Tag: سید علی گیلانی

  • لیکن ہمارے لیڈر‘لیکن ہمارے دانشور!-ہارون الرشید

    لیکن ہمارے لیڈر‘لیکن ہمارے دانشور!-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کے بعد‘ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی ہے۔ ناگزیر ہے کہ پاکستان اور چین کے دفاعی اور معاشی تعلقات میں اور بھی زیادہ گہرائی پیدا ہو۔ آنے والے دنوں میں شاید ہم کچھ غیر متوقع اقدامات کا مشاہدہ کریں۔ لیکن ہمارے لیڈر‘ لیکن ہمارے دانشور!
    پاک امریکہ تعلقات کا ایک باب اس دن ختم ہو گیا تھا‘ جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سشما سوراج کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ ان کشمیریوں کو وہ یکسر بھول گئے‘ چھرے دار اسرائیلی رائفلوں سے جو زخمی ہوئے اور ہسپتال جن سے بھرے پڑے ہیں ۔

    سری نگر سے آنے والی اطلاعات ہیں کہ ساٹھ برس سے‘ خیرہ کن استقامت کے ساتھ‘ کشمیر کے مقتل میں کھڑے ‘ سید علی گیلانی دو چیزوں سے از حد پریشان ہیں۔ ایک تو یہ کہ قیامت کی اس گھڑی میں‘ جب اہلِ کشمیر نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے‘ پوری پاکستانی قوم اٹھ کر کھڑی کیوں نہ ہو گئی۔ وزیر اعظم نواز شریف کو یہ توفیق کیوں نہیں ہوئی کہ دنیا بھر میں ایک بھر پور سفارتی مہم کا آغاز کرتے۔ مقدمہ مضبوط ہے۔ ضرورت صرف یہ تھی کہ دنیا کے سامنے سلیقے کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ وزیر اعظم ایسے میں فقط اشک شوئی پر آمادہ ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق شلغموں پر سے مٹی جھاڑ نے پر۔ وہ افضل کھوکھر قسم کے لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کا منصوبہ رکھتے ہیں‘ جو رٹے رٹائے چند جملے بول دینے کے سوا کسی قابل نہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے ایک جونیئر خاتون افسر کو سیکرٹری خارجہ بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے سینئر افسراس پر احتجاجاً مستعفی ہو سکتے ہیں۔ تہمینہ جنجوعہ سے وزیر اعظم کو توقع ہے کہ وہ بھارت پر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ کوئی بے دردی سی بے دردی ہے۔

    سید علی گیلانی کے لیے فکر مندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حافظ سعید قسم کے لیڈرہیں۔سید صاحب کے ایک رفیق نے مجھ سے کہا: حافظ سعید جب ہم کشمیریوں کا مقدمہ لڑتے ہیں تو بھارتی میڈیا اسے اچھالتا ہے ‘ بہت اچھالتا ہے‘ اس سے انتہا پسند پاکستان کی تصویر ابھرتی ہے۔ حافظ سعید کے سرپرستوں میں سے کیا کوئی نہیں‘ جو ان کی خدمت میں عرض کر سکے کہ اس ملک پر وہ رحم کریں۔ کوئی دن کے لیے خاموش ہورہیں؟

