Tag: سماج

  • آنے والا دور عورتوں کا ہے – روبینہ فرید

    آنے والا دور عورتوں کا ہے – روبینہ فرید

    کیا سماج کے دانشوروں کو یہ بات آج پتہ چلی ہے کہ ”آنے والا دور عورتوں کا ہے؟“ کیا وہ یہ بات تسلیم کریں گے کہ سالوں پہلے این جی اوز اور امریکن سفارتخانے نے عورتوں کی قوت و اختیارات کے جس نظریے کی کاشت کا عمل شروع کیا تھا، وہ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کرا سکا اور سماج کے اہل دانش نے اسے معمول کا عمل جان کر اس کے اثرات کا اندازہ لگانے میں وہی غفلت برتی جو پاکستانی معاشرے کے مرد اپنی عورتوں کے بارے میں برتتے چلے آئے ہیں۔

    اپنے مطلوبہ اہداف کا شجر اگانے کے لیے خاموشی سے معاشرے اور ذہنوں کی زمینوں میں نظریے کے بیج بوئے جاتے ہیں، مستقل مزاجی سے ان کو نعروں اور سلوگنز کا پانی دیا جاتا ہے۔ دنیاوی مناصب و آسائشات کے لالچ کی کھاد ڈالی جاتی ہے، مزاحم قوتوں کی جڑی بوٹیوں کو الزامات و جارحانہ اقدامات کی کھرپی سے اکھاڑا جاتا ہے۔ مصنوعی خلوص کی گرمی فراہم کی جاتی ہے تب وہ نظریہ جڑ پکڑتا ہے۔ پھوٹنے والی کونپل کو ہر سرد وگرم سے بچایا جاتا ہے یہاں تک کہ کونپل بنیاد مضبوط کر لیتی ہے اور پھر شجر کا اگنا کچھ عرصے کی بات رہ جاتی ہے۔ کسی بھی سماج میں کسی سوچ اور نظریے کو برگ و بار لانے میں آٹھ دس سال کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے اور مزید آٹھ دس سال بعد اس کے اثرات رنگ لانے لگتے ہیں۔

    بیجنگ کانفرنس، بیجنگ 5+ کانفرنس، CEDAW، GRAP اور ملینئیم گول کے نام سے عورت کی کلی آزادی و اختیارات کی سوچ اگرچہ پوری دنیا کی عورتوں کی دی گئی لیکن مسلم ممالک کی عورتیں اس کا خاص ہدف بنائی گئیں جہاں خاندانی نظام کی مضبوطی کو اہل باطل نے اپنے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔

    پاکستانی عورت کو اللہ نے بہترین صفات سے نوازا۔ خلوص، وفا، محبت، قناعت، محنت جس کا ورثہ تھے جو عزت دینے والی اور گھروں اور دلوں کو جوڑ کر رکھنے والی تھی۔ اللہ نے اپنی شریعت میں عورت کو ہر طرح کا معاشرتی و معاشی تحفظ فراہم کیا لیکن ہمارے معاشرے کے مردوں نے اسے سختی سے اپنے زیر اثر رکھنے کو اپنا حق سمجھا۔ اللہ نے مرد کو قوام بنا کر عورت کا محافظ بنایا تھا لیکن مرد عورت کے حاکم بن گئے۔
    لڑکیوں نے آگے پڑھنا چاہا تو کہا گیا ”تمہیں اتنا پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آگے جا کر گھر داری ہی تو کرنی ہے۔“
    شادی ہو گئی تو شوہر نے جانا کہ مہر تو بس طلاق کے وقت ہی دیا جانے والا حق ہے، نان نفقہ کی خواہش کی تو جواب ملا کہ ”جب ساری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں تو الگ سے پیسوں کی ضرورت کیوں ہے؟“
    وراثت تقسیم ہوئی تو بھائیوں نے کہا ”بہنیں جہیز لے چکیں اب انہیں وراثت کی کیا ضرورت ہے؟“
    گھر میں سب سے پہلے اٹھنے اور سب سے آخر میں سونے والی ہستی سے جہاں خدمت میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو فورا یہ تلخ جملے سننے کو ملے کہ ”تم گھر میں رہ کر آخر کرتی کیا ہو؟“
    کسی بات میں اپنی رائے دینے کی جسارت کی تو سننے کو ملا کہ ”تمہیں باہر کا کیا پتہ، اپنے گھر کی خبر لو۔“
    مرد نے اپنے کما کر لانے کو اپنا ایسا فخر گردانا کہ گھر بیٹھی عورت کی ساری کارگزاری اس کے آگے حقیر ٹھہری اور یہ بھول گیا کہ کمانا ہی سب سے بڑا کام تھا تو اللہ نے ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ کیوں رکھا؟

