Tag: سوال

  • دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری ہم ایک کنفیوژڈ، فکری یتیم اور عمل سے عاری قوم بنتے جا رہے ہیں، یا پھر باقاعدہ بنائے جا رہے ہیں.. جس نتھو خیرے کو دیکھو سوال کی حرمت کے نام پہ فضول ترین سوالوں کی پوٹلیاں اٹھا کر گھومے اور گھمائے چلا جا رہا ہے .. اگر بندے کے پاس کرنے کو کچھ مفید کام نہ ہو تو نصیب میں ٹائم پاسنگ سوال ہی بچتے ہیں .. سوال بھی ایسے کہ جن کے اگر جواب مل جائیں تو اُن جوابوں میں مزید اوٹ پٹانگ سوالات کی گھمرگھیریاں شروع ہو جاتی ہیں اور بےعملی کا یہ لاحاصل سلسلہ اچھے بھلے مطمئن انسان کو صاحبِ تشویش بنا دیتا ہے .. یہودیانہ کلچر کا دور دورہ ہو اور بنی اسرائیل والی خصلتیں پیدا نہ ہوں،، یہ کیسے ممکن ہے صاب.. بیکار سوچنے اور سوال برائے سوال کریدنے سے بےیقینی اور بےاطمینانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا .. کام کرنے والے آگے نکل جاتے ہیں اور جواب کے سوالی مقامِ یاسیت پہ کھڑے آنکھوں میں سوال لیے گزرنے والے قافلوں کو تکتے رہتے ہیں.. ان کی گاڑی سوالیہ اسٹیشن سے آگے بڑھنے پائے بھی تو سامنے ایک نیا سوال راستہ روکنے کو تیار کھڑا ہوتا ہے..!

    ہمیں سوچنے سے مسئلہ نہیں ہے میری جان! البتہ ”صرف سوچنے“ کے ہم قائل نہیں ہیں .. ہم اُس تدبر و تفکر کے داعی ہیں جس کی منزل الجھن سے شروع ہو کر سلجھن تک پہنچتی ہے .. سوال وہ ہوتا ہے جو بےساختہ ہمارے ذہن میں پیدا ہو یا واقعی جاننے کی طلب میں نکلے،، ورنہ وہ مرض ہوتا ہے اور سوالی مریض.. ہر سوال کا یہ حق نہیں کہ وہ لازماً جواب پائے.. کچھ سوال محض اعتراض پہ مبنی ہوتے ہیں اور کچھ استہزاء یا دل لگی کو کیے جاتے ہیں .. ان کا جواب دینا غیرضروری ہوتا ہے .. ایسے سوال جو کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سوچے بلکہ گھڑے جاتے ہیں، وہ عوامی اذہان کو خلفشاری میں مبتلا کرتے ہیں .. اسی طرح کے سوالات کی ہمارا مخصوص دانشور طبقہ بڑے زور شور سے ترویج کرتا ہے .. بلاناغہ اٹھائے جانے والے ان انتشاری سوالوں کو اگر ہم دانشوروں کے دھندے کی مجبوری کہہ بیٹھیں تو جواب آتا ہے کہ نیت پہ سوال اٹھانا سخت منع ہے.. سوال کرنا بُرا نہیں ہے،، ہمیشہ بس سوال ہی کرتے چلے جانا اور کبھی تسلی نہ ہو پانا بُرا ہے .. سوالات کے ان جامد مقلدین کو جواب کی نہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے.. ”ذرا سوچیے“..!!

  • بس مسلمانوں سے سوال – مولوی انوار حیدر

    بس مسلمانوں سے سوال – مولوی انوار حیدر

    مولوی انوار حیدر کیا قیامت ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں پر سوال زن ہوا جاتا ہے، کافروں سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا جاتا. شیطان سے سوال نہیں ہوتا کہ اللہ کے حکم کے مقابل دماغ سے فیصلہ کیوں کیا؟ قابیل سے نہیں پوچھا جاتا کہ ہابیل بھائی کو کیوں قتل کیا؟ یہود سے سوال نہیں ہوتا کہ تم نے عیسیٰؑ بن مریم کی پیروی کیوں نہ کی؟ اور عیسائیوں سے نہیں پوچھا جاتا کہ تم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیوں نہ کی؟ منافقین سے سوال نہیں کیا جاتا کہ اسلام کو کامل طور قبول کیوں نہیں کرتے؟ اور مرزائیوں سے جواب طلب نہیں کیا جاتا کہ عقیدہ ختم نبوت سے منحرف کیوں ہوئے اور ایک ناقص انسان کی پیروی کیوں کرلی؟ بس مسلمانوں سے ہی سوال؟؟

    √√ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر آپ اپنے والدین کا مسلک اختیار کرنے پر حق بجانب ہیں تو آپ کا مخالف مسلکی مقابل کیوں غلط ہے؟ آپ جنتی ہیں تو وہ جہنمی کیوں ہے؟ آپ کے عقیدوں کی دلیل اس کے سوا کوئی نہیں کہ آپ نے اپنے اجداد کو اِسی راہ پہ پایا، کسی اور کے غلط ہونے کی دلیل بس یہی ہے کہ وہ آپ کے گھر پیدا نہیں ہوا، حاجی مستان خان مسلم والدین کے گھر پیدا ہوا تو اُس کا کیا کمال ہے اور مدر ٹریسا عیسائی والدین کے گھر پیدا ہوئی تو اُس کا کیا قصور؟ اگر تم آباء کی پیروی کرتے ہوئے حق پہ ہوسکتے ہو تو دوسرا کیوں نہیں ہوسکتا؟ اسے بھی تو اپنے اجداد عزیز ہیں؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ کس نے کنفرم کیا کہ آباؤ اجداد کی پیروی درستگی اور فلاح کی دلیل ہے؟ کیا غلط والدین کی پیروی ناکامی کے لیے کافی دلیل نہیں ہے اور کیا صحیح العقیدہ والدین کی پیروی کامیابی کے لیے معتبر نہیں ہے؟ کیا اولاد کو کسی راہ پر چلانے کے ذمہ دار والدین نہیں ہوسکتے. جس معاملہ کے جواب دہ والدین تھے، وہ اولاد کے اکاونٹ میں ڈال دیا گیا. اگر انسان ہمیشہ والدین کی ہی پیروی کرتا ہے تو کیا کہتے ہو کہ قابیل کو قتل کرنا کس نے سکھایا تھا؟ اور کیا کہتے ہو کہ عکرمہؓ بن ابوجہل کے متعلق، اُنہیں اپنے گمراہ والدین سے بغاوت کا درس کس نے دیا تھا؟ کیا انسان نے ہمیشہ والدین کی پیروی کی؟ تو ذرا اُن کے متعلق حکم کیجیے جنہوں نے اپنے والدین سے راہ الگ کی، چاہے وہ غلط راہ چلے یا درست، اعتدال کی بات یہ ہے کہ انسان صرف والدین سے ہی عقیدہ کاپی نہیں کرتا، حواسِ خمسہ، اِردگرد کی معاشرت، ذاتی ذہنی فکر ایسے سب معاملات مِل کر انسان کو راہ دکھاتے ہیں، پھر وہ گمراہ ہوتا یا ہدایت کی راہ چلتا ہے اور جس عقل کی بنیاد پر سوچنے کی دعوت دی جاتی ہے، کیا وہ سوچ انسان کو غلط دلیل کی بنیاد پر گمراہ نہیں کرسکتی، یہاں ہم کسی کی ذاتی زندگی پر سوال نہیں کریں گے کہ ہمیں اپنی ذات کا خدشہ ہے، کِبر کا ڈر ہے کہ نجانےکب عُجُب ذہن میں آئے اور کوئی ایک لمحہ زندگی بگڑنے کا سبب بن جائے.

