Tag: سرمایہ دارانہ نظام

  • جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر – خزیمہ ابن ادریس کیلانی

    جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر – خزیمہ ابن ادریس کیلانی

    تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر ابن آدم کے پاس مٹی کی دو وادیاں بھی ہوں تو تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا ، ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکتی ہے‘‘(صحیح بخاری،حدیث:۶۴۳۶)

    انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ بہترین کھائے، شاہانہ رہن سہن ہو، بہترین شاہی سواری ہو، نوکروں کی موج ظفر ہو جو ہر دم اس کا حکم ماننے کو تیار بیٹھے ہوں۔ تقریبا ہر انسان کا میلان دنیا کی طرف ہوتا ہی ہے خواہ کم ہو یا زیادہ، اور بسا اوقات مختلف معاملات زندگی میں یہ میلان اس کے پاؤں کی ایسی مضبوط زنجیر بن جاتی ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر معاملہ اس وقت گھمبیر ہوتا ہے جب ایک غریب فاقہ کش آدمی شاہانہ طرز زندگی دیکھتا ہے اور اس کا دل بھی مچلنے لگتا ہے کہ کاش! عیش و عشرت کا یہ سامان، دولت کدہ اور جائیداد اس کے پاس بھی ہو، اس کی بیوی، آل اولاد بھی سونے کے نوالے لے۔ جس امیر آدمی کو دیکھ کر یہ غریب آدمی ایسی سر چڑھی خواہشات کرنے لگتا ہے اور راتوں رات امیر بننے کے خواب بنتا ہے۔ اور جس امیر شخص کو اتنا پرسکون سمجھتا ہے شاید وہ غریب یہ بھی نہ جانتا ہو کہ جس شخص کی چند روزہ زندگی پر وہ رشک کر رہا ہے اسے شاید رات کو نیند بھی نہ آتی ہو، رات کو سکون کے چند لمحات بھی میسر نہ ہوتے ہوں اور نیند کی وادی میں اترنے کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہو، اور شاید وہ اپنے آرام کے لیے دوسروں کی نیندیں بھی حرام کرتا ہو۔ لینڈ کروزرز، بی ایم ڈبلیو میں بیٹھا بظاہر ہنستا مسکراتا انسان نہ جانے اندر سے کتنا کھوکھلا،گھائل اور نجانے کتنی مہلک بیماریوں، اندرونی بے سکونی اور رنج والم کا شکار ہو۔ یہ تو کوئی اسی سے پوچھے تو حقیقت آشکارا ہو۔ الا ماشاء اللہ

    آپ کو ایک واقعہ سناتا چلوں، یہ آپ پر منحصر ہے آپ اسے لطیفہ سمجھیے یا ہماری قوم کا المیہ یا ۔۔۔۔۔۔ کی انتہاء، مگر خالی جگہ آپ اپنی پسند سے ضرور پر کیجیے۔ ہمارے محلہ میں کچھ لوگ ہیں،گھر کا سربراہ محکمہ پولیس میں رہ چکا ہے، اور اب اپنے بیٹوں کو بھی باری باری اسی محکمے میں دھکیل رہا ہے۔ ایک دن بچوں کی ماں اپنے اس بیٹے سے کہنے لگی جو ابھی پولیس میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ نعیم (فرضی نام) جب سڑک پر کوئی آدمی گرا ہوا ملے تو سب سے پہلے اس کا بٹوہ دیکھا کرو کہ اس میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔دیکھیے ایک ماں مال و زر کی ہوس میں اپنے بیٹے کو اس کا اپنا فرض پورا کرنے کی نصیحت کرنے کے بجائے الٹا اسے کیسے بےہودہ مشورے دے رہی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ کس طرح ایک انسان مال کے لالچ میں آکر حلال و حرام کی تمیز یکسر بھول جاتا ہے اور خاص طور پر ایک مسلمان یہ بھی نہیں سوچتا کہ حرام کمائی کا مال اللہ تعالی ایسے طریقوں سے نکالتے ہیں کہ انسان کے لیے پریشانی علیحدہ سے در آتی ہے اور مال کی بربادی علیحدہ سے۔ ایک اور لطیفہ پڑھیےاور سر دھنتے جائیے، راقم اور اس کے بڑے بھائی کے درمیان بات چیت کرتے ہوئے محکمۂ پولیس کا ذکر آگیا توبھائی کہنے لگے میرے کولیگ نے مجھے بتایا کہ میرا ایک دوست جو کہ محکمہ پولیس میں نچلے درجے کا ملازم ہے، اس کی بیوی اس سے روز جھگڑا کرتی اور ڈھیر سارے پیسوں کا تقاضا بھی کرتی۔ ایک دن تنگ آکر کہنے لگی ’’تمہارے پولیس میں ہونے کا کیا فائدہ، جب تم پیسے ہی نہ کما سکو، تمہیں تو مہینے میں لاکھوں کمانے چاہییں۔ مجھے تو بس پیسے چاہییں.‘‘

