Tag: شاعر

  • ادبي حلقوں کے نام – یوسف بن محمّدگدا

    ادبي حلقوں کے نام – یوسف بن محمّدگدا

    یوسف بن محمّد گدا
    یوسف بن محمّد گدا

    زباں جب دل جلاتی ہے میں اس سے خار کھاتا ہوں
    وہ اکثر جیت جاتی ہے میں اکثر ہار جاتا ہوں

    جب احساسوں کے پردوں کو زبانیں پھونک دیتی ہیں
    کبھی ان کو برا کہہ کر وہیں خود کو تپاتا ہوں

    ادیبوں نے مجھے جھاڑا تو پھینکا گو ہوں وہ کیڑا
    کہ ان کی کل کتابوں کو میں یوں ہی چاٹ کھاتا ہوں

    سلاخیں اور زنجیریں ہیں کیا بیجا مظالم کیا
    زباں کی دو سلاخوں میں میں خود کو قید پاتا ہوں

    کوئی دیمک لگی لکڑی سی کچھ یادیں سمبھالی تھیں
    وہ میرا تن گلاتی تھیں سو خود ان کو گلاتا ہوں

    اگر میري تشفّی کو دو باتیں یار کي کر دو
    زباں کي ہي انایت ہے کہ خود کو بھول جاتا ہوں

    اگر چاہوں گل و بلبل کے جذبے کھینچ ڈالوں میں
    مگر اپنی کمائي کا گدآ سچ ہي دکھاتا ہوں

    وہ آتش سرد خانے کی نظر کر کے چھپاتا ہوں
    جو اٹھتي ہے کہیں دل سے میں اس کو یوں دباتا ہوں

    مرے سوکھے سمندر نے جو کچھ نقشے سے کھینچے تھے
    جنہیں لہریں مٹاتی تھیں کبھی اب میں مٹاتا ہوں

    زباں کی مار کھا‎ئی ہے جو میں نے یاروں مادر کي
    شکستہ ہو کہ ان ٹکڑوں کو اب تم پر اڑاتا ہوں

    جو انگارے ہیں آنکھوں میں ہیں دور حال کا طحفہ
    یہ گذرے دور کی سي۔ڈي۔ تو تفریحن بجاتا ہوں

    مري حسّاس طبیعت کو تو کیا سمجھیں گے میں خود کو
    کبھي اشکوں سے منہ دھو کر کبھي ہنس کے چھپاتا ہوں

    جو کوڑا دان کو شایاں ہے وہ میری ادیبی ہے
    یہ پنّي چڑچڑاتی ہے میں جب شمعہ بڑھاتا ہوں

    کبھی سمجھا تھا شاعر ہوں، گدآ لکھتا تھا میں خود کو
    جو مجنوں بن پھرا بن میں وہ بن سے لوٹ آتا ہوں

  • جب شاعری شجر ممنوعہ ٹھہری – محمد ذیشان نصر

    جب شاعری شجر ممنوعہ ٹھہری – محمد ذیشان نصر

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب دسویں کلاس کے امتحان ہمارے سر پر تھے اور ہمارے والدین ہمیں امتحانات کی تیاری کا کہہ کہہ کر عاجز آ چکے تھے مگر مجال تھی کہ ہمارے کانوں پر جوں تک بھی رینگ جائے۔ انہی دنوں شاید ہمیں کسی خوبرو کی نظر لگی یا کسی بدخواہ کی بددعا کہ ہم پر شاعری کا بھوت سوار ہو گیا۔ مہم جوئی تو ہماری فطرت کا خاصہ ہے۔ سو سامانِ حرب (کاغذ، قلم) سے لیس ہو کر قلعۂ شاعری کو تسخیر کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ مگریہ کیا، غزل یا نظم کہنا تو درکنار، ہم سے تو ایک آدھ شعر ہی نہ بن پایا۔ اگر کہیں کوئی ایک آدھ مصرع ذہن میں آتا تو دوسرا مصرع نہ بن پاتا، اور اگر کبھی کھینچ تان کر کوئی شعر مکمل کر ہی لیتے تو مزید اشعار کہنے پر قدرت نہ ہوتی، اس صورتحال پر ہم سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ حل کے لیے سوچ و بچار کے عمیق سمندر میں غوطہ زن ہوئے تو یہ عقدہ کھلا کہ شعر گوئی کے لیے وسعتِ مطالعہ اور حساس طبیعت کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کی بھی اَشد ضرورت ہوتی ہے، مگر ہماری ذاتِ با برکات ان تمام صفاتِ کاملہ سے بالکل کَوری تھی، سو ہم نے اس کا ایک یہ شارٹ کٹ طریقہ نکالا کہ کبھی خود کو اقبال تصور کرتے کہ شاید اس طرح کہیں اقبالؒ کی روح ہم میں حلول کر جائے، اور ہم کچھ اشعار کہنے کے قابل ہو جائیں، اور کبھی خود کو غالب گردانتے کہ شاید اسی طرح ہی غیب سے کچھ مضامین کی آمد ہو جائے۔ مگر ہنوز دلی دور است۔

    والد صاحب ہمیں اس حال ِ بے حال میں دیکھ کر سمجھے کہ شاید اُن کی کوئی نصیحت اثر کر گئی ہے اور موصوف پڑھائی میں مصروف ہیں جبکہ والدہ کا خیال تھا کہ ان کا کیا گیا وظیفہ رنگ دکھلا گیا ہے۔ مگر حقیقتِ حال سے تو میں واقف تھا یا پھر میرا خدا۔

    ہمارے ایک قریبی شاعر دوست، جن کا نام میں بوجوہ نہیں لکھ رہا، سے جب ہم نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا اور اُن سے مشورہ چاہا تو انہوں نے اقبال، غالب اور میر جیسے بڑے بڑے شعراء کے کلام کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔ اُن کے قیمتی مشورہ کی پیشِ نظر ہم نے پبلک لائبریری سے دیوانِ غالب کا ایک نسخہ اڑایا اور گھر پہنچ کر غالب کے اشعار کو سمجھنے کی سعی ناتمام فرمانے لگے، مگر کہاں ہم جیسا کج فہم اور کہاں غالب جیسا زبان داں۔ جب کچھ بھی پلے نہ پڑا تو ہم پھر سے اپنے اُسی شاعر دوست کے گھر جا دھمکے اور کہا کہ بھائی ہمیں دیوانِ غالب پڑھاؤ تو موصوف فرمانے لگے کہ مجھے تو خود دیوانِ غالب کا ایک شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ حیرانی سے استسفار کیا کہ پھر آپ شاعر کیسے بن گئے؟ تو پہلے تو اُنہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا، پھر اصرار پر رازدانہ لہجے میں کہنے لگے، ارے میاں! بازار سے کسی گمنام شاعر کی کتاب خریدو اور اس کی غزلوں کو اپنے نام کے ساتھ لوگوں میں پڑھنا شروع کر دو۔ اس طرح تم آسانی سے لوگوں میں شاعر مشہور ہو جاؤگے۔ ہم نے اپنے محسن دوست کا شکریہ ادا کیا اوردل و جان سے اس کے بتائے ہوئے نسخہ کیمیا پر عمل پیرا ہو گئے، اور جلد ہی اردگرد کے لوگوں میں کافی مقبول ہوگئے۔

    اس دن تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا جب ہمیں ضلعی سطح پر ایک مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔ مقررہ تاریخ کو ہم نے خوبصورت لباس زیب تن کیا اوراک پُروقار انداز میں محفلِ مشاعرہ میں پہنچ گئے۔ مشاعرہ شروع ہوا، مختلف شعراء نے اپنا کلام پیش کیا، آخر ہماری باری بھی آ گئی، ہم بڑی شان اور تمکنت کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے، اور ایک غزل ترتم کے ساتھ پڑھنی شروع کی، حاضرین تو اش اش کر اُٹھے مگر جب ہم نے داد طلب نگاہوں کے ساتھ صدرِ مشاعرہ کی طرف دیکھا تو انہیں غضب ناک نگاہوں کے ساتھ گھورتا پایا۔ ہم حیران ہوئے کہ الٰہی ماجرا کیا ہے؟ خیر جب ہم اسٹیج سے واپس تشریف لے گئے اور صدرِ مشاعرہ اسٹیج پر رونق افروز ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے میری تعریف کی، پھر دھیمے لہجے میں پوچھا کہ یہ غزل آپ نے کب کہی ؟ تو ہم نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا کہ کل رات ہی خاص طور پر اس مشاعرے کے لیے فی البدیہہ کہی ہے۔ اس پر انہوں نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے کی اپنی مطبوعہ کتاب نکالی، کتاب پر نظر پڑتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ وہ وہی کتاب تھی جس سے ہم نے غزل سرقہ کرکے مشاعرے میں سنائی تھی۔ بس کچھ نہ پوچھیے پھر کیا ہوا۔ اس وقت یہ مصرع ہم پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ ؏
    بہت بے آبروہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے

    اس قدر رسوائی کے بعد بھی طبیعت کی جولانی نے ہمیں ہار نہ ماننے دی۔ اب کی بار ہم نے یہ تہیہ کر لیا کہ خود ہی شعر کہیں گے۔ اصل میں ہم نے کہیں پر یہ پڑھا تھا کہ شاعری دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو غالب کی طرح غیب سے مضامین خیال میں آتے ہیں۔ اور دوسری وہ جس میں خود شاعر اپنے احساسات کو اشعار کے پیراہن میں ڈھالتا ہے۔ سو اوّل الذکر تو ہماری پروازِ فکری سے بہت بلند تھی۔ البتہ مؤخر الذکر پر طبع آزمائی کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ سو کافی دنوں کی مغز ماری کے بعد آخر ہم ایک شعر کہنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اب مسئلہ اُسی زمین میں مزید اشعار کہنے کا تھا سو اس کے لیے سب سے پہلے ہم نے قافیہ پیمائی کی، اور اس زمین کے ممکنہ قوافی تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اس کے بعد ان قوافی کو ردیف کے ساتھ جوڑ کر شعر کا مصرعہ ثانی بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ اور جلد ہی تقریبا سات عدد ہاف اشعار کہہ لیے۔ ہاف اس لیے کہ کیونکہ صرف مصرعۂ ثانی ہی کہا تھا، مصرعہ اوّل ابھی تمام اشعار کا باقی تھا۔ اب کے مصرعۂ اول کہنا ہمارے لیے دردِ سر تھا۔ قصہ مختصر۔ آخر کافی دنوں کی ریاضت کے بعد ہم ایک عدد غزل کہنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اس وقت ہماری خوشی دیدنی تھی۔ اب ہر شاعر کی طرح یہ فکر پڑی کہ جلد از جلد اپنی غزل کسی کو سنا کر اس سے داد وصول کی جائے۔ سو سب سے پہلے اُسی شاعر دوست کا تصور ذہن میں اُبھرا، ہم اگلے ہی لمحے اس دوست کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ اگرچہ اس وقت رات کے 2 بج رہے تھے مگر اس کی پرواہ کب تھی۔ کافی دیر بعد کہیں جا کر اُس نے دروازہ کھولا۔ خیریت تو ہے اتنی رات گئے تم یہاں۔ وہ نیم غنودگی کی حالت میں بولا۔ ہاں ہاں خیریت ہے۔ یار ابھی ابھی میں نے زندگی کی پہلی غزل لکھی ہے، سوچا تمہیں سنا لوں۔ میں نے بڑے پرجوش لہجے میں اسے یوں بتایا جیسے کہ کوئی پہاڑ سر کر کے آ رہا ہوں یا پھر خزانۂ قارون کی چابیاں مجھے مل گئی ہوں۔ خیر اس نے بادل نخواستہ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور بولا کہ یار تم صبح آ کر بھی تو غزل سنا سکتے تھے۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں اس قدر پرجوش تھا کہ کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ پھر اُس نے کہا کہ غزل سناؤ اور خود ہمہ تن گوش صوفے پر دراز ہو گیا۔ بس اذن ملنے کی دیر تھی، ہم نے آنکھیں بند کیں، آواز میں تھوڑا سوز پیدا کیا اور بڑے ترنم کے ساتھ غزل پڑھنی شروع کی۔ مطلع پڑھنے کے بعد جب ہم نے داد طلب نگاہوں سے اپنے دوست کی طرف دیکھا تو موصوف حالتِ استغراق میں آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ ہمارے دوست ہماری شاعری بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سُن رہے ہیں۔ ہم نے اور زیادہ سوز کے ساتھ غزل پڑھنی شروع کی۔ جب مقطع پر پہنچے تو دوست کے خراٹوں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا، ہم نے آنکھیں کھولیں تومعلوم ہوا کہ موصوف تو بیٹھے بیٹھے ہی سو گئے ہیں۔ بس کچھ نہ پوچھیے، اس وقت ہماری کیا حالت ہوئی۔ دل تو کیا تھا کہ اسے کچا ہی چبا جائیں مگر ظالم کے بچوں پر ترس آ گیا۔ خیر دل پر جبر کرتے ہوئے ہم اپنے گھر کو عازمِ سفر ہوئے۔

