Tag: سوالات

  • مولوی صاحبان سے کچھ سوالات – رانا تنویر عالمگیر

    مولوی صاحبان سے کچھ سوالات – رانا تنویر عالمگیر

    1. معاشرے کے ہر فرد پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے تو مولوی پر کیوں نہیں؟ اگر اٹھایا جا سکتا ہے تو سوال کرنے پر اکثر مولوی صاحبان اشتعال میں کیوں آجاتے ہیں؟
    2. کیا ایک عام فرد اور عالم دین کی ذمہ داری برابر ہے؟ اگر عالم اپنی ذمہ داری میں غفلت برتے تو اسے تنبیہ کیوں نہیں کی جاسکتی؟
    3. کیا ایک عالم دین کو ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ آج کے عالم اور مولوی ہیں؟
    4. کیا جنازہ، نکاح، عید، نماز وغیرہ کی اجرت مقرر کرنا جائز ہے؟ اگر اس کا استدلال عمر رض کے عہد خلافت سے لیا جاتا ہے تو کیا وہ جن کا وظیفہ عمر رض نے مقرر کیا تھا، یہی کام کرتے تھے جو آج کے مولوی کرتے ہیں؟
    5. دین فروشی سے کیا مراد ہے؟ کیا ریٹ مقرر کرکے تقریر کرنا بھی دین فروشی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر یہ دین فروشی نہیں ہے تو قرآن و حدیث میں جس دین فروشی کا ذکر ہے، وہ کیسے دین بیچیں گے؟
    6. فقط پانچ نمازیں وقت مقررہ پر پڑھانا اور سارا دن سکون کرنا ہی مؤمن کی علامات ہیں؟
    7. امام اعظم ابوحنیفہ رح، امام شافعی رح، امام احمد بن حنبل رح اور امام مالک رح کو کن کن علوم پر دسترس حاصل تھی؟ وہ کونسی کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر وہ عالم بنے تھے؟ اب وہ کتابیں کہاں ہیں؟ اگر وہ یہی کتابیں ہیں جو آج مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں تو آج ایسا عالم نظر کیوں نہیں آتا جس پر عالم اسلام کو فخر ہو؟
    8. کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رض بھی یہی ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے جو آج مولوی سرانجام دے رہے ہیں؟ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رض صرف پانچ وقت نماز پڑھاتے تھے اور اس کے علاوہ سارا دن آرام کرتے تھے؟ وہ کون کون سے اعمال ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رض تو ادا کرتے تھے مگر مولوی نہیں کر رہے اور کیوں؟
    9. مدارس میں یہ کتابیں کب سے پڑھائی جا رہی ہیں اور کب تک پڑھائی جاتی رہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی یہی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں؟ اگر نہیں تو آج وقت کے حساب سے ان میں ترمیم کیوں نہیں ہوسکتی؟
    10. مدارس کب سے زکوۃ خیرات صدقات پر چل رہے ہیں اور کب تک چلتے رہیں گے؟ مدارس میں پڑھنے والے کتنے فیصد طلبہ زکوۃ کے مستحق ہیں؟ اگر 10 ، 20 فیصد طلبہ زکوۃ کے مستحق ہیں بھی تو باقی 80 فیصد طلبہ جو زکوۃ کے پیسوں سے عالم بنتے ہیں، ان کے لیے کیا حکم ہے؟
    11. بڑے مدارس اور تنظیموں کے اخراجات بھی بڑے ہوتے ہیں اور جب بھی سنتے ہیں یہی سننے کو ملتا ہے کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے مگر کبھی ایسا دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا کہ کسی بڑے مدرسے یا تنظیم نے اپنا سارا حساب عوام کے سامنے رکھا ہو حالانکہ وہ پیسہ عوام ہی سے اکٹھا کیا ہوتا ہے، کیوں؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایسا سسٹم وضع کیا جائے کہ ایک ایک پیسے کا حساب عوام تک پہنچے اور گورنمنٹ کے خدشات بھی دور ہو جائیں؟
    12. حضرت ابوبکر رض و عمر رض سے جب ایک عام آدمی مجمع میں کھڑا ہوکر سوال پوچھ سکتا ہے اور حساب مانگ سکتا ہے تو مولوی سے کیوں نہیں؟
    13. مسلمانوں کی اس حالت کا مولوی کس حد تک ذمہ دار ہے؟
    14. پاکستان کے دیہات کی مسجدوں کے قریبا 50 فیصد مولوی صاحبان نے مدرسے کی مروجہ درس نظامی کی ڈگری بھی حاصل نہیں کی ہوئی اور وہ اردو بھی ٹھیک سے لکھ پڑھ اور بول نہیں سکتے، وہ لوگ امامت کے اہل ہیں؟ اور جس قوم کے امام ایسے ہوں اس کی حالت پاکستان سے مختلف ہوسکتی ہے؟
    15. سیدنا عمر رض پر جب اعتراض ہوا کہ ایک چادر سے آپ کا سوٹ نہیں بن سکتا اور آپ نے دو چادریں رکھی ہیں تو آپ کے بیٹے نے فورا غلط فہمی دور کردی اور کہا کہ میں نے اپنے والد کو اپنی چادر دی ہے. آج وہ مولوی صاحبان جن کا بظاہر کوئی بزنس بھی نہیں ہے، انتہائی قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، شہر کی انتہائی مہنگی ہاؤسنگ سکیموں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں، اور زندگی کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، کیا ان کا حق نہیں بنتا کہ عوام کی غلط فہمی دور کریں اور بتائیں کہ یہ سب کیسے اور کہاں سے آیا اور آ رہا ہے؟
  • معلومات یا چَسْکے- ماجدعارفی