    ذرا غور فرمائیے کہ انسان مال کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہوتا ہے خواہ کسی حق مارا جائے، کسی کی جان چلی جائے، لیکن انسان کا ایک حد میں رہ کر مال کی خواہش کرنا بالکل بھی معیوب نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے بشرطیکہ ارتکاز دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ غریبوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود تجارت کی طرف ترغیب دلائی ہے۔اور یہاں تک کہ ایک شخص کو فرمایا کہ ’’تم جو رزق اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ، وہ بھی تمہارے لیے باعث اجر ہے۔‘‘

    ہمارے معاشرے میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اور اس میں یہی معیوب بات ہے کہ انسان مال کی خواہش میں حرام وحلال کا خیال رکھے بغیر دن رات ایک کرکے سرمایہ دار بن جاتا ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں ایک غریب مسلسل غریب اور امیر امیر تر بن جاتا ہے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال رکھے بغیر جعلی ادویات کے کارخانے کھلتے ہیں، عوام کو دودھ کے نام پر سرف اور نہ جانے کیا کیا پلایا جاتا ہے، شہر میں گدھوں کی بھرمار ہو تو عوام کو سستے گائے بھینس کے گوشت کے نام پر حرام کھلایا جاتا ہے، اور اگر ضمیر بالکل ہی مردہ ہو جائے تو راولپنڈی سے لاہور لاتے ہوئے منوں کے حساب سے خنزیر کا گوشت پکڑا جاتا ہے، ایک ایک پلاٹ دس بندوں کو بیچا جاتا ہے، پورے شہر کا پولٹری فارم ایک بااثر حکومتی عہدیدار کے قبضے آجاتا ہے جب چاہے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں بڑھادے یا گھٹا دے، تعلیم کو معاش کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا کہ جب لوگ ہی ایسی نامناسب فیس دیں تو ہم انہیں اچھا کیوں پڑھائیں؟ زلزلہ و سیلاب زدگان کے لیے بیرونی امداد حکومتی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالی جاتی ہے، مصیبت زدہ قوم کے لیے ترکی کی خاتون اول کی طرف سے دیا گیا بیش قیمت ہار پاکستانی عوام کے لیے نہیں بلکہ اس وزیراعظم کی اہلیہ کے گلے کی زینت بنتا ہے، جو ہر سال 10 محرم کے موقع پر اپنی اور اپنے باپ کی نسبت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کرتے ہوئے اپنے آپ کو سادات میں سے بتاتا ہے۔ فخر کرنا نہیں بھولتا، مگر بھول بیٹھتا ہے کہ جس مقدس ہستی کی طرف وہ نسبت کر رہا ہے، وہ نسبت اس سے کیا تقاضا کرتی ہے، ماپ تول میں کمی کی جاتی ہے، بیرون ملک مال برآمد کرنے لیے مال کچھ دکھایا جاتا ہے اور بھیجا کچھ اور جاتا ہے۔ اور حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی ہے جو خود تو دیدہ دلیری کے ساتھ سال کے 365 دن خوب جی بھر کر کرپشن کی گندگی میں لتھڑے رہتے ہیں اور اس سے دوگنا اپنے حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ ہمارے حکمران تو ہیں ہی کرپٹ، چوتھے درجے کے ملازم سے لے کر بائیسویں گریڈ کے افسر تک سبھی کرپشن کے ناسور میں ایسے لتھڑے نظر آتے ہیں کہ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں، اور اگر کوئی ایماندار افسر آجائے تو سب اسے کھڈے لائن لگوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہ تگ و دو صرف اس مال کے حصول کے لیے کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہر امیر غریب سبھی کومعلوم ہے کہ یہ مال کچھ عرصہ کے لیے ہی ان ملکیت ہے، پھر قبضے سے نکل جائے گا۔