    √√یہ کس نے کہا کہ ہر مسلک اور ہر مذہب بیک وقت درست ہوسکتا ہے، اگر ہر مسلک مذہب درست ہے تو پھر سچ اور جھوٹ کیا ہے، صحیح اور غلط کیا ہے، اگر ہر انسان اپنی سوچ پہ چلتے ہوئے درست ہوسکتا ہے تو کیا کہتے ہو ابوبکرؓ اور ابوجہل کے مابین؟ کیا کہتے ہو موسیٰؑ اور فرعون کے مابین؟ کیا کہتے ہو ابراہیمؑ و نمرود کے مابین؟ کیا کہتے ہو ہابیل و قابیل کے مابین؟ کیا کہتے ہو آدمؑ و ابلیس کے مابین؟ اِن میں سے ہر ایک کا عقیدہ اپنے مقابل سے مختلف تھا، کیا یہ سب ٹھیک ہیں یا کہ سب غلط ہیں؟ حاجی مستان خان اور مدرٹریسا کے اُولے اٙویلے کیوں ابہام کی دیوار اٹھائی جائے، سیدھی بات کیوں نہ کی جائے، اگر سوچ کی ہی بنیاد پر چلنا ہے تو کفر اور اسلام بارے کیا کہا جائے گا، عقیدہ طے کرکے جینا درست ہے یا کہ اکبر بادشاہ کی طرح ست رنگ ہوکے رہنا اچھا ہے، یا پھر آزادی کی راہ کہ کھلے کھاؤ اور ننگے نہاو. اگر ایک عقیدے پر پختگی شدت پسندی ہے تو کیا حکم ہے اس آیتِ قرآن کے متعلق بےشک جنہوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، پھر ڈٹ گئے، اُن کی اعانت کے لیے فرشتے اتارے جاتے ہیں. انسانی فکر اور فرمان الہی میں اختلاف واقع ہوجائے تو کیا کیا جائے. ایک عامی مسلمان عقیدہ اور دین کے معاملے میں اللہ ذوالجلال کی جانب کھڑا ہونا پسند کرتا ہے، ایسی انسان پرستی کا کیا فائدہ جو خدا پرستی سے محروم کردے.

    √√ اللہ نے کائنات کو بنایا اور مذہب طے کیا ہے، انسان کو دو راستے دکھائے ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں تو کمپیوٹر کی طرح سافٹ وئیر لوڈڈ تھا، مجھے تو کچھ آزادی بھی نہ تھی. دماغ یعنی سوچنے کی صلاحیت اور ریزن یعنی پوچھنے کی ‘خدائی ودیعت کردہ صفات کے تحت جب انسان نے اپنا اختیار استعمال کیا تو بعض دائیں راہ والے ٹھہرے جو ہدایت کی راہ ہے اور بعض بائیں راہ پر چلے جو گمراہی کی راہ ہے. اب عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم اِن کو دو الگ طبقے سمجھیں، ایک سچا گروہ ایک جھوٹا گروہ، ایک کامیاب اور ایک ناکام گروہ، ایک وفادار جماعت ایک غدار جماعت، یہیں سے انسان تقسیم ہوا، کسی نے کامل ہدایت کو پایا کسی نے کچھ ہدایت کو پایا اور کچھ پورے ناکام ٹھہرے، اِس پر مزید کہ انسان کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اور سلسلہ شروع کیا، انبیاءِکرام کو بھیجا، وہ پری پلان فکسڈ دستور لےکر آئے کہ معاشرت اور ذاتی فکر و شعور سے تم بعض مرتبہ دھوکہ کھاجاتے ہو، آؤ اور اِس حتمی پیغام کو قبول کرلو، یہ دین ہے یہ تمہاری سہولت کے لیے ہے، اب کچھ تو مان گئے اور کچھ نے انکار کردیا، اللہ نے فرمایا کہ یہ دو جماعتیں ہیں، حزب اللہ اور حزب الشیطٰن، ایک کے لیے فوزان ہے ایک کے لیے خسران ہے، اور اِن دو باتوں میں سے کسی ایک کے اقرار کے بعد اُن کی جستجو کے مطابق معاملہ برتا جاتا ہے، حق پہ استقامت والے کی اعانت کی جاتی ہے جبکہ منکر کو مدتی ڈھیل دی جاتی ہے حتی کہ وہ جہنم تک جا پہنچتا ہے، واضح سی بات ہے کہ جنت و جہنم کا یہ معیار اللہ کا پیدا کردہ ہے انسان کا نہیں ہے.

    جہاں تک مسلکی گروہ بندی کا مسئلہ ہے تو یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ایک دن یا رات یا کسی ایک ذات یا جماعت کا نہیں ہے، ایک طویل وقت کے دوران مختلف حالات میں مختلف حالتوں میں مسلمانوں کو رنگارنگ رکاوٹوں سے پالا پڑا، بارہا فکری انتشار کی نوبت آئی، مختلف علاقوں کے رواجوں نے شریعتِ اسلامیہ میں دراندازی کی، اہلِ عزیمت لوگوں کی مدافعت کے باوجود بگاڑ لاحق ہوتا رہا، لوگوں میں تبدیلیاں آئیں اور آئندہ نسلوں میں یہ معاملہ مزید بگڑتا گیا، اصلاح کی نیت سے باہم گفتگو ہونے لگی مگر اپنے درست ہونے کے زعم میں ہر بندہ پختہ ہوتا گیا اور افراد کے ملنے سے طبقات بنتے چلے گئے، جس کی مثال ہمارے سامنے مسلکوں کی صورت موجود ہے، اب اِن میں سی ہر ایک برحق ہونے کا دعویدار ہے لیکن حق پر وہی ہے جو اللہ اور رسولؐ کے دیے گئے معیار پر قائم ہے، اِس کا بھی ہر ایک دعویدار ہے تو علمی تحقیق اور جستجو تو جاری رہےگی لیکن حتمی نتیجہ آخرت پر چھوڑدیا جائے گا، ہاں جس کو آخرت کا یقین نہیں ہے تو اُس کی مرضی اِسی دنیا میں جو فیصلہ کرتا پھرے، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ دیانت داری سے درست راہ چُنے اور اُس پر ڈٹ جائے کہ ایک انسان اِتنا کرنے کا ہی مختار اور مکلّف ہے.

    √ ہمارا بھی ایک سوال ہے کہ جس مروت و محبت اور رواداری کے تحت ملکی سرحدوں کا احترام کیا جاتا ہے، ہندوستان کی کتاب میں پھول رکھے جاتے ہیں، کیا اُسی دلیل کے تحت مسلم مسالک برداشت نہیں کیے جا سکتے؟ ایک جگہ پر جادو کی جپھیاں اور دوسری جگہ پر بےزاری اور تعصب کا برتاؤ، صاحب یہ تو کھلا تضاد ہے.

  • ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    پاکستانی فری تھنکرز کے پاپائے ملحدین میں سے ایک پاپی امجد حسین نے امام الانبیاء کو سید المرسلین محبوب رب ماننے سے انکار کی طرف ایک قدم بڑھایا۔اور تمام انبیاء کی حالات زندگی میں سے ایک ایک پہلو لے کر یہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی کہ محمد رسول اللہ نہ امام الانبیاء ہیں اور نہ ہی محبوب خدا۔

    سب سے پہلے تو امجد کی توجہ اس بات کی کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کروں گا کہ جب تم لوگ کتب سماوی کو مانتے نہیں، رب تعالی کے تم منکر ہو، مذہب سے تم باغی ہو، مذاہب خصوصا اسلام کا احترام تمہاری بری تربیت میں شامل ہی نہیں، کتب تواریخ تمہاری ثقاہت پر اترتی نہیں، علم حدیث و رجال تمہارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مذہب کے تم باغی ہو تو توریت، زبور و انجیل اور قرآن مجید، گرنتھ، ویداس و اپنشد تمہارے لیے کسی کھاتے کی کتابیں نہیں، اور نہ تمہارے معیار پر اترتی ہیں۔ تم انھیں تو شاید مان لیتے، مگر اصل نفرت کا منبع تمہارے لیے دین اسلام ہے اور اسی کی نفی کے لیے تمہیں مجبورا دین اسلام کے ساتھ باقی مذاہب کی جزوی نفی کرنا پڑتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جن چیزوں کا تم جیسے ملحد انکار کرتے ہیں، انھی چیزوں میں سے عبارتیں منتخب کرکے سادہ لوح عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ دہرا معیار! مگر کیوں؟

    1، 2۔ پہلا اور دوسرا اعتراض تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال تھی جبکہ نوح علیہ السلام کی 950 سال، آدم علیہ السلام کا قد 30 میٹر لمبا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ کا قد 6 فٹ، اور جبکہ باسکٹ بال کے اکثر کھلاڑیوں کا قد 7 فٹ ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ)

    ارے امجد! اپنی فطرت سے مجبور اعتراض کرنے کے لیے سہارا تو تمہیں انھی مذہبی کتب کا لینا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ایک انتہائی جاہل، عامیانہ سوچ رکھنے والا شخص اور علم سے کورا انسان بھی جانتا ہے کہ انسان کے مقام و مرتبہ کا معیار عمر ہے نہ قد۔ یہ معیار کسی مذہب کی کتابوں میں ہے نہ دنیا کے کسی اور قانون میں۔ ہوسکتا ہے الحادی نظریہ میں یہ ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انسانوں کی عمریں اور قد ابتدائے آدم علیہ السلام تا ہنوز مسلسل گھٹتے گئے ہیں۔ اور چونکہ تم نے مذہبی کتب کا سہارا لیا اس لیے میں بھی مذہبی کتاب کا سہارا لیتا ہوں. نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی عمر کی حد 60 سے 70 سال ہے اور بہت کم لوگ اس سے زیادہ عمر پائیں گے. (ابن ماجہ:4236)۔ تم چونکہ خدا کے بھی منکر ہو تو پھر یہ بات تو پکی ہے کہ جب اس نے خود کسی کو پیدا نہیں کیا تو وہ خدا کسی کو مارتا بھی نہیں ہوگا۔ ہر چیز اپنی مرضی سے بنی ہے اور ظاہر ہے ختم بھی اپنی مرضی سے ہی ہوگی۔ لہذا ہر انسان کی بھی اپنی مرضی ہے وہ جب مرضی مولود ہو، جب مرضی مرے اس سے تمہیں کیا لگے۔ یہ ان کی زندگی کا معاملہ تھا۔ تم ہی وہ تھے جس نے کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرے تمہیں اعتراض نہیں، اور اگر تھوپا جائے تو اعتراض۔ اسی طرح تم چاہے 500 سال جیو تو تمہیں اپنے پر اعتراض نہیں مگر کوئی ’’اپنی مرضی‘‘ سے 63 سال جیا تو تمہیں تکلیف ہونے لگی۔ رہا ان کے قد کا معاملہ تو قد بھی کسی کی فضیلت اور مقام و مرتبہ کا معیار نہیں۔ چونکہ تم بھی اسی زمانے کی پیداوار ہو لہذا تمہیں جواب بھی اسی زمانے کی پیداوار سے دیا جائے گا۔ اور سونے پہ سہاگہ مثال بھی ان لوگوں کی جو تمہاری طرح منکر خدا ہیں۔ چین کی لڑکی ’’زنگ جن لیان‘‘ عالمی سطح پر لڑکیوں میں سب سے زیادہ لمبی تھی، اورعمرصرف سترہ سال۔ مگر کون اسے جانتا تھا بقول تمہارے کہ اگر مقام و مرتبہ کی معراج یہی ہے تو اسے چین کی صدر، وزیراعظم یا کسی شعبے کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا سینکڑوں قدآور لوگوں سے بھری پڑی ہے، کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرگئے اور کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرضی سے جب جی چاہا مرجائیں گے۔ لہذا تمہارے پہلے دونوں اعتراض باطل ہیں۔ تم نے کہا کہ ابن افک 120 سال کا تھا، وہ آپ سے بڑا تھا لہذا اسےمروادیا۔ ارے کیا حجاز میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عمر کا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں کتنے لوگ تھے فتح مکہ کے موقع پر جنہیں رسول اللہ ﷺ نے معاف فرما دیا کہ جو ابوسفیان (حالت کفر میں تھے) کے گھر پناہ لے گا، اس کےلیے امان ہے۔ اور تمہارے علم میں تو ہو گا ہی کہ رسول کریمﷺ کے چچا عباس اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور ایک کافر کے کہنے پر ایک کافر کے گھر کو دارالامان بنا دیا۔ اور ابوسفیان تو حالت کفر میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کاحق ادا کرتے رہے۔ لہذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کےلیے بھی شفیق تھے کجا کہ کسی بزرگ کو قتل کرواتے.

    ۳۔ تیسرا اعتراض کیا کہ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کی خوبصرتی کے پیچھے بھاگی جبکہ رسول اللہ عورتوں کے پیچھے بھاگتے (العیاذ باللہ)۔ اور ایک معزز گھرانے کی عورت نے رسول اللہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا، کتنی بے عزتی کی بات ہے؟ (نعوذباللہ، نقل کفر کفر نباشد)
    تمہیں یہ اعتراض عزیز مصر کے واقعے کی پڑتال کر کے اس وقت کرنا چاہیےتھا جب تم اس کو سمجھ لیتے کہ جس طرح زوجہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کے پیچھے برے ارادے سے بھاگی اورگناہ کی دعوت دی۔ کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کے پیچھے (نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ) اس طرح برے ارادے سے بھاگتے تھے۔ چونکہ اس اعتراض کا پہلا حصہ شاید قرآن سے نہیں تو کسی الہامی کتاب سے ہی لیا ہوگا۔ اور دوسرا حدیث سے لیا ہوگا گرنتھ اور اپنشد میں تو انکار والا واقعہ ملنےسے رہا۔ لہذا اگر تمہاری عقل وخرد کچھ تمہارا ساتھ دے تو تمہیں یاد ہوگا کہ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنی زوجہ کے ساتھ راستے میں تھے تو سامنے سے کوئی آدمی آیا تو فرمانے لگے یہ میری بیوی ہے۔ اور پھر فرمانے لگے کہ انسان میں شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون، لہذا تم جیسوں کا اعتراض ختم کرنے اور منہ بند کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی انتظام فرما لیا۔ رہا اس اعتراض کا دوسرا حصہ کہ اس نے انکار کیا تو کیا یہ بے عزتی نہیں۔ یہ تو یاد رہ گیا کہ رسول عورتوں کے پیچھے بھاگتے تھے (نعوذباللہ)، بخاری کی وہ روایت یاد نہیں جس میں ایک عورت آئی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر رسول اللہﷺ نے انکار کر دیا، اور پھر کسی اور مرد سےنکاح کردیا (۵۰۸۷)۔ رہی بے عزتی والی بات تو جب نبی ﷺ نے ہر لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے یا نہ کرے تو جب اس نے انکار کیا تو نبیﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور اس سے تو تمہاری خود اپنی باتوں کی نفی ہوتی ہے جو تم کہتے ہو کہ ان کا نبی شہوت پرست تھا۔ اگر نبی شہوت پرست ہوتا تو زبردستی نکاح کرکے لڑکی لے آتا۔ نبی ﷺ کے لیے یہ چنداں مشکل نہ تھا۔ ہاں مگر نبی کریم ﷺ نے ہر لڑکی کو اپنے وعدے، زبان اور شرع کے مطابق حق دے کر ایسے لوگوں کی زبان بندی کردی جو انہیں شہوت پرستی کا الزام دیتے نہیں تھکتے۔