    اللہ نے مرد و عورت کو یکساں عزت و احترام کا مستحق ٹھہرایا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورت اکثر و بیشتر اس حق سے محروم ہی پائی گئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل سے دوری رہی۔ البتہ وہ گھرانے جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے رشتوں کو نبھاتے رہے، رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جہاں باپ بیٹی کا ماتھا چومنے والے، بیوی کو عزت و احترام دینے والے، والدین کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں وہاں اولاد بھی سعادت مند اور فرمانبردار ہوتی ہے۔ لیکن معاشرے کی اکثریت عورت کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار رہی ہے۔ جب عورت کے صبر، ایثار، قربانی اور قناعت کو اس کی مجبوری سمجھ لیا گیا تو ایسے میں جب اس کے سامنے ایسے مسیحا آئے جنہوں نے اس کے حقوق، اس کی آزادی، اس کے اختیارات کی بات کی تو اس کی آنکھوں میں تو خوابوں کا ابھرنا لازمی امر تھا۔ کوئی غنیم نقب نہیں لگا سکتا جب تک قلعہ کی فصیل کمزور نہ ہو۔ اور جب اس طرح ایک دبایا جانے والا سپرنگ وزن سے آزادی پاتا ہے تو اپنی اصل سے بھی باہر نکل جاتا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کی عورتوں نے آزادی کی راہ پر چلنا شروع کیا تو آج وہ ہمیں حد اعتدال سے باہر جاتی نظر آ رہی ہیں۔ مائوں نے سوچا کہ جو خوشی اور حقوق ہم نہ پا سکے چلو وہ ہماری بیٹیاں تو پا لیں۔ سماج کے دانشوروں کو آنکھوں کی پتلیاں نہ دھونی پڑتیں اگر وہ اس بیس سال کے عرصے میں عورت کو اسلام کے عطا کردہ تمام حقوق عطا کرنے کی مہم چلا دیتے۔ اس کے گھر اور بچے سنبھالنے اور چلانے پر اس کی قدردانی کرتے۔ اس کے حاکم بننے کے بجائے محافظ بنتے۔ اس کے لیے اس کی فطرت کے مطابق نصاب تعلیم تشکیل دیتے، اس کی کچھ کر گزرنے کی خواہش کے لیے ایسے ادارے بناتے جہاں وہ اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہوتی۔ اس کو وہ عزت اور احترام دیتے جس کی وہ مستحق تھی۔

    المیہ تو یہ ہے کہ ترقی و آزادی کے جس سراب کے پیچھے پاکستانی عورت بھاگ رہی ہے وہاں پہنچ کر بھی اس کی تشنگی ختم نہیں ہو گی۔ حاکمیت عورت کی فطرت کے خلاف ہے۔ وہ اپنے مرد کو ہمیشہ اپنے سے اوپر اور اپنا محافظ دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ مرد تو میٹرک پاس بیوی کے ساتھ بھی ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکتا ہے اور کر لیتا ہے لیکن ایک اعلی تعلیم یافتہ لڑکی ایک کم پڑھے لکھے مرد کے ساتھ ذہنی مطابقت پیدا نہیں کر پاتی۔ آج جبکہ لڑکیاں تعلیم کے ہر شعبہ میں اپنی فوقیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں اور معاش کی دوڑ میں مردوں سے آگے نکلتی جا رہی ہیں، اس امر سے غافل ہیں کہ اس طرح معاشرے میں خاندان نہ بن سکنے، شادیاں نہ ہونے یا شادیاں قائم نہ رہ جانے کا خلا پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج معاشی خود انحصاری کے زعم میں گرفتار عورت گھر کو قائم رکھنے کے لیے ایثار و قربانی و مصالحت کے جذبوں سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ یہ صفات اس کا اثاثہ تھیں۔ مردوں کے دائرے میں آ کر ان کا مقابلہ کرنے کی خواہش نے اس میں مردانہ پن اور مردوں کے کمزور کاندھوں نے اس کے اندر زنانہ پن پیدا کر دیا ہے جو معاشرے کی تباہی کی علامت ہے۔ اہل دانش تو بہت پہلے بتا گئے ہیں کہ
    جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
    اس علم کو کہتے ہیں ارباب نظر موت