  • جب راج کرے گی خلق خدا – کامریڈ فاروق خان

    جب راج کرے گی خلق خدا – کامریڈ فاروق خان

    ہم اپنے نظامِ شمسی میں دور دور تک پہنچ رہے ہیں، ہم نے خود کار کاریں تیار کر لی ہیں، اور ساتھ ہی ابھی تک ہم اپنے روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں بے اختیار ہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں دنیا کو حیرت زدہ اور مبہوت کر رہی ہیں، مگر اُس کے باوجود لاکھوں لوگ بےگھر اور بےچھت ہیں، مگر اس کے باوجود اس عہد کے نوجوان بےروزگار ہیں. یہ مسئلہ صرف وسائل کی کمی کے شکار ایک پسماندہ ملک کو درپیش نہیں ہے. ساؤ پالو، قاہرہ، گلاسگو، نیو کیسل اور لندن کی آبادیاں بھی اس ’’زندہ‘‘ بحران کا شکار ہیں.

    دوسری جانب امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ جیسے ارب کھرب پتیوں کا ایک طبقہ ہے جن کے پاس لگژری کاروں کے سکواڈ ہیں، لگژری اپارٹمنٹ ہیں، لاکھوں ڈالر کے فن پاروں کی گیلریاں ہیں، ملٹی ملین کی بحری کشتیاں اور بیڑے ہیں، وہ دنیا بھر میں اپنے نجی طیاروں میں گھومتے ہیں اور اُن کے پاس نوکروں چاکروں کی فوج ظفر موج ہے جو دن رات اُن کی آؤ بھگت کر رہی ہے. چند ہاتھوں میں بہت زیادہ مال و دولت اور طاقت کا ارتکاز صحیح معنوں میں جان لیوا بن گیا ہے. محض 85 ارب پتیوں کی دولت زمین پر رہنے والے لوگوں کی اکثریت کی مشترکہ دولت سے زیادہ ہے.

    امیروں کے خصوصی خورد و نوش والے خصوصی ریستورانوں میں کام کرنے والے محنت کش اور دیگر اداروں کے محنت کش اِس لیے خالی پیٹ رہتے ہیں تاکہ اُن کے بچے سکول جا سکیں. آج عام لوگ کی اکثریت جن کو ’’خوش قسمتی‘‘ سے کوئی روزگار مل جاتا ہے وہ اپنی سانسوں کی ڈوری کو بحال رکھنے کی جدوجہد میں کئی گھنٹوں پہ محیط اعصاب شکن ملازمت کرنے پہ مجبور ہیں. تپ دق اور سوکھ پن جیسی بیماریاں جن کا علاج بہت آسان اور ممکن ہے، اکیسویں صدی میں بھی ایک بار پھر انسانوں کی بستی میں لوٹ چکی ہیں.

    موجودہ عہد کی معیشت جان بوجھ کر اٹھائی اور گرائی جاتی ہے، فیکٹریوں کو غیر معینہ مدت کے لئے جان بوجھ کر بند کر دیا جاتا ہے اور مزدوروں کو کہا جاتا ہے کہ ’’ہمیں آپ کی طلب نہیں ہے.‘‘ بےکار و بدحال اور بےروزگار محنت کش اُن فیکٹریوں کو تکتے رہتے ہیں، ابھی کُھلی کہ کل. اداروں کے ملازمین کو فارغ کر دیا جاتا ہے، فارمز اور سٹوروں سے کام کرنے والوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے تنخواہ داروں کو ایک شام اچانک کہا جاتا ہے کہ کل سے آپ کام پہ مت آئیے گا. اِس طرح ضرورت مند اور بیکار محنت کش مالکوں کی شرائط پہ کم اجرت کیساتھ میسر آتے ہیں. عوام کو اشیاء کی ضرورت ہے، اشیاء دستیاب ہیں، مگر خریدنے کی سکت و استطاعت نہیں ہے. اس سارے معاملے میں انسانیت اور عقلیت کہاں ہے؟

