Tag: سیلاب

  • ہم لوگ کب انسان سمجھے جائیں گے-جاوید چوہدری

    ہم لوگ کب انسان سمجھے جائیں گے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    جیوانی لوپورٹو سسلی کے شہر پالرمو میں پیدا ہوا‘ جیوانی کو ویلفیئر کا شوق تھا‘یہ2010ء میں جرمنی کے رفاہی ادارے Welthungerhilfe سے وابستہ ہوگیا‘یہ ادارہ قدرتی آفات کے شعبے میں پوری دنیا میں کام کرتا ہے‘ تنظیم دنیا کے 70 ممالک میں8120 پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے‘ آپ کو یاد ہو گا2010ء میں پاکستان میں خوفناک سیلاب آیا تھا‘ سیلاب نے خیبر پختونخواہ‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اورسندھ میں تباہی پھیلا دی‘پاکستان کے سیلاب اور تباہی کی خبریں بین الاقوامی میڈیا تک پہنچیں‘Welthungerhilfe نے دکھ کی اس گھڑی میں پاکستانیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘ جیوانی16 جنوری 2012ء کو پروجیکٹ منیجر کی حیثیت سے پاکستان آیا‘ یہ اگلے دن ملتان پہنچ گیا۔

    یہ19 جنوری کی شام کوٹ ادو کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر کے اپنے جرمن ساتھی برنڈ میولین بیک کے ساتھ ملتان واپس آیا اور اسی شام انھیں طالبان نے ملتان کے علاقے قاسم بیلاسے اغواء کر لیا‘ یہ خبر خوفناک تھی‘یہ سنسنی بن کر پوری دنیا میںپھیل گئی‘ طالبان جیوانی لوپورٹو اور برنڈ میولین بیک کو ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں سے گزار کر وزیرستان لے گئے‘ یہ ان دونوں کو کبھی افغانستان لے جاتے تھے اور کبھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قید کر دیتے تھے‘ اٹلی‘ جرمنی اور امریکا نے کوشش کی‘ طالبان نے اکتوبر 2014ء میں برنڈ میولین بیک کو کابل کے نواح میں رہا کر دیا اور یہ خصوصی طیارے کے ذریعے جرمنی روانہ ہو گیا جب کہ جیوانی 2015ء کے آغاز تک طالبان کے قبضے میں رہا‘ امریکا نے 15 جنوری 2015ء کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وچہ درہ کے ایک مکان پر ڈرون حملہ کیا‘ حملے میں سات لوگ ہلاک ہو گئے۔

    ہلاک ہونے والوں میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن بھی شامل تھے‘ وارن وائن سٹائن 73 سالہ امریکی تھا‘ میری لینڈ کا رہنے والا تھا‘ جے آسٹن ایسوسی ایٹس میں کام کرتا تھا‘ پاکستان میں فرم کا کنٹری ہیڈ تھا‘ وہ 13 اگست 2011ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور سے اغواء ہوا تھا‘ القاعدہ نے اغواء کی ذمے داری قبول کی اور اسے جنوبی وزیرستان میں منتقل کر دیا‘ القاعدہ نے بعد ازاں وارن وائن سٹائن کے دو ویڈیو پیغام جاری کیے‘ وارن نے دونوں پیغامات میں صدر اوباما سے رہائی کی اپیل کی‘ وہ دل اور دمے کا مریض تھا‘ اس نے طالبان کی قید میں خاصا مشکل وقت گزارا‘ القاعدہ اس کی رہائی کے بدلے امریکا سے اپنا ایک ساتھی چھڑانا چاہتی تھی لیکن سودا نہ ہو سکا‘ یہ بھی 15 جنوری 2015ء کو جیوانی لوپورٹو کے ساتھ وچہ درہ میں قید تھا‘ ڈرون حملہ ہوا اور یہ دونوں پانچ طالبان کے ساتھ ہلاک ہو گئے۔

