Tag: سراج الحق

  • سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    Hussain

    سینیٹر سراج الحق نے اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ یہ دلچسپ داستان دردانگیز بھی ہے اور فکرانگیز بھی۔ ان کی داستان حیات پڑھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خودی، خودداری، خوئے دلنوازی، خوش خلقی، دلداری، فقیری میں شاہی اور شاہی میں فقیری اور راہبری و راہنمائی کا درس کلام اقبال سے لیا ہے۔ اقبال کی شاعری آفاقی بھی ہے اور ایمانی بھی۔ ان کے سارے اعجاز کلام کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کو ان کے رخشندہ و تابندہ ماضی سے روشناس کرانا اور جوانوں کو مسلمانوں کا سنہری دور یاد دلا کر انہیں اس تابناک ورثے کی طرف بلانا ہے۔ اسی لئے تو علامہ فرماتے ہیں۔

    کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

    امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے ملاقات ہو تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایک کھرا اور سچا انسان ہے جسے تصنع اور بناوٹ چھو کربھی نہیں گزری۔ اس میں احساس کمتری ہے اورنہ ہی وہ احساس برتری کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو یاد کر کے مسکراتا اور اپنی کامیابیوں پر کبھی نہیں اتراتا۔ سراج الحق نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلع دیر کے ایک گائوں میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت ننھے منے سراج الحق کے پاس اسکول کتابیں لے جانے کے لئے بستہ نہیں تھا اور یہی سراج الحق 2002میں جب متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اپنے صوبے کا وزیر مالیات بنا تو اس نے اپنی کیبنٹ اور اسمبلی سے پہلا حکم یہ پاس کروایا کہ اب اس صوبے کے پرائمری اسکول جانے والے ہر بچے کی کتابیں اور بستے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت دے گی تاکہ آج کا کوئی سراج الحق بستہ نہ ہونے کی بنا پر افسردہ و غمزدہ نہ رہے۔ سراج الحق نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں ایسی ہی عوام دوست پالیسیاں بنائیں۔ دوسری بار 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد ہوا ایک بار پھر صوبائی وزیر مالیات کا قلمدان سراج الحق کے سپرد کیا گیا۔ ان کے دوست تو دوست ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی دیانت و امانت کی قسم کھاتے ہیں۔ ان کے دونوں ادوار حکومت اور اب جماعت کی امارت میں ہر وقت ان کے مداحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم کا سبب بھی پیر و مرشد علامہ اقبال بیان فرما گئے ہیں؎

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مرد خلیق

    سراج الحق پیر مغاں تو نہیں مگر مرد خلیق ضرور ہیں۔
    ان کی شخصیت کلام اقبال اور فکر مودودی کا دلنواز مجموعہ ہے۔ یہ غالباً اسی خوش خلقی اور دلنوازی کا کرشمہ تھا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران جماعت اسلامی نے دو بڑے بھرپوراجتماع کئے۔ ایک اضاخیل نوشہرہ خیبرپختونخوا میں منعقد ہوا کہ جس میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہونے والے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ افراد موجود تھے۔ اس اجتماع عام کی خاص بات یہ تھی کہ قدامت پسند اقدار کے حامل صوبے سے بھی ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کا دوسرا اجتماع چند روز پہلے لاہور میں منعقد ہوا جس میں صرف جماعت اسلامی پنجاب کے مرد ارکان و کارکنان نے شرکت کی۔ یہ تعداد بھی بیس ہزار سے کیا کم ہوگی۔ جناب سراج الحق نے اخباری دنیا کو اجتماع کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ؎

    دیدہ کے بود مانند شنیدہ

    فی الواقع جماعت اسلامی کے اجتماعات نظم و ضبط اور باہمی ایثار کے اعتبار سے مثالی ہوتے ہیں۔میں لاہور کے اجتماع میں تھوڑی دیر کے لئے ہی جاسکا۔ جب میں پنڈال میں پہنچا تو سینیٹر سراج الحق ہی خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں منتخب کریں گے تو پھر آپ کو گلیوں محلوں میں گیٹ لگانے، اپنے چوکیدار مقرر کرنے، ٹھیکری پہرہ دینے اور راتوں کو جاگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر آپ گہری پرسکون نیند سوئیں گے اور ہم پہرہ دیں گے۔ لوگ جماعت اسلامی کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کے پاکستان میں ستر سالہ ماضی کو دیکھ کر ان کی ہربات پر یقین بھی کرتے ہیں مگر انتخاب کے وقت انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ عوام الناس سے پوچھیں کہ آپ سچے اور کھرے نمائندوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے تو ان کے جواب کا مفہوم بقول غالب یہ ہوتا ہے؎

    جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    جماعت اسلامی کے زعماء سے پوچھیں کہ جماعت کو عوامی پذیرائی کیوں نہیں ملی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔ جماعت کے دروازے تو یقیناً کھلے ہوں گے مگر ان دروازوں پر اتنے ’’پہریدار‘‘ بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیچارے عوام اندر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ شاید لوگوں کو جماعت کے کڑے تنظیمی مدارج سے ڈر لگتا ہے۔ جماعت اسلامی گہرے غور و فکر سے کام لے اور سوچے کہ ترکی، تیونس اور مصر وغیرہ میں اسلامی تحریکوں نے اپنے سیاسی چراغ فکر مودودی سے روشن کئے ہیں مگر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی چراغ میں روشنی کیوں نہیں۔ جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اپنی سیاسی و انتخابی تاریخ کا بنظر عمیق جائزہ لے کہ ہر معاملے میں حقیقت پسندی کے باوجود جماعت اسلامی 1970 سے لے کر 2013 تک انتخابی تخمینے میں خوش گمانی کا کیوں شکار ہو جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کو جناب سراج الحق کی صورت میں ایک ایسی قیادت ملی ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا تھا؎

    تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
    حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
    دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمائے
    فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

    احساس زیاں ایک بڑی دولت ہے اور سراج الحق اس لحاظ سے ایک بہت دولت مند شخص ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی اپنی زبانی میں نہایت فراخدلی سے 2002 میں بننے والی متحدہ مجلس عمل کو بہت سراہا ہے۔ پھر نہ جانے کیوں جماعت نے ایم ایم اے سے کٹی کرلی۔ غالباً اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب جماعت دوسرے ممالک میں کامیاب اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے تنظیمی اور سیاسی شعبوں کو الگ الگ کرے اور عوام کے لئے حقیقی معنوں میں اپنے دل کے دروازے کھول دے۔ جماعت اسلامی انتخابی تخمینے میں خوش خیالی کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لے۔ اگر متحدہ مجلس عمل کا ماڈل کامیاب تھا تو اس کے دوبارہ احیاء میں تردد کیوں؟ جماعت اسلامی کو نئی سیاسی و انتخابی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں اقبال کا مرد کوہستانی سینیٹر سراج الحق کلیدی ہی نہیں انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برحق کہا تھا؎

    فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
    یا بندئہ صحرائی یا مردِ کوہستانی

  • بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    بلٹ نہیں بیلٹ سے انقلاب – انعا م الحق اعوان

    انعام الحق اعوان ہرصبح اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھتا ہوں کہ شاید آج پولیس کے ہاتھوں کوئی ظلم کا شکارنہ ہوا ہوگا، آج اشرافیہ کی سرپرستی میں حواکی بیٹی کی عصمت نہ لٹی ہوگی، جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے مزدور اور مزارعے کے ہاتھ اورکان نہ کاٹے گئے ہوں. عابداقبال! آپ پازیٹو پاکستان کے سفیر ہو لیکن کیا کروں کہاں سے لاؤں وہ امید کہ جو مسجد جیسی پاک دھرتی پر پھول بکھیر دے. معصوم زین کے قتل کی فریاد کروں، حافظ آباد کے ابوبکرکے لیے انصاف کی بھیک مانگوں یا لاہورکی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے بااثرحکومتی درندوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کروں. 69 برسوں سے پاکستان کے باسی اس اسلامی فلاحی ریاست کا انتظار کر رہے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس کو تعبیر محمدعلی جناح نے دی تھی.