    فوجی قیادت نے غلطیاں کی ہیں اور پہاڑ سی غلطیاں۔ سول حکومتوں اور بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی۔ ایک اعتبار سے مگر پاکستان کی تاریخ تعصبات کو فروغ دینے والے انتہا پسند گروہوں کی تاریخ ہے۔ ان میں سیکولر بھی ہیں‘ امریکہ اور یورپ‘ جن کی پشت پر کھڑے ہیں۔ جن کی نئی تجسیم اب این جی اوز کی شکل میں ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے نام پر سیاست کا کاروبار کرنے والے بھی۔ لسانی اور علاقائی فرقہ پرست بھی۔کشمیر میں عوامی تحریک پھوٹ پڑنے کے بعد‘ ان گروہوں کی سرگرمیوں کا ایک محدود سا جائزہ واضح طور پر اس کی شہادت مہیا کرتا ہے۔ سری نگرمیںہلالی پرچم لہرانے کا آغاز ہوا‘ پاکستان میں بھارت نواز دانشوروں کو‘ بہت شدت سے بلوچستان یاد آنے لگا ہے۔ وہ اس کے لاپتہ افراد کا نام لے کر سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ سفاک بھارت سے تاکہ توجہ ہٹ جائے۔ انگریزی اخبارات کے لکھنے والے‘ جن میں سے اکثر کا تعلق بھاڑے کی این جی اوز کے ساتھ ہے‘ پاک فوج کے خلاف‘ انشا پردازی کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ایک بے گناہ بھی اگر لاپتہ ہوا تو اس کے لیے فکر مندی ہونی چاہیے۔ کسی بھی حال میں کوئی چیز‘ ظلم کا جواز مہیا نہیں کرتی۔ سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان کو تباہ کرنے کی کوششوں پر‘ ان کا دل کیوں نہیں دکھتا؟

    جب بلوچستان کے بعض علاقوں میں پاکستان کا پرچم لہرایا نہ جا سکتا تھا۔2009ء کے وہ ایام خوب یاد ہیں کہ مسلسل بارہ دن تک میں کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا رہا۔ ہر روز متعدد لوگوں سے ملاقات کرتا۔ اخبار نویسوں‘ دانشوروں اور سیاستدانوں سے‘ دھاگے کا سرا ہاتھ نہ آ رہا تھا کبھی تو ایسا لگتا کہ بلوچستان کو ہم کھو دیں گے۔2008ء میں نمودار ہونے والی اسمبلی نے لیویز کو پولیس میں ڈھالنے کا منصوبہ لپیٹ دیا تھا۔ لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ مولوی صاحبان‘ قوم پرست اور ترقی پسند‘ سب کے سب بہتی گنگا میں اشنان کر رہے تھے۔ مشکل سے چند گھنٹے کی نیند نصیب ہوتی۔ اسلام آباد کے لیے پابہ رکاب تھا کہ ایران سے میاں محمد شہباز شریف کا فون موصول ہوا۔ اگلے دن وہ سیلاب زدہ پختون خوا کا دورہ کرنے والے تھے۔ معذرت کے باوجود وہ مصر رہے تو اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے‘ ان کے ساتھ‘ پانیوں میں ڈوبی بستیوں کو روانہ ہوا۔ چند روز بعد‘ لاہور میں بلوچستان کی صورتحال پر بریفنگ دی تو یہ عرض کیا۔ اس روز پندرہ گھنٹے میں سوتا رہا‘ واپسی پر تین گھنٹے پنجاب ہائوس اور بارہ گھنٹے گھر میں۔

    کراچی کا یہی عالم تھا۔ قبائلی پٹی کا بھی یہی حال تھا۔ ادھر سیاستدانوں کا عالم یہ تھا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کیا‘ تحریک انصاف اور نون لیگ بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی مخالفت کر رہی تھیں۔ عمران خان‘ پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کے درپے تھے۔ خادم پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ طالبان کو پنجاب میں حملے نہ کرنا چاہئیں۔ خوف زدہ اور ذہنی طور پر الجھے ہوئے سیاستدان‘ جیسے کہ وہ اب بھی ہیں‘ فرار کی نفسیات کا شکار تھے۔

    پاکستانی فوج کی قربانیوں سے‘ پہلے سوات اور پھر تمام قبائلی خطے آزاد کرائے گئے۔ کراچی میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تاآنکہ ذہنی اور فکری ژولیدگی کے شکار‘ ان کے لیڈر نے پاکستان کو کینسر اور ناسور قرار دے کر سیاسی طور پر خودکشی کر لی۔ بلوچستان میں اس سے بھی بڑا کارنامہ انجام دیا گیا۔ بتدریج جہاں مقامی آبادی کو کاروبار حکومت میں شرکت کا احساس دلایا گیا۔ اس عمل میں سیاستدانوں کا حصہ کتنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور تعصبات سے چمٹے رہے‘ اب بھی۔ کشمیر میں بھارت پر دبائو پڑا تو محمود اچکزئی ان کی مدد کو آئے۔ وہ آدمی‘ جس پر ایران اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ ‘ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام ہے۔ پھر اسفند یار ولی خان‘ بروئے کار آئے‘ جن کے دادا افغانستان میں دفن ہیں‘ برسوں کی” تحقیق‘‘ سے لکھی گئی‘ جن کے والد کی کتاب یہ کہتی ہے کہ پاکستان‘ مسلم عوام کے 75.6فیصد ووٹوں سے نہیں‘ انگریز کی سازش سے وجود میں آیا تھا۔

