Tag: سیلانی

  • زرد صحافت اسے کہتے ہیں!  –  احسان کوہاٹی

    زرد صحافت اسے کہتے ہیں! – احسان کوہاٹی

    یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

    ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔

    ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘

    رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔

    آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

    سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔

    سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔

    ’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘

    استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔

    ’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘

    انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔

    ’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘

    پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘

    حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:

    ’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘

    ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔

    اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔

    اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔

    بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ –  احسان کوہاٹی

    ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ – احسان کوہاٹی

    ٹیلی ویژن اسکرین ایک نیا تماشا دکھا رہی تھی۔ بااثر لوگوں کا منہ چڑھا پولیس افسر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کو ہتھکڑیاں لگا ئے لیے جا رہا تھا اور خواجہ اظہار الحسن اس سے پوچھے جارہے تھے کہ آپ مجھے کس جرم میں گرفتار کررہے ہیں؟ وارنٹ کہاں ہے؟ وہاں ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار بھی دکھائی دے رہے تھے جو راؤ انوار سے یہی کچھ کہہ رہے تھے، لیکن راؤ انوار نے پہلے کب کسی کی سنی تھی جو اب سنتا۔ اس نے ستائیس مقدمات میں ضمانتوں پر رہا ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کو ساتھ لیا اور سپر ہائی وے کے سائیٹ تھانے کی طرف چل پڑا۔
    sailani-01
    یہ اس چھاپے کے دو گھنٹے بعد ہوا جو خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر مارا گیا تھا۔ اس چھاپے سے ہی نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز کا بوفے لنچ ملا۔ سیلانی اس ”وقت“ کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کسی کا ٹیلی فون وصول کرکے کہا:
    ’’خواجہ اظہار کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا ہے‘‘

    ’’ابے بھائی! پولیس میں یہ مجال کہاں، رینجرز والے ہوں گے۔‘‘ سیلانی نے فوراً کہا اور خبر کی تصدیق کے لیے سامنے دیوار پر آوایزاں درجن بھر ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نیوز چینل کی اسکرین پر ڈبا گھوما خواجہ اظہار کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔۔ سیلانی کے لیے یہ چھاپہ حیران کن تھا۔ ہماری پولیس ’’سیاہ سی‘‘ ہونے کے ساتھ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگی بلکہ لتھڑی ہوئی ہے۔ فی الوقت بوڑھے شاہ کی جگہ لینے والا جوان العمر شاہ اس موڈ میں نہیں تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے مخاصمت کا کوئی دروازہ کھولے، پھر پولیس کس کے کہنے پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے گھر گئی اور کیا لینے گئی؟ سیلانی کے ذہن میں ان سوالات کا جھکڑ چلنے لگا۔ اس نے اپنے ذرائع سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اتفاق کہ کسی سے بات نہ ہوسکی، البتہ راؤ انوار سے قریب کچھ صحافی دوستوں کے توسط سے پتا چلا کہ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار کے گھر میں کچھ ٹارگٹ کلرز موجود تھے۔۔۔ راؤ انوار کا یہ موقف دینے والے کو بھی اس پر ہنسی آرہی تھی اور سیلانی کو بھی۔ ایسے برے وقت میں کوئی پڑوسی کی بلی بھی گھر میں گھسنے نہ دے کجا کہ کوئی ٹارگٹ کلر کو مہمان بنائے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے باخبر ساتھی جانتے ہیں کہ اس کا سیاسی سیٹ اپ تنظیمی سیٹ اپ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ مار دھاڑ والے کارکنوں سے کام لینا اور انہیں محفوظ پناہ گاہوں میں محفوظ رکھنا کے ٹی سی (کراچی رابطہ کمیٹی) کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے، سیاسی سیٹ اپ والے ان معاملات میں ’’معصوم‘‘ ہوتے ہیں۔
    sailani-03
    ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر راؤ انوار کا یہی موقف ڈبے میں گھومنے لگا۔ ادھر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس چھاپے کا فوری نوٹس لیا کہ معاملہ سپر ہائی وے پر مارے جانے والے ’’باریش دہشت گردوں‘‘ کا نہیں تھا، جو کلائیوں میں پڑی ہتھکڑیوں کے باوجود ’’مقابلہ‘‘ کرلیتے ہیں اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک کوئی نوٹس نہیں لیتا کہ دہشت گردی کے نام پر قتل ہونے والے نے ہتھکڑیاں کیوں پہنیں اور پھر مقابلہ کیسے کیا۔۔۔ وزیر اعلیٰ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ کچھ دیر بعد یہ بھی کہہ دیا کہ راؤ انوار کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    ادھر وزیر اعلیٰ نے ایکشن لینے کا عندیہ دیا، ادھر راؤ انوار خود نفری لے کر خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے چل پڑے اور اسے ہتھکڑیاں لگاکر سائیٹ تھانہ سپر ہائی وے پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ بپھر گئے۔ انہوں نے ایس ایس پی کو فوری طور پر معطل کرکے اس زون کے ڈی آئی جی کو بھی فارغ کردیا۔ اس معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ معطل ایس ایس پی نے نیوز کانفرنس بلالی اور اب تمام اسکرینوں پر سفید کنپٹیوں والا ایک معطل ایس ایس پی بتارہا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی میں ان ہی کے حکم پر گزشتہ دنوں گاڑیاں جلائی گئی تھیں اور ان پر نفرت انگیز تقاریر کے لیے سہولت کار ہونے کا بھی الزام ہے۔ اب انہیں کوئی پولیس افسر رہا نہیں کراسکتا۔ اب صرف عدالت ہی میں فیصلہ ہوگا۔۔۔
    sialani-04
    سیلانی کو اس سارے ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیلائے اقتدار کو کنیز رکھنے والے ایسی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ راؤ انوار کو قانون کی رکھوالی کا ہیضہ نہیں ہوا، کہیں سے اسے ہدایات دی گئی ہیں، اس پر کسی کا تو ہاتھ ہے جو وہ نیوز کانفرنس میں دھڑلے سے اپنے سینئر افسران کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسے ہلکا نہ لیں۔ میں وہ اور وہ ڈی آئی جی نہیں ہوں۔۔۔ اس لہجے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ کوئی تو سبب ہوگا۔ کسی نے تو اس دھاگے کو پسے ہوئے کانچ کا لیپ دے کر مانجھا بنایا ہوگا۔ راؤ انوار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی قربت کی بنا پر وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ مرضی کے علاقے ملیر میں تعینات رہتے ہیں اور مرضی پر چلتے ہیں۔ یہ تعلقات بڑے پرانے ہیں۔ کراچی کے سینئر کرائم رپورٹر ائیر پورٹ تھانے کے اس سب انسپکٹر تھانیدار کو نہیں بھولے ہوں گے، جو دو ہفتے کی چھٹی کی درخواست لے کر ایس ایس پی شرقی کے پاس جاتا ہے۔ درخواست منظور ہوجاتی ہے تو فرمائش کرتا ہے کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی دوسرا ایس ایچ او نہ لگایا جائے۔ ایس ایس پی اسے گھور کر چلے جانے کا کہتا ہے۔ وہ یہ درخواست اور فرمائش لے کر ڈی آئی جی کے پاس جاتا ہے۔ ڈی آئی جی اسے ڈانٹ کر دفتر سے نکال دیتا ہے کہ یہ پولیس ہے، تمہارے گھر کا باورچی خانہ نہیں کہ فرمائشی پروگرام چلاؤ۔ وہ چلا جاتا ہے اور پھر ڈی آئی جی آفس کو اسلام آباد سے ہدایت دی جاتی ہے کہ راؤ انوار کی چھٹی منظور کی جائے اور وہ اپنی رخصت پر تھانے کا ایڈشنل چارج جسے دے کر جارہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے۔۔۔

