Tag: سسٹم

  • مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    taufiq butt

    مائی لارڈ!میں آپ کا شکرگزار ہوں 19سال بعد میرے کیس کا فیصلہ ہوگیا، میری پھانسی کی سزارد کرکے مجھے باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں تھا قدرت مجھے پہلے ہی ”بری“ کرچکی ہے، میرے انتقال کو دوبرس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہواِس ملک میں انصاف کا انتقال کب ہوا تھا ؟۔ مجھے پتہ تھا میں نے قتل نہیں کیا۔ اِس کیس میں مجھے پھنسایا گیا تھا۔ اِس کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج نے کی تھی۔ مجھے عدلیہ پرپورا اعتماد تھا۔ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے میرے پاس ٹھوس شواہد تھے۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا، میں بے گناہ ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وکیل کرسکوں، کچھ لوگ مجھے کہتے تھے وکیل کے ساتھ تمہیں کچھ اوربھی کرنا پڑے گا، ورنہ ساری زندگی انصاف کو ترستے رہو گے۔ بڑی مشکل سے میرے والدین نے گھر کا کچھ سامان بیچ کر وکیل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا اِس مقصد کے لئے میری ماں نے زیور بیچا تھا، باپ نے گھر گروی رکھا تھا،

    ہمارے حکمران اکثر کہتے ہیں ہم عوام کو سستا انصاف فراہم کریں گے۔ اِس کا مطلب ہے اُنہیں پتہ ہے انصاف مہنگا ہے۔ حکمران شاید چاہتے بھی یہی ہیں انصاف مہنگا ہو۔ ”سستا انصاف“ ہرکوئی خرید سکتا ہے، جبکہ ”مہنگا انصاف“ صرف حکمران خرید سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں، مجھے اپنی عدالت پر پورا یقین تھا، شاید اِس لئے کہ اِس سے قبل کِسی عدالت سے میرا واسطہ نہیں پڑا تھا، اب میں سوچتا ہوں میں ”عادی مجرم“ ہوتا تب بھی اپنی عدالت پر مجھے پورا یقین ہوتا۔ تب شاید عدالت میرے یقین پر پورا بھی اُتر جاتی۔ ایک بار جیل میں میرا ایک عزیز مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے جج سے متعلق کچھ ایسی بات کی کہ میں نے اُس کے منہ پر تھپڑ ماردیا، وہ چُپ کرکے چلا گیا۔ میرا وکیل مجھے پوری تسلی دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا ”ہم گناہ گاروں کو بچا لیتے ہیں، تم تو ویسے ہی بے گناہ ہو “۔ میں بھی یہی سوچتا تھا۔ میں جیل میں روروکر دعائیں مانگتا تھا ”اے میرے مالک تو سب جانتا ہے، تجھے سب پتہ ہے میں بے گناہ ہوں، پھراِس آزمائش سے مجھے نکال دے، یہ شاید کِسی اور گناہ کی سزا ہے، میرا وہ گناہ بخش دے “ ….ہربار نئی تاریخ مل جاتی،”تاریخ پہ تاریخ“ کے ”تاریخی کلچر“ کے بارے میں نے سنا ضرورتھا۔ اُس کا شکار خود ہوجاﺅں گا ، یہ نہیں سوچا تھا، ہر تاریخ پر میرا وکیل مجھ سے کہتا ”اگلی تاریخ پر تم بری ضرور ہو جاﺅ گے“۔

    اگلی تاریخ پر پھر نئی تاریخ مِل جاتی، جو لوگ جیل میں مجھ سے ملنے آتے اکثر مجھ سے کہتے ”پولیس کی طرح ہمارے کچھ وکیل بھی دونوں پارٹیوں سے پیسے پکڑ لیتے ہیں “۔ میں اُن سے کہتا ”کوئی اور وکیل کروں گا وہ بھی تو ”وکیل“ ہی ہوگا۔ پھر ایڈیشنل سیشن کورٹ سے میرا کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔ دوسری طرف جیل کی زندگی بھی اِک عذاب بن گئی تھی۔ ایک جیب عدالت میں کٹتی دوسری جیل میں کٹ جاتی تھی۔ میرے والدین نے جوکچھ بیچا تھا، اُس سے حاصل ہونے والی ساری رقم خرچ ہوگئی تھی، گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوگیا، پھر وہ بے چارے رشتہ داروں سے اُدھار مانگ مانگ کر ”تاریخےں“ بھگتتے رہے، پھر رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیے۔ وکیل صاحب کو پیسے ملنا بند ہوگئے، اُن کا رویہ بدل گیا، پہلے ہر تاریخ پر وہ خود جاتے تھے، پھر اُن کا منشی جانے لگا۔ آہستہ آہستہ منشی نے بھی جانا بند کردیا۔ جب تک جیل کے عملے کی جیبیں گرم ہوتی رہیں وہ مہربان رہا۔ پھر اُس کارویہ بھی بدل گیا، اس دوران میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ اُنہیں میری ”فِکر کی بیماری“ تھی، یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ میں اُن کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ یہ میری زندگی کا سب بڑا دُکھ تھا…. مائی لارڈ اللہ نہ کرے یہ دُکھ آپ کے بچوں کو کبھی اُٹھانا پڑے۔

    ابا جی کی وفات پر میں نے سوچا کاش اب تک مجھے پھانسی ہوگئی ہوتی، یہ لمحات میری زندگی میں کبھی نہ آتے۔ زندگی کی سب سے قیمتی شے رخصت ہورہی تھی، میں اُس کی میت کو کاندھا تک نہ دے سکا، مائی لارڈ اُس روز مجھ پر جو گزری اللہ نہ کرے آپ کے بچوں پر کبھی گزرے۔ ….والد کے بعد کیس کی پیروی اپنی ہمت اوقات کے مطابق چجا کرنے لگے۔ جانے کتنے برس بیت گئے۔ کیس اب ہائی کورٹ میں تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کیس ابھی تک ”ایڈیشنل سیشن کورٹ “ سے باہر نہیں گیا۔ اُمید آہستہ آہستہ دم توڑرہی تھی۔ اِس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ”سربلندی“ کا بڑا شور اُٹھا ۔ میں اُن کی بحالی کے لئے رات دِن دعائیں مانگتا رہا۔ صرف میں نہیں پورا جیل دعائیں مانگتا رہا۔ پھر وہ بحال ہو گئے۔ مجھے یقین ہے اب انصاف اگلے دو چار روز میں ہی مجھے مل جائے گا۔ ایک بار ایک عزیز جیل میں مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے بتایا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اداکارہ عتیقہ اوڈھو کی شراب نوشی کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ مجھے لگا میرا مسئلہ بھی حل ہونے والا ہے۔ کوئی ازخود نوٹس ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کے بارے میں بھی اب وہ لے لیں گے، یا اُن کیسوں کے بارے میں بھی لیں گے جو سالہا سال سے عدالتوں کی الماریوں میں بند پڑے ہیں، افسوس وقت تیزی سے گزر گیا، وہ ریٹائرہوگئے، اور وہ اُمید فوت ہوگئی جسے ان کی بحالی پر نئی زندگی ملی تھی۔ پھر میرے چچا بھی فوت ہوگئے۔ باپ کی وفات کے بعد وہی میرے باپ تھے۔ میرا دوسرا باپ چلا گیا۔

    میں بے بس تھا۔ میں سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کرسکا۔ میرے خونی رشتے داروں نے ہمت نہ ہاری۔ کیس کی پیروی میرے دوسرے چچا کرنے لگے۔ مجھے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے جو اُن سے بن پڑا، اُنہوں نے بھی کیا، پھر وہ بھی فوت ہوگئے۔ پھر میں بھی فوت ہوگیا۔ موت نے میرے وہ سارے دُکھ دور کردیئے جو اِس ملک کے عدالتی نظام نے ٹنوں کے حساب سے مجھے دیئے تھے، ….مائی لارڈ آپ کو شاید پتہ نہیں تھا میں مرچکا ہوں، آپ کو شاید یہ بھی پتہ نہیں عدالتی نظام کی بہتری کے حوالے سے تقریباً ساری اُمیدیں مرچکی ہیں۔ آپ کو میری موت کا پتہ چل جاتا آپ شاید اِس کیس کو دبا رہنے دیتے۔ کیونکہ کسی بے گناہ کی موت کے بعد اُسے باعزت بری کرنے سے عدالتی نظام مزید ننگا ہوجاتا۔ آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے مجھے بری کردیا۔ مگر مجھے اب اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو بھی شاید کوئی فائدہ نہ ہو۔ آپ نے ”پوراانصاف “ نہیں کیا۔ پورا انصاف یہ تھا ماتحت عدلیہ کے جن ججوں نے اِس کیس کو غیرضروری طورپر لٹکائے رکھا، جن پولیس والوں نے اس کیس میں مال بنایا، جن وکیلوں نے اُلو سیدھے کیے، سب کے خلاف کسی نہ کسی کارروائی کا آپ حکم دیتے۔ اُن سب کو سزا ملتی۔ کوئی مثال قائم ہوتی ….جِس وقت یہ فیصلہ آپ نے سنایا میرا کوئی عزیز عدالت میں نہیں تھا، ورنہ بہت سوال آپ سے کرتا ؟۔مگر ایک وقت روز حساب کا مقرر ہے۔ اب سارے سوال وہیں ہوں گے۔

    میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جج اور وکیل میں فرق اب صرف ریٹ کا ہوتا ہے، مگر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا لوگوں کو صاف ستھرا، سچا انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ نشان کب مٹے گا ؟۔ کسی ملک کسی معاشرے کا نظام عدل ٹھیک ہو، اُس کے سارے نظام خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ہمارا نظامِ عدل کب ٹھیک ہوگا؟ وہ وقت کب آئے گا جب کوئی غریب، کوئی عام آدمی یہ سوچ سوچ کر نہیں مرجائے گااُس کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہو گئی کوئی ادارہ اُسے انصاف فراہم نہیں کرے گا۔ اللہ نے شاید ”روز حشر“ اِسی لئے مقرر کیا تھا اُسے پتہ تھا ہمارے جج لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے ….مائی لارڈ، اس کیس کی نذر ہونے والی تین زندگیاں آپ واپس لاسکتے ہیں ؟؟ چلیں وہ نہیں تو عدلیہ کی روزبروز گرتی ہوئی ساکھ ہی واپس لے آئیں !

  • حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی صف میں آنے کے لیے کسی ملک کا سسٹم ہی بنیاد بنتا ہے۔ وہ سسٹم جو دنیا میں اسے روشناس کرواتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ اور مہذب ملک اپنے شہریوں کے لئے ایک مضبوط سسٹم کا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور پھر عملی طور پر شہریوں کو اس میں زعم کر دیتا ہے۔ قومیں اسی صورت ترقی کرتی ہیں جب ان کو ملکی مفاد کی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے تاکہ وہ محنت اور لگن کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکیں۔ اور ایسا بھی ممکن ہوتا ہے جب ملک کے اندر ایک مضبوط نظام موجود ہو، جو حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان تفریق کا باعث نہ بنے، جو ملکی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، جو اپنے لوگوں کی زندگیوں اور ضرورتوں کا تحفظ کر سکے۔

    اگر اس سسٹم کو کرپشن زدہ، ذاتی مفاد اور اقتدار کی شاہی کے لیے بنایا جائے تو پھر ملک کے اندر بے چینی عروج پہ ہوتی ہے۔ تب حق دینا نہیں بلکہ کسی کا حق چھین لینا یاد رہتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی اقتدار کی کرسی کے مزے لوٹتا ہے اور عوام وہ عزت اور حکم شاہی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ہم جو فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد کو مظبوط کرنے والے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے اسے اسلامی تو کیا فلاحی ریاست بھی نہ بننے دیا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے، مخلص پالیسیاں بنائی گئیں جو انھیں ترقی کی راہ پہ آگے لے گئیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اقتدار کی جنگ ملکی مفاد پہ ہمیشہ حاوی رہی ہے اور جو یہ جنگ جیت گئے انہوں نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سارے فائدے لے لیے۔ عوام کا وہی حال رہا، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا، کیا پتا کوئی آس رنگ لے آئے، خوابوں کو تعبیر مل جائے۔ مگر نظر کا دھوکہ وہی رہا اور عوام یہی دھوکہ آج بھی کھا رہی ہے۔ جب بے روزگاری عام ہو تب محنت اور جفا کشی کا جذبہ سرد پر جاتا ہے۔ اسی لیے آج کے دور میں ہر کوئی اپنے حالات میں الجھا ہوا بے بسی سے اس فرسودہ سسٹم کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ معاشی قتل عام ہو رہا ہے، ادارے آگے بڑھنے کے بجائے اپنے نام کو ہی ڈبوتے جا رہے ہیں۔ نعروں اور وعدوں میں ملاوٹ ہے ذاتی مفاد کی۔ عوام کو اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ اب آواز اٹھائیں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کیسا سسٹم ہے جہاں اعلیٰ ڈگریوں والے تو خاک در خاک گھوم رہے ہیں مگر جعلی ڈگریوں والے ملک کو چلا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ملک کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی اکاؤنٹس کو بہتر بنا رہے ہیں۔ شخصی آزادی پہ آواز کون اٹھائے، اب تو آزادی رائے پہ پابندی لگ جاتی ہے۔ حکومت آسودہ حال ہے جبکہ سسٹم فرسودہ ہے۔ فارن پالیسی کے نام پر ہمارے پاس ذاتی دورے اور فوٹو سیشن ہی رہ گیا ہے۔ مظبوط ڈائیلاگ پالیسی ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ سفارتکاری دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنے ملکی مفادات اور معشیت کو استحکام بخشتی ہے۔ ہم ابھی اس میں بہت کمزور ہیں ۔

    حکومت اور سسٹم کو باہم جوڑا جا سکتا ہے مگر ان کو ہم معنی نہیں لے سکتے۔ دونوں کا اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہتر ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہی، اگر نظام کو صحیح فعال بنایا جائے تو نئی آنے والی حکومت اس میں گڑ بڑ نہیں کر سکتی۔ حکومت پالیسی میکر ہے جبکہ ایک مظبوط سسٹم کی نشاندہی ملک کا ہر ادارہ اپنے طور پر کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے اندر نظام کو یرغمال بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ابھی تک ہر ادارہ نوکر شاہی کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔ عوام ووٹوں کے ذریعے حکمران منتخب کرتی ہے اور حکمران ایسے سسٹم کو فعال کرتے ہیں جو ان کو فوائد دے سکے۔ اقتدار سے پہلے عوام کا ساتھ، اقتدار ملنے کے بعد غیروں کا ساتھ بھلا لگتا ہے۔ ایک بہتر سسٹم ملک کے اندر چلے یا نہ چلے بہرحال اپنی سیاست پورے پانچ سال چلنی چاہیے۔

    کسی بھی اچھے معاشرے کی نشاندہی اس کے اندر بسنے والوں کے اخلا قی کردار اور سوچ کی پختگی پر ہے۔ اگر بگاڑ ہی یہیں ہوگا تو پھر اس ملک کے اندر ایک مستحکم اجتماعی نظام مشکل سے ہی بن سکتا۔ باشعور معاشرہ ہی باطل اور حق کی پہچان کر کے شر کو خیر سے الگ کرتا ہے۔ جبکہ یہاں وعدوں کے بھنور میں پھنسے عوام بھی اپنی پسند کو لیے ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو انہی کو لوٹ رہے ہیں۔ لوٹتے بھی ایسے کہ خود معصوم ہی ٹھہرے۔ یہاں کی جمہوریت کے انداز ہی نرالے ہیں جبکہ ایوانوں کے اندر تحفظ دینے والے نہیں لوٹنے والے بیٹھے ہیں۔

    جب خداکا نائب اس کے احکام کے بجائے اپنی حاکمیت کا پرچار کرتا ہے تو وہ دنیاوی طور پر بادشاہ ہی سہی مگر رب کے سامنے حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے۔ دولت کی چمک شخصیت پہ اثر دکھاتی ہے، دوسری طرف آگے پیچھے ایک آگ ہے جو لپٹی ہے حقوق العباد کو اپنے پیروں تلے روندنے والوں کے ساتھ ۔ اپنی اکڑ کو زمین پہ قائم رکھنے والے
    اس دن کیا کریں گے جب زمین اپنا آپ ظاہر کر دے گی۔ اگر ظلم و بے انصافی کی بنیاد ڈال کر ترقی اور امن کے خواب دِ کھائے جائیں گے تو انتشار کا پھیلنا یقینی ہے۔ ہمارے ہاں تقسیم کرنے والے ہی رہ گئے ہیں کیا؟ سوچنا ہوگا، بدلنا ہوگا ایسے سسٹم کو جو ملک اور عوام دونوں کو تباہ کیے جا رہا ہے۔

    ایک حکم وہ جو مقررہ وقت تک ہے اور ایک وہ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ سمت کا صحیح تعین ہی کر کے چلنا ہو گا ورنہ مہذب اور تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا تو در کنار اپنی خود ساختہ حاکمیت کے ہی نذر ہو جائیں گے۔ نظام کو سہی کرنے سے پہلے خود کو اس قابل تو یہ بنا لیں کہ خود ہی سیاست کر سکیں۔ ملکی مفاد کی سوچ ہی مظبوط منصوبہ سازی کر سکتی ہے اور یہی ملک کو ایک ایسا سسٹم مہیا کرتی ہے جس کی بنا پر عوام آسودہ حال ہوں۔کرپشن کے نظام کو اکھاڑ پھیکنا ہو گا ورنہ عوام اور حکمرانوں کا نباہ ہونا مشکل ہے۔ جمہوریت کے ایوانوں کو حقیقی طور پر عوامی مفادات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ اگر عوام اور اداروں کو تباہ کرنا ہی رہ گیا ہے تو پھر اس جال میں پکڑ کرسی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی بھی ہوگی۔