    لیکن درندوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے والے کھوٹے سکے آج بھی یہاں بڑے سے بڑا جرم کر کے سکھ چین کی زندگی گزارتے ہیں اور جرم نہ کرکے بھی ایک 6 سالہ بچہ ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ہاتھوں اذیت سہتا ہے. کبھی خبرملتی ہے کہ اس معصوم کوگرم استری سے جلا دیا گیا اور کبھی یہ صدا دماغی توازن کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ اس معصوم کو ہنٹر سے مار مار کر اس لیے لہولہان کر دیا گیا کہ اس نے ’’چھوٹے بابا‘‘ کے کھلونوں کو ہاتھ لگا کر اپنا بچپن محسوس کرنا چاہا تھا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ غریب تو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، ان کا بچپن ہوتا ہے نہ جوانی اور نہ ہی بڑھاپا، ان کی زندگی کا ہر لمحہ موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

    انھیں اس سے کیا غرض جن کے کندھوں پر اس اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، ان کے بلاول، حمزہ، سلیمان وقاسم اور حسن و حسین تو شہزادوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے گھوڑوں اور کتوں کو وی آئی پی رومز اور مربع میسر ہیں، غریب کا کیا ہے؟ یہ تو گندگی کے ڈھیر سے اپنے پیٹ کا جہنم بھر ہی لے گا، اسے کپڑوں کیاضرورت ہے؟ اس نے کون سا فارن وزٹ پرجانا ہے؟ انہی گلی محلوں میں ہی تو رہنا ہے۔

    مایوسی ہی مایوسی ہے، لیکن، ہاں ایک راستہ ہے جس سے غریب ہاری اور محنت کش کے حالا ت بدل سکتے ہیں کہ وہ بلٹ اور استحصال کے مقابلے میں اپنے بیلٹ کی طاقت ان کے حق میں استعمال کر دے جو کرپٹ اور بددیانت نہیں ہیں اور جن کا دامن صاف ہے. وہ جب سٹی ناظم کراچی کی حیثیت سے اقتدار کی مسند سنبھالتے ہیں تو اپنی دیانتداری اور قابلیت کے باعث 4 ارب کے بجٹ کو 42 ارب تک پہنچا دیتے ہیں، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود عوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کرتے ہیں کہ بدترین جانی دشمن بھی ان کی کارکردگی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نعمت اللہ خان جیسا حکمران آج تک کراچی کونصیب نہیں ہوا، جو اقتدارکی مدت مکمل ہوتے ہی مدت اقتدار کے دوران لی گئی تنخواہ کا چیک کاٹ کر صدقہ کرتا اور دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ گھر روانہ ہوجاتا ہے۔ جب انھیں خیبرپختونخوا کے خزانے سونپے جاتے ہیں تو بھی ان کے رہن سہن میں فرق نہیں آتا، گھر کے دروازے پر لٹکا اور کپڑے کی بوری سے بنا ایک پردہ ہی سراج الحق کی بلٹ پروف سیکورٹی کا کام کرتا ہے. سرکاری فارن وزٹ کے دوران عالیشان ہوٹلز میں عوام کے کروڑوں روپے پھونکنے کے بجائے یہ جامع مسجد میں قیام کرتے ہوئے اپنے عوام کی امانتوں کا پاس کرتے ہیں، یہ بظاہر فقیراور درویش نظرآتے ہیں لیکن جب وہ ایک صوبے کے بدحال مالی حالات کواس کی صحیح ڈگر پر لاتے ہیں تو ورلڈ بنک اور عالمی ادارے ان کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ پھرجب ان کے ایک پارٹی رکن عنایت اللہ خان کو خیبرپختونخوا میں بلدیات کی منسٹری ملتی ہے تو وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہے، اپنی قابلیت اور بے لوث پارٹی ایڈوائزرز کے ساتھ مل کر دنیا بھر کے
    تجربات کا نچوڑ نکال کر ایسے لوکل گورنمنٹ انتخابات کرواتا ہے کہ فائلوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں ویلج کونسل کی صورت عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے. وزارت سنبھالتے وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا جو محکمہ 26 کروڑ خسارے میں ہوتا ہے، دوسالوں میں ہی اسے 7ارب کے منافع پر لاکھڑا کرتا ہے۔

    عوام کواپنی تقدیر بدلنی ہے تو ان درویشوں کا دامن تھامنا ہوگا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی قائد نہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کوماننے والوں کو اللہ کی ماننے کی دعوت دیتے ہیں، دن رات اسی کےلیے قائل کرنے میں مصروف ہیں ۔۔۔اور۔۔۔ جس دن اللہ کی ماننے والوں کی تعداد قابل ذکر ہوئی، یہ تمام مسائل از خود حل ہوجائیں گے. اب فیصلہ عوام کے پاس ہے کہ وہ 69 برسوں سے اپنا خون چوسنے والے کرپٹ اور بددیانت سیاستدانوں کو خود پر مسلط رکھتی ہے یا اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت پر اعتماد کرتی ہے.

  • سراج الحق اور عمران خان کی سپریم کورٹ آمد میں فرق – انعام الحق اعوان

    سراج الحق اور عمران خان کی سپریم کورٹ آمد میں فرق – انعام الحق اعوان

    انعام الحق اعوان سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے موقع پر جمعرات کے روز بہت سے قومی قائدین کے چہرے سے نقاب الٹا اور ان کا حقیقی چہرہ وہاں موجود عوام نے فزیکلی اور پوری دنیا نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹرسراج الحق اپنی جانب سے دائرکی جانے والی پٹیشن میں ٹی او آرز جمع کروانے کورٹ پہنچے توان کے استقبال کے لیے راولپنڈ ی و اسلام آباد کی پارٹی قیادت اور کارکنان کی بڑی تعداد استقبال کے لیے موجود تھی، وہ ہر کارکن سے بالمشافہ ملے اور مختصرگفتگو بھی کی۔ اس کے بعد وہ بلڈنگ کے اندر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو کورٹ کے تمام رولز کو فالو کیا۔ اس موقع پر پولیس اور عدالتی اہلکاروں نے ان کی تکریم کی اور ہاتھ اٹھا کر اپنے انداز میں سلام کیا، لیکن سینٹر سراج الحق ہر اہلکار کے پاس پہنچنے، ان سے مصافحہ کیا، جوابی احترام دیا اور روانہ ہوگئے۔ کورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے میڈیا ٹاک کے لیے بنائے ڈیسک کے پاس پہنچے تومیڈیا نمائندگان نے ان سے گفتگو کرنے کی درخواست کی تو انھوں نے وہاں مختصرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف نوازشریف یا حکومت نہیں، اپوزیشن اور حکومت میں موجود ہر کرپٹ فرد کا احتساب چاہتے ہیں،گفتگو کے اختتام پر میڈیا کا شکریہ اداکرتے ہوئے سراج الحق مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے۔

    تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہٹو بچو کی صداؤں میں تشریف لائے توان کے ورکر دیکھتے ہی رہ گئے کہ ان کا قائد رک کر دو چار منٹ ان پر نظر کرم کرے گا، لیکن ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والا کپتان تو بہت بزی ہوتا ہے اور ایسی فضولیات کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا، اس کا عملی اظہار اس وقت دیکھنے میں آیا جب بادشاہ سلامت انتہائی رعونت کے ساتھ عدالتی اہلکار کو ’’پٹواری‘‘ سمجھ کر اس سے الجھ پڑے، اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے عالم پناہ کوعدالتی رولزکے مطابق اندر جانے کے لیے انٹری پاس دینے کی جسارت کر دی تھی، لیکن شاید اسے معلوم نہ تھا کہ قانون، آئین اور عدالتیں عالم پناہ کے لیے نہیں ہیں، اس بازو کو جڑ سے ہی اکھاڑنے کی خواہش لیے اپنی طرف کھینچ لیا گیا جس سے بادشاہ سلامت کو کارڈ دینے کی جسارت کی گئی اور انتہائی رعونت بھرے انداز میں ارشاد ہوا ’’جانتے نہیں میں کون ہوں ؟‘‘سپریم کورٹ بلڈنگ میں داخلے کے بعد کورٹ کے مرکزی دروازے سے داخل ہونے سے قبل میڈیا ٹاک کے لیے ڈیسک کے قریب سے گزرے تو میڈیا نمائندگان نے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی، لیکن شاید ابھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تھا اس لیے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی کورٹ کے اندرداخل ہوگئے۔ ہم وہیں موجود تھے، یہ سب دیکھا کیے۔

    سماعت مکمل ہوئی توقائدین کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ فریقین میڈیا ٹاک کرتے اور بیرونی راستے کی جانب روانہ ہو جاتے، جہاں میڈیا کے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ مرحلہ تھا، وہیں سیاسی قیادت بھی پریشان تھی، کیونکہ جو بھی میڈیا ٹاک کے لیے آتا، اس کے ساتھ قائدین کی ایک فوج ہوتی اور ہرایک کی خواہش ہوتی کہ کیمروں کے قریب تر اپنے قائد کے ساتھ وہی نظر آئے، ایسے میں جہاں دھکم پیل اور بدمزگی نظر آئی، وہاں تحریک انصاف کی روایات بھی جوبن پر نظر آئیں، عمران خان میڈیا ٹاک کے لیے آئے تو ان کی آمد سے قبل ہی تحریک انصاف کے قائدین ڈیسک پر قابض ہوچکے تھے۔ نعیم الحق اور خرم نواز گنڈا پور کے درمیان معاملہ تلخ کلامی تک محدود نہ رہا بلکہ گالم گلوچ اور دھمکیوں تک جا پہنچا، عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نوازگنڈا پور اس دوران عمران خان پر بھی خوب برسے اور ’’یہاں شہنشاہ صاحب تشریف لارہے ہیں‘‘ کہتے ہوئے میڈیا ٹاک میں شریک ہوئے بغیر وہاں سے روانہ ہوگئے اور سپریم کور ٹ کے احاطے کے باہر ان سے نمٹنے کے لیے بےقراردکھائی دیے۔