    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی کونسلنگ کی جائے۔ ان پر حقیقی خوشی اور کامیابی کے تصور کو واضح کیا جائے۔ نصاب تعلیم میں معاشرے کی ضرورت کے مطابق عنوانات کو شامل کیا جائے۔ خاندانی نظام کی اہمیت اور قدر و قیمت کو ان کو سامنے لایا جائے اور ایسا نظام بنایا جائے جہاں اگر عورت اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہے تو اپنے خاندان کے ساتھ جڑے رہ کر بھی کام کر سکے۔ اسلام کے عطا کردہ تحفظ اور حقوق کی ادائیگی کو اجتماعی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ مادی ترقی سے زیادہ روحانی ترقی کو ہدف بنایا جائے۔ اور اس بات کا سبق دیا جائے کہ خوشی پیسے میں نہیں، نیکی میں پوشیدہ ہے۔

    (روبینہ فرید کیمسٹری اور اسلامیات میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں، ورکنگ ویمن کی فلاح کے لیے کام کرنے والی این جی او سے گذشتہ سولہ سال سے وابستہ ہیں، خواتین کی آگہی و شعور میں اضافہ کے لیے تدریسی اور تحریری محاذ پر سرگرم مصنفہ ہیں، دو کتابیں مرتب کر کے شائع کیں۔ سماجی مسائل اور عورت کے موضوع پر پچھلے بیس سال سے قلمی جدوجہد میں مصروف ہیں)

  • تضادات کے ملبے تلے دبی قوم – ساجد ناموس

    تضادات کے ملبے تلے دبی قوم – ساجد ناموس

    ساجد ناموس سی پی این ای کا لاہور میں اجلاس تھا جس میں خبریں گروپ کے سربراہ ضیاء شاہد نے کہا کہ ایسے ملازمین جو معاشی طور پر کمزور ہیں، ان کو مستحکم کر نے کے لیے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا سے وابستہ حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ صحافتی کارکنان کا معاشی طور پر سب سے زیادہ استحصال اگر کسی ادارے میں ہوا ہے، تو وہ خود ضیاء شاہد کا ملکیتی خبریں گروپ ہے۔
    عمران خان نے کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر رکھی ہے، جبکہ کرپشن میں لتھڑے لوگ ان کے دائیں بائیں ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔
    مولانا طاہر اشرفی چیئرمین علماء کونسل ہیں، یعنی کہ معاشرے کی اصلاح کے ٹھیکیدار، اور کس کو نہیں کہ کیا چیز ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے، اور کس کے نشے میں مدہوش وہ کئی دفعہ سڑک پر پائے گئے ہیں۔
    ملک میں موجود سیاسی جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی کے ) جمہوریت کا اتنا راگ الاپتی ہیں کہ سن سن کر کان پک گئے ہیں اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ جمہوریت تو پارٹیوں میں نہیں ہے، ون مین شو کے زیراثر پارٹیاں اپنی سوچ میں جمہوری خیال نہیں لا سکتیں، حقیقی جمہوریت کی توقع بے سود ہے۔
    پہلے ”بناتے“ ہیں ، پھر ”ختم“ کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں اور دوسری صورت (ختم کرنے کی صورت میں ) میں ملک بھر سے تحسین بھی سمیٹی جاتی ہے۔ فاٹا سے کراچی تک اس کی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی سوال کر لے کہ بنایا ہی کیوں تھا؟ تو غداری کا سرٹیفیکٹ تھما دیا جاتا ہے، یعنی سوال تک سننے کے رودار نہیں۔
    ملک کے وزیراعظم کی ذاتی ”اسٹیل ملیں“ کامیاب اور نفع دے رہی ہیں، اور ملک کی ”اسٹیل مل“ خسارے میں ہے اور ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
    وزیراعلی پنجاب سادگی اور کفایت شعاری کا جتنا چرچا کرتے ہیں، لیکن قومی خزانے سے شریف خاندان کی سکیورٹی پر آٹھ سال میں سات ارب سے زائد رقم لگائی جا چکی ہے۔
    کسان پیکیج کے نام سے ملک بھر میں جتنے اشتہار پنجاب حکومت نے دیے، اتنے ہی مظاہرے کسانوں کے پنجاب حکومت کے خلاف ہوئے ہیں۔
    بلاول زرداری ایسے وقت میں سندھ فیسٹیول پر اربوں خرچ کر رہے ہیں جب تھر میں بھوک سے بلکتے بچے مر رہے تھے۔

    یہ ایک سطحی سا خاکہ ہے، ان تضادات کا جو آئے روز ہم دیکھتے، سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن ملکی سطح پر سیاسی جماعتیں اور ادارے ہی تضادات کا شکار نہیں ہیں، بلکہ پورا سماج تضادات میں لتھڑا نظر آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تضاد ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اس کو بغیر کسی کڑواہٹ یا تلخی کے قبول کر لیا گیا ہے۔ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے، اور رویوں اور فکرمیں تبدیلی نہ لائی گئی تو ہم اپنے ہی تضادات کے ملبے تلے دب جائیں گے۔

    (ساجد ناموس دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں)

  • سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے – قاسم یعقوب

    سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے – قاسم یعقوب

    میں ایک ادبی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوں۔ میں جہاں معیاری ادب کی تلاش میں رہتا ہوں وہیں مجھے ادب کے اُن قارئین کی تلاش بھی رہتی ہے جو ادب کے معیاری پن کی کھوج میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی بھی میرے بنیادی وظیفے میں شامل ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے تئیں نئے لکھنے والوں کی ایک کہکشاں متعارف کروائی اور ان کو بڑے لکھاریوں کے ساتھ شائع کر کے ایک ادبی ’’کُل‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ گذشتہ ایک دو ہی سالوں سے’’ بلاگ کلچر‘‘ نے ادبی رسالوں کے مقابل ایک میڈیا کا روپ دھار لیا ہے۔ ادبی قاری ہونے کے ناطے مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم ادب کی بہتر سے بہتر انداز میں ترویج کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے بلاگ کلچر خالصتاً ادبی کلچر کے بطن سے نمودار تحریک نہیں تھی، یہ تو سماجیاتی عمل کے اخباری مزاج کو اپنا موضوع بنا رہی تھی جس کی زد میں ادب بھی آ گیا یا ادب نے کُود کے اس عمل کاری میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ادب کا حسن یہی ہے کہ وہ سماج اور معاشرت کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور اپنے فرد کی ہر سطح پر تشفی کرتا ہے۔ ادیب جو ایک ادبی تخلیقی کارگزاری سے پہلے، باقاعدہ طور پرسماجی تحرکات سے گزرتا ہے اس لیے سماجی عمل سے دور نہیں رہ سکتا۔

    میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ادب کے ساتھ ساتھ سماجی تحرکات میں بھی حصہ لینا چاہیے تا کہ ادبی عمل کو سماج کے آئینے میں سمجھنے کی عادت پیدا ہو سکے۔ جب بلاگ کلچر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو یہاں ہم ادیب لوگ بالکل اجنبی تھے۔ (ادبی میلہ کراچی میں ویب سائٹ یا بلاگ کلچر پر ایک مذاکرہ بھی کروایا گیا جس پر آصف فرخی صاحب سے ہلکی سی گفتگو بھی ہوئی) بلاگ کلچر پر صحافیانہ کلچر حاوی تھا، جس میں ادب، تاریخ، سماجیات اور تہذیب کے مباحث نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہٰذا مجھے سب سے پہلے حوصلہ شکن پیغام یہ ملا کہ آپ کسی بھی ویب سائٹ بلاگ کے لیے لکھنے کے قابل نہیں۔ یہ میرے لیے انکشاف سے کم نہ تھا۔ اور یہ پیغام مجھے اُس صحافی نے دیا جو خود کو ایک ادیب گنوانے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہا ہے۔

    ایک معروف ویب سائٹ جس پر ایک مخصوص گروپ کی نظریاتی چھاپ واضح طور پر نظر آرہی ہے، نے مجھے ٹھینگا دکھایا تو میں نے اپنے آپ کو دوبارہ سے دیکھنا شروع کیا بلکہ خود کو ازسرنَو ترتیب دیا۔ جیسے سانپ والی لڈو میں اٹھانوے پر ایک دم آپ چار پہ پہنچ جائیں۔ میرے لیے یہ توہین آمیز دھچکا بہت سے معیارات اور نظریات کو جمع کرنے کا باعث بنا۔ میں کئی عرصے تک یہ سوچتا رہا کہ ادب کی تنہائی (Isolation) کا مجھ جیسا ایک حقیر سا کردار جس طرح کے توہین آمیزعملِ رد (Rejection) سے گزرا ہے، سماج کا ایسا طبقہ جو ادب و فنون سے مکمل بے بہرہ ہے، وہ تہذیبی عمل کے اس گراں تخلیقی کام کو کس قدر بےکار اور فضول تصور کرتا ہوگا.

    سو میں نے اس صحافیانہ کلچر میں ادبی عمل کاری کا بیڑہ اُٹھایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے میرے کولیگ یاسر چٹھہ اور فیاض ندیم نے جس طرح خوش آمدید کہا بلکہ مجھے بہت کچھ سکھایا، وہ میری زندگی کی ایک انوکھی مثال ہے۔

    میں سوال یہ اٹھانا چاہ رہا ہوں کہ ادبی اور صحافیانہ عمل میں اتنا بُعد کیوں آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کام اور معیار کو بھی سمجھنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ یقین مانیے ہمارے ادبیوں کو بالکل بھی سماجیاتی عمل میں مصروف دانش ورانہ (صحافیانہ نہیں) کارگزاریوں کا علم نہیں اور اسی طرح بےچارے صحافیوں کو عام تو کیا بڑے بڑے ادیبوں کے کاموں کا علم نہیں۔ میں ’’جاننے‘‘ پر زور اس لیے دے رہا ہوں کیوں کہ تبھی ہم ایک دوسرے سے سماج کی نظریاتی گرہ کشائیوں کی مدد لے سکتے ہیں ورنہ ہم تو خلا میں معلق رہیں گے۔

    ایک وقت تھا جب وزیر آغا، احمد ندیم قاسمی اور فیض جیسے ادبا باقاعدہ سماجیات کی تشکیل کر رہے تھے اور عملی طور پر پہلے ادیب تھے۔ کیا آپ کو یاد نہیں رہا کہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ جو آج کے ڈان جیسا اخبار تھا، فیض اُس کی ادارت کرتے تھے اور ’’امروز‘‘ کی ادارت احمد ندیم قاسمی کرتے تھے۔ وزیر آغا، ظہیر کاشمیری، سجاد ظہیر، ممتاز شیریں، حسن عسکری، جمیل جالبی وغیرہ پاکستانی شناخت کی بحثیں بنا رہے تھے۔

    آج کا صحافی اتنا نابلد ہے کہ اُسے چند مشہور ادیبوں کے صرف ناموں کے علاوہ ادب کا کچھ نہیں پتا اور دوسری طرف ادبا سماجیات کے عمل سے اتنے کورے کہ سماج کے کسی بھی مسئلے یا کرائسس پہ بات کرنا ایک فضول اور غیر ضروری عمل قرار دیتے آ رہے ہیں۔

    مشہور ویب سائٹ کے ’’بانی حضرت‘‘ کبھی کبھار ادبی بننے کی کوشش کرتے بھی ہیں مگر اُن کے ’’گروہی‘‘ سیاسی انداز سے مکالمہ مشکل ہو رہا ہے۔ چند مخصوص قسم کے نظریات سے مکالمے کھلنے والا نہیں بلکہ باقاعدہ نظریہ سازی کی ضرورت ہے۔ ادبی جمالیات و فنون کی’’ گھٹی‘‘ انھوں نے لینی نہیں اور گروہ بازی بھی انھوں نے چھوڑنی نہیں۔ اُن کے لکھاریوں پہ بعض اوقات ہنسی آتی ہے، اُن کا رویہ بالکل ’’مریدانہ‘‘ سا ہو گیا ہے۔ بس درخواست اتنی سی ہے کہ سماجیات عمل اُس وقت نامکمل سا ہے جب تک ادب و تہذیب کے عملِ مراقبہ سے نہ گزرا جائے ورنہ صرف خبریں رہ جائیں گی۔ خدا کے لیے خبروں سے باہر آئیں اور سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے۔

    (قاسم یعقوب اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

  • عورت اور ہمارا سماج – سحر فاروق

    عورت اور ہمارا سماج – سحر فاروق

    سحر فاروق رنگ جھلسا دینے والی دھوپ کا وقت نکال کر شام کے سہانے موسم میں برانڈڈ کپڑے، مہنگے پرفیوم اورشہر کے بہترین سیلون سے میک اوور لینے کے بعد جب چند خواتین کو پاکستان میں عورت کے حقوق کے لیے سڑک پر دیکھتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ انسان اپنے تجربات پر ہی ردِ عمل یا اپنے خیالات کا اظہار مدلل انداز میں کرسکتا ہے، پھر گمان اچھا کرنے کی کوشش مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ سماج کے سدھار کی کوشش ہے جو پاکستان میں ہونے والے چند واقعات کے عوض (جو نہ ان خواتین کے ساتھ بیتے ہیں اور نہ ہی ہمارے عمومی سماج کے عکاس ہیں) کی جا رہی ہے۔

    ہمارا عمومی سماج عورت کے ساتھ اتنا خونخوار اور ڈرائونا نہیں ہے کہ اب استحصال کا لفظ عورت کے ساتھ بطور اصطلاح جڑا محسوس ہونے لگا ہے، لیکن معاشرہ صرف فرشتوں پر مبنی بھی نہیں ہے۔ تو صرف ان حساس دل چیر دینے والے واقعات کا ذکر ہی کیوں؟ عورت کا تقدس پامال کرنے والے واقعات کا پرچار اور تشہیر تو تصویر کا ایک رخ ہے، ان واقعات کی شرح بھی بہت کم ہے اور جن علاقوں میں ہے، وہاں وجہ تعلیم اور شعور کی کمی اور تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارا سماج الحمدللہ دیگر معاشروں اور خود مسلمان ممالک سے بھی کئی گنا بہتر ہے۔ عورت کی تکریم باقی ہے، پورے پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتیں کے لیے علیحدہ کمپارٹمنٹ بنے ہیں، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی، خاتون کو کھڑا دیکھ کر مرد بھی اپنی نشست خالی کردیتے ہیں. دورانِ ڈرائیونگ سامنے سڑک پر خاتون ہو تو رفتار کم کرلینا، عورت سودا سلف لینے نکلے تو دکاندار کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے خاتون کو فارغ کیا جائے، گیس بجلی کے بل کی علیحدہ قطاریں، حاملہ خواتیں مسافر ہونے کی صورت میں رکشہ ٹیکسی ڈرائیور احتیاط برتتے ہیں. عورت کو باجی، خالہ اور اماں کے نام سے پکارتے ہیں۔ حجاب کی عزت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

    یہ سب اسی پاکستان کی مثالیں ہیں اور ہمارے سماج کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے۔ میٹرک اور انٹر میں لڑکیوں کا پوزیشن لینا، جامعات میں بڑھتی تعداد کس استحصال کی غماز ہے؟ آپ اپنے گھر کا ہی جائزہ لیں، بیٹے سے پہلے بیٹی کی پسند ناپسندکا خیال نہیں رکھتے، وہ زمانہ جا چکا جب لڑکوں کو ترجیح دی جاتی تھی. تو پھر اور کون سے حقوق ہیں جو حاصل کرنا رہ گئے ہیں اور ان کا اتنا رونا ہے کہ سماج کے اچھے رویے ہمیں نظر ہی نہیں آتے یا آتے بھی ہیں توکسی مقصد کے تحت پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

  • اردو بلاگنگ کو درپیش چیلنجز – کاشف نصیر

    اردو بلاگنگ کو درپیش چیلنجز – کاشف نصیر

    کاشف نصیربرادرم رمضان رفیق سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنے والے ہمارے چند دوستوں میں سے ایک ہیں- دو روز قبل ان کی ڈینمارک سے کال آئی تو ہمارے یہاں رائج اردو بلاگنگ اور انکی کتاب “بے لاگ” کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا. بلاگستان میں آزاد یا انفرادی بلاگنگ کے زوال، بڑے میڈیا گروپس کے بلاگز سیشن، نظریاتی ڈھول باجے کے ساتھ سوشل میڈیا کی ارباب دانش کو اپنے سحر میں اڑا لے جانے والی ویب سائٹس اور ٹی وی چینلز کا ضمنی منجن بن جانے والی ہماری عمومی کیفیت پر وہ شدید مضطرب تھے. آج صبح معروف کالم نگار برادرم آصف محمود کی بھی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے انھی چیلنجز میں سے ایک “نظریاتی کشکمش” کو موضوع بنایا تھا.

    میں نظریاتی مباحث کے ہرگز خلاف نہیں. سماج کی نشوونما میں نظریات بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بطور قوم مسلسل نظریاتی کشکمش میں الجھے رہنا ہرگز فائدے کا سودا نہیں ہے. ہمارے یہاں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں سوشلزم اور اسلامزم کے افکار پر طلبہ انجمن سے لے کر لیبر یونین تک اور طبقہ علماء سے لے کر ارباب ادب تک ایک رسہ کشی کا ماحول تھا، اب لبرلزم اور اسلامزم کی جنگ اپنے زوروں پر ہے- برسرزمین اس ساری مشق کا حاصل یہ ہے کہ نہ کبھی سوشلسٹ اقتدار میں آسکے نہ اسلام پسند اور مستقبل میں لبرلز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں- ہماری معروضات یہ ہیں کہ لوگ نظریات پر ووٹ نہیں دیتے لیکن ناجانے کیوں اہل دانش پھر بھی نظریات کے ترانے کو صبح و شام بجانا خود پر واجب سمجھتے ہیں. ہمارے سامنے ترکی اور ملائیشیا ایسے سماج کی مثالیں ہیں، وہاں عملیت پیش پیش ہے اور نظریات پس منظر میں مستعد.

    پاکستان میں بلاگنگ کو نظریاتی جنگ کے علاوہ جو چیلنجز درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑھ کر انفرادی و موضوعاتی بلاگنگ کا زوال اور مین اسٹریم میڈیا کے منفی اثرات ہیں. کوئی 12 سال ہوتے ہیں کہ اردو بلاگنگ کا سلسلہ شروع ہوا. اس زمانے میں ہم کئی ایسے بلاگ دیکھتے تھے جو اپنے اردگرد کی حقیقی زندگی کو موضوع بحث بناتے یا تخلیقی دنیا میں تخیل کی پرواز بھرتے. فیس بک کے پہلے کی یہ دنیا عجیب تھی، لکھنا ہر ایک کا یارا نہ تھا. زیادہ تر لکھنے والے آئی ٹی ماہرین ہوا کرتے تھے، زبان و بیان کے اعتبار سے وہ کوئی عمدہ ترین تخلیق کا باعث ہرگز نہ تھے لیکن ابلاغ اور تحریر کے میدان میں انھوں نے گلی محلوں اور گائوں دیہات کے شب و روز کو شامل کیا. ہماری بدقسمتی ہے کہ رفتہ رفتہ ایسے بلاگ اجڑتے گئے اور ان کی جگہ تنازعات کی تجارت شروع ہوگئی. جتنی تیزی سے انٹرنیٹ ہماری اربن مڈل کلاس میں پھیلتا گیا، اتنی ہی تیزی سے ہمارے شہری زندگی کا مزاج یہاں بھی کثرت سے نظر آنے لگا. اب بلاگنگ گلی محلے، کالج یونیورسٹی اور نوکری کاروبار کے مسائل سے فرار اختیار کرکے نیوز ہیڈ لائن کے چٹخاروں پر مغز ماری، تنازعات کی دکان داری اور سیاسی رسہ کشی کا نام ہے.

    اربن مڈل کلاس اپنے مسائل سے کس قدر لاتعلق ہے، اس کا اندازہ یوں لگالیں کہ پچھلے دنوں میں نے ٹریفک مسائل، مرکزی داخلہ پالیسی، درختوں کی کٹائی اور کے الیکڑک ایسے موضوعات پر کافی محنت کرکے بلاگ تحریر کیے لیکن ان پر ٹریفک نہ ہونے ہے برابر تھی. دوسری طرف میری نظریاتی موضوعات پر سرسری تحاریر کو بھی اس سے کئی گنا زیادہ ٹریفک ملتی ہے. مغربی ممالک میں بلاگنگ پروفیشنلزم کے دور میں داخل ہوچکا ہے، طب سے لے کر طبیعات تک اور مذہب سے لے کر معیشت تک ہر موضوع پر مقامی زبانوں میں کام ہورہا ہے. اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اہداف طے کریں. کیا ہمیں لکھتے ہوئے ٹریفک اور لائیکس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یا سماج کی حقیقی ضرورتوں کو؟ کیا ہمیں نیوز ہیڈلائنز اور وائرل ٹیگز پر کام کرنا ہے یا اپنے روزمرہ کے مسائل پر؟ اسپشلائزیشن کے دور میں ہمیں موضوعاتی بلاگنگ کو جلا بخشنی ہے یا ہر ایک کو جنرل فزیشن بنادیا جائے؟ انفرادی بلاگ کے ذریعے آزادی اظہار کے دیے روشن کریں یا میڈیا گروپس کا ایندھن بن کر ایڈیٹر کی کینچی سے گزریں؟ اور یا بیانیے کے عنوان سے عملیت کا گلا گھونٹ کر تنازعات کی روٹی کھائیں؟
    اسمارٹ فون کی آمد کے بعد لکھنے اور پڑھنے کا رجحان ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکا ہے. ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور فیس بک کی بدولت قارئین اور لکھاری دونوں کی کمی نہیں رہی. یہی وجہ ہے کہ اخبارات کی محدود دنیا میں لکھنے والے ٹریڈ مارک دانشور بھی اب انٹرنیٹ کے لامحدود اسکوپ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں -گویا بلاگنگ کے لیے بھی یہ بہترین وقت ہے. ان حالات میں میں رمضان رفیق ایسے عملیت پسند لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے. کرک نامہ ہمارے پاس پروفیشنل بلاگنگ کی ایک زندہ مثال ہے. یہی وقت ہے کہ ان مثالوں کی پیروی کرتے ہوئے دلیل، عقلیت، عملیت پسندی اور پروفیشنلزم کا پرچم بلند کیا جائے۔

  • قندیل بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ فیض اللہ خان

    قندیل بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nقندیل کا نام آتے ہی ہمارے چہروں پہ طنزیہ مسکراھٹ اور لبوں پہ کڑوے کسیلے جملے آپوں آپ جگہ بنا لیتے تھے. اس کی حرکتوں سے کسی معقول آدمی کو دلچسپی نہیں تھی لیکن کیا کیجیے کہ ہر شریف آدمی اس کی ویڈیوز و تصاویر سے استفادہ ضرور کر رہا تھا.
    قندیل کے معاملے کو میں نے ہمیشہ مختلف تناظر میں دیکھا. پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی قندیل کی الگ ہی نفسیاتی الجھنیں تھیں. راویتی مرادنہ معاشرہ، غربت اور اس کی نہ پوری ہونے والی خواہشوں نے فوزیہ کو قندیل بلوچ میں تبدیل کیا اور یوں لطف، طنز و استہزاء، شیطنت اور غیرت کے اس سفر کا آغاز ہوا جس کا انجام کم از کم مجھے دکھی کرگیا.
    قندیل شہرت و دولت کی بھوکی تھی، کم و بیش ہر انسان ہی ایسا ہوتا ہے البتہ اس کے لیے جو راستہ اس نے اختیار کیا، اس کا اختتام زیادہ اچھا نہیں ہوتا. یورپ و امریکا میں درجنوں قندیلیں پائی جاتی ہیں لیکن وہاں کے معاشرے میں یہ سب معمول جیسی بات ہے البتہ ہمارے یہاں اس سے دھماکہ ہی ہونا تھا جو بالاخر ہو کر رہا

    میں قندیل کے بھائی سے زیادہ سماج و میڈیا کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہوں جن کی اکثریت اس سے لطف اندوز ہوتی رہی، اور آخر میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا ایس ایس پی رائو انوار جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کے ساتھ کیا کرتا ہے. ریٹنگ و مزے لیتے میڈیا اور معاشرے میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اس کی اصلاح کرتے، سید ھا راستہ دکھاتے. ہاں اب اس کی ھہاکت کے بعد غیرت ضرور جاگ گئی کہ اچھا ہوا اس کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا. قندیل کو قندیل ہم نے بنایا، اسے استعمال کیا، کہیں مفتی قوی کے تماشے تھے کہیں سہیل وڑائچ کے، کبھی عمران کی شادی پہ اسے میڈیا والے براہ راست لیتے تو کبھی ٹاک شوز کی زینت بنتی اور ان سب سے بچ جاتی تو سوشل میڈیا پہ ہم جیسے اس کی تصاویر و ویڈیوز ادھر ادھر کرکے وقت گزارا کرتے بھلا اس کے خدو خال و حرکتوں سے زیادہ مزیدار تبصرے اور کس چیز میں تھے ؟؟

    افسوس کہ جنوبی پنجاب کی فوزیہ کو مولانا طارق جمیل جیسا واعظ بھی نہ مل سکا جو اسے کسی ذاتی مقصد کے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا. قندیل سے دوبارہ فوزیہ بناتا، اس کے جائز مقام پہ پہنچاتا، اس کی آخری ہیجان انگیز ویڈیو کے بعد معاملات سنگین ہی تھے، اسے تو اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ جس آگ سے کھیلنے جارہی ہے، ایک دن اس کی لپیٹ میں آکر رھے گی.

    مجھے اس کی حرکتیں کبھی پسند نہیں تھیں لیکن مان لیجیے کہ یہ ہم جیسے ہی تھے جو اسے موضوع بحث بنا کر رکھتے اور یہی قندیل کا مقصد تھا جسے ہمارا سماج اور ہم مل کر پورا کر رھے تھے. قندیل اپنے روایتی معاشرے کے خلاف ایک بغاوت تھی جس نے ردعمل میں ایسا راستہ اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں خود ہی کو برباد کر ڈالا. ایسی عورت جسے علاج و توجہ کی ضرورت تھی اسے ہم نے تیزی سے فوخت ہونے والا کیک بنا ڈالا.

    وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہمارے اردگرد بہت سی قندیلیں موجود ہیں جنھیں ایسے معالجوں اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت ہے جو انھیں مسائل کے گرداب سے نکال سکیں اور حرص و ہوس کی دنیا سے بچا کر پاکیزہ ماحول کا حصہ بنائیں. اس سے پہلے بہت زیادہ ضروری ہوگا کہ ہم اپنے اندر چھپی غلاظت کی صفائی کریں تاکہ کل کو کوئی دوسری قندیل اس انجام تک نہ پہنچے اور اپنی زندگی جی لے. کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو خراب کردیتی ہے ، لیکن تالاب کی ساری مچھلیاں مل کر اسے سیدھا نہیں کرسکتیں؟