Tag: سوشلزم

  • اسلام کو دیس نکالا دیا جائے – آصف رندھاوا

    اسلام کو دیس نکالا دیا جائے – آصف رندھاوا

    اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد واحد سے لے کر معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرتا ہے کیونکہ یہ خالق کا بنایا ہوا ہے جو انسان کی بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورتوں سے واقف تھا، اس لیے اس مالک کائنات نے اسلام کو بنی نوع انسان کے لیے پسند کیا اور عملی نمونہ پیغمبر ﷺ کے ذریعے فراہم کیا اور بے شک آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ملتی ہے لیکن جب جب انسان نے اس رہنمائی اور طریق کار (سنت) کو پس پشت ڈالا اور اپنی عقل و دانش کو معیار بنایا تو ٹھوکر کھا بیٹھا کیمونزم سوشلزم کے نظام آئے، پذیرائی بھی ملی مگر چند سال ہی، اور اب کیپٹل ازم کا نظام جس نے معاشرے کی خلیج کو کچھ اور بڑھاوا دیا، امیر کو امیر تر اور غریب کو نوالے نوالے کا محتاج کر دیا. کیمونزم اور سوشلزم کے پرچارک وہ تمام فکری یتیم جو کیمونزم کی گود میں پیدا ہوئے اور اس کے ترانے گاتے اور پرچم لہراتے جوان ہوئے، اب لے پالکوں کی کی طرح کیپٹل ازم کی گود میں پڑے نظر آتے ہیں اور وہی راگ الاپتے ہیں جو کل وہ کیمونزم کے لیے الاپ رہے تھے. اب نظام سرمایہ درانہ ہے لیکن اس کی راہ میں ابھی ایک رکاوٹ باقی ہے اور وہ ہے مذہب، جو حائل ہو جاتا ہے، حلال حرام، جائز و ناجائز، ذخیراندوزی، ناجائز منافع خوری، سود اور دوسرے تمام غیر اخلاقی افعال کے درمیان، اب اس مذہب کو معاشرتی یا اجتماعی زندگی سے نکالنے کے لیے سیکولر طبقہ معرض وجود میں لایا گیا جس نے خوش نما اصطلاحات اور پر فریب نعروں سے لوگوں کو بہلانے پھسلانے کا کام شروع کیا.

    اگر آپ یہودی پروٹوکول کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی دانشوران یہود یہی فرماتے نظر آئیں گے کہ اپنے مکروہ مقاصد کو خوبصورت الفاظ اور نعروں میں چھپاؤ تاکہ عوامی سطح پر مخالفت کم ہو، جس کی چند عام فہم مثالیں روشن خیالی، آزادی اظہار رائے وغیرھم ہیں، لیکن اگر ان کی گہرائی اور گیرائی میں اترا جائے تو اندر سے وہی مکروہ مقاصد ہی برآمد ہوں گے، جن کا اول و آخر ہدف معاشرے کی تباہی ہی نکلتا ہے، مغرب نے اس کا مزہ چکھ لیا، جہاں معاشرے اور خاندان اپنا وجود کھو چکے ہیں، اب یہی کام اسلامی ممالک میں کرنے کی سعی کی جا رہی ہے کہ مذہب کو معاشرتی زندگی سے نکال کر ایک مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل دیا جائے. ایسا کون چاہتا ہے، اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں.

    اس میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جس کے پاس دھن دولت کے انبار ہیں، لیکن دنیاوی لذتیں کشید کرنے کی راہ میں حائل مذہب ہے، اس لیے ان سے نماز روزے کی بات کی جائے تو ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟

    ثانی الذکر گروہ سامراج کے ان فرستادوں پر مشتمل ہے جن کو اسلام مخالف قوتوں نے ہائر کر رکھا ہے، یہ لوگ انفرادی سطح پر بھی پائے جاتے ہیں اور این جی اوز کی شکل میں بھی، اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں، اور حق نمک ادا کرنے کے لیے وقتا فوقتا قرارداد مقاصد پر مباحثہ کرتے ہیں، جو ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہے، نہ نگل پاتے ہیں نہ اگل پاتے ہیں، کبھی قائد کی 11 اگست کی تقریر کو لے کے بیٹھ جاتے ہیں، ان کا کام عوام میں کنفیوژن پھیلانا، حل شدہ مسائل پر بحث کرنا، دور دور کی کوڑیاں لانا اور گھسے پٹے دلائل کی جگالی کرتے رہنا ہے، فرد کے حقوق اور اخوت و مساوات کی بات کرنا لیکن نشانہ ہمیشہ اسلام کو بنانا، منافقت کے یہ پتلے کشمیر افغانستان عراق شام فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس کےلیے بھی ملا اور مدرسہ کو مطعون کرتے ہیں.

    اور آخری گروہ ان سامراجی قوتوں کا ہے جو اپنے خاندانی اور معاشرتی نظام کو تو تباہ کر چکے ہیں، اب ان کی کوشش و کاوش اور وسائل مسلم معاشروں کو تباہ کرنے پر صرف ہو رہے ہیں اور ملکوں ملکوں پھیلے ان کے گماشتے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے دکھا رہے ہیں ہیں، پاکستانی لبرلز پاکستان میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں، اس پر پھر کبھی سہی لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی لبرلز کی پہلی اور آخری خواہش صرف اتنی سی ہے کہ اسلام کو دیس نکالا دیا جائے تاکہ ان کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر آ سکیں.

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • سرمائے کی منصفانہ تقسیم – کامران امین

    سرمائے کی منصفانہ تقسیم – کامران امین

    کامران امین اس وقت دنیا کے معاشی نظام پر سرمایہ داری کی حکومت ہے۔ اگر چہ سرمایہ داری کے بہت سارے فائدے ہیں اور بظاہراس کے زیراثر عالمی معیشت نے گراں قدر ترقی کی ہے لیکن کیا یہ ترقی واقعی ترقی ہے؟ اس سوال کو آج کے لیے ایک طرف رکھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ نقصانات پر توجہ کرتے ہیں:

    سرمایہ دارانہ نظام میں خدمات اور اشیاء کے بدلے فرد کو اس کی مرضی کے مطابق رقم کی شکل میں منافع دیا جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس زیادہ سرمایہ ہوگا وہ زیادہ اشیاء خرید کر مارکیٹ میں لا سکے گا اور من مرضی کا منافع وصول کر سکےگا۔ یہ سرمایہ دار کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو منافع کو دوبارہ مارکیٹ میں لے کر آئے یا پھر اسے اپنے پاس محفوظ کر لے۔ جس کے پاس مارکیٹ میں لگانے کے لیے سرمایہ نہیں وہ اپنی خدمات سرمایہ دار کو فروخت کر کے اس سے منافع لے سکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی خدمات کی قیمت اکثر سرمایہ دار ہی طے کرتا ہے۔ حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ دار پر ٹیکس لگاتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی غریبوں پر خرچ ہوتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے لیے بھی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر سرمایہ دار ہی فراہم کرتے ہیں اس لیے یہ ٹیکس کی شرح بھی سرمایہ دار کی مرضی کی ہی ہوتی ہے اور حکومت محض سرمایہ دار کی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ سرمایہ دار کو اپنی مرضی کا منافع وصول کرنے کی آزادی ہوتی ہے اس لیے سرمایہ دار امیر سے امیر تر اور غریب، اور بھی زیادہ غریب ہوتا جاتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے کی بنیاد پر معاشرے میں باقی تمام طبقات کا استحصال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں کھیل رہا ہوتا ہے جنہیں ہم سرمایہ دار کہتے ہیں اور باقی سب لوگ سرمایہ دار کے غلام.

    صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں پکڑیں جس کے ردعمل میں کچھ اور نظریے بھی سامنے آئے۔ ان میں سے مشہور ترین کارل مارکس کا پیش کردہ کمیونزم ہے۔ مارکس کے پیش کردہ نظریے کے مطابق تاریخ کی ابتدا میں انسانی معاشرہ سوشلسٹ تھا، پھر انسانی ہوس نے دوسروں کے مال ہتھیانے شروع کیے تو سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جگہ بنا لی۔ لیکن اگر انسانی معاشرے کو تباہی سے بچنا ہے تو اسے دوبارہ سوشلزم کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک ترقی یافتہ شکل کمیونزم کی طرف۔ (چونکہ کمیونزم سے زیادہ سوشلزم نے دنیا میں جگہ بنائی اس لیے اگے والی ساری گفتگو کی بنیاد سوشلزم پر ہی ہوگی اگر چہ دونوں میں کافی سارا فرق بھی ہے )

    اس نظریے کے مطابق اگردنیا سے نا انصافی ختم کرنی ہے تو سرمائے کے ارتکاز کے بجائے منصفانہ تقسیم ضروری ہے اور سرمایہ کسی بھی صورت میں فرد کی ملکیت میں نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ سوشلزم میں تمام پیداواری ذرائع حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ہر فرد اور ادارہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے، طے شدہ معاوضہ اور مراعات وصول کرتا ہے۔ لیکن معاوضہ اور منافع کی شرح سوشلسٹ حکومت طے کرتی ہے نہ کہ سرمایہ دار۔ سرمایہ داری کے برعکس، سوشلزم فرد سے سارے اختیارات لے کر حکومت کے نام پر ایک اور فرد کو منتقل کر دیتا ہے اور پھر وہ خدا بن جاتا ہے۔ چونکہ پیداواری ذرائع فرد کی اپنی ملکیت نہیں ہوتے اس لیے فرد سرمایہ لگانے میں بھی ہچکچاتا ہے اور زیادہ منافع حاصل کرنے کی صورت میں حکومت کے پاس جمع کروانا پڑتا ہے اس لیے وہ مناسب دل لگا کر محنت بھی نہیں کرتا بلکہ ایک جبر کی فضا میں کام کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جتنے اختیارات سرمایہ دار کے پاس ہوتے ہیں اس سے کئی گناہ زیادہ اختیارات سوشلسٹ حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو حکومت کے ٹیکس ظالمانہ حد تک پہنچ جاتے ہیں اور پھیر یہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت ظالمانہ ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے۔ شخصی آزادی کا دم گھٹ جاتا ہے اسی لیے سوشلسٹ ممالک میں عوام موقع ملتے ہی فوراً سرمایہ دارانہ ممالک میں ہجرت کو اپنے لیے نجات سمجھتے ہیں۔

    سوشلزم کی طرح اسلام بھی کسی صورت سرمائے کا ارتکاز نہیں چاہتا۔ قران کی تعلیمات کے مطابق سرمایہ ہر صورت میں مارکیٹ میں گردش کرتے رہنا چاہیے لیکن اسلام ہرگز کسی فرد یا حکومت کو لامحدود آزادی نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی سے ظالمانہ قسم کے ٹیکس لگائیں اور پھر ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اسے وصول کریں۔ اسی طرح اسلام فرد کو اپنی صلاحیت کے مطابق معاوضہ حاصل کرنے اور اس کی ملکیت کا پورا پورا حق دیتا ہے جس سے انسانی جبلت کی تسکین ہوتی ہے۔ لیجیے جناب سرمایہ اگر سرمایہ دار کی ملکیت ٹھہرا تو بات وہیں پر آ پہنچی. اسلام بھی تو سرمایہ داری کا ہی ایک ورژن نکلا ؟ سرمائے کا ارتکاز پھر کیسے ہو؟

    سرمائے کے ارتکاز کے لیے اسلام سوشلزم کے بر عکس انتہائی خوبصورت نظام پیش کرتا ہے جس سے فرد کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی، اس کی جبلت کی بھی تسکین ہو جاتی ہے اور سرمائے کا ارتکاز بھی جاری رہتا ہے۔ سب سے پہلے تو سرمائے کی ایک مخصوص حد چھونے پر سرمایہ دار کو ایک مخصوص ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جسے زکوۃ کہتے ہیں۔ یہ لازمی جز ہے جو حکومت وقت زبردستی بھی وصول کر سکتی ہے، اگر کوئی فرد نہ دے تو لیکن اس کی ایک مقدار اللہ کی طرف سے مقرر ہے جس میں کمی بیشی کا کسی فرد کو کوئی اختیار نہیں۔ اس کے علاوہ قرآن انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ اللہ کی رضا، خوشنودی اور قرب کے حصول کے لیے امرا کو چاہیے کہ وہ صدقات کریں اور فقرا اور غربا میں بخششیں بانٹیں۔ درا صل یہ لوگوں کو بھیک پر پلنا نہیں سکھاتا بلکہ ایک طرف تو اس سے سرمایہ دار سے سرمایہ نکلوانا مقصود ہوتا ہے اور دوسری طرف ان صدقات کی صورت میں وصول ہونے والے سرمائے سے غریب بھی کوئی کام کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ ان نفلی صدقات کے علاوہ گناہ کے سرزد ہونے کی صورت میں کفارے کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ کچھ رقم یا کھانا غربا میں بانٹا جائے۔ جیسے غلامی کے دور میں مسلمان فقہا نے کفارے کے لیے غلام کو آزاد کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی، اسی طرح غربت اور تنگ دستی کے دور میں مسلمان علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے لیے کفارے کی اس صورت پر زیادہ زور دیں تاکہ غریبوں کا بھلا ہو۔ لیکن سرمائے کے ارتکاز کی یہ ساری صورتیں ترغیبی ہیں نہ کہ جبراً۔ چونکہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے اسی لیے یہ کہا گیا کہ تم نیکی کے اعلی درجے پر اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو ۔ لہذا ایک سوشلسٹ معاشرے کے برعکس جہاں ٹیکس جبراً وصول کیا جاتا ہے، ایک اچھے اسلامی معاشرے میں لوگ اپنی مرضی سے اپنی زائد دولت دوسروں پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں. مقصد دونوں کا ایک ہی ہے سرمائے کے ارتکاز کے بجائے سرمائے کی منصفانہ تقسیم

  • مولانا مودودی (رح) کا مذہبی بیانیہ اور دہشت گردی – زاہد مغل

    مولانا مودودی (رح) کا مذہبی بیانیہ اور دہشت گردی – زاہد مغل

    20523_800084413418302_6421615929894229381_nپچھلے کچھ عرصے سے کچھ احباب کی طرف سے یہ اعتراض دہرایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے پس پشت ایک بڑی وجہ مولانا مودودی (رح) کا پیش کردہ “سیاسی اسلام” کا تصور ہے جس کی رو سے مسلمانوں پر “عالمی خلافت” کا قیام لازم ہے۔ یہ مقدمہ نہایت ہی سادگی (over simplification) پر مبنی ہے، اس تحریر میں اس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
    اس ضمن میں پہلی حیران کن بات یہ ہے کہ “غلبہ دین” جیسے نظریات کی بنا پر جن اشخاص نے تنظیم سازی کی، ان میں سے کسی کی بھی تنظیم وہ جہاد نہیں کر رہی جو دہشت گردی کا پیش خیمہ بن گئی ہو! مثلا برصغیر میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور عرب دنیا میں اخوان المسلمون دونوں اسی تعبیر دین پر کھڑی کی گئیں جس سے یہ شکوہ کیا جارہا ہے مگر یہ دونوں تنظیمیں اپنی عمل داری (jurisdiction) میں آنے والے ممالک میں غلبہ دین کے لیے جہاد نہیں کرتیں بلکہ جمہوری عمل پر خود ہمارے یہاں کی جمہوریت پسند سیکولر جماعتوں سے زیادہ جازم ہیں (یہاں تک کہ جماعت اسلامی کی تو داخلی تنظیم سازی تک جمہوری اصولوں پر قائم ہے)۔ تو اگر جہاد کی یہ روایتی تعبیر ہی دہشت گردی کی بنیاد ہے تو خود یہ جماعتیں کیونکر اس سے محفوظ ہوگئیں؟
    دہشت گردی کے ضمن میں جن مذہبی تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے (مثلا القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، داعش) ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو اس معنی میں کسی نظریاتی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں جیسے جماعت اسلامی وغیرہ۔ ایسی زیادہ تر “مقامی جماعتیں” تو مسلم ممالک میں عالمی (اور “اندرونی”) طاقتوں کی دخل اندازیوں کے ردعمل کے طور پر دفاع کے لیے وجود میں آئیں، چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایسی تنظیم نہیں جو “غلبہ اسلام” کے مقصد کے تحت وجود میں لائی گئی ہو۔ اور پھر جیسے کسی بھی تنظیم و مقصد کو اپنے جواز کے لیے ایک نظریاتی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے سو “رد عمل پر مبنی ان وقتی (spontaneous) تنظیموں” کے عمل کو جواز دینے کے لیے کچھ دلیل اس مذہبی تعبیر سے بھی فراہم کردی گئی۔ چنانچہ اس طور پر کسی فکر کو استعمال کرلینا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج کل جو احباب دین کی اس روایتی فکر کے مقابلے میں “غیر روایتی فکر” پر مبنی تصور جہاد پیش کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ حالات میں تبدیلی اس کے بھی غلط استعمال کو ممکن بنا دے۔ مثلا اگر کل کوئی طاقتور مسلم ریاست کچھ ویسی ہی پوزیشن میں آجائے جیسے آج امریکہ ہے اور اس میں کوئی سخت مزاج حکمران حکومت کررہا ہو جو الیکشن ہی سے چنا گیا ہو تو کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ حاکم کسی غیر مسلم ریاست کے کسی بھی فعل کو “فساد” و “ظلم” کے زمرے میں شمار کرکے ہمارے ان بھائیوں کے نظریہ جہاد کو اپنے استعمارانہ مقاصد کو جواز دینے کے لیے استعمال کرنے لگے؟ دور کیوں جائیں، کیا آج کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ چائنہ کے خلاف اس دلیل کے زور پر چڑھ دوڑے کہ دیکھیے وہاں مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں جو ظلم (persecution) کی واضح شکل ہے؟ ایسے حالات میں ہمارے یہ بھائی کیا اپنے اس نظریے کو بھی چھوڑ دیں گے؟
    عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک خاص فکری ذہن و مزاج کھنے والے شخص کے لیے کسی طرح کے مخصوص حالات میں کسی بھی نظریے کو ایک مقصد کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرلینا ممکن ہوتا ہے. اگر آج کے مخصوص حالات (کہ جن میں مسلمان کمزور ہیں مگر پھر بھی لڑ رہے ہیں) میں آپ کا تصور جہاد بظاہر “امن کی امید” دلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے (کہ اس نظریے کی عمومیت کے بعد مسلمان غلبہ دین کے لیے لڑنے سے باز آجائیں گے لہذا امن ہوجائے گا) تو لازم نہیں کہ یہ نظریہ تمام حالات میں ایسے ہی نتائج کا پیش خیمہ بنے۔
    اپنے اس مقدمے کو تقویت دینے کے لیے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مدارس میں بعض ایسے فقہی مسائل سکھائے جاتے ہیں جن کے بعد کفار کو مارنا وغیرہ ایک جائز بات بن جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسائل تو ان کے بقول صدیوں پہلے سے کتب فقہ میں لکھے ہوئے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ 1980 سے قبل مسلم معاشروں میں یہ دہشت گردی نہ تھی؟ اور کیا وجہ ہے کہ بھارت کے مدارس میں بعینہ یہی کتب پڑھانے کے باوجود وہاں یہ سب نہیں ہو رہا مگر پاکستان یا چند دیگر مسلم ممالک میں ہو رہا ہے؟ چنانچہ موجودہ دور کے اکثر و بیشتر جہادی جتھوں اور قومی و عالمی ریاستوں کے آپسی تعلقات اور ان کا انہیں استعمال کرنے جیسے حقائق سے سہو نظر کرتے ہوئے کوئی مقدمہ قائم کرنا صرف سادہ لوحی پر مبنی تجزیہ ہے۔
    پھر اس ضمن میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے مخصوص انداز میں صرف خلافت اسلامیہ کا تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اسے برپا کرنے کا طریقہ بھی واضح کیا (جس کی وضاحت برادر عمار خان ناصر نے تفصیل کے ساتھ کی ہے)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا نے ایک جماعت بنا کر اس طریق کار کو عملا برت کر بھی دکھایا۔ چنانچہ علمی لحاظ سے یہ طریق کار درست نہیں کہ اپنے دعووں کی بنیاد ادھورے تجزیوں پر رکھی جائے۔ پھر جب یہ بات صاف کردی جائے کہ مولانا مودودی (رح) کی فکر کو دہشت گردی کی بنیاد ثابت کرنا غلط ہے کیونکہ مولانا نے صرف اہداف ہی مقرر نہیں کیے بلکہ اپنے بیان کردہ اہداف کے لیے طریق کار بھی تجویز کیا اور اس پر عمل پیرا ہوکر بھی دکھایا، تو پھر احباب کہنے لگتے ہیں کہ جناب حکومت الہیہ کے قیام کا جو فکری پودا مولانا نے لگایا تھا بالاخر مناسب موسم (یعنی حالات) اور غذا ملنے (کسی فوجی کے اسے استعمال کرلینے) پر اس سے ایسا ہی نتیجہ نکلنا تھا، لہذا یہ جو دہشت گردی ہے یہ مناسب موسم میں یونہی کہیں سے نہیں اگ آئی، اصل قصور پودے کا ہی ہے۔ لیکن نجانے کیوں یہ احباب اس امر پر غور نہیں کرتے کہ اگر ایک ہی پودا (نظریہ) مختلف موسموں اور غذا (انسانی فکری ساخت اور اسے استعمال کرنے والوں) میں مختلف قسم کے پھل دے تو معلوم ہوا کہ موسم اور غذا بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں نظر انداز کرکے پودے کو کوستے رہنا صرف یکطرفہ تجزیہ ہے۔ دیکھ لیجیے، جماعت اسلامی مولانا مودودی کے اھداف کی سب سے بڑی وارث جماعت ہے مگر وہ ان اہداف کے لیے جمہوری جدوجہد کے سوا کسی جدوجہد کی قائل نہیں۔
    سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ان احباب کے نزدیک ساری دہشت گردی کا سبب بس مسلمانوں کا یہ عالگمیری “تصور” ہے کہ “رب کی دھرتی پر رب کا نظام”۔ لیکن یہ جو “غریب پروری”، “انسانی حقوق” اور “آزادی و جمہوریت کے فروغ” کے نام پر دنیا بھر میں پچھلے دو سو سال سے “عملی” دھما چوکڑی مچا کر نوآبادیاتی نظام کو فروغ دیا جارہا ہے، ان نظریات کا دہشت گردی کے فروغ سے بھلا تھوڑی کوئی ربط ہے۔ بیسویں صدی سرمایہ داری کے دو بڑے نظریے یعنی لبرل ازم اور سوشل ازم باہمی رسہ کشی کا شکار رہے۔ ان میں سے ہر نظریے کے پس پشت ایک سیاسی نظریہ موجود ہے جو اپنی بنیاد اور فروع میں عالمگیر (universal) ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ عالمی معاشی سٹرکچرز تشکیل دیتا اور سب کو ان کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ بس ایک مسلمان اپنے منہ سے اگر “آفاقی دین” کے مدعی ہونے کا اعلان کردے تو گویا “دھشت گردی”، “انتہا پسندی” اور “عالمگیریت” کے فروغ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کچھ تو انصاف ہونا چاہیے. ایک عالمگیریت وہ ہے جو “بالفعل” مسلط ہے، اور ایک صرف وہ جس کا “بالقوۃ” اظہار کیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت میں یہ تمام لیبل صرف “بالفعل” کی طرف سے “بالقوۃ” کو غیر معتبر ثابت کرنے کے لیے بطور پروپیگنڈہ اچھالے جاتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے کچھ دانشور بھی اس عمل میں “بالقوۃ استعمار” کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے ہیں