    سینٹرسراج الحق میڈیا ٹاک کے لیے آئے تو ان کے قائدین تو کیمرے میں آنے کے لیے آپس میں نہ الجھے البتہ ایک مشکوک صاحب ان کے قریب آنے کےلیے کافی دھکم پیل کرتے رہے۔ اس دوران جماعت اسلامی کے وکلاء اور قائدین سے اس مشکوک فرد نے تلخ کلامی بھی کی لیکن میڈیا ٹاک کے بعد جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کپتان کی طرح بدمزگی سے آنکھیں چرانے کے بجائے فریقین میں صلح کروا دی۔

  • یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
    ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہوتی ہے

    سراج الحق کرپشن کو ہدف بنائے،
    اس کے لیے اس وقت منصوبہ بندی کرے جب کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو،
    اپنے سالانہ تنظیمی منصوبہ عمل میں کرپشن پر مہم کو شامل کرے، سال بھر کیا، کرپشن کے خاتمے تک کےلیے تحریک کی جزئیات طے کرے اور پھر اپنی پوری تنظیم کو اس کے حصول پر لگا دے،
    سراج الحق کرپشن فری پاکستان کےلیے ٹرین مارچ کرے، جلسے جلوس اور سیمینار کرے،
    سراج الحق کرپشن مکاؤ پاکستان بچاؤ کا اعلان کرے، سڑکوں پر اس کےلیے مارچ کرے،
    سراج الحق خود امانت و دیانت کا نمونہ ہو، اسے بہترین فنانشل مینجمنٹ اور ایمانداری کے ایوارڈ ملیں،
    اس کے کارکن وزراء کرپشن سے دور رہیں، دوسری جماعت کے سربراہوں سے ستائش اور شاباش پائیں،
    وہ کرک میں کرپشن پر ضرب لگائے یا کراچی میں اس کے خلاف اعلان جہاد کرے،
    وہ کرپشن کے ناسور کے خلاف دھرنے دے یا بار رومز میں جا کر چیخے اور چلائے،
    وہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ جائے یا کالی پٹیاں باندھے،
    اس کی ساری دلیلیں رد ہوں اور کوئی ابھی ہونٹ بھی نہ کھولے تو خبر پہلے بن جائے؟
    کوئی اپنے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں اور ضمیر فروشوں کو لے کر کھڑا ہو جائے تو کوئی اسے متوجہ کرنے کو بھی گناہ سمجھے،
    تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
    میڈیا اپنا اعتبار کھو رہا ہے، ڈیٹا بتا رہا ہے کہ آنے والی نسل ٹی وی سے سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے، الیکٹرونک سے ڈیجیٹل کی طرف رجوع بڑھتا جا رہا ہے،
    پھر تیرا کیا بنے گا میڈیا؟
    یاد رکھنا میڈیا گرد کا طوفان اٹھا کر زیادہ لوگوں کو کچھ دیر تک دھوکہ تو دے سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو زیادہ دیر تک بھی دھوکہ میں رکھ سکتا ہے مگر وہ زیادہ لوگوں کو زیادہ عرصہ تک دھوکے میں نہیں رکھ سکتا.
    حال کا لکھنے والا چاہے جو بھی لکھے، وقت کا بے رحم مورخ جب سچ لکھے گا تو وہ سراج الحق کو دیانتداری کا پیمانہ قرار دے گا، وہ سراج الحق کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں.
    وہ لکھے گا کہ جب سراج الحق اور ایک سراج صاحب پر ہی کیا موقوف ہزاروں دیانتداروں پر مشتمل ایک گروہ موجود تھا، اس وقت اس بد نصیب قوم نے اپنے لیے شریفوں زرداریوں اور ترینوں کا انتخاب کیا تھا.
    مؤرخ کے ہاتھ اس وقت کپکپا جائیں گے اور اس کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، جب وہ دریافت کرے گا کہ سراج الحق کی ٹیم میں وہ نعمت اللہ خان بھی موجود تھا جس نے ساری نظامت کے اختتام پر ایک چیک کاٹ کر ساری تنخواہ صدقہ کر دی تھی اور ایسے دامن جھاڑ کر گھر چلا گیا تھا جیسے منصب و اختیار اور مال و اسباب نہ ہوں کوئی بلا ہو،
    مؤرخ اس عنایت اللہ خان کو بھلا کیسے بھولے گا جسے اس کی ایمانداری پر اس کا وزیراعلی ہر اہم اصلاحاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر مطمئن ہو جاتا تھا، جس کی سربراہی میں پولیس، احتساب، بلدیات اور اس جیسے دیگر کئی اصلاحات تجویز اور عمل سے ہمکنار ہوتی تھیں، اور اس کا نام کیا لینا، اس کے کام پر دوسرے اپنی مہر لگا دیتے تھے مگر وہ پھر بھی خدمت کےلیے ہر دم مستعد رہتا تھا.
    میری دعا ہے کہ سراج الحق میرا امیر میرا قائد میرا ہمدرد و غمخوار قائد اپنی بے نیازی پر قائم رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے غیر معمولی کردار کا پرچارک کر سکے۔
    کیونکہ سب کو اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوگا کوئی کسی کا ڈھول نہیں پیٹے گا.

  • عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    ارشد زمان آئینی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے ہرگز ہرگز کسی دھرنے، مارچ، جلسے اور جلوس پر اعتراض اور تنقید نہیں کی جا سکتی کہ یہ اس راستےکے ضروری بلکہ بعض اوقات لازمی ذرائع ہیں جو مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

    مگر اس طریق کار اور حکمت عملی پر اختلاف ہو سکتا ہے جو ہر سیاسی جماعت اپنی سوچ، ویژن، مقاصد اور ترجیحات کے مطابق طے کرتی ہے۔

    سیاسی میدان میں اس سیاسی لیڈر کو اناڑی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی مرضی کو دیگر سیاسی جماعتوں پر ٹھونسنے اور اسے اپنا حق سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہوا کرتا ہے۔ ایسی سوچ، رویہ اور طرزعمل تکبر، غرور اور گھمنڈ کہلاتا ہے اور یہ بہت بڑی کمزوری ہے جو اس لیڈر اور اس کی جماعت کو سیاسی تنہائی سے دوچار کر رہی ہوتی ہے۔
    آج کل کے سیاسی حالات میں عمران خان صاحب کی سیاسی اپروچ اور طرزعمل سے اسے بخوبی جانچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

    ہمارا نہیں خیال کہ کسی کو خان صاحب کے دھرنے پر اعتراض تھا، جس پہلو نے تنقید کا جواز فراہم کیا، وہ ان کا طریق کار اور عزائم تھے۔ کرپشن کو ایشو بنانا، اس کے خلاف قوم میں آگاہی پیدا کرنا، لوگوں کو متحرک کرکے حکمرانوں کو انڈر پریشر رکھنا، اداروں کو اس کے خلاف کچھ کرنے کرانے پر مجبور کرنا، اور کچھ کر گزرنے کے لیے خود کو پیش کرنا، منوانا، اعتماد حاصل کرنا اور جگہ پانا اور معاملہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت کو ہر ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا، اسے گرانا اور وزیراعظم کی چھٹی کرانے سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہونا الگ اپروچ ہے. ظاہر ہے کہ ان راستوں کے تقاضے مختلف اور نتائج علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔

    ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کی کرپشن خان صاحب کا ایشو نہیں ہے، یہ تو پوری قوم کا ایشو ہے، مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ ان کی سوچ اور مقصد واضح ہے کہ وہ خود فوری وزارت عظمی اور حکومت کے تمام تر اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی خواہش اور مطالبہ بلکہ ”فتوی“ ہے کہ ملک کے تمام سیاسی و غیر سیاسی، ظاہری و پوشیدہ، نئے اور پرانے، سب عناصر غیر مشروط طور پر ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان کی حکمت عملی کی داد بھی دیا کریں بغیر نتائج کے پروا کے۔
    یہی خیال ہے جس نے محترم کو انانیت کے خول میں بند کر رکھا ہے، اس کے مظاہر ضد، ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی کی صورت ہم دیکھتے ہیں۔