    گھر آکر ہم نے اس سانحہ پُر ملال کو بھلانے کے لیے مستقبل کی پیش بندیوں میں سوچ و بچار کے گھوڑے دوڑا دیے۔ اسی دوران نیند نے آ دبوچا۔ خیر اسی طرح شب و روز گزرتے رہے۔ اور ہم بجائے پیپروں کی تیاری کے بزعمِ خود میدانِ سخنوری میں اپنی شہسواری کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ اُس دن ہمارا ٓخری پیپر تھا اور ہم پہلے کی طرح خود کو ثانی غالب سمجھتے ہوئے ایک زبردست غزل (بزعم خود) کہنے میں اس قدر منہمک تھے کہ ہمیں والد صاحب کی آمد کا پتہ تک نہ چلا۔ والد صاحب نے کھنکار کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا تو ہم عالمِ محویت سے سے باہر نکل کر حیرت و استعجاب سے والد صاحب کو دیکھنے لگے جن کی شعلہ بار نگاہیں ہمارے دیوان کا طواف کر رہی تھیں۔ والد صاحب نے رجسٹر لیا۔ (جسے میں اپنا دیوان گردانتا تھا) ایک دو صفحات پڑھے اور لے کر میری والدہ کی طرف چل دیے، جوکھانے پکانے کے لئے چولہے میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ شاید والد صاحب میری شاعری سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اب والدہ کو سنانے جا رہے ہیں مگر میری یہ خوش فہمی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔

    بس اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ نہ مجھ میں بیان کرنے کی سکت ہے اور نہ ہی آپ میں سننے کی ہمت ہوگی۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اس دن ہمارے دیوان ہی سے گھر کی روٹیاں پکی تھیں۔ سو اُس دن سے شاعری ہمارے لیے شجرِ ممنوعہ ٹھہری اور اس طرح حوادثِ زمانہ نے نسلِ نَو کو اک اور غالب سے محروم کر دیا۔

  • قائد اعظم بھی شاعر تھے؟

    قائد اعظم بھی شاعر تھے؟

    quide-shair-b-khe-300x336

    قائد اعظم بھی شاعر تھے؟مختلف رسالوں میں متن کے ساتھ ساتھ جا بجا چوکھٹوں میں دلچسپ واقعات، لطیفے یا اشعار دیے جاتے ہیں۔ پہلے تو صحافت کی زبان میں انھیں Fillerکہتے تھے اور یہ صرف وہیں استعمال کے جاتے تھے جہاں ایک مضمون مکمل ہونے کے بعد جگہ بچ جائے اور دوسرا مضمون شروع نہ کیا جاسکے۔ آج کل باکس آئٹم (Box Item) چوکھٹے کی شکل میں رنگا رنگی اور تنوع پیدا کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں گویا قارئین کے لیے ایک ٹکٹ میں دو مزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک اخبار میں دیکھا کہ صفحے کے ایک کونے پر علامہ اقبال کے چند اشعاردرج ہیں لیکن نیچے علامہ اقبال کے نام کے بجائے لکھا تھا۔ ’’قائد اعظم‘‘ ایڈیٹر سے تعلقات اچھے تھے۔ رگ ظرافت پھڑکی تو انھیں لکھ بھیجا ’’قائد اعظم شاعر بھی تھے؟

    کم از کم مجھ پر اس کا انکشاف پہلی بار ہوا ہے۔ مزید انکشافات کی توقع رکھی جائے؟‘‘ جواب میں خط نہیں بھونچال آیا، طوفان آیا ، طوفان بادوباراں، تندوتیز۔ ہم نے آج تک اسے سنبھال رکھا ہے۔ پہلے تو انھوں نے اس بات پر گرفت کی کہ ہم نے غلطی کی نشان دہی کی تو کیوں؟ پھر لکھا: ’’ایسا تو عموماً وہ لوگ کیا کرتے ہیں جو صحافت کے نشیب و فراز اور اس کے ’’اندرونے‘‘ سے واقف نہیں ہوتے لیکن آپ ان اسرار و رموز سے بے بہرہ نہیں۔ پھر پیشے کے حوالے سے آپ ہماری ہی برادری کے ایک معزز رکن شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی طرف سے تو ہمیں ایک ہلکی سی مسکراہٹ کافی ہوتی کہ اس میدان میں ایسے لطیفے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ پھر غلطی کا جواز پیش فرمایا: ’’ایسی غلطی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتی ہے۔ کئی منزلہ عمارت جو تعمیر کے دوسرے سال گر جائے، تربیلا ڈیم لیک کرنے لگے،

    پاکستان کا دستور بار بار معطل ہوجائے اور خود دولخت۔ غلطی صرف کسی چیف انجینئر یا لیڈر کی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام شامل ہوتے ہیں۔ انفرادی غلطی کے مشاہدے آپ نے فوجی زندگی میں بار بار کیے ہوں گے۔ جب کوئی وردی پوش کبھی بیلٹ یا ٹوپی کے بغیر باہر نکل آتا ہے۔ کبھی ٹائٹل شولڈر، ربن یا سٹار الٹے لگ جاتے ہیں (بے تکلفی معاف) کبھی پتلون کے بٹن کھلے رہ جاتے ہیں۔ کانفرنس یا انٹرویو پر جاتے وقت ضروری کاغذ کہیں رہ جاتے ہیں۔ اصلی یا مشقی جنگ میں اسلحہ کہیں تو بارود کہیں پہنچ جاتا ہے۔

    غلطی کہاں نہیں ہوتی، غلطی کون نہیں کرتا۔ جب انسان خطا و نسیان کا مرکب ہے تو وہ ان سے مبرا رہنے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ سب سے بڑی اور پہلی غلطی تو ابلیس سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار میں ہوئی۔ پھر آدم سے جو نافرمانی سرزد ہوئی وہ بھی اسی کی ترغیب کا نتیجہ تھی۔ نوبت ہبوط آدم تک پہنچی اور اولاد آدم آج تک غلطیاں کرتی اور ان کی سزا بھگتتی چلی آ رہی ہے… بندہ ہونے کی حیثیت سے انسان ہر روز نہ جانے کتنی ہی غلطیاں، بے انصافیاں، گناہ ہائے صغیرہ و کبیرہ، فرشتوں سے نامہ اعمال میں قلم بند کراتے چلا جا رہا ہے۔ جس کا حساب کتاب یوم الحساب ہونا ہے!‘‘ اور آخر میں انھوں نے غلطی کو غلطی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ لکھا ’’حیرت ہے کہ آپ پر قائد اعظم کے شاعر ہونے کا انکشاف پہلی مرتبہ کیوں ہوا؟

    ہمیں … اور کم از کم مجھے تو ان کے شاعر ہونے میں مثقال بھر شبہ بھی نہیں وہ پاکستان ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے بہت بڑے شاعر بلکہ ملک الشعرا تھے… قائداعظم کی کہی ہوئی ہر بات ایک شعر ہے جس میں صداقت ہی صداقت ہے، حسن ہی حسن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قائدنے اپنی شاعری کے لیے میٹر، قوافی اور ردیف کا استعمال نہیں کیا۔ آزاد شاعری کی ہے اور اسی سے آزادی حاصل کی ہے اور یہ بھی انہی کی شاعری کا فیض ہے کہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں، ہیں۔ ‘‘ صاحبو! اس خط کے بعد سے ہم قائد اعظم کو شاعر بھی مانتے چلے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ مدیر موصوف کا پورا خط نقل نہیں کیا گیا ؎کہیں کہیں سے

    سنائے ہیں ہم نے افسانے (قیامت کے نامے) (انتخاب نذیر انبالوی)

  • تاج دار تاج کی وفات – شاہ اجمل فاروق ندوی

    تاج دار تاج کی وفات – شاہ اجمل فاروق ندوی

    اجمل فاروق ندوی ۲۵؍اگست ۲۰۱۶ کو یہ افسوس ناک خبر ملی کہ منفرد لب و لہجہ کے شاعر حضرت تاج دار تاج اپنے وطن اقامت ممبئی میں وفات پاگئے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔
    ان کا اصل وطن دیوبند تھا۔ عثمانی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور دیوبند ہی میں جناب محمد زکریا عثمانی کے ہاں ۸؍جولائی ۱۹۳۹ کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا مجموعہ ’’زبر‘‘، دوسرا مجموعہ ’’آوارہ پتھر‘‘ اور تیسرا مجموعہ ’’برفیلی زمین کا سورج‘‘ (۲۰۱۶)۔ یہی شعری مجموعے اب ان کی علمی میراث ہیں۔ اب اِن ہی کی روشنی میں تاج صاحب کے فکری و فنی رویے کو سمجھا اور پرکھا جائے گا۔

    تاج دار تاج کا نام اپنے گھر میں ہم بچپن سے سنتے چلے آئے تھے۔ چار پانچ سال کی عمر سے ہی ان کی شاعری گنگناتے رہے۔ چوں کہ اس وقت تاج صاحب دیوبند کو چھوڑ کر ممبئی میں مقیم ہوچکے تھے، اس لیے کبھی ان کی زیارت کا موقع ہی نہ ملا۔ وقت آگے بڑھتا رہا۔ تاج صاحب ایک سے زائد مرتبہ دلّی میں ہمارے گھر تشریف لائے، لیکن لکھنؤ میں زیر تعلیم ہونے کی وجہ سے ہم ان کی ملاقات سے محروم رہے۔ البتہ ان سے لگائو، محبت اور ایسی انسیت جو کسی خاندان کے بڑے سے ہوتی ہے، وہ ہمیشہ رہی۔

    کچھ ماہ قبل دیوبند میں تاج دار تاج کے تیسرے اور آخری شعری مجموعے ’’برفیلی زمین کا سورج‘‘ کا اجراء بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ہونا تھا۔ والد محترم کو بھی اس میں بہ طور خاص شرکت کرنی تھی۔ لیکن وہ اپنے ایک آپریشن کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ اس کے دوچار روز بعدع ہی ہمارا دیوبند جانا ہوا۔ دیوبند پہنچ کر والدمحترم کا حکم ملا کہ ’’تاج دار صاحب دیوبند میں ہی ہیں، اُن سے ملاقات کرو اور شعری مجموعہ بھی لے لو۔‘‘ وقت مقررہ پر ہم اُن کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ تاج صاحب اپنے گھر کے اوپری صحن میں ایک پلنگ پر تشریف فرماتھے۔ بہت خوش ہوئے۔ بار بار دعائیں دیتے رہے۔ کئی بار فرمایا کہ دیکھو یہ بھی بالکل تابش صاحب کا انداز ہے۔ تابش صاحب بھی یہ بات بالکل اسی طرح بولتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ والد محترم سے اُن کی بے پناہ محبت تھی، جو یہ سب باتیں کہلوا رہی تھی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے انھوں نے مجھے اپنے گھر کی پوری عمارت کی تاریخ بتائی۔ پچھلے حصے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ’’ تم ابھی اِدھر سے اُترنا۔ یہ وہی حصہ ہے، جس میں مفتی اعظم محمد شفیع عثمانی رہا کرتے تھے۔‘‘ اس دوران میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بڑی قیمتی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں تو ہر چھوٹے بڑے شاعر کو اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ کسی کے ہاں خامیاں نظر آتی ہیں، تو اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں اور کسی کے ہاں خوبیاں نظر آتی ہیں تو انھیں اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ میرا احساس ہے کہ اِس روش نے ہی اُن کی شاعری میں انفرادیت پیدا کی تھی۔ ہرسخن ور اور شعر و ادب کے ہر طالب علم کو یہ روش اختیار کرنی چاہیے۔

    اِس دوران انھوں نے بہت صاف الفاظ میں مجھ سے والدمحترم کی شکایت کی کہ وہ میرے مجموعے کے اجراء میں نہیں آئے۔ انھوں نے بتایا کہ مجھ سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ’’ تابش صاحب کوئی بیمار ویمار نہیں ہیں۔ جلسے میں موجود کسی مقرر سے ذاتی پرخاش کی وجہ سے وہ نہیں آئے۔‘‘ جب میں نے انھیں اسپتال کی رپورٹوں، والد صاحب کی کیفیت اور عیادت کرنے والوں کے نام تفصیل سے بتائے، تو انھیں اطمینان ہوا۔ کئی بار فرمایا کہ اب اطمینان ہوگیا۔ اپنی عظمت کااظہار انھوں نے مجھ سے یہ کہہ کر بھی کیا کہ ’’انھیں بتادینا کہ میرے دل میں اُن کے لیے کچھ کبیدگی اور بدگمانی پیدا ہوگئی تھی۔ میرے بچے بھی کہہ رہے تھے کہ تابش چچا نے ایسا کیوں کیا؟ لیکن یہ بدگمانی اب دور ہوگئی۔ اگر چہ میں نے اُن سے اب تک شکایت نہیں کی تھی، پھر بھی تم اُن سے پوری بات بتا کر میری طرف سے معذرت کرلینا اور کہنا کہ مجھے معاف کردیں۔‘‘ وہ تو مجھ سے بھی معافی مانگنے والے تھے، میری لجاجت آمیز گزارش پر خاموش ہوئے اور مجھے شرمندگی سے بچالیا۔ ایسے اعلیٰ ظرف، صاف کردار کے حامل اور وضع دار لوگ اب کہاں رہ گئے ہیں؟ اُن کی وفات پر شائع ہونے والے مختصر خاکے میں جناب ندیم صدیقی نے بہت صحیح بات لکھی ہے کہ ’’اُن کے بارے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اُن کی پوری شخصیت نستعلیق تھی۔ وہ گفتگو میں کبھی بلند بانگ نہیں دیکھے گئے۔ دراصل جس شہرسے اُن کا تعلق تھا اور وہاں جن جن اہل علم کی صحبت سے انھوں نے جس طرح فیض اٹھایا، وہ اُن کا حاصل زندگی تھا۔ ‘‘ (اردو نیوز ممبئی، ۲۷؍اگست)

    میرے اٹھنے سے پہلے انھوں نے بتایا تھا کہ ابھی تو ہم لوگ ممبئی جارہے ہیں، لیکن بقرعید کے موقعے پر پھر آئیں گے۔ افسوس! کہ اُن کا ارادہ پورا نہ ہوسکا اور وہ بقرعید سے پہلے ہی اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    تاج دار تاج کی شاعری پر مخمور سعیدی، قیصر الجعفری، یوسف ناظم، کالی داس گپتا رضا، ڈاکٹر تابش مہدی، شمس رمزی اور نسیم اختر شاہ قیصر جیسے لوگوں نے تفصیل سے لکھا ہے۔ اس سے اُن کے فکر و فن کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میں نے تو بس تأثراتی طور پر چند باتیں عرض کردیں۔ افسوس کہ زیر کو زبر کرنے والا، آوارہ پتھر کو اعتبار بخشنے والا اور برفیلی زمین میں سورج اگانے والا شاعر ہمارے درمیان سے رخصت ہوگیا۔ اُن ہی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
    گرمیِ فکر ملی شہرِ غزل کو ہم سے
    ہم نے برفیلی زمینوں میں اگایا سورج

