Tag: سرجیکل سٹرائیک

  • سرجیکل اسٹرائیک، پاکستانی مؤقف اور جاری تحریک انتفاضہ کا حاصل – ایس احمد پیرزادہ

    سرجیکل اسٹرائیک، پاکستانی مؤقف اور جاری تحریک انتفاضہ کا حاصل – ایس احمد پیرزادہ

    29 ستمبر2016ء کو دلی میں موجود بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او رنبیریر سنگھ نے وزارت خارجہ کے ترجمان وکاسوروپ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر28 اور29ستمبر کی درمیانی رات کو پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں گھس کر سات مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرکے عسکریت پسندوں کے لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے کے علاوہ وہاں موجود جنگجوؤں کا کافی جانی نقصان بھی کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی فوجی کمانڈوز نے پاکستانی علاقے کے تین کلو میٹر اندر جاکر کارروائی کی ہے۔ بقول ڈی جی ایم او کے اِن سرجیکل اسٹرائیکس کی اطلاع پہلے ہی پاکستانی ڈی جی ایم او کو دی گئی تھی۔ بعد میں بھارتی ٹی وی چینلوں نے فوج میں موجود ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی نشر کرنی شروع کردی کہ ان کارروائیوں کی نگرانی دلی میں براہ راست وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے دفاعی صلاح کار اجیت دُول کر رہے تھے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس پوری کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ پورے آپریشن میں چالیس کے قریب عسکریت پسندوں کو مارنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ 29 ستمبر کو ہی دن کے چار بجے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے آل پارٹی میٹنگ طلب کرکے تمام پارٹیوں کو پاکستان میں بھارتی فوجیوں کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس میٹنگ میں فوج کے ڈی جی ایم او نے ہی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بریف کرتے ہوئے پوری کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ آپریشن میں 70 کمانڈوز نے شرکت کی جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے سرحد پر اُتارا گیا، بعد میں وہ رینگتے ہوئے سرحد کے اندر تین کلومیٹر تک چلے گئے۔ ہیلی کاپٹر سے کمانڈوز اُتارنے کی بات کا بعد میں بھارتی فوج نے انکار کر دیا۔ اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا کہ یہ70 کمانڈوز پاکستانی حدود میں 6 گھنٹے تک رہے۔

    پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف اور آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھارت کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستانی حدود میں ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے، البتہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج نے پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کی ہے جس کا بھرپور جواب دیا گیا۔ پاکستان نے کہا کہ 27 اور 28 ستمبر کی درمیانی رات کو ہونے والی اس گولہ باری میں پاکستان کے دو فوجی جاں بحق ہوگئے اور دیگر نو زخمی ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی جوابی کارروائی سے ہندوستان کے چودہ فوجی ہلاک ہوگئے اور ایک بھارتی فوجی کو ہتھیار سمیت زندہ پکڑ لیا گیا۔ یکم اکتوبر کو پاکستانی فوج نے ملکی و غیر ملکی میڈیا ہاؤسز سے وابستہ نمائندوں کو کنٹرول لائن پر اس جگہ کا دورہ کروایا جہاں سرجیکل اسٹرائیک کیے جانے کا بھارت نے دعویٰ کیا تھا۔ یہاں پاکستانی فوج کے ترجمان نے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہ ہم دنیا بھر کے اخباری نمائندوں اور اقوام متحدہ کے مبصروں کو یہاں آکر تحقیقات کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

    بھارت کے اس دعوے کا بین الاقوامی سطح پر کوئی خریدار نہیں ملا ہے. یو این او نے پاکستان میں تعینات اپنے مبصروں کے حوالے سے کہا کہ زمینی سطح پر ایسی کوئی اسٹرائیک نہیں ہوئی ہے۔ معروف جاپانی اخبار ’’ڈپلومیٹ‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں ایک دفاعی ماہر نے لکھا کہ ہندوستانی فوج کے پاس نہ ہی ایسی صلاحیت ہے اور نہ ہی ایسی ٹیکنالوجی جس کی بنیاد پر سرجیکل اسٹرائیک کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت کا یہ دعویٰ کمزور لگ رہا ہے۔

    سرجیکل اسٹرائیک مخصوص ٹارگٹ پر حملہ آور ہوکر مقصد حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پوری طرح جنگ چھیڑنے کے بجائے فوج دوسرے ملک میں انٹلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر مخصوص جگہ پر آپریشن کرکے ٹارگٹ کو تباہ کرکے واپس آجاتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن میں ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، نشانہ پہلے سے ہی سیٹ کیا جاتا ہے، سو فیصد صحیح اطلاعات کی ہی بنیاد پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہوائی فوج کے علاوہ جنگی جہازوں کا بھی ایسی کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے ملک میں جاکر اس طرح کے آپریشن میں زیادہ تر کمانڈوز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کا آپریشن امریکہ نے ایبٹ آباد پاکستان میں القاعدہ سپریمو اسامہ بن لادن کے خلاف کیا تھا۔ ایبٹ آباد حملے کے بعد سے ہی بھارت میں بھی یہ آوازیں اُبھرنے شروع ہوگئی تھیں کہ پاکستان میں لشکر طیبہ اور دیگر عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر ایبٹ آباد طرز کا آپریشن کیا جائے۔ رواں سال کی ابتداء میں 2 جنوری کو پٹھان کوٹ میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ائیرفورس بیس پر حملہ کے بعد بھارت میں چند حکومتی حلقوں نے بھی پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ہزار دھمکیوں کے باوجود ہندوستان ایسا نہ کرسکا۔

    ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے 70ویں اجلاس کے موقعے پر جموں و کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف 70دنوں سے عوامی انتفادہ جاری تھا۔ اس دوران فورسز اہلکاروں کی گولیوں سے 90 افراد شہید ہوچکے تھے اور 13 ہزار کے قریب زخمی تھے۔ ایک ہزار نوجوان، خواتین، بچے اور بزرگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ گن کے قہر کا شکار ہوکر بصارت سے ہی محروم ہوچکی تھیں۔ کشمیر کی اس عوامی جدوجہد کی پاکستان نے عالمی سطح پر بھرپور وکالت کی اور دنیا بھر میں پاکستانی سفراء اور نمائندوں نے یہاں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالم انسانیت کو آگاہ کرنے کے لیے رات دن زوردار مہم چلائی۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جو کہ اُنہوں نے پھر کیا بھی۔ ایسے میں 18 ستمبر کو اُوڑی میں آرمی بریگیڈ ہیڈ کواٹر پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ ہوتا ہے جس میں 19 کے قریب فوجی ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملہ کو پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں چلائی جانے والی عالمی مہم کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی خاطر اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے ہندوستان نے اقوام عالم سے اپیل کرنی شروع کردی۔ اس حملے کی دنیا کے بہت سارے ممالک نے مذمت ضرور کی البتہ کسی بھی ملک نے حتیٰ کے بھارت کے قریبی دوست امریکہ نے بھی حملے کے لیے پاکستان کی جانب اُنگلی نہیں اُٹھائی، جس پر بھارت تلملا اُٹھا اور اس ملک میں میڈیا کے ذریعے سے پاکستان سے بدلہ لینے کے عوامی سطح پر جنگی جنون پیدا کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندرمودی سے لے کر حکومت میں شامل ہر منسٹر نے پاکستان سے بدلہ لینے کا کھلے عام اعلان کردیا۔ ایک دم سے جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوج کو سرحدوں پر جمع کیا گیا اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کر دی گئیں۔ اس پر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں جب یہ بات کہی کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے لیے نیو کلیئر بم کا استعمال کرے گا اور جب پاکستان نے موٹرویز پر جنگی جنازوں کے اُترنے اور پرواز کرنے کی مشقیں کیں تو یہ سب بھارت کے لیے واضح پیغام تھا کہ پاکستان کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت سے فوجی قیادت نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بڑی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا نقصان ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھارتی وزیراعظم نے اپنی ایک تقریر میں اپنا پورا لہجہ ہی تبدیل کرکے کہا کہ اگر پاکستان کو جنگ کرنا ہی ہے تو آئیں غریبی کے خلاف جنگ کریں، پھر دیکھتے ہیں کون پہلے غریبی کا خاتمہ کرتا ہے۔ اس تقریر کے موضوع سے ہی عیاں ہوگیا کہ بھارت کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ البتہ اپنے تیز اور دھمکیانہ بیان بازیوں میں بھارتی لیڈر شب خود ہی پھنس گئی۔ ہر سو جنگی جنون میں مبتلا بھارتی عوام نے اپنی حکومت سے اُوڑی حملے میں مارے جانے والے فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا، جس پر فوج، میڈیا اور حکمران جماعت بی جے پی نے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے اس ڈرامہ کا پورا پلاٹ تیار کرلیا۔

    سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے سے بھارتی پالیسی ساز اداروں نے ایک تیر سے کئی شکار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک بھارتی عوام میں یہ احساس پیدا کرنا کہ پاکستان سے اُوڑی کا بدلہ لیا ہے، اس با ت کو اس لیے بھی تقویت حاصل ہوجاتی ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرتے وقت بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں بھارت کا ایسی کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ گویا وہ بھارت عوام کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں پاکستان کو پیغام دے رہے تھے کہ آپ اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں۔ دوسرا اہم فائدہ اس سے یہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر میں جاری عوامی انتفادہ سے دنیا کی نظریں ہٹ جائیں اور بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بڑھتے دباؤ کو کم کیا جائے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے سے بی جے پی نے یہ فائدہ بھی سمیٹنے کی کوشش کی کہ اُنہیں آنے والے یوپی اور پنجاب کے انتخابات میں اس سے عوام کو گمراہ کرنے کا موقع نصیب ہوجائے۔ کامیابی کے لیے اس جماعت کے پاس کچھ نہیں اس لیے حسب معمول پاکستان اور مسلم دشمنی سے ایک مرتبہ پھر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔

    حکومت ہند اور بی جے پی کو اپنے اس دعوے سے مندرجہ بالا فائدے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ اس دعوے کے نتیجے میں جو کچھ بھارت کو آنے والے وقت میں بھگتنا پڑے گا، اُس کے آثار بھارت کے فوجی ماہرین کو بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ (ر) جنرل عطا محمد حسنین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان اس کا بدلہ ضرور لے گا، بدلے کے لیے وہ وقت اور جگہ کا تعین خود کریں گے۔ شاید اسی لیے خفیہ چینلوں کے ذریعے سے بھارت نے پاکستان سے رابطہ کرکے اُنہیں دونوں ممالک کے درمیان ٹینشن کم کرنے کی بات کی ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنا بھارت کی سب سے بڑی غلطی ہے، کیونکہ اس طرح اگرچہ حکومت ہند نے وقتی طور پر اپنے عوام کو تھوڑے دنوں تک دل بہلائی کا سامان فراہم کیا ہے لیکن اِس طرح پاکستان کے اندر کس طرح کے جذبات جنم لیں گے، اس کا شاید ہندوستانی پالیسی ساز اداروں کو اندازہ نہیں ہے۔ جتنی بھی عسکری تنظیمیں بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، اُنہیں یہ جواز حاصل ہوگیا کہ وہ بھارتی حدود میں داخل ہوکر کہیں بھی کارروائی کرسکتے ہیں۔ وہ اب بآسانی پاکستانی فوجی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو قائل کرسکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ فوج اور خفیہ اداروں میں شامل لوگ بھی اب خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ وہ ضرور چاہیں گے کہ بھارت کو سمجھایا جاسکے کہ پاکستانی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔گویا اس طرح کی کارروائی کا دعویٰ کرکے بھارت نے اپنے ملک میں کسی بھی جگہ عسکری کارروائیوں کا جواز فراہم کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے اندر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے آوازیں اُبھر رہی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی پاکستان میں بھارتی حکومت کے دوست ہونے کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے کے بعد یہ طبقہ بھی اب یہ سمجھنے لگا ہے کہ اس ملک کے ساتھ دوستی کی تمام تر کوششیں لاحاصل ہی ثابت ہوں گی، اس لیے قوم کی مجموعی سوچ کے ساتھ چلنے میں ہی عافیت ہے۔ امریکہ اور دیگر دوسرے ممالک نے پاکستانی وزیراعظم پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اُوڑی حملے کی مذمت کریں، یہ پہلا موقع ہے جب پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اُوڑی حملے کی مذمت کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کشمیر میں بھارتی فورسز اہلکاروں کی جانب سے ہورہے قتل عام کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔

    ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیریوں کی رواں ایجی ٹیشن کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اصل حقیقت کے منافی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ رواں عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں جو کچھ کشمیری قوم نے حاصل کیا ہے،گزشتہ تین دہائیوں کی جدوجہد میں کسی اور موقع پر ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیریوں کی عوامی ایجی ٹیشن سے دلی کے پالیسی ساز پوری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے پے در پے سرجیکل اسٹرائیک طرز کی ایسی حماقتیں کی ہیں جن کے ذریعے سے نہ صرف اندرون کشمیر بلکہ باہری دنیا میں بھی بھارتی جمہوری دعوؤں کی اصلیت ظاہر و باہر ہونے لگی ہے۔ ہماری جدوجہد نے کشمیر کے تئیں تبدیل ہونے والی پاکستانی پالیسی کو نہ صرف پرانی ڈگر پر لایا ہے بلکہ اُس میں اور شدت پیدا کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر جتنی طاقت آج پاکستان صرف کر رہا ہے، ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ عسکری جدوجہد یہاں گزشتہ 28 برسوں سے جاری ہے۔ آج تک کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان نے عسکریت کی دوٹوک الفاظ میں حمایت کرنے کی جرأت نہیں کی، یہ پہلا موقع ہے جب اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں پوری دنیا کے سامنے پاکستان نے ایک عسکریت پسند برہان مظفر وانی کو نہ صرف کشمیریوں کا لیڈر قرار دیا بلکہ اُسے ہیرو بھی کہا۔ یہ گزشتہ تین ماہ کی جدوجہد کا ثمر ہے اور ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ جدوجہد سے جو کچھ تحریک حق خودارادیت جموں وکشمیر کو حاصل کرنا تھا، وہ ہوگیا ہے اور ہمیں قومی جدوجہد کی اس کامیابی کا ہر سو چرچہ کرنا چاہیے اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی اُن بڑی تبدیلوں کا انتظار کرنا چاہیے جن کے نتیجے میں اس قوم کی دہائیوں پر مبنی جدوجہد اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی اور آزادی کا سورج طلوع ہوگا.

  • بھارتی سرجیکل سٹرائیک کی حقیقت – علاؤ الدین مغل

    بھارتی سرجیکل سٹرائیک کی حقیقت – علاؤ الدین مغل

    علاؤ الدین مغل مقبوضہ کشمیر کے حالات آج جس نہج پر ہیں، اس کی بنیادی ذمہ داری مودی حکومت کی اس کوشش پر عائد ہوتی ہے جس کے تحت وہ بھارتی آئین میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ایک عام بھارتی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ کشمیری حرییت پسندوں نے بغیر کسی غیر ملکی امداد کے اپنی تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ دیا تو یہ مودی سرکار کے لیے ناقابل برداشت تھا اور ظلم و استبداد کی جو داستان گزشتہ تین ماہ کے دوران رقم ہوئی، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

    اسی تناظر میں گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات سے یہ طے کرنا چنداں دشوار نہیں کہ خطے میں اصل War Monger کون ہے۔ پہلے اوڑی حملے کے نام پر جو واویلا مچایا گیا، اس غبارے سے ہوا پاکستان نے یہ کہہ کر نکال دی کہ واقعے کی عالمی تحقیقات کرا لی جائیں۔ ظاہر ہے کہ اگر پاکستان اس معاملے میں ذرا بھی ملوث ہوتا تو عالمی تحقیقات کی پیشکش نہ کرتا۔ دوسری جانب بھارت جس کا اصل مقصد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنا اور دنیا کی توجہ معاملے کی سنگینی سے ہٹا کر پاکستان کی جانب مبذول کرانا ہے، اس نے معاملے کو اس قدر ہائپ دی اور بھارتی میڈیا کے ذریعے اس بڑے پیمانے پر جنگی جنون پیدا کیا گیا کہ خود اس کے لیے اب فیس سیونگ ضروری ہوگئی ہے۔