    اب اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی اور اپوزیشن جماعت کی برپاکردہ تحریک کے تمام تر مطالبات کی تکمیل یعنی،
    جوڈیشل کمیشن کی تشکیل
    انتخابی اصلاحات
    چار کے بجائے بیس منتخب حلقوں کی دوبارہ جانچ پڑتال
    وغیرہ اور ہونے والے معاہدہ کےلیے پارلیمنٹ کی ضمانت کے حصول کو محض اس ایک شرط کہ وزیراعظم لازمی استعفی دے، کو پورا نہ ہونے پر زمین پر پٹخ دیا جائے اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر کاربند رہا جائے؟ اس طرزعمل کا جو نتیجہ خود انھوں نے، ان کی جماعت نے اور پوری قوم نے بھگتا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
    کیا اس کا تجزیہ اور محاکمہ کرنا، تحریک انصاف اور اس کے ہمدردوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایک موقع ایسا آتا ہے کہ ایک کے علاوہ ان کے تمام مطالبات ماننے میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے کہ یہ تمنا، آرزو اور حسرت مقدر ٹھہر جائے کہ،
    ”کاش کوئی واپسی کا باعزت راستہ دکھائے۔“

    اسی تناظر میں جب خان صاحب نے جاتی عمرہ، رائے ونڈ میں جلسے کے تجربے کے بعد اسلام آباد کو بلاک کرنے یا کرانے کا اعلان فرمایا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور انھیں متوجہ کیا کہ ایسے میں کہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، وہ اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور بقول ان کے جو اصلاحات کی گئی ہیں اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس کے نتائج اور ثمرات کے حصول پر فوکس کریں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اسے ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس طرح نواز حکومت کو اپنی ناکامی چھپانے کےلیے کوئی آڑ نہیں ملےگا۔ اچھی منصوبہ بندی اور مسقبل کے لیے تیاری کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا جائے مگر کسی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز کیاجائے، مگر حسب روایت خان صاحب اونچی اڑان کے شوق میں اعلان کربیٹھے کہ ”آسمان گر جائے، تب بھی دھرنا ہوگا۔“ جو کہ بدقسمتی سے نہ ہوسکا۔

    زمیں اور آسمان اپنی جگہ قائم ہیں مگر خان صاحب نے اپنی پوری جماعت اور تحریک کو ہلا کے رکھ دیا، اسے متنازعہ اور مشکوک ٹھہرا دیا۔ اس کا انھیں خود کو بھی احساس ہے اور متعدد بیانات میں اپنے کارکنوں کی ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں. یہ تو اللہ بھلا کرے سراج الحق کا کہ وہ عین وقت پر سپریم کورٹ سے کوئی امید افزا فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جس سے خان صاحب کو ”یوم تشکر“ منانے کا نادر موقع ہاتھ آیا اور صحیح تر معنوں میں واپسی کا محفوظ راستہ ملا۔ سراج الحق نے ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پڑیشن دائر کی تھی اور اس کے ذریعہ مسئلہ حل کروانے پر زور دیا تھا، اب خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی غلطی اور ناکامی کی اچھی سی اچھی توجیح پیش کریں، اور سراج الحق کی کامیاب حکمت عملی اور کامیابی کو ہائی جیک کرکے اس پر خوشی کے شادیانے بجائیں مگر جو تلخ حقیقت ہے اس سے صرف نظر نہ کیاجائے، شاید اندرونی طور پر انھیں اس کا شدت سے احساس بھی ہوا ہے اور تسلیم بھی کرایا گیا ہے کہ محض یوم تشکر منانے پر اکتفا کرنے کی بنیادی وجہ غلط حکمت عملی اور کوئی معقول اور قابل اعتبار تعداد کو اسلام آباد تک لانے میں ناکامی ہے۔ میڈیا کے باخبر ذرائع کے توسط سے اس اجلاس کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، وہ سب کچھ بتاتی ہے۔

    یہاں ہم ضرور جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ انھوں نے بہت ہی احسن انداز میں کرپشن کے خلاف نہ صرف تحریک کو اٹھایا ہے بلکہ مؤثر انداز میں اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ آج کرپشن کا ناسور اور حکمرانوں کی بد دیانتی ہر سنجیدہ محفل اور سوچنے والے حلقوں کا موضوع بنا ہوا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا کسی نہ کسی انداز میں اس پر بحث و مباحثہ کرنے اور کرانے پر مجبور ہیں، اس سے عوامی شعور اور بیداری میں ضرور مدد ملےگی۔ سراج الحق کی سپریم کورٹ میں پٹیشن اور مؤثر انداز میں اس کی پیروی پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، وہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور اگر درست اور مؤثر انداز میں اس کیس کو یونہی آگے بڑھایا گیا تو حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔

    ہم گزارش کریں گے کہ انانیت، ضد، جلد بازی اور خود کریڈٹ لینے اور تنہا سفر کرنے کے بجائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ اچھی حکمت عملی اور مؤثر جدوجہد کے ذریعے اکٹھے آگے بڑھنا چاہیے اور اس ملک کے بہتر مستقبل کے خاطر دیگر سیاسی جماعتوں اور خیر کے عناصر کو بھی جگہ دینے اور ساتھ ملانے کی فکر کی جائے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس جانگسل جدوجہد میں کامیابی تب ہوگی جب دوستوں کی تعداد زیادہ اور دشمنوں کی کم ہوگی.

  • تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش – احسن سرفراز

    تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش – احسن سرفراز

    احسن سرفراز ملک میں پچھلے کئی روز سیاسی طور پر خاصے ہنگامہ خیز رہے ہیں. پانامہ کا ہنگامہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے. جہاں حکومت نے اپوزیشن کے پانامہ سے متعلق مشترکہ مطالبات کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھا، وہیں اپوزیشن کی جماعتیں بھی اس مسلے کو حل کرنے کی حکمت عملی میں اختلاف کا شکار نظر آتی ہیں. یہاں ہم اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتحادی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی پانامہ کے حوالے سے حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں.

    کچھ دوست PTI کے موجودہ دھرنے و تحریک کا موازنہ قاضی حسین احمد مرحوم کے دھرنوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ جماعت اب ویسے دھرنے کیوں نہیں دیتی؟ تو قاضی صاحب کی لیڈر شپ اور خان صاحب کی لیڈر شپ میں زمین آسمان کا فرق ہے، قاضی صاحب نے کارکن سے آگے بڑھ کر خود مار اور آنسو گیس کھائی جبکہ خان صاحب اور تحریک انصاف کی دوسری لیڈر شپ بنی گالہ محل میں بیٹھی رہی اور کارکن مار، آنسو گیس کھاتا رہا.

    ہمارے ملک میں چند نادیدہ قوتیں حکومتوں کو گرانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد نکلنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں. قاضی صاحب سے بھی 1996ء میں بینظیر حکومت کے خلاف ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا وعدہ کر کے تحریک چلوائی گئی لیکن پھر اقتدار اپنے اس وقت کے چہیتے نواز شریف کے حوالے کر دیا گیا. دوسری بار 1999ء میں نوازشریف کو ہٹوانے کے لیے جماعت کو پھر استعمال کیاگیا اور مشرف خود مارشل لاء لگا کر بیٹھ گیا. اب جماعت نے ماضی کے تجربات سے سیکھ لیا ہے کہ ”ایمپائر“ کے اشارے پر ہنگامہ آرائی کرنے سے نقصان ملک اور جمہوری عمل کا ہوتا ہے اور جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، اس لیے جماعت نے اس طرح کی کسی بھی قسم کی منفی مہم جوئی سے توبہ کر لی ہے اور یہی بات خان صاحب کو سمجھاتی ہے، لیکن خان صاحب کو پہلے دھرنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور اب پھر خفت اٹھانی پڑی ہے، جبکہ دوسری طرف اداروں کے ذریعے احتساب کا جماعت کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور فیصلہ اب اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ میں آچکا ہے. پانامہ لیکس کے خلاف پہلی پٹیشن سراج الحق نے ہی دائر کی تھی، اس مقدمے میں جماعت حکومت کے خلاف فریق ہے اور سراج الحق اپنے وکیل اسد منظور بٹ کے ذریعے اس کیس کی پیروی کے لیے خود سپریم کورٹ باقاعدگی کے ساتھ جا رہے ہیں. اب جب جماعت کا مؤقف وقت نے درست ثابت کر دیا ہے توخان صاحب کے حمایتی یوٹرن لیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب نےدھرنا ختم کر کے میچور فیصلہ کیا ہے. ان سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کوئی میچورٹی ویچورٹی نہیں مجبور ہوکر دھرنا ختم کیا گیاہے. عدالت میں کیس تو پہلے ہی لگ چکا تھا اور ذرا سی بھی عقل رکھنے والا عدالت سے اسی فیصلے کی توقع رکھ رہا تھا. دراصل خان صاحب اس بار پھر ایمپائر کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہے. ساری کی ساری قیادت بنی گالہ میں پلاننگ کے نام پر چھپ کر بیٹھ گئی،گنڈا پور کی خرمستیوں اور ”شہد“ کی بوتل نے تحریک انصاف کو الگ مذاق کا نشانہ بنوا دیا، صرف پرویز خٹک نے ڈیڑھ دو ہزار کارکنان کے ساتھ کچھ مزاحمت دکھائی، باقی PTI کا سپورٹر اس طرح کی احتجاجی تحریک کا تجربہ نہیں رکھتا، عام آدمی اور خود تحریک انصاف کا کارکن باہر نکلا ہی نہیں.

    اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی بالکل متوازن اور ایشوز کی سیاست کرتی نظر آئی. اس نے ہر چیز کو تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا، جماعت ببانگ دھل حکمرانوں کی غلطیوں پر انھیں للکارتی بھی ہے، لیکن خان صاحب کی طرح کسی اشارے پر ہنگامہ آرائی کی سیاست نہیں کرتی، موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی موقع پر جماعت کو استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے. اپنی جلد بازیوں اور بار بار یرغمال بننے کے باعث خان صاحب خود سنجیدہ حلقوں میں اپنی سپورٹ کھوتے جا رہے ہیں اور ان کی حیثیت شیخ رشید کی طرح مجروح ہوتی جا رہی ہے. موجودہ صورتحال میں جماعت کا سیاسی مستقبل PTI کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں نہیں بلکہ دینی جماعتوں کے اتحاد میں ہے. جماعت کی اصل سیاسی طاقت اور فوکس خیبرپختونخوا ہے، وہاں دینی اتحاد فیصلہ کن برتری حاصل کر سکتا ہے. وقت نے ثابت کیا ہے کہ جلد بازی اور ردعمل کی سیاست وقتی طورپر تو نظروں کو خیرہ کرتی ہے لیکن اس کا انجام خفت کی صورت میں ہی نکلتا ہے.

    آنے والے دنوں میں پانامہ چوری کیس پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز میں سے ایک بننے جا رہا ہے، اب وکلاء پر منحصر ہے وہ اسے کس طرح پیش کرتے ہیں. میں سمجھتا ہوں عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے گی اور اگر اللہ نے چاہا تو اس ملک میں کرپشن، موروثیت اور سٹیٹس کو، تینوں کو اس کیس سے شدید دھچکہ پہنچے گا. دعا ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کی بہتری کا ہو اور قوم کی دولت لوٹنے والوں سے پائی پائی کا حساب لیا جائے.

  • جماعت اسلامی کے زوال کے اسباب – راشد حمزہ

    جماعت اسلامی کے زوال کے اسباب – راشد حمزہ

    جماعت اسلامی کے پاس جو ماہر اور تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہے، وہ کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں اور ہوگا بھی نہیں کیوں کہ یہ صرف جماعت اسلامی کا ہی خاصا رہا ہے کہ وہ اپنی مجموعی محنتوں کا زیادہ تر حصہ کارکن کی تربیت، ان کی صلاحیتیں نکھارنے اور پھر ان کو سیاست کے میدان میں اتارنے کے لیے تیاریوں پر صرف کرتی ہے. جماعت اسلامی کے پاس تربیت یافتہ کارکن ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت اپنے کارکن پر اس کے تعلیمی سالوں یعنی سکولنگ ختم ہونے اور کالج شروع ہونے کے بعد بھرپور نگاہیں رکھتی ہے، اس کی سیاسی تربیت پر توجہ دیتی ہے، اس کو مکالمہ بازی کے فن سے آشنا کراتی ہے، اسے لٹریچر فراہم کرتی ہے، اسے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتی ہے، بات بے بات مظاہرے کرواتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت کا کارکن جب اپنے تعلیمی سال مکمل کر لیتا ہے تو ساتھ ہی وہ بھرپور سیاسی عمل سے گزر کر ماہر کارکن بن چکا ہوتا ہے. صرف طالب علم ہی نہیں جماعت اسلامی ہر شعبے سے وابستہ اپنی تنظیموں خواہ وہ شعبہ خواتین ہو، اساتذہ ہوں وکلاء یا زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں، کو جماعت کی مرکزیت سے جوڑے رکھتی ہے، انھیں ہر اس قسم سرگرمی میں مشغول رکھتی ہے جس کا تعلق جماعت کی مرکزیت سے ہو، سادہ زبان اور مختصر لفظوں میں جماعت اسلامی اپنے کارکن کے لیے بھرپور درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے.

    اس کے باوجود جماعت اسلامی کی مسلسل ناکامیوں کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ یہ شاید جماعت اسلامی نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی. میرے خیال میں اگر ان اسباب کو جاننے کی کوشش کی جاتی جو جماعت کے زوال کا باعث بن گئے ہیں تو آج جماعت اس مقام پر کھڑی نہیں ہوتی. جماعت نے اپنے کارکن کی تربیت میں تو پورے نمبر حاصل کیے ہیں لیکن اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت کے سیاسی اہداف بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتے جا رہے ہیں. پہلے کی جماعت اسلامی حکومت کو اپنی سٹریٹ پاور کے ذریعے چیلنج کرتی تھی، حکومتیں اس سے خوفزدہ رہتی تھیں لیکن جب ایم ایم اے کے فلیٹ فارم سے جماعت کو پارلیمانی حیثیت مل گئی اور جماعت نے اپنی مروجہ روش بدل ڈالی، جوڑ توڑ کی پالیسی اپنائی، تب سے نہ صرف جماعت کا بلکہ ہر مذہبی جماعت کی سیاسی حیثیت بہت کمزور ہو گئی ہے، اب کوئی مذہبی جماعت مطالبہ کرنے اور منوانے کی پوزیشن میں نہیں، ان کو کم سے کم قیمت پر ساتھ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے.

    قاضی حسین احمد مرحوم تک جماعت کی سرگرمیاں پھر بھی توجہ کا مرکز بن جاتی تھیں لیکن جیسے ہی وہ رخصت ہوئے، جماعت اسلامی کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، سید منور حسن کے دور میں جماعت اپنی تاریخ میں سب سے نچلی سطح پر آگئی. سید منور حسن کے بعد قیادت سراج الحق کو منتقل ہوئی تو جماعت نےروایتی سیاست اپنا لی، خیبر پختونخوا میں حکومت کے مزے لوٹنے کو اپنا مقصد جانا لیکن وفاق اور مرکز میں ایک ایسی حکومت کی بھرپور حمایت جاری رکھی جو ہر طرح سے نااہل اور غیر عوامی ہے. موجودہ حکومت کے خلاف نعرے تو لگائے گئے لیکن ہر ضمنی الیکشن میں اسی حکومت کا ساتھ دیا گیا. پختونخوا میں حکومت ملنے کے بعد سراج الحق کی قیادت کے پاس یہ سنہرا موقع تھا کہ وہ عمران کے ساتھ حکومت بھی چلاتی اور ساتھ ہی وفاق میں عمران کے ساتھ الیکشن ریفارمز، کرپشن اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلاتی تو اس کا دوبارہ احیاء ہو جاتا، لیکن بدقسمتی کہ جماعت نے یہ موقع صرف اس خدشے کی وجہ سے ضائع کردیا کہ کہیں عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے ہماری آواز اس کے ساتھ دب نہ جائے.