    (شاہ اجمل فاروق ندوی، چیف ایڈیٹر ماہنامہ المؤمنات لکھنؤ، ایڈیٹر ماہنامہ تسنیم نئی دہلی)

  • کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    عامر خاکوانی سینئر ترین کالم نگار عبدالقادر حسن کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی
    عامر خاکوانی

    کالم کے بارے میں میری رائے کہ یہ صحافت کی شاعری ہے، یہ خداداد صلاحیت ہے۔ دوسرا یہ کہ کالم موضوعاتی ہوتا ہے اور یہ قاری کو ایک طرح کی انٹرٹینمنٹ اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت دیتا ہے۔ جس طرح شاعری خداداد چیز ہے‘ اسے کوئی سیکھ نہیں سکتا‘ یہی با ت کالم کی ہے‘ مضمون نگاری البتہ سیکھی جاسکتی ہے۔ ایک اعتراض یہ کہاجاتا ہے کہ دنیا بھر کے اخبارات اور خود پاکستان کے انگریزی اخبارات میں قاری کی ذہنی اور فکری تربیت کی جاتی ہے جبکہ اردواخبارات کے روایتی کالموں میں صرف زبان کے چٹخارے اورلطیفہ گوئی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی کا اردو سے مختلف معاملہ ہے۔ اردو میں کالم کی روایت یہی ہے کہ ہلکے پھلکے انداز میں لکھا جائے‘ میرے ذاتی خیال میں تو اخبارات میں مضمون نگاری ہونی نہیں چاہیے۔ ادارتی صفحہ پر یا تو اداریہ ہوتا ہے یا اہم ایشوز پر کسی ماہر کا تبصرہ (Expert Opinion)‘ یا پھر کالم ہوتے ہیں۔ کالموں کو آسان اور عام فہم ہونا چاہیے۔ میں عربی فارسی جاننے کے باوجود ایک عام معمولی استعداد رکھنے والے قاری کے فہم کے مطابق لکھتا ہوں۔

    میرے پسندیدہ کالم نگار
    saadulla ایکسپریس میں میرے پسندیدہ کالم نگار سعد اللہ جان برق ہیں۔ وغیرہ وغیرہ لکھنے والے (عبداللہ طارق سہیل) بھی اچھا لکھتے ہیں۔ باقی عرفان صدیقی کبھی کبھی بہت اچھا لکھتے ہیں‘ ہارون الرشید بھی ٹھیک‘ عباس اطہرعباس اطہر کا نام سب سے پہلے لینا چاہیے کہ وہ زبردست کالم نگار ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو سب سے منوایا ہے۔ عطاء الحق قاسمی اچھا لکھتے ہیں‘ مگر آج کل وہ پی آر کے چکر میں بہت پڑ گئے ہیں‘ بہرحال ان کا اپنا ایک پاپولر سٹائل ہے۔ حسن نثار اچھا لکھ سکتا ہے‘ ان کا بالکل الگ سٹائل ہے‘ جاوید چودھری نے بھی بڑی محنت کرکے ایک خاص انداز اپنایا ہے‘ جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
    کالم نگار کو سب سے زیادہ زبان پر توجہ دینی چاہیے‘ جس زبان میں وہ لکھ رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور حاصل ہو۔ پھر مسلسل مطالعہ کیا جائے‘ کالم لکھنے سے پہلے کچھ نہ تحقیق ضرور کریں‘ خبر اٹھا کر کالم لکھ دینا کوئی بات نہیں۔ سٹائل ہلکا پھلکا ہو مگر اس میں کوئی پیغام بھی ہونا چاہیے۔

    میرا کالم لکھنے کا طریقہ کار
    اخبارات سچی بات تو یہ ہے کہ ہم روز کے کالم لکھنے والے مسلسل عذاب میں رہتے ہیں‘ میرا بھی یہی حال ہے‘ جب تک کالم کا موضوع ذہن میں نہیں آجائے‘ ذہنی الجھن باقی رہتی ہے۔ میرے کالم لکھنے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے‘ میں تو رات کو بھی لکھ لیتا ہوں‘ عموماً صبح اخبار دیکھنے کے بعد کالم لکھا جاتا ہے کہ شاید کوئی نیا موضوع مل جائے۔ میرے گھربارہ تیرہ اخبار روز آتے ہیں‘ ان کو پڑھتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں‘ اس لیے لفظ دیکھنے استعمال کیا ہے۔

    چینلز اور اخبارات
    چینلز اخبارات کو دنیا بھر میں ٹی وی چینل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ دراصل ریکارڈ صرف اخبارہی بنتا ہے۔ چینل صرف ہیڈ لائن دیتا ہے‘ اس کی تفصیل اخبار ہی میں ملتی ہے۔ اخبار کو اصل خطرہ تعلیم نہ ہونے سے ہے کہ قوم ان پڑھ ہوتی جارہی ہے۔ باقی کالم نگاری اخبار کا مستقل شعبہ تھا‘ ہے اور رہے گا‘ ہاں ٹرینڈز بدلتے جاتے ہیں‘ ہمارے دور میں کچھ اور تھے‘ اب اور ہوگئے ہیں‘ اسی طرح آگے بھی کچھ نہ کچھ بدلیں گے۔