    سرمایہ داری کے لبرل عذر خواہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش میں ہیں کہ یہ تخلیقی مجبوری ہے. محنت کشوں کو درختوں کے بیکار پتے کی مانند اُٹھا کر پھینک دینا سرمایہ داروں کے لیے عام سی بات ہے، اُن کے مطابق یہ منڈی کا کاروبار یوں ہی چلتا ہے، اِس کا کوئی اور حل نہیں ہے. یہ ایسے ہی چلتا رہا تھا، ایسے ہی چل رہا ہے اور ایسے ہی چلے گا. یہی انسانی فطرت ہے، یہی کاروبار کی فطرت ہے اور یہی منڈی کا رجحان ہے.

    ایک طرف بڑی بڑی رہائشی کالونیاں اور بڑی بڑی رہائشی عمارتیں خالی پڑی ہیں، جبکہ دوسری جانب لاکھوں لوگ جھونپڑیوں میں اور سڑکوں پر سسک رہے ہیں. لبرلزم کی آزاد منڈی کی نظر میں یہ ’’انسانی فطرت‘‘ ہے. آج اکیسویں صدی میں لاکھوں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے بھوکے ہیں، خالی پیٹ ہیں، جبکہ دوسری جانب کسانوں کو پیسے دیے جاتے ہیں کہ زمینوں کو خالی رکھو. لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے. لیکن لبرل ازم کے عذر خواہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ سب ’’انسانی فطرت‘‘ ہے. ادویات کے انبار لگے ہوئے ہیں، سٹور اور وئیر ہاؤس فرش سے لیکر چھت تک بھرے پڑے ہیں، دوسری جانب لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے قابل علاج بیماریوں کے سبب مر رہے ہیں کیونکہ اُن کے پاس علاج خریدنے کے پیسے نہیں ہیں. کیا ہم اِن کی بات مان لیں کہ یہ سب ’’انسانی فطرت‘‘ ہے؟

    آج کی ترقی یافتہ صدی میں انسان اپنے عہد اور اپنی حیات کو ایسے منظم اور منصوبہ بند کیوں نہیں بنا سکتے کہ چند ایک لوگوں کو نوازنے کے بجائے تمام انسانیت کو سکھ میسر آجائے؟ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے درکار تمام مہارت کے حامل کئی لوگ کافی تعداد میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں. آج انسان پلوٹو اور اس سے بھی آگے راکٹ بھیجنے اور اِس سے بھی زیادہ بہت حیران کن کام کر سکتے ہیں. لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ خوراک، لباس، رہائش اور ادویات دستیاب ہونے کے باوجود لاکھوں کروڑوں لوگ اِن ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یا پھر بہت تنگ و خوار ہیں؟

    کیوں؟ آخر کیوں؟ زرا غور کریں!
    نجی زمیندار، سرمایہ دار اور عمارت ساز کمپنیاں چونکہ تاجر ہیں، جب تک وہ ایک بڑا اور موٹا منافع نہیں دیکھتے، وہ محض انسانوں کی رہائشی ضرورت کی خاطر گھر تعمیر نہیں کریں گے. آزاد منڈی کے یہ سرمایہ دار صرف پیسہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں. اگر سرمایہ داروں کے لیے منافع نہیں تو سڑکوں پر سسکتے انسانوں کے لیے گھر بھی نہیں. بلکہ جتنے زیادہ دکھ ہونگے، اتنا زیادہ اِن ہوس زدہ سرمایہ داروں کا منافع بڑھے گا. اگر آپ کا خیال ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے لبرل عذر خواہ میری اِن باتوں کو ہر ممکن طریقوں سے جھٹلانے کی کوشش نہیں کریں گے تو آپ خیالی دنیا میں رہتے ہیں.