    ۴۔ اگلا اعتراض یہ تھا کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔

    تمہارا یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔

    ۵۔ آگے کہتے ہو کہ اسماعیل کو اللہ نے خنجر کے نیچے سے بچا لیا اور محمد کے نوزائیدہ بچے کو چھین کر باپ کو بلکتا ہوا چھوڑ دیا۔
    حضرت اسماعیل کا واقعہ اگر تم نے پورا پڑھا ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کو متواتر خواب آتا رہا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ سو بیٹے سے رائے پوچھی تو بیٹا سمجھ گیا کہ باپ چونکہ نبی ہے لہذا وحی سمجھ کر سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ نے دنیا کو یہی دکھانا تھا کہ اسماعیل کو آگے نبوت سے سرفراز کرنا ہے تو اس کا اپنے رب پر کتنا یقین تھا۔ تمہاری طرح ننھا اسماعیل ملحد تھوڑی تھا، اور ابراہیم علیہ السلام کو ایک مثال کے طور پر پیش کرنا بھی مقصود تھا کہ ایک باپ اپنے مالک کے کہنے پر کس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اوراسماعیل و ابراہیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی یہ سنت ابراہیمی آج تک جاری ہے جو تم لوگوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہوتی۔سارا سارا سال غریبوں کا احساس نہیں ہوتا، اپنے پاس سے دھکے دے دے کر نکلواتے ہو، ہوٹلوں میں مہنگے کھانے کھاتے ہو، مہنگی گاڑیاں، موبائل خریدتے ہو مگر قربانی کے موسم میں غریبوں کا احساس تمہیں دن رات چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔ رہا نوزائیدہ بچے کی وفات کا معاملہ تو جواب حاضر ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ کے آخری نبی تھے۔ اور نبوت کو یہیں ختم کرنا مقصود تھا، چونکہ عورتوں میں نبوت منتقل نہیں ہوتی لہذا لڑکیاں زندہ رکھیں۔ اور نبی کی ساری نرینہ اولاد اٹھا لی گئی کیونکہ آگے نبوت کا سلسلہ ختم کرنا مقصود تھا۔ جس طرح دائود کے بعد سلیمان۔ ابراہیم کے ساتھ اسماعیل، لوط، یحی، زکریا اور عیسی، اور اسحاق، یعقوب، یوسف علیہم السلام کو نبوت ملی۔ اگر نرینہ اولاد زندہ ہو تو عموما نبوت منتقل ہوتی ہے لہذا محمدﷺ پر نبوت کوختم کرنے کے لیے ساری نرینہ اولاد اللہ نے اپنے پاس بلا لی۔ اس لیے تمہیں محمد ﷺ کے لیے اتنا دکھ اور درد محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔

    ۶۔ آگے معترض ہو کہ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے تو بچا لیا مگر عائشہ کی گود میں سر رکھے محمد ﷺ کی دعا نہ سنی اور وہ فوت ہوگئے۔
    قارئین کو کس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہو کہ کیا محمد ﷺ اپنی طویل عمری کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں، سیرت کی کتابیں لو، مطالعہ کرو، پھر بتاؤ کہ رسول پاک ﷺ نے کس دن اپنے رب سے گڑگڑا کر دعا کی کہ میری موت مؤخر کردے۔ اور جب موت قریب آئی تو لبوں پر دعا تھی اللھم بالرفیق الأعلی اللھم بالرفیق الأعل ی۔ترجمہ تو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے کیونکہ قرآن پر بھی اعتراض تمھی نے کیا تھا کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں، لہذا اس کا ترجمہ تم بھی کرلو گے۔ اور رہی دوسری بات کہ محمد ﷺ کی دعاؤں میں اکثر یہ دعا شامل رہتی تھی کہ اے اللہ میں تجھ سے بڑھاپے اور لمبی عمر سے پناہ مانگتا ہوں، لہذا تمہارے اعتراضات صرف عامی لوگوں کو دین اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ہیں۔ اکثریت اپنی نبی ﷺ کی زندگی اور دعائوں سے واقف ہے.

    ۷۔ پھر اعتراض کیا کہ دائود و یعقوب کی اولاد کی عمریں اتنی زیادہ تھیں اور محمد ﷺ کی اولاد کی عمریں تھوڑی سی تھیں۔ اور فاطمہ بھی بیس سال سے کم عمر میں وفات پاگئیں۔
    میرے خیال میں اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ پہلے خدا کے وجود کو مانو اور پھر بات کرو وگرنہ چونکہ تمہارے نزدیک خدا کا وجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دنیا خود بنی ہے، انسان خود بنا ہے تو منطقی طور پر انسان کو مرنا بھی خود ہی چاہیے اور اپنی مرضی کرنی چاہیے اور تمہیں معترض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اور جو خدا کے منکر نہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اس اللہ کے ہی فیصلے ہیں جسے چاہے ہزار سال یا 950 سال سے نوازے اور چاہے تو 63 سال سے نوازے یا جتنی مرضی عمر دے. اس نے پیدا کیا ہے تو مارے گا بھی وہی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ تم کون ہوتے ہو اس ذات پر معترض جس کے وجود کے تم ویسے ہی انکاری ہو۔ رہا سیدہ فاطمہ کی عمر کا مسئلہ تو جب تمہیں اسلام سے کوئی انسیت نہیں تو تم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درد میں اتنا ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہو۔ تم صرف اپنی فکر کرو۔

    ۸۔ آگے اعتراض ابھرتا ہے کہ موسی سے ملاقات کے لیے اللہ بنفس نفیس زمین پر چلے آئے اور رسول اللہ کی کے لیےاتنے لمبے سفر کے لیے خچر بھیج دیا۔ توبتاؤ رسول اللہ کی کیا حالت ہوگی اللہ کو ترس نہیں آیا اتنا تھکا کر؟
    امجد! اگر تم نے تاریخ پڑھی ہو، یقینا پڑھی ہوگی مگر نہیں نہیں، تاریخ کو چھوڑو، حدیث کی طرف آؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ تم بھلے حدیث کا انکار کرو، تاریخ کا انکار کرو مگر دال تھوڑی سی کالی نہیں بلکہ پوری ہی کالی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریمﷺ پر تم جیسے لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ انھین سرداریاں چاہیے تھیں، ایمان لانے پر پیسہ ڈوبتا نظر آتا تھا، سو ایسے لوگوں کی چھان پھٹک کرنے کے لیے ہی اللہ نے اہل ایمان اور غیر مسلموں کا امتحان لینا چاہا کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جو نبی کو نبوت سے پہلے صادق و امین کہا کرتے تھے مگر نبوت کے بعد دشمن ہوگئے۔ اب ان کا مزید ایمان ٹٹولنے کے لیے اور دنیا کو دکھانے کے لیےاللہ نے اس سفر کا انتظام فرمایا۔ اس میں دو چیزیں پوشیدہ تھیں۔ایک تو نبی کو مقام اعلی عطا کرنا، نبی کو جنت، جہنم، سدرۃ المنتھی، اور انبیاء سے ملاقات کروانا مقصود تھا۔ اور دوسرا باقی تمام انبیاء کو محمدﷺکے پیچھے بطور مقتدی کھڑا کرکے محمدﷺکی شان میں اضافہ کرنا بھی مقصود تھا۔ حضرت موسی کو یہ نصیب نہیں ہوا. اور اللہ کبھی زمین پر نہیں آئے، طور پر بس تجلی ہی کی جس کی وہ تاب لایا نہ حضرت موسی، اور رب جب چاہے نبی سے ہم کلام ہو سکتا تھا، کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب ہے. لہذا امجد حسین تم خود ہی بتاؤ ایک شخص کے ساتھ صرف اس کا مالک ہم کلام ہو بس۔ اور دوسرے شخص کو اپنے خاص بندوں کا امام بنادے، پھر اسے وہ سواری دے جس کا اگلا قدم اس کی نظروں تک جائے، اسے سدرۃ المنتھی کی طرف لے جایا جائے، جنت جہنم دکھائی جائے اور پھر آگے اس مقام پر بھی لے جایا جائے جہاں نوری مخلوق کے پر جلتے ہوں اور فرشتے مرحبا کہہ کر استقبال کریں۔ انبیاء سے ملاقات ہو، اللہ سے ہمکلام ہو، پھر راتوں رات واپس آجائے۔ اگرچہ محمدﷺ نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فوقیت دینے سے منع فرمایا ہے مگر تمہارے اعترض کا جواب ایسے ہی بنتا ہے۔ تو تم خود ہی بتاؤ امام الانبیاء اور محبوب خدا کون ہوا؟