    طالبان نے جیوانی لوپورٹو اور وارن وائن سٹائن کے جسموں کے ٹکڑے جمع کیے اور انھیں وچہ درہ میں دفن کر دیا۔ یوں یہ دونوں بھی ڈرون حملوں کے شکار ہزاروں بے گناہوں کے ساتھ مٹی کا رزق بن گئے‘ اٹلی کی حکومت کے تین افسر پاکستان اور افغانستان کے چند لوگوں کے ذریعے طالبان سے رابطے میں تھے‘ یہ طالبان سے جیوانی کی رہائی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے‘ طالبان نے جنوری کے آخر میں انھیں جیوانی کی ہلاکت کی اطلاع دے دی‘ یہ خبر خوفناک تھی‘ اطالوی حکومت نے تصدیق کرائی‘ خبر سچ نکلی‘ اٹلی نے امریکا سے احتجاج شروع کر دیا‘ امریکی حکومت نے بھی تصدیق کے لیے ہرکارے دوڑا دیے‘ فروری کے دوسرے ہفتے میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن دونوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی‘ امریکی جاسوسوں نے جیوانی اور وارن کی قبریں کھود کر لاشوں کے ٹکڑے سفارتی عملے کے حوالے کر دیے۔

    ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور شک کا امکان تک ختم ہو گیا‘ یہ خبر مارچ میں اطالوی میڈیا تک پہنچی‘ خبریں شایع ہوئیں اور اطالوی حکومت‘ سول سوسائٹی اور میڈیا نے امریکا کا ناطقہ بند کر دیا‘ روم میں امریکی سفارت خانہ پریشر میں آ گیا‘ یہ دباؤ اتنا بڑھا کہ امریکی صدر بارک اوباما 23 اپریل 2015 ء کو پریس کانفرنس میں جیوانی اور وارن وائن سٹائن کے خاندان سے معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے‘ صدر اوباما کا کہنا تھا ’’میں صدر اور کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جیوانی اور وارن کی موت کی ذمے داری قبول کرتا ہوں‘ یہ دونوں بے گناہ اور بہادر تھے‘ ہمارے پاس ان کی وزیرستان میں موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی ورنہ میں کبھی اس آپریشن کی اجازت نہ دیتا‘ میں شوہر اور والد کی حیثیت سے جانتا ہوں آج وارن اور جیوانی کے اہل خانہ کس کرب سے گزر رہے ہوں گے۔

    ہم پوری کوشش کریں گے آیندہ کوئی ایسی غلطی نہ ہو‘ میں دونوں کے خاندانوں سے معافی مانگتا ہوں‘‘ وائیٹ ہاؤس نے بھی تحریری وضاحت جاری کی‘ وضاحت میں لکھا گیا ’’یہ حملہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں القاعدہ کے ٹھکانے پر کیا گیا تھا‘ ہمیں ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا وہاں سویلین بھی موجود ہیں‘‘ آپ اندازہ کیجیے امریکا سویلین بھی امریکی اور یورپی باشندوں کو سمجھتا ہے‘ اوباما نے معافی مانگ لی لیکن جیوانی کا خاندان امریکی صدر کو معاف کرنے پر رضا مند نہ ہوا چنانچہ یہ معاملہ اٹلی اور امریکا کے درمیان سال بھر نزع کا باعث بنا رہا یہاں تک کہ امریکی حکومت اور جیوانی کے خاندان کے درمیان 8 جولائی 2016ء کو معاہدہ ہو گیا‘ امریکا نے جیوانی کی والدہ گیوسی (Giusy)‘ والد ویٹو لوپورٹو اور بھائی ڈینیل لوپورٹو کو 11 لاکھ 85 ہزار یورو بطور خون بہا ادا کیے‘ جیوانی کے والدین نے چیک وصول کیا اور امریکی صدر اور امریکی حکومت کو معافی کا سر  ٹیفکیٹ دے دیا‘ امریکی حکومت اب وارن وائن سٹائن کے لواحقین کو بھی معاوضے کے لیے تیار کر رہی ہے۔

    یہ تصویر کا ایک رخ تھا‘ آپ اب دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجیے‘ امریکا نے 18 جون 2004ء کو پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ کیا‘ یہ حملہ طالبان کمانڈر نیک محمد پر جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں کیا گیا‘ حملے میں نیک محمد سمیت 8 لوگ جاں بحق ہو گئے‘ ان میں دو بچے بھی شامل تھے‘ یہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز تھا‘ امریکا پاکستان میں اب تک 401 ڈرون حملے کر چکا ہے جن میں چار ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں‘ ہلاک شدگان میں ڈیڑھ ہزار لوگ سو فیصد بے گناہ تھے‘ امریکا کے 401 حملوں میں 13 جنوری 2006ء کا وہ حملہ بھی شامل ہے جس میں ڈمہ ڈولہ کے مدرسے کے 90 بچے شہید ہو گئے‘ یہ تمام بچے بھی بے گناہ تھے لیکن امریکا ان ڈیڑھ ہزار معصوم لوگوں کو بے گناہ ہونے کے باوجود گناہ گار سمجھتا تھا‘ کیوں؟