    سرمایہ دار جو تقریباً سبھی کچھ کے مالک ہیں، اُن کا صرف ایک مقصد حیات ہے؛ یعنی دولت کمانا. ذاتی بنیادوں پر تو یہ لوگ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں. اِن لوگوں نے اکاؤنٹنٹ اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں. اگر کہیں یہ سرمایہ دار کوئی محنت اور کام کریں گے تو بھی وہ کچھ سماج دوست کام نہیں ہوتا، مطمع نظر وہی دولت کی ہوس. یہ سرمایہ دار دوسروں کی شدید محنت کی پیداوار سے دولت کماتے ہیں. دوسروں کی محنت کا کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں. دوسروں کی شدید محنت سے بنے گھروں میں رہتے ہیں. جبکہ بدلے میں دیتے کچھ بھی نہیں.

    کہا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ دار جب سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس طرح کئی لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے. سوال یہ ہے کہ ورکرز کو دیا کیا جاتا ہے؟ اگلی تنخواہ تک بمشکل زندہ رہنے کی قلیل تنخواہ اور بدلے میں ورکرز سے لیا کیا جاتا ہے؟ اربوں کھربوں کا منافع! کیا یہ سرمایہ دار عوام اور ورکرز کی محبت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، یا پھر بھاری اور لامحدود منافع کی لالچ میں؟ یوں مزدوروں، ملازموں اور محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے سرمایہ دار لامحدود منافع کماتے ہیں. موجودہ سرمایہ دارانہ استحصال قرون وسطی کے غلاموں کے استحصال جیسا صاف شفاف نہیں ہے جہاں زرعی غلام جاگیرداروں کی زمین پر مفت کے لیے کام کرنے پر مجبور تھے، لیکن حقیقت میں یہ دونوں استحصال ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں. سرمایہ دار کسی بھی شرط پہ کم اجرت کے بدلے ورکروں سے بیش بہا کام لیتے ہیں.

    گزشتہ صدیوں میں سرمایہ داروں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے پیداوار کے انبار لگائے اور دولت کمائی. مگر آج کے سرمایہ دار پیداوار کے جھنجھٹ اور پریشانی کے بغیر پیسے بنانا چاہتے ہیں. آپ سنڈے ٹائمز رِچ لسٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو سب سے امیر لوگ وہ نظر آئیں گے جن کی دولت کا انحصار خاندانی وراثت، انشورنس، بینکنگ اور مالیاتی خدمات پہ ہے. کچھ سرمایہ دار تو کرنسی نوٹ اور بانڈز کی خرید و فروخت سے لامحدود منافع کما رہے ہیں. لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ کے سبب یہ کچھ بھی داؤ پہ لگا سکتے ہیں. انسانیت نام کی کوئی چیز اِس طبقے میں موجود نہیں ہے، یہ اپنے منافع کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں. کیا یہ لوگ اپنے منافع کے لیے لاکھوں لوگوں کو جنگ کا ایندھن نہیں بنا رہے؟ یہ سرمایہ دار اپنے مخصوص طریقوں اور سیاسی مہروں کو استعمال کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے ہتھیار استعمال کرواتے ہیں.

    ایسے سرمایہ دار بھی ہیں جو مختلف اداروں کو اپنی شرائط پر قرض دیتے ہیں جسکا سود بھی واپس کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے. لوگ اِن سرمایہ داروں سے قرض لیکر فیکٹریاں لگاتے اور کھڑی کرتے ہیں. سرمایہ دار وقت آنے پر اپنی سخت شرائط اور سود کی عدم ادائیگی کی بنیاد پہ وہ فیکٹریاں اور ادارے اونے پونے خرید لیتے ہیں. دنیا کے امیر ترین فرد ’’وارن بفٹ‘‘ کی مثال دیکھ لیں. اِسی طرح بڑی بڑی اور مصروف ترین شاہراہوں پہ بنے ’’ٹول ٹیکس پلازوں‘‘ کے ٹھیکیداروں کی مثال دیکھ لیں. ایسے سرمایہ دار نہ کچھ پیدا کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی محنت مشقت کرتے ہیں، مگر ’’ریاستی قانون‘‘ کی مدد سے اربوں کماتے ہیں. بینکوں کے نظام میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی مثال دیکھ لیں یا سٹاک ایکسچینج کے ’’اَن داتا‘‘ سرمایہ داروں کی خباثت کی مثال لے لیں. یہ سب ایک سے ہیں، یہ خون چوسنے والے ڈریکولا ہیں جو اپنے اپنے طریقے سے پیسہ بنانے کے چکر میں ہیں. کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’یہ دور دوسرے کی دولت کو اپنی دولت بنانے کا عہد ہے.‘‘