    جی ہاں! اس وقت راؤ انوار سب انسپکٹر تھا اور اتنا بااثر تھا کہ سینئیرپولیس افسران بھی اس کے سامنے نہ آتے تھے، آج وہی ایس ایس پی ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر پر ہاتھ ڈال رہا تھا تو اس ہاتھ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا تھا؟

    سیلانی کو اس ڈرامے سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، وہ دفتر سے نکل گیا، اسے ابرش یاد آرہی تھی، اس کا معصوم مسکراتا چہرہ یاد آرہا تھا، وہ جب اپنے بابا کو دیکھ کر خوشی سے چمکتی آنکھیں لیے اس کی طرف ہمکتی ہے تو اس لمحے کی لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ملتی۔ سیلانی بائیک دوڑاتا ہوا گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کھڑی کی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہاں ابرش مزے سے سورہی تھی۔ سیلانی نے اپنی بیٹی کی پیشانی چومی اور سیل فون ایک طرف رکھ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھوکر لباس بدل کر سیلانی غسل خانے سے باہر نکلا تو سیل فون اسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ سیلانی نے موبائل فون اٹھایا، واٹس اپ پر آنے والے پیغام نے اسے چونکا دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کلپ تھا۔ فاروق ستار کی نیوز کانفرنس کا چھوٹا سا ٹکڑا، جس میں فاروق ستار کہہ رہے تھے:

    ’’معاملہ لندن سے آنے والے بیانات نہیں ہیں۔۔۔ معاملہ پاکستان مخالف نعرے لگانے کا نہیں ہے۔۔۔“ فاروق ستار نے ابھی یہ دو جملے ہی کہے تھے کہ ان پاس موجود لوگ کہنے لگے:
    ’’دشمنی ہے، دشمنی ہے، دشمنی ہے‘‘

    ایک اور آواز آئی:
    ’’مہاجر دشمنی ہے‘‘

    اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں موجود لوگوں نے دل میں چھپا بغض نکالنا شروع کردیا، ایک نے آواز لگائی:

    ’’پاکستان ‘‘
    اور بہت ساری آوازیں آئیں ’’مردہ باد‘‘
    اور یہ نعرہ ایک بار نہیں لگا، دو بار پاکستان کا نام لیا گیا اور دو ہی بار کیمروں کے مائک نے مردہ باد، مردہ باد کی ناپاک اور غلیظ آوازیں ریکارڈ کیں۔
    sailani-02
    چھاپہ پڑا خواجہ اظہار کے گھر پر۔۔۔ گرفتار کیا گیا خواجہ اظہار کو۔۔۔ اس چھاپے پر فوری نوٹس بھی لیا گیا، ایس ایس پی معطل بھی ہوگیا۔ ڈی آئی جی کو بھی سندھ سے باہر کردیا گیا لیکن پھر بھی پاکستان مردہ باد!

