Tag: سکول

  • اسکول پڑھائی کے لیے یا نشہ آوری کے لیے-انصار عباسی

    اسکول پڑھائی کے لیے یا نشہ آوری کے لیے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    ہم بچوں کوا سکول کالج پڑھنے لکھنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ اُن کا مستقبل بنے لیکن ہمیں خبر بھی نہیں اور ہمارا ہر دوسرا بچہ منشیات کا عادی بن رہا ہے۔ گھر میں، خاندان میں کوئی سگرٹ بھی نہیں پیتا لیکن بچے چرس، ہیروئین اور دوسری منشیات کے عادی بن رہے ہیں اور اس کے لیے مواقع اسکول فراہم کر رہے ہیں۔ یعنی جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو اُن کے روشن مستقبل کے لیے بھیجتے ہیں وہیں اُن کے اور اس قوم کے مستقبل کو تاریک کرنے کا مکروہ دھندا جاری ہے۔ گزشتہ ہفتہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد کےا سکولوں میں 53 فیصد بچے منشیات کے عادی ہیں۔ معصوم بچوں کو نشہ فروخت کرنے والوں میں کچھ اساتذہ کے ساتھ ساتھ پہلے سے نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بریفنگ کے مطابق اسکول کے باہر کھوکھے اور ریڑھی والے بھی اسکول کے بچوں کو منشیات کی فروخت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اگر یہ سنگین حالت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی ہے تو دوسرے شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں کا کیا حال ہو گا۔

    کسی قوم اور ملک میں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ بے خبری میں پوری نسل کو مکمل تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس خبر پر ملک میں ایک بھونچال آ جانا چاہیے تھا لیکن نہ میڈیا نے اس مسئلہ پر کوئی خاص توجہ دی نہ ہی سیاست دانوں اور حکمرانوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس سے بڑی دہشتگردی، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی زیادتی کسی قوم کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا ہے اور ہم یوں بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چئیرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ عبدالرحمن ملک صاحب اگرچہ خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس مسئلہ پر توجہ دی، اسے کمیٹی میں اٹھایا اور حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں سے منشیات کی لعنت کے خلاف جہاد کرنے کی اپیل کی اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کیں۔ ملک صاحب نے اپیل کی کہ حکومت، فوج، سیاسی جماعتوں، سول سوسائیٹی کے علاوہ ہر شہری کو منشیات کے خلاف جنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ملک صاحب نے تجویز پیش کی کہ نہ صرف پیمرا کو ٹی وی چینلز کو قومی مفاد میں پابند کیاجائے کہ وہ منشیات کی لعنت کے خلاف قوم میں آگاہی پھیلانے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائیں بلکہ منشیات فروشوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ تمام اسکولوں کالجوںمیں ایک ایسا مانیٹرنگ سسٹم بنایا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت اور اس کے استعمال کو ناممکن بنایا جاسکے۔ ملک صاحب نے یہ بھی تجویز کیا کہ طلباء و طالبات کوٹیسٹ بھی کیا جائے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کون کون نشہ کی لعنت کا شکار ہو چکااور کس طرح نشہ کے عادی طلباء و طالبات کا علاج کیا جائے۔یہ بھی کہا گیا کہ جن تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ رپورٹ آئے کہ وہاں کے بچے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں تو ایسے اداروں کو بند کر دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت بغیر وقت ضائع کیے صوبوں کے ساتھ مل کر اس لعنت کے خاتمہ کے لیے جنگ کا آغاز کرنا چاہیے اور یہ حکمت عملی بنانی چاہیے کہ کس طرح ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے ماحول کو منشیات کے اثر سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ منشیات کی فروخت ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ نہ صرف منشیات کے اڈوں کو بند کرنے کے لیے ملک بھر میں کریک ڈائون کیا جائے بلکہ اس گھنائونے کاروبار میں شامل افراد کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ شیشہ سینٹروں کو بھی ملک بھر میں بند کیا جائے کیوں کہ شیشہ کے بہانے بھی قوم کے بچوں کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ اس سلسلے میں پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات دے چکی ہے۔ عدالت اعظمیٰ نے وزارت تجارت کو بھی احکامات جاری کیے ہیں کہ شیشہ کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان اہم ترین معاملات میں حکومت سو رہی ہے۔ جو کچھ سینیٹ قائمہ کمیٹی نے منشیات کے استعمال کو روکنے اور اس لعنت سے تعلیمی اداروں کو پاک کرنے کے لیے تجویز کیا اور جو کچھ عدالت اعظمیٰ نے شیشہ کے استعمال پر پابندی کے بارے میںکہا، یہ تو بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افراد منشیات کے عادی ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کے لیے حکومت کو ایک نیشنل ایکشن پلان بنانا چاہیے۔ اس معاملہ کا تعلق چوہدری نثار علی خان کی وزارت سے ہے۔وزیر داخلہ سے درخواست ہے کہ خدارا اس معاملے میںسردمہری مت دکھائیں۔ اگر کوئی سمجھے تو یہ مسئلہ تو دہشتگردی سے بھی زیادہ سنگین ہے۔