    اسی فیس سیونگ کے لیے سرجیکل سٹرائیک کا ڈراما سٹیج کیا گیا، مگر حسب سابق اس کی ہدایتکاری کے فرائض کسی ایسے بےوقوف فرد کو سونپے گئے جو بھارتی ڈرامہ سیریلز کا شائق رہا ہے۔ اس سرجیکل سٹرائیک کا پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ سرجیکل سٹرائیک ہوتی کیا ہے۔ کیمبرج ڈکشنری کی رو سے سرجیکل سٹرائیک ایسی فوجی کارروائی کو کہتے ہیں جو کسی مخصوص مقام پر بالکل درست انداز میں کی جائے۔ جبکہ عسکری ڈکشنریز کی بیان کردہ تعریف کے مطابق کسی ایسے مقام پر ایک محدود فوجی طاقت کے ذریعے ایک ایسی کارروائی جس میں ہدف کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا املاک کو نقصان نہ پہنچے یا کم سے کم پہنچے اور کارروائی کے مقاصد مکمل طور پر حاصل کیے جائیں۔ یہ کارروائی فضائی قوت یعنی طیاروں اور میزائلوں ذریعے بھی کی جا سکتی ہے اور زمینی افواج کے ذریعے بھی۔

    جب سے بھارت نے خود کو سپر پاور سمجھنا شروع کیا ہے، اس نے اپنے احمقانہ اقدامات کے لیے اسی طرز کی اصطلاحات کا استعمال بھی شروع کردیا ہے، جو عموماً سپر پاورز خصوصاً امریکا استعمال کرتا ہے۔ یہ سرجیکل سٹرائیک کا لفظ بھی بھارت نے نیا نیا سیکھا ہے اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ نیا سیکھا ہوا لفظ استعمال کرنے کی خواہش کس قدر زیادہ اور Uncontrollable ہوتی ہے۔ اسی خواہش کے زیر اثر بھارت نے گزشتہ برس جون کے دوران میانمار میں ایک سرجیکل سٹرائیک کا دعوی کیا جس میں بھارتی آرمی کے 70 کمانڈوز نے حصہ لیا اور ناگا لینڈ کے 38 علیحدگی پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ ابتدا میں اس آپریشن پر فتح کے شادیانے بجائے گئے تاہم ایک روز بعد ہی اس کی قلعی کھل گئی کہ بھارتی کمانڈوز نے میانمار نہیں، بلکہ اپنی سرحد کے اندر ہی ناگا لینڈ کے علاقے میں کارروائی کی تھی اور ہلاک شدگان میں مقامی قبائلی بھی شامل تھے۔

    بھارت نے موجودہ حالات میں جس جنگی جنون کا مظاہرہ کیا تھا اور کر رہا ہے، اس میں حکومت نے خود اس معاملے میں اپنی پوزیشن خراب کر لی تھی۔ جب عوام کے سامنے بڑی بڑی ڈینگیں مار لی جائیں تو پھر اپنی فیس سیونگ کے لیےکچھ نہ کچھ کرنے کا دعویٰ تو کرنا پڑتا ہے بالخصوص ایسے حالات میں جب بھارتی حکومت خود اپنے میڈیا کو ایسی خبریں جاری کر چکی ہو کہ پردھان منتری نے آج کا پورا دن وار روم میں گزارا، آج انہوں نے پاکستان کو کرارا جواب دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا وغیرہ۔

    اسی سلسلے میں گزشتہ شب لائن آف کنٹرول کے تین مختلف مقامات پر بھارتی فوج نے فائرنگ کی جس میں مشین گنز کے علاوہ مارٹر اور ہلکی توپوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ جواباً پاکستانی فورسز نے بھی بھارتی مورچوں اور چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ رات اڑھائی بجے شروع ہونے والا فائرنگ کا یہ سلسلہ صبح آٹھ بجے اختتام پذیر ہوا۔ اس دوران دو پاکستان فوجی شہید ہوئے جبکہ تباہ شدہ بھارتی مورچوں میں بھی جانی نقصان ہوا لیکن فی الحال بھارت اس کے اعتراف سے گریزاں اس لیے ہے کہ اس طرح سرجیکل سٹرائیک کا بھانڈا پھوٹ جائے گا جو بہرحال پھوٹ چکا ہے۔

  • سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ!-کلدیپ نئیر

    سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ!-کلدیپ نئیر

    Kuldip Nayar

    میں سرجیکل اسٹرائیک کے خلاف تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس سے معاملات بگڑ کر اس نہج پر پہنچ جائینگے جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہ رہے گی لیکن اب جب کہ سرجیکل اسٹرائیک کا سرکاری طور پر دعویٰ کر دیا گیا ہے تو اس صورت میں میرے پاس سرکار کا ساتھ دینے کے سوا بھلا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے۔

    مجھے یہاں انگریزی زبان کے نہایت ممتاز شخصیت برنارڈ شا کا ایک جملہ یاد آ گیا کہ ’’میں حکومت برطانیہ کا سب سے زیادہ تلخ نوائی کرنے والا ناقد تھا لیکن اب چونکہ ہمارا ملک جنگ کے وسط میں پہنچ کا ہے تو مجھے بھی اس کی حمایت ہی کرنی چاہیے۔ غالباً بھارت کے پاس بھی کوئی آپشن نہیں تھا‘دراندازوں کے بارے میں بھارت سرکار کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے سرحد پار پناہ لے رکھی ہے اور وہیں سے کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

    وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک جوابی کارروائی پر مجبور ہو گا۔ ادھر بھارتی بحریہ کے سربراہ ائرمارشل اروپ راہا نے اوڑی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہ بھارت کے 19 فوجی ہلاک ہو گئے تھے، کہا ہے کہ اوڑی آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ بدستور جاری ہے۔ مگر بھارتی ایئرچیف نے سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

    میرا اپنا یہ ہر گز خیال نہیں کہ پاکستان اور بھارت جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں سرخ لکیر کو عبور کرنے کی ہلاکت خیز خطا  کریں گی۔ سرحدوں پر ہونے والی کشیدگی کو بھی ایک حد تک ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن اس ٹُھک ٹُھک میں کوئی بڑا دھماکا بھی ہو سکتا ہے جس پر پھر قابو نہ پایا جا سکے۔

    دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں اجیت دوول اور ناصر جنجوعہ نے کشیدگی کو مدہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ نواز شریف نے بھی پاکستان سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کو ساری صورتحال سے آگاہ کرنے کی خاطر خصوصی اجلاس کا اہتمام بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے عامہ دونوں ملکوں میں عقابی تیور دکھا رہی ہے۔

    یہ افسوس کی بات ہے کہ جوہری جنگ کا ذکر بھی چھیرا جا چکا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے عوام اسی اذیت ناک کشیدگی سے چھٹکارا چاہتے اور اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلسل خوف اور ڈر کی زندگی نہیں برداشت کر سکتے۔

    سارک سربراہ کانفرنس میں دونوں  کو میز پر بیٹھ کر بات کرنے کا موقع مل سکتا تھا لیکن بھارت نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان سے  بھی انکار کروا دیا۔ بھارتی پریس کے مطابق انکار کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی فضا کانفرنس کے لیے موزوں نہیں۔ لیکن آخر متبادل جگہ کون سی تھی؟ پاکستان کو خیال کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک بھی اس کے رویے سے نالاں ہیں ۔بھارت ایک معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا مگر چین نے ویٹو کر دیاجوکہ چین جیسی عظیم طاقت کے لیے بدقسمتی کی بات تھی۔

    چنانچہ تعطل جاری ہے لیکن صورت حال کسی وقت بھی قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بلوچستان کی صورت حال پر توجہ دینی چاہیے اور افغانستان سے کسی حملے کی ممکنہ کوشش کو روکنا چاہیے۔  البتہ یہاں اگر لڑائی ہوئی بھی تو بڑے محدود پیمانے پر ہو گی۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے اپنی زیادہ تر فوج افغانستان سے واپس بلا لی وہاں اب کم ہی امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں جن کے بارے میں امریکا کا کہنا ہے کہ ان کے رکنے کے لیے کابل نے باقاعدہ طور پر درخواست کی تھی۔

    دوسری طرف نئی دہلی کی حکومت کھلے عام برہمداغ بگتی کی حمایت کر رہی ہے اور اسے بھارت میں سیاسی پناہ کی بھی پیش کی کی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یورپ اورکئی دیگر ممالک میں بھی بہت سے ناراض بلوچ مقیم ہیں۔ بھارت ان سب کو اپنے یہاں بلا لے گا اور بلوچستان میں ویسی ہی تحریک شروع کر دے گا جو اس نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناتے وقت کی تھی۔ یہ ناراضگی اسلام آباد کے لیے انتباہ ہونی چاہیے۔

    خان عبدالغفار خان جنھیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے نے افغانستان میں سیاسی پناہ لے لی تھی۔ میری ان سے کئی سال پہلے ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ جواہر لعل نہرو نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جو یہ تھا کہ پشتو زبان بولنے والوں کے لیے ایک آزاد ملک بنا دیں گے لیکن نہرو بے بس ہو چکے تھے کیونکہ بلوچستان پاکستان کا حصہ تھا اور نہرو نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا اور باچاخان عرف سرحدی گاندھی پاکستان کے شہری تھے۔

    نہرو اگر ان کی حمایت میں کوئی قدم اٹھاتے تو پہلے دن ہی جنگ چھڑ جاتی جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ البتہ وزیراعظم مودی ایک مختلف قسم کے شخص ہیں۔ اب تک کی ان کی پالیسی ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ رہی ہے۔

    یہ وہی تھے جنہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے تمام سربراہوں کو بلا لیا تھا اور افغانستان سے واپسی پر اسلام آباد رکے اور پاکستان کو دوستی کا ہاتھ پیش کیا جس کی بھارت میں بڑی سخت مخالفت کی گئی۔ لیکن آج زمینی حقائق مختلف ہیں جنہوں نے مودی کو مجبور کیا ہے کہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں۔ سرجیکل اسٹرائیک کو دوسرا راستہ کہا جا سکتا ہے جو کہ بقول بھارت ہو گئی۔ لیکن اگر پاکستان کی طرف سے بھی کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو پھر حالات سب کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ 1948‘1965 اور 1971ء میں تین جنگیں لڑ چکا ہے جنہوں نے دونوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔

  • کپتان کی ٹیم-عمار چوہدری

    کپتان کی ٹیم-عمار چوہدری

    emar

    اب سمجھ آیا‘ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیراطلاعات آئے روز بھاگم بھاگ چین کے دوروں پر کیوں جاتے ہیں۔ جب سے بھارت نے جنگ کے شعلے بھڑکائے ہیں اور اس کے جواب میں چین نے ہر طرح سے پاکستان کا ساتھ دینے کی حامی بھری ہے تب جا کر احساس ہوا کہ یہ دورے کیوں ہوتے تھے اور حکومت چین کے ساتھ تعلقات کیوں مضبوط کرنا چاہتی تھی۔ خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے بھارت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی مات دینے کا خواہشمند ہے۔ فرانس کے ساتھ چھتیس رافیل طیاروں کی بھارتی ڈیل کی بھی یہی وجہ ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ طیاروں کے حصول کے بعد ترکی سے لے کر چین تک سبھی اس کے نشانے پر آ جائیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فرانس میں بنے یہ جہاز تین سے چار ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ان میں نہایت ہی طاقتور قسم کے ریڈار نصب ہیں اوریہ چھ میزائل ایک ساتھ فائر کرسکتے ہیں۔اہم ترین یہ کہ یہ جہاز زمین سے ساٹھ ہزار فٹ کی اونچائی سے دشمن کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ انہی معاملات کی بنا پر چین کا جھکائو بھارت کے برعکس پاکستان کی طرف زیادہ ہے کیونکہ چین کو معلوم ہے کہ امریکہ خطے میں برتری دلانے کیلئے بھارت کو ہلہ شیری دے رہا ہے۔

    امریکہ دراصل کانٹے سے کانٹا نکالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ خود تو چین کی معیشت کو براہ راست کچوکے لگانے کی پوزیشن میں نہیں‘اسی لئے بھارت کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہاہے۔ معاشی طور پر چین امریکہ سے زیادہ مستحکم نظر آتا ہے کہ اس وقت امریکہ کئی ٹریلین ڈالر کا چین کا مقروض ہے اور چین سے ہزاروں اشیا بادل نخواستہ برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء کے وسط تک امریکہ کی وفاقی حکومت، ریاستیں اور مقامی حکومتیں چین کی 18.5ٹریلین ڈالرز کی مقروض تھیں۔ یہ قرض بڑھ کر اب 21.6ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی حکومت کے ذمہ چینی قرض کی یہ دستاویزات خود امریکی محکمہ خزانہ اور فیڈرل ریزرو نے تیار کی تھیں۔امریکہ نے اپنے کل قرضوں کا ساڑھے چھ سے سات فیصد چین اور جاپان سے لیے ہیں۔ امریکی حکام جاپانی قرضوں سے اس قدر پریشان نہیں جتنا چین سے لیے گئے بھاری قرضے ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں کیونکہ جاپان کی معیشت چین کی طرح تیزی سے ترقی نہیں کر رہی۔ امریکہ میں آپ کو ایک چھوٹا سا چین بھی ابھرتا نظر آئے گا۔ جس طرح افغانوں نے پاکستان میں تیزی سے کاروباری میدان میں قدم جمانے شروع کر دئیے ہیں‘ اسی طرح امریکہ میں چینی بستیاں آباد ہونے لگی ہیں۔

    امریکہ کے دل نیویارک کے وسط میں لندن کے سکھوں کی آبادی والے سائوتھ ہال جیسے کئی علاقے ہیں جہاں ہر طرف چینی ہی چینی دکھائی دیتے ہیں۔امریکہ میں چینی باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب ہے ۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق پینسٹھ فیصد چینی امریکہ میں ذاتی گھر کے مالک ہیں۔ یہ تعداد امریکی شہریوں سے چودہ فیصد زیادہ ہے یعنی چینیوں کے پاس امریکہ میں اپنا گھر رکھنے کی استطاعت امریکیوں سے بڑھ چکی ہے۔ امریکہ میں چینی باشندے تعلیم‘ معیشت اور لائف سٹائل کے معاملے میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ چینی قوم دنیا میں جہاں جاتی ہے اپنا رنگ جما دیتی ہے۔ چین میں چینی اشرافیہ بھی نمو پا رہی ہے اور یہ عرب شہزادوں کے بعد لندن اور نیویارک کے مہنگے ترین سٹورز میں شاپنگ کرنے والی دوسری قوم بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں جو چین کی اہمیت پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔ دو سال قبل دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کے آنے کی تاخیر ہوئی تب بھی اپوزیشن کو معاملے کی نزاکت کا احساس نہ ہوا۔ آج جب بھارت خطے میں پاکستانی کی جنگی و سفارتی کامیابی کی وجہ سے حیران و پریشان ہے تو اس کی وجہ پاک چین تعلقات ہی ہیں جن کی وجہ سے بھارت کوئی بڑی جارحیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

    گزشتہ روز چین نے بھارت کا پانی بند کیا تو ہم خوشی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور بھارت دیواروں سے ٹکریں مارنے پر مجبور ہے۔ چینی نیوز ایجنسی کے مطابق پانی کی بندش سے دریائے برہم پترا کے پانی میں چھتیس فیصد کمی ہو گی جس سے بھارت کی پانچ ریاستیں متاثر
    ہوں گی۔ چین سے نکل کر برہم پترا دریا بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش تک جاتا ہے۔بھارتی ماہرین کے مطابق یہ پاک بھارت کشیدگی میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بھارتی کوششوں کے تناظر میں سفارتی اشارا ہے۔بھارت کو دوسری منہ کی اس وقت کھانا پڑی جب چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی میںمسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق بھارتی قرارداد پراپنے ویٹو میں چھ ماہ کی توسیع کر دی جس پر بھارتی رہنما جل بھن کر رہ گئے۔چینی وزیر خارجہ کے مطابق دہشت گردوں کی فہرست میں کسی کو شامل کرنے کا معاملہ بغیر شواہد کے نہیں ہونا چاہیے۔بھارت کو آگے چل کر مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔سی پیک وہ دوسرا بڑ امنصوبہ ہے جو خطے میں پاکستان اور چین کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب تر کردے گا بلکہ خطے کی معاشی ترقی میں بھی اضافہ کرے گا۔

    امریکہ ‘بھارت اور افغانستان نے ایک ٹرائیکا بنا رکھا ہے جس میں سے خطے کے اہم ترین ممالک چین او رپاکستان کو خارج کر دیا ہے۔ اس ٹرائیکا کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان دوری پیدا کرنا اور سی پیک جیسے منصوبوں میں رخنہ ڈالنا ہے۔اس ٹرائیکا کے اجلاس بھی امریکہ میں ہوتے ہیں۔ امریکہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے سی پیک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔ سی پیک منصوبے کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے اکٹھے کیا تھا۔ اس وقت سے یہ دشمن قوتوں کو کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ضرب عضب آپریشن بھی سی پیک کی تکمیل میں معاون بن رہا ہے۔ ان سب کامیابیوں کے بعد بھارت کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے بال نوچے یا پھر سرجیکل سٹرائیک جیسی بے بنیاد درفنطنیاں چھوڑے۔

    سرحدی کشیدگی کے باوجود تحریک انصاف نے رائے ونڈ جلسہ کیا ۔ اب محرم کے بعد وہ اسلام آباد بند کرنا چاہتی ہے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام آباد یا ملک کو چلنے کے لئے ایک ماہ اور مل گیا ہے۔ جلسے میں عمران خان نے کہا کہ سرحدی کشیدگی کے باعث فوج کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے ورنہ یہیں بیٹھ جاتے۔سوال یہ ہے کہ ایک ماہ بعد بھی کشیدگی رہی تو کیا وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے یا پھر کوئی نیا اعلان کریں گے۔جس انداز میں انہوں نے مخالفین کو پکارا‘ اب ان کی تحریک مولا جٹ قسم کی تحریک بنتی جا رہی ہے جس کے ہدایت کار شیخ رشید جیسے لوگ ہیںجنہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا کہ عمران خان حکم دیںتو رائے ونڈ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ معلوم نہیں شیخ رشید کس مار پر ہیں لیکن عمران خان کو کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت‘ آدھی زندگی مغرب میں تعلیم اور قیام‘ نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر جیسی کامیابیاں اور پڑھی لکھی متاثر کن شخصیت کا امیج اور دوسری طرف ایک ایسے سیاستدان کی قربت جو جلا دو ‘ مار دو‘ آگ لگا دو کی پالیسی پر اسی طرح عمل پیرا ہے جیسے کہ بھارت میں شو سینا۔

    کرکٹ ورلڈ کپ جیت کی وجہ صرف عمران خان کی کارکردگی نہیں تھی بلکہ پوری ٹیم نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا۔ خان صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ کامیابی کے لئے مضبوط ٹیم کا ہونا ضرور ی ہے تو پھر جس ٹیم کا نائب کپتان شاہ محمود قریشی اور اوپننگ بیٹسمین شیخ رشیدجیسا کھلاڑی ہو‘ وہاں اکیلے کپتان کی ڈبل سنچری کسی کام آ سکے گی؟

  • کیا جنگ ہے؟-سلیم صافی

    کیا جنگ ہے؟-سلیم صافی

    saleem safi

    غیرریاستی جنگجو اور جنونی میڈیا کم وبیش ایک جیسے نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جس ملک نے غیرریاستی جنگجو بنائے یاانہیں سپورٹ کیا تومنطقی نتیجے کے طور پر وہ اسی ملک کیلئے مصیبت بن جاتے ہیں۔ یہی نتیجہ کسی بھی ملک کے میڈیا کو جنونی بنانے اور اسے جنگی فضا کیلئے استعمال کرنے کا نکلتا ہے۔ تاہم غنیمت سے مصیبت بن جانے کا دونوں کا عمل اور میکنزم مختلف ہے۔ میڈیا برائے نام کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو، بنیادی طور پر اپنی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہی ہوا کرتا ہے۔ پہلے ریاستی طاقتور ادارے میڈیا کو ایک خاص مقاصد کیلئے ، کوئی خاص پٹی پڑھادیتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے رائے عامہ اس طرف چل پڑتی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر ایک جذباتی فضاپیدا ہوجاتی ہے ۔ آخر میں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہی طاقتور ریاستی ادارے یا حکومتیں خود اس رائے عامہ کی غلام بن جاتی ہیں۔ پھر وہ نہ چاہتے ہوئے اس فضا کے آگے مجبور ہوتی ہیں اوران کا بنایا ہوا ، اپنابت انہیں ڈکٹیٹ کرنے لگ جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنااتحادی خود امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بنا رکھا تھا لیکن بعض حوالوں سے اسے زیردبائو لانے کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔

    رفتہ رفتہ امریکی میڈیا نے ملک کے اندر ایسی پاکستان مخالف فضا بنادی کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون مشکل ہوگیا ۔ یہی کچھ سعودی عرب کے معاملے میں ہوا۔ بعض معاملات میں زیردبائو لانے کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے میڈیا کوسعودی عرب کے خلاف استعمال کیا۔ سعودی عرب کے خلاف فضا ایسی بن گئی کہ اب صدر اوباما نہیں چاہتے کہ امریکی عدالتوں میں سعودی حکومت کے خلاف نائن الیون کی بنیاد پر مقدمات بنیں کیونکہ اس صورت میں سعودی عرب نے امریکی بینکوں سے اپنی دولت نکالنے کی دھمکی دی ہے لیکن میڈیا کی بنائی ہوئی فضا کے سامنے امریکی پارلیمنٹیرین مجبور ہیں اور ان کے آگے امریکی صدر اوباما کو جھکنا پڑرہا ہے ۔ پاکستان کے اندر امریکہ کے ساتھ بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی میڈیا کو ڈرون کے خلاف استعمال کیا اور بعض سیاسی جماعتوں کو بھی میدان میں اتارا ۔ جب ڈرون حملوں کے خلاف یہ مہم ایک حد سے بڑھ گئی تو خود اسی اسٹیبلشمنٹ کیلئے وبال جان بن گئی ۔ بھارتی ریاستی اداروں نے اپنے میڈیا کو لمبے عرصے سے اس کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ ملک کے اندر توکیا دنیا کے ہر کونے میں ہونے والے ہر غلط کام کو پاکستان سے منسوب کرے ۔ پھر اسے یہ پٹی پڑھارکھی ہے کہ ’’شائننگ انڈیا‘‘ جیسے دل خوش کن نعروں کا سہارا لے کر بھارت کو امریکہ کی طرح عالمی طاقت ثابت کردے ۔ چنانچہ پہلے خود میڈیا ایک خودساختہ طاقت کے زعم میں مبتلا ہوگیا اور پھر عوام کو اس میں مبتلا کیا۔چنانچہ دہلی میں سائیکل رکشہ چلانے والے اور ممبئی کی گندگی کے ڈھیروں پر راتیں گزارنے والے بھارتی کو بھی اپنا آپ سپرپاور کا شہری نظر آتا ہے ۔

    بھارتی میڈیا پر ارناب گوسوامی جیسے بڑھک باز چھا گئے جو نریندرمودی جیسے ڈرامہ بازوں کواسٹیٹس مین کے طو رپر پیش کرنے لگے ۔ انہوں نے اپنے عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا ہے کہ ان کا ملک امریکہ بن گیا ہے اور جس وقت چاہے پاکستان جیسے ملکوں کو سبق سکھا سکتا ہے ۔ چنانچہ جب بھی اڑی یا پٹھان کوٹ جیسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو بھارتی جنونی میڈیا جنگجویانہ فضا پیدا کرکے ، عوام کے جذبات کو بھڑکانے اور حکمرانوں کوغیرت دلانے میں لگ جاتا ہے ۔ لیکن زمینی حقائق تو کچھ اور ہیں۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت امریکہ ہے اور نہ پاکستان میانمار ۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اب نہ صرف ایٹمی قوت ہے بلکہ اس کے ایٹمی ہتھیار بعض حوالوں سے بھارت سے برتر بھی ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں اس حد تک آگے جاچکا ہے کہ بھارت کے کسی بھی شہر کو نشانہ بناسکتا ہے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج گزشتہ پندرہ سال سے حالت جنگ میں ہے اوروہ معیشت پر پڑنے والے ان منفی اثرات کا عرصہ دراز سے سامنا کررہا ہے جن کا کسی ملک کو جنگ کی صورت میں سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہندوستانی معیشت کیلئے جنگ ایک ایسا دھچکا ہوگا کہ اس سے اس کے عالمی طاقت کے تو کیا خطے کی طاقت بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے گا۔

    چنانچہ اب ایک طرف میڈیا اور رائے عامہ (جسے خود بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے جنونی بنا دیا ہے ) کا بے تہاشہ دبائو ہے اور دوسری طرف زمینی حقائق اور جنگ کے بھیانک نتائج ہیں۔ چنانچہ بھارت کی ڈرامہ باز قیادت ، ڈراموں پر اتر آئی تاکہ اپنے ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے۔ گزشتہ روز کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے اس کے فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے اعلان کیا کہ پاکستانی حدود میں گھس کر اس نے سرجیکل حملے کئے اور تیس سے چالیس کے قریب ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو ان کے بقول مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کی خاطر اندر آنے کی تیاری کررہے تھے ۔ پھر کیا تھا بھارت کا جنونی میڈیا جشن منانے لگا لیکن اپنی فعالیت کے زعم میں مبتلا میڈیا نے اپنی حکومت اور فوج کے اس دعوے پر وہ بنیادی سوالات بھی نہیں اٹھائے کہ جو ایک تیسرے درجے کے صحافی کے ذہن میں بھی ضرور آتے ہیں ۔ پہلے دعویٰ کیا گیا تھاکہ ہیلی کاپٹر پاکستانی سرحدوں میں گھسے تھے لیکن یہ نہیں پوچھا گیا کہ بھارت نے وہ کونسی ٹیکنالوجی استعمال کی کہ جس کا پاکستانی ریڈارز کو کوئی علم نہ ہوسکا۔ اسی طرح ہر سرجیکل اسٹرائیک کی ویڈیو تیار ہوتی ہے لیکن بھارتی میڈیا نے یہ نہیں پوچھا کہ امریکہ کی نقالی کرنے والے ذرا وہ فوٹیج تو دکھادیں کہ جس میں پاکستانی حدود کے اندر کارروائی دکھائی گئی ہو۔ امریکہ نے ایبٹ آبادیا پھر اس سے پہلے خوست میں سرجیکل اسٹرائیک کی تھی تو نشانہ بننے والے بھی معلوم تھے اور مقامات بھی ۔ بھارتی میڈیا نے جشن منانے سے پہلے اپنے حکام سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ذرا اس مقام کا نام تو بتائیے کہ جسے انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا نشانہ بنایا۔ دھمکیاں تو دی جارہی تھیں کہ مریدکے میں حافظ سعید کو یا پھر دائود ابراہیم کوسرجیکل اسٹرائیک میں نشانہ بنایا جائے گا لیکن بھارتی جنونی میڈیا نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ان دونوں شخصیات یا ماضی میں اعلان کردہ مقامات کو نشانہ بنانے کی بجائے اس مقام کو کیوں نشانہ بنایا گیا کہ جس کو خود پاکستانی بھی ڈھونڈتے پھررہے ہیں ۔

    جنونیت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ بھارتی ڈرامہ بازوں نے ڈرامہ کیلئے نیا اسکرپٹ بھی تخلیق نہیں کیا بلکہ ایک سال قبل میانمار کی سرحد پر پیش کئے گئے ڈرامے کی ٹیپ دوبارہ چلا دی ۔ حالانکہ بھارتی صرف فلمیں اور ڈرامے بنانے اور ان کےا سکرپٹ لکھنے کے ہی ماہر ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو جون (2015) کے پہلے پندرہ روز کے بھارتی اخبارات ملاحظہ کرلیں۔ ہوا یوں کہ ناگاباغیوں(نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ) نے ایک کارروائی میں اٹھارہ بھارتی فوجیوں کو مار دیا ۔ ناگاباغی میانمار کے سرحدی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں اور میانمار کے بھارت سے متصل علاقے کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔جون کے پہلے عشرے میں بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس کی فوج نے میانمار کے اندر سرجیکل اسٹرائیک کرکے پینتیس سے چالیس ناگاباغیوں کو ہلاک کرکے اپنے اٹھارہ فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا۔ تب بھی یہ ڈرامہ بنایا گیا کہ سرجیکل آپریشن کی خاطر بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے غیرملکی دورہ ملتوی کیا جبکہ وزیراعظم نریندرمودی کو بنگلہ دیش کا دورہ مختصر کرنا پڑا لیکن کسی نے کارروائی کی فوٹیج دیکھی اور نہ مبینہ طور پر ہلاک ہونیوالے ناگا باغیوں کی لاشیں۔ دوسری طرف میانمار کے حکام اسی طرح سرجیکل اسٹرائیک کے نشانات ڈھونڈتے رہے جس طرح ان دنوں پاکستانی تلاش کررہے ہیں ۔ 10 جون 2015 ءکا انڈین ایکسپریس میرے سامنے ہے جسکی سب سے بڑی سرخی ہے کہ میانمار کے صدارتی ترجمان نے واضح کیاہے کہ بھارتی فوج نے میانمار کی حدود کے اندر کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کی اور اس حوالے سے ہندوستان کا دعویٰ غلط اور جھوٹ ہے ۔ میانمار پاکستان کی طرح حریف نہیں بلکہ ہندوستان کا تابعدار ملک ہے لیکن بھارتی حکمران جھوٹ اس طرح بولتے ہیں کہ باجگزار ملک بھی تردید پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اب ڈرامہ یا اتفاق دیکھ لیجئے کہ ناگا باغیوں نے بھی اٹھارہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا اور اڑی حملے کے حوالے سے بھی بھارتی حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے اٹھارہ فوجی ہلاک ہوئے ۔

    ناگا باغیوں کی کارروائی کا جواب بھی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک میں دیا گیا اور اڑی کی مبینہ کارروائی کا جواب بھی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی صورت میں دیا گیا۔ بھارتی دعوے کے مطابق میانمار کے سرجیکل اسٹرائیک میں بھی تیس سے چالیس ناگا باغی ہلاک ہوئے تھے اور اس پاکستانی حدود میں اس کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک میں بھی تیس سے چالیس مجاہدین کو نشانہ بنایا گیا ۔کیا انڈین میڈیا میں کوئی بھی جینوئن صحافی نہیں بچاکہ جواپنے جنونی حکمرانوں سے کہہ سکے کہ ارے جنونیو! اگر ڈرامہ ہی کرنا تھا تو کوئی نیا اسکرپٹ تو لکھ دیتے ۔ ایسا تو نہیں ہوسکا لیکن کاش دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کی پارلیمنٹ میں کوئی خواجہ آصف بن کر نریندرمودی اور اجیت دوول کو کہہ سکے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے اور کوئی ریاستی اخلاقیات ہوتی ہیں۔

  • جنگ، مذہب اور پاکستان-خورشید ندیم

    جنگ، مذہب اور پاکستان-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    جنگ کبھی باشعور لوگوں کا انتخاب نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر ان کے سر تھوپ دی جائے تو وہ اس طرح بہادری سے لڑتے ہیں کہ چوراہوں اور چوپالوں میں ان کے قصے بیان ہوتے ہیں۔ آنے والی نسل ان سے غذا لیتی اور جذبات کو زندہ رکھتی ہے۔
    اسلام جنگ کا مذہب نہیں ہے۔ جنہوں نے اسے رزمیہ پیرائے میں بیان کیا، انہوں نے ٹھوکر کھائی۔ قرآن مجید نے سورہ توبہ میں الٰہی منصوبہ بیان کیا اور قانونِ اتمام حجت کے نتائج کا ذکر کیا تو لوگوں نے اسے عمومی شریعت کا بیان سمجھا۔ یہی نہیں سیرت پاک کو بھی اسی طرح لکھا گیا کہ مغازی کی بحثیں وجود میں آ گئیں۔ اﷲ کی کتاب بتاتی ہے کہ صلح اسلام کی ترجیح ہے۔ رسالت مآبﷺ نے ہمیشہ جنگ سے عافیت کی دعا مانگی۔ جنگ لیکن مسلط ہوئی تو اﷲ کے رسول اور صحابہ نے اس شان سے لڑی کہ اﷲ کی کتاب نے اس کا ذکر کیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، کتاب اﷲ باقی ہے۔ جب تک کتاب اللہ باقی ہے، صحابہ کی داستانِ شجاعت باقی ہے۔

    عصری معاملات پہ دینی نصوص کا اطلاق ایک نازک کام ہے۔ پاک بھارت تعلقات دین کا موضوع نہیں۔ آج کچھ لوگ اس کو دین کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ”اﷲ کے رسول نے فرمایا‘‘… لوگ اس تساہل اور بے تکلفی سے بیان کرتے ہیں کہ آدمی اس جسارت پر حیران رہ جاتا ہے۔ اﷲ کے رسولﷺ نے اگر دین کے باب میں کچھ فرمایا ہے تو وہ حجت ہے۔ اس سے صرف نظر صرف ایک خیر سے محرومی نہیں، ایمان سے محرومی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے رسول دین کی کوئی بات بتائیں اور ایک مسلمان رد و قبول کے انتخاب میں الجھ جائے۔ معاذاللہ۔ تاہم ”اللہ کے رسول نے فرمایا‘‘… یہ جملہ کہتے وقت، ذمہ داری کا ایک بوجھ آپ کے سر ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو محدثین شب و روز اس کی نذر نہ کرتے۔ لاکھوں روایات سے چند ہزار کا انتخاب نہ کرتے۔ سنگ ریزوں کے انبار سے ہیرے نہ چنتے۔ حدیث کے باب میں اس امت کی روایت یہی رہی ہے۔ یہ انتخاب ایک مسئلہ تھا جس نے اس امت کو بخاری و مسلم جیسی شخصیات عطا کیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کتنی آسانی سے کوئی جملہ رسول اللہﷺ سے منسوب کر دیتے ہیں اور وہ بھی کسی سند کے بغیر۔

    رسالت مآبﷺ کے بعد اور قیامت سے پہلے کیا ہونا ہے؟ بہت سی روایات میں ایسے واقعات کا بیان ہے۔ محدثین کے نزدیک روایت کے اعتبار سے سب کا درجہ ایک نہیں۔ گویا سب کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپ ہی کا فرمان ہے۔ اس لیے محدثین کی احتیاط کا معاملہ یہ ہے کہ روایت بیان کرتے ہیں تو آخر میں کہتے ہیں ”او کما قال‘‘… یا جیساکہ آپ نے فرمایا۔ یہی معاملہ درایت کا بھی ہے۔ روایت کے ساتھ یہ بھی بات کو پرکھنے کا مسلمہ معیار ہے‘ جس پر یہ امت صدیوں سے عمل کرتی ہے۔ اس کا تعلق راوی سے نہیں متن سے ہے۔ راوی ثقہ ہو تو بھی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، اگر متن قرآن مجید یا کسی سنتِ ثابتہ کے خلاف ہے جو زیادہ یقینی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: تین طرح کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں: ملاحم، باب الفتن اور تفسیر۔ کیسا المیہ ہے کہ آج جو دین بیان ہو رہا ہے، اس کی بنیاد یہی تین باتیں ہیں۔

    نازک تر معاملہ، روایت کے مصداق کے تعین کا ہے۔ کسی دور کے بارے میں اور کسی فرد یا گروہ کے بارے میں، آپ نے کوئی بات کہی، اس کا تعین مشکل تر ہے۔ مثالوں سے بات واضح کرتا ہوں۔ ایک روایت کے مطابق ایک ایسے دور کا ذکر ہے جب دجال کا ظہور ہو گا۔ یہ بیان نہیں ہوا کہ کب ہو گا۔ لوگوں نے اپنے طور پر اس کے تعین کی کوشش کی۔ خود عہدِ رسالت میں ایک فرد کے بارے میں گمان ہوا کہ دجال ہے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: یا رسول اﷲﷺ کیا میں اسے قتل کر دوں۔ ارشاد ہوا: ”اگر وہ دجال ہے تو اس کا قتل تمہارے ہاتھوں نہیں لکھا‘‘۔ مسند احمد ابن حنبل کی ایک روایت ہے جس میں آپ نے اپنے دور سے لے کر قیامت تک پانچ ادوار کی پیش گوئی کی ہے۔ اس میں ملوکیت کے بعد ایک دور کا ذکر ہے جب ‘خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ قائم ہو گی‘۔ یعنی رسالت مآبﷺ کے طریقے پر خلافت کا قیام۔ حزب التحریر اور ڈاکٹر اسرار احمد نے ہمارے عہد پر اس کا اطلاق کیا اور تحریکِ خلافت برپا کی‘ حالانکہ حسن بصری اور بہت سے لوگ بتا چکے ہیں کہ یہ پیش گوئی عمر بن عبدالعزیز کی صورت میں پوری ہو چکی۔ داعش کا مقدمہ بھی اسی روایت پر کھڑا ہے۔

    کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شام، افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے موجودہ حالات کو روایات اور دین کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔ اکثر روایات بھی ایسی کہ خود محدثین انہیں مستند نہیں مانتے۔ ایسی روایات کے بارے میں لوگ بے خوفی سے کہتے ہیں ”رسول اﷲﷺ نے فرمایا‘‘۔ سچی بات ہے کہ پڑھتا ہوں تو خوف سے بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ کچھ فرمائیں اور حالات اس کی تصدیق نہ کریں۔ اب تو بات خوابوں تک پہنچ گئی، جیسے پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ تھا۔ دنیا میں واقعات، اﷲ تعالیٰ کی سنت کے تحت ہوتے ہیں۔ یہ سننِ الٰہی قرآن مجید مین بیان ہوئی ہیں اور رسالت مآبﷺ نے بھی ان کا ذکر فرمایا ہے۔ نبیﷺ اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد اب آسمان سے کوئی الہام اور وحی نہیں نازل نہیں ہو گی جس کا اتباع انسانوں پر واجب ہو۔ آپﷺ کے بعد قیامت ہے۔ قیامت میں سرخروئی کے لیے کیا ماننا لازم اور کس پر عمل کرنا ضروری ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتا دیا‘ جو یقینی ذرائع سے امت کو منتقل ہو گیا۔ یہی قیامت کی صبح تک ہدایت کے ماخذ ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں دین تلاش کرنا ایک خطرے کو دعوت دینا ہے۔ وہ خطرہ جس کا ہدف ایمان ہے۔

    پاکستان ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اسباب و علل کی دنیا میں، اس کے ظہور کے دلائل موجود ہیں۔ علامہ اقبال کی بصیرت نے اس خطے میں آباد مسلمانوں کے لیے ایک حل تجویز کیا۔ قائد اعظم جیسی نادرِ روزگار شخصیت نے ان سے اتفاق کیا۔ وہ حسنِ عمل اور بصیرت کے زادِ راہ لے کر نکلے اور مسلمانوں نے اجتماعی حیثیت میں ان کی بات کو درست مانا۔ یوں پاکستان واقعہ بن گیا۔ آج یہ ہمارا وطن ہے۔ وطن سے محبت ایک نجیب آدمی کی پہچان ہے۔ وہ وطن کے لیے جان تک قربان کر سکتا ہے۔ نجیب آدمی ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم پاک فوج کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا لہو اس ملک کی سلامتی کا ضامن بنا۔ انہوں نے پاکستان کو اپنا وطن مانا اور ایک نجیب آدمی کی طرح اس کے لیے جان نچھاور کر دی۔

    ان دنوں جنگ کا ہنگامہ برپا ہے۔ بھارت جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ دفاع ہمارا حق ہے۔ پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ مذہب بھی بزدلی کو اخلاقی رذائل میں شمار کرتا ہے۔ شجاعت نجابت کے اجزائے ترکیبی میں سے ہے۔ پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے کے لیے یہی دلیل کفایت کرتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو الٰہی منصوبہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ دینی جواز کی تلاش دور کی کوڑی لانا ہے۔ اسلام پوری بنی نوع انسان کے لیے پیغام ہدایت ہے۔ اس کا مخاطب ساری دنیا ہے۔ اسے ‘قومی مفادات‘ کے لیے استعمال کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ایمان ہی کا ہوتا ہے۔

  • سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ-ارشاد احمد عارف

    سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ-ارشاد احمد عارف

    irshad-ahmad-arif
    بجا کہ بھارت نے جھوٹ بولا، سرجیکل سٹرائیک نہیں کی، کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے دیا، اپنی قوم اور فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مودی سرکار کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ مگر ہمارا جواب کیا ہے؟ تردیدی بیانات یا کچھ اور؟
    بھارتی چینلز پر شور برپا ہے۔ بھارتی حکومت کے سول اور ملٹری عہدیدار، سابق سروسز چیفس، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما اور دانشور آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس کو اُڑی حملے کا منہ توڑ جواب قرار دے کر اپنی قوم اور فوج کا مورال بلند کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کُل جماعتی کانفرنس میں اس حملے کی تفصیلات بیان کی گئیں تو حکومت مخالف رہنمائوں نے بھی واجبی رد و کد کے بعد آمناّ و صدقناّ کہا۔ سرجیکل سٹرائیکس جھوٹا پروپیگنڈا ہے تو پھر بھی اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے پہلے یہ کام نہیں کیا تو اب کر سکتا ہے کیونکہ نریندر مودی کو اس معاملے میں ساری سیاسی قیادت، میڈیا اور بنگلہ دیش جیسے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی اس اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ بھارت سرکاری کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ نہیں دیا۔ منقسم بھارتی رائے عامہ متحد ہے اور میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا پاگل پن کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔

    کہتے ہیں تاثر اور احساس (Perception) حقیقت سے زیادہ جاندار ہوتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی پریس کانفرنس دنیا کو یہ تاثر دینے کے لیے تھی کہ بھارت نے پاکستان کو‘ کرارا جواب دیا ہے۔ یہ کشمیر اور اقوام متحدہ میں ہاری ہوئی جنگ پاکستان دشمن میڈیا کے ذریعے جیتنے کی تدبیر ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کو رام کرنے کی حکمت عملی اور عوام کو متحد کرنے کا حربہ بھی۔ چانکیہ کے پیروکاروں کو یہ ہنر آتا ہے۔ پر کا پرندہ اور رائی کا پہاڑ بنانے میں یہ ماہر ہیں‘ مگر بھارت صرف اسی پر تو اکتفا نہیں کرے گا۔ 1965ء میں بھی ہم اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ جموں و کشمیر میں جاری عوامی جدوجہد اور مسلح مزاحمت سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت بین الاقوامی سرحد پر چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا‘ حالانکہ گوہر ایوب خان کے بقول کئی ماہ قبل بھارت کا جنگی منصوبہ پاکستانی قیادت کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشن نے ترکی کے ذریعے ایوب خان کو بھارتی تیاریوں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بات بھارت میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر اور ایوب خان کے آخری وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے ذاتی طور پر مجھے بتائی؛ تاہم یہ اہم دستاویز اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے دبا لی‘ ایوب خان تک نہ پہنچائی۔ اس میں حملے کی تاریخ تک درج تھی۔

    اب صورت حال 1965ء اور 1971ء سے ملتی جلتی ہے۔ بھارت کشمیر میں عوامی جدوجہد سے تنگ ہے۔ بلوچستان، کراچی اور فاٹا بھارت کا نیٹ ورک ٹوٹا، الطاف حسین، براہمداغ بگٹی اور حربیار مری جیسے بھارتی ”اثاثے‘‘ دربدر ہیں۔ ‘پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘۔ کے فار کے یعنی کشمیر کا بدلہ کراچی میں کا نعرہ بے اثر ہے، سری نگر کی گلیوں میں پاکستان زندہ باد کا جواب کراچی میں دینے کی حکمت عملی ناکام رہی، سارا منصوبہ تلپٹ ہوا۔ بھارت سیخ پا ہے اور ہم کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردوں، تخریب کاروں، علیحدگی پسندوں، ٹارگٹ کلرز اور ”را‘‘ کے ایجنٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی جو مہم چلائی وہ چنداں کامیاب نہیں ہوئی۔ ایرانی بحری بیڑے اور روسی فوجی دستوں کی پاکستان آمد اس کا ثبوت ہے مگر اندرون ملک تخریب کاری کا بازار گرم ہے اور پاک فوج مغربی سرحد اور شورش زدہ علاقوں میں الجھی ہے۔ اُڑی واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کو الجھانے اور جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی جو کوشش کی وہ ناکام رہی۔ پاکستان نے خطے کے عوام اور عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ نہیں، امن کے خواہشمند ہیں اور دو ایٹمی قوتوں کے مابین جنگ کے نتائج و مضمرات کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بھارت مگر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ سات مقامات پر سرجیکل سٹرائیکس کا شوشہ چھوڑ کر اس نے چھ ممکنہ اقدامات میں سے ایک پر عملدرآمد کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ ہوئی یا نہیں؟ الگ بات ہے۔ اگر واقعی نہیں ہوئی تب بھی اس نے اعتراف جرم کیا ہے، ہم بھارت کے اعتراف جرم کو عالمی برادری کے سامنے کس انداز میں پیش کرتے ہیں؟ اپنے عوام بالخصوص کشمیری عوام کو کس طرح یقین دلاتے ہیں کہ قومی سرحدیں اور عوام سو فیصد محفوظ ہیں اور پاک فوج ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں جو بھارتی میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے بعد ہر شہری کو درکار ہیں۔ مربوط، منہ توڑ اور موثر جوابی کارروائی عوام کو مطمئن کر سکتی ہے۔

    بھارت اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے، مگر ہمارے ہاں عجیب سی لاپروائی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف جنرل اسمبلی میں اطمینان بخش خطاب کے بعد جلدی میں وطن واپس روانہ ہوئے مگر تین دن برطانیہ ٹھہرے۔ شسما سوراج کی تقریر کے بعد جوابی خطاب کا حق استعمال کرنے کے لیے مشیر خارجہ کو نیویارک میں ٹھہرنے کی ہدایت نہ کی‘ اور وطن واپس آ کر بھی انہوں نے وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب کیا، ایک تیرہ رکنی کمیٹی بھی بنا دی، اور نیشنل سکیورٹی کونسل و پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اگلے ہفتے بلایا، اللہ اللہ خیر سلا۔ مودی کی طرح کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی‘ نہ دفتر خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائیوں اور پاکستان کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے پر احتجاج کرے۔ یہ سرجیکل سٹرائیک نہ سہی کنٹرول لائن کے سات مقامات پر حملہ تو ہے اور ہمارے دو فوجی جوان شہید ہوئے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ آج کے دور میں جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے مگر تاحال یہ کام فوج کے سپرد ہے اور فوج کو بدنام کرنے کے لئے بھارت سرجیکل سٹرائیک کا شوشہ چھوڑ رہا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو بدظن کرے کہ وہ بھرپور جواب نہیں دے سکی۔ ہمارے حکمران، سیاستدان بدستور سیاسی کھیل میں مشغول ہیں۔ پٹھان کوٹ حملے پر ہمارے وزیر اعظم بے چین تھے، انہوں نے سری لنکا سے بھارتی ہم منصب مودی کو فون کرکے اظہار یکجہتی کیا۔ کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کی صورت میں بھرپور کارروائی کی یقین دہانی کرائی اور اپنے ہمسفر پاکستانی صحافیوں کے سامنے عزم ظاہر کیا کہ اگر یہ کام کسی پاکستانی تنظیم کا ہوا تو وہ نہیں چھوڑیں گے۔ واقعہ پٹھان کون میں ہوا مگر ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کی گئی۔ اس کے برعکس کنٹرول لائن کے پانچ مقامات پر بھارت نے خلاف ورزی کی، دو فوجی شہید ہوئے لیکن وزیر اعظم کا ردعمل ایک بیان ہے، مودی سے فون کی نوبت نہیں آئی۔

    کوئی باشعور، امن پسند اور محب وطن پاکستانی بھارت سے جنگ چاہتا ہے نہ جنگی جنون کو ہوا دینے کے حق میں‘ مگر مسلمانوں کو گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے۔ بہترین کی خواہش اور بدترین کی توقع تقاضائے دانشمندی ہے۔ خدا کرے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے مگر قوم کو تیار اور متحد کرنے اور سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا کر دشمن کے سامنے اتفاق و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں حرج کیا ہے۔ اشتعال انگیز فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے کر بھارت نے اپنے عوام کو گمراہ اور فوج کو مطمئن کیا، ڈی جی ملٹری آپریشن رنبیر سنگھ کے بیان میں Across the LOC کے بجائے Along the LOC کے الفاظ استعمال ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ کارروائی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی، بارڈر کے پار پاکستانی علاقے میں نہیں۔ باقی مرچ مصالحہ پالتو بھارتی میڈیا نے ڈالا۔ یہ اُڑی کے واقعہ اور کشمیری عوام کی مزاحمت سے توجہ ہٹانے کی سعیٔ لاحاصل ہے اور ڈی جی ایم او کی پریس کانفرنس جموں و کشمیر میں ہاری ہوئی جنگ میڈیا پر جیتنے کا حربہ۔ مگر ہماری جوابی تیاری کیا ہے؟ فوج کتنی تیار ہے اور حکومت اور قوم کس قدر؟ صرف میڈیا کے بہتر استعمال سے کام نہیں چلے گا۔ سیاسی سطح پر انتشار، محاذ آرائی، باہم جوتم پیزار اور الزام تراشی سیاسی قیادت کا جنگی اثاثہ ہے۔ ع ‘یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو‘ چانکیہ کے پیروکار دشمن کا مقابلہ مشکل ہے‘ ناممکن نہیں۔ عوام کی خواہش کچھ اور ہے۔ نیوکلیئر اسلامی ریاست اور جذبہ جہاد سے سرشار فوج کے شایان شان جواب۔