    یہ گرفتاریاں، یہ ہتھکڑیاں، جیل کی روٹیاں اور جیلر کی سوٹیاں سیاست دانوں کے لیے صرف اس وقت نئی ہوتی ہیں جب پہلی بار ان سے سامنا ہوتا ہے۔ پھر یہ سیاسی کارکنوں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ۱۹۵۴ ء ۱۹۵۵ میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا عبدالستار نیازی رح اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودی رح کو عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن مولانا نیازی نے پاکستان سے بیزاری کا اظہار کیا اور نہ مولانا مودودی نے کہا کہ وہ اس پاکستان کو نہیں مانتے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو اسلام کے لیے بنا تھا۔ کسی نے بھی کہیں بھی پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔۔۔ اس سے پہلے قائد ملت کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے بھل بھل بہتے گولی کے زخم پرہاتھ رکھتے ہوئے آخری الفاظ کہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔۔ ان کے بعد نوابزادہ صاحب کی اولاد میں سے کس نے کہا کہ ہم نے اس لیے پاکستان کے لیے جاگیریں چھوڑی تھیں کہ ہمارے باپ کو سرعام قتل کیا جائے؟ ہم ایسے پاکستان کو نہیں مانتے، جہاں ہم محفوظ نہ ہوں۔۔۔ اب آگے چلیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، کس جیالے نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔۔۔ اور آگے بڑھیں بی بی بینظیر کو قتل کیا گیا۔ بلاول، آصفہ، بختاور میں سے کس نے پاکستان مردہ باد کہا؟ دو برس پہلے جمیعت علماء اسلام کے مولانا خالد سومرو کو گولیاں ماری گئیں، جمعیت کے کس کارکن نے کہا کہ پاکستان مردہ باد؟
    sailani-05
    سیلانی انتظار کرتا رہا کہ سندھ اسمبلی کے معزز رکن کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری کا نوٹس لینے والے وزیر اعلٰی اور برہمی کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم پاکستان میں ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا بھی نوٹس لیں گے، وہ آئی جی سندھ اور آئی جی سندھ سے کہیں گے کہ فاروق ستار کی موجودگی میں جس جس نے پاکستان مردہ باد کہا اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک رکن سندھ اسمبلی کے گھر پر چھاپہ پڑا، اس کا استحقاق مجروح ہوا، اسے گرفتار کیا گیا، نوٹس لیا گیا، کارروائی کی گئی، لیکن پاکستان کے استحقاق کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ سب ٹھنڈے پیٹوں پی گئے۔ پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہوگئی۔ جس کا جی چاہے کھڑا ہوکر مادر وطن کو گالی دے دے۔ جیسے کوئی کالج کی عقبی دیوار کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیتا ہے۔۔۔ سیلانی نے اراکین سندھ اسمبلی کے واٹس اپ گروپ میں اس مکروہ فعل کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے صحافتی حلقوں میں دوستوں کو آگاہ کیا اور صبح تک موبائل اٹھا اٹھاکر اس نوٹس کا انتظار کرتا رہا جس نے نہیں آنا تھا، وہ ریموٹ لے کر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ گیا۔ چینل بدل بدل کر دیکھتا رہا کہ ابھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کی پٹی چلے گی، ابھی وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹس لیے جانے کی بریکنگ نیوز چلے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ معاملہ کسی پاکستانی سیاست دان کے استحقاق کا نہیں پاکستان کا تھااور پاکستان تو بس۔۔۔

    سیلانی نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ریموٹ ہاتھ میں لیے ٹی اسکرین پر نظریں جمائے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ – سیلانی

    ’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ – سیلانی

    آج آپ کو سیلانی سرحد پار کی کچھ مزیدار خبریں سناتا ہے، لیکن پہلے زمین پر کسی گندے کپڑے کی طرح پڑا کپڑے کا یہ ٹکڑا دیکھ لیجیے اور اب ذرا تھوڑی دیر کے لے ایران چلیے۔ ایران بھی وہ جب یہاں کسریٰ حکمران تھا اور ایران دنیا کی سپر پاور ہوا کرتا تھا۔۔۔ جی جی وہی مسلمانوں کے شمشیرو سناں اول والے دور کا ایران، یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب چار سوایران کا طوطی بولتا تھا۔ ایرانیوں کی فوج کے نام سے ہی اچھے اچھے راجے مہاراجے کان پکڑ لیا کرتے تھے کہ ان کے پاس تو چنگھاڑتے ہاتھی ہیں۔ ایک ایک پاؤں کے نیچے چار چار کچلے جاتے ہیں۔ کم بختوں کی موٹی چمڑی میں تیر گھستا ہے نہ نیزہ اثر کرتا ہے۔ ان کے منہ کو کون آئے۔۔۔۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو سہی، اس کے گھمنڈی ایرانی شاہ کے دربار میں کیا ہورہا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس بے خود نڈر شخص کو، یہ جو ”شاہ“ کو کلمہ پڑھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی کبریائی تسلیم کرلو یا پھر میدان میں آجاؤ۔ اللہ کی بڑائی مان لیتے ہو تو زمین بھی تمہارے پاس رہے گی اور اس کا نظم و نسق بھی۔ نہیں مانتے تو جزیہ دینا ہوگا اور دونوں باتیں نہیں مانتے تو پھر مقابلہ ہوگا۔۔۔ ان کی اس بات پر کسریٰ کا غصے میں تلملانا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ کہاں اس کی سرحد پر جمع چند ہزار جنگجو اور کہاں وہ ہاتھی گھوڑوں کی فوج رکھنے والا مطلق العنان حکمران۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس نے کیا کیا؟ اس نے مغیرہ بن شعبہ کے سر پر مٹی پھینک دی کہ مٹی کی بات کرتے ہو تو یہ لو مٹی۔۔۔ اور جاؤ اپنے سپہ سالار کو دے دینا کہ تمہارے سر پر خاک۔۔۔ اس نے مسلمان سفیر کی۔ بھرے دربار میں تضحیک کرکے یہ پیغام دیتے ہوئے روآنہ کردیا گیا کہ اگر انہوں نے ایران کی جانب دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ مسلمانوں کا سفیر اسی حال میں اپنے سپہ سالار سعد بن وقاص کے سامنے پیش ہوگئے اور سارا ماجرا کہہ ڈالا۔ سپہ سالار یہ دیکھ کر بالکل بھی پریشان نہ ہوئے اور کہنے لگا: ’’ایرانی بادشاہ نے مٹی نہیں پھینکی بلکہ اپنی زمین ہمارے حوالے کردی ہے اور پھر مورخ نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ عرب سے آنے والے تھوڑے سے مجاہدین نے سپر پاور ایران کی ناک رگڑوا دی۔ وہ چنگھاڑتے ہوئے ہاتھی میدان میں لائے تو ان کی سونڈیں کاٹ کر اس چلتی پھرتی بلا کا رخ انہی کی جانب موڑ دیا۔ ایرانیوں کی تلواریں گرگئیں اور ایران فتح ہوگیا۔