  • اماں مجھے بھی سکول جانا ہے – ضیاءالمجید ضیائی

    اماں مجھے بھی سکول جانا ہے – ضیاءالمجید ضیائی

    وہ ٹکٹکی باندھے اپنی ٹھوڑی کو اپنے میلے کچیلے ہاتھوں پر ٹکائے حسرت بھری نگاہوں سے سامنے سےگزرتے صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس، چمچماتے شوز پہنے، سکول جاتے بچوں کو دیکھ رہا تھا. وہ ایک نظر اپنے تیل سے لتھڑے گریس سے داغدار کپڑوں کو دیکھتا اور کبھی سامنے سے گزرتے بچوں کے اجلے یونیفارم کو. وہ آج 7 بجے ہی ورکشاپ کے تھڑے پر آ کر بیٹھ گیا تھا. ابھی کل ہی تو اسے استاد نے دیر سے آنے پر مارا تھا. گالیوں سے استاد نے شروعات کی تھی. ماں کے لیے بولے گئے نازیبا الفاظ اس سے برداشت نہیں ہوئے تھے، اور وہ استاد کے آگے بول اٹھا تھا کہ ”مجھے جو مرضی کہیں میری ماں کو تو کچھ مت کہیں“. لجاجت بھرے انداز میں کی گٰئی شکایت ”استاد“ کی نام نہاد عزت نفس کو شاید مجروح کر گئی تھی. اس جرم کی پاداش میں دی گئی سزا کے نقوش ابھی تک اس کے گالوں اور کمر پر موجود تھے. استاد تو اسے کام سے نکالنا چاہتا تھا لیکن اس کی اماں کی منت سماجت پر شاید اسے ترس آگیا تھا. شاید اسی وجہ سے آج وہ صبح سویرے ہی گھر سے شام کی بچی روٹی کو دہی کے ساتھ زہر مار کر کے یہاں آن پہنچا تھا.

    ِغربت کی چکی کے پاٹوں میں کچلے ہوئے خاندان سے اس کا تعلق تھا. خاندان کیا، بس چھوٹا سا 3 افراد پر مشتمل کنبہ تھا اس کا، نازو، وہ اور اماں، یہی کل کائنات تھی اس کی، ابا کا پھٹا پرانا شناختی کارڈ ہی تھا جس سے اسے اپنے باپ کی شکل وصورت سے شناسائی ہوئی تھی. اس کے سن شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ ٹی بی کے ہاتھوں انہیں بے یار و مددگار چھوڑ کر چل بسا تھا.
    اماں بڑے لوگوں کے گھروں میں جا جا کر اور دن بھر برتن مانجھ کر اپنے جگر گوشوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا سامان پیدا کر رہی تھی.
    ”اماں میں نے بھی سکول جانا ہے. تو مجھے سکول کیوں نہیں بھیجتی. مجھے بھی یونیفارم پہننا ہے تو مجھے بستہ کیوں نہیں لے کر دیتی..اماں.! وہ ساتھ والی گلی میں حسیب ہے نا، اسے اس کے بابا روز سکول چھوڑنے جاتے ہیں. اماں تو مجھے کیوں صبح صبح اس استاد کے پاس بھیج دیتی ہے؟“
    روانی میں اماں سے سوال پوچھتے ہوئے اس کے لہجے میں جہاں بھر کی حسرت ویاس سمٹ آتی۔ اماں کو اس کے سوال پریشان کر دیتے. اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کی شاید اماں میں سکت ہی نہیں تھی. اس سے جب کوئی جواب نہ بن پاتا تو اسے جھڑک دیتی ”تو اپنے منہ دھیان کام پر جایا کر، ادھر ادھر کیوں تکتا ہے رے تو.“
    وہ اپنی انہی سوچوں میں غلطاں اپنی ناتمام خواہشات کے دیپ سینے میں جلائے بیٹھا تھا.
    ”بیٹا تم کیوں بیٹھے ہو ادھر؟؟“
    ایک ہمدرد سی آواز نے اس کی محویت کو توڑا.
    اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے پینٹ کوٹ میں ملبوس شفیق سی صورت والے ایک صاحب کھڑے تھے. وہ اپنی چمچاتی کالے رنگ کی کار کھڑی کر کے اتر آئے تھے.
    ”صاحب جی! میں ادھر ورکشاپ میں کام کرتا ہوں نا. استاد نہیں آیا ابھی اس لیے وکشاپ کے باہر بیٹھا ہوں.“
    اس نے ِبڑی وضاحت سے جواب دیا.
    ”بیٹا…تم سکول کیوں نہیں جاتے؟“
    ”صاحب جی“ نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا تھا. اس کی آنکھوں کے کٹورے چھلک سے پڑے. دو گرم آنسو اس کے گالوں سے لڑھک گئے.
    ”جن کے ابو ہوتے ہیں وہ سکول جاتے ہیں صاحب جی. میرے ابا اللہ کے پاس چلے گئے ہیں. اماں نہیں بھیجتی مجھے. کہتی ہے میرے پاس پیسے نہیں ہیں تمہاری فیس کے لیے، میں تمہیں کھانا کھلاؤں یا سکول پڑھاؤں. اماں کہتی ہے تم کام سیکھو اور پیسے کماؤ، سکول کے خواب مت دیکھو. بس صاحب جی اسی لیے نہیں جاتا.“
    اپنی میلی آستین سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے جواب دیا. آستین پر لگی کالک نے اس کے گال پر آنسوؤں کی نمی میں گھل کر نقش و نگار سے بنا ڈالے تھے. اس کے جواب نے ”صاحب جی“ کو بھی آبدیدہ کر دیا.
    وہ اس کے سر کو شفقت سے تھپتھپاتے ہوئے کہنے لگے
    ”بیٹا تمہارا نام کیا ہے.“
    قاسم نام ہے جی میرا..
    صاحب جی سے بات کرنا اسے بڑا اچھا لگ رہا تھا.
    ”بیٹا تمہاری فیس میں دوں گا، تم کل سے یہاں نہیں آؤ گے بلکہ ان بچوں کے ساتھ تم بھی کل سکول جاؤ گے.“
    یہ سنتے ہی اس کے من میں خوشی کا فوارہ سا پھوٹا. فرط جذبات سے اس کے گال تمتما اٹھے.
    ابھی اٹھو اور مجھے اپنے گھر لے چلو. صاحب جی نے کہا.
    اگلے ہی دن اس کا یونیفارم اور بیگ آگیا. صاحب جی نے اسے اسکول میں داخل بھی کروا دیا. اور اس کے سارے تعلیمی اخراجات کا ذمہ بھی لے لیا.
    آج کاشف نعمان صاحب اسی جگہ کھڑے قاسم کو اجلا یونیفام پہنے خوش و خرم سکول کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے جہاں کل انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جنت میں قربت حاصل کرنے کا سودا کیا تھا. انہیں یقین کامل ہو چلا تھا کہ جنت میں اللہ مجھے پیارے حضور کا ساتھ ضرور نصیب کرے گا کیوں کہ دریتیم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی تو کہا تھا
    [pullquote] “انا وکافل الیتیم فی الجنۃ ھکذا”[/pullquote]

    میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح قریب ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی.

  • تبدیلی بدگوئی سے آئے گی؟-عمار چوہدری

    تبدیلی بدگوئی سے آئے گی؟-عمار چوہدری

    emar

    بچوں کے اغوا کے پیچھے اگر کوئی منظم گروہ ملوث ہے تو وہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ سوشل میڈیا نے البتہ سنسنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالباً تائیوان کی وہ ویڈیو ہے جس میں ایک بچے کا اغوادکھایا جاتا ہے۔ اسے پاکستان کے کسی علاقے سے منسوب کیا گیا ہے۔ تین چار بچے گلی میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ دو موٹرسائیکل سوار ایک بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دیگر بچے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھتے ہیں۔ ویڈیو میں بچوں کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اغوا کے واقعات نہیں ہو رہے۔ بہت سے لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ کئی لوگوں کو البتہ شبے میں مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔

    ایک خاتون اپنے بچے کو اپنے پاس بلا رہی تھی‘ اسے بھی اغوا کار سمجھ لیا گیا۔ اسے اتنا مارا گیا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور چہرہ خون سے بھر گیا۔ اغوا کاروں پر تو دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں لیکن ان والدین کا کیا کیا جائے جن کے رویے سے تنگ آ کر بچے گھر چھوڑ رہے ہیں۔ کئی ایسے واقعات کو اغوا کا نام دیا گیا۔ پولیس کو رپورٹ بھی اغوا کی درج کرائی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا‘ بچہ ناراضگی کی وجہ سے نکلا اور خود ہی گھر آ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ والدین دو انتہائوں کے اسیر ہو چکے۔ وہ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں یا پھر اتنی زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کہ بچے کی شخصیت دب جاتی ہے‘ صلاحیتیں برباد ہو جاتی ہیں اور وہ کسی سے کلام کے قابل بھی نہیں رہ جاتا۔

    ویسے بھی ہر کسی کو ڈاکٹر یا انجینئر چاہیے۔نمبروں کی دوڑ نے بچوںکی جسمانی اور ذہنی تربیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ایسے ماحول میں وہی گھر جو سکون اور خوشیوں کا آنگن ہوتا ہے‘ بچہ اسے جیل سمجھنے لگتا ہے اور گھرسے فرار کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔ کئی ایسے بچے جو گھروں سے غائب ہوئے‘ سکول جانے کیلئے نکلے اور کسی دوسرے شہر کے سفر کو نکل گئے۔ کئی بچوں نے مختلف بسوں اور ریل کی ٹکٹیں لے لیں اور دو تین روز سفر میں رہنے کے بعدخود ہی گھر واپس آ گئے۔اس دوران البتہ والدین اور عزیز و اقارب پر کیا بیتی ہو گی‘ یہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں‘ انہیں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