    کیونکہ یہ لوگ مسلمان اور پاکستانی تھے اور یہ گناہ دنیا کا سنگین ترین گناہ ہے‘ کیا یہ گناہ نہیں یہ 1500 لوگ پاکستان میں پیدا ہو ئے اورکیا یہ حقیقت نہیں یہ لوگ اگر اطالوی‘ فرنچ‘ سپینش یا نارویجین ہوتے تو امریکا ان پر ڈرون حملے کی جرات کرتا؟ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو داعش کی مثال لے لیجیے‘ داعش نے پورا مڈل ایسٹ تباہ کر دیا لیکن امریکا داعش کے ٹھکانوںپر حملے نہیں کررہا‘ کیوں؟ کیونکہ داعش میں یورپ‘ آسٹریلیا اور روس کے باشندے شامل ہیں اور امریکا کا خیال ہے اگر ہمارے ڈرون حملے میں کوئی یورپی یا آسٹریلین شہری ہلاک ہو گیا تو ہمارے لیے جواب دینا مشکل ہو جائے گا چنانچہ امریکا اربوں ڈالر کے نقصان اور ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود داعش کے خلاف ایکشن نہیں لے رہا جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں اب تک 401 ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔

    چار ہزار لوگ ہلاک ہوئے‘ ان میں ڈیڑھ ہزار بے گناہ تھے لیکن امریکا نے ان ڈیڑھ ہزار بے گناہوں کا خون بہا دینا تو دور آج تک لواحقین سے معافی تک نہیں مانگی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ بے بس پاکستانی مسلمان تھے اور صدر اوباما کے دل میں کسی پاکستانی کے لیے نرم گوشہ ہے اور نہ ہی مسلمان کے لیے‘ یہ لوگ صرف فرینڈلی فائر کا نشانہ بننے اور ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ ہو کر امریکی فائل میں دفن ہونے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور ان کا خون خون نہیں ہوتا‘ پانی ہوتا ہے اور زمین میں جذب ہو جانا پانی کا مقدر ہوتا ہے۔

    کاش یہ لوگ بھی اطالوی ہوتے‘ یہ لوگ بھی سسلی میں پیدا ہوئے ہوتے اور ان کی ماؤں نے انھیں اللہ اکبر کے بجائے ببتسما دیا ہوتا تو امریکا ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا اور یہ لوگ اگر جیوانی اور وارن وائن سٹائن کی طرح غلطی سے ڈرون کا نشانہ بن بھی جاتے تو امریکی صدر پریس کانفرنس میں ان کے خاندان سے معافی مانگتا‘ امریکی سفیر ان کی ماؤں کے پاؤں چھوتا اور جھک کر انھیں خون بہا کا چیک پیش کرتا لیکن افسوس یہ اطالوی نہیں تھے۔

    یہ مسلمان تھے‘ یہ پاکستانی تھے اور امریکا کسی پاکستانی‘ کسی مسلمان کو انسان نہیں سمجھتا‘ ہم لوگ مچھر ہیں‘ مچھر کی طرح مار دیے جاتے ہیں اور اس وقت تک مچھر کی طرح مارے جاتے رہیں گے جب تک دنیا ہمیں انسان کا اسٹیٹس نہیں دیتی اور یہ اسٹیٹس صرف جیوانی اور وارن وائن سٹائن جیسے لوگوں کو حاصل ہے‘ باقی دنیا جنگل ہے اور ہم اس جنگل میں رہنے والے حقیر جانور ہیں‘ ایسے جانور جن کی زندگی کو بھی صدر اوباما جیسے لوگ اضافی سمجھتے ہیں۔ ’’ہم لوگ کب انسان سمجھے جائیں گے‘‘ آج 401 ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ پاکستانی صدر اوباما سے یہ معصومانہ سا سوال پوچھ رہے ہیں۔

  • جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    جولی سے مارک تک۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    rouf clasra

    2010 ء کے سیلاب کے بعد پہلے ہالی ووڈ کی خوبصورت اداکارہ انجلینا جولی نے ہمارا پول اپنی رپور ٹ میں کھولا تھا، رہ سہی کسر اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے نے پوری کر دی ہے۔

    مارک آندرے نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ سب حیران ہیں کہ ایک غیرملکی کو پاکستان اور اس کے غریبوں سے اتنی محبت کیسے ہوگئی۔ وہ ان کا درد کیونکر محسوس کرتا ہے جن سے اس نے ووٹ نہیں لینا، جن کے ٹیکسوں پر اس نے عیاشی نہیں کرنی اور نہ ہی ان کے ملک کے پیسے سے لندن، دبئی یا پاناما میں جائیدادیں بنانی ہیں۔ آندرے کو یہ خوف بھی دامن گیر نہیں ہواکہ وہ ایک حکومت، سول ملٹری بیوروکریسی، سیاستدانوں اور امیر طبقات کو اپنا دشمن بنا رہا ہے جو اس کی اقوام متحدہ کے سربراہ سے شکایت بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ننگا کرنے پر تل گیا ہے جو اس کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔

    آخر مارک کو اس دشت کی سیاحی میں کیا ملے گا۔ وہ کیوں طاقتور لوگوں سے بگاڑ کر پاکستان سے جا رہا ہے۔ اسے پاکستان کے غریبوں کی بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ کیوں رومن جنرل سیزرکی لاش پر مارک انٹنی جیسی شہرہ آفاق تقریرکرہا ہے۔ وہ کیوں رومن شہریوں کی طرح پاکستانی غریبوں کی لاشوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ وہ کیوں دہائی دے رہا ہے کہ اگر پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو ایک دن پاکستانی معاشرہ اس کے بدترین اثرات بھگتے گا۔ اس نے کتنی دکھ بھری آواز میں کہا کہ ملک ایسے نہیں چلتے جیسے پاکستانی اشرافیہ چلا رہی ہے۔

    یہی بات جولی نے کہی تھی جو اب تک پاکستان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرین اور افغان مہاجرین کے لیے پچاس ملین ڈالر (پانچ ارب روپے) کا چندہ دے چکی ہے۔ جولی کو بھی پاکستان پہنچ کر جھٹکا لگا تھا، جب وزیراعظم ہائوس میں اس کے سامنے کھانوںکی طویل میز سجائی گئی تھی۔ اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا نے جگتیں ماری تھیں۔ ہر کوئی جولی کے ساتھ تصویریں بنوانے کے چکر میں تھا۔ اسے متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جولی جاتے وقت سیلاب زدگان کے لیے پانچ ملین ڈالر کا عطیہ دے گئی تھی۔ اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ اقوا م متحدہ کے لیے رپورٹ لکھی جس میں حیرت ظاہر کی کہ وہ اپنی آمدن میں سے اس ملک کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ دے آئی ہے مگر وہاں کسی کو پروا نہیں کہ غریب مرے یا جییے۔کیمپوں میں لوگ مر رہے تھے اور وزیراعظم ہائوس میں کھابوںکی طویل فہرست تھی جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔

    کیا ہماری اشرافیہ کو جولی کی رپورٹ پڑھ کر شر م آئی تھی کہ اب مارک آندرے کی دل سے کہی ہوئی باتوں پر یہ طبقہ شرما جائے گا؟ مارک آندرے چار سال تک پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارے کا سربراہ رہا۔ اس نے اس دوران چاروں صوبوں کا دورہ کیا۔ فاٹا کے علاوہ ملک کے ان حصوں میں بھی گیا جہاں جانا انتہائی دشوار تھا۔ اسے سکیورٹی کی وارننگ بھی نہ ڈرا سکی۔ معلوم نہیں کب اسے پاکستان کے غریب لوگوں سے پیار ہوگیا۔ ان کے دکھ دردکا احساس ہوا۔ مارک آندرے کو لوٹ مارکرنے والے اشرافیہ سے چڑ ہوگئی۔ وہ حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ملک کو کیسے چلا رہی ہے۔کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں۔

    اس ملک کی اشرافیہ اپنے ہم وطن غریبوں کو لوٹ کر لندن، دبئی، نیویارک اور نامعلوم کہاں کہاں جائیدادیں خرید رہی ہے۔ انہیں اس ملک کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں۔ آندرے کا کہنا ہے ایسی اشرافیہ کا اچار ڈالا جائے جو پیسے بنانے کے لیے سستی اور غیر تعلیم یافتہ لیبر کا استحصال کرتی ہے! ایسی اشرافیہ نہیں ہونی چاہیے جو جشن منانے اور موج مستی کے لیے لندن جائے اور خریداری دبئی جا کر کرے۔ مارک کا کہنا ہے پاکستان کے امیر طبقے کو اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پاکستان چاہیے یا نہیںکیونکہ جس طرح کی لوٹ مار ہو رہی ہے اس طرح ملک نہیں چلتے۔ مارک کے مطابق وہ ایسے بہت سے پاکستانی زمینداروں اور جاگیرداروں کو جانتا ہے جنہوں نے صدیوں غریبوںکا استحصال کیا۔ یہ لوگ اقوام متحدہ جا کرمطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پانی، صفائی اور تعلیم کے لیے امداد دی جائے حالانکہ ان کی اپنی جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں۔

    آندرے کے دل میں تکلیف کو آپ سب محسوس کرسکتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ بہت قابل ہیں لیکن وہ اتنی ترقی نہیں کر پا رہے جتنی ان میں صلاحیت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس ملک میں آٹھ کروڑ لوگ غریب ہوں وہ ایسے نہیں چل سکتا۔ وہ کراچی کی صورت حال کو خطرناک قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے اگر کراچی کو ملکی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے تو پھر وہاں عوامی مفاد کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ مارک خبردار کرتا ہے کہ پاکستان میں حالات اب صحارا (افریقہ) جیسے لگتے ہیں۔ چند اضلاع کو دیکھ کرافریقہ یاد آ جاتا ہے۔ باقی چھوڑیں، پاکستان اب تک مردم شماری نہیں کرا سکا۔ فاٹا جائیں تو لگتا ہے وہاں کے لوگ سترہویں صدیں میں جی رہے ہیں۔

    وہاں اصلاحات کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں، عورتوں اور فاٹا کے لوگوں کے بنیادی حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے تو بنا دیے گئے ہیں لیکن نہ ان کے پاس اختیار ہے نہ فنڈ۔ تاہم خیبر پختونخوا میں مارک کے بقول کچھ اچھا کام ہوا ہے ۔ ایک تو خیبر پختونخوا کا بلدیاتی اداروںکا قانون پنجاب اور سندھ سے بہت بہتر ہے، دوسرے وہاں بلدیاتی اداروںکو اربوں روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب اور سندھ میں بہتر قانون بنایا گیا نہ ان اداروں کو فنڈز دیے گئے ۔ مارک کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ الیکشن کرادیں اور پھر بات ختم۔ آپ انہیں اختیارات دیں، فنڈز دیں۔

    مارک پہلا اور آخری غیرملکی نہیں جو پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اور بے حسی پر پھٹ پڑا ہے۔ اداکارہ جولی کے بعد برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں بھی اس طرح کی تقریریں سننے کو ملیں۔ برطانیہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کے لیے تقریباً ایک ارب پائونڈ امداد دیتا ہے۔ ہائوس آف کامنز میں بحث ہوئی تھی کہ اس امداد کا پاکستان کے عام لوگوں کوکیا فائدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنے لوگوںکے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی آمدن سے پاکستان کو ڈیرھ سو ارب روپے امداد اس لیے دیتا ہے کہ اس کے غریب پڑھ جائیں، انہیں بہتر زندگی میسر ہو۔ برطانوی ارکان نے پوچھا تھا کہ اگر پاکستان اتنا غریب ہے تو پھر پاکستانی حکمران لندن میں اربوںکی جائیدادیں کیسے خرید لیتے ہیں؟ پاکستانی عوام پر جو لوگ حکمرانی کرتے ہیں وہ سب کچھ لوٹ کر برطانیہ لے آتے ہیں اور یہاں جائیدادیں بناتے ہیں۔

    برطانیہ کے ہائوس اف کامنزکے بعد اس طرح کی گفتگو امریکی کانگریس میں بھی سننے کو ملی جب وہاں پاکستان کو ایف سولہ طیارے رعایتی نرخوں پر دینے کے بل پر بحث ہوئی۔ اس بل کے تحت امریکہ، پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر اپنی طرف سے ایف سولہ بنانے والی کمپنی کو دینے پر راضی تھا۔ پاکستان نے سات سو ملین ڈالرکی اس ڈیل میں ڈھائی سو ملین ڈالرادا کرنے تھے؛ تاہم کانگریس نے اس کی منظوری نہ دی جب رکن نے کھڑے ہوکر پاکستانی اشرافیہ کو ننگا کر دیا اور پوچھا کہ امریکی عوام کا پیسہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کو عیاشی کے لیے کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کو جہاز چاہئیں تو وہ پوری رقم ادا کرے۔ امریکی لوگوں کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت میں سے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالرکی خیرات کیوں دی جائے؟ سب اس رکن کی تقریر سے متاثر ہوئے اور بل روک دیا گیا۔