    اب سیلانی کے ساتھ پندرہ اگست کی صبح بخشی اسٹیڈئم چلیے۔ ارے بھئی آیئے ناں کچھ نہیں ہوگا۔ آپ پر کوئی پیلٹ گن فائر کرے گا نہ جی ٹو کا برسٹ چلائے گا۔ ساتھ آئیں اور چپ چاپ تماشا دیکھیں۔۔۔ جی یہ بخشی اسٹیڈئم ہے۔ سری نگر کا بخشی اسٹیڈیم، سیکیورٹی دیکھ رہے ہیں آپ؟ ایک ایک فٹ فٹ پر بھارتی فوجی کھڑے ہیں۔ یہاں بھارت کی یوم آزادی کی سرکاری تقریب ہونا ہے۔ محبوبہ مفتی آرہی ہیں جھنڈالہرانے، اور یہ لیں وہ آگئیں، وقت کی پابند خاتون ہیں۔ ادھر یہ جھنڈے چڑھائیں گی اور ادھر ان کے پردھان منتری نریندر مودی ترنگا لہرائیں گے۔ شش شش چپ رہیے بھئی، بس دیکھتے جایئے۔

    دیکھ رہے ہیں ناں محبوبہ مفتی صاحبہ لمبے سے سبز رنگ کے چوغے میں پورے کروفر کے ساتھ بخشی اسٹیڈئم پہنچی ہیں۔ بھئی یہ پروٹوکول اور اقتدار ہی تو ہوتا ہے جو بھائیوں کو قتل کروا دیتا ہے اور باپ کو قید خانے میں ڈلوادیتا ہے۔ مفتی صاحبہ نے بھی تو اپنے محبوب اقتدار کے لیے ضمیر کا ٹیٹوا دبا رکھا ہے۔ کشمیریوں کی جان لے رہی ہیں تو کیا عجیب۔۔۔ محبوبہ صاحبہ آگے بڑھیں۔ وہاں موجود لمبے تڑنگے سپاہیوں سے سلیوٹ وصول کیے اور پورے وقت پر ایک سکینڈ اوپر نہ نیچے ترنگا لہرانے کے لیے ہاتھ سامنے کردیا۔ اب ان کے ہاتھ میں ترنگے کی ڈور ہے۔ کچھ ہی دیر میں بھارتی پرچم پور ے جبر کے ساتھ سری نگر میں لہرانے لگے گا۔۔۔ یار! آپ بہت بولتے ہیں اور خواہ مخواہ بولتے ہیں۔ اب جبر کو جبر نہ کہوں تو کیا کہوں۔ یہ جو چالیس روز سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے، کیا یہ ڈل جھیل میں کشتیوں کی دوڑ کے لیے ہے؟۔۔۔ بس خاموش رہیں، وہ دیکھیں محبوبہ صاحبہ کے ہاتھوں میں ڈور ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ان کی ڈور دہلی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے ترنگا چڑھانے کے لیے ڈور کھینچی۔ گلاب کی پتیاں بیچ میں رکھ کر تہہ کیا گیا۔ ترنگا آہستہ آہستہ اوپر جارہا ہے۔ اب جیسے ہی یہ اوپر پہنچے گا ہلکے سے جھٹکے سے کھل کر پھڑپھڑانے لگا۔۔۔ ارے ارے یہ کیا یہ، یہ، یہ تو پھڑپھڑانے کے بجائے نیچے زمین پر آرہا۔۔۔ یہ تو محبوبہ مفتی صاحبہ کے پیروں میں پڑا ہوا ہے۔۔۔ اوہ مائی گاڈ۔۔۔ چچ چچ بہت افسوس ہوا۔ بھارتی ترنگے کی ایسی بے حرمتی ورسوائی پر۔۔۔ اسی موقعے کے لیے انہوں نے کرفیو لگاکر ہزاروں فوجی کھڑے کیے تھے کہ کوئی آتنک وادی، گھس بیٹھیا رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ چائے میں تمباکو نہ پھینک دے۔۔۔ کیسی شرمندگی کی بات ہے بھئی، پوری دنیا دیکھ رہی ہے کشمیری وزیر اعلٰی کے چہرے پر ہوائیاں تو اڑیں گی ناں۔۔۔ اوہ دیکھو کیسی شرمندہ شرمندہ سی لگ رہی ہیں۔ چلیں اب واپس آجائیں آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ سیلانی کی بہنوں نے گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہے۔ کسی نے بجلی جانے سے پہلے واشنگ مشین لگانی ہے تو کسی نے پونچھا لگانا ہے۔ بھائی لوگوں نے بھی دفتر جانا ہوگا۔ سو کام ان کے منتظر ہوں گے۔ باقی وہاں جو کچھ ہوا میں بتادیتا ہوں۔

    سیلانی کو سرحد پار سے پتا چلا کہ مودی جی نے اس ’’درگھٹنا‘‘ کا بڑا ہی سخت نوٹس لیا۔ ان کی سیاہ پیشانی پر کئی بل پڑ گئے۔ انہوں نے انکوائری بھی بٹھادی کہ معلوم کریں اس کے پیچھے کس کا ہاتھ، اور ہاتھ جس کا بھی ہو اس کے پیچھے بازو آئی ایس آئی کا ہی تلاش کرکے دو۔۔۔ اس ہدایت کے ساتھ وہ خوب گرجے برسے۔ انہیں بلوچستان بھی یاد آگیا اور انہیں کی سینے میں بلوچوں کے لیے درد بھی اٹھا۔ اس درد میں کلبھوشن یادو کی پکڑائی کا دکھ بھی شامل تھا۔ سیلانی کو خبر ملی ہے کہ سری نگر میں جھنڈا گرائی کی تقریب اور پاکستان پر گرجنے برسنے کے بعد انہوں نے ایک گھپا میں دھونی جماکر بیٹھے ننگ دھڑنگ گیانی سادھو سے رابطہ کیا اور انہیں پرنام کرنے کے بعد ترنگے کے ساتھ ہونے والی رسوائی کا بڑے ہی دکھ بھرے انداز میں ذکر کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سادھو کے پاس کبھی کبھار ہی جاتے ہیں۔ سادھو مہاراج نہاتے دھوتے ہیں نہ استنجا کی زحمت کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان سے آنے والی ’’خوشبو‘‘ کئی دن تک نتھنوں میں موجود رہ کر ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔۔۔ سیلانی کو انہی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بنارس کے بڑے مندر کے مہان پجاری سے بھی رابط کیا ہے کہ وہ جھنڈا گرائی کا شگن معلوم کرکے بتائیں اور خصوصی پوجا بھی کرائیں۔ مودی جی نے کالی ماتا کے مندرکے پجاری سے بھی کہا ہے کہ وہ دیوی جی کے چرنوں میں بلی چڑھانے والے کشمیری مسلمانوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ پجاری جی بھی پوجا کی آنچ تیز کردیں۔

    سیلانی کو مزید پتا چلا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی جھنڈے کی بے توقیری کے بعد مودی جی کے منہ کا ذائقہ کشمیری راجہ کے بیٹے نے خراب کردیا ہے۔ بھارت سے کشمیر کا سودا کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن نے بھارتی سرکار کو سرخ جھنڈی دکھادی۔ راجیہ سبھا میں بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کے پتا جی نے بھارت سے معاہدے میں یہ تھوڑی کہا تھا کہ بھارت کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ جب ان کے والد نے بھارت سے الحاق پر دستخط کیے تو وہ اس وقت وہیں موجود تھے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کے پاس صرف مواصلات، دفاع اور امور خارجہ کے محکمے ہونے تھے۔ باقی معاملات ریاست کی ذمہ داری تھی۔ کشمیر پہلے کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا نہ اب ہے۔۔۔۔ لنکا ڈھانے والے گھر کے بھیدی نے اسی پر بس نہیں کیا۔ یہ بھی کہہ دیا کہ بھارت کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دے کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار نہیں کرسکتا۔ کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا تو اٹوٹ انگ کیسے ہوگیا؟ یہ آخری برطانوی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت تھی جس کا نتیجہ کشمیری آج بھی بھگت رہے ہیں‘‘۔

    سیلانی کو دہلی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر کرن کے اس لنکا ڈھانے پر مودی جی کا موڈ بہت خراب ہوا۔ اتنا تو اپنی پتنی جاشو دابھن کے ذکر پر بھی نہیں ہوتا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ وہ بلوچستان جس کے غم میں پندرہ اگست کو ان کے سینے میں درد اٹھا تھا، اب ان کے پیٹ کا مروڑ بن چکا ہے۔ سیلانی کو ان کی تکلیف کا اندازہ ہے۔ اس کرب کا اندازہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان پر انگلی اٹھاچکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اور اس ہمدردی کے جواب میں کوئٹہ سے لے کر قلات اور قلات سے لے گوادر اور گوادر سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک میں بلوچ پشتون خالص پاکستانی بن کر مودی کے پتلے جلارہے تھے۔ سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سیلانی قومی میڈیا پر بلوچوں کا غصہ دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں مودی کے پتلے کو گدھے پر بٹھاکر اسے اس کا مقام بتا رہے تھے تو کہیں جوتیاں برساکر اس کی تقریر کا سواگت کررہے تھے۔ اسی پر بس نہ چلا تو انہوں نے مودی کے پتلے کو ریل کی پٹری پر لٹاکر ٹرین چلواکر واضح پیغام دے دیا کہ مودی جی اپنی للو سنبھال کر رکھیں۔

    سچی بات ہے بلوچستان میں پاکستان کے لیے ہونے والے مظاہرے اس کے لیے بڑے خوش کن تھے۔ مزے کے یہ سب دیکھنے کے بعد سیلانی نے چینل تبدیل کرتے ہوئے عابدہ پروین کو سر لگاتے دیکھا اور وہی ریموٹ رکھ دیا۔ عابدہ پروین ابھی سر لگا ہی رہی تھی کہ اس کے سیل فون کی گھنٹی نے ڈسٹرب کردیا۔ اس نے بادل نخواستہ فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی شور میں کسی نے اس کا نام پکارا ’’سیلانی بھائی!‘‘
    ’’جی ،جی بول رہا ہوں آپ کون؟‘‘
    ’’میں نصراللہ بگٹی بول رہا ہوں‘‘
    ’’نصراللہ بگٹی۔۔۔‘‘ سیلانی بڑبڑایا۔ اسے تو اس نام کا کوئی شناسا یاد نہ تھا۔
    ’’آپ سے دو سال پہلے سول اسپتال ملاقات ہوا تھا۔‘‘
    ’’اچھا اچھا ضرور ہوا ہوگا۔ کہو کیسے یاد کیا؟‘‘
    ’’آپ کو تو ہم یاد ہی رکھتا ہے۔ آپ نے کبھی یاد نہیں کیا۔ ہم آپ کو یہ آواز۔۔۔‘‘ شور کی وجہ سے سیلانی نصر اللہ کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ عجیب سا شور تھا جیسے نعرے لگ رہے ہوں:
    ’’یہ شور نہیں ہے پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہے۔ ہم لوگوں نے پاکستان کے لیے ریلی نکالا ہے۔۔۔۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ سیلانی چونک گیا۔ ڈیرہ بگٹی میں پاکستان کے لیے ریلی، یہ علیحدگی پسند برہمداخ بگٹی کا آبائی ضلع ہے۔ اسی برہمداخ نے بھارتی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسی شکر گزاری پر اس کے قبیلے کے لوگ اس کے اپنے گھر پر اس پر برہم تھے۔