    صرف والدین ہی نہیں‘ سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علما کو بھی اس بارے میں غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ لوگ معاشرے کا عکس ہوتے ہیں‘ عوام انہیں فالو کرتے ہیں اور ان کا اثر لیتے ہیں۔کسی زمانے میں نوابزادہ نصراللہ جیسے نفیس‘معتدل اور بااخلاق سیاستدان ہوا کرتے تھے جن کی گفتگو اور جن کا اخلاق جانی دشمنوں کو دوست بنا دیتا تھا۔ نوابزادہ اس سیاسی عہد کی آخری نشانی تھے جس میں قائداعظم، گاندھی، نہرو اور ان کے بعد سینکڑوں معروف سیاستدانوں نے اپنا رنگ جمایا۔

    نوابزادہ صاحب گئے عہد کی دن بدن مدھم پڑتی ہوئی نشانی تھے۔ ہر قافلہ وقت کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے۔ پیچھے گرد سفر رہ جاتی ہے اور کچھ وقت کے بعد اس کا بھی نشان نہیں ملتا۔ نوابزادہ جس قافلے کے رکن تھے، وہ جدید عہد میں اجنبی ہے۔ اس عہد کی تہذیبی روایات اور وضع داری باقی رہی نہ سخت سے سخت بات کو الفاظ کے محتاط اور نرم سانچے میں ڈھالنے کا فن ہمارے حصے میں آیا۔ نوابزادہ کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک متروک تہذیب کے نمائندہ ہوتے ہوئے بھی جدید دور میں نمایاں اہمیت کے حامل رہے۔ شمع محفل کی اصطلاح جتنی ان پر صادق آتی تھی شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد انہوں نے پاکستان کی دو قطبی سیاست کے دونوں قطب اکٹھے کر دئیے، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی ”ذاتی دشمنی‘‘ کو ختم کرا کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بھی اپنی سیاسی مخالفت کو اسی انداز میں باقی رکھیں جس طرح امریکہ اور برطانیہ کے دو جماعتی نظام میں رکھا جاتا ہے۔

    نوابزادہ کے سوا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تمام اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکے اوران کا یہ اعزاز آخر تک قائم رہا۔ وہ مردِ اختلاف ہی نہیں، مردِ اتحاد بھی تھے۔ آج مگردور یکسر بدل چکا۔ آج عمران خان جیسے بہت سے لیڈروں کے لئے مخالف کی کردار کشی اقتدار تک پہنچنے کی کنجی بن چکی۔ وزیراعظم نواز شریف قدرے مختلف ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی سنجیدہ تھیں‘ آصف زرداری مگر الٹ نکلے۔ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان انہیں ملک بدر کر گیا۔ شیخ رشیداور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے بھی یہاں موجود ہیں‘ جو آگ لگا دو‘ سب کچھ مٹا دو کے نعرے سے تقریر کا آغاز کرتے ہیں۔ عوام بھی ایسی مصالحہ دار تقاریر کے عادی ہو چکے۔ جو جتنا زیادہ منہ پھٹ ہو‘ الیکٹرانک میڈیا بھی اسے ہی زیادہ وقت دیتا ہے۔

    بدگوئی کا یہ سلسلہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے پاس بھی سوائے تنقید کے کوئی ہتھیار باقی نہیں رہا‘ان کے اپنے صوبے کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لکی مروت میں کنٹینر سکول منصوبے کا افتتاح ہوا تو ان کے غالباً ایف اے پاس صوبائی وزیر تعلیم ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر افتتاح کرنے گئے۔ کیا یہ کرپشن یا بدانتظامی نہ تھی؟صرف ڈیڑھ گھنٹے کا یہ زمینی راستہ تھا جس پر فضائی سفر اور سرکاری وسائل کے اندھے استعمال کو ترجیح دی گئی۔

    لوگ پوچھتے ہیںکیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کا راگ الاپا جاتاتھا؟ کہاں دوسروں کو سادگی کے درس اور کہاں اپنے ایک وزیر کاہیلی کاپٹربے دریغ استعمال کرنا؟ میں نے نہیں سنا کہ خان صاحب نے عاطف خان کی سرزنش کی ہو۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا البتہ ٹویٹ آیا کہ ان کا کوئی وزیر ان کی اجازت کے بغیر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کر سکتا۔تو کیا اُوپر سے نیچے تک آوے کا آوا بگڑ چکا ہے؟ کیا فرماتے ہیں خان صاحب اس بارے میں؟ کیا ان کے وزیر احتساب سے بالا تر ہو چکے؟

    پرویز خٹک سادگی کا سوال تو گول کر ہی گئے‘یہ بھی نہیں بتایا کہ ہیلی کاپٹر لے جانا کیوں ضروری تھا۔ ان کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین کئی ہفتوں سے خراب ہے‘ لوگ باہر سے مہنگے ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ اس کا جواب وہ کیا دیں گے؟ کیا ان کی مرضی سے متبادل مشین یا مرمت کا انتظام نہیں کیا جا رہا؟ چلیں اسے چھوڑیں‘ کیا انہیں معلوم ہے‘ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں ٹارچوں کی روشنی میں مریضوں کی جراحی کی جا رہی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں وہاں سرجنوں نے گیارہ آپریشن ٹارچ کی روشنی میں کیے۔ اگر ہسپتال میں بھی جنریٹرز دستیاب نہیں تو پھر صحت کے وسائل کہاں کھپائے جا رہے ہیں؟ کیا تبدیلی کی یہی وہ مثالیں ہیں جو ہمیں تین سال گزرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں دیکھنے کو ملنا تھیں؟سارے کا سارا زور جس جماعت کا مخالفین کی کردار کشی پر رہا‘ وہاں کے حالات دیکھ کر کون اسے آئندہ ووٹ دے گا؟

    بدگوئی سے بچنا جتنا سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علماء کے لئے ضروری ہے اتنا ہی والدین کے لئے۔اپنی زبان اگر انسان کے قابو میں نہ رہے تو اس کا جاہ و جلال‘ عہدہ و منصب کس کام کا؟ایسے لوگوں کیلئے قرآن میں ہلاکت کی وعید ہے۔”ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے‘‘(الھمزہ)۔ ایک حدیث میں ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے‘‘( صحیح بخاری)۔ آپﷺنے فرمایا۔”جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی‘‘( صحیح بخاری) ۔آپ ﷺکا ارشاد ہے ”جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں‘‘(صحیح بخاری)

    جن لوگوں کے نزدیک نظام میں تبدیلی بدگوئی سے آئے گی ‘ ان ارشادات کی روشنی میں وہ اپنا قبلہ درست کرنا پسند فرمائیں گے؟

  • شکایت ڈاٹ کام-جاوید چوہدری

    شکایت ڈاٹ کام-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    مجھے چند دن قبل ڈیرہ غازی خان کے کسی صاحب نے ای میل کی‘ ان کی دکھ بھری کہانی میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے لیے بے شمار سبق ہیں چنانچہ میں یہ ای میل میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی صورتحال کے تدارک کے لیے چند تجاویز بھی پیش کروں گا‘ میاں شہباز شریف اگر ذرا سی توجہ دے دیں تو ہزاروں لاکھوں مجبوروں کا بھلا ہو جائے گا‘ آپ پہلے یہ ای میل ملاحظہ کریں۔

    ’’میں ڈی جی خان کی بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘میں اپنی بیوی کو ڈیلیوری کے لیے ڈی جی خان کے سب سے بڑے اسپتال کئیر سینٹر لے گیا‘ رات ساڑھے نو بجے ڈیلیوری ہوئی‘ ڈاکٹروں نے بچے کو نرسری میں شفٹ کر دیا‘ ساڑھے بارہ بجے بتایا گیا بچے کے پھیپھڑے صحیح کام نہیں کر رہے‘ آپ اسے ملتان لے جائیں‘ میں بچے کو لے کر رات دو بجے سٹی اسپتال ملتان پہنچا ‘ انھوں نے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے معذرت کر لی‘ میں ایک اور پرائیویٹ اسپتال میڈی کئیر پہنچا وہاں بھی سینئر ڈاکٹر نہ ہونے کا بہانہ کر کے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیاگیا‘ میں اب سرکاری اسپتال چلڈرن کمپلیکس ملتان پہنچا‘ انھوں نے بھی’’ہاوس فل ہے‘ آپ نشتراسپتال چلے جائیں یہاں ایک بھی بچہ ایڈمٹ کرنے کی گنجائش نہیں ‘‘ کاجواب دے کر مجھے جواب دے دیا‘ میں نشتر کی چلڈرن وارڈ کی ایمرجنسی پہنچا ‘ انھوں نے بچہ داخل کر کے کہا’’ مسئلے کا حل سرونٹا انجکشن ہے ‘یہ وزن کے حساب سے لگتا ہے۔

    آپ کے بچے کا وزن تین کلو ہے لہٰذا بچے کو تین انجکشن لگیں گے‘ فی انجکشن پندرہ ہزار روپے ہے‘‘۔میں انجکشن لینے چلا گیا‘ میں جب پینتالیس ہزار روپے کے تین انجکشن لے کر پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آ گری‘ ڈاکٹر نے بتایا وینٹی لیٹر کے بغیر انجکشن نہیں لگ سکتا اور پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے ایشیا کے سب سے بڑے اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا‘ میری جیب میں چالیس ہزار روپے تھے اور وینٹی لیٹر ڈھائی لاکھ روپے کا تھا‘ میں نے کرائے پر  وینٹی لیٹر لینے کی تجویز دی ‘ ڈاکٹر نے جواب دیا‘ بھائی صبح ساڑھے پانچ بجے کون اٹھ کر کرائے پر وینٹی لیٹر دے گا‘ وینٹی لیٹر میڈی کئیر میں ہے‘ آپ میڈی کئیر رابطہ کر کے انھیں یہ گارنٹی دے دیں اگر انجکشن لگنے کے دوران بچہ فوت ہو گیا تو ذمے داری آپ کی ہوگی تو وہ آپ کا بچہ ایڈمٹ کر لیں گے‘ میں نے میڈی کئیر رابطہ کیا ‘ انھوں نے جواب دیا‘ آپ آ جائیں‘ میں ایمبولینس لینے گیا تو اسپتال نے پیچھے سے بچے کو یہ کہہ کر نرسری میں شفٹ کر دیا ہم بچہ زیادہ دیر ایمرجنسی میں نہیں رکھ سکتے‘ نرسری میں اے سی تو دور پنکھے بھی اتنے اونچے تھے کہ ہوا نہیں آ رہی تھی۔

    میں جب ایمبولینس لے کراسپتال میں پہنچا تو بچہ قریب المرگ تھا‘ میری بہن اسے مصنوعی سانس دے رہی تھی‘ میں ایمبولینس سے آکسیجن کا سلنڈر نکال کے وارڈ میں پہنچا تو بچے کا انتقال ہو چکا تھا۔میںوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘میں ایک صاحب ثروت بزنس مین ہوں‘ میں جیب میں ایک لاکھ روپے ڈال کرگھر سے نکلا لیکن میں اپنے بچے کی زندگی نہیں بچا سکا تو دس بیس ہزار روپے ماہانہ لینے والے ملازمین کے بچوں کا کیا ہوتا ہوگا؟

    میں مسلم لیگی ہوں لیکن میری ساری مسلم لیگیت اور میاں شہبازشریف کی ساری گڈ گورننس ڈھائی لاکھ روپے کے ایک سلنڈر نے نکال کے باہر کچرے میں پھینک دی ‘ میں میاں برادران سے پوچھنا چاہتا ہوں‘پچاس ارب روپے کی میٹرو کے شہر کے اسپتالوں میں ڈھائی لاکھ کے وینٹی لیٹر کیوں نہیں ہیں؟نہ جانے اب تک کتنے ننھے پھول مسلے جاچکے ہیں ‘ہمارے بچوں کو وینٹی لیٹر میسر نہیں ہیں ہم میاں صاحب کی میٹرو کا اچار ڈالیں گے؟خدارا میاں صاحبان سڑکیں نہیں اسپتال بنائیں‘ نجی اسپتال والوں کو ایمرجنسی کیسز لینے کا پابند بنائیں‘سرکاری اسپتال میں مفت ادویات اور اے سی کو یقینی بنائیں اور خدا را تحصیل نہیں تو ضلع کی سطح پر ایک معیاری اسپتال ضرور بنائیںورنہ آپ میرے جیسے بدنصیب لوگوں کی بددعاؤں کا شکار ہو جائیں گے‘‘۔

    یہ داستان ایک تلخ حقیقت ہے‘ پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت واقعی بہت خراب ہے‘ آپ جوں ہی میٹرو سے اتر کر پنجاب کے کسی اسپتال یا سرکاری اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو گڈ گورننس دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے مگر آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر ہے‘ عمران خان کے تبدیل شدہ صوبے میں دل کے امراض اور بچوں کا کوئی اسپتال نہیں چنانچہ دل کے تمام مریض اسلام آباد کے پمز یا پھر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوتے ہیں جب کہ بیمار بچوں کے والدین سیدھے لاہور پہنچتے ہیں‘ آپ لاہور کے چلڈرن اسپتال کا ریکارڈ دیکھ لیجیے‘ آپ کو وہاں نصف سے زائد بچے خیبر پختونخواہ کے ملیں گے۔

    بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی دگر گوں ہے جب کہ سندھ کے اسپتالوں میں پانی اور بجلی تک موجود نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہم دوسرے صوبوں کی خراب کارکردگی کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں دے سکتے‘ میاں شہباز شریف کو اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جتنی توجہ یہ میٹرو اور اورنج ٹرین کو دے رہے ہیں‘ یہ پنجاب میں آٹھ سال سے حکمران ہیں‘ ان کی دوسری مدت اقتدار کے دو سال باقی ہیں‘ یہ دو سال بعد ملکی تاریخ میں دس سالہ وزارت اعلیٰ کا ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن اگر پنجاب کے اسپتال دس سال کی ریکارڈ مدت کے بعد بھی وینٹی لیٹر‘ آکسیجن‘ واش رومز‘ پانی‘ بجلی اور ایمرجنسی سے محروم رہتے ہیں تو پھر عوام کو میاں صاحب کے ریکارڈ کا کیا فائدہ ہوا؟ پنجاب کے لوگ میاں شہباز شریف کو کیوں یاد رکھیں؟ چنانچہ میری میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ نے جتنی میٹروز بنانی تھیں آپ نے بنا لی ہیں‘ آپ اب اگلے دو سال اسپتالوں اور اسکولوں کے لیے وقف کر دیں‘ آپ اب پنجاب کے اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت پر توجہ دیں۔

    آپ اس سلسلے میں چند کام کر سکتے ہیں‘ آپ ہر تحصیل میں ایک ایک ایمرجنسی اسپتال بنا دیں‘ یہ اسپتال صرف ایمرجنسی مریضوں کا علاج کریں‘ مریض جوں ہی ایمرجنسی سے نکلے‘ ڈاکٹر اسے عام اسپتال میں شفٹ کر دیں‘ ایمرجنسی اسپتالوں میں بجلی سے لے کر ادویات تک تمام طبی سہولتیں دستیاب ہوں‘ ڈاکٹرز بھی موجود ہوں اور دس دس ایمبولینسز بھی‘ آپ تمام پرائیویٹ اسپتالوں کو پابند کر دیں یہ ایمرجنسی کے شکار کسی مریض کو انکار نہیں کریں گے‘ یہ پہلے مریض کو داخل کریں گے اور پھر کاغذی کارروائی کریں گے اور جو اسپتال اس کی خلاف ورزی کرے اسے بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے‘ آپ اسپتالوں کو تین اقسام میں تقسیم کر دیں‘ ہر قسم کے لیے ’’ایس او پی‘‘ بنائیں‘ آپ صوبے کے تمام اسپتالوں کو دو برسوں میں ان ’’ایس او پیز‘‘ کے برابر لے آئیں‘ آپ ہر ڈویژن میں بین الاقوامی سطح کا ایک اسپتال بنا دیں۔

    اس اسپتال میں تمام شعبے موجود ہوں‘ اگر اس ڈویژن کا کوئی مریض علاج کے لیے دوسری ڈویژن جائے تو حکومت ڈویژنل ہیلتھ آفیسر کے خلاف کارروائی شروع کر دے‘ آپ تمام اضلاع میں انڈسٹریل سائیٹس کی طرز پر میڈیکل سائیٹس بھی بنا دیں‘ ضلع کا کوئی بھی مخیر شخص‘ کوئی بھی کاروباری خاندان اور کوئی بھی ڈاکٹر اس سائیٹ میں اسپتال یا کلینک بنانا چاہے تو حکومت اسے مفت زمین دے دے‘ یہ اسکیم مریضوں کا سفر کم کر دے گی‘ یہ علاج کے لیے پورے شہر میں خوار ہونے کے بجائے صرف ایک جگہ جائیں گے‘ حکومت بھی پورے شہر کے بجائے صرف ایک جگہ توجہ دے گی اور آخری مشورہ پنجاب 9 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ یہ درست ہے حکومت ہر شخص اور ہر دفتر پر نظر نہیں رکھ سکتی لیکن آپ عوامی شکایات اور ان کے فوری تدارک کے لیے سسٹم تو بنا سکتے ہیں‘ پنجاب حکومت شکایت ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائیٹ بنائے۔

    صوبے کے تمام لوگ اس ویب سائیٹ پر اپنی شکایت درج کرا سکیں‘ لوگ اپنی شکایت تحریر بھی کر سکیں‘ آڈیو بھی ریکارڈ کرا سکیں اور وڈیو پیغام بھی دے سکیں‘ حکومت کے تمام ادارے ویب سائیٹ کے ساتھ منسلک ہوں‘ یہ ادارے فوری طور پر شکایت کا ازالہ کریں‘ اداروں کی طرف سے ازالے کی وڈیو بھی سائیٹ پر لگائی جائے اور شکایت کنندہ کے اطمینان کا پیغام بھی‘ یہ ویب سائیٹ عوام‘ سرکاری اداروں اور حکومت تینوں کو آپس میں جوڑ دے گی‘ میرا خیال ہے اگر عوام کی شکایات میاں شہباز شریف تک پہنچ جائیں تو بھی نوے فیصد مسئلے حل ہو جائیں گے اور سوشل میڈیا آج کے دور میں حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا شاندار ذریعہ ہے۔

    یہ ذریعہ اگر موجود ہوتا تو آج ڈی جی خان کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز پورے ہوتے اور بچے آکسیجن کی کمی سے نہ مر رہے ہوتے چنانچہ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں ‘ عوام ہی وہ طاقت ہیں جو حکمرانوں کو حکمران بناتے ہیں‘یہ ہی حکمرانوں کو بچاتے ہیں‘ آپ اگر حکمران رہنا چاہتے ہیں تو عوام کو خوش رکھیں‘ عوام کی خوشی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگااور یہ حقیقت ہے جب اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ سے ناراض ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اور عوام آپ سے ناخوش ہیںتو آپ پوری دنیا کو خوش رکھ کر بھی حکمران نہیں رہ سکتے۔

  • ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    آج کے اخبار ات میں ایک خبرپڑھی تو بہت دکھ ہوا۔ لیکن جب میں نے تصدیق کےلیے متعلقہ افراد سے بات کی تو معاملہ بالکل مختلف نکلا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اس معاملےپر لکھنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ آج کے تقریباً تمام اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالےسے ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نےوفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کےلیے تیار کردہ نصاب پر اعتراض کر دیاجس کی وجہ جہادسے متعلق آیات نصاب میں شامل نہ کرناہے۔ ان خبروں کے مطابق کونسل کے ممبران کی اکثریت کاموقف تھا کہ جہادسے متعلق 484 آیات میں سے کسی ایک آیت کو نصاب میں شامل نہ کرنا ایک سازش ہے۔ مجھے چونکہ حکومت کی طرف سےا سکولوں کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانےکےفیصلے کےبارےمیں علم تھا اور اس بارے میں میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خبر بھی جنگ اورنیوز میںشائع کی تھی، اس لیے نظریاتی کونسل کے حوالےسے یہ خبرپڑھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔

    دکھ اس بات پر تھا کہ حکومت کس طرح قرآن پاک کے کسی بھی حصہ کو اسکولوں کالجوں کے نصاب سے نکال سکتی ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کےپریشر میں حکومت نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ جہادسے متعلق قرآنی احکامات کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں جب میں نے متعلقہ وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمنٰ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    بلیغ الرحمنٰ جنہوں نے قرآن پاک کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بننے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا، کا کہنا ہے کہ نصاب میں سے قرآن پاک کا کوئی ایک لفظ بھی وہ نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے تحت اسکول کے بچوں کو مکمل قرآن پڑھایا جائے گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی سے پنجم جماعت تک کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ ترجمہ پڑھانےکےلیے قرآن پاک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مکی سورتوں کو چھٹی سےلے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ کوپڑھایا جائے گا جبکہ گیارویں اور بارہویں جماعت کے بچوں کو مدنی سورتیں ترجمعہ کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ بلیغ الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ مدنی سورتوں میں جہاد سمیت دوسرے قرآنی احکامات کا ذکر ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ بچے جب نسبتاً سمجھ کے قابل ہوں تو انہیں قرآن پاک کے اس حصہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ مکی سورتوں کا نصاب تیار ہو چکاہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا گیا جبکہ مدنی سورتوں کا نصاب تیاری کے عمل میںہے۔

    سوچا حکومتی وزیر ہونے کی حیثیت سے ہو سکتا ہے بلیغ الرحمنٰ کوئی بات چھپا رہے ہوں تو نظریاتی کونسل کے ایک ممبر کے علاوہ ایک سینئر افسر سے بات کی تو دونوں حضرات نے میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس مجھے بتایا کہ کونسل نے تو حکومت کی اس پالیسی سے اتفاق کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جہادسے متعلق قرآن پاک کے حصہ کو نصاب سے نکالنے کی بات کی تصدیق نہیں کی اور وہی بات کی جو بلیغ الرحمنٰ صاحب نے کی۔ کونسل نے ترجمہ میں بہتری کی کچھ تجاویز دیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد مدنی سورتوں سے متعلقہ نصاب کو بھی تیار کرے تا کہ قرآنی تعلیم کا یہ سلسلہ جلد از جلد شروع ہو سکے۔ جو خبر بدھ کے روز کے اخبارات میں شائع ہوئی اور جو کچھ متعلقہ وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دو معتبر ذرائع نے مجھ سے کی، اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    آج کے خبارات کی خبروں میں جہاد کی آیتوں کو نکالنےکے حوالے سے ـ’’سازش‘‘ کی بھی بات کی گئی۔ یقینا ًسازش تو کہیں ہے لیکن شاید اُس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے اس قابل تحسین فیصلےپر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اگر ہمارے بچوں نے قرآن پاک پڑھ لیا، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھ لیا تو پھر اس پر تکلیف تو ملک کے اندر اور ملک سےباہر بیٹھے بہت سوں کو ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف مکاتب فکر کےبڑےبڑے علمائے کرام سے حکومت نے متعلقہ نصاب کے سلسلے میں رابطہ کیا اور تقریباً ہر ایک نے نصاب میں شامل کیےگئے ترجمہ کواصولی طورپر منظور کرتےہوئےحکومت کے اس عمل کو سراہا۔ ترجمہ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں علم فاونڈیشن کے متعلقہ افراد نے منگل کے روز نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور بہتری سے متعلق تجاویز حاصل کیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود حکومت کس طرح اس فیصلےپر عمل درآمد کرتی ہے۔ بلیغ الرحمنٰ صاحب کے مطابق وفاقی حکومت تواس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے جبکہ صوبوںنےابھی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ میری وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فوری طورپر وفاقی اسکولوں کالجوں میں اس نصاب کو پڑھانے کا حکم صادر کریں۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے تو پنجاب اور بلوچستان میں تو ن لیگ ہی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امید کرتےہیں کہ سندھ میں بھی اسکولوں کالجوں کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے گا۔ یقین جانیں اس اقدام سے یہاں بہت بہتری آئے گی