  • جماعت کا اجتماع اور وزیر اعلیٰ سے ملاقات-رؤف طاہر

    جماعت کا اجتماع اور وزیر اعلیٰ سے ملاقات-رؤف طاہر

    rauf-tahir
    ہفتے کی شب پشاور کے نواح میں دریا کنارے‘ یہ ڈنر خود احتسابی کی مجلس بن گیا تھا۔ یہاں بڑی تعداد الیکٹرانک میڈیا کے وابستگان کی تھی۔ پشاور کے علاوہ اسلام آباد ‘ کراچی اور لاہور کی بھی معقول نمائندگی تھی۔”ایک پنتھ دو کاج‘‘ والا معاملہ تھا۔ نوشہرہ میں جماعت اسلامی خیبر پختونخواکا ”اجتماعِ عام‘‘ تھا اور ہم سب منتظمین کی دعوت پر اس کے مشاہدے کے لیے چلے آئے تھے۔ پاکستان میڈیا کلب نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ ملاقات کا اہتمام بھی کر لیا تھا۔ اس سے قبل2005ء میں جماعت نے صوبائی سطح پر اس طرح کے بڑے اجتماع کا انعقاد کیا تھا۔ تب قاضی صاحب (مرحوم) جماعت کے مرکزی امیر تھے اور جماعت یہاں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میںشریکِ اقتدارتھی۔ اس کے بعد ارکان اور کارکنان کے اجتماعات تو ہوتے رہے‘ لیکن اس طرح کے ”اجتماعِ عام‘‘ کا اہتمام12سال بعد اب پہلی بار ہوا تھاجب سراج الحق امیرِ جماعت ہیں اور جماعت ایک بار پھر اقتدار میں حصے دار ہے۔(اب عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ پارٹنرشپ )

    نوشہرہ کے باہراضا خیل میں یہ بلا شبہ بہت بڑا اجتماع تھا۔ جماعت کی سیاسی طاقت‘ اس کے نظم و ضبط اورحسنِ انتظام کا بھر پور اورشاندار مظاہرہ۔ خیموں کی بستی دور تک پھیلی ہوئی تھی جس میں فاٹا سمیت صوبے کے دور دراز اور دشوارگزار علاقوں سے بھی لوگ چلے آئے تھے۔ ہفتے کی شام پشاور میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ ”ہائی ٹی میٹنگ‘‘ تھی چنانچہ ہم سہ پہر کو خواتین کے اجتماع ہی میں ”شریک‘‘ ہو پائے‘ جن کے لیے الگ سے ‘ بہت بڑا پنڈال تھا۔

    کبھی ”شٹل کاک‘‘ برقعہ برصغیر میں مسلمان خواتین کی پہچان تھا پھر یہ پشتون خواتین تک محدود ہو گیا۔ یہاں پنڈال میں یہ کم کم ہی نظرآیا۔ 99فیصدسے زائد خواتین چادر یا ”فیشنی‘‘ برقعے میں‘ مکمل حجاب کے ساتھ تھیں‘(عطاء الرحمن صاحب کے خیال میں یہ ان کے پڑھے لکھے ہونے کی علامت تھی) بڑی تعداد یونیورسٹی‘ کالجوں اور اسکولوں کی طالبات کی تھی۔
    امیر جماعت نے اپنے خطاب میں خواتین کے شرعی حقوق پر روشنی ڈالی جن کی ضمانت قرار دادِ مقاصد میں بھی دی گئی تھی جو اب دستورِ پاکستان کا قابلِ نفاذ حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا‘ جماعت اقتدار میں آئی تو وراثت کے حوالے سے خواتین کے حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی‘ آرٹیکل 62/63میں ترمیم کر کے اس امر کا اہتمام کرے گی کہ انتخابی امیدوار آبائی وراثت میں اپنی بہنوں کے حصے کی ادائیگی کا سرٹیفکیٹ پیش کرے۔ انہوں نے 70سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے سرکاری الائونس کا بھی اعلان کیا اوراس کے ساتھ یہ خوش خبری بھی کہ جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے گھروں کے باہر‘ گلیوں میں گارڈز کی ضرورت نہیں ہو گی‘ یہ کام ملک کا صدر اوروزیراعظم خود کریں گے۔ انہوں نے خواتین کے لیے دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں جائز حصے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

    عنایت اللہ خاں‘ کے پی کے حکومت میں وزیر بلدیات (اورسینئر منسٹر) ہیں۔ لنچ پر وہ بتا رہے تھے کہ جماعت نے ان کی قیادت میں خصوصی کمیٹی قائم کی ہے‘ جو صوبے میں عوام کو درپیش مسائل کے تعین کے ساتھ ‘ان کا تجزیہ اور ان کے حل کے لیے لائحہ عمل بھی تیار کر رہی ہے۔ یہ 2018ء میں خیبر پختونخوا کے لیے جماعت کا الیکشن مینی فیسٹو ہو گا۔
    نماز مغرب کے بعد‘ سی ایم ہائوس میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ نشست دلچسپ رہی(صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی بھی موجود تھے) وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ تبدیلی اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کاویژن مختلف ہے۔ ان کے خیال میں اصل تعمیر و ترقی اور حقیقی تبدیلی‘ عام آدمی کے لیے آسودگی کا اہتمام ہے جو تعلیم‘ صحت اور امن و امان کے بہتر انتظام کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اپنی حکومت کے ابتدائی دو‘ اڑھائی سال میں انہوں نے ان شعبوں میں سسٹم کی تبدیلی‘ اداروں کی اصلاح اور تعمیرِنو کی طرف توجہ دی۔ صوبے کے تقریباً تیس ہزار اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ پرائمری سکول صرف دو کمروں اور دو استادوں پر مشتمل تھے۔ یہاں وہ چھ کمروں اور چھ اساتذہ کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے کہ (ان کے خیال میں) اس عہد میں اس کے بغیر بچے ترقی کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے انہوں نے خود اپنی دلچسپ مثال دی۔ ان کے سبھی بھائی تعلیم کے لیے لاہور ایچی سن میں بھیجے گئے تھے۔ وہ ماں کے زیادہ ہی لاڈلے تھے چنانچہ چوتھی جماعت تک گائوں ہی کے سکول میں رہے۔ اس کے بعد وہ بھی لاہور ایچی سن چلے آئے ‘ یہاں سال بھر پرنسپل صاحب کے گھر میں بھی رہے‘ لیکن ابتدائی چار جماعتوں والی اردو میڈیم کی Defficiencyکے باعث باقی طلبہ سے ہمیشہ پیچھے رہے۔

    صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صوبے کے بڑے ہسپتالوں کو ”اٹانومس‘‘ بنا دیا ہے‘ کچھ اور ہسپتالوں میں بھی یہی تجربہ کیا جائے گا‘ جو خاصا کامیاب رہا ہے۔ جعلی ادویات کے سدباب کے لیے ہسپتالوں کے اندر فارمیسیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں50ہزار سے 2لاکھ کر دی گئی ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
    صوبے میں مثالی امن و امان کے لیے انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس کو مکمل خود مختار بنا دیا‘ یہ پالیسی بھی برگ و بار لا رہی ہے۔
    عمران خان نے 2018ء تک صوبے میں ایک ارب نئے درخت لگانے کا اعلان کیا تھا(ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطاق وہ پودا بھی غائب ہو چکا جو اس مہم کے افتتاح کے لیے خود عمران خاں نے لگایا تھا) وزیر اعلیٰ کا دعویٰ تھا کہ یہ مہم اپنی فطری رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور 2018ء تک یہ ہدف بھی حاصل ہو جائے گا۔

    سوات موٹروے اور پشاور میں ماس ٹرانسپورٹ جیسے میگا پروجیکٹس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ابھی ان کی ضرورت نہ تھی‘ یہ میڈیا کا پریشر تھا جو وہ ”دکھاوے‘‘ کے ان منصوبوں پر مجبور ہوئے ہیں۔
    وزیر اعلیٰ نے بار بار”2018ئ‘‘ کی بات کی‘ تو سوال پیدا ہوا ‘ کیا 2نومبر کی مہم جوئی کے بعد بھی آئندہ انتخابات 2018ء ہی میں ہوں گے؟ پرویز خٹک کا جواب تھا‘”2نومبر‘‘ موجودہ سسٹم کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے نہیں‘ یہ تو کرپشن کے خلاف ہے‘ استعفیٰ یا تلاشی!!۔ اورپھر بات2014ء کے دھرنوں تک جا پہنچی‘ ”ان دھرنوں میں شریک ہو کر آپ نے اپنی حکومت کے 4ماہ ضائع کردیے‘‘۔ وزیر اعلیٰ کا جواب تھاکہ وہ تو ویک اینڈ پر جاتے تھے اور سوموارکو دفتر کھلنے سے پہلے واپس آ جاتے تھے۔ کسی ورکنگ ڈے پر گئے‘ تو دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد‘ اور اگلی صبح پشاور واپس پہنچ گئے۔”2نومبر کو سسٹم کو خطرے میں ڈالنے اور خلق خدا کو عذاب سے دوچار کرنے کی بجائے کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائے آپ کے پی کے حکومت کو توڑنے(یا صوبائی اسمبلی سے استعفوں) کا اعلان کر دیں جس سے آئندہ انتخابات 2018ء کے بجائے‘ فوری طور پر منعقد ہونے کی آئینی سبیل نکل آئے گی؟ وزیر اعلیٰ کا جواب تھا‘”صوبے کی بات کریں‘‘ اور صوبے کی بات یہ تھی کہ شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو کرپشن کے الزام میںکابینہ سے فارغ کیا گیا تھا‘ پھراسی کو دوبارہ لے لیا گیا۔ بات سے بات نکل رہی تھی وزیر اعلیٰ نے یاد دلایا کہ انہیں ایک ضروری مصروفیت کے لیے ابھی اسلام آباد جانا ہے‘ چنانچہ اس دلچسپ بحث کو ادھورا چھوڑ کر‘ چائے کی میزوں کا رخ کیا گیا۔

    دریا کنارے اس ڈنر میں‘ میڈیا پرسنز کے درمیان بحث چل نکلی کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے کا رویّہ تحریک انصاف کے سوا‘ باقی جماعتوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا کیوں ہے؟ سبھی کو اس ناانصافی کا اعتراف تھا۔ ایک دوست نے مثال دی‘ مانکی شریف میں اے این پی نے پرویز خٹک کے گھر کے سامنے بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا لیکن الیکٹرانک میڈیا میں اس کی خبر تک نہ تھی۔”جماعت اسلامی کے نوشہرہ والے اجتماعِ عام میں حاضری کتنی ہو گی‘‘؟ تحریک انصاف والے ”پیمانے‘‘ سے تو یہ دو‘ اڑھائی ملین سے کم کیا ہو گی؟

  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام اور ناقدین – ارشد زمان

    جماعت اسلامی کا اجتماع عام اور ناقدین – ارشد زمان

    ارشد زمان جماعت اسلامی نے اجتماع کے لیے بھرپور، منظم اور وسیع پیمانے پر تیاریوں کا آغاز کیا تو بہت ساروں کی بےچینیاں بڑھنا شروع ہوئیں اور دلوں میں پڑنے والے تعصبات نے سر اٹھانا شروع کیا. اجتماع کا باقاعدہ آغاز ہوا اور میڈیا کے متعصبانہ صرف نظر کے باوجود کچھ نہ کچھ اطلاعات آنا شروع ہوئیں اور مرد و خواتین کا تاریخی، مثالی، منظم، باوقار اور متاثر کن اجتماع کو یار دوستوں نے ایک لمحے کےلیے دیکھا تو دلوں میں مدتوں سے پڑی نفرتوں نے مچلنا شروع کر دیا اور خیرخواہی کے ایک دو رسمی بول بولنے کے بجائے دل کی بڑھاس نکالنے میں جت گئے۔
    ہمارے قوم پرست محترم تو مسلسل یہ تاثر قائم کرانے میں ہلکان ہوتے رہے کہ یہ دینی نہیں بلکہ ایک عام روایتی جلسہ ہے اور یہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔
    کئی انصافی دوست بھی بےقرار رہے اور یہاں تک فرمایا کہ خواتین منافقت کے نقاب پہنے ہوئی ہیں۔
    ایک جیالے کی جلن کچھ زیادہ بڑھی تو کہا کہ یہ چوروں کا جلسہ ہے۔
    کئی لیگیوں کی بے چینی بھی چھپ نہ سکی اور طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر اجتماع میں واقعی اتنی بڑی تعداد موجود ہے تو ووٹ کیوں نہیں ملتا؟
    محبین اسلام و علماء بھی مضطرب ہوتے پائے گئے اور طعنوں کے تیر برساتے رہے کہ ایک جانب اسلامی پاکستان کے وعدے اور دوسری جانب ایک ایجنٹ کے ساتھ ملاپ؟
    کئی ایسے بیچارے جو صبح، دوپہر، اور شام کو وابستگیاں اور سوچ تبدیل کرتے رہتے ہیں، انھیں بھی جلن کیوجہ سے چیخنا پڑا اور شکوہ کرتے پائے گئےکہ اردگان، طارق جمیل اور آفریدی کیوں نہ آ سکے؟
    ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یہ تو دل کے پھپھولے تھے جو پھوڑے جاتے رہے مگر اگر واقعی یہاں کچھ خرابی نظر آتی اور کچھ ہاتھ آتا تو آسمان کیسے سر پر اٹھایا جاتا؟
    اگر اس اجتماع میں
    تھپکی دینے کے لیے کوئی ہندوستانی وفد تشریف لاتا؟
    عین اجتماع کے دوران کوئی کلدیپ نیئر انکشاف فرماتا کہ اس جماعت کے قائد نے پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں بروقت تعاون نہ کرنے پر ہندوستان سے شکوہ کیا تھا، تو کیسی قیامت ہوتی؟
    کوئی پختون خاتون مردوں والی ہیئر کٹنگ لیے سٹیج پہ کھڑے ہوکر جذبات بھڑکاتی؟
    اگر ایک لمحے کے لیے بھی کوئی مخلوط ماحول ملتا؟
    ڈھول کی تھاپ پر سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مدہوش ہوتے؟
    حوا کی بیٹیوں کو یوں سرعام نچوایا جاتا اور تھرکنے، لہکتے، مچلتے اور ٹھمکتے جسم دیکھنے کو ملتے؟؟
    کسی ایسے قائد کو تقریر کرتے پکڑا جاتا کہ جو متاثرین کو ملنے والے ہار تک چوری کرکے بیوی کے گلے کا زینت بنا دیتا؟
    وہ کوئی تاریخی چور، ڈاکو، لٹیرا اور قاتل جو ملک سے فرار ہو کر باہر مستیوں اور عیاشیوں میں مصروف ہو، یہاں جذبوں کو ابھارتے دیکھا جاتا؟
    کوئی پانامہ لیکس کے بے شرمی والے ہار کو گلے میں سجا کر ارشاد فرماتے سنا جاتا؟
    کوئی اسلام کے محافظ اور جذبات کو انگیخت کرانے والے شاطر سیاستدان سے سوال کرتا دیکھا جاتا کہ
    جناب، آخر یہ نظریات اور اصول کس بلا کا نام ہے؟
    کسی بھی حکومت کا دم چھلا بننا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
    جو شراب کے نشے میں بکواسیات اور خرافات بکتے رہتے۔
    ایسا سوچ کر تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ پتہ نہیں، کیا حشر کیا جاتا؟
    دوستو!
    یہ ظرف، بڑاپن اور شائستگی بھی کسی چیز کا نام ہے۔
    ایک دینی سیاسی جماعت نے اپنے ہی وسائل اور رضاکاروں کے بل بوتے پر اتنا خوبصورت شہر بسایا جہاں لاکھوں مرد، خواتین، بچے، بوڑھے اور معزز جمع ہوئے اور بغیر کسی ہڑبونگ، دھکم پیل، شر، فساد اور ناخوشگوار واقعے کے بہت ہی سنجیدگی، حیاء، عزت اور وقار کے ساتھ دو دن گزار دیے اور دن کے پانچوں وقت بیک وقت لاکھوں جبینیں اپنے رب کے سامنے جھکی رہیں، جہاں ایمان کی تازگی، نفس کی پاکیزگی، رب کی کبریائی، ملک وملت کی سربلندی، قوم کی یکجہتی اور امت کی سرفرازی کے تذکرے ہوتے رہے۔
    کیا ہی اچھا ہوتا کہ خیر خواہی کے کوئی دو بول بولے جاتے؟

  • قیادت کی صفات – پروفیسر جمیل چوہدری

    قیادت کی صفات – پروفیسر جمیل چوہدری

    جمیل چوہدری دانا لوگ فرماتے ہیں کہ ایک سیاستدان میں کم از کم5 خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔

    ایمانداری پہلی اوربنیادی شرط ہے۔ اسی صفت سے قوم کے لوگوں میں اعتماد قائم ہوتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں قومی لیڈر کی عزت و حترام میں اضافہ ہوتا ہے۔

    دوسری اہم صفت دردمندی ہے۔ وہ قوم کے مسائل کو جانے اور اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ جاننے کے بعد مسائل کو عقل وخرد سے حل کرنے کی بھر پور کوشش اسی صفت کاحصہ ہے۔

    اخلاقی بلندی کو آپ تیسری بنیادی خوبی کہہ سکتے ہیں۔ہر انسان اپنی اخلاقیات سے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔اور جہاں تک قومی سیاستدانوں کاتعلق ہے۔ ان کے لئے بلند اخلاق ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں لیڈروں کے اخلاق پرلوگوں کی نظریں ہیں۔عوام چاہے جتنا بھی گھٹیا اخلاق کا مظاہرہ کرلیں لیکن وہ اپنے سیاسی لیڈروں سے بلند اخلاقی کی توقع ضرور رکھتے ہیں۔

    چوتھی ضروری صفت اعتماد ویقین ہے۔ جب وہ قوم کے مسائل جان لے تواسے ان مسائل کے حل کے طریقوں پر یقین ہو اور انہیں حل کرنے کے لئے صحیح سمت میں اعتماد سے قدم اٹھاتا چلا جائے۔غور وحوض اور پلاننگ مسلے کے حل کی کوششیں شروع کرنے سے پہلے ہوں۔

    پانچویں صفت رویے میں لچکداری کا ہونا ہے۔ دوسروں کی بات سنے اور تنقید بھی برداشت کرے۔دوسری پارٹیوں کے پاس جو مسائل کا حل ہے۔وہ بھی درست ہوسکتا ہے۔لیڈر کو صرف اپنی پارٹی کا مفاد سامنے نہیں رکھنا بلکہ عوام یا قوم کا مفاد سامنے رکھنا ہے۔قوم یا عوام سب سے اہم ہیں۔صرف ایک پارٹی کا مؤقف اتنا اہم نہیں ہے۔

    اگر ہم برصغیر کے قریبی ماضی کا جائزہ لیں تو ہمیں محمد علی جناح میں یہ تمام صفات موجود نظر آتی ہیں۔انہوںنے ایمانداری(Honesty)سے اپنی قوم کی قیادت کی۔اپنی ذات یاخاندان کے لئے اپنی لیڈر شپ کی وجہ سے کوئی بھی مفاد حاصل نہیں کیا۔انہوںنے برصغیر کے مسلم مسئلہ کوجانا۔اس کے بہت سے حل موجود تھے۔یہ بات تو بہت سے لیڈر بابار کہہ رہے تھے۔کہ مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں میں اور ہندو اپنے اکثریتی صوبوں میں حکومتیں بنائیں اور مرکزی حکومت صرف دفاع،غیر ملکی تجارت ،غیر ملکی سفارت اور کرنسی کا نظام چلائے۔قائد اعظم اور انکے ساتھیوں کی رائے کے مطابق یہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔یہ سوچ رد کردی گئی اور مکمل علیحدہ ریاستوں کے تصور پر کام شروع کردیاگیا۔ وہ اعتماد و یقین کے ساتھ اس پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے اپنا طے شدہ مقصد حاصل کرلیا۔ ان کی اخلاقی بلندی کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد جب حل سامنے آیا۔تو وہ پر اعتماد ہوگئے۔ ان کے پاؤں پھر لڑکھڑائے نہیں۔وہ گھنٹوں ہندؤں اور انگریزوں سے بحث کرتے۔لیکن یہ بحث آئین و قانون کے دائرہ کے اندر تھی۔وہ نہ کبھی جیل گئے اور نہ انہوں نے تشددکاراستہ اختیار کیا۔لیکن ایک مکمل اور بااختیار علیحدہ ریاست حاصل کرلی گئی۔گورنر وہ صرف11 ماہ رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایمانداری کی بہت سی مثالیں قائم کیں۔

    کئی دہائیاں چھوڑ کر ہم 90ء کی دہائی میں آجاتے ہیں۔ 2پارٹیاں یکے بعد دیگرے حکومت کرتی نظر آتی ہیں۔ 2 لیڈر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو۔ایک کاروبار سے سیاست میں آیا۔بے نظیر کا پس منظر جاگیر دارانہ بھی تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے طورپر بھی۔ان پورے دس سالوں میں وہ ایک دوسرے کو گرانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔بے نظیر بھٹو اپنے کارکنوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کرواتی رہیں۔اور نواز شریف سرکاری کارپوریشنز کو پرائیویٹ سیکٹر میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔نواز شریف کے Creditمیں صرف لاہور۔اسلام آباد موٹروے ہے۔اس پورے دس سال میں دونوں لیڈروں میں سے کوئی کالا باغ ڈیم شروع نہ کراسکا ۔بے نظیر نے بجلی پیدا کرنے والی 14 کمپنیوں سے معاہدات کئے۔پاکستان میں بجلی کے نرخ صرف اس ایک کام سے بلندیوں کی طرف چلے گئے۔اس پوری دہائی پر معیشت دانوں کے متفقہ رائے یہی ہے کہ یہ دس سال ملک کو کچھ بھی نہ دے سکے۔اسے “ناکام دہائی”کے طورپر جانا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی ایمانداری پر تبصرہ انہیں کے مقرر کردہ صدر لغاری نے کردیاتھا۔جب صحافی نے پوچھا کہ آصف زرداری Mr.Ten Percentمشہور ہوگئے ہیں۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟۔صدرفاروق لغاری نے جواب دیا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دونوں ہی اونچے درجے کے کرپٹ تھے۔باہر کے ملکوں میں خریدے گئے بڑے بڑے محلات دونوں کی ملکیت تھے۔نوازشریف صاحب نے اپنے اثاثے بنکوں سے قرض لیکر بڑھائے۔ یہ قرض بھی سرکاری اثرورسوخ سے ہی ملتے ہیں۔اب آکر یہ پتہ چل رہا ہے کہ 1993ء تا1995ء سے وہ اپنی دولت براستہ دبئی اور جدہ باہر منتقل کرتے رہے۔بہت ہی مہنگے علاقے میں پہلے صرف ایک فلیٹ سناجاتاتھا۔اب یہ نصف درجن بتا ئے جاتے ہیں۔

    مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہوتے ہوئے قومی منظر نامے پر عمران خان ظاہر ہوئے۔انکی پارٹی نے گزشتہ20سالوں میں صرف2013ء کے الیکشن میں کارکردگی دکھائی۔اس سے پہلے انتخابات میں شرکت برائے نام تھی۔2013ء کے رزلٹ سے قوم کے ایک طبقہ نے اطمینان محسوس کیا۔ دو روائتی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک تیسری پارٹی قومی سیاست کے منظر نامے پر ابھری۔عمران کے Creditمیں انکی کرکٹ اور شوکت خاتم ہسپتال موجود تھے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر وہ ان دوکاموں سے جانے جاتے تھے۔ہسپتال کی ایک اور شاخ اب انہو ں نے پشاور میں قائم کردی ہے۔لوگ انہیں فنڈز دیتے وقت ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ایمانداری کی صفت کی وجہ سے عمران خان نے میانوالی کے علاقے میں ایک اچھا تعلیمی ادارہ بھی قائم کرلیا ہے۔اس ایک صفت میں ان کا مقابلہ ملک کے باقی قومی سیاست دانوں سے نہیں کیاجاسکتا۔مقابلہ تب ہو جب باقی دونوں پارٹیوں کے لیڈر جھولی پھیلا کر نکلیں اور کوئی بڑا ادارہ عوام کے چندے سے بنائیں۔سرکاری خزانے سے ادارے بنا دینا ایک دوسری بات ہے۔

    نواز شریف، بھٹو زرداری اور عمران خان کے ساتھ ایک اور درویش صفت انسان محترم سراج الحق بھی ہے۔ایمانداری کی مثالیں سراج الحق کی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ایک لمبے عرصہ سے قائم کی ہوئی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اب ایک نامی گرامی ادارہ بن چکا ہے۔کروڑوں روپے کی مالیات کو انتہائی ذمہ داری سے اکٹھا کیاجاتا اور خرچ کیا جاتا ہے۔عمران خان پر اب 2014ء کے دھرنے کے بعد بہت اعتراضات بھی ہونے لگے ہیں۔اعتراضات وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں 2013ء کے الیکشن میں ایک نیا اور ابھرتا ہو ا قومی لیڈر نظر آتاتھا۔بے شمار لوگوں اور خاص طورپر نوجوانوں نے ان سے توقعات وابستہ کرلی تھیں۔لیکن ان کامیٹر اب صرف منفی سیاست کی طرف چل پڑا ہے۔

    جلسے، دھرنے، ریلیاں اور اب اسلام آباد بند کرنا۔ان کی توجہ پارلیمنٹ میں جاکر مفید قانون سازی کی طرف بالکل نہ ہے۔جمہوریت میں تمام اصلاحات کی جگہ صرف اور صرف پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن اور نیب جیسے ادارے بھی موجود ہیں۔اگر پانانہ لیکس کے سلسلے میں پرانے قوانین کام نہیں دیتے تو نئے قوانین بھی پارلیمنٹ نے ہی بنانے ہیں۔نیب اور دوسرے اداروں کا سکوپ اگر نیشنل سطح تک ہے تو انہیں بین الاقوامی سطح کابنانا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔اب تو سپریم کورٹ میں پانامہ مقدمہ شروع ہے۔20۔اکتوبر کے بعد اگلی تاریخ بھی پڑ گئی ہے۔اسلام آباد بند کرنے کا جواز قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ختم ہوچکا ہے۔اگر عمران خان نے آئندہ آگے بڑھنا ہے اور2018ء کے الیکشن میں کوئی کارکردگی دکھانی ہے۔ تو منفی سیاست کی بجائے مثبت سیاست شروع کریں۔ہمارے لیڈروں کی سیاست میں منفی پن زیادہ ہے۔اگر عمران خان 2013ء میں وزیراعظم نہیں بن سکے تو کیا آئندہ سیاست ختم ہوگئی ہے؟۔پاکستانی سیاسی ـ”قیادت کا المیہ”یہی ہے کہ مثبت کی بجائے منفی سیاست شروع کردیتے ہیں۔صراط مستقیم کی بجائے دائیں بائیں جانے والی پگڈنڈیوں پر سفر شروع کردیتے ہیں۔مستقل مزاجی سے منزل کی طرف سفر جاری رکھیں۔