    ’’آپ ڈیرہ بگٹی میں ہو؟‘‘ سیلانی کے لہجے میں ابھی تک بے یقینی تھی۔
    ’’ہاں ہاں، سیلانی بھائی ہم ڈیرہ بگٹی میں ہوں۔ آپ حیران کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہم پاکستانی نہیں ہے؟ یہ لو سنو۔۔۔‘‘ اس کے بعد نصر اللہ کے فون کا اسپیکر پاکستان زندہ باد، مودی مودی مردہ باد کے نعرے سنانے لگا۔ یہ آوازیں یہ شور اتنا میٹھا لگ رہا تھا کہ سیلانی نے سامنے ٹیلی ویژن پر اپنی پسندیدہ گلوکارہ عابدہ پروین کی آواز دبی ہی رہنے دی اور مسکراتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے سننے لگا۔ یہ نعرے اسی سرزمین سے پھوٹ رہے تھے، جہاں بھارت ایک عرصے تک اپنی انٹیلی جنس ایجنسی RAWکے کلبھوشنوں سے دہشت گردی کی آگ کو ہوا دیتا رہا اور اب اپنے تئیں بغاوت کا الاؤ جلاکر پاکستان کو کشمیر پر بلیک میل کرنے لگا تھا کہ اگر کشمیر کشمیر کی آواز بند نہ کی تو تمہارا بلوچستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آج وہی بلوچستان مودی کو جوتے دکھا رہا تھا۔ آج وہی بلوچستان بول اٹھا تھا۔۔۔ پاکستان پاکستان، سیلانی فون کان سے لگائے ڈیرہ بگٹی کے بگٹی بھائیوں کے فلک شگاف نعرے سننے لگا اور مسکراتے ہوئے چشم تصور میں نریندرا مودی کی سیاہ پیشانی پر پسینے کے چمکتے قطرے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’گورکن‘‘   –  سیلانی

    ’’گورکن‘‘ – سیلانی

    سیلانی کی آنکھوں کے گوشے نم ہوئے نہ منہ سے آہ نکلی۔ وہ بت بنا خالی خالی نظروں سے ٹیلی ویژن کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ٹی وی پر کوئٹہ میں ڈھائی گئی قیامت کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ لہو میں لت پت لاشیں۔۔۔ موت کی اچانک جھپٹ پر حیران کھلی ہوئی ساکت آنکھیں۔۔۔ اکھڑتی ہوئی سانسیں۔۔۔ کراہتے ہوئے زخمی۔۔۔ اور ان زخمیوں کے درمیان بچ رہنے والے بوکھلائے ہوئے حواس باختہ خوش نصیب۔۔۔

    سول اسپتال کوئٹہ کی ایمرجنسی لمحوں میں قتل گاہ بن چکی تھی۔ بارودی دھماکے نے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے تھے۔ درو دیوار خون سے رنگ دیئے تھے۔ زمین مذبح کے فرش کی طرح سرخ کردی تھی۔ اس مقام پر کٹے پھٹے وجود آڑھے ترچھے پڑے ہوئے تھے، جہاں زندگیاں بچائی جاتی ہیں، مسیحائیاں کی جاتی ہیں، آج وہیں ایک انسان نما درندہ موت بانٹ کر خود ’’جام شہادت‘‘ نوش کرگیا تھا، لیکن ایسا پہلی بار تو نہ ہوا تھا۔ دہشت و وحشت کا یہ کھیل پہلی بار کھیلا گیا ہوتا تو سیلانی کے چہرے کا رنگ بھی متغیر ہوتا۔ اس کا حلق خشک ہو تا اور آنکھیں چھم چھم برستیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے موت اس دھرتی پر ایسا ہی ناچ ناچ رہی ہے۔ بازار، اسپتال، تھانے، چھاؤنیاں، کچہریاں، سرکاری دفاتر، مدارس، اسکول، یونی ورسٹیاں حتیٰ کہ عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔

    ملک کا کون سا حصہ ہے جہاں خوف و دہشت نے کوئی سانحہ رقم نہیں کیا؟ خوف کی زیادتی خوف کو شکست دے دیتی ہے۔ دکھ کو دکھ اور تکلیف کو تکلیف مات دے دیتی ہے، سیلانی تو اپنے حصے کے اشک کب کے بہاچکا۔ 1987ء میں پہلی بار کراچی کے بوہری بازار میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد سے اس ملک میں اتنے دھماکے ہوئے کہ اب کوئی دھماکا دھماکا نہیں لگتا۔ اس کا دل بھی کسی قصاب، سرجن یالاشیں زخمی اٹھانے والے رضاکارکی طرح سخت سا ہوگیا ہے، اسی لیے جب اسے کوئٹہ کے سول اسپتال میں بم دھماکے کی اطلاع ملی تو وہ بس خاموش سا ہوگیا اور ٹیلی ویژن کے سامنے آکر لاشیں گننے لگا۔ دھماکے میں پندرہ جانوں کے ضیاع سے شروع ہونے والی بریکنگ نیوز اب پچاس کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں۔ زخمیوں کی تعداد سو سے زیادہ بتائی جارہی تھی۔ رات تک یہ تعداد ستر تک پہنچ چکی تھی اور پھر سب کچھ ویسا ہی ہو نے لگا جیسا اب تک ہوتا آیا ہے۔

    آرمی چیف کوئٹہ پہنچ گئے۔۔۔ زخمیوں کی عیادت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔۔۔ وزیر اعظم بھی کوئٹہ تشریف لے ہی آئے۔۔۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کیا جانے لگا۔۔۔ مژدہ سنایا جانے لگا کہ بھاگتے دہشت گرد اب بوکھلاہٹ میں نہتے عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔ انکشاف ہونے لگے یہ دہشت گرد ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ دلاسے دیئے جانے لگے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہورہا تھا جیسا دہشت گردی کے پہلے واقعے کے بعد سے ہوتا آیا ہے۔ سیلانی ٹیلی ویژن پر یہ سب دیکھتا رہا اور کڑھتا رہا۔

    حکمران ’’قیمتی جانوں‘‘ کے ضیاع پر اس افسوس کا اظہار کرچکے جو انہیں کبھی نہیں ہوا۔ سیاستدانوں نے بھی مذمتی بیان چلواکر اپنا فرض ادا کر دیا۔ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ادارے جیسے پہلے متحرک تھے، ویسے ہی اب بھی متحرک ہوگئے۔ میڈیا نصرت فتح علی کے الاپ کے ساتھ نیوز رپورٹیں دکھا دکھاکر رات نو بجے کا خبرنامہ بھگتا چکا، جس کے بعد سیلانی نے دفتر سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکل آیا، دفتر کے ایک دو دوستوں نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش بھی کی، لیکن سیلانی نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔

    اس کا دفتر پریس کلب سے پیدل مسافت پر ہے، وہ وہیں موٹر سائیکل کھڑی کرتا ہے۔ وہ جانے پہچانے راستوں پر سر جھکائے چلتا ہوا پریس کلب کی طرف چل پڑا۔ وہ گہری سوچ میں گم تھاکہ آخر اس دہشت وحشت کے کھیل کا خاتمہ کب ہوگا؟ وہ آخری دہشت گرد کب مارا جائے گا جس کے بعد ہم سکون سے کہہ سکیں کہ ہماری نسلیں اب اس کینسر سے محفوظ ہیں اور ان سے آنے والی نسلیں ان سے پوچھا کریں گی کہ یہ خودکش دہشت گرد کیسا ہوتا تھا۔۔۔ کاش اس کا آخری کالم اسی آخری دہشت گرد کے خاتمے پر ہو۔

    سیلانی نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کو ہولیا۔ دفتر سے گھر کا راستہ ہمیشہ سیلانی کے کاندھوں پر وزنی اینٹوں کی مشقت کا سا بوجھ رکھ دیتا ہے، لیکن آج ستر جنازوں کے بوجھ کے خیال نے یہ بوجھ ہلکا کردیا۔ اسے نہیں پتا چلا کہ کب ماری پور روڈ پر بچھا فاصلہ سمیٹا، کب گلبائی سے ٹرک اسٹینڈ تک گڑھوں کی دھول مٹی میں اٹا راستہ عبور کیا اور کب گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کے ہارن کی آواز پر ہمیشہ کی طرح منیب نے حسب معمول ’’بابا آگئے‘‘ کا نعرہ لگایااور دروازہ کھول دیا۔

    سیلانی نے موٹرسائیکل اندر کھڑی کی۔ منیب نے پنجوں پر کھڑے ہوکر بابا کے گال پر بوسہ دیا اور اس کے کاندھے سے بیگ لیتے ہوئے بولے: ’’بابا! آج آپ نے اتنی دیر کردی، ہم تو ڈر ہی گئے تھے۔‘‘

    ’’ڈر۔۔۔‘‘ سیلانی چونکا۔

    ’’جی، ہم سمجھے کہ آپ کو ئٹہ نہ چلے گئے ہوں۔۔۔ آپ کا پتا نہیں چلتا ناں، آپ رپورٹنگ کے لیے چلے جاتے ہیں، بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘

    منیب نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے خدشے کا اظہار کرکے سیلانی کو صحافت چھوڑنے کا بھی کہہ دیا۔ اس کا یہ انداز، یہ بے چینی غیرمعمولی تھی۔ وہ ایک حساس بچہ ہے اور سیلانی کی طرح گہرا مشاہدہ کرنے والا observer ہے، لیکن اس طرح اس نے کبھی نہیں کہا۔ سیلانی نے پیار سے اس کے پھولے پھولے گالوں کو چھوا اور جواب دیئے بغیر والدہ کے کمرے میں چلا آیا۔ انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب میں ہاتھ اٹھاکر ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا: ’’ظالموں نے آج کوئٹہ میں قیامت ڈھا دی۔ اللہ انہیں غرق کرے، انہیں تباہ کرے۔۔۔ دیکھو ذرا! بیچارے لوگوں کے پیچھے پڑگئے ہیں۔‘‘

    ’’جی مورے! ستر بندے مرگئے ہیں۔‘‘
    ’’کیا، ستر بندے ہاہ آہ۔۔۔ اللہ انہیں برباد کرے۔‘‘ والدہ ہاتھ ملتے ہوئے بددعائیں دینے لگیں اور سیلانی اپنے کمرے کے غسل خانے میں گھس گیا۔ نہا دھوکر کپڑے بدل کر باہر آیا۔ ننھی ابرش نیند سے جاگ چکی تھی۔ سیلانی نے اسے بے اختیار اٹھاکر سینے سے لگالیا۔ ابرش کو سیلانی کی سخت شیو چبھتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے بابا کا چہرہ دور کرنے لگی۔ وہ جتنا دور کرتی، سیلانی اتنا ہی اس کے نرم و نازک چہرے پر اپنا گال رگڑنے لگتا۔ ابرش تنگ آکر رونے لگی۔ شیث نے فوراً اپنی لاڈلی بہن کو بابا سے لیا اور پچکارتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

    سیلانی صبح سے پہلی بار مسکرایاتھا، وہ مسہری پر نیم دراز ہوگیا۔ منیب بھی مسہری پر چڑھ آیا اور کہنے لگا: ’’بابا! آج کوئٹہ میں دو کیمرا مین بھی مر گئے ہیں ناں۔‘‘
    ’’جی بیٹا‘‘
    ’’یہ کیمرا مین بھی صحافی ہوتے ہیں؟‘‘
    ’’جی یہ بھی صحافی ہی ہوتے ہیں، ان کا کام تو زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی بھی حادثے دھماکے میں انہیں وہاں کی فوٹیج بنانی ہوتی ہیں۔ فوٹو بنانی ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’لیکن بابا! آپ کا کام بھی تو خطرناک ہے ناں، آپ بھی تو زخمی ہوئے تھے۔۔۔ بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘

    ’’پھر کیا کروں؟‘‘ سیلانی نے مسکراکر اپنے ننھے خیر خواہ سے پوچھا۔
    ’’آپ، آپ آپ۔۔۔ ایسا کریں کہ گورنمنٹ جاب کرلیں۔‘‘

    ’’اچھا مگر کیوں؟‘‘
    ’’گورنمنٹ جاب میں خطرہ کم ہوتا ہے۔‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شیث خان نے اس کی بات کی فوراً ہی نفی کردی۔
    ’’گورنمنٹ ملازمین کو تو دہشت گرد زیادہ ٹارگٹ کرتے ہیں۔ کبھی ان کی بس پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی ان کے دفتروں پر۔‘‘
    ’’پھر بابا! آپ فوجی بن جائیں۔ ان کے پاس تو بندوق بھی ہوتی ہے۔‘‘

    سیلانی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! سب سے زیادہ خطرہ تو فوجیوں کو ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ حملے تو انہی پر ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’پھر آپ کوئی بزنس کرلیں، لیکن ایک مسئلہ ہوگا کہ بزنس مینوں کو بھتے کی پرچی ملتی ہے۔‘‘ منیب نے خود ہی اس پیشے کو اپنے بابا کے لیے ناموزوں قرار دے دیا۔ پھر وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور کہنے لگا: ’’ایسا کریں کہ آپ کسی اسپتال میں جاب لے لیں۔‘‘

    ’’اسپتال میں؟‘‘ سیلانی مسکرایا۔
    ’’نہیں نہیں نہیں۔۔۔ منیب نے تیزی سے یہ ملازمت بھی ردکر دی اور آہستگی سے بولا: ’’آج دھماکا اسپتال ہی میں تو ہوا ہے۔۔۔‘‘

    ’’بابا!آپ کچھ ایسا کریں ناں کہ جس میں خطرہ نہ ہو۔‘‘ سیلانی نے پیار سے منیب کو سینے سے لگایااور کہا: ’’میں بالکل محفوظ ہوں، کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں بابا، ہمیں ڈر لگتا ہے، آپ رپورٹنگ چھوڑ دیں۔‘‘
    منیب کی فرمائش پر شیث کہنے لگا: ’’بازار، اسپتال، روڈ، بسیں، ائیر پورٹ ہر جگہ ہی تو دھماکے ہوتے ہیں۔۔۔ پھر بابا کیا کریں؟‘‘

    شیث کی بات پر منیب نے جو جواب دیا اسے سن کر سیلانی لرز کر رہ گیا۔ منیب اپنے بابا سے کہہ رہا تھا:
    ’’ایک جگہ ایسی ہے جہاں دھماکے نہیں ہوتے۔‘‘
    ”کیا مطلب؟“ سیلانی چونکا۔

    ’’بابا! آپ undertakerبن جائیں۔‘
    ’’میں ریسلر کیسے بن جاؤں ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں بابا! وہ والا انڈرٹیکر نہیں، میں قبرستانوں والے انڈرٹیکر کا کہہ رہا ہوں۔۔۔ قبرستانوں میں دھماکے نہیں ہوتے، آپ قبریں کھودنے والا بن جائیں۔۔۔ ہماری میڈم بتا رہی تھیں کہ شہر میں ایک ایک قبر ہزاروں روپے کی ملتی ہے۔‘‘

    سیلانی نے منیب کی آنکھوں میں جھانکا، وہاں معصومیت محبت اور careکے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سیلانی نے بے ساختہ منیب کو سینے سے لگاکر اس کی پیشانی چوم لی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم صرف گزشتہ ایک عشرے میں 49,000 جانیں گنوائے بیٹھے ہیں۔ یہ انچاس ہزار جانیں گنوانے کے بعد بھی آج ہم اپنے آنے والے کل کو محفوظ کل نہیں دے سکے ہیں۔ ہمارے معصوم بچے ذہن لڑا لڑا کر تھک رہے ہیں۔ اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں، بازار، چھاؤنیاں، ائیرپورٹ، تھانے، کھیل کے میدان اور سڑکیں۔۔۔ کسی جگہ بھی تو امان نہیں۔ امان ہے تو بس شہر خاموشاں میں۔ پھر وہ کیوں نہ وہاں جا بسنے کی بات کریں۔۔۔ ہمیں اب دہشت گردوں کے خلاف ہرمصلحت جھاڑ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب دہشت گردوںاور جاسوسوں کو بھگانا نہیں، لٹکانا ہوگا۔ انہیں گردن کے ٹوٹے ہوئے منکوں کے ساتھ نشان عبرت بنانا ہوگا۔ بچھو کو بچھو اور سانپ کو سانپ صرف سانپ ہی نہیں کہنا ہوگا، ان کا سر بھی کچلنا ہوگا۔ ہم آج یہاں خدا کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کرتے ہیں تو شاید کل کوئی سیلانی کسی آخری دہشت گرد پر آخری کالم لکھ سکے۔ حکمران ملک و قوم کی خاطر نہ سہی، اپنی غرض کے لیے ہی خودغرض بن کر سوچیں تو یہ ان کی مجبوری ہے۔ انہیں اپنی شہنشاہی کے لیے زندہ رعایا بھی تو چاہیے۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں منیب کا چہرہ لیے شفقت پدری سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