    ۹۔ نواں اعتراض یہ کہ اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ایک سے بڑھ کر ایک معجزے دیے۔ مثلاًحضرت ابراہیم کو آگ کو گلزار بنانے کا معجزہ دیا، حضرت موسیٰ کے عصا کو سانپ میں تبدیل ہونے اور سمندر میں راستہ نکالنے کا معجزہ عنایت کیا، حضرت عیسیٰ کو لوگوں کو مسیحا بنایا جو بیماروں کو شفا، مردوں کو زندہ، اندھوں کو آنکھیں عطا کرتے تھے، حضرت نوح کو ایک ایسی کشتی بنانے کا معجزہ دیا جس میں تمام جن و انس اور جانور و پرندے اور حشرات الارض وغیرہ سما سکیں، حضرت سلیمان کو جنوں اور جانوروں سے رابطہ پیدا کرنے کا معجزہ بخشا۔ لیکن جب امام الانبیا نے معجزہ طلب کیا تو اللہ نے جواب دیا کہ ’’قرآن آپ کا معجزہ ہے‘‘۔ ایک ایسی کتاب جس کے تضادات اور بچگانہ سائنسی توجیہات پر اب تو لونڈے لپاڑے بھی ہنستے ہیں۔
    ارے امجد! علمی بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر تم لوگوں کو بددیانتی کی ایسی لت پڑی ہے کہ چھوڑے چھوٹتی نہیں۔ ویسے ان تمام معجزات کا ذکر انھی مذہبی کتابوں میں ہے نا جنھیں تم مانتے ہی نہیں. تم نے سارے انبیاء کے معجزات تو ایک ایک کرکے گنوادیے مگر محمدﷺ کی باری آئی تو صرف ایک قرآن مجید کا ذکر کرکے اپنا منہ بند کرلیا اور قلم کو جنبش دیتے ہوئے شاید کچھ شرم سی آنے لگی۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رسول اللہ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی عطا ہوا۔ چند بندوں کا کھانا سینکڑوں لوگوں کو کفایت کرتا، پانی میں برکت پڑ جاتی، ہاتھوں سے چشمے پھوٹ پڑتے۔ اور سلیمان کی جانوروں کی بولی کا ذکر کیا تو اس اونٹ کا واقعہ بھی بتلاؤ کہ جس نے آ کر رسول اکرمﷺ کو مالک کی شکایت کی، اور آپ نے مالک کو بلایا اور بتایا کہ تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے تھکاتے زیادہ ہو، خوراک کم دیتے ہو. (ابو دائود:2549)۔ وہ معجزہ بھی بتاؤ جب رسول اللہ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ جگہ گئے تو دو درخت آپس میں مل گئے اور اوٹ بنادی، آپ کی فراغت پر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے۔ باقی رہا قرآن کے تضادات کا مسئلہ اور سائنسی توجیہات کا تو شنید نہیں کہ وہ لونڈا لپڑا تم خود ہو یا تمہارے مکتبۂ فکر کے لوگ ہی ہوں۔ جا کر پوچھو ان سائنسدانوں سے جو تمہاری طرح قرآن کی توجیہات کو غلط کہنے تو نکلے مگر بعض میں سچائی کی جستجو ہوتی ہے تو وہ خود مسلمان ہوجاتے ہیں یا حیران رہ جاتے ہیں اور سچائی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ مگر تمہارے جیسے لونڈے لپڑے کسی کھاتے کے نہیں رہتے۔ بلکہ ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ تم تو جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو۔ تمہاری وہی حالت ہے’’نہ کھیڈنا اے نا کھیڈن دینااے‘‘یعنی اپنے لیےتو ہدایت مقصود نہیں تو دوسروں کے لیے بھی نہیں.

    ۱۰۔ آخری اعتراض ہے کہ سلیمان کو جانوروں کی بولی سکھا دی مگر رسول اللہﷺ کو مادری زبان میں بھی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں دی، تو کیا اب بھی رسول اللہ ﷺ امام الانبیاء اور خدا کے محبوب ہیں؟

    بجا کہا کہ محمدﷺ کو مادری زبان لکھنی آتی تھی نہ پڑھنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کو اس کے زمانے اور لوگوں کے ذہن، ان کے رجحانات کے مطابق بھیجا جاتا ہے، انہیں ایسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے جو دوسروں سے ممتاز ہوں۔ جیسے حضرت عیسی، موسی علیہما السلام وغیرہ کا معاملہ ہے۔ قرآن کو معجزہ اسی لیے ہی نہیں کہا گیا۔ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ اس وقت کے لوگ ادب ونثر، شاعری اور پڑھنے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اگر محمدﷺ کو پڑھنا لکھنا سیکھنا ہوتا تو چنداں مشکل نہ تھا۔مگر نہ خود رسول اکرمﷺ نے سیکھا نہ اللہ نے حکم دیا کیونکہ اگر پڑھنا سیکھ لیتے تو تمہاری جنس کے لوگوں کا پہلا الزام ہی یہ ہوتا کہ چونکہ پڑھا لکھا ہے لہذا یہ کلام الہی نہیں بلکہ یہ اسی کا گھڑا ہوا کلام ہے۔ لہذا آپ کے پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود بھی لوگوں نے نہ بخشا اور الزام لگایا کہ یہ ایک لوہار کے پاس آتا جاتا ہے، لہذا اس سے سیکھا ہے اور آگے ہمیں بتاتا ہے۔ مگر وہ بھی ایسے عقل کے اندھے رہے کہ جس کے پاس سے رسول اکرم ﷺ کو آتے جاتے دیکھا، جھٹ یہ تو کہہ دیا کہ اس سے سیکھا ہے مگر یہ نہ سوچا کہ وہ لوہار خود علم و ادب و نثر اور شاعری میں مہارت رکھتا ہے بھی یا نہیں؟ اس لیے تم جیسوں کا یہ اعتراض بھی بالکل باطل ہے۔ اور تم نے کوئی حوالہ بھی تو نہیں دیا کہ سلیمان علیہ السلام بھی اپنی مادری زبان میں لکھت پڑھت کر سکتے تھے۔ جس طرح سلیمان جانوروں کی بولی سمجھتے تھے تو کیا نبیﷺنے اونٹ کی بولی نہیں سمجھی تھی۔منطقی طور پر بھی ایک مالک کے تحت کئی لوگ کام کرتے ہوں۔ ان میں تمام لوگ اپنی اپنی صفات کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، اور ان ہی میں سے ایک ایسا شخص بھی ہو، جو ہو تو ان پڑھ مگر مالک اسے اس کی ممتاز حیثیت کی بنا پر ایک اعلی مقام دے دے تو تمھیں کیا اعتراض ہے۔ یہ اس کا اور اس کے مالک کا معاملہ ہے. مالک جسے چاہے اپنے پاس بلند مرتبہ سے نوازے اور جسے چاہے کم مرتبہ دے۔ یہ مالک پر منحصر ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا پسندیدہ قرار دے۔

  • نفسیاتی سوالی – محمد نعمان بخاری

    نفسیاتی سوالی – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری علم کی دنیا میں سوال اٹھانا یا سوال کرنا ایک صحت مند سرگرمی کہلاتا ہے. یہ انسانی شعور کو تروتازہ رکھتی ہے، بات کو سمجھنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مددگار ہے. یہ انسان کی دانست اور دانش کو پختگی بخشتی ہے. سوال اُٹھانے والا اگر اپنی جستجو میں سنجیدہ ہو تو اس پر ایسے سربستہ راز منکشف ہوتے ہیں جن سے باقی لوگ ناآشنا رہتے ہیں. یہ عادت انسان کو کشمکشِ حیات میں منزل تک پہنچنے کے روشن زاوئیے عطا کرتی ہے. غرضیکہ اس خصلت کا رُخ مثبت رہے تو حالات و واقعات کو بروقت سمجھ کر راستے کی بہت سی ٹھوکروں سے بچ پانا ممکن ہوتا ہے..!

    اس سرگرمی کا ایک منفی پہلو بھی ہے کہ جب یہ عادت، عادت سے نکل کر”خبط“ میں داخل ہوتی ہے تو شعوری بوکھلاہٹ کا سبب بنتی ہے. ایسا شخص خود کو فطین سمجھتا ہے جبکہ درحقیقت یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے. اس مرض کا شکار شخص ہر معقول بات پر بھی سوال اٹھانے سے گریز نہیں کرتا اور اسے اپنا حق سمجھ رہا ہوتا ہے. ایسے بندے کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کیا یہ سوال واقعی اٹھائے جانے کے قابل بھی ہے. وہ بس اپنے خبطی پن کی تسکین کا شوقین ہوتا ہے اور اسے اپنے شوق کو پورا کرنے کا موقع چاہیے ہوتا ہے. دانا کہتے ہیں کہ سوال کرنا باقاعدہ ایک علم اور فن ہے. سوال کی ساخت یہ بتا دیتی ہے کہ سوالی کی ذہنی سطح اور آگہی کی حد کیا ہے. اگر کوئی انسان ”علمِ سوال“ پر عبور حاصل کرنا چاہے تو سب سے پہلا اور ضروری کام یہ ہے کہ کسی بھی خاص موضوع پر حتی الامکان اپنا مطالعہ وسیع کرے. یہ فن سیکھنا ہر اس شخص کےلیے اہم ہے جو حصولِ علم میں مخلص ہو، بصورتِ دیگر سوال اٹھانا ایک بیماری بن جاتا ہے..!

    اس بیماری کے شکار لوگ فیس بک پر بھی موجود ہیں. کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر ملحدین اس مرض میں مبتلا ہیں. ”زیادہ تر“ کی حد تک تو یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر ہر ملحد ایسا نہیں ہوتا بلکہ کئی واقعی اپنی کنفیوژن کا ازالہ چاہتے ہیں. ان چند کے استثناء کے بعد بارہا کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ وائرس اب صرف ملاحدہ کی پہچان نہیں رہا بلکہ آزادئِ کردار و اظہار کے علمبرداروں کی میراث بنتا جارہا ہے. ان کی زندگی کا واحد مقصد بس سوال اٹھا دینا ہوتا ہے. سوال اگر جاننے کی طلب میں کیا جائے تو سوالی اپنا مطلوب ہر صورت کہیں نہ کہیں سے پا ہی لیتا ہے. مصیبت یہ ہے کہ یہاں سوال کی نوعیت دیکھ کر ٹھیک ٹھاک اندازہ ہو جاتا ہے کہ مقصدیت میں صرف اعتراض بھرا ہوا ہے. اس طبقے کے کچھ فکری بگاڑ یافتہ لوگ مخاطب کو زِچ کرنے کے ارادے سے سوال اٹھاتے ہیں. بعضے محض چسکے کی خاطر سوال اٹھاتے ہیں جنہیں جواب پانے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. ان کے سامنے پہاڑ جیسے مضبوط دلائل بھی رکھ دیے جائیں تو بھی ان کو تشفی نہیں ہو پاتی. جبکہ انھی کے طبقے کا کوئی شخص روئی جیسی ہلکی بات بھی کہہ دے تو اسے فوراً قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کی نفسانی غرض کے عین مطابق ہوتی ہے. آپ تجزیہ کر لیجیے کہ ایسے لوگ ہمہ وقت بےچینی، شش و پنج اور بےیقینی کے بحرالکاہل میں غوطہ زن رہتے ہیں. یہ افراد قرآن و حدیث کی محکم آیات سن لینے کے بعد بھی مطمئن نہیں ہو پاتے اور کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور کرید نکالتے ہیں. یہ احکامِ مذہب کا وہ مفہوم ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ جس سے ان کی ذاتی خواہش کی تکمیل کا سامان ہو. فقط تسکینِ نفس کا طلبگار یہ مریض گروہ اپنے ذہنی خلل کے طفیل تسلیم و رضا کی چاشنی اور سواد سے تادمِ آخر محروم رہتا ہے.

  • بہن اسرٰی غوری سے ایک سوال – ہمایوں مجاہد تارڑ

    بہن اسرٰی غوری سے ایک سوال – ہمایوں مجاہد تارڑ

    ہمایوں تارڑآپ نے اپنے آرٹیکل “ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟” کے اختتام پر بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کرنے کا پیغام دیا ہے، جبکہ طنزاً یعنیironically یہ پوری تحریر ماں کی طرف سے مرضی مسلط کیے چلے جانے کی ایک روح فرسا داستان معلوم ہوتی ہے۔ آپ از سر نو جائزہ لیں، سر سے پاؤں تک اس آرٹیکل کا ہر لفظ مرضی مسلط کرنے پر مرکوز ہے۔ بچے excited ہیں کہ انھیں ایک ایسی gathering اٹینڈ کرنی ہے جہاں وہ ہم عمر بچوں کے ساتھ مل کر اپنا کچھ وقت fun time کے طور پر گزاریں گے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ وہ اس وقت اخلاقی درس تدریس کے موڈ میں نہیں جو ماں ہر وقت ، بات بے بات چھیڑے رکھتی ہوگی ( یہ ان کی باتوں سے عیاں ہے)۔
    آگے بڑھتے ہیں۔
    ماں ان کی excitement کو یکسر نظرانداز کر دیتی ہے۔ پہلے اشارتاً اور پھر نسبتاً زیادہ واشگاف انداز میں۔ ان کی طرف سے مزید اصرار پر تفہیم القرآن طلب کی جاتی ہے۔ اور پھر:
    “دونوں کو اس نے اپنے ارد گرد صوفے پر بٹھایا. خود سورہ لوط کی تلاوت کی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی۔”
    (پھر ماں نے کہا): ” یہ تھا وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم پر وہ عذاب نازل کیا جو دنیا میں کسی اور قوم پر نہیں نازل ہوا. دنیا کی ہر قوم ایک عذاب کی مستحق ہوئی مگر قوم لوط ایک ساتھ تین عذابوں کی۔
    پوری کی پوری قوم اندھی کردی گئی۔
    پھر آسمان سے پتھروں کی برسات جو کہ ہر ایک کے نام کے ساتھ مارے گئے کہ کون سا پتھر کس کو لگنا ہے۔
    تیسرا عذاب کہ پوری بستی الٹ دی گئی۔”
    یا للعجب! تو گویا جو بچّے وہاں اکٹھے ہونے جا رہے تھے، ان کی واحد غرض و غایت خدا نخواستہ فعلِ قومِ لوط کا ارتکاب کرنا تھا؟
    یا کیا ان بچوں نے وہاں جا کر لازماً یہی کچھ کرنا تھا؟
    چلیں یوں کہہ لیں کہ محض خوف تھا کہ کہیں کوئی ایسی سچویشن نہ جنریٹ ہو جائے کہ بچے کسی ایسی ویسی حرکت کا شکار ہو جائیں۔
    میں بڑے ادب سے عرض گزاروں کہ دونوں صورتوں میں یہ اپروچ انتہائی ناقص ہے۔
    ہم نسبتاً بالغ نظر لوگ آگاہ ہیں کہ اس نوع کے اکٹھ میں، جہاں بہت سے بچے جمع ہیں، ایسی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اوپر سے رمضان بھی تھا جس کا اپنا ایک impact ہے کہ اس ماہ مقدّس میں نیکی اور پاکیزگی کا احساس دامن گیر رہتا ہے۔ آخر کیوں اتنا خوفزدہ ہوا جائے، اور رہا جائے؟!
    جدید ایجوکیشن کا تو سارے کا سارا زور ہی اس نکتہ و پہلو پر ہے کہ بچوں کو ذمّہ داری دی جائے۔ کلاس روم میں تدریس کا دورانیہ 10 منٹوں سے زیادہ نہ ہو۔ باقی کا سارا وقت بچے اپنے دماغوں اور ہاتھوں سے کچھ کرتے دکھائی دیں تاکہ ان کی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملے۔ بند دماغ کی کھڑکیاں کھلیں۔ وہ رٹّو طوطے ہی نہ رہ جائیں۔گرد و پیش کی زندگی کو کھلی، غائر اور نقّاد نظروں سے دیکھنا سیکھیں، اور یوں آگے چل کر محض ڈگری ہولڈرز نہ بنیں، بلکہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے خلّاق اذہان کے مالک بااعتماد لوگ بنیں جو انسان کے اب تک کے طے کردہ فکری سفر کو آگے کی کسی منزل تک لے جا سکیں۔
    میری رائے میں ِاس کا بہتر طریقہ یہ تھا کہ بچوں میں سے بڑے کو ایک طرف لے جا کر سمجھا دیا جاتا، واضح اشارہ دے کر کہ “بھائی کا خیال رکھنا. “آج امریکہ میں ایک بل پاس ہوا ہے،”وغیرہ وغیرہ۔ ِاور پھر توکّل علی اللہ ! کوئی انّ ربّی علٰی کلِ شئی حفیظ ایسی دعا پڑھ کر سپرد خدا کر دیتیں۔یہ ان کا حق تھا۔
    چھوٹے بھائی کے بہانےاِس انداز میں دیے پیغام سے بڑے بھائی کی اپنی نفسیات بھی کسی “فکر” سے بندھ جاتی۔ جی ہاں نفسیات کو باندھا جاتا ہے، اور معصوم اذہان واقعتاً ان باتوں کو بہ صد سنجیدگی دیکھتے اور فالو کرتے ہیں۔ نئے اندازِ تعلیم میں یہ بات متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ جب آپ اعتماد کرتے اور ذمہ داری دیتے ہیں تو بچے کمال پرفارم کرتے اور confidence کی وہ عمارت اُٹھا کھڑی کرتے ہیں جو ہر والدین کا اپنے بچوں کے حوالے سے سب سے بڑا سپنا ہوا کرتا ہے۔
    یہ بات عام مشاہدہ و تجربہ میں ہے کہ اس نوع کا غیر ضروری جبر، اور بات بےبات مذہبی حوالے مذہب کو بے رنگ، بے کیف، بے رحم، اور خدائی فوجدار قسم کی شے بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ انسان ظاہراً کیسا ہی نیکوکار دکھنے کی کوشش کرے، اندرونی طور پر بےزار سا رہتا ہے۔
    خدانخواستہ یہ یورپی طرز کی کوئی مخلوط محفل بھی نہ تھی۔
    خدا نخواستہ شراب نوشی کا بھی کوئی احتمال نہ تھا کہ اس معاشرے میں اس کا چلن عام نہیں۔اوپر سے یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔
    آخر بچے سارا دن سکول میں بھی توگزارتے ہیں ناں! جہاں بارہا ایسی تنہائیاں میسر آیا کرتی ہیں۔
    کیا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ماں عمر بھر اپنے بیٹے کو بس سینے سے چمٹائے رہتیں؟ نصیحت پلّے باندھ کر سپرد خدا کر دیا ناں؟
    یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن علاقوں میں مواقع کم ہوتے ہیں، یا لَٹھ بردار قسم کا مذہبی جبر زیادہ ہوتا ہے، بند اور گھٹن زدہ ماحول، وہیں اس نوع کی Homo سرگرمی اور اس کی ہوس زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً سعودی عرب، مثلاً درسِ نظامی والے مدرسے (جہاں ہر وقت قرآن پڑھنا پڑھانا صرف ایک روٹین ہے، اور باقی زندگی کا ایکسپوژر نہ ہونے کے برابر)، مثلاً پسماندہ علاقہ جات۔ مجھے متعدد دوستوں کے ذریعے ایران اور سعودی عرب سے متعلق اس نوع کی شہادتیں موصول ہوا کرتی ہیں۔ یہ محض ایک آدھ فرد سے سنی سنائی بات نہیں۔ کچھ ذاتی نوعیت کےمشاہدات اس پہ مستزاد ہیں۔
    درس نظامی سے فارغ التحصیل ایک دوست کے الفاظ یوں ہیں:
    “وہاں سارا زور دین دار نظر آنے پر ہے، نہ کہ دین دار بننے پر۔” یہ بھی اسی کے الفاظ ہیں: “ایک رتّی برابر ایمان نہیں ہوتا ان مولویوں میں۔ بس غضبناک آنکھیں لے کر دوسروں کو رد کرنے، مخالف فرقوں سے فروعی معاملات پر بحث و مباحثہ والی باتیں رٹنے، اپنی ضد پر بہرصورت اڑے رہنے کی تعلیم اور تربیت ہے وہاں۔”
    دوران تحریر کہا گیا :
    “چھوٹو تفہیم القرآن لے کر آئیں۔”
    جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں سید مودودی ؒ کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ تو کیا خبر ہے کہ سید مودودی مرحوم کا اپنے بچوں کے حوالے سے رویہ کیسا تھا؟ راقم کی نظر سے 90 کی دہائی میں ایک چھوٹی سی کتاب گذری۔ مصنّف کا نام محو ہوگیا۔یہ ایک مسلسل تحریر تھی جو مولانا کے ہونہار بیٹے سے کیے ایک انٹرویو پر مبنی تھی۔ انٹرویو شاید 50 کے عشرہ کے ابتدائی برسوں میں لیا گیا تھا جب 1953 میں مولانا کو عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ جب مصنّف نےاس teen ager سے دریافت کیا کہ گھر میں آپ کے والد نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ کے سلسلہ میں آپ پر تو خوب سختی کرتے ہوں گے؟ تو اس کا جواب تھا ” بالکل نہیں، جب میرا جی چاہتا ہے تب پڑھ لیتا ہوں۔ ابو ایسی کوئی سختی نہیں کرتے۔” کتب بینی کے حوالے سے کیے سوال پر جواب ملا: ” جی نہیں ۔ مطالعہ کرنے کے حوالے سے بھی ان کی طرف سے کوئی تاکید نہیں۔وہ کہتے ہیں (یہ جملہ خصوصی طور پر میرے قرطاس ذہن پر نقش رہا، جو کبھی محو نہ ہو سکا) :
    ” سب کچھ دیکھو، سب کچھ پڑھو، سب کچھ سنو، مگر کسی کا اثر قبول نہ کرو۔ بلکہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرو جس کے لیے تمہارا دل اور دماغ گواہی دے۔”
    گزارش یہ ہے کہ بچے اس عمر میں ہر لمحہ، ہر آن تفریحی سرگرمیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسی کو ان کی Learning کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وہ مشاہدہ خصوصی تھا جس کی بنیاد پرسرزمین اٹلی کی محترمہ ماریا مونٹیسوری نے ایک پورا فلسفہ تدریس اٹھا کھڑا کیا کہ بچے اپنی surroundings سے زیادہ سیکھتے اور یہ کہ تیز تر سیکھتے ہیں۔ چنانچہ کمرہ جماعت میں activity based learning کا آغاز ہوا۔ تدریسی کورسز ڈیزائن ہوئے۔ نیا تعلیمی نظام متعارف ہوا۔ نئی کتابیں معرض وجود میں آئیں، یہاں تک کہ دنیائے تعلیم و تدریس میں انقلاب سا آ گیا۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق مشہور واقعہ ہے کہ کیسے ایک روز گھوڑے کی پیٹھ پر سوار خراماں خراماں چلتے بلند آہنگ شاعرانہ کلام گنگنا رہے تھے۔ آپ خوش آواز تھے۔ لوگوں نے دیکھا، سنا تو لطف اندوز ہوئے، اور تھوڑی دیر میں ایک ہجوم سا اکٹھا ہوگیا۔آپ نے یہ دیکھتے ہی گانا بند کر دیا، اور تلاوتِ قرآن شروع کر دی۔اس کے نتیجے میں لوگ بےزار سے ہو کر تتر بتر ہو گئے۔ آپ کو بڑا اچنبھا ہوا۔ پاس کھڑے ایک بزرگ صحابی سے گلہ گذارا کہ دیکھو قرآن پڑھا تو یہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان صحابی نے جواب دیا کہ کوئی موقع محل ہوتا ہے خدا کی بات سنانے کا بھی۔ لوگ آپ کی سریلی آواز میں شاعرانہ کلام سن کر لطف اندوز ہو رہے تھے، جب محروم کر دیے گئے، تو چلتے بنے!
    بچے بھی اس لمحے تفریح کے موڈ میں تھے۔آخر دیگر شرفا کے بچوں نے بھی آنا تھا۔ بچوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ بیٹھ کر بات سننے کو بھی روادار نہ تھے، کہ جانتے تھے ماں وہی اخلاقیات بھرا لیکچر چھیڑ دے گی۔ وہی ہوا بھی۔اس میں جانے کے خیال کو احساس جرم بنا ڈالا گیا۔اور ان کے تمام ساتھیوں کو فعل قوم لوط کا مجرم ۔ کیا یہ انصاف ہے؟

  • ترکی میں بغاوت؛ ذرا سوچیے – عبید اللہ عابد

    ترکی میں بغاوت؛ ذرا سوچیے – عبید اللہ عابد

    obaid ullah abid میرا ایک سوال ہے
    ترکی میں‌ ناکام ہونے والی فوجی بغاوت اگر ایران میں ہوتی تو باغیوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ کیا انھیں‌ معاف کر دیا جاتا؟ کیا انھیں ان کے عہدوں پر برقرار رکھا جاتا؟ کیا انھیں پھانسیوں پر نہ لٹکایا جاتا؟
    میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہی بغاوت امریکہ میں‌ ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
    اگر سعودی عرب میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ سوچیے ذرا
    اگر یہی بغاوت طالبان کے افغانستان میں ہوتی تو کیا ہوتا، سوچیے ذرا
    اگر دنیا کے کسی بھی پانچویں، چھٹے یا ساتویں ملک میں‌ ہوتی تو کیا ہوتا؟ کچھ تو سوچیے ذرا۔
    قریبا اسی قسم کے سوالات ترک قیادت نے امریکیوں کے سامنے رکھے تو وہ اب باغیوں کے حقوق کی باتیں چھوڑ کر فتح اللہ گولن کے بارے میں تحقیقات میں مدد دینے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے بیانات سامنے آچکے ہیں۔ آج کل امریکی در پر سجدہ ریز سیکولرز، لبرلز اور ملحدین یہ بیانات نوٹ فرمالیں۔
    سوال یہ بھی ہے کہ کیا ضروری ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ہر خبر پر یقین کر لیا جائے؟ بالخصوص ایک اخبار نویس اور ایک دانشور کو ہر خبر کی صحت کی ازخود تحقیق نہیں کرنی چاہیے. لیکن حیرت ہے کہ ترکی میں بغاوت کے معاملے میں یہ اخبارنویس، تجزیہ نگار اور دانشور بھی ایک جاہل قاری ثابت ہوئے ہیں۔ (اگرجاہل کا لفظ سخت محسوس ہو تو معذرت خواہ ہوں)۔ جب تک آپ دوسرے فریق کا موقف جان نہیں لیتے، تب تک آپ خبر شائع کرسکتے ہیں نہ تجزیہ کرسکتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے ہاں بعض‌ تجزیہ کار مسلسل بول اور لکھ رہے ہیں۔
    اس باغیانہ کوشش میں 246 افراد شہید ہوئے جن میں 179 سویلین، 62 پولیس آفیسر اور 5 فوجی شامل تھے۔ 24 باغی فوجی بھی مارے گئے جبکہ 49 کو زخمی حالت میں گرفتار کیاگیا۔
    بغاوت کے بعد پہلے مرحلے میں 4060 افراد کو حراست میں لیاگیا جن میں سے 2430 فوجی، 151 پولیس افسر، 1386 ججز اور 93 سویلین تھے۔ دوسرے مرحلے میں‌5581 افراد کو گرفتار کیاگیا۔ تفتیش کے بعد اب تک 549 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن انھیں ضرورت کے مطابق بلایا جا سکتا ہے جبکہ 220 افراد کو باعزت بری کر دیاگیاہے۔ تفتیش کا سلسلہ جاری ہے، بےگناہ افراد رہا ہوتے چلے جائیں گے۔
    یوں اب مجموعی طور پر 10410 زیرحراست ہیں، جن میں 7423 فوجی، 287 پولیس افسران، 2014 ججز اور686 سویلینز ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اپنے پروپیگنڈے میں 50 ہزار کے قریب گرفتاریاں ظاہر کر رہے ہیں۔
    آپ ترکی میں بغاوتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں، فوجی اور ججز مل کر حکومت کا تختہ الٹتے تھے، اس بار بھی بڑے پیمانے پر بغاوت کی تیاری کی گئی تھی، اس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا تاکہ بغاوت کے خلاف کوئی شعبہ مزاحم نہ ہو۔ تاہم ایک تدبیر انسان کرتا ہے اور ایک تدبیر اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر غالب آتی ہے.
    آپ غیرجانبداری اور دیانت داری کے ساتھ مغربی میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں، آپ کو صاف نظر آئے گا کہ وہ بغاوت کے حق میں تھا اور اب باغیوں کو بچانے کے لیے پروپیگنڈا کر رہاہے۔ کون بھول سکتاہے کہ امریکی ٹی وی چینل کے سٹریٹیجک تجزیہ نگار کرنل رالف پیٹرز کی بات کو، انھوں نے بغاوت کے اگلے روز کہا تھا: ’’اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو اسلام پسند ہار جاتے اور ہم جیت جاتے‘‘ انھوں‌ نے ہی کہا تھا:’’ خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ترکی میں بغاوت کر رہے ہیں، وہی خدا کے بندے ہیں‘‘۔ ایک امریکی چینل نے بغاوت ناکام ہونے پر کہاتھا:’’ ترکی میں امید کی آخری کرن بھی ڈوب گئی۔‘‘
    اس کے باوجود مسلمان معاشروں کا کوئی دانشور طیب اردگان کے خلاف کھڑا ہے، تو اسے سوچ لیناچاہیے کہ وہ کہاں‌کھڑا ہے؟ اور کس صف میں کھڑا ہے؟