Tag: شاگرد

  • استاد کی تذلیل….-رؤف کلاسرہ

    استاد کی تذلیل….-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    میرا چھوٹا بیٹا سکول سے لوٹا‘ تو منہ لٹکا ہوا تھا۔ افسردہ دیکھ کر میں نے اسے پاس بلا کربٹھایا اور وجہ پوچھی ۔وہ بولا بابا بہت برا ہوا۔ ایک لڑکے کو کل اردو کی میڈم نے ہلکی سے چماٹ لگا دی تھی۔ سکول میں اس کا ایک دوست موبائل فون پر سیلفیاں بنا رہا تھا اور میڈیم اسے لے کر پرنسپل کے پاس جارہی تھی کہ اس لڑکے نے میڈیم کو روکا کہ کیوں اس کے دوست کو لے کر جارہی ہیں۔ اس پر میڈیم نے اسے گال پر ہلکاسے تھپڑ لگا دیا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو۔

    وہ اگلے دن اپنے باپ کو لے آیا ۔ اس کا باپ مشہور آدمی اورنواز شریف حکومت میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے سکول میں رولا ڈال دیا۔ آخر میں میڈم کو اس کے بیٹے سے معافی مانگنی پڑی۔
    میرا بیٹا بولا ایسے نہیں ہونا چاہیے تھے۔
    مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ میرا یہ بیٹا خود اسی میڈم سے دو دفعہ تھپڑ کھا چکا تھا ۔

    مجھے یاد آیا پچھلے سال میرے بڑے بیٹے کو اسی میڈم نے ایک تھپڑ مارا تھا۔ وہ گھر لوٹا تو مسکراتے ہوئے بولاآج میڈیم نے مجھے مارا ہے۔ میں نے کہا بیٹا خوش قسمت ہو ۔ استاد کا تھپڑ آگے لے جاتا ہے۔وہ فوراً بولا نہیں بابا وہ اچھی ہیں۔ میں نے تو ویسے ہی آپ کو کہا ہے۔ اسی استاد اور اس کے تھپڑ کی وجہ سے میرے بیٹے کا اس سال او لیول میں اسی مضمون میں اے گریڈ آیا۔ اب چھوٹا بیٹا بھی ان کے پاس پڑھتا ہے۔ اسے بھی دو دفعہ گالوں پر ہلکا سا تھپڑ پڑ چکا ہے۔وہ ہر دفعہ آکر بتاتا ہے اور مسکراتا ہے۔ میں نے کہا شرمندہ ہونے کی بجائے مسکراتے ہو۔

    بائی چانس چار دن قبل اسی میڈیم سے ملاقات ہوگئی۔ میرا چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا ۔ وہ کہنے لگیں یہ محنت نہیں کررہا۔ میں نے کہا میڈم آپ نے پچھلے سال بڑے بیٹے کو ایک تھپڑ مارا تھا وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اس نے اے گریڈ لیا۔ ایک آدھ اس کو بھی جڑ دیں تو شاید اس کے نصیب بدل جائیں…وہ بولیں آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟ میں نے کہا‘ کیا پچھلے سال میں کوئی احتجاج کرنے آیا تھا ؟ میں نے کہا یہ شکر کریں کہ آپ لوگ گالوں پر ہلکا پھلکا تھپڑ جڑ دیتی ہیں۔ میں گائوں سے آیا ہوں وہاں تو سارے گائوں والے استاد سے منت ترلے کر کے ہم بچوں کو سزا سے بچاتے تھے ورنہ استاد کا جب تک دل چاہتا کان پکڑا کر چھترول کرتا۔ میں خود کئی دفعہ استادوں کے ہاتھوں پٹ چکا ہوں۔ میں نے ہتھیلی آگے کر کے کہا ان ہاتھوں پر کئی دفعہ ڈنڈے کھائے ہیں اور ایسی کئی جگہوں پر ڈنڈے کھائے ہیں جن کا بتایا تک نہیں جاسکتا….وہ ہنس پڑیں۔میرے دونوں بچے حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ ان کا باپ بھی استادوں سے پٹتا رہا ہے۔

    تشدد اور گالوں پر ہلکا تھپڑ مارنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے دور میں تو باقاعدہ بچوں پر تشدد ہوتا تھا جو کہ غلط تھا۔ مجھے خود یاد ہے کہ خوف کے مارے میں سکول جانے سے گھبراتا تھا ۔ یہ درست ہے کہ بچوں پر سکول میں تشدد نہیں ہونا چاہیے اور آج کے جدید سکول تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ ڈنڈا لے کر پہنچ جاتے ہیں۔

    مجھے اپنے لندن میں مقیم دوست شعیب کی بیگم عالیہ کی ایک بات یاد آئی۔ دو ہزار گیارہ کے لندن میں فسادات کے بعد پولیس نے والدین کو کہا کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں کیونکہ یہ بگڑ گئے ہیں۔ اس پر عالیہ نے خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ پہلے ہمیں کہا گیا کسی نے بچے پر سختی کی تو بچہ چھین لیا جائے گا۔ سکولوں میں بچوں کو کہا گیا گھر پر اگر کوئی سختی کرے تو پولیس کو رپورٹ کرو اور اب وہی پولیس کہتی ہے کہ بچوں پر سختی کرو کیونکہ وہ فسادات کررہے ہیں۔

    بچوں کو کچھ نہیں کہنے والے کلچر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسلام آباد کے کچھ سکولوں کے بارے میںمشہور ہے وہاں آٹھویں سے لے کر دسویں یا اے لیول تک کچھ بچے کھلے عام سگریٹ پیتے اور دیگر نشہ کرتے ہیں کیونکہ استادوں سے والدین نے جرأت چھین لی ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو کسی غلط بات پر منع کر سکیں یا اسے ہلکی پھلکی سزا دے سکیں۔

    کچھ سال قبل میرے چھوٹے بیٹے نے جس کی عمر اس وقت بمشکل آٹھ برس ہوگی مجھے کہا کہ بابا ہمارا گینگ ہے۔ میں نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ بولا، کل ہمارے ایک دوست کو کچھ لڑکوں نے مارا تھا۔ آج ہم دوستوں نے انہیں مارا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم اکٹھے لڑیں گے۔ یہ وہی سکول ہے جہاں بچے کچھ بھی کرتے رہیں استاد انہیں روک نہیں سکتے۔ میں نے اسی دن اپنے بیٹے کو سکول سے نکال کر موجودہ سکول میں ڈال دیا جس کا پڑھائی کے علاوہ ڈسپلن بہت اچھا ہے۔ یہاں کسی گینگ کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا ۔

    کبھی کلچر ہوتا تھا لوگ کسی کے بچے کو غلط کام کرتے دیکھ کر اسے روکتے تھے اور بچہ بھی رک جاتا تھا۔ ڈر جاتا تھا کہ اگر اس کی شکایت لگ گئی تو گھر والے اور ڈانٹیں گے۔ وہ بچہ پورے گائوں کا بچہ ہوتا تھا۔ گائوں کا بڑا جب چاہے اس کو روک سکتا تھا۔ اسے سزا بھی دے سکتا تھا۔ اور پھر اچانک ماحول بدلنا شروع ہوا اور پڑھی لکھی مائوں اور ان کے باپ نے نیا دستور اپنا لیا کہ ہمارے بچہ کچھ بھی کرتا ہو تم کون ہوتے ہو اسے روکنے والے۔ میں نے اپنی بیوی کو سختی سے کہا ہوا تھا کہ ہمارے بچوں کو اگر کوئی بڑا روکے اور اگر کچھ سخت کہہ بھی دے تو کبھی ان کے گھر جا کر مت لڑنا۔ یقینا ہمار بچہ کوئی غلط کام کررہا ہوگا جس پر اس نے روکا ہوگا۔

    کچھ عرصہ قبل میں جہاں رہتا تھا وہاں ایک بارہ سالہ بچے نے گاڑی چلانا شروع کردی۔ اس کا باپ فخر سے گاڑی اسے سکھا رہا تھا۔ ایک دن بچہ خود تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے اسے روک کر منع کیا اور کہا‘ بیٹا پہلے تو تمہیں اس عمر میں گاڑی نہیں چلانی چاہیے کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ دوسرے اتنی تیز چلا رہے ہو۔ بولا، آپ کو کیا۔میرے بابا نے اجازت دے رکھی ہے ا ٓپ کیوں روک رہے ہیں۔ میں نے کہا بیٹا کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمرکے ہو۔تمہیں اگر تکلیف پہنچی تو مجھے پریشانی ہو گی ۔دوسرے دن اس کا باپ ملا تو وہ ناراض ہونے لگا ۔ میں نے کہا بات سنیں آپ کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ آپ الٹا ناراض ہورہے ہیں۔ اپ کیسے باپ ہیں جو بچے کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ وہ بولا وہ بہت اچھا ڈرائیور ہے۔ میںنے کہا وہ معاشرے بیوقوف ہیں جنہوں نے ڈرائیونگ کی عمر اٹھارہ برس رکھی ہے؟ اپ زیادہ سمجھدار نکلے ہیں اور اس عمر کو بارہ سال کر دیا ہے۔ ڈرائیونگ کوئی کھیل نہیں ہے۔ میں کئی واقعات جانتا ہوں جب اس طرح بچے گاڑیاں لے کر دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور اکثر حادثے ہوتے ہیں کیونکہ ڈرائیونگ میں فوری فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، حاضر دماغی چاہیے ہوتی ہے، اور سب سے بڑا کر جذباتی ٹھہرائو کی ضرورت ہے جو بارہ سالہ بچے میں نہیں پائی جاتی لہٰذا عمرا اٹھارہ برس کی گئی ہے۔ ایک آپ ہیں کہ آپ الٹا مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ اپنے ایک دوست کا بتایا جس کا اکلوتا بیٹا اپنے باپ کی گاڑی لے کر دوستوں کے ساتھ نکل گیا۔ دریا پر نہانے گیا اور ڈوب گیا۔ میں باپ سے تعزیت کرنے گیا تو وہ بولا‘ میں نے لاڈ میں بچے کو کم عمری میں گاڑی چلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ زارو قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا غلطی ہوگئی۔

    اس میڈیم سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔ اسے کیا پڑی ہے کہ وہ امیروں کے بچوں کو تمیز اور سلیقہ سکھانے کی کوشش کرے۔ اگر اگلے دن میں نے سکول جا کر اس سے پورے سکول کے سامنے اپنے بیٹے سے معافی منگوانی ہے تووہ کیوں میرے بچے پر سختی کرے۔ وہ کیوں خیال کرے میرے بچے کو تمیز اور آداب کا پتہ ہو۔ اسے پتہ ہو کہ استاد کو کیسے احترام دکھانا ہے۔ اگر اس پر سختی نہ کی تو وہ شاید تعلیم میں پیچھے رہ جائے۔ایک ہلکا سا گال پر تھپڑ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
    تشدد اور اس ہلکے پھلکے تھپڑ میں ہم تمیز نہیں کرسکتے۔؟

    مجھے اپنے گائوں کے سکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک کے استاد یاد آئے۔ جن کے فیض کے بقول یہاں تک پہنچا ہوں۔کہیں سے پیار تو کہیں سے مار ملی لیکن ان سب کا مقصد میری بھلائی تھا ۔ کہاں گئے رومی جیسے عظیم شاگرد جو اپنے گرو شمس تبریز کے حکم پر ایک شراب خانے پر قطار میں لگ کر کھڑے تھے کہ رومی کی انا توڑنا مقصود تھا یا پھر رومی کے گھر جب ایک طوائف شمس تبریز سے ملنے آئی تھی تو ہر کوئی کانپ گیا تھا ۔ رومی کے گھروالوں نے کہا ایک طوائف اور رومی کے گھر کی چھت کے نیچے؟

    نیلے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بے نیاز شمس بولا تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے بھی تو ہم سب ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں؟
    رومی کا بیٹا ناراض ہوگیا تھا لیکن کیا رومی اپنے استاد کو ناں کر سکا۔محبت کے چالیس لازوال اصولوں نے ایسے ہی جنم نہیں لے لیا تھا۔رومی کو اپنے استاد شمس کے کئی امتحان پاس کرنے پڑے تھے۔ آج کے بچے تو استادوں سے ہی معافی منگواکر فخر کرتے ہیں!