    سب سے زیادہ حیران کن واقعہ 22اگست کو پیش آیا جب ایم کیو ایم کے بانی نے اپنے وطن کو ہر وہ گالی دی‘ جو وہ دے سکتا تھا۔ چند گھنٹے بعد معافی مانگی‘ لیکن پھر امریکہ اور جنوبی افریقہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسی دشنام طرازی کا مظاہرہ کیا۔ سیاسی تاریخ میں غالباً ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ہو گی‘ جب ایک لیڈر نے خود کو یوں رسوا کیا ہو ۔ خود اس کے حامیوں کو لعن طعن کاشکار ہو کر‘ لاتعلقی کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    فاروق ستار اس کا جانشین ہے۔ ترقی پسند اخبار نویس اور نون لیگ کے دانشور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس آدمی کی نیت پر شبہ نہ کیا جائے۔ سبحان اللہ‘ 36برس تک‘ وہ اور اس کے ساتھی‘ ایک غدار کے دست و بازبنے رہے۔ اس کی زبان سے نکلنے والے ہر جملے کو وحی کا درجہ دیتے رہے۔ ذہنی غلام بنے‘ اس کے ہر موقف کی توجیہ کرتے رہے۔ اب فقط اس لیے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے کہ حالات کے غیر معمولی دبائو میں وہ بظاہر اپنی راہ الگ کرنے پر مجبور ہو گئے۔

    لوٹ مار الگ ‘ مسلسل اور متواتر ہمارے عالی قدر رہنمائوں اور دانشوروں نے‘ تنگ نظری اور عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سنیٹر سراج الحق سمیت‘ پختون رہنمائوں کا تازہ اعلامیہ‘ ایک مثال ہے‘ جس میں قومی وسائل افغان مہاجرین پر لٹانے کی اپیل ہے۔ یہ بھی ارشادکیا کہ افغانستان کیساتھ تعلقات کی خرابی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس قدر ادنیٰ ذہنیت‘ ایسا گہرا لسانی تعصب‘ انہوں نے امریکہ بہادر سے یہ کیوں نہ کہا کہ ان مہاجرین کو بتدریج وہ افغانستان منتقل کرے۔

    افواج نہیں‘ ملک سیاستدان ہی چلاتے ہیں۔ جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں کہ عسکری اقتدار میں کوئی ملک سرخرو ہوا ہو۔ سیاستدانوں کو مگر اپنے طرز عمل میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی یا نہیں؟

    بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کے بعد‘ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی ہے۔ ناگزیر ہے کہ پاکستان اور چین کے دفاعی اور معاشی تعلقات میں اور بھی زیادہ گہرائی پیدا ہو۔ آنے والے دنوں میں شاید ہم کچھ غیر متوقع اقدامات کا مشاہدہ کریں۔ لیکن ہمارے لیڈر‘ لیکن ہمارے دانشور!
    2

  • سن اے میرے کشمیر سن – طارق حبیب

    سن اے میرے کشمیر سن – طارق حبیب

    میرے کشمیر! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم تیرے خلوص کا قرض نہیں چکا سکتے، ہمارے ارباب اختیار تو تجھ سے دامن چھڑانے کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ آزما چکے، مگر سلام ہے تیری استقامت کو، کہ نہ ہم نے بےوفائی کی روش بدلی اور نہ تو نے رسم وفا چھوڑی۔
    میرے کشمیر! تیری وادیاں مثل جنت ہیں اور ہم نے کبھی جنت کمانے کا سوچا ہی نہیں۔ تم نے ہم سے امید لگا لی تھی اور ہم ٹھہرے تاجر، ہوس زر ہمارے قلوب و اذہان پر سوار ہے۔
    سن اے میرے کشمیر سن! یہاں سب ارباب اختیار تاجر ہیں، بہنوں کے تاجر، بھائیوں کے تاجر، خام مال کے تاجر، اور تو اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیرے بھی کوڑیوں کے مول فروخت کردیتے ہیں۔

    میرے کشمیر تو نہ سمجھ سکا، یہ تیری نہیں ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم جنت کے خواہشمند نہیں۔ جن دو دھڑوں کے درمیان تم پھنس گئے ہو، انھوں نے تجھے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تجھے شہ رگ اور اٹوٹ انگ قرار دینے کا نعرہ صرف بجٹ بڑھانے کا حیلہ ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں یہ کم ظرف۔

    ہاں یاد ہے جب تیری آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر سمجھا گیا کہ اب ختم ہوجائیں گےمگر ماں کے مجروں کا قصہ گو آٹھ سال تک یہ نہ سمجھ سکا کہ جہاد تو بس اللہ کے لیے ہے اور تاقیامت ہے۔ پھر ساتھ کٹھ پتلیوں کو ملا کر تجھے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عادت جو ہوگئی تھی لڑے بغیر ٹکڑے کرانے کی، مگر اللہ سایہ سلامت رکھے بزرگ شیر گیلانی کا، جو اللہ کی مدد سے اس چال کو بھانپ گیا اور رب کی عطا کردہ فراست سے یہ چال واپس انھی پر پلٹ دی۔

    میرے کشمیر تو ہم سے امید لگائے بیٹھا تھا، ہم کہ جنھوں نے تیری وادیوں کو تصویروں کی صورت بیچا، تیرے حسین مناظر کو سپنوں کا رنگ دے کر ان خوابوں کی تجارت کی، تیرے سینے پر تیری بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں، بزرگوں کے ناتواں و لاغر تشدد زدہ جسم اور تیرے نوجوانوں کے لاشے، ہم نے انھیں عالمی منڈی میں رکھ کر بھائو خوب بڑھایا۔ جب ضرورت پڑی جہاد کشمیر کا نعرہ لگایا اور جب دل چاہا جہاد روک دیا اور سیاست کا نعرہ لگا دیا۔ کشمیر کمیٹی کے مال سے پیٹ کو دوزخ بناتے یہ حالت ہوگئی کہ شدید بارش میں نہ پائوں کی انگلیاں گیلی ہوتی ہیں اور نہ ایڑیاں۔

    ہم نے تیری سسکیاں بیچیں، تیری آہیں بیچیں، تیری فریادیں بیچیں، اور پھر تو جاگ اٹھا. میرے کشمیر! تو جاگ اٹھا، تجھے جاگنا تھا۔ تیری ایک نسل ہماری بےوفائی کی بھینٹ چڑھ گئی، مگر اب تیری اگلی نسل تیار ہے۔ بنیے کے سروں کی پکی فصل کاٹنے کے لیے تیار ہے، اپنے بزرگ کمانڈر سید علی گیلانی کے زیر سایہ تیار ہے۔

    60 دنوں کی کامیاب ہڑتال کے ساتھ ایک ایک گھر کی خبر گیری کرکے تیرے بیٹوں نے نئے سرے سے منظم ہونے کا ثبوت دے دیا، دنیا کو حیران کردیا۔ ان ساٹھ دنوں میں جدوجہد عروج پر رہی، بنیا سٹپٹا گیا اور اناپ شناپ بکنے لگا۔ سخت کرفیو، مواصلاتی نظام منقطع، بیرونی رابطے ختم، مگر تحریک جاری، پورے زوروشور سے جاری، بغیر کسی ”حمایت و سپورٹ“ کے جاری۔ تنظیم کی شکل تو تمہارے بیٹوں نے دوسری ”تنظیموں“ کو سمجھائی۔ اسی ہنگامی صورتحال میں اشیائے خوردونوش مہنگی ہونے کے بجائے سستی ہوگئیں، ضروریات زندگی گھر گھر پہنچانے کا انتظام انتہائی منظم طریقے سے کیا گیا، مواصلاتی نظام نہ ہونے کے باوجود آپسی رابطے انتہائی مضبوط کرلیے گئے۔ کسی گھر میں چولہا بجھنے دیا نہ امیدکی لو۔ تم نے پسپائی کے خوف کو پسپا کردیا۔

    میرے کشمیر بس تیرے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہیں، تیری تحریک کے لیے تیری آزادی کے لیے دعا گو ہیں، تیری تحریک بغیر ”سہارے“ کے منزل کی جانب گامزن ہے۔ بس اب جو تیری ان کامیابیوں کو پھر سے اپنے کندھوں پر سجا کر فروخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ان سے بچنا ہے۔ ان شاء اللہ اب تیرے ہزاروں برہان وانی تیار اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں، تجھے کرائے کے پیشہ وروں کی ضرورت نہیں۔
    اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  • کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    obaid ullah abidبھارت کیسے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے سکتا ہے کیونکہ سن 1948 کے بعد سے اب تک متعدد بار خود بھارت نے کشمیر کو ایک ایسا علاقہ تسلیم کیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ کیسے اس کا حل استصواب رائے قرار دے سکتی تھی؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو بھارت نے کیوں‌ پاکستان سے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ باہم مذاکرات کے ذریعے کریں گے؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو کشمیر کے ایشو پر بھارت پاکستان کے ساتھ کیوں‌ مذاکرات کی میز پر بیٹھا؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ نہ بنتا، وہ ہیرو اس لیے قرار پایا تھا کہ وہ کشمیر کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا داعی تھا، جب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹا تو وہ زیرو ہوگیا۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو سید علی شاہ گیلانی سمیت دیگر حریت پسند رہنما کشمیری قوم کی آنکھوں‌ کا تارا کیوں بنتےSyed-Ali-Gilani-addressing-a-bog-gathering-in-Kupwara-08-11-13-800xsize
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو مسلح جدوجہد کیسے پنپ سکتی تھی اور کامیاب ہوسکتی تھی۔ نوے کی دہائی میں خود بھارت کے متعین کردہ گورنر کشمیر ، یہاں کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یہاں قابض بھارتی فوج کے جرنیلوں نے مسلح جدوجہد کے مقابل اپنی بے بسی ظاہر کی تھی، سادہ سی بات ہے کہ اگرحریت پسندوں کو کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا کشمیر میں رہنا بھی مشکل ہوتا
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو برہان وانی اور اس سے پہلے کے شہدا کے جنازوں میں مٹھی بھر لوگ ہوتے لیکن یہاں‌لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج کیسے تمام گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے؟ کیسے پاکستانی پرچموں کے سائے تلے مظاہرین سڑکوں پر نکلتے؟kashmir-protest-pakistan-flag
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج بھارتی ٹی وی چینلز پر اس سوال پر مباحثے نہ ہوتے کہ یہ عسکریت پسند کیسے کشمیریوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ ان کے جنازوں میں لاکھوں‌انسان کیوں شریک ہوتے ہیں؟ جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی فوج کے گھیرے میں آتے ہیں تو کشمیری کیوں انھیں محاصرے سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج پر پتھرائو شروع کر دیتے ہیں؟
    ارے بھائی!
    کشمیری قوم اور پاکستان کا یہ مطالبہ دنیا کے کس اصول کے تحت غلط ہے کہ کشمیریوں‌ سے پوچھ لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ  یا پھر ایک خودمختار ریاست کے طور پر جینا چاہتے ہیں؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو پھر بھارتی قیادت کو ڈر کس بات کا ہے؟ وہ استصواب رائے سے کیوں انکار کرتی ہے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کشمیری بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے نا !!! پھر ریفرنڈم سے گھبراتے کیوں‌ ہو؟
    کیا کشمیری کوئی گائے، بکریاں اور مویشی ہیں کہ انھیں زنجیر سے اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ لیاجائے؟
    یہ سوالات ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے گن گاتے ہیں، جو مسئلہ کشمیر کو غیراہم سمجھتے ہیں، جو کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے پر اپنا وزن ڈالتے ہیں۔