    پانچ سو ملین ڈالرمعمولی رقم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین جمع کرنے کے لیے یورو بانڈ کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین قرضہ نیویارک میں لیا جس پر دس برس میں پاکستان چار سو دس ملین ڈالر سود ادا کرے گا۔ یہ اورکہانی ہے جو سینیٹ کے کمیٹی میں دم توڑ گئی۔ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کون سے شرفا نے پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے بھیج کر یہ مہنگے یورو بانڈ خریدے جو دس برس بعد لمبا مال کمائیںگے۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے سلیم مانڈوی والا اورکمیٹی کے ممبران کو ایسا ڈرایا کہ انہیں دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

    ایک عالمی این جی او اکسفام نے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون لیڈر کی سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد میں لوٹ مار پر کا رونا رویا تھا۔ جو پیسہ بیرون ملک سے سندھی سیلاب زدگان کے لیے بھیجا گیا وہ ادی اور ادی کے حواری کھاگئے۔

    بیرونی قرضوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرکا قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا گیاوہ سب اس نے اپنے پچھلے قرضے کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر لیا۔ ماہر معاشیات اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے بیرونی قرضوں کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ حفیظ پاشاکو سنیں تو رات کو نیند نہیں آتی کہ کتنا قرضہ لیا جا رہا ہے اورکس بے دردی سے خرچ ہو رہا ہے۔ انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارت کار نے خبردارکیا ہے کہ جب پاکستان کا قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچے گا تو دنیا پاکستان کے نیچے سے قالین چھین لے گی اور نیوکلیر پروگرام ختم کرنے سے کم پر ڈیل نہیں ہوگی۔ حفیظ پا شا کہتے ہیںکہ 2018ء تک یہ قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

    دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کی تقریریں سنیں اور شہبا ز شریف کی چین سے ترکی تک کی آنیاں جانیاں دیکھیں تو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ نے پاکستان کی خوشحالی دیکھ کر پاکستان سے دس ارب ڈالرکی امداد مانگ لی ہے!

  • حضور کا شوق تماشا سلامت رہے – احساس بھٹی

    حضور کا شوق تماشا سلامت رہے – احساس بھٹی

    احساس بھٹی مغل بادشاہ شاہ عالم کے ولی عہد جہاندار شاہ کا دور حکومت نہایت مختصر ہے. تقریبا ایک سال پر محیط اس مختصر دور کو مغل شہنشاہ نے عرصہ غنیمت سمجھ کر گزارا۔ دہلی کی ایک مشہور طوائف لال کنور جہاندار شاہ کی بہت چہیتی تھی۔ ایک دن لال کنور نے بادشاہ سے خواہش کی کہ میں نے آج تک کوئی ڈوبتا ہوا شخص نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ فوراً ملاحوں کو حکم صادر فرمایا کہ چالیس ایسے آدمی تلاش کیے جائیں جو تیرنا نہ جانتے ہوں، شاہی فرمان کی تعمیل ہوئی، ملاحوں نے چالیس ایسے آدمیوں کو جو بالکل تیرنا نہیں جانتے تھے، دریا پار کرانے کے بہانے کشتی میں بٹھایا اور دریا کے عین وسط میں کشتی الٹ دی۔ملاح خود تو تیر کر باہر آگئے، لال کنور نے بادشاہ کے پہلو میں کنارے پر کھڑے ہوکر چالیس آدمیوں کے ڈوبنے کا تماشہ دیکھا۔ کچھ لوگوں کو شاید اس واقعے کی حقانیت پر یقین نہ آئے، تصدیق کےلیے ڈاکٹر رشید امجد کی کتاب “اردو شاعری کی فکری روایت” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

    تین صدیاں گزرگئیں، آج بھی وہی تماشاہے، وہی شوق تماشا ہے، وہی ڈوبتوں کو دیکھنے کا جنون ہے. ڈوبنے والے بدل گئے، تماش بین بدل گئے مگر تماشا نہیں بدلا۔ برسات کا موسم ہے تو سمجھو سیلاب کا موسم ہے۔گزشتہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرین کے دلوں پرلگنے والے زخموں کے گھائو ابھی نہیں بھرے اور دریائوں نے پھرسے سیلاب اگلنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں پچھلے سال کے واقعات رہ رہ کریاد آ رہے ہیں کیونکہ یہی واقعات پھر دہرائے جائیں گے۔ وہی بیانات، وہی نمائشی ہمدردیاں اور روایتی ڈرامے۔ وزیراعظم اپنے شوق تماشا کی تسکین کے لیے سندھ کے سیلاب متاثرین کے علامتی ریلیف کیمپوں کا دورہ کرتے ہیں جو ان کے اڑن کھٹولے کے اڑان بھرتے ہی اڑن چھو ہوجاتاہے، وزیراعلیٰ پنجاب ڈوبتوں کو دیکھنے کے شوق میں ہرسال سیلاب میں فوٹو سیشن کراتے ہیں، اب ان کے صاحبزادے نے بھی اپنے پدر بزرگوار سے یہ شوق تماشا وراثت میں لے لیا ہے، ادھر ایک بلاول ہیں، وہ بھی اس شوق میں اپنے حریفوں سے پیچھے نہیں، ڈوبنے والوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ بھی فوٹو سیشن میں مصروف رہے. ادھر ہمیں وہ مصرعہ یاد آیا
    وہ بھیگ رہی تھی بارش میں اور آگ لگی تھی پانی میں۔
    رہ گئے عمران خان تو وہ بھی تماش بینوں کی فہرست میں کسی سے پیچھے نہیں۔ کبھی سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی دورہ کرکے شوق تماشا کو تسکین بخشی تو کبھی سیلابی پانی میں گاڑی دوڑانے کا کرتب دکھا کر مصاحبوں سے داد سمیٹی۔
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
    تین صدیاں گزرنے کے باوجود نہ تو تماشہ بدلا اور نہ ہی شوق تماشا میں کمی آئی۔ ڈوبتوں کو دیکھنے کے شوقین یہ “لال کنوروں” کے لاڈلے ہمارے ڈوبنے کا تماشہ یونہی دیکھتے رہیں گے۔ مگر کالا باغ ڈیم کی بات کرنے والا غدار ہی ٹھہرے گا۔ کیوں؟۔ کیونکہ ڈیم میں فوٹو سیشن کو ہیروگری نہیں کہا جاسکتا، اسے پکنک کہا جاتا ہے۔ شوق تماشا کی تسکین تو درحقیقت سیلاب میں ڈوب کر مرنے والوں کو دیکھنے سے ہی ہوتی ہے۔

  • ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

    ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

    tmg پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247 کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون کی آئینی حثیت حاصل ہے۔ 1973ء کے آئین میں متفقہ طور پر یہاں کے باشندوں کو ضمانت دی گئی تھی کہ ان سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ ملاکنڈ ڈویژن صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہے جس میں سات اضلاع ملاکنڈ ایجنسی، سوات، بونیر، شانگلہ، دیر لوئر، دیر اپر اور چترال شامل ہیں۔

    ملاکنڈ خیبر پختونخوا کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہے اور گوناگوں مسائل سے دوچار اور بنیادی سہولیات سے محروم چلا آ رہا ہے. ڈویژن میں شامل سات اضلاع گذشتہ 8 سال سے پے درپے قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں. 2009 میں دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملاکنڈ ڈویژن کا نقشہ بدل کر رکھ دیا. کم و بیش 35 لاکھ لوگوں نے صوبے اور ملک کے دوسرے شہروں کی جانب ہجرت کی. ان کے گھر بار، کاروبار اور فصلیں تباہ ہوگئیں، اور معاشی طور پر ملاکنڈ ڈویژن کے عوام خط غربت سے بھی نیچے چلے گئے. آٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت سدھرنے کا نام نہیں لے رہی.

    آپریشن راہ راست کامیاب ہونے کے بعد ملاکنڈ ڈویژن کے عوام گھروں کو واپس آئے لیکن ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں. 2010ء میں تباہ کن سیلاب عوام کے لیے ڈرائونا خواب بن کر سامنے آیا، اور ڈویژن کا انفراسٹرکچر ایک دن میں دریا برد ہوگیا. دریا کنارے قائم آب پاشی و آب نوشی کے سینکڑوں پراجیکٹس خاک میں مل گئے. لاکھوں روپے کی آمدن دینے والے پھلوں کے باغات مالکان اراضی کا منہ چڑانے لگے. کاروبار ختم ہو کر رہ گیا، آمدورفت کے لیے قائم کردہ رابطہ پل اور سڑکیں بڑی تعداد میں ایسے کٹے کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہی منقطع ہوگیا.

    خدا خدا کرکے انفراسٹرکچر کچھ بحال ہوا تو 2015ء کے خوفناک زلزلہ نے اسے پھر سے تباہی سے دوچار کر دیا. زلزلے سے ملاکنڈ ڈویژن کے ساتوں اضلاع بری طرح متاثر ہوئے. سینکڑوں لوگ لقمہ اجل اور ہزاروں زندگی بھر کے لیے معذور بن گئے. گھر خالی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے جن کی بحالی کےلیے لوگ آج بھی حکومتی امدادی پیکج کے منتظر ہیں. پے درپے قدرتی آفات نے یہاں کے عوام کو روٹی کے ایک ایک لقمے کے لیے پاپڑ بیلنے پر مجبور کردیا، حالات سے مایوس ہوکر ایک بڑی تعداد نے خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کے لیے رخ کیا، اور باقی ماندہ لوگ کاروبار اور زراعت کی بحالی کی تگ و دو میں لگ گئے.

    relief-work-idps-swat ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے کم از کم 70 ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے. بڑی تعداد میں دشہت گردی سے متاثرہ سکول ابھی تک بغیر کسی عمارت کے قائم ہیں، اور بچے سردی و گرمی میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں. بنیادی مراکز صحت کی عمارات بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں. اور طبی عملے کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں ہیں. دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ گھروں کے مکین تاحال حکومتی پیکیج کی راہ تک رہے ہیں.

    شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر
    شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر

    ایسی صورتحال میں نہ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ اس نے کسٹم ایکٹ کی صورت میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام پر ڈرون حملہ کردیا. عجلت میں کیے گئے فیصلے کے مضمرات اب سامنے آ رہے ہیں. ڈویژن کے عوام میں مرکزی و صوبائی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے. گذشتہ تین ماہ سے ملاکنڈ دویژن کے عوام اور کاروباری طبقہ بشمول سیاسی جماعتیں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کو روکنے اور واپس لینے کے لیے جدوجہد اور احتجاج کر رہی ہیں لیکن صوبائی و وفاقی حکومت پروں پر پانی نہیں پڑنے دے ر ہی. صوبائی حکومت کی غلطی سے نافذ شدہ کسٹم ایکٹ اب خود صوبائی حکومت کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے. وفاقی حکومت صوبے میں برسر اقتدار اور ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر اضلاع میں جیتنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو بند گلی میں دھکیلنے میں کامیاب ہوچکی ہے جس سے باہر نکلنا بظاہر پی ٹی آئی کے لیے ناممکن ہوچکا ہے. خود صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت، جماعت اسلامی کسٹم ایکٹ کے نفاذ پر سیخ پا ہے اور پی ٹی آئی اور نون لیگ دونوں کو کسٹم ایکٹ کے نفاذ میں برابر کا حصہ دار قرار دے رہی ہے.

    11 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملاکنڈ ڈویژن میں ایک لاکھ سے زیادہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں جن کے مستقبل پر اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ حکومت اگرچہ ایک ٹیکس لگانے کی بات کر رہی ہے لیکن عملا یہ پورا منصوبہ ہے جس سے بتدریج ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس کے شکنجے میں لایا جائے گا۔ اس کے بعد ایکسائز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس سمیت درجن بھر ٹیکسوں کا نفاذ ہوگا جو عوام کے لیے دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے کے بعد چوتھا عذاب ثابت ہوگا جس سے پھر تاحیات نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں یہاں کے عوام بجا طور پر وفاقی و صوبائی حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا گناہ کیا تھا جس کی پاداش میں یہاں کے شہریوں کو پیکیج دینے کے بجائے ان کے رزق پر لات مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی.

    1973ء کے آئین میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن شریفوں اور تبدیلی لانے والے کے سرخیلوں کا مزاج موسم کے ساتھ کیا بدلا کہ ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کی بلا منڈلانے لگی۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے ساتھ 1973ء کے آئین میں جو وعدہ کیا گیا تھا اس کے ساتھ مرکزی و صوبائی حکومت کھلواڑ کر رہی ہیں۔
    56393084ed7d0 دبے لفظوں میں گورنر صاحب نے ٹیکس کے نفاذ کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کہنے پر نافذ کرنے کی وضاحت کردی ہے جو کہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ آخر ان دونوں پارٹیوں کو ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا تکلیف پہنچائی ہے؟ دونوں پارٹیوں کے ورکرز کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے قائدین سے اس حوالے سے سوال کریں تاکہ ملاکنڈ ڈویژن کے ستم رسیدہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں