Tag: سندھی

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    دائود ظفر ندیم جب میں بچہ تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ اردو زبان ہی ہماری اپنی زبان ہے مگر مجھے مشکل ہوتی تھی جب گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی، ہمارے اردو میڈیم سکول میں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ پنجابی ایک گنواروں کی زبان ہے جس کا لہجہ ایک مقررہ فاصلے کے بعد بدل جاتا ہے اور اس کی کا کوئی معیاری لہجہ نہیں، اس میں کوئی ادب تخلیق نہیں ہو رہا، یہ بانجھ اور جامد زبان ہے. مجھے واقعی ایسے لگتا کہ سبزی والا، دودھ والا، کام کرنے والے غریب لوگ اور ان کے بچے یہ زبان بولتے مگر اس وقت پریشان ہوجاتا جب مری ماں بھی یہی زبان استعمال کرتی، میرے والد بھی اسی بان میں گفتگو کرتے، میں بڑے شوق سے اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ کی بچوں کے لیے کہانیاں پڑھا کرتا، بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، جگنو، تعلیم و تربیت نامی رسائل شائع ہوا کرتے تھے. میری اپنی کچھ کہانیاں جگنو میں چھپا کرتیں اور مجھے فخر ہوتا کہ میں دوسرے پنجابی بچوں کی طرح جاہل نہیں بلکہ ایک پڑھا لکھا بچہ ہوں جسے اردو آتی ہے، مگر میری ماں مجھے رات کو سونے سے پہلے پنجابی گیت سناتی، لکڑ بگڑ باوے دا، اسی نو نواسی، جیسےگیت دل کو چھو لیتے اور پھر پنجابی میں مختلف کہانیاں، رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. مگر سکول میں اور نصاب میں مجھے اسماعیل میرٹھی کی ہماری گائے جیسی نظمیں پڑھنے کو ملتیں اور محلے کی لائبریری میں بھی اردو کتابیں ملتیں. میں نے ابن صفی بڑے شوق سے پڑھا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن بھی اردو کی ترویج کا اہم ہتھیار تھا جہاں اردو زبان میں بڑوں کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے.

    مگر جب میں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور الف لیلی پڑھ رہا تھا تو گھر میں میرے دادا کی بڑی بہن مجھے راجہ رسالو کی کہانیاں سناتی، مجھے پورن بھگت کی کہانی بہت پسند تھی، اور پھر ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کے رومانی قصے، میں سوچا کرتا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پنجابی زبان میں لکھتے تھے، بہرحال میں یہ جانتا تھا کہ اب پنجابی کہیں نہیں لکھی جاتی اور اردو زبان ہی پاکستان کی قومی اور واحد زبان ہے. کچھ متعصب اور پاکستان دشمن عناصر نے پہلے بنگالی زبان کا نام لیا اور پاکستان توڑا، اور اب بھی کچھ نالائق لوگ سندھی اور پشتو اور بلوچی میں بات کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں، یہ پاکستان کے دشمن اور غدار ہیں جو پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ مگر جب میں بی اے کی تیاری کررہا تھا تو اس وقت مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پنجاب میں بھی کچھ متعصب لوگ پنجابی لکھتے ہیں، پنجاب میں پنجابی کہانی لکھنے والے اور پنجابی شاعری کرنے والے شرپسند ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ میرے لیے بہت پریشانی کی بات تھی۔

    میرے نئے دوستوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں. جی بالکل پڑھیے، چہ خوب. لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آئے گی. چنانچہ مجھے رانجھن ہونا، کچا گھڑا، مہینوال، بھگت، اور پنجابی کے مختلف اکھان اور محاروں کا علم ہوا. یہ معلوم ہوا کہ غالب، داغ، مومن، انشا، جرات، حالی بڑے شاعر ہیں مگر وہ وادی گنگا و جمنا میں تھے جسے اب بھارت کہتے ہیں. ہمارے پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، اور سب سے بڑھ کر بابا فرید جیسے لوگ تھے جنہوں نے پنجابی زبان میں لکھا، اور پنجابی کی اپنی اساطیر، استعارے، تشبیہات، محاورے موجود ہیں. اور جب ایم اے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہندی زبان میں ڈپلومہ کیا تو معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں جن کو مذہبی تعصب اور الگ رسم الخط کی ضد نے دو الگ زبانیں بنا رکھا ہے اور دونوں کی جڑیں ایک ہی علاقے یعنی گنگا جمنا کی وادی میں ہیں. پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے پاکستان کے بعد کینیڈا میں ایک بڑی زبان ہے جہاں کچھ پاکستانی محب وطن کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی پنجابی اپنی مادری زبان کے طور پر پنجابی کے بجائے اردو لکھیں تاکہ کینیڈا میں پنجابی کا مقام ختم ہو.

    میں اردو کا مخالف نہیں مگر جب اردو کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی اپنی زبانوں کو ختم کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرتا دھرتا یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستانی چینلوں پر پنجابی کی کوئی جگہ نہیں رہی، پنجابی فلم کو پاکستان میں ختم کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے، تویہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں تبدیل ہوگئی اب پاکستانی چینل ہی اول و آخر نہیں، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں. اگر کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر پنجابی کے پروگرام کا ‘اسپاٹ’ ہی نہیں تو بھی پنجابی فلمیں اور پروگرام غیرملکی چینلوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اس لیے آپ کسی کے نصاب، میڈیا اور اشرافیہ سے اس کی زبان ختم کرنے کے بعد بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ زبان ختم ہو سکتی ہے.

    میں آج بھی اردو کو ہی اپنے ہی لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بنائے ہوں مگر اس سارے معاملے کی تفہیم نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں قوم پرستوں کے بیانیے کو سمجھ پائوں، قوم پرستوں کا بیانیہ کچھ تحفظات اور کچھ اندیشوں پر مبنی ہے۔

    ان کے بیانیے کا پہلا جز یہ ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے ایک قوم نہیں یہاں مختلف قومیتیں آباد ہیں ایک وفاق میں رہنے والی تمام قومیتوں کے لسانی، اور جغرافیائی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
    ایک تو ان کو اپنے علاقے اور سرزمین میں اقلیت بننے کا اندیشہ ہے دوسرا ان کو اپنی لسانی شناخت چھن جانے کا اندیشہ ہے۔

    بلوچوں کو خطرہ ہے کہ وہ اپنی روایتی سرزمین پر ریڈانڈین کی طرح ایک اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے. وہ اس کے لیے کراچی کی مثال دیتے ہیں کہ کراچی روایتی طور پر ایک بلوچ علاقہ تھا جہاں ایک دوسری قومیت کو بسایا گیا اور بلوچ لیاری میں محصور رہ گئے جہاں وہ روزگار کے مواقع، شناخت اور اختیار سے محرومی کی وجہ سے جرائم پیشہ بننے پر مجبور ہوگئے، ان کے فٹ بالروں اور ان کے باکسروں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کو قومی ہیرو نہیں سمجھا گیا۔ ان کو سہولیات نہیں ملیں۔
    بلوچوں کو یہی اندیشہ بلوچستان میں ہے کہ ان کو لسانی اقلیت بنایا جائے گا۔ وہ ایسے تحفظات چاہتے ہیں کہ انھیں اپنی سرزمین پر اپنی زبان اور اپنی عددی اقلیت کا تحفظ مل سکے کہ وہ معاملہ ہے جس پر تمام قوم پرست اور وفاق پرستون بلوچوں کا اتفاق ہے.

    یہی معاملہ سندھیوں کا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کراچی کو ان سے چھینا جا رہا ہے، وہ اس کی ملکیت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سندھی زبان اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

    قوم پرستوں کی تمام باتوں کو یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان ایک قوم بننے کے عمل میں ہے. اردو زبان اس سرزمین پر عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے مگر اس کے باوجود دوسری زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سرزمین کی تمام زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی ضرورت ہے، ان کے تمام بڑے شاعروں کو قومی شعرا قرار دینے کی ضرورت ہے، اس سے قومی یک جہتی میں اضافہ ہوگا.

    سندھیوں اور بلوچوں کو عددی اقلیت بننے کا بھی خوف ہے جیسے سندھ میں کوٹہ سسٹم ہے اس طرح وفاق کی سطح پر بھی بلوچی اور سندھی بولنے والوں کو مقررہ مدت تک تمام ملازمتوں میں کوٹہ دیا جا سکتا ہے. اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو بلوچوں اور سندھیوں کو قومی دھارے میں شریک کر سکتے ہیں

    اردو بولنے والوں کے لیے کچھ الگ کرنے کی ضرورت ہے. ایک تو ان کا بیانیہ ہے کہ وہ کسی خاص صوبے میں نہیں، ایک نئے وطن پاکستان میں آئے تھے جو ان کی جدوجہد سے تشکیل پایا تھا۔ ہمارا نصاب اور میڈیا بھی یہی بتلاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ان کے میرٹ پر پاکستان اور سندھ میں ملازمتیں دی جائیں، کسی کوٹے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ ان کے علاقے کراچی اور حیدر آباد کا اختیار کسی صوبائی نظم یا کسی بلدیاتی نظم کے تحت ان کے حوالے کیا جائے۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے. بلدیاتی اختیار میں ان کو شریک کرنا ان کا حق ہے.

    ہم پاکستانی اور مسلم قومیت کی بنیاد پر کسی کی لسانی اور جغرافیائی شناخت کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس مسئلے کا ادراک کرنا ہوگا.

  • پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    پاکستان کا کیا قصور؟ کامران امین

    کامران امین برصغیر پر جب انگریز حاکم بنے تو شرح خواندگی90 فیصد تھی۔ دلی کے بازاروں میں خوب رونق ہوا کرتی، اگرچہ عام لوگوں کے پاس زمینیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں لیکن پھر بھی لوگ خوشحال تھے. انگریز سیاح اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھکاری ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے تھے۔ یہی انگریز جب سو سال حکومت کرنے کے بعد رخصت ہوا تو برصغیر کی صرف 5 فی صد آبادی خواندہ تھی اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر نمازیوں سے زیادہ بھکاری ہوتے تھے۔

    چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان بھی خود کو برصغیر کا جائز حکمران سمجھتے تھے اس لیے عتاب زیادہ تر مسلمانوں پر ہی گرا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر کی سب سے بڑی آبادی ہندئووں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بھی بونا شروع کر دیے. نتیجہ یہ نکلا کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کا سوچ سمجھ رکھنے والا طبقہ یہ محسوس کرنا شروع ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ایک ملک میں نباہ کرنا اب تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے نے اس رائے کو اور تقویت دی اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی قائداعظم جیسے مدبر شخص نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا فیصلہ کر لیا۔

    پاکستان اپنے قیام کے روز سے ہی اس لحاظ سے بدقسمت رہا ہے کہ حصول کے وقت کیے گئے وعدے پورے نہیں ہو سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں بلکہ ہندوئوں کے معاشی جبر سے بھی آزاد ہوں۔ اگر چہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کا فیصلہ تھا لیکن پھر بھی اس دور کے مومنین صالحین نے کھل کر اس کی مخالفت کی، چنانچہ اس اصول پرست اور دیانتدار شخص پر فتوے لگائے گئے جو ایک غلام قوم کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ کوئی ایسی قوم بھی ہوگی جس کے رہنما خود اسے یہ بتا رہے ہوں کہ آزادی تمارے مفاد میں نہیں، تم غلام ہی ٹھیک ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان بن کر ہی رہےگا تو راتوں رات وہ تمام لوگ جو قیام پاکستان کے لیے سد راہ تھے، توبہ تائب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جی ہاں وہ تمام راجے مہاراجے، نواب، جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار جو گزشتہ سو سالوں سے انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے، عین آزادی کے وقت وہ بھی آزادی والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ قائد اعظم نے اگرچہ ایسے لوگوں کو عہدے نہ دینے میں عافیت جانی لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر نوزائیدہ مملکت میں اہم عہدوں پر فائز ہو گئے اور اس کے بعد سے پاکستانی عوام آزادی کے بہلاوے میں ابھی تک غلام ہی ہیں۔ مثال کے طور پر خان عبد الغفار خان کی عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے ہند پاکستان کے مخالاف تھے لیکن اسی پاکستان کے ایک صوبے میں ان کے وارثوں نے کئی دفعہ جم کر حکومت کی۔ پنجاب میں سکندر حیات کی اولاد مخدوموں، کھروں اور ٹوانوں کی کہانیاں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

    ایک ملک بنانے کے بعد جب ایک قوم بنانے کی باری آئی تو اس قوم کی باگ دوڑ ان ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں اس قوم سے تو کیا ملک سے بھی دلچسپی نہ تھی چنانچہ سب سے پہلے تو انہوں نے بنگالیوں سے جان چھڑائی جو اس وقت تک پاکستان میں سب سے باشعور طبقہ تھا اور تحریک آزادی میں جس کا کردار ناقابل فراموش رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چین نہیں ملا تو انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کو ایک اکائی کے طور پر مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون، مہاجر، سرائیکی وغیرہ میں بانٹ دیا اور ایسے اسباب مسلسل فراہم کیے جاتے رہے کہ یہ لسانی گروہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہی رہیں ۔

    سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ قائداعظم کے بعد کوئی رہنما نہ ملا جو بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی نگہبانی کے ساتھ رہنمائی کرتا۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ایشیا کا ڈیگال، قائد عوام، مرد مومن اور مشرق کی بیٹی تو آج بھی زندہ ہے لیکن حضرت قائداعظم صاحب انتقال کر گئے۔ آج حال یہ ہے کہ ایک ملک جسے کوئی اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن سارے اس سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس ملک کا کیا قصور ہے؟ کیا جب ہم الیکشن میں بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کو، کرپٹ ترین لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارے اپنے بھائی ہمارے خاندان کے لوگ جو پولیس، فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کا حصہ ہیں، کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے محرومی و ناانصافی کو جنم دے رہے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، ہمارے منصف سرعام بک جاتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ ہمارا تعلیمی نظام عوام میں شعور و بیدار کرنے میں ناکام ہے تو کیا اس میں بھی پاکستان کا قصور ہے؟ اس ملک نے تو ہمیں یہ موقع دیا تھا کہ ہم اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں لیکن وہ نصیب لکھنے والا قلم ہم نے اپنی مرضی سے غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دیا تو یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ نوجوان جو 14 اگست کو سڑکوں پر پاکستان کی جھنڈیاں سجا کر ناچتے نطر آئے، تعلیمی اداروں میں لسانی جھگڑوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں، کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟ کبھی انڈیا میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیا ہے؟ سفر کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں اور جس علاقے سے بدبو آنا شروع ہو جائے سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کسی نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کی کوشش کی ہے وقت نکال کر؟

    آج تک پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر اور پٹھان بن کر تو سوچتے رہے تو آئیے آج ایک لمحے کے لیے پاکستانی بن کر سوچتے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا قصور ہے؟ ہم پاکستان سے کیوں ناراض ہیں؟ آئیے ایک دفعہ پاکستانی بن کر سوچتے اور عمل کرتے ہیں.

  • مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    ’’جی بیٹا! تو کہاں سے تعلق ہے آپ لوگوں کا؟‘‘
    احمد صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا تھا۔
    ’’جی یہیں کراچی سے، میں سندھی ہوں۔‘‘
    ’’سندھی.‘‘
    احمد صاحب نے بری طرح چونک کر مجھے دیکھا اور میں بھی ہکا بکا علی کو دیکھنے لگا۔
    ’’یہ کیا مذاق ہے علی؟‘‘
    میں نے کسی قدر غصے میں مگر دھیرے سے کہا۔
    ’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں فیصل بھائی !میں سندھی ہی ہوں بلکہ اول مسلمان ہوں، پھر پاکستانی، پھر سندھی!‘‘
    ’’مسلمان اور پاکستانی تو ٹھیک ہے مگر تو سندھی کب سے ہوگیا؟ کیوں میری بات خراب کر رہا ہے، اگر شادی نہیں کرنی تھی تو یہاں تک آنے کی ضرورت کیا تھی.‘‘
    میں نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہا تھا۔
    احمد صاحب جو اچانک سنجیدہ نظر آنے لگے تھے، کہہ اٹھے:
    ’’بہت معذرت بیٹا! بےشک سندھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر ہماری بٹیا کو تو ایک لفظ سندھی کا نہیں آتا، پھر رسوم و رواج اور ثقافت کے بھی ہزار مسائل ہو جاتے ہیں، آپ لوگوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہماری بٹیا کے لیے کسی بھی مسلمان کا رشتہ آئے، مگر ہم فیصل میاں سے پہلے ہی اس بابت صاف کہہ چکے تھے، آپ برا نہیں منانا مگر…‘‘
    انہوں نے رک کر مجھے شکایتی انداز میں دیکھا، مجھے علی پر شدیدغصہ آنے لگا۔
    ’’مم مگر انکل! بات یہ ہے کہ تھوڑی بہت سندھی مجھے آتی تو ہے، مگر میں سندھی نہیں، اوہ مم میرا مطلب ہے کہ میں سندھی تو ضرور ہوں، کچھ سندھی بول بھی لیتا ہوں، مگر وہ سندھی نہیں ہوں!‘‘
    علی نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تو مجھے اس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ ادھر احمد صاحب چہرے پر شدید حیرت کے آثار لیے علی کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے احمد صاحب کو سلام کیا، معذرت چاہی اور تیزی سے علی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک سے باہر نکل آیا۔
    باہر آتے ہی اس نے میرے خطرناک ارادے بھانپ کر جلدی سے کہا:
    ’’ایک منٹ فیصل بھائی جان! آپ لوگ میری بات سمجھ نہیں ر ہے. وہ فلاں دانشور نے فیس بک پر فلسفہ بگھارا تھا کہ آپ سندھ میں پیدا ہوئے ہوتو سندھی ہو، اردو اسپیکنگ یا مہاجر کا ٹائٹل نہ لگاؤ، اپنے آپ کو سندھی کہلواؤ. میں تو اس لیے بولا۔‘‘
    ’’کیا؟؟ حمق! تو نے ان دانشوروں کی باسی دانش کی وجہ سے مجھے اتنے اچھے پڑوسی کے سامنے شرمندہ کر دیا. ابے ادھر آ. ‘‘ میں اسے اگلی گلی میں لے آیا۔
    سامنے میرے بہت پیارے پڑوسی دوست محسن بھائی کھڑے ہوئے تھے. ’’ اب سن‘‘
    میں علی کو ان کے پاس لے گیا۔
    ’’محسن بھائی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سندھی ہو؟‘‘
    ’’ہائیں…‘‘ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
    ’’کک کیا کہہ رہے ہو فیصل بھائی! جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں، کوئی بیس سال سے آپ کا پڑوس ہے، اب ہم سندھی ہو گئے سائیں، واہ چھا تو کرے میرا میڈا سائیں‘‘
    محسن بھائی نے مزاحیہ انداز میں سندھی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ’’پھر آپ کون ہو؟‘‘
    ’’کیا ہوگیا بھائی؟ ہم پنجابی ہیں، پیچھے سے فیصل آباد ی ہیں. کیا آپ ہمارے ساتھ رائیونڈ اجتماع کے بعد ہمارے گاؤں گئے نہیں تھے کیا؟‘‘
    اب ان کے چہرے پر الجھن کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔
    ’’بس ٹھیک ہے.‘‘ میں مسکرایا اور انہیں الجھتا چھوڑ کر علی کا ہاتھ تھامے کونے میں بنے کوئٹہ وال چائے ہوٹل پر چلا گیا۔
    ’’ہاں عبدالرحمن! میں نے سنا ہے تم سندھی ہو؟‘‘
    میں نے چائے بناتے کھلنڈرے سے عبدالرحمن سے پوچھا۔
    عبدالرحمن نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر گویا مذاق سمجھتے ہوئے بولا:
    ’’زڑ خہ منہ کن خرژیش …مچ مچ ٹشن دا ڈغہ … زہ تا سرا مینا کوم پیسل بھائی!‘‘
    وہ مخصوص کوئٹہ کے لہجے میں پشتو کے پھول نچھاور کرنے لگا۔
    ’’آداب آداب میرے چھوٹے خان… میری طرف سے بھی زہ تا سرا مینا کوم…‘‘
    میں نے مسکرا کر جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
    قصہ مختصر سرائیکی خالد اعظم نے سرائیکی ہی کہا. ہزارے وال طاہر عابد نے ہزارے وال کی نسبت ہی بتلائی. اور ادھر علی کا چہرہ برابر رنگ بدل رہا تھا۔
    ’’دیکھا تو نے یہ سب ہمارے بھائی یہیں پیدا ہوئے، یہ سب سندھی نہیں ہوئے تو کمینے تو کہاں سے سندھی ہو گیا؟‘‘
    ’’بے شک ہم سندھ میں رہتے ہیں مگر ہمارے جو مہان دانشور دو چار دنوں سے گاہے یہ فلاسفی جھاڑ رہے ہیں ناں کہ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی کہلاؤ، تو بیٹا یہ صرف تمہارے میرے لیے لارے لپے ہیں. ان سے پوچھو، باقی ہمارے دوسری زبان سے نسبت رکھنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی لالی پاپ ہے یا نہیں؟! بیٹا یہاں کی بات تو چھوڑو، خود پنجاب میں رہنے والے سرائیکی بیلٹ کے ساتھی خود کو پنجابی نہیں کہتے. ہزارے وال خود کو پنجابی نہیں کہتے.
    ارے پیارے یہ لفظ مہاجر اب صرف پہچان کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ لغوی واصطلاحی طور پر کہ آگے سے یہ جاہلانہ سوال پوچھا جائے کہ اچھا بتاؤ تم نے کب ہجرت کی؟ پھر چلولفظ مہاجر کو چھوڑو، اگر اس سے تکلیف ہوتی ہے تو’اردو اسپیکنگ‘کی اردو انگریزی مخلوط معصوم سی ترکیب سے کیا مسئلہ ہے جسے اب قبول خاص و عام حاصل ہو گیا ہے، مگر دانشور اس پر بھی چیں بجیں ہیں، کس وجہ سے؟ صرف متحدہ جیسی فسطائی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود متحدہ برسوں قبل لفظ مہاجر سے جان چھڑا چکی، جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی!
    ڈئیر! قبیلے، علاقے اور زبان پہچان کے لیے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ اور ہزار معاملات میں لوگ علاقہ یا زبان کے بارے میں عام سوال پوچھتے ہی ہیں. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اپنی لسانی پہچان امریکا جا کر بھی برقرار رکھو، پنجابی مسلم سوداگران تنظیمیں بناؤ اور ہم اپنے ہی ملک میں اپنی پہچان تلاشتے رہیں.!
    کیا یہ بات سراسر اکرام مسلم کے خلاف نہیں کہ ایک مسلمان جس بات کو پوچھنا چاہ رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے باوجود اپنے فیس بکی دانشوروں کی ہدایت پر مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، سندھی ہوں کی تکرار کرتے رہیں، اور نتیجے میں کنوارے ہی رہ جائیں!
    ٭٭٭
    اس کہانی میں بات بہت وضاحت سے آ گئی. مزید کنفیوژن دور کرنے کے لیے بات کو اس طرح سمجھیے:
    دیکھیں اپنی پہچان اور تعارف کے لیے مختلف دائرے ہوتے ہیں. ہر دائرہ پہلے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
    ٭پہلا دائرہ:
    آپ کسی غیر مسلم کے مقابل اپنی پہچان مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں. بس یہی پہچان و تعارف کا سب سے بڑا اور بنیادی دائرہ ہے اور یہی دائرہ دنیا آخرت دونوں کو وسیع ہے. اسی دائرے کا حق ہے کہ اسے اللہ کے شکر کے ساتھ بیان کیا جائے!
    ٭دوسرا دائرہ:
    آپ پاکستان سے باہر ہیں تو آپ دوسرے ملک والوں کے سامنے اپنی وطنیت کی پہچان کروائیں گے، یعنی پاکستانی! یہ دوسرا دائرہ ہے جس میں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان گویا مائنس ہو گئے!
    ٭تیسرا دائرہ:
    آپ پاکستان میں ہیں تو آپ اپنے شہر کے توسط سے اپنی پہچان کرواتے ہیں یعنی لاہوری، کراچی والے، ملتانی، کوئٹہ وال، پشاوری وغیرہ، آپ چاہے کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اپنے شہر کی خوبیاں، اپنے شہر کی تعریف، اپنے شہر پر فخر اور کبھی کبھار اپنے شہر کی وجہ سے تعصب بھی اپنائیں گے، یہ بھول کر کہ آپ پختون ہیں، پنجابی بولتے ہیں یا اردو! یہ ہے پہچان و تعارف کا تیسرا دائرہ اس میں پاکستان کے دوسرے شہر والے گویا مائنس ہو جاتے ہیں۔
    ٭چوتھا دائرہ:
    یہاں آ کر ایک عجیب بات مگر یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں صوبائی پہچان کرانے کا رواج بالکل بھی نہ چل سکا، پاکستان کے اندر اول شہر کی پہچان ہے، اس کے بعد براہ راست زبان کی پہچان ہے!
    پنجابی بولنے والے پنجابی اسپیکنگ، سرائیکی بولنے والے سرائیکی اسپیکنگ، سندھی بولنے والے سندھی اسپیکنگ، ہزارہ وال ہزارہ کی زبان بولتے ہیں، پشتو بولنے والے پختون اور اردو بولنے والے اردو اسپیکنگ!
    ٭ یہ ہے پہچان اور تعارف کا چوتھا دائرہ اس میں دوسری زبان والے مائنس ہو گئے۔
    اس سے چھوٹے بھی کئی دائرے ہیں، ذات یا علاقائی وغیرہ کے، جیسے پنجابی بھائیوں میں جٹ اور کھوکھر وغیرہ اور اردو بولنے والوں میں بہاری، دہلی والے، الہ آبادی، حیدرآبادی وغیرہ کے، لیکن انہیں چھوڑیے۔
    مندرجہ بالا چار دائرے کسی قسم کے تعصب کے بغیر بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان دائروں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے خلاف کوئی ’نکتہ شناس‘ زبردستی یہ کہے کہ جس صوبے میں رہتے ہو، اس سے اپنی پہچان کروائو تو یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف بات ہے۔
    جب ہمارے دفتر کے سرائیکی بھائی جو کراچی میں ہی پیدا ہوئے، اپنی پہچان سرائیکی کہہ کر کراتے ہیں تو ہم بھلا کیوں سندھی کی پہچان کروائیں؟!
    ٭٭٭

  • الطاف حسین اور ایم کیو ایم، آغاز سے انجام تک – فیض اللہ خان

    الطاف حسین اور ایم کیو ایم، آغاز سے انجام تک – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان پاکستان میں موجود قوم پرستی کی بدترین سیاست کی وجہ سے الطاف حسین نے ایم کیو ایم قائم کی. یہ تنظیم ردعمل اور بہت سی درست وجوہات کی بنیاد پر بنی. یہ بات تو خیر راسخ ہوچکی کہ ردعمل میں بننے والے گروہ یا شخصیات اعتدال پر نہیں رہتے سو یہی ایم کیو ایم کے معاملے میں بھی ہوا اور اس تنظیم نے مار دھاڑ اور تشدد کے نت نئے ریکارڈ بنائے. یہ بات بھی سب جانتے ہیں کراچی میں بھتہ کلچر کی ابتداء متحدہ نے کی اور بعد کے برسوں میں پیپلز امن کمیٹی اے این پی اور سنی تحریک و دیگر نے اسے انتہا تک پہنچایا، مذکورہ جماعتوں نے رنگ نسل کی بنیاد پہ قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم کیا۔

    ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے والوں یا اردو اسپیکنگ طبقے کو بعض متعصب لوگوں نے مکڑ مٹروے، پناہ گیر اور اس جیسے دیگر القابات سے نوازا تو ان میں اپنی شناخت کے حوالے سے احساس محرومی پیدا ہوا، جس نے الطاف حسین کو پیدا کیا، انہوں نے اپنی قوم کو مہاجر کے نام سے نئی شناخت دی اور بلاشبہ نچلے طبقے کے لوگوں کو پارلیمان تک پہنچایا. یہ بھی یاد رہے کہ ہند سے آئے بعض مہاجرین اپنی تہذیب و تمدن کو، یہاں پہلے سے آباد قومتیوں سے برتر خیال کرتے تھے. اس غرور نے بھی کچھ مسائل کو جنم دیا، لیکن اس کے باوجود عام پاکستانی اردو بولنے والوں کو بابو لوگ یعنی پڑھا لکھا اور شریف کہا کرتا تھا، بجا طور پہ ایسا تھا بھی اور اب بھی ہے۔

    کراچی ہمیشہ اپوزیشن کا شہر رہا، آمریت کے خلاف تحاریک چلائیں، ایوبی جبر کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، انہی دنوں سندھی، اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان ابتدائی تصادم ہوئے جس نے فضا میں تلخی بھر دی۔ یہ تلخی تب زہر میں تبدیل ہوئی جب کراچی کے سرسید کالج کی طالبہ بشری زیدی ایک بس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جاں بحق ہوئی، اس کے فوری بعد پشتون مہاجر خونی تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جو وقفے وقفے سے حالیہ آپریشن تک جاری رہا، بے گناہ مہاجر و پشتون اس جنگ کا ایندھن بنے. بعد میں آفاق احمد اور الطاف حسین کے کارکن مہاجروں کے باہمی قتل عام میں مصروف رہے، پنجابی و سندھی بھی اس لڑائی میں کام آئے. بعد ازاں پیپلز پارٹی کے تعاون سے بننے والی پیپلز امن کمیٹی نے مہاجر بلوچ تصادم کو عروج بخشا۔

    جنرل ضیاءالحق نے ایم کیو ایم تخلیق کی، چنانچہ ان سے ایم کیو ایم کے تعلقات بہتر رہے. انھوں نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں سندھو دیش کا نعرہ لگانے والے جی ایم سید اور مہاجر قومی موومنٹ کے الطاف حسین کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھا، بعد میں ایم کیو ایم ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن و ق کے ساتھ حکومتوں میں اپنا حصہ وصول کیا، اور اقتدار کے مکمل مزے لوٹے. پرویز مشرف جیسے آمر کا ایم کیو ایم نے ہر فورم پر بھرپور ساتھ دیا، لال مسجد آپریشن کی حمایت میں سب سے زیادہ مئوثر مہم الطاف حسین نے چلائی، عدلیہ مخالف تحریک کے روح رواں بھی متحدہ قائد ہی تھے۔ 12 مئی کے سانحے نے اسی سے جنم لیا.

    مہاجروں کو ملنے والی شناخت، پارلیمان میں نمائندگی اور نچلے طبقے کا ابھرنا، یہ وہ بنیادی وجوہات تھیں یا ہیں جس کی وجہ سے مہاجر الطاف حسین کے طلسم کے اسیر ہو کر رہے۔ یہ الگ پہلو ہے کہ اس دوران ایم کیوایم کی صف اول و دوم قیادت میں شامل رہنما و کارکن بدعنوانی، بھتہ خوری اور چائنہ کٹنگ کے ذریعے اربوں میں کھیلنے لگے۔ خوف ایم کیو ایم کا بڑا ہتھیار رہا، یہاں تک کہ ایم کیو ایم کارکن خود کو ہندی فلموں میں گینگسٹرز سے منسوب اصطلاح ’’ھائی لوگ‘‘ کے نام سے مخالفین میں خود کو متعارف کرانے میں خوشی محسوس کرتے تھے اور ہیں۔

    متحدہ کی نئی نسل اس بات سے بڑی حد تک لاعلم رہی کہ پارٹی کے ابتدائی نعروں میں مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین کی واپسی اور کوٹہ سسٹم کا خاتمہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ وہ تو پیدا ہی اسی نعرے کے ساتھ ہوئے کہ منزل نہیں رہنما چاہیے یا پھر ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف۔ حالیہ عرصے میں متحدہ نے دوبارہ کوٹہ سسٹم سے متعلق اپنے مطالبات کو دہرایا ہے لیکن اب یہ گئے وقت کو آواز دینے جیسا ہے۔

    ایم کیو ایم کے قیام سے قبل یقیناً دیگر چھوٹی قومیتوں کی طرح مہاجروں کے بھی بہت سے مطالبات جائز تھے. حکومتی و سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی شکایات تھیں کہ سرکاری نوکریوں میں حصہ نہیں دیا جاتا، نفرت و تضحیک کا رویہ رکھا جاتا ہے مگر اس میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دنوں کراچی کا شہری، تعلیمی اور طبی نظام آج سے لاکھ درجے بہتر تھا، یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس شہر میں کبھی ٹرام چلتی تھی اب وہاں چنگچی پر گزارا ہے.

    گزرے 30 برسوں کا غیرجانبدار ہو کر مطالعہ کیا جائے تو چند ہولناک حقائق سر اٹھائے کھڑے ہیں مثلاً کراچی کا تعلیمی، طبی اور تہذیبی قتل عام ہوا ہے، نسلی و لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھنے والے ہزاروں انسانوں کا تو ذکر ہی نہ کریں، اپنی پالیسی کے مطابق سرکاری اداروں میں متحدہ نے کارکن بھر دیے جن کی پہلی ذمہ داری پارٹی و قائد سے وفاداری وغیرہ تھی اور بعد میں عوامی خدمت۔ ایم کیو ایم کی قوت کی وجہ سے کسی افسر میں جرات نہیں تھی کہ پارٹی کارکن نما سرکاری ملازمین کی غیر حاضری، دفتر میں سیاسی سرگرمیوں اور چندہ وصولی سیمت دیگر اقدامات کی پوچھ گچھ کرے. نتیجہ یہ ہوا کہ تمام شہری ادارے بری طرح سے برباد ہوگئے، میرٹ کی دھجیاں ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے مل کر اڑائیں، جواب دہی کے احساس سے برات نے کارکنوں کے وارے نیارے کردیے۔

    گو کہ ان اداروں کی تباہی میں پیپلزپارٹی کا بھی مکمل ہاتھ رہا، لیکن پڑھے لکھے ہونے کا دعوی متحدہ کا ہے تو اسی مناسبت سے قصور اس کا زیادہ ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی جرم یا گناہ کو محض اس بنیاد پر درست نہیں قرار دسکتے کہ فلاں شخص، جماعت یا قومیت بھی تو ایسا کرتی ہے، یہی تو پڑھے لکھے اور جاہل میں فرق ہے، ویسے یہ الگ پہلو ہے کہ ان اداروں میں دونوں جماعتوں نے مل کر بدعنوانی کی اور بہت ہی خوب کی۔

    مشرف حکومت متحدہ کا سنہری دور کہلاتا ہے، جب مری ہوئی ایم کیو ایم میں آمر نے سیاسی روح پھونکی. اس دوران کوٹہ سسٹم اور محصورین کا معاملہ نمٹ سکتا تھا لیکن تب تک پارٹی کی ترجیحات تبدیل ہوچکی تھیں اور سوائے پیسہ بنانے کے کسی دوسرے معاملے میں دلچسپی نہ رہی تھی. ان دنوں بابر غوری کے زمینوں پر قبضے کے چرچے اتنے عام تھے کہ خود پارٹی کے حلقوں میں ان علاقوں کو غوری آباد کے نام سے یاد کیا جاتا، جہاں انہوں نے رہائشی و تجارتی عمارتیں کھڑی کر رکھی تھیں۔

    حالیہ آپریشن جو کہ لگ بھگ دو سال قبل شروع ہوا ، کے آغاز میں ایک دوست کا خیال تھا کہ متحدہ شدید ردعمل ظاہر کرے گی، اس کے خیال میں یہ 1992ء کی متحدہ تھی. لیکن وہ فیز مکمل طور پہ گزر چکا، تب ریاست سے لڑنے والوں کی اکثریت ماری گئی یا فرار ہوگئی اور جو چھوٹے کارکن تھے انہیں پیسوں کی اتنی لت لگ چکی کہ کم از کم ریاست سے لڑنے کا ان میں دم نہیں. متحدہ کا اس آپریشن پر سب سے بڑا ری ایکشن میڈیا گھروں پہ حملہ تھا جو کہ اپنی اصل میں خود متحدہ ہی پر حملہ تصور ہوا۔ باوجود اس کے کہ کارکن الطاف حسین سے عقیدت رکھتا ہے لیکن کم از کم اب اس حوالے سے بندوق اٹھانا ممکن نہیں رہا. بلوچ عسکریت پسند یا طالبان جس طرح ریاست سے ٹکرائے، اس کے لیے صرف بیرونی امداد کافی نہیں ہوتی، مذہبی یا قوم پرستانہ جذبے کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، جو کہ بلوچ اور طالبان میں نظر آیا، جبھی ان پر قابو پانے کے لیے ریاست کو ایک خوفناک جنگ لڑنا پڑی۔

    ایم کیو ایم کی دہشت گردی اس نوعیت کی تھی کہ کنڈیکٹر مار دیا، چوکیدار یا مزدور کو موت نیند سلادیا، مخالف سیاسی کارکن کو قتل کردیا، ماضی کی بات اور تھی جب ایم کیو ایم نے فوج و سرکاری ملازمین پر حملے کیے یا ان پولیس والوں کا قتل عام کیا جو اس کے خلاف آپریشن کا حصہ بنے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان میں سے بیشتر قاتل پکڑے گئے یا وہ ملک سے فرار ہیں، البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان واقعات کے بعد پولیس فورس کا مورال گر گیا اور چوہدری اسلم جیسے افسر نے بھی ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ کیا اور ترقی پائی۔

    الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقاریر کے بعد جس طرح فاروق ستار نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، اس پر ہمارے بعض حلقے مطمئن نہیں ہو رہے اور اسے چال قرار دیا جارہا ہے. حالات کا تجزیہ کیا جائے تو فی الحال یہی بہترین پالیسی ہے کہ اصل ایم کیو ایم کو نہایت حکمت کے ساتھ الطاف حسین سے الگ کردیا جائے بظاہر فاروق ستار یہی کر رہے ہیں. ہاں کل کو اس میں کوئی ڈرامہ نکلا تو پھر ہمارے ادارے ہر طرح کے اقدام کے مجاز ہوں گے، کوئی ان پہ انگلی نہیں اٹھاسکے گا. درحقیقت یہ پاکستان میں موجود قیادت کو موقع فراہم کرنے جیسا ہے. یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین ہے اور الطاف حسین ایم کیو ایم، لیکن اس بار معاملات قدرے مختلف ہیں.ر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کا عام ورکر الطاف حسین کو ساری خامیوں کے باوجود مائی باپ سمجھتا ہے، ایسے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ فاروق ستار کی ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ بہت سی باتیں صرف سوچی جاسکتی ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ کیا عام مہاجر ووٹر فاروق ستار کے اس فیصلے کی تائید کرےگا؟ کیونکہ ووٹرز ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ الطاف حسین کا بہرحال عقیدت مند ہے. ایم کیو ایم کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے الطاف حسین کے خلاف کی جانے والی کسی بھی بات کو براہ راست مہاجر مخالفت سے جوڑ دیا، باوجود اس کے کہ ایم کیو ایم ہی مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن یہ بھی خام خیالی ہے کہ ہر مہاجر الطاف حسین کا حامی ہے۔

    اس سارے تناطر میں اس بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مہاجر چاہے ایم کیو ایم میں ہو یا نہ ہو، وہ بغیر کسی شک کے اسلام اور پاکستان سے محبت کرتا ہے، اس کا ثبوت گزرا یوم آزادی ہے جسے کراچی کے مہاجروں نے اس انداز سے منایا کہ لطف آگیا۔

    اس سارے کھیل میں سب سے بڑا سبق ہمارے مقتدر اداروں کے لیے ہے کہ کل جس متحدہ کو پروان چڑھایا، آج وہی گلے کی ہڈی بن چکی ہے. کاش کہ حال و مستقبل میں ایسی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا جائے. اسی میں پاکستان، عوام، ریاست اور سیاست کی بہتری ہے۔