    معلومات یا چَسْکے- ماجدعارفی

    کبھی کبھار عجیب و غریب سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ایسے ایسے سوالات جو بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے دیتے ہیں تو ہم ایسے طفل مکتب ان سوالوں کے سامنے کہاں ٹک سکتے ہیں؟

    ہمارے گاؤں میں ایک صاحب ہیں. انہیں اپنے ”علم“ کا بہت گھمنڈ ہے۔ کہنے کو تو علم کہہ دیا، ورنہ ہوتی وہ نری جاہلانہ باتیں ہی۔ گاؤں میں مشہور ہے کہ ان کے سامنے باتوں میں کوئی ٹک نہیں پاتا۔ یہ حضور عدالت میں جاتے ہیں تو اپنا کیس خود لڑتے ہیں۔ سفر پر روانہ ہوں تو بس والے سے کرائے پہ جھگڑا ضرور کرنا ہے۔ اپنے حساب سے فی میٹر جو کرایہ انہوں نے بذات خود طے کیا، اسی کا وہ کنڈیکٹر کو حق دار سمجھتے ہیں۔ مجھ سے ان کا پالا پڑتا رہتا ہے۔ ان کے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ سوالات سن کر ان پر ہنسنے کے بجائے خود کو کوسنے کو دل چاہتا ہے۔

    ان کی معلومات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اتنی کہ نہ پوچھنے پر بھی دخل در معقولات بلکہ نامعقولات کردیتے ہیں۔ یہ کاروائی وہ تب کرتے ہیں جب سامنے کا شکاری گھر سے باہر ہوں، ورنہ ان کی جیسی طبیعت ہے، اس سے بعید نہیں کہ وہ گھر میں گھس کر دخل در ماکولات بھی کر ڈالیں۔ خیر سے ایک دن ہمارا جب ٹاکرا ہوا تو انہوں نے سوچا کہ اِس طفل مکتب کی معلومات میں اضافہ کیا جائے۔ مجھے بلایا، میں رک گیا۔ آتے ہی فرمانے لگے آپ کو پتا ہےفرعون پہلے کون تھا؟ مجھے لگا کہ شاید فلسفیانہ قسم کی بات بتانا چاہ رہے ہوں گے۔ مجھے ڈارون کے نظریے سے اتفاق نہیں اس لیے میرا جواب یہ تھا کہ وہ فرعون پہلے بھی فرعون تھا، کم از اس کا ارتقا بندر سے تو نہیں ہوا ہوگا۔ انہوں نے سر کھجایا اور زبان حال سے میری جاہلیت پر مجھے ”شاباشی“ دی۔ کہنے لگے میرا مطلب یہ ہے کہ تھا کہ فرعون بادشاہ بننے سے پہلے کیا تھا؟ یہ سوال تو آسان تھا ، میں نے کہا یقینا کوئی وزیرداخلہ یا خارجہ رہا ہوگا۔ ”او ہمم۔ میرا مطلب وہ نہیں تھا۔“ اس بار میں ہماری جہالت ابل کر باہر آگئی۔ تو گزارش کی کہ آپ اپنے سوال کی ذرا وضاحت کردیں تو میرے لیے جواب میں آسانی ہوگی۔ کہنے لگے کہ تمہیں پتا ہے فرعون کی ذات کیا تھی؟ میں سوچ میں پڑگیا۔ اس وقت تک ممکنہ ذاتیں کیا ہوسکتی ہوں گی۔ چوہدری، میاں، رانے، فلانے ڈھمکانے غرض بہت کچھ ذہن میں آیا۔ مگر مجھے اپنے علم پر اعتماد نہیں تھا۔ سو میں نے ہار مانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ وہ صاحب سمجھ گئے اور بولے ”فرعون پہلے موچی تھا۔“ پھر انہوں نے پوچھا کہ پتا ہے وہ کیسے موچی سے فرعون اور بادشاہ بنا؟ میں نے کہا میں اپنی معلومات عامہ میں اضافے کے لیے خود آپ کے آستانے پر حاضری دوں گا۔ ابھی آپ تشریف لے جائیں۔ گھر میں آپ کا انتظار ہو رہا ہوگا۔ یوں اس دن میں اتنی خجل خواری کے بعد صرف یہ پتا چلا کہ فرعون پہلےموچی تھا۔

    ایک دفعہ پوچھنے لگے کہ ہابیل اور قابیل کی جس لڑکی کو لے کر لڑائی ہوئی، اُس موصوفہ کا نام کیا تھا؟ بہت سوچا کہ کوئی نذیراں، شریفاں، مائی بختو، پینو یا کچھ اور نام بتادوں مگر ضمیر مطمئن نہ ہوا. نتیجہ کہ جواب ندارد.

    ایک دن پھر وہی صاحب سامنے سے آ وارد ہوئے، ہمیں دیکھتے ہی گویا ہوئے کہ اصحاب کہف کے کتے کا کیا نام تھا؟ میرے ذہن نے چھوٹتے ہی کہا ”ٹومی“ لیکن پھر سوچا کہ یہ تو کتے کا ”جدید“ نام ہے، جبکہ اصحاب کہف کے کتے کی بات سیکڑوں سال پرانی ہے. یہاں بھی ہم لاجواب ہوگئے. کافی سمے بعد نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلے تو انہی صاحب نے ہمیں آ دھرا اور ”سوالی“ پوٹلی سے ایک نایاب، منفرد، مشکل، تاریخ کے بابوں میں گم اور عجب قسم کا سوال کرڈالا. بولے ”آدم علیہ السلام کو جس مٹی سے بنایا جا رہا تھا تو ناف کی جب باری آئی تو وہاں سے کچھ مٹی نکال کر فرشتوں نے پھینک دی. اُسی ”پاک“ مٹی سے کتے کی تخلیق کی گئی، اسی لیے وہ بقیہ جانوروں کی نسبت اپنے مالک سے زیادہ وفادار ہوتا ہے، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟“
    ان کا یہ سوال تھا اور میری رونی صورت. خدایا! اس کا اب کیا جواب دوں؟ ہاں بھی نہیں کرسکتا اور نہ کی بھی کوئی دلیل نہ تھی (سوال کی ”جامعیت“ اپنی جگہ مگر ناں اس لیے نہ کرسکا کہ موصوف پھر دلیل مع کتاب طلب فرماتے ہیں)
    پھر وہی جواب دیا کہ جو اصولی طور پر دیا جاتا ہے کہ اس سوال کا عملی زندگی یا دنیوی و اخروی زندگی سے کیا تعلق؟ اگر کوئی تعلق ہو تو ہمیں بھی بتائیے. پھر ان سوالات کے جواب بھی ڈھونڈ نکالیں گے. موصوف کھسیانے ہوکے گویا ہوئے کہ بس معلومات ہونی چاہییں. عرض کیا حضور! یہ معلومات نہیں، چسکے ہیں جس کی آپ کو لت پڑچکی. بس ہم نے یہ کہا اور نو دو گیارہ ہوگئے. آپ کے پاس اگر ان سوالات کے جواب ہوں تو از راہ کرم مطلع کیجیے گا تاکہ ہم ان صاحب کو بتاکر ان پر اپنی علمی دھاک جما سکیں.

  • الطاف حسین کی ہرزہ سرائی، چند سوالات – عالیہ منصور

    الطاف حسین کی ہرزہ سرائی، چند سوالات – عالیہ منصور

    ذرا سوچیے؟
    * جس پر ملک دشمنوں کے ساتھ ساز باز کے الزامات ہوں، کیا اس پارٹی کے افراد کی تحقیقات کیے بغیر انھیں ملک کے قانون ساز اداروں یعنی سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا حق ہونا چاہیے؟
    * کیا ایسے افراد کو میڈیا پر معتبر بنا کر بٹھانا اور ان سے تبصرے اور تجزیے لینے چاہییں؟
    * کیا حکمرانوں، سیاسی جماعتوں کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ان کے ساتھ مک مکا کرنا چاہیے؟
    * کیا ایسے افراد پر عدالت میں مقدمات چلانے کے بجائے ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہونا چاہیے؟
    * کیا چینلز پر ان کی سرگرمیوں کو اتنی کوریج دی جانی چاہیے کہ گھنٹوں ٹی وی ان کا یرغمال بنا رہے؟
    * کیا اس کی اجازت ہونی چاہیے کہ کوئی ان کو مظلوم بناکر پیش کرے؟
    * کیا ایسے مہروں کو بوقت ضرورت استعمال کرنے کے لیے ان کے کرتوتوں سے نظریں چرانی چاہییں؟
    * کیا نام اور پارٹی بدل لینے سے کیے گئے جرائم معاف کردینے چاہییں؟
    * کیا ان الزامات کی تحقیقات مکمل ہونے تک ایسے افراد کی اسمبلی ممبر شپ اور سیاسی سرگرمیوں کو معطل نہیں کردینا چاہیے؟
    * کیا عوام کو حقیقت سے باخبر نہیں رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کرسکے؟
    * یقینا کچھ نہ کچھ مینڈیٹ اور ووٹرز سب جماعتوں کے پاس ہیں مگر مینڈیٹ کی آڑ میں ملک کی سلامتی کو دائو پر لگانے کی اجازت ہونی چاہیے؟
    * کیا ایسے لوگوں کے ساتھ ساز باز کرنے والوں سے ان کے جرم کی پوچھ گچھ کی جائے گی؟

    اگر پاکستان کی سلامتی سب سے بڑھ کر ہے، اور پاکستان کی سلامتی پر صحیح معنوں میں کوئی سمجھوتہ قبول نہیں تو ضروری ہے کہ سیاست سے ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جائے. ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد خواہ کسی بھی نئی یا پرانی جماعت میں ہوں، پہلے ان کی تحقیقات کی جائے، الزام ثابت ہونے پر سزا دی جائے، باقی لوگوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملے. جماعتیں بدلنے سے جرائم کے خاتمے یا معافی کے عمل کو بند ہونا چاہیے. یاد رکھیے کہ اگر ایسا نہ کیا تو کل کوئی اور الطاف حسین بن کر کھڑا ہوگا. ملک و قوم پر رحم کیجیے اور مبنی بر انصاف فیصلے کیجیے.
    پاکستان زندہ باد

  • کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    obaid ullah abidبھارت کیسے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے سکتا ہے کیونکہ سن 1948 کے بعد سے اب تک متعدد بار خود بھارت نے کشمیر کو ایک ایسا علاقہ تسلیم کیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ کیسے اس کا حل استصواب رائے قرار دے سکتی تھی؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو بھارت نے کیوں‌ پاکستان سے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ باہم مذاکرات کے ذریعے کریں گے؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو کشمیر کے ایشو پر بھارت پاکستان کے ساتھ کیوں‌ مذاکرات کی میز پر بیٹھا؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ نہ بنتا، وہ ہیرو اس لیے قرار پایا تھا کہ وہ کشمیر کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا داعی تھا، جب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹا تو وہ زیرو ہوگیا۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو سید علی شاہ گیلانی سمیت دیگر حریت پسند رہنما کشمیری قوم کی آنکھوں‌ کا تارا کیوں بنتےSyed-Ali-Gilani-addressing-a-bog-gathering-in-Kupwara-08-11-13-800xsize
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو مسلح جدوجہد کیسے پنپ سکتی تھی اور کامیاب ہوسکتی تھی۔ نوے کی دہائی میں خود بھارت کے متعین کردہ گورنر کشمیر ، یہاں کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یہاں قابض بھارتی فوج کے جرنیلوں نے مسلح جدوجہد کے مقابل اپنی بے بسی ظاہر کی تھی، سادہ سی بات ہے کہ اگرحریت پسندوں کو کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا کشمیر میں رہنا بھی مشکل ہوتا
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو برہان وانی اور اس سے پہلے کے شہدا کے جنازوں میں مٹھی بھر لوگ ہوتے لیکن یہاں‌لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج کیسے تمام گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے؟ کیسے پاکستانی پرچموں کے سائے تلے مظاہرین سڑکوں پر نکلتے؟kashmir-protest-pakistan-flag
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج بھارتی ٹی وی چینلز پر اس سوال پر مباحثے نہ ہوتے کہ یہ عسکریت پسند کیسے کشمیریوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ ان کے جنازوں میں لاکھوں‌انسان کیوں شریک ہوتے ہیں؟ جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی فوج کے گھیرے میں آتے ہیں تو کشمیری کیوں انھیں محاصرے سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج پر پتھرائو شروع کر دیتے ہیں؟
    ارے بھائی!
    کشمیری قوم اور پاکستان کا یہ مطالبہ دنیا کے کس اصول کے تحت غلط ہے کہ کشمیریوں‌ سے پوچھ لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ  یا پھر ایک خودمختار ریاست کے طور پر جینا چاہتے ہیں؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو پھر بھارتی قیادت کو ڈر کس بات کا ہے؟ وہ استصواب رائے سے کیوں انکار کرتی ہے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کشمیری بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے نا !!! پھر ریفرنڈم سے گھبراتے کیوں‌ ہو؟
    کیا کشمیری کوئی گائے، بکریاں اور مویشی ہیں کہ انھیں زنجیر سے اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ لیاجائے؟
    یہ سوالات ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے گن گاتے ہیں، جو مسئلہ کشمیر کو غیراہم سمجھتے ہیں، جو کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے پر اپنا وزن ڈالتے ہیں۔