    سقراط کو بڑا آدمی اس کے شاگرد افلاطون نے بنایا تھا۔افلاطون اگر اپنے استاد کے آخری دنوں کی داستان نہ لکھتا تو آج سقراط کو کون جانتا؟
    کہاں گئے عباسی بادشاہ ہارون الرشید کے بچوں جیسے شاگرد جن کے بارے میں سنا تھا کہ وہ دونوں بھائی ایک دن اس بات پر ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے کہ آج اپنے استاد کے سامنے جوتی پائوں میں کون رکھے گا !کہاں گئے ایسے استاد اور ایسے شاگرد؟ شاید وقت کے صحرا کی پرانی دُھول نے سب کچھ چاٹ لیا !

  • عہدِ حاضر کا استاد، ایک جائزہ – غلام نبی مدنی

    عہدِ حاضر کا استاد، ایک جائزہ – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی استاد، معلم اور (teacher) معاشرے میں اس عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے، جو معاشروں کی بنیادوں، قوموں کی جڑوں، ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں اور نظام عالم کی بقا میں بنیادی اور مرکزی کردار اد ا کرتا ہے اور انہیں گھن لگنے سے بچاتا ہے۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات کا نام نہیں ہوتا بلکہ پورا ایک جہان ہوتا ہے، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ متعلق (connect) ہوتے ہیں۔ استاد کی محنت، لگن، شوق، امانت، دیانت، راست بازی، نیک نیتی کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا دائرہ کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر انسان استاد کے بغیر کامل انسان بن سکتا ہے، نہ دنیا کی رنگینیوں میں بےمثال اور بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو ہرگز ہرگز مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ استاد ہی دنیا میں وہ عظیم ہستی ہے جس کی بقاء تا قیامت رہتی ہے۔

    استاد کی عظمت ایک ایسا موضوع ہے جس کا کماحقہ ادارک کرنا شاید چند صفحات اور الفاظ میں ناممکن ہو۔ ہمارا موضوع عہدِ حاضر کے استاد کا جائزہ لینا ہے۔ ظاہر بات ہے کسی بھی چیز یا شخص کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس چیز یا شخص کےماضی، حال، مقابلہ کرنے والے افراد یا اشیاء اور اس کے ثمرات ومضمرات اور فوائد پر غور وخوض کرنا بہت ضرور ی ہوتا ہے۔ اس لیے ہم عہدِ حاضر کے استاد کا مکمل جائزہ لینے کے لیے درج ذیل سات قسم کی مباحث کا سہارا لیں گے ۔
    (1) استاد کی اہمیت قرآن و حدیث کی زبانی
    (2) استادکے اوصاف اور ذمہ داریاں
    (3) ماضی کا استاد
    (4) عہدحاضر کا استاد، ذمہ داریاں اور کوتاہیاں
    (5) عہد حاضر کا استاد کیسا ہو؟

    (1) استاد کی اہمیت بزبان ِقرآن و حدیث
    استاد اور معلم کی ہستی کس قدر عظیم خصوصیات کی حامل ہے، اس کااندزاہ درج ذیل ارشادات باری و محبوب ِربانی ﷺ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ارشاد ِباری ہے کہ:
    حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں پاک صاف کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ (اٰل عمران:164)
    اللہ کایہ فرمان کائنات کے عظیم معلم حضور ﷺ کی شان ذی جلال کو واضح کرنے لیے کافی ہے۔ دنیا کے عظیم معلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ نے خود اپنے بارے میں ارشافرمایا کہ: [pullquote]”انما بعثت معلماً”(بخاری ومسلم)[/pullquote]

    یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
    آپ ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تعلیم و تعلم کی بھی تھی۔ چنانچہ مذکورہ ارشاد اسی ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے۔ آپ ﷺ نے دیگر ذمہ داریوں کی طرح تعلیم وتعلم والی اس اہم ذمہ داری کو بھی بااحسن انداز میں نبھایا۔ کسی بھی معلم کی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے اس کے شاگردوں کو جانچا جاتا ہے۔ اگرآپﷺ کی بحثیت معلم ہونے کی حسن کارکردگی کو جانچنا ہو تو آپ کے عظیم شاگردوں کو دیکھ لیا جائے۔ کس طرح آپ ﷺ نے جہالت و ظلمت میں ڈوبے ہوئے صحرا نشینوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے آئیڈیل اور ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ آج بھی دنیا کے ہر استاد کے لیے آپ ﷺ بطور معلم ایک بہترین آئیڈیل اور مثالی شخصیت ہیں۔

    قرآن و حدیث کے علاوہ صحابہ کرام اور اسلاف امت کے اقوال سے بھی استاد کی اہمیت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔
    • حضرت علی کا فرمان ہے: جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں،چاہے وہ مجھے بیچے،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔
    • حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے: عالم کا مقام اپنی قوم میں ایسا ہی ہے جیسے نبی ﷺ کا امت میں، اور آپﷺ کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا ”اگر یہ اس وقت تک صبر کرتے جب تک آپ خود باہر نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا.“ (الحجرات:5)۔
    • حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کبھی بھی اپنے استاد امام حماد کے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہ سوتے ۔ اور آپ اپنے استاد کے بیٹے کے ادب کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
    • امام ربیع ؒ کا قول ہے کہ مجھے کبھی اپنے استاد امام شافعی ؒ کے سامنے پانی پینے کی جرات نہ ہوئی۔
    (آداب المعلمین)
    • حضرت علامہ اقبالؒ کے بارے میں یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ جب انہیں ”سر“ کا خطاب دیا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک ان کے استاد سید میرحسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب نہیں دیا جاتا وہ اپنے لیے یہ خطاب قبول نہیں کرسکتے۔
    یہ علم اور استاد کی اہمیت ہی تو تھی کہ جس کی وجہ سے حضرت علی، ابن عباس رضی اللہ عنہما، امام ابوحنیفہ ؒ، امام ربیعؒ اور علامہ اقبالؒ جیسی عظیم ہستیوں نے اپنے اعمال و اقوال سے اسوہ حسنہ پیش کیا۔

    (2) استاد کے اوصاف اورذمہ داریاں
    منصب ِاستاد کی عظمت اوراہمیت جس قدر بلند ہے، اسی قدر اس منصب پر فائز ہونے والے شخص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک استاد اور معلم کے لیےحضور ﷺ کی ذات گرامی آئیڈیل ہے اسی طرح ہر شاگرد کے لیے اپنا استاد آئیڈیل ہوتا ہے۔ اور جو شخصیت جس قدر مثالی یا آئیڈیل ہوگی اس پر ذمہ داریاں بھی اتنی ہی سخت عائد ہوں گی۔ ذیل میں ایک استاد کے اوصافِ حمیدہ اور ذمہ داریاں بیان کی جا رہی ہیں۔
     استاد میں حرص کا مادہ ہونا چاہیے، یعنی اپنے طلبہ کی بھلائی کے لیے خیرخواہی کے جذبے سے سرشار ہو۔ جوچیز طلبہ کے لیے مفید ہو اس کو فوراً بتادے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ایک صفت ”حریص“ بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے ”تمہاری طرف ایک رسول آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے“(توبۃ:128)۔
     استاد کو شفیق، مہربان اور نرم ہوناچاہیے کیوں کہ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ نرم ہیں اور اپنے تمام معاملے میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں“ (بخاری،رقم:6927)۔ اسی طرح حضرت انس جوآپﷺ کے خادم خاص تھے، ان کا ارشاد ہے کہ ”میں نے آپﷺ کی نوسال خدمت کی، کبھی آپ نے کسی کام کے متعلق جس کو میں نے کیا، نہ یہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہ کیا“(مسلم،2310)
     استاد کو عاجزی اور تواضع والے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے کیوں کہ عاجزی ہی وہ عظیم صفت ہے جو انسان کو کمال عطا کرتی ہے۔ ورنہ اس کے بالمقابل تکبر انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ چناچہ اسی تکبر کی وجہ سے شیطان مردود ہوا۔
     استاد کے اندر وسعت ِقلبی اور کشادہ دلی کا مادہ ہونا چاہیے کیوں کہ استاد جس قدر وسیع ظرف کاحامل ہوگا، طلبہ کا میلان اسی قدر زیادہ ہوگا۔ یوں طلبہ اپنے تمام معاملات اپنے استاد سے شئیر (share) کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ آپﷺ کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی۔ چنانچہ آپﷺ سے صحابہ کرام ہر قسم کے سوالات بلاتامل کرسکتے تھے۔
     استاد کو طلبہ کے سوالات کا نرمی سے جواب دینا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑ ے تو کسی بھی مسئلہ کے تمام تر پہلوؤں کو بیان کر دینا چاہیے، تاکہ طلبہ کو تشفی ہوجائے۔
     اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو محض اندازے سےبیان نہ کرے، بلکہ یا تو معذرت کرلے یا آئندہ بتانے کا وعدہ کرلے۔ امام مالک ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب ان سے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا جس کا ان کو علم نہ ہوتا تو وہ لاادری (مجھے معلوم نہیں ہے) فرمادیتے۔
     استاد کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو اس کی شخصیت یا اس کے کردار کو داغدار کرے کیوں کہ طلبہ استاد کے ہر بات اور عمل سے اثر پکڑتے ہیں۔
     استاد کے قول وعمل میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔
     استاد کو تعصب، بد دیانتی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، سستی، کام چوری، لسانیت، خیانت، غفلت اور رشوت جیسی بری عادات سے مبرا ہوناچاہیے۔
     استاد کو خلوص نیت، ایمانداری، نیک نیتی سے اپنا فرض منصبی نبھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ، لالچ، ڈر خوف سے متاثر ہوئے بغیر استغنا کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

    (3) ماضی کا استاد
    اکیسویں صدی کے اس دور کو سائنسی اور تعلیمی دور کہا جاتا ہے کیوں کہ تعلیم نے جس سبک رفتاری سے ترقی بیسویں اور اکیسویں صدی میں کی، اس کی نظیر ماضی میں ملنا مشکل ہے۔ اسی ترقی کی بدولت آج انسانوں کو ایسی ایسی سہولیات ملیں، جن کاتصور ماضی میں نہیں تھا۔ لیکن مقام ِتعجب یہ ہے کہ آسانیوں اور راحتوں کے باوجود آج انسانیت جس ذہنی اضطراب اور بےچینی میں مبتلا ہے، شاید اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو؟ اگر ہم ماضی اور حال کا موازنہ کرکے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے ماضی کو اتنی مشکلات کے باوجود سکون اور اطمینان بخشے رکھا اور حال کو وافر مقدار میں سہولیات کےباوجود بے چینی اور اضطراب سے دوچار کیا؟ تو ہمیں وہ چیز تعلیم وتعلم اور معلم کی نظر آئی گی۔

    ماضی میں اگرچہ تعلیم وتعلم کے وسائل اتنے زیادہ نہ تھے، لیکن مخلص معلمین اور اساتذہ موجود تھے۔ جو اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ علم کی نشرواشاعت کرتےتھے۔ یہی وہ عظیم معلم تھے جن کی ہر بات پر لوگ بلاچوں چراں سر تسلیم خم کر لیتے تھے۔ یہی وہ اساتذہ تھے جن کی قدر و منزلت حاکم سے بھی زیادہ تھی۔ ماضی کے اس عظیم استاد کی تاثیر صرف علم کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ان اوصاف کی بدولت تھی جن کا ذکر ماقبل میں گزرا۔ ماضی کے عظیم اساتذہ کی عظمت کے لیےاتنا کافی ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد بھی اسلامی علوم وحدیث محفوظ ہیں۔

    (4) عہدِ حاضر کا استاد
    اگر ہم مذکورہ تین بحثوں کو سامنے رکھ کر عہدِ حاضر کے استاد کا موازنہ کریں تو ہم دم بخود رہ جائیں۔ تعلیمی وسائل کی بہتات کے باوجود آج ہمارے ہاں ایسی کھیپ تیار نہیں ہو رہی جس سے ملک و ملت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیم کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل کی کثرت سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوجاتا۔اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اقدار کو چار چاند لگ جاتے۔ راحتیں، امن وسکون، امانت، دیانت، محبت، الفت اور بھائی چارگی کی پر سکون فضا اور ماحول بن جاتا اور پوری قوم نہ صرف مہذب بن جاتی، بلکہ اقوام ِعالم کی قیادت و سیادت کے لیے فیورٹ بن جاتی۔ لیکن افسوس! یہ سہانے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بجائے محض خواب اور ماضی کی قصے کہانیاں بنتے جا رہے ہیں۔

    اگر ہم اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بننے والے اسباب تلاش کریں تو بنیادی سبب قوم کے معماروں کی عدم توجہ اور غفلت کا نظر آئے گا۔ اس لیے ذیل میں عہدِحاضر کے معماروں کی کوتاہیاں اور ذمہ داریاں بیان کی جاتی ہیں، تاکہ قوم کی عمارت مضبوط بن سکے۔

    کوتاہیاں اور ذمہ داریاں:
    جہاں تک عہدِحاضر کی استاد کی کوتاہیوں کا تعلق ہے تو ا س سلسلے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آج کا استاد مقام ِاستاد اور عظمت ِاستاد کو فراموش کر کے مادیت اور دنیا کی چکا چوند کا اسیر ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے استاد کی دوڑ دھوپ پیسے کے حصول کے لیے بنتی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معاشرے میں آج بھی استاد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ عزت ذات ِاستاد کی نہیں بلکہ منصب استاد کی کی جاتی ہے۔ جہاں تک استاد کے احترام کا تعلق ہے وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی طرف سے اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے عہدِ حاضر کے استاد کو ذکر کردہ اوصافِ حمیدہ اور ذمہ داریوں پر فوری طور پر عمل کرنا ہوگا، تاکہ قوم کے حقیقی سرمائے (نوجوانوں) کوضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور ملک کو خوشحال بنایا جا سکے۔

    (5) عہدِ حاضر کا استاد کیسا ہو؟
    پاکستان میں سرکاری اور پرائیوٹ طرز کے تعلیمی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ پرائیوٹ اداروں میں تعلیمی عمل کسی حد تک حوصلہ افزا ہے لیکن سرکاری اداروں میں تعلیم کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ملک کے زیادہ تر بچے انہی اداروں سے تحصیل علم کرتے ہیں. سرکاری اداروں کی حوصلہ شکن کارکردگی کی وجہ سے آئے روز مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ان اداروں کی خراب کارکردگی کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ سرکاری تعلیمی اداروں میں منصب ِاستاد پر فائز افراد کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت کافقدان اور اوصاف ِحمیدہ سے عاری ہونا ہے۔

    سرکاری اداروں میں منصبِ استاد پرفائز اساتذہ کی تعلیمی صلاحیت کا اندازہ 2014ء کی رپورٹ سے لگایاجاسکتا ہے جس کے مطابق سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 6 لاکھ 78 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سےصرف 2.7 فیصد یعنی 18 ہزار 820 اساتذہ کی تعلیمی قابلیت مڈل ہے۔
    سرکاری اداروں میں تعلیمی معیار بہتر بنانے اور عہدِ حاضر کے استاد کو مثالی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے درج ذیل طریقوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔
    • قابلیت اور میرٹ کے پیمانے پر پورا اترنے والے شخص کو منصب ِاستاد پر فائز کرنا چاہیے۔
    • اساتذہ کو اوصاف ِحمیدہ اور ذمہ داریوں سےمکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے خصوصی ٹریننگ سنٹرز ( جن میں تدریس کے ٹیکنیکل طریقوں کے علاوہ اخلاقیات اور سیرت طیبہ ﷺ کی تعلیم بھی دی جائے) کو فعال کرنا چاہیے۔
    • کائنات کے عظیم استادآپﷺ ہیں، اس لیے عہدِ حاضر کے استاد کو اپنا آئیڈیل آقاﷺ کو بنانا چاہیے اور آپ کے بتائے ہوئے طریقوں اور افعال کے مطابق نسل ِنو کی تربیت کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے اس کے لیے آپﷺ کی سیرت کو پڑھنا پڑے گا۔ اس لیے اس ذمہ داری کو حکومتی سطح پر ادا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنے چاہییں۔
    • حکومت کوآئے روز ،گلی محلوں میں کھلنے والے اسکولوں اور اکیڈمیوں کے لیے ایک خاص (criteria) مقرر کرنا چاہیے تاکہ تعلیم کے نام پر ہر شخص قوم کے سرمائے (نوجوانوں) کو لوٹنے کی ہمت نہ کرسکے۔
    • موجودہ پرائیوٹ اور سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے حکومتی سطح پر ایک فورس تشکیل دینی چاہیے، جو ماہواری یا سالانہ کی رپورٹ سے اساتذہ کی کارکردگیوں کو جانچے اور غفلت کے مرتکب اساتذہ کی پڑتال کر کے قانونی طور پر کارروائی کرے۔

    اگران بنیادی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر عہدِ حاضر کے استاد کا انتخاب کیا جائے تو بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔

  • شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے – مولوی انوار حیدر

    شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے – مولوی انوار حیدر

    مولوی انوار حیدر شاگرد: فرض کریں آپ کا واجب الادا ایک ہزار روپیہ میں نے ادا کردیا ہے۔
    استاد: ٹھیک ہے، کرلیا فرض، تو؟
    شاگرد: تو جائیے یہاں کیوں کھڑے ہیں۔

    ایسا ہی آج کل کے خودساختہ دانشور کرتے ہیں۔ فرضی کہانیاں اور خیالی باتیں، نہ بنیاد نہ بِیم مگر چھت ڈال دی جاتی ہے، جیسا کہ
    √ شاگرد نے فرض کرلیا کہ پاکستانیوں کے نزدیک دوقومی نظریہ کی بقا جنگ و جدل پہ ہی منحصر ہے لہذا جنگِ مسلسل لازم ہے اور ہندوستان سے ہمسائیگی مفاہمت، رواداری اور صلح جوئی کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ دوقومی نظریہ کی ایسی تشریح ہم نے کسی استاد سے سنی نہ کہیں پڑھی۔ دینِ فطرت کے وسیع تر نظامِ سیاست و معاشرت کو یکسر نظرانداز کرکے مسلمانوں کے دوقومی نظریہ کو جنگ و جدال سے تعبیر کرنا کسی ایسے شاگرد کا ہی کمال ہوسکتا ہے۔

    √ شاگرد نے فرض کرلیا کہ ہندو نے بغل سے بت اور چھری دونوں نکال پھینکے ہیں، لہذا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک کی نجاست ختم ہوئی اور ہندو مسلم جپھی ڈالنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی حالانکہ ہندو کی کمینگی روزِ روشن کی طرح آج بھی عیاں ہے. ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں اقلیتوں پہ جاری مظالم ہندو سفاکیت کی کھلی دلیل ہے۔

    √ شاگرد نے فرض کرلیا کہ معرفتِ ایمانی اٹھالی گئی ہے۔ نمک حرام کا تعیُّن کرنے کی کوئی دلیل نہیں، بےشک بار بار دھوکہ کھاتے جائو مگر سانپ پالتے جائو۔

    √ شاگرد نے فرض کرلیا کہ سورة المنافقون منسوخ ہوچکی ہے لہٰذا ناصبی، خارجی اور رافضی فرقوں کا تصور چھوڑدیں۔

    √شاگرد نے فرض کرلیا کہ ایران محبت و مفاہمت کا علمبردار ہے، لہٰذا خلافتِ راشدہ کے آخری ایام سے شروع کیا گیا فارسی تقویم کا کیلنڈر، ہر مسلم خلافت سے بغاوت کی روِش، زمانہ ماضی میں علاقائی مسلم حکومتوں سے چھیڑخانی اور فی زمانہ پاکستان، افغانستان، عراق، شام، یمن، سعودیہ، بحرین، لبنان میں خفیہ و اعلانیہ سازشیں، اور فوجی آپریشنز اولمپک گیمز سمجھ کے قبول کرلیے جائیں، اِس فرض آرائی میں شاگرد اپنا دو دن قبل کا کمنٹ بھول گیا کہ القاعدہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور ایران اُس کا بہرحال حمایتی ہے۔

    √ شاگرد کی دانش وری عروج پہ پہنچتی ہے اور بدلتے بگڑتے فوری حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی جانب سے کفار سے کیے گئے جزوقتی معاہدہ جات کو بنیاد بناکر شاگرد کلامِ الٰہی کی نص پہ طنزیہ سوال زن ہوتا ہے کہ یہودونصاری سے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے، یہ تو موضوعِ ممنوع ہے اور اِس پہ بات کرنا کفر ہے، شاگرد یہاں طنز کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ مسلمانوں کی یہود و نصاری سے حادثاتی اور عارضی مفاہمت اُن کا معاون بننے کے لیے نہیں ہے بلکہ انتہائی ضرورت کے وقت اپنا کام نکالنے کےلیے ہے، اسے ڈپلومیسی کا ایک خاص پہلو کہا جا سکتا ہے،
    جی جی اسلام میں صرف ادائیگی عبادات نہیں ہے، حکمت بھی ہے، مفاہمت بھی ہے، سیاست بھی ہے۔

    √ شاگرد نے فرض کرلیا کہ استاد انڈیا سے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات کے باعث سعودی عرب کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، یہاں شاگرد فراموش کرگیا کہ سعودی عرب کی مضبوط معیشت اور اقتصادی استحکام حقیقتاً مسلمانوں کے لیے ہی مفید ہے، مودی کو دیے گئے ایک میڈل کی کھنکناہٹ میں شاگرد یہ بات گول کرگیا کہ بےشک ہندوستانی لیبر سعودی عرب میں ہے لیکن وہاں سے مالی امداد مسلم ممالک کو ہی بھیجی جاتی ہے۔

    √ کسی ایک عالِم کی بعض کتب پر پابندی کو شاگرد اسلامی اخوت کے خاتمے کی ازخود بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے جبکہ وہاں بعض کتب پر پابندی اس سے پہلے بھی لگتی رہی ہے،

    √ شاگرد حکومتِ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کے اثرات کو وحدتِ امت کی کمزوری بتاتا ہے، کشمیر کے لیے دعا نہ کیے جانے کا طنز کرتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ حرمین شریفین کی پاسبانی اب بھی ہمارے ذمہ ہے، نیز شاگرد یہ فراموش کرجاتا ہے کہ سعودیی عرب سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی مسلکی کتب کی وجہ سے نہیں بلکہ حرمین شریفین کی نسبت سے ہے۔

    √ یہود و نصاری سے روایتی مذہبی اختلاف ملحوظ رکھو تو شاگرد کا دم گُھٹتا ہے اور وہ اشارتاً نصِّ قرآنی پہ سوال زن ہوجاتا ہے، اگر یہود و نصاری مثلاً امریکہ و اسرائیل سے مسلمان سفارتی تعلقات جوڑ لیں تو شاگرد لطیفہ بازی پر آجاتا ہے، شاگرد دونوں مقام پر یہ بات فراموش کردیتا ہے کہ نہ تو ہر وقت جنگ جاری رہتی ہے اور نہ ہی سیاسی سفارتی تعلقات دائمی ہوتے ہیں۔

    √ دریائے آمو میں سرخ ریچھ کے ڈوبنے سے شاگرد بِلبلا اٹھتا ہے اور خاتونِ مِصر کی طرح واویلا مچادیتا ہے، شاگرد تاریخ کو جبل السراج کی پہاڑیوں میں پھینک آتا ہے، چھپانا چاہتا ہے کہ سوویت یونین نے قریبی مسلم ممالک میں کتنا ظلم ڈھایا تھا اور اُس کے فرسودہ فکری دستور نے کتنے خستہ حال مسلمانوں کا ذہن اسلام سے اجنبی کر دیا تھا۔

    √ اپنے خودساختہ پیرامیٹر پر شاگرد نے استادوں کے ہرایک معاملہ کو خوامخوا غلط ثابت کرکے استاد کی ہرکوشش، ہر امنگ اور جینے کی جستجو کو چیلنج کردیا کہ کیا قدرت کے پاس جتنی بھی اچھائیاں تھیں وہ ساری پاکستان کو ودیعت کردی ہیں؟
    یاحیرت! یاعجب! دنیا کا کون سا ملک ہے جس میں نقص و عیوب نہ ہوں، خامیوں کو دور کرنے کی جستجو کرتے ہوئے زندگی جینا ہر فرد ہر معاشرے کا فطری حق ہے لیکن شاگرد چاہتا ہے کہ تم اپاہج ہو اس لیے خودکشی کرلو، سنبھلو نہیں سرنڈر کردو۔

    √ حیرت کا اصل مقام تو آگے ہے جب شاگرد انڈیا اور ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف کی گئی سازشوں کو ریڑھے پہ لاد کر بحیرہ عرب و فارس کے عین درمیان پھینک آتا ہے۔ سادگی پر تو ہر کوئی مرتا ہے مگر میرا دل کہہ رہا ہے کہ شاگرد کی چلاکی پہ مرمٹوں۔ ہمسائیگی کی آڑ میں ہمسائے کی سازشوں کو بڑی ہوشیاری سے الم غلم کر دیا، شاگرد نے تنہائی میں بیٹھ کر یہ کیوں نہ سوچا کہ ہمسایہ بھی کمینہ ہوسکتا ہے، میرا کوئی دوست شاگرد سے پوچھ کر مجھے بتائے کہ وہ جو شریر ہمسائے ہوتے ہیں وہ کہاں پائے جاتے ہیں۔

    √ شاگرد کا اگلا سوال پڑھنے سے پہلے ذرا ہنس لیں کیونکہ سوال پڑھنے کے بعد آپ سوچنے اور ہنسنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے، حیرت آپ کو بےحواس بھی کرسکتی ہے، شاگرد کا سوال یہ ہے کہ دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے تو کیا پاکستان ابھی آزاد نہیں ہوا؟ اگر پاکستان آزاد ہوگیا ہے تو دوقومی نظریہ کیوں کر زندہ ہے؟
    یہ سوال اِتنا اہم اور جاندار ہے کہ اکیس توپوں کی سلامی شاگرد کا حق ہے، شاگرد چاہتا ہے کہ پاکستان آزاد ہوچکا، اب دوقومی نظریہ ختم ہوجانا چاہیے، شاگرد نے یہ سوال کرتے ہوئے یہ مگر نہ سوچا کہ دوقومی نظریہ چھوڑنے کے بعد پاکستان کے قرار اور بقا کا کوئی جواز نہ رہے گا، اور پھر اکھنڈ بھارت بنانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
    سب بولو کالی ماتا کا منہ کالا
    پاکستان کا ہے رب رکھوالا

    √ شاگرد یہاں ایک سوال کرتا ہے کہ اگر جنگ کا طبل بج گیا تو خدا پاکستان کے انیس کروڑ مسلمانوں کی سنےگا یا انڈیا کے پچیس کروڑ مسلمانوں کی؟
    شاگرد کو کوئی سمجھائو کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کے نظام بارے جگت مارنے سے اور بےمقصد سوال اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ دو جھگڑنے والوں میں اچھا فیصلہ کرنے پر مطلقاً قادر ہے، وہ کس کی مدد کرے گا، یہ اُس کی مرضی اور اختیار کی بات ہے. مگر ہم نے تو ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے. مذہب کو درمیان سے نکال بھی لیا جائے تو انڈیا کی حیثیت جارح کی ہے، کشمیر اور پاکستان کے شہری مسلمان نہ بھی ہوتے تو مظلوم تو تھے ہی. شاگرد کو اسلام پر یقین نہیں رہا تو پاکستان کو نیشن اسٹیٹ سمجھ کر ہی اس کا ساتھ دے دے.

    √ شاگرد ایک مرتبہ پھر یہودونصار سے وابستہ رویے پر شاکی نظر آتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہود و نصاری سے دوستی نہیں ہوسکتی تو اُن کے ایماء پر جہاد و قتال جیسا فریضہ کیسے انجام دیا جاسکتا ہے؟ یہود و نصاری سے دوستی کی نوعیت تو اوپر کہیں ذکر ہوچکی ہے کہ وہ اُن سے ہمدردی نہیں بلکہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں ہی ممکن ہے۔ یہاں ہم افغان جہاد کی بات کریں گے. قارئین جانتے ہیں اور یہ ابھی کل ہی کی بات ہے جب افغانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت روس کے خلاف جوابی کارروائی شروع کی تھی اور پھر سارے مفادپرست افغانستان میں جمع ہوتے گئے اور اُس وقت کے افغان سرداروں نے کمال عقلمندی سے کام لیتے ہوئے ایک دشمن کو اُس کے دیگر دشمنوں کی مدد سے شکست سے دوچار کردیا۔ اگر یہ فتح امریکہ کے مرہون منت تھی تو امریکہ خود 50 ممالک کی افواج کے ساتھ فتح کیوں نہ حاصل کر سکا۔ افغانستان میں شکست خوردہ اور ہندوستان سے بداعتماد ہوئے روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور انڈیا و ایران کے اثر کو توڑنے کے لیے پاکستان نے یہ نئی دوستی گانٹھ لی ہے تو یہاں بھی شاگرد حیرت کا شکار ہے، افغان مجاہدین اور اُن کے معاونین کی اِس کامیاب حکمت عملی پر بجائے داد دینے کے شاگرد طعن کرتا ہے۔ شاگرد کی ساری ہی فلاسفی عجیب ہے، مسلمان عاجزی و مروت اختیار کرے تو شاگرد مداہنت کا طعنہ دیتا ہے اور مسلمان حکمتِ عملی سے کام لے تو شاگرد حاکمیت کا طنز مارتا ہے۔

    پانی دستیاب ہو تو وضو کیا جاتا ہے لیکن تب شاگرد تیمم نہ کرنے کا سوال کرتا ہے اور حالتِ سفر میں قصر کرنے پر سوال زن ہوتا ہے۔ عبادت گاہوں اور درسگاہوں کو خون میں نہلانے والے ان پڑھ فسادیوں کو اساتذہ کے کھاتے ڈال دیتا ہے، اپنے تئیں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی تائید کرتا ہے لیکن تحریکِ حریت پر خفا ہوتا ہے اور حریت پسندوں کے قتلِ عام کی مذمت تک نہیں کرسکتا۔ دن کے وقت رات کی اور رات کے وقت دن کی ڈیمانڈ کرتا ہے، شرماتا بھی نہیں جی ہاں ذرا جرات تو دیکھیں کہ گائے ذبح کرنے کے الزام میں قتل کیے گئے اترپردیش کی آفتاب احمد شہید کو پاکستان میں گائے ذبح کرنے والوں کے قصاص میں پیش کرتا ہے،حساب برابر کتاب ردی میں۔ سُستی کو حمیت پر فوقیت دیتا ہے اور غیرت کو جذباتیت پر قربان کرتا ہے۔ فراموش کردیتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں ایک سفیر کے قتل کی افواہ پر بیعتِ مرگ کی جاتی ہے، بہن کی چادر پہ پائوں رکھنے والے خناس یہودی کو حرمِ مدینہ میں کاٹ دیا جاتا ہے، ستر کی تعداد والے لشکرِ جرار کے آگے ڈٹ جاتے ہیں اور نہتے تین سو تیرہ سینکڑوں تلواروں کے آگے جم جاتے ہیں اور اُنہی دین پرستوں کے ہاں یہ بھی حکم ہے کہ سارے لڑائی میں نہ نکلا کرو، کچھ رک جایا کرو اور تعلیم حاصل کرو۔

    شاگرد سرحدوں کی بات کرتا ہے، ہمارے ہاں تو گھر کی چاردیواری بھی حد بندی کر دیتی ہے۔ آپ استادوں کا پڑھایا ہوا بھول گئے تو میں یاد دلاؤں کہ فتح مکہ کے دن حکم ہوا تھا کہ جو گھر کا دروازہ بند کردے، اُسے کچھ نہ کہو اور جو ہتھیار پھینک دے اُسے بھی کچھ نہ کہو۔

    المختصر کہ شاگرد نہ صرف سبق فراموش ہے بلکہ چکر بھی دیتا ہے، کتاب کے ابواب الٹ دیتا ہے، فصل توڑ دیتا ہے، کتاب پھاڑ ڈالتا ہے، اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ شاگرد کتاب میں پھول رکھنا چاہتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شاگرد کے پاس کتاب ہے ہی نہیں، کتاب تو شاگرد نے پھاڑ پھینکی ہے، شاگرد تو فرضی کہانیوں کا حافظ ہے۔ شاگرد تو بس شک پھیلانا چاہتا ہے۔

  • گریڈز کی دوڑ میں گم ہوتا استاد کا کردار – نوریہ مدثر

    گریڈز کی دوڑ میں گم ہوتا استاد کا کردار – نوریہ مدثر

    انسان جس بھی مقام و مرتبہ تک پہنچے اسے وہاں تک پہنچانے میں اس کے اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے. استاد ہی وہ ہستی ہے جو تعلیم کے قیمتی زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ اخلاقی، علمی و روحانی تربیت کرتا ہے، اسی لیے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔ استاد بنا ستائش و توصیف کی تمنا کے اپنا فرض عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہے، اور ایک طالب علم کو فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔

    آج گریڈز، نمبرز، ڈگریز کی دوڑ نے استاد اور مقام استاد کو فراموش کر دیا ہے۔ سرکاری سکولوں پر نظر دوڑائی جائے تو ’’مار نہیں، پیار‘‘ کی پالیسی نے طلبہ کی اخلاقی تربیت پر برا اثر ڈالا ہے۔ انسان جب غلطی کرے تو اس غلطی پر تنبیہ اسے سکھاتی ہے۔ جب استاد کے ہاتھ ہی باندھ دیے گئے ہیں تو نئی نسل کے طوفان بدتمیزی پر نوحہ کناں ہونا قرین انصاف نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک والدین خود اساتذہ کے پاس جا کر اپنے بچوں کی شکایتیں کرتے تھے کہ آپ انھیں یہ سمجھائیں، فلاں نصیحت کریں، وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ تصور پایا جاتا تھا کہ بچوں کو استاد ہی سدھار سکتا ہے۔ مگر اب تو شاگرد ذرا سی ڈانٹ کی شکایت لگا کر اپنے والدین کے ہاتھوں اپنے استاد کو سکھاتے ہیں۔ ایسے طلبہ عزت و احترام سے محروم تباہ کردار کے مالک بنتے ہیں۔

    اگر پرائیوٹ سکولز کی بات کی جائے تو وہاں بھاری فیسوں اور تنخواہوں کے بوجھ نے استاد کو شیوہ پیغمبری بھلا دیاہے۔ اے لیول ، اولیول کے ٹرینڈ نے ان ٹیچرز کو روبوٹ بنا دیا ہے۔ وہ بس اپنے ادارے کا اچھا رزلٹ دینے کے پابند ہیں۔ استاد اور شاگرد کے درمیان احترام کا تعلق پیسے میں گم ہو گیا ہے.

    پرائیوٹ کالجز کے پروفیسرز بھی چند کاغذوں کے عوض اپنی عزت نفس و خودداری بھلائے بیٹھے ہیں۔ بس سٹوڈنٹس کو رٹو طوطے بنا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ یہ بس ڈگری ہولڈرز کی کھیپ تیار کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے نصاب سے تیار کردہ لیکچرز دے دیتے ہیں ۔یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ سکھا کیا رہے ہیں؟ علم کی کیا روشنی پھیلا رہے ہیں؟ فقط روزی کمانے والے اساتذہ معاشرے کا کوئی بھلا نہیں کر سکتے۔

    ڈگری حاصل کرنے کو ہی اپنا مقصدِحیات سمجھنے والے ملکی تعمیر و ترقی میں کیا حصہ لے سکیں گے؟ میں اعلی تعلیم کے حصول کو غلط نہیں کہہ رہی بس سیکھنے و جاننے کے عمل پر سوال اٹھا رہی ہوں، جو کہ لمحہ ِفکریہ ہے۔ ہمیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے یا اخلاق و کردار سے عاری مردہ ضمیر معاشرہ تشکیل دینا ہے؟ آج طلبہ کی تربیت سے پہلے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے۔

    ہمارے نبی کریم ﷺ بہترین معلم تھے۔ اپنے اصحاب کو انھوں نے بہترین تعلیم و اخلاق سے آراستہ کیا۔ شیر ِخدا نے تو خود کو ایک لفظ سکھانے والے کو اپنا مالک قرار دے دیا۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے آپس میں استاد کی جوتی اٹھانے پر لڑتے ہیں کہ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنے استاد کی تکریم زیادہ سے زیادہ کر سکیں۔ وہ استاد واقعی میں روحانی و علمی تربیت کرتے تھے، اور بارِامانت جانتے ہوئے اپنا علم منتقل کرنا افضل سمجھتے تھے۔ آج اساتذہ کو ویسا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے.