Tag: سپین

  • لبرلز کا کلاس روم اور تاریخ کا سبق – ارمغان احمد

    لبرلز کا کلاس روم اور تاریخ کا سبق – ارمغان احمد

    پیارے لبرل بچو! آپ کا آج کا سبق

    سوال: گوروں نے امریکہ پر قبضہ کیا تو مقامی باشندوں کے ساتھ کیا کیا؟
    جواب: آج بھی وہ جانوروں والی زندگی گزار رہے ہیں.

    سوال: گوروں نے آسٹریلیا پر قبضہ جمایا تو مقامی لوگوں کے ساتھ کیا کیا؟
    جواب: آج بھی انتہائی جانوروں والی زندگی گزار رہے ہیں، جو ایک دو ڈھیٹ بچ گئے تھے.

    سوال: آریاؤں (آج کل کے ہندوؤں کے آباؤ اجداد) نے برصغیر پر قبضہ کیا تو مقامی دراوڑوں کے ساتھ کیا کیا؟
    جواب: آج بھی ان کو شودر اور دلت کہا جاتا ہے۔ اکثریت چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہو گئی بغیر کسی ہجرت کے اور ان کے بےچارے بچے آج بھی ہیں پاکستان میں بھی۔ کچھ عیسائی ہیں اور کچھ وہ جن کو ہم آج بھی مصلی اور میراثی کہہ کے ذلیل کرتے ہیں۔ نشانیاں ان بےچاروں کی کالے رنگ، چھوٹے قد، مدقوق چہرے اور کمزور جسم ہیں۔

    پیارے لبرل بچو! اب مزید دلچسپ حصہ شروع ہوتا ہے سبق کا

    سوال: سپین میں مسلمانوں نے کتنا عرصہ حکومت کی؟
    جواب: تقریبا سات سو سال
    سوال: کیا وہاں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوئی؟
    جواب: نہیں
    سوال: ہندوستان پر مسلمانوں نے کتنا عرصہ حکومت کی؟
    جواب: ہزار سال
    سوال: کیا یہاں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوئی یا ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو امریکیوں نے ریڈ انڈینز، آسٹریلویوں نے ایب اوریجنلز یا ہندوؤں نے دراوڑوں کے ساتھ کیا؟
    جواب: نہیں

    اور اب سبق کا وہ حصہ جو صرف مضبوط دل والے لبرل پڑھیں۔
    سوال: جب سپین میں مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت ختم ہوئی تو پتا ہے کتنے عرصے بعد وہاں ایک بھی مسلمان نہیں بچا تھا؟
    جواب: محض تیس سال

    چلو لبرل بچو! اب کوئز ٹائم
    سوال: اگر محمد بن قاسم حملہ آور تھا، اور ہمارا ہیرو دھرتی ماں کا دفاع کرنے والا راجہ داہر ہونا چاہیے تو اسی راجہ داہر کی تو اپنی نسل خود برصغیر پر حملہ آور تھی۔ پھر تو ہمارے ہیرو ہمارے پسماندہ ترین علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ نہیں ہونے چاہییں جن کو آپ ”چوڑے“ اور مصلی کہتے ہیں؟

    ریلیونس کم از کم چوڑوں، مصلیوں اور دلتوں کی تو آج بھی ہے۔ بلکہ آج بھی سفر (انگریزی والا) محض وہی کر رہے ہیں۔ باقی سب کی تو یہ ذہنی عیاشی ہی ہے۔ پھر ریلیونس اس بات کی تو نہیں بنتی کہ محمد بن قاسم غلط تھا یا راجہ داہر۔ بلکہ اس بات کی بنتی ہے کہ دلتوں کو حکومت کیسے دی جائے اور ان کے ساتھ کی جانے والی تاریخی نا انصافی کا ازالہ کیسے کیا جائے؟ کیا کہتے ہیں؟
    جواب آپ کمنٹس میں دے سکتے ہیں۔
    اگلے سبق تک کے لیے اللہ حافظ

  • یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    orya

    یورپ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ انقلاب فرانس کے مرکز پیرس میں اترا تو ٹھیک پانچ سال بعد یہاں آنے کے بعد ایک احساس ایک دم دل و نگاہ سے چھوگیا۔ سب کچھ وہی ہے، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، گمنام سپاہی کی  قبر والا وہ دروازہ جو کئی سڑکوں کے بیچوں بیچ ہے، پہاڑی پر قدیم گرجا بھی ویسا ہی ہے اور نوٹرے ڈیم کے چرچ کے مجسمے بھی ویسے ہی قائم ہیں لیکن جو پیرس پانچ سال پہلے نظر آتا تھا اب وہ کہیں کھوگیا ہے۔ خود پیرس کے لوگ حیرت میں گم ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے جب یورپ نکلا تو یوں لگتا تھا کہ ساری کی ساری آبادی ایک کھنڈر پر کھڑی ہے۔

    لوگوں نے مل کر اس اجڑے گھر کو تعمیر کیا۔ ہر ملک برباد تھا اور ہر شہر ویران، یوں تو امریکی اسے اپنا احسان عظیم کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ فراہم کیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے اسے خود تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو میں عمارات تو کھنڈر سے بدل کر اصلی مقام پر آگئیں لیکن سرمائے کی دوڑ نے معاشرے کو ایک دوسرے کھنڈر میں بدل دیا۔ وہ کھنڈر جس میں اقدار، اخلاق، روایات، مذہب اور سب سے بڑھ کر خاندان کی اینٹیں گری پڑی ہیں اور کوئی ان اینٹوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ تعمیر میں مصروف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ماتم کرتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ سو سال سے صرف ایک ہی ماتم ہے، ہمارا خاندان کہاں چلاگیا۔

    یہ سب تو پیرس شہر میں گزشتہ سو سال سے چلا آرہا ہے، تو پھر وہ کونسا پیرس ہے جو پانچ سال پہلے تھا اور آج نہیں ہے۔ پانچ سال پہلے کا پیرس نسبتاً مرنجا مرنج یعنی ”Cave Free” پیرس تھا اور آج کا پیرس خوفزدہ ہے، ڈرا ہوا۔ اس شہر کی گلیوں میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ فوج کے دستے گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ شروع شروع میں جب کارٹون بنانے والے اخبار چارلی ہبیڈو پر حملہ ہوا، لوگ مارے گئے تو پیرس میں غم و غصہ تھا۔ پوری قوم یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ ایسے میں کسی نے اس غصے میں دبی ہوئی حملہ آور کی آواز کو یاد تک نہ کیا کہ ’’میں الجزائر سے ہوں اور یہ میرا بدلہ ہے‘‘ اسلام اور مسلمان دونوں ہدف تھے۔ میڈیا نے اس یک جہتی کو کھول کھول کر بیان کیا اور بار بار دکھایا۔

    لوگ چین کی نیند سوگئے۔ لیکن اس کے بعد انھیں پھر کسی زور دار دھماکے میں مرنے والوں کی چیخوں نے جگایا تو کہیں ٹرک ڈرائیور کے انسانوں کے خوفناک طریقے سے کچلنے نے بیدار کیا۔ لیکن اب یہ جاگنا یک جہتی کا جاگنا نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے خوف میں نیند اڑجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں صرف ایک بحث ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے۔ ہم تو پر امن تھے، اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہمارے بازاروں میں رونق تھی، لاکھوں سیاح روز ہمارے شہروں کو آباد کرتے تھے۔ دونوں طرف بولنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلام، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کی رٹ لگاتے ہیں۔ لیکن دوسرے وہ ہیں جو اس خطرے سے پورے مغرب کو ڈرا رہے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں تم نے اسلحہ بیچنے کی ہوس میں جتنے لاکھ لوگوں کو مسلم دنیا میں قتل کیا ہے۔ اگر ان کے دس فیصد لوگوں کی اولادیں اپنا بدلہ لینے تمہاری سمت چل پڑیں تو تم کئی صدیاں امن کوترس جاؤ گے۔ فرانس کا ’’مشعل اکشود‘‘ نامی مصنف جو ٹیلی ویژن چینلوں پر مقبول ہورہا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے، تم نے الجزائر میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، اب یہ خون تمہارے گھروں میں انتقام کے پتھر لے کر آگیا ہے۔ حیرت میں گم پیرس کے سامنے ایک اور سوال ہے۔ ہم تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے بانی تھے۔ ہماری نسلوں نے انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا تھا۔ لیکن یہ کیا ہوگیا۔ شام میں جاکر لڑنے والوں میں سب سے زیادہ لوگ فرانس سے جارہے ہیں اور وہاں لڑائی میں مرنے والوں میں دس ایسے فرانسیسی ہیں جو نسل در نسل فرانسیسی ہیں۔ جن کی رگوں میں صدیوں سے فرانسیسی خون دوڑ رہا ہے۔

    خوف اور تذبذب کی یہی فضا اگلے دن مجھے برسلز میں نظر آئی۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تلاش مجھے مولن بیک ”MOLEN BEEK” کے علاقے میں لے آئی۔ یہ بیلجیئم کی اس آبادی کا مرکز ہے جو نسلی طور پر مراکش سے تعلق رکھتی ہے۔ چاروں جانب حجاب اور عبایا میں ملبوس خواتین مسجدوں کی طرف جارہی تھیں اور مرد عربی لباس پہنے نظر آرہے تھے۔ ایک اور حیرت، وہاں آکر آپ کو بیلجیئم میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان نہیں آتی تو انگریزی نہیں چلے گی۔ البتہ آپ عربی میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کریں تو آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دونوں ملک اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر ایک دفعہ پھر سے اس سین کو دہرا رہے ہیں کہ 1905ء میں جو سیکولرازم اور لبرل ازم کا دور شروع ہوا تھا، اس میں زوال آگیا ہے۔ ہمیں اپنی اس روح کو اپنے آپ جدا نہیں کرنا۔

    اگلے تین دن اٹلی کے شہر میلان اور اسپین کے شہر بارسلونا میں گزرے، ان چاروں شہروں، پیرس، برسلز، میلان اور بار سلونا میں پاکستانی آبادی سے ملاقات اس لیے ہوئی کہ تقریبات میں جمع تھے۔ لیکن ان کا خوف دہرا ہے۔ ان کا المیہ اور دکھ بھی دہرا ہے۔ جس وطن کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں انھیں وہاں تبدیلی کی کوئی امید نظر انھیں آتی۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل مغرب میں آباد پاکستانیوں سے مل رہا ہوں لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ان میں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش شدید ہے۔

    ان کا المیہ دہرا ہے جس یورپ کو وہ خون پسینہ دے کر تعمیر کرہے ہیں وہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور جس پاکستان میں وہ خون پسینے کی کمائی بھیجتے ہیں وہاں ان کی کمائی سے عیاشیاں کی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں یورپ میں نظر آتا ہے لیکن ایسا خواب وہ یہیں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جس طرح یورپ تباہ ہوا اور یورپ والوں نے اسے تعمیر کیا۔ یہاں کے پاکستانی ویسا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ انتظار کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان بدل جائے اور وہ واپس اپنے جہلم، گجرات، مردان وغیرہ چلے جائیں۔

    جہاں وہ معاشی طور پر مطمئن بھی ہوں اور کوئی انھیں بار بار گفتگو میں اللہ کا لفظ استعمال کرتے سنے اور پیرس میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی طرح گرفتار نہ کرادے۔ اسپین کے ساحلوں پر حجاب والی خاتون کے گرد جیسے پولیس والے جمع ہوگئے اور کہا یا تو سوئمنگ سوٹ پہنو یا یہاں سے بھاگو۔ ایسا کچھ اس نئے پاکستان میں نہ ہو۔ ایسا پاکستان ان کی کمائی سے نہیں صرف اور صرف ان کے خون پسینے سے بن سکتا ہے۔ لبنان میں چالیس لاکھ لوگ آباد ہیں جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لبنانی ملک سے باہر ہیں۔ کما کر ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن لبنان کی حالت نہیں بدلتی۔ قومیں سرمائے سے نہیں انسانوں سے بدلتی ہیں۔