    سیاست دان
    سچی بات تو یہ ہے کہ میرا کوئی آئیڈیل سیاست دان نہیں ہے۔ سب نے کسی نہ کسی حوالے سے مایوس کیا ہے۔ نصراللہ نواب زادہ نصر اللہ خان کا بہت کنٹری بیوشن رہا ہے مگر بعض معاملات میں حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ میں ان معاملات کو دوبارہ سے نہیں چھیڑنا چاہتا مگر بہرحال سب نے مایوس کیا۔ آج کل کے سیاست دانوں کو تو سیاستدان کہنا ہی نہیں چاہیے۔ ان کی بڑی تعداد ایک فوجی آمر کے ساتھ ہے‘ جو نہیں وہ ڈیل کے چکروں میں ہیں تو یہ سیاست دان تو نہ ہوئے۔ دراصل ان کو کسی نے سیاست کی تربیت ہی نہیں دی‘ یہ لوگ سیاست کو محض پھنے خانی اور اثر و رسوخ کا ذریعہ بناتے ہیں۔
    ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ہر شعبے میں اس قدر بڑے اور قدآور لوگ موجود تھے‘ آج کل قحط الرجال کیوں ہوگیا ہے؟ دراصل تقسیم سے پہلے انگریز کے خلاف جو تحریک چلی تھی‘ اس نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے‘ پھر پاکستان بن گیا‘ تو تحریک کا معاملہ ختم ہوگیا‘ پھر بڑے لوگ بھی پیدا نہیں ہوئے۔ بڑے لوگ بھی حالات پیدا کرتے ہیں‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
    نظریاتی تحریکیں ختم ہونے میں روس کے ٹوٹنے کا اہم کردار ہے۔ آپ دیکھیں جو لوگ کمیونسٹ پارٹی کے ریگولر تنخواہ دار ممبر تھے‘ ادھر روس ختم ہوا اور وہ پہلی فلائیٹ سے واشنگٹن چلے گئے۔ وہ سرخ انقلابی اب علی الاعلان امریکہ کا مال کھا رہے ہیں۔ آئی اے رحمٰن وغیرہ سب ایسا کررہے ہیں۔

    دینی جماعتیں اور انسانی حقوق
    دینی جماعتیں انسانی حقوق کے حوالے سے دینی جماعتوں کو سب سے پہلے آگے آناچاہیے کہ اسلام تو مظلوموں کا سب سے بڑا حامی ہے۔ دراصل ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اینٹی اسلام ہے‘ اب دین کے شعبے میں بھی ان پڑھ لوگ آگئے ہیں‘ یہ ان پڑھ مولوی ہیں ‘ اخبار تک نہیں پڑھتے۔ ان کا مطالعہ صرف پانچ چھ سو سال پرانی کتابیں پڑھنے تک محدود ہے‘ ہمارے پیغمبر ﷺ نے انتہائی فرسودہ اور جاہل قوم کو دنیا کا فاتح بنادیا مگر ہمارے یہ مولوی اسلام کی اصل روح نہیں سمجھتے۔

    مدارس کا نصاب
    مدرسہ میں تو کہتا ہوں کہ دینی مدرسوں میں قانوناً اصطلاحات ہونی چاہیے‘ جنرل مشرف یہ بات تو ٹھیک کہتا رہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ مدرسوں کا نصاب بزور بدلنا چاہیے لیکن یہ کام کرنے کا حق ان کو ہرگز نہیں ہے‘ جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن پاک کے 30سپارے ہیں یا 40۔ یہ کام وہ کریں جنہیں سپاروں کی گنتی تو کم از کم آتی ہو۔

    قوم میں موجود فرسٹریشن
    qaum قوم میں مایوسی تو بہرحال ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری آپ کے سامنے ہے‘ افسوس یہ ہے کہ فوج کے آنے پر ہمارے تمام سیاستدان اس کے ساتھ مل جاتے ہیں‘ ایوب خان نے جب کنونشن لیگ بنائی تو قائد اعظم کی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے تمام زندہ ارکان ایوب کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ جرنیل غلط کام کرتے ہیں‘ اس کی سپورٹ سیاست دان کرتے ہیں اور مارے عام لوگ جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں چند فوجی افسر ہی سول انتظامیہ میں آئے تھے‘ اب تو انتہا ہوگئی ہے‘ اس کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ ابن خلدون کا مشہور قول ہے کہ ’’مٹتی ہوئی قومیں اپنے ہیرو ایجاد کرلیتی ہیں‘‘۔ اب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک جج ہیرو بن جائے گا‘ مگرایسا ہوا۔ دراصل ہماری قوم لیڈر کی بھوکی ہے اور اس کے انتظار میں ہے۔
    عمران خان میں جان ہے‘ میں اسے پسند کرتا ہوں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے سیاست نہیں آتی‘ ویسے اس میں ایثار کا جذبہ ہے۔ نواز شریف میں بھی صلاحیت ہے اور کوئی کرپشن کا الزام بھی اس پر نہیں۔ دیکھیں بہرحال وہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے دو چیف آف آرمی سٹاف الگ کرنے کی جرأ ت کی۔

    کالم لکھنے میں تلخ تجربات
    سب سے مشکل بھٹو صاحب کا دور تھا‘ وہ سیاست دان تھے‘ ان کے خلاف لکھنا مشکل ہوتا ہے‘ دلچسپ بات یہ کہ رکاوٹوں اور پابندیوں میں لکھنے کا مزا بھی آتا ہے۔ اس وقت بندہ بڑے آرٹ کے ساتھ لکھتا ہے۔ جنرل مشرف نے آزادی دی تو لکھنے کا مزا نہیں آتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے کا ریسپانس ہمیشہ ملا ہے۔
    ایک بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کبھی لکھنے پر خوف محسوس ہوا؟ سچ بات یہ ہے کہ میرا دیہاتی بیک گرائونڈ ہے۔ مجھ میں خوف موجود نہیں‘ مصلحت یا مجبوری الگ شے ہے مگر مجھے کبھی خوف نہیں آیا۔ اگر آپ اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری طرح مانتے ہیں اور اس پر سٹینڈ لیتے ہیں تو قدرت مدد کرتی ہے۔ اگر خود ہی مصلحت پر آجائیں تو قدرت کی مدد شامل نہیں ہوتی۔ پھر انسان کو آخر کسی بات پر نقصان اٹھانے کے لیے تو تیار رہنا چاہیے۔ ایک بار جنرل پرویز مشرف کی صحافیوں کو بریفنگ میں ان کے ساتھ خاصی بحث ہوگئی۔ میں سوال پوچھنے کے لیے کھڑا ہوا اور بولا کہ جنرل صاحب! ڈاکٹر قدیر جو آپ کے بھی ہیرو ہیں … ابھی اتنا کہا تھا کہ جنرل مشرف ترنت بولے وہ میرے ہیرو نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا لیکن وہ میرے تو ہیرو ہیں۔ اس پر پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے سوال مکمل کیا کہ آپ یکطرفہ طور پر ڈاکٹر قدیر کے خلاف چارج شیٹ لگا رہے ہیں‘ ان کو تو اپنا مؤقف بیان کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مشرف جنرل مشرف نے دوبارہ سے ڈاکٹر قدیر پر اپنے پرانے الزامات دہرانے شروع کردیے۔ بعد میں بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو سوال پوچھتے خوف نہیں لگا تھا کہ ان دنوں خاصے لوگ پراسرار طور پر لاپتہ ہو رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ دراصل اگر آپ اخبار نویس بنے ہیں تو اس کے مسائل و مصائب کے لیے بھی تیار رہیں۔ ایسے واقعات بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ہوجاتے تھے‘ مگر وہ سیاست دان تھے‘ ناراض ہونے کے بجائے اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں مجھے تمغہ امتیاز دینے کا بتایا گیا اور اس کے لیے بائیو ڈیٹا مانگا گیا تو میں نے انکار کر دیا کہ مجھے کسی فوجی حکمران سے کوئی تمغہ نہیں چاہیے۔ دوسروں نے تو تمغہ لے کر انکار کیا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی انکار کردیا تھا۔ تو جیسی جرأت انکار جسٹس چودھری نے کی‘ وہ بندے میں کسی نہ کسی حد تک ہونی چاہیے۔

    موسیقی
    رفیع لتا موسیقی بہت پسند ہے‘ ہلکی پھلکی فلمی موسیقی‘ غزلیں اور کبھی کبھار کلاسیکل بھی جو قدرے عام فہم ہو۔ پاپ موسیقی قطعاً پسند نہیں ہے۔ مجھے لتا منگیشکر اور رفیع پسند ہیں‘ خاص کر رفیع کہ مردانہ آواز کے باوجود وہ تان میں لتا کا مقابلہ کرتا تھا۔ نور جہاں اور مہدی حسن کے سٹائل میں بڑی یکسانیت ہے۔ لگتا ہے کہ ایک ہی غزل بار بار گا رہے ہوں۔ فوک میوزک بہت پسند ہے‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی پہلے پسند تھا‘ اب وہ اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔

    فلم
    Devdas_2002_soundtrack پہلے بہت فلم دیکھتا تھا‘ ا ب تو کئی سال سے سینما گھر ہی نہیں گیا‘ ٹکٹ کے ریٹ کا ہی پتہ نہیں‘ بھارتی اداکار شاہ رخ خان مجھے بہت پسند ہے۔ اس کی فلم دیوداس بہت اچھی لگی‘ اس میں وہ فن کی انتہا تک پہنچ گیا۔ ہمارے ہاں اب تو کوئی اداکار ہے ہی نہیں۔ پرانوں میں ظریف اچھا تھا۔ محمد علی نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا۔

    شاعری
    فیض احمد فیض فیض صاحب میرے پسندیدہ شاعر ہیں‘ ان سے بڑا اچھا تعلق رہا‘ وہ میرے بڑے مہربان تھے‘ ان کی شاعری کا کیا کہنا‘ ان کی خوش قسمتی تھی‘ وہ روس کے خاتمے سے پہلے ہی رخصت ہوگئے ورنہ یہ ان کے لیے بہت گہرا صدمہ ہوتا۔ حبیب جالب کی شروع کی شاعری اعلیٰ تھی ‘ بعد میں تو وہ شاعرانہ رپورٹنگ ہو کر رہی گئی تھی‘ ویسے یہ حقیقت ہے کہ ایوب خان کو سب سے زیادہ نقصان جالب کی شاعری نے پہنچایا تھا۔

    اخبارنویسی کا کیرئر
    میں اپنے کیریئر سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ اخبار نویسی نے مجھے متوازن شخصیت بنایا ورنہ ملا بن گیا ہوتا۔ دراصل اخبار نویس حالات کے ساتھ ساتھ آگے چلتا ہے‘ میں نے صحافت ملازمت کے لیے نہیں کی تھی، کیونکہ مجھے روزگار کے لیے ملازمت کی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس میں عزت ملی۔ اب مکمل ذہنی آسودگی کا احساس ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسی آزادی آگے برقرار رہے۔