    یہاں ایک اور منظر بھی پیشِ خدمت ہے. یہ اپنی دولت کو مکمل طور پر خرچ کرنے سے قاصر ہیں. کیونکہ عیش و عشرت کی بھی ایک حد ہوتی ہے. یہ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ کتنی گاڑیوں کی ڈرائیونگ کر سکتے ہیں یا بیک وقت کتنے بنگلوں میں رہائش رکھ سکتے ہیں. یہ لوگ پاگل ہو چکے ہیں. جنگلیوں جیسی شتر بے مہار خواہشات کی تکمیل کے بعد بھی اِن کی دولت بیکار پڑی رہتی ہے. یا دوسرے چھوٹے کاروباریوں کے استحصال پہ خرچ ہوتی ہے. اعلی ترین عہدوں کے حصول پہ خرچ ہوتی ہے. پھر بھی اُن کی دولت کا بیشتر حصہ بےکار پڑا رہتا ہے.

    ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’محنت کرو اور ایک دن تم بھی امیر ہو جائے گے.‘‘ اِس فارمولے پہ عمل کرتے ہوئے چند محنت کش افراد غربت کی چَکی سے نکل آتے ہیں. لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں ایک محنت کش صرف محنت کش رہتا ہے. محنت اور مشقت مزدوروں کی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اُن کے مالکان کو مزید امیر بناتی ہے. ثبوت کے طور پر آج قومی آمدنی میں مزدوروں کے حصے میں مسلسل کمی دیکھی جا سکتی ہے اور سرمایہ داروں کے حصے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے.

    اِسی طرح آکسفورڈ مارٹن سکول کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پچاس فیصد ملازمین کی ملازمتیں بڑے خطرے (HIGH RISK) کا شکار ہیں. جی بالکل درست پڑھا ہے، پچاس فیصد. ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ روبوٹ کی آمد کے سبب ہو رہا ہے. انسانی محنت کشوں کی جگہ مشینری اور روبوٹ کام کر رہے ہیں اس لیے انسانوں کو ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے. کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے؟ روبوٹس کی ایجاد اور ترقی سے انسان کو سہولت ملنی چاہیے تھی مگر کیپٹلزم کے تحت یہ ایجاد و ترقی وبال بن رہی ہے. یعنی لبرل ازم کے پاس انسان کی قسمت میں ساری زندگی مشقت کی چَکی میں پِستے رہنے یا بےروزگار ہو کر سسکتے رہنے کے سوا اور کوئی آپشن ہی موجود نہیں ہے. کیا بےبسی ہے؟ اور کیا ناکامی ہے؟ بھیانک صورتحال کے بھیانک نتائج ہوتے ہیں. ایک طرف لوگ بےروزگار، بیکار اور قوتِ خرید سے محروم ہیں، دوسری طرف زائد پیداوار کے انبار لگ رہے ہیں. یہ عالمی بحران کا پیش خیمہ ہے. جب لوگ بےروزگار ہونگے اور کچھ خریدنے کے قابل نہیں ہونگے تو مال کون خریدے گا، مارکیٹ مندی کا شکار ہوگی. 2008ء سے بھی بڑا اور بھیانک بحران سر اُٹھائے گا.

    اِس بھیانک اور خطرناک صورتحال سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ فوراً سے پہلے زرائع پیداوار کو قومیا لیا جائے. خاص طور پر عظیم الشان سب سے بڑے 150 ملٹی نیشنل ادارے بلامعاوضہ چھین لیے جائیں. منصوبہ بندی کے ساتھ پیداوار کی جائے اور اُس پیداوار کی قیمت دو چار مالکان کی جیبوں کی بجائے سماج پہ خرچ کی جائے. اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں پہ خرچ کریں گے. جدید ترین، آرام دہ اور خوبصورت ترین رہائشی منصوبے شروع کر سکتے ہیں. جدید ریاستی زرائع نقل و حمل پہ خرچ کر سکتے ہیں. مناسب ترین پالیسیوں کی مدد سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں. یکسر مفت ہسپتالوں اور ادویات پہ خرچ کر سکتے ہیں. ایک منصوبہ بند معیشت ہی محنت کشوں کے کام کے اوقات کو مختصر بنا سکتی ہے اور ریٹائرمنٹ کی عمر بھی گھٹا سکتی ہے.

    ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ناقابل عمل اور بیوقوفانہ آئیڈیا ہے. مزدور کیسے سماج کو بہتر بنا سکتے ہیں. محنت کش سماج کو اور زرائع پیداوار کو کیسے چلا سکتے ہیں. یہ مزدوروں کےلیے ممکن ہی نہیں. میرا سوال ہے کہ آخر کیوں ممکن نہیں. ہاں سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور اِس قابل بالکل بھی نہیں کہ وہ سماج کی نشو و نما کر سکیں. لیکن سوشلزم میں یہ عین سچ ہے کہ محنت کش ہی سماج کی قیادت کرتے ہیں. ہمارے اردگرد سارے کام تو محنت کش ہی تو کر رہے ہیں. محنت کش کارکنان ہی بالکل درست بتائیں گے کہ اُن کے اپنے کام کی جگہ کو کس طرح چلا سکتے ہیں. وہ موجودہ مالکان کے مقابلے میں یہ کہیں بہتر چلا سکتے ہیں. آج کے عہد میں ’’چالاکی، مستعدی اور قابلیت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم اخراجات اور اجرت کی بنیاد پہ زیادہ سے زیادہ منافع کیسے کمایا جا سکتا ہے. مگر منصوبہ بند معیشت کے تحت ’’قابلیت‘‘ یہ ہو گی کہ سماج اور انسان کو زیادہ فائدہ کیسے پہنچایا جا سکتا ہے جس کا بہتر فیصلہ ورکر اور محنت کش کی نسبت کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا. سوشلسٹ معیشت کے تحت انجنیئر، کیمپوٹر ماہرین اور سائنسدانوں کی مدد سے کام کے اوقات میں کمی کرتے ہوئے بہتر پیداوار اور بہتر سماج تعمیر کیا جائے گا. اگر آج پیداوار اور معیشت منصوبہ بندی سے کی جائے تو کوئی بھی بےروزگار نہیں رہے گا.

    سرمایہ داری کے تحت ہونے والے بھاری ضیاع کو سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت دور کیا جائے گا. مثال کے طور پر آج جنگوں اور اسلحے کے اخراجات معاشرے پر ایک بڑے پیمانے پر بوجھ بن رہے ہیں. اس وقت اس دنیا میں 15700 کے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں. حکومتیں اگلی دہائی میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں. کیا یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اِن انسان دشمن اخراجات کو انسان دوست اخراجات کے ساتھ بدلا نہیں جا سکتا؟ ہم اپنے ممکنہ وسائل جنگوں، ہتھیاروں اور تنازعات میں استعمال نہیں کریں گے بلکہ اپنے سکھ اور بہبود کیلئے استعمال کریں گے. سائنسدانوں کی قابلیت کو بم یا تباہی کے زیادہ جدید ہتھیاروں کی تعمیر پر برباد نہیں کیا جائے گا بلکہ سب کی بہتری اور پیداواری ترقی کیلئے استعمال کیا جائے گا.

    آج کی منافقت سے بھر پور سرمایہ دارانہ جمہوریت دراصل امیروں کی جمہوریت ہے، اِس کے امیر حکمران امیروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں . بینکاروں اور سرمایہ داروں کے اس آمریت کا متبادل ہمارے پاس ہے، یعنی ہم کام کرنے والے لوگوں کی جمہوری حکومت قائم کریں گے. ایک ایسا معاشرہ جو کام کرنے والے لوگوں کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی طرف سے قائم ہو گا. آئیے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ ختم کرتے ہیں. ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرتے ہیں جہاں ’’ہر ایک سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے گا، اور ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق دیا جایے گا.‘‘ دوسرے الفاظ میں ایک صحتمند معاشرہ جس کی بنیاد یکجہتی اور ہم آہنگی ہو گی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مصائب بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے.