے کی عادت نہیں تھی اس لیے میری ضرورتوں کا بن کہے خیال رکھا جاتا رہا۔ اور مجھے پرسنل سپیس جس طرح چاہیے ہوتی تھی وہ مجھے دینے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس وجہ سے میرے گرد قائم شیل مزید مضبوط ہوتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ میری (introvert) عادتیں مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔‘

    ’دیکھو! اولاد کی تربیت ایک مشکل کام ہے۔ یہ کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتی۔ لیکن میری رائے میں تمھارے والدین نے درست طریقے سے اپنی بیٹی کو ہینڈل کیا ہے۔ یہ تو ایک طے شدہ سائنٹفیک فیکٹ ہے کہ انٹروورٹ ہوناایک پیدائشی صفت ہے اور وقت، ماحول اور کوشش کے ساتھ اس کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اس طرح کے افراد کو اگر بہت زیادہ ناموافق ماحول ملے تو وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تمھیں تو اپنے والدین کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے تمہارے مزاج کو شروع میں ہی بھانپ کر اس کو بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے تمہیں ایڈجسٹ ہونے کا موقع دیا ورنہ دوسری صورت میں کوئی بھی ری ایکشن تمہیں عدم توزان سے بھی دوچار کر سکتا تھا۔ اگر باقی لوگوں کی طرح وہ بھی تمہارے انٹروورٹ شیل کوتوڑنے میں لگ جاتے تو تم بہت مشکل میں پڑ سکتی تھیں۔

    اصل میں مسئلہ نہ تمھارا مزاج ہے، نہ تمھاری تربیت اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی تمھاری بارے میں رائے ہے۔ ایشو اپنی ذات کے بارے میں تمھاری منفی سوچ ہے۔ دیکھو! اگر انٹروورٹ ہونا کوئی برائی یا خامی ہوتی، آئزک نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے بیشتر سائنسدان اور فلاسفر اپنی اس کمزوری کی وجہ سے دنیا کو تبدیل نہ کر پاتے۔ تم بھی جب تک اپنے آپ کو یہ نہیں سمجھا پائو گی کہ تم نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنی ہے، اس وقت تک دنیا کو تبدیل کرنا تو کجا تمھاری اپنی زندگی عذاب میں رہے گی۔ جس طرح تمھارے والدین نے تمہیں (accept) کیا اور تمھیں اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی، اسی طرح اب تمہھں اپنے آپ کو جیسی تم ہو (accept) کرنا ہوگا۔ ورنہ میں ایسی کیوں ہوں؟ کا خطرناک سوال اور اپنے آپ سے مایوسی ایک دن تمہاری وجودکی جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور تمہاری ساری انرجی چوس کر تمھیں ڈیپریشن کا مریض بنا دے گی۔ اس لیے اپنے آپ سے خوش رہنا اور اپنی طبعیت کے مطابق ایڈجسٹ ہونا جتنا جلدی سیکھ لوگی اتنا تمھارے لیے بہتر ہوگا۔