Tag: سرائیکی

  • سرائیکستان کیوں نہیں – منشاء فریدی

    سرائیکستان کیوں نہیں – منشاء فریدی

    میرے نزدیک قوم کی بنیاد ثقافت ہے نہ کہ مذہب، نسل، ریاست، ملک اور پیشے! جو لوگ یا دانشور یا قبائلی نظام کے پر چارک جب قومیت کی بنیاد درج بالا اجزاء کو ٹھہراتے ہیں، در اصل اپنی کج فہمی کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس راقم الحروف کی حتمی رائے اور فیصلہ کن دلیل یہ ہے کہ قوم کی اساس کلچر ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی اس سے متفق ہو۔ یہ اور بات کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ قومیت کی بنیاد ملک یا ریاست کو قرار دیتی ہے جیسا کہ پاکستان میں رہنے والے لوگ ’’ پاکستانی قوم‘‘ کہلائیں اور ایران میں رہنے والے ’’ایرانی قوم‘‘، یہ لوگ ’’پاکستانی‘‘ اور ’’ایرانی‘‘ تو کہلائیں گے۔ لیکن انہیں قوم ہرگز نہیں قرار دیا جائے گا۔

    روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے ادارتی صفحہ پر ’’سرائیکستان اور نان سرائیکستان‘‘ کے نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لیے اس موضوع پر بحث و نظر کا سلسلہ جار ی ہے۔ مذکورہ موضوع پر راقم کا مراسلہ بھی روزنامہ خبریں ملتان میں شائع ہوا۔ مراسلہ کی اشاعت پر لاتعداد قوم پرست اور قلم کار شخصیات نے رابطہ کر کے کہا کہ ایک مختصر سا مراسلہ اس طویل بحث کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ راقم بھی اپنے تئیں اس موضوع پر خامہ فرسائی کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں حتی المقدور کوشش کرنا چاہتا ہے۔ اس بحث کے آغاز کو مثبت قرار دے کر کسی طرح اس اہم مو ضوع کو آج قومی سطح پر مقام و مرتبہ اور توجہ مل چکی ہے اور ان ابحاث کو تعمیری سوچ کا آئینہ دار کہنا بےجا نہ ہوگا۔ مگر ہمارے یہاں مضامین کی اشاعت کو روکنے کے مطالبے شروع کر دیے گئے ہیں جو کہ درست مطالبہ نہیں ہے۔

    کسی بھی تحریک کا مقصد خطے کے حقوق کی بازیابی کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہوتا ہے۔ مرکز پرست طاقتیں جب بھی کسی خطے یا خطے کی ثقافت کو مذموم عزائم کےلیے کچلنا شروع کر دیتی ہیں تو وہ قوم اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے ایک وسیع فکری و نظری جدوجہد میں لگ جاتی ہے۔ ظلم و تعدی بڑھ جانے کی صورت میں یہ تحریک کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے عالمی حالات اور تبدیلیاں پیش نظر ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ ہر فلسفے کا ادراک رکھے۔

    میں نہیں چاہتا کہ بحیثیت قلم کار، مؤرخ اور مبصر پھسل کر اصل موضوع سے دور جا گروں جیسا کہ اس بحث میں شریک لکھاری حضرات نے اصل موضوع کو چھوڑ کر ایک دوسرے اور سرائیکستان کے حوالے سے جاری تحاریک سرائیکی ثقافت اور روحانی وصوفی ہستی خواجہ غلام فرید ؒ پر الزام تراشیاں شروع کر دی ہیں۔ معزز لکھاریوں سے میری دست بستہ عرض ہے کہ خدارا ’’سرائیکستان اور نان سرائیکستان ‘‘کے نقطہ نظر کو اس بحث میں واضح کریں نا کہ اپنے گن گاتے پھریں۔ یا موضوع تبدیل کر دیں۔ قارئین تو زیربحث اصل موضوع ’’سرائیکستان اورنان سرائیکستان‘‘ پر لکھے گئے مضامین و کالم پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سرائیکی خطے اور اس رچ کلچرڈ قوم پر اہل اقتدار طبقہ نے جو ظلم کے پہاڑ ڈھائے وہ مناظر سب کے سامنے ہیں۔ سونا اگلنے والی زرخیز ترین زمینوں کو بنجر کیا گیا۔ یہاں کے ذہین ترین افراد کو جدید تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا۔ یہاں کے سرائیکی اور نان سرائیکی جو سب دھرتی زادے ہیں انہیں میٹھے پانی کے ذرائع سے یکسر محروم کر کے مفت اموات دی جا رہی ہیں۔ غرضیکہ پرامن سرائیکیوں کو تخت لاہور نے بےدردی سے لوٹا، ان کا استحصال کیا، ثقافتی و لسانی شناخت پر حملہ آور ہوئے، اگر بلوچستان، پختونخوا، سندھ اور پنجاب ثقافت اور زبان کی بنیاد پر صوبے ہو سکتے ہیں تو ’’ سرائیکستان ‘‘ کیوں نہیں؟

  • پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

    ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.

    کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.

    یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟

    جواب نہیں ملے گا.

    قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
    کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.

    پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟

    اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .

    اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.

    پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.

    نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.

    اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.

    اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟

    پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
    ”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“

    جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)

    دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
    پاکستان زندہ باد

  • مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ – دائود ظفر ندیم

    دائود ظفر ندیم جب میں بچہ تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ اردو زبان ہی ہماری اپنی زبان ہے مگر مجھے مشکل ہوتی تھی جب گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی، ہمارے اردو میڈیم سکول میں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ پنجابی ایک گنواروں کی زبان ہے جس کا لہجہ ایک مقررہ فاصلے کے بعد بدل جاتا ہے اور اس کی کا کوئی معیاری لہجہ نہیں، اس میں کوئی ادب تخلیق نہیں ہو رہا، یہ بانجھ اور جامد زبان ہے. مجھے واقعی ایسے لگتا کہ سبزی والا، دودھ والا، کام کرنے والے غریب لوگ اور ان کے بچے یہ زبان بولتے مگر اس وقت پریشان ہوجاتا جب مری ماں بھی یہی زبان استعمال کرتی، میرے والد بھی اسی بان میں گفتگو کرتے، میں بڑے شوق سے اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ کی بچوں کے لیے کہانیاں پڑھا کرتا، بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، جگنو، تعلیم و تربیت نامی رسائل شائع ہوا کرتے تھے. میری اپنی کچھ کہانیاں جگنو میں چھپا کرتیں اور مجھے فخر ہوتا کہ میں دوسرے پنجابی بچوں کی طرح جاہل نہیں بلکہ ایک پڑھا لکھا بچہ ہوں جسے اردو آتی ہے، مگر میری ماں مجھے رات کو سونے سے پہلے پنجابی گیت سناتی، لکڑ بگڑ باوے دا، اسی نو نواسی، جیسےگیت دل کو چھو لیتے اور پھر پنجابی میں مختلف کہانیاں، رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. مگر سکول میں اور نصاب میں مجھے اسماعیل میرٹھی کی ہماری گائے جیسی نظمیں پڑھنے کو ملتیں اور محلے کی لائبریری میں بھی اردو کتابیں ملتیں. میں نے ابن صفی بڑے شوق سے پڑھا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن بھی اردو کی ترویج کا اہم ہتھیار تھا جہاں اردو زبان میں بڑوں کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے.

    مگر جب میں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور الف لیلی پڑھ رہا تھا تو گھر میں میرے دادا کی بڑی بہن مجھے راجہ رسالو کی کہانیاں سناتی، مجھے پورن بھگت کی کہانی بہت پسند تھی، اور پھر ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کے رومانی قصے، میں سوچا کرتا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پنجابی زبان میں لکھتے تھے، بہرحال میں یہ جانتا تھا کہ اب پنجابی کہیں نہیں لکھی جاتی اور اردو زبان ہی پاکستان کی قومی اور واحد زبان ہے. کچھ متعصب اور پاکستان دشمن عناصر نے پہلے بنگالی زبان کا نام لیا اور پاکستان توڑا، اور اب بھی کچھ نالائق لوگ سندھی اور پشتو اور بلوچی میں بات کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں، یہ پاکستان کے دشمن اور غدار ہیں جو پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ مگر جب میں بی اے کی تیاری کررہا تھا تو اس وقت مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پنجاب میں بھی کچھ متعصب لوگ پنجابی لکھتے ہیں، پنجاب میں پنجابی کہانی لکھنے والے اور پنجابی شاعری کرنے والے شرپسند ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ میرے لیے بہت پریشانی کی بات تھی۔

    میرے نئے دوستوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں. جی بالکل پڑھیے، چہ خوب. لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آئے گی. چنانچہ مجھے رانجھن ہونا، کچا گھڑا، مہینوال، بھگت، اور پنجابی کے مختلف اکھان اور محاروں کا علم ہوا. یہ معلوم ہوا کہ غالب، داغ، مومن، انشا، جرات، حالی بڑے شاعر ہیں مگر وہ وادی گنگا و جمنا میں تھے جسے اب بھارت کہتے ہیں. ہمارے پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، اور سب سے بڑھ کر بابا فرید جیسے لوگ تھے جنہوں نے پنجابی زبان میں لکھا، اور پنجابی کی اپنی اساطیر، استعارے، تشبیہات، محاورے موجود ہیں. اور جب ایم اے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہندی زبان میں ڈپلومہ کیا تو معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں جن کو مذہبی تعصب اور الگ رسم الخط کی ضد نے دو الگ زبانیں بنا رکھا ہے اور دونوں کی جڑیں ایک ہی علاقے یعنی گنگا جمنا کی وادی میں ہیں. پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے پاکستان کے بعد کینیڈا میں ایک بڑی زبان ہے جہاں کچھ پاکستانی محب وطن کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی پنجابی اپنی مادری زبان کے طور پر پنجابی کے بجائے اردو لکھیں تاکہ کینیڈا میں پنجابی کا مقام ختم ہو.

    میں اردو کا مخالف نہیں مگر جب اردو کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی اپنی زبانوں کو ختم کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرتا دھرتا یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستانی چینلوں پر پنجابی کی کوئی جگہ نہیں رہی، پنجابی فلم کو پاکستان میں ختم کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے، تویہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں تبدیل ہوگئی اب پاکستانی چینل ہی اول و آخر نہیں، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں. اگر کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر پنجابی کے پروگرام کا ‘اسپاٹ’ ہی نہیں تو بھی پنجابی فلمیں اور پروگرام غیرملکی چینلوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اس لیے آپ کسی کے نصاب، میڈیا اور اشرافیہ سے اس کی زبان ختم کرنے کے بعد بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ زبان ختم ہو سکتی ہے.

    میں آج بھی اردو کو ہی اپنے ہی لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بنائے ہوں مگر اس سارے معاملے کی تفہیم نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں قوم پرستوں کے بیانیے کو سمجھ پائوں، قوم پرستوں کا بیانیہ کچھ تحفظات اور کچھ اندیشوں پر مبنی ہے۔

    ان کے بیانیے کا پہلا جز یہ ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے ایک قوم نہیں یہاں مختلف قومیتیں آباد ہیں ایک وفاق میں رہنے والی تمام قومیتوں کے لسانی، اور جغرافیائی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
    ایک تو ان کو اپنے علاقے اور سرزمین میں اقلیت بننے کا اندیشہ ہے دوسرا ان کو اپنی لسانی شناخت چھن جانے کا اندیشہ ہے۔

    بلوچوں کو خطرہ ہے کہ وہ اپنی روایتی سرزمین پر ریڈانڈین کی طرح ایک اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے. وہ اس کے لیے کراچی کی مثال دیتے ہیں کہ کراچی روایتی طور پر ایک بلوچ علاقہ تھا جہاں ایک دوسری قومیت کو بسایا گیا اور بلوچ لیاری میں محصور رہ گئے جہاں وہ روزگار کے مواقع، شناخت اور اختیار سے محرومی کی وجہ سے جرائم پیشہ بننے پر مجبور ہوگئے، ان کے فٹ بالروں اور ان کے باکسروں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کو قومی ہیرو نہیں سمجھا گیا۔ ان کو سہولیات نہیں ملیں۔
    بلوچوں کو یہی اندیشہ بلوچستان میں ہے کہ ان کو لسانی اقلیت بنایا جائے گا۔ وہ ایسے تحفظات چاہتے ہیں کہ انھیں اپنی سرزمین پر اپنی زبان اور اپنی عددی اقلیت کا تحفظ مل سکے کہ وہ معاملہ ہے جس پر تمام قوم پرست اور وفاق پرستون بلوچوں کا اتفاق ہے.

    یہی معاملہ سندھیوں کا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کراچی کو ان سے چھینا جا رہا ہے، وہ اس کی ملکیت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سندھی زبان اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.

    قوم پرستوں کی تمام باتوں کو یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان ایک قوم بننے کے عمل میں ہے. اردو زبان اس سرزمین پر عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے مگر اس کے باوجود دوسری زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سرزمین کی تمام زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی ضرورت ہے، ان کے تمام بڑے شاعروں کو قومی شعرا قرار دینے کی ضرورت ہے، اس سے قومی یک جہتی میں اضافہ ہوگا.

    سندھیوں اور بلوچوں کو عددی اقلیت بننے کا بھی خوف ہے جیسے سندھ میں کوٹہ سسٹم ہے اس طرح وفاق کی سطح پر بھی بلوچی اور سندھی بولنے والوں کو مقررہ مدت تک تمام ملازمتوں میں کوٹہ دیا جا سکتا ہے. اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو بلوچوں اور سندھیوں کو قومی دھارے میں شریک کر سکتے ہیں

    اردو بولنے والوں کے لیے کچھ الگ کرنے کی ضرورت ہے. ایک تو ان کا بیانیہ ہے کہ وہ کسی خاص صوبے میں نہیں، ایک نئے وطن پاکستان میں آئے تھے جو ان کی جدوجہد سے تشکیل پایا تھا۔ ہمارا نصاب اور میڈیا بھی یہی بتلاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ان کے میرٹ پر پاکستان اور سندھ میں ملازمتیں دی جائیں، کسی کوٹے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ ان کے علاقے کراچی اور حیدر آباد کا اختیار کسی صوبائی نظم یا کسی بلدیاتی نظم کے تحت ان کے حوالے کیا جائے۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے. بلدیاتی اختیار میں ان کو شریک کرنا ان کا حق ہے.

    ہم پاکستانی اور مسلم قومیت کی بنیاد پر کسی کی لسانی اور جغرافیائی شناخت کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس مسئلے کا ادراک کرنا ہوگا.

  • داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کی دو تین کمیٹیوں میں گیا۔ جب میں اپنی خودساختہ دانشوری سے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی ذہنی نشوونما کے لیے پارلیمنٹ چلا جاتا ہوں۔ وقفہ سوالات مجھے بہت پسند ہے؛ اگرچہ ایم این ایز کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وزرا کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ بھی نہیں آتے۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم اور اپنی وزارت کے وزیر کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی، لہٰذا وہ بھی وہاں نہیں آتے۔ تاہم میری پروفیشنل نشوونما میں پارلیمنٹ کے وقفہ سوالات کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جائوں۔ وہاں بھی پاکستان کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں، نئے نئے انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔

    خوش ہوتا ہوں کہ چلو میرا دال روٹی چلے گا اگرچہ یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے کے بقول اس ملک میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے۔ جب بھی کرپشن کی بڑی کہانی ان اجلاسوں میں کھل کر سامنے آتی ہے تو ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ اتنی ہی اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہنستے ہیں یا اپنے غیر سنجیدہ پن پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں پتا ہے کہ وہ بھی یہی کام کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے۔ دل پشوری چلتی رہتی ہے۔ ادھر ادھر سب کو اس بربادی پر ہنستے دیکھ کر میں بھی اپنی آواز ان قہقہوں کی گونج میں شامل کر دیتا ہوں۔ میں منہ بسورکر کیوں بیٹھا رہوں۔

    جو کچھ وہاں دیکھا اور سنا وہ تو آپ کو آنے والے دنوں میں ضرور پڑھائوں گا تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کیسے پاکستانی اشرافیہ پاگل ہوگئی ہے؛ تاہم لوٹ مارکی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے راجن پور کے علاقے داجل میں پولیس کی دہشت گردی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا تھا۔ پروگرام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے بہت سارے لوگوں نے جن میں میرے کچھ جاننے والے بھی تھے، دہائی دی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے کیونکہ راجن پور کی پولیس نے حد کردی ہے۔ پولیس جو کچھ وہاں کر رہی ہے، اکثر لوگ فیس بک پر اس کا موازنہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے کر رہے تھے ۔

    پتاکیا تو معلوم ہوا کہ دو بھائی موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستے میں کسی نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار دی۔ ایک بھائی وہیں مر گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ پولیس علاقے کے بدمعاشوں کے ساتھ مل کر قتل جیسی وارداتیں کرا رہی ہے۔ یہ لوٹ مار میں بھی برابر کے شریک ہے۔ لوگ تھانے شکایت لے کر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ظالموںکو وہاں کرسی اور مظلوم کو گالیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو تھانے میں شکایت درج کرانی ہو تو وہ اکیلے نہیں جاتا، وہ اپنے ساتھ علاقے کے چند لوگوں کو لے کر جاتا ہے تاکہ کہیں پولیس اس پر ہی کوئی کیس نہ ڈال دے۔ جب لوگوں نے ایک ہی گھر کے دو نوجوانوں کو گولیاں کھاتے اور ایک کو مرتے دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ تھانے کا گھیرائو کر لیا گیا۔ اس دورا ن ایک پولیس کانسٹیبل نے ہوائی فائرنگ کر دی جس سے بپھرا ہوا مجمع مزید بپھرگیا اور پر تشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور خاصا ہنگامہ ہوا۔

    ہنگامہ تھما تو پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اب تک داجل کے چودہ سو افراد کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے جا چکے ہیں۔ جن کا نوجوان مارا گیا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ان پرچوں کے بعد پولیس نے داجل کے شہریوں پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ رات گئے گھروں میں داخل ہوکر جو ہاتھ لگے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کرتے اور پھر گھسیٹ کر تھانے لے جاتے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے۔ داجل ایک قیامت سے گزر رہا ہے جس کا اس لئے پتا نہیں چل سکا کہ میڈیا کو اس میں دلچسپی نہیں۔ داجل میں جاری دہشت گردی کی رپورٹ کون کرتا۔ پنجاب حکومت کا بھی میڈیا پر بہت زور چلتا ہے، دوسرے داجل اور راجن پور کے مقامی رپورٹر پولیس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ہی دہشت گردی کا مقدمہ نہ درج ہو جائے۔ پولیس نے چودہ سو نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا اور اب جو ہاتھ لگتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کا نام ایف آئی آر میں نامعلوم کے خانے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

    خیر ہم نے اپنے پروگرام میں داجل کے اس واقعے کو اٹھایا۔ ڈی پی او عرفان اللہ کو دعوت دی اور پوچھا کیسے چودہ سو افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا،کیسے ایک ہی ہلے میں اتنے دہشت گرد پیدا ہو گئے؟دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد بدترین تشدد کے واقعات پیش آئے۔ جہاں عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا وہاں گرفتاریاں ہوئیں لیکن کہیں یہ نہیں پڑھا کہ امریکی پولیس نے امریکیوںکو دہشت گردی کے الزام میںگرفتارکر لیا ہو۔ عرفان اللہ ہمیں دہشت گردی کا قانون سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی فلاں دفعہ میں کیا لکھا ہے۔

    میرا کہنا تھا کہ سرائیکی علاقے کے لوگ پر امن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ تخت لاہور وہاں کے سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ مل کر زیادتیاں کرتا ہے، وہ بے چارے پھر بھی لاہورکے بادشاہوں اور ان کے سیاسی خادموںکو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کو ترقیاتی فنڈ میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایک مرکزی پل نشتر گھاٹ پچھلے پندرہ برس سے نہیں بن سکا جبکہ لاہور میں پچھلے دنوں ایک رنگ روڈ اور بائی پاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا اور جمعہ کے روز کالا شاہ کاکو پر ستائیس ارب روپے کے نئے روڈ کا افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں آپ جائیں تو کانپ جائیں کہ کس دنیا میں یہ لوگ زندہ ہیں۔

    آخر کیا وجہ ہے کہ پُر امن سرائیکی لوگ بھی پر تشدد کارروائیوں پر مجبور ہوگئے، انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ بھی ہتھار اٹھا لیں اور پولیس کے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ مرنے مارنے پر تل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب پسماندگی نے اپنے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ کیا اب لوگ غربت اور پسماندگی کے ہاتھوں تنگ آکر ڈکیتی اور دہشت گردی پر اتر آئے ہیں؟ پولیس اور مقامی سرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے آخر صرف داجل جیسے چھوٹے سے شہر میں ہی چودہ سو دہشت گرد کیوں پیدا کردیے ہیں۔ توکیا جو لوگ تھانے میں پولیس کی دہشت گردی کے شکار ہوکر لوٹیںگے وہ چھوٹو گینگ نہیں بنائیںگے؟

    جب مقابلے کا وقت تھا داجل کے یہ ”دجال‘‘ بھاگ گئے تھے، اب نہتے اور بے بس لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ روزانہ نئے چھاپے اور نئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
    ایک ایسے ہی چھاپے کی روداد پر مبنی خبر پڑھیں جو میری نظر سے گزری۔

    خبر کے مطابق راجن پورکے ڈی پی او عرفان اللہ نے پولیس پارٹی تیارکی اورکہا کہ آج ہم اس علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کے گھر پر چھاپہ مارنے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اپنی گنیں پکڑیں اور چل پڑے۔ اس سے ایک روز قبل اس خطرناک ڈاکو کے ایک بھائی پھالو کو پولیس نے مار ڈالا تھا۔ آج اس کے دو خطرناک بھائیوںکو مارنے کا پلان تھا۔ پولیس نے جاتے ہی ڈاکو کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس خطرناک ڈاکو مطاہرا کے گھرگرفتاری کے لیے پہنچی توسب یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے کہ دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈکیت کا پورا خاندان دیواروںکے بغیر جھونپڑی میں رہ رہا ہے ۔ خطرناک ڈاکو کی تین سالہ بیٹی سخت بیمار تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے پانچ افراد کے لیے دو چارپائیاں جبکہ کنستر میں صر ف دوکلو آٹا تھا۔ بچی کے علاج معالجے کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈی پی اوکو بچی کی حالت دیکھ کر رحم آیا اور جیب سے دو ہزار روپے نکال کر دیے اور واپس لوٹ گئے۔

    یہ ہیں داجل کے ڈاکو جن کا ایک بھائی ایک دن پہلے پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ کیا اس کے دو بھائیوںکو بھی دجال پولیس جلد مارکر انصاف کا بول بالا کرے گی؟ داجل کے یہ کیسے ڈاکو ہیں جن کی تین سالہ بیٹی بیمار ہے اور علاج کے لیے ٹکا نہیں، کنستر میں صرف دو کلو آٹا اورسونے کے لیے چارپائیاں تک نہیں! یہ کیسے ڈاکو ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جن کو مارنے کے لیے پولیس جاتی ہے اور الٹا دو ہزار روپے دے کر لوٹتی ہے۔ بہت جلد اس جھونپڑی کے دیگر خطرناک ڈاکو بھائی بھی مارے جائیں گے۔

    اب ان تین خطرناک ڈاکو بھائیوںکے انجام کے بعد اس جھونپڑی کی بچ جانے والی مالکہ۔۔۔۔ ایک بے بس ماں ہے جو جلد بیوہ ہونے والی ہے۔ اس کے چار چھوٹے بچے یتیمی کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والے ہیں۔کیا جانیں داجل کے یہ دجال! مجال ہے دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف گلے پھاڑنے والوں میں سے کسی نے داجل میں جاری اس دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو! واہ رے داجل اور داجل کے دجال۔۔۔!

  • مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    مہاجر، اردو اسپیکنگ یا سندھی – محمد فیصل شہزاد

    ’’جی بیٹا! تو کہاں سے تعلق ہے آپ لوگوں کا؟‘‘
    احمد صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا تھا۔
    ’’جی یہیں کراچی سے، میں سندھی ہوں۔‘‘
    ’’سندھی.‘‘
    احمد صاحب نے بری طرح چونک کر مجھے دیکھا اور میں بھی ہکا بکا علی کو دیکھنے لگا۔
    ’’یہ کیا مذاق ہے علی؟‘‘
    میں نے کسی قدر غصے میں مگر دھیرے سے کہا۔
    ’’نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں فیصل بھائی !میں سندھی ہی ہوں بلکہ اول مسلمان ہوں، پھر پاکستانی، پھر سندھی!‘‘
    ’’مسلمان اور پاکستانی تو ٹھیک ہے مگر تو سندھی کب سے ہوگیا؟ کیوں میری بات خراب کر رہا ہے، اگر شادی نہیں کرنی تھی تو یہاں تک آنے کی ضرورت کیا تھی.‘‘
    میں نے غصے سے دانت چباتے ہوئے کہا تھا۔
    احمد صاحب جو اچانک سنجیدہ نظر آنے لگے تھے، کہہ اٹھے:
    ’’بہت معذرت بیٹا! بےشک سندھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں مگر ہماری بٹیا کو تو ایک لفظ سندھی کا نہیں آتا، پھر رسوم و رواج اور ثقافت کے بھی ہزار مسائل ہو جاتے ہیں، آپ لوگوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ویسے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہماری بٹیا کے لیے کسی بھی مسلمان کا رشتہ آئے، مگر ہم فیصل میاں سے پہلے ہی اس بابت صاف کہہ چکے تھے، آپ برا نہیں منانا مگر…‘‘
    انہوں نے رک کر مجھے شکایتی انداز میں دیکھا، مجھے علی پر شدیدغصہ آنے لگا۔
    ’’مم مگر انکل! بات یہ ہے کہ تھوڑی بہت سندھی مجھے آتی تو ہے، مگر میں سندھی نہیں، اوہ مم میرا مطلب ہے کہ میں سندھی تو ضرور ہوں، کچھ سندھی بول بھی لیتا ہوں، مگر وہ سندھی نہیں ہوں!‘‘
    علی نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تو مجھے اس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔ ادھر احمد صاحب چہرے پر شدید حیرت کے آثار لیے علی کو اور مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے احمد صاحب کو سلام کیا، معذرت چاہی اور تیزی سے علی کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھک سے باہر نکل آیا۔
    باہر آتے ہی اس نے میرے خطرناک ارادے بھانپ کر جلدی سے کہا:
    ’’ایک منٹ فیصل بھائی جان! آپ لوگ میری بات سمجھ نہیں ر ہے. وہ فلاں دانشور نے فیس بک پر فلسفہ بگھارا تھا کہ آپ سندھ میں پیدا ہوئے ہوتو سندھی ہو، اردو اسپیکنگ یا مہاجر کا ٹائٹل نہ لگاؤ، اپنے آپ کو سندھی کہلواؤ. میں تو اس لیے بولا۔‘‘
    ’’کیا؟؟ حمق! تو نے ان دانشوروں کی باسی دانش کی وجہ سے مجھے اتنے اچھے پڑوسی کے سامنے شرمندہ کر دیا. ابے ادھر آ. ‘‘ میں اسے اگلی گلی میں لے آیا۔
    سامنے میرے بہت پیارے پڑوسی دوست محسن بھائی کھڑے ہوئے تھے. ’’ اب سن‘‘
    میں علی کو ان کے پاس لے گیا۔
    ’’محسن بھائی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سندھی ہو؟‘‘
    ’’ہائیں…‘‘ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
    ’’کک کیا کہہ رہے ہو فیصل بھائی! جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں، کوئی بیس سال سے آپ کا پڑوس ہے، اب ہم سندھی ہو گئے سائیں، واہ چھا تو کرے میرا میڈا سائیں‘‘
    محسن بھائی نے مزاحیہ انداز میں سندھی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ’’پھر آپ کون ہو؟‘‘
    ’’کیا ہوگیا بھائی؟ ہم پنجابی ہیں، پیچھے سے فیصل آباد ی ہیں. کیا آپ ہمارے ساتھ رائیونڈ اجتماع کے بعد ہمارے گاؤں گئے نہیں تھے کیا؟‘‘
    اب ان کے چہرے پر الجھن کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔
    ’’بس ٹھیک ہے.‘‘ میں مسکرایا اور انہیں الجھتا چھوڑ کر علی کا ہاتھ تھامے کونے میں بنے کوئٹہ وال چائے ہوٹل پر چلا گیا۔
    ’’ہاں عبدالرحمن! میں نے سنا ہے تم سندھی ہو؟‘‘
    میں نے چائے بناتے کھلنڈرے سے عبدالرحمن سے پوچھا۔
    عبدالرحمن نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر گویا مذاق سمجھتے ہوئے بولا:
    ’’زڑ خہ منہ کن خرژیش …مچ مچ ٹشن دا ڈغہ … زہ تا سرا مینا کوم پیسل بھائی!‘‘
    وہ مخصوص کوئٹہ کے لہجے میں پشتو کے پھول نچھاور کرنے لگا۔
    ’’آداب آداب میرے چھوٹے خان… میری طرف سے بھی زہ تا سرا مینا کوم…‘‘
    میں نے مسکرا کر جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
    قصہ مختصر سرائیکی خالد اعظم نے سرائیکی ہی کہا. ہزارے وال طاہر عابد نے ہزارے وال کی نسبت ہی بتلائی. اور ادھر علی کا چہرہ برابر رنگ بدل رہا تھا۔
    ’’دیکھا تو نے یہ سب ہمارے بھائی یہیں پیدا ہوئے، یہ سب سندھی نہیں ہوئے تو کمینے تو کہاں سے سندھی ہو گیا؟‘‘
    ’’بے شک ہم سندھ میں رہتے ہیں مگر ہمارے جو مہان دانشور دو چار دنوں سے گاہے یہ فلاسفی جھاڑ رہے ہیں ناں کہ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی کہلاؤ، تو بیٹا یہ صرف تمہارے میرے لیے لارے لپے ہیں. ان سے پوچھو، باقی ہمارے دوسری زبان سے نسبت رکھنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی لالی پاپ ہے یا نہیں؟! بیٹا یہاں کی بات تو چھوڑو، خود پنجاب میں رہنے والے سرائیکی بیلٹ کے ساتھی خود کو پنجابی نہیں کہتے. ہزارے وال خود کو پنجابی نہیں کہتے.
    ارے پیارے یہ لفظ مہاجر اب صرف پہچان کے لیے بولا جاتا ہے نہ کہ لغوی واصطلاحی طور پر کہ آگے سے یہ جاہلانہ سوال پوچھا جائے کہ اچھا بتاؤ تم نے کب ہجرت کی؟ پھر چلولفظ مہاجر کو چھوڑو، اگر اس سے تکلیف ہوتی ہے تو’اردو اسپیکنگ‘کی اردو انگریزی مخلوط معصوم سی ترکیب سے کیا مسئلہ ہے جسے اب قبول خاص و عام حاصل ہو گیا ہے، مگر دانشور اس پر بھی چیں بجیں ہیں، کس وجہ سے؟ صرف متحدہ جیسی فسطائی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود متحدہ برسوں قبل لفظ مہاجر سے جان چھڑا چکی، جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی!
    ڈئیر! قبیلے، علاقے اور زبان پہچان کے لیے ہوتے ہیں اور شادی بیاہ اور ہزار معاملات میں لوگ علاقہ یا زبان کے بارے میں عام سوال پوچھتے ہی ہیں. یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اپنی لسانی پہچان امریکا جا کر بھی برقرار رکھو، پنجابی مسلم سوداگران تنظیمیں بناؤ اور ہم اپنے ہی ملک میں اپنی پہچان تلاشتے رہیں.!
    کیا یہ بات سراسر اکرام مسلم کے خلاف نہیں کہ ایک مسلمان جس بات کو پوچھنا چاہ رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے باوجود اپنے فیس بکی دانشوروں کی ہدایت پر مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، سندھی ہوں کی تکرار کرتے رہیں، اور نتیجے میں کنوارے ہی رہ جائیں!
    ٭٭٭
    اس کہانی میں بات بہت وضاحت سے آ گئی. مزید کنفیوژن دور کرنے کے لیے بات کو اس طرح سمجھیے:
    دیکھیں اپنی پہچان اور تعارف کے لیے مختلف دائرے ہوتے ہیں. ہر دائرہ پہلے سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
    ٭پہلا دائرہ:
    آپ کسی غیر مسلم کے مقابل اپنی پہچان مسلمان کہہ کر کرواتے ہیں. بس یہی پہچان و تعارف کا سب سے بڑا اور بنیادی دائرہ ہے اور یہی دائرہ دنیا آخرت دونوں کو وسیع ہے. اسی دائرے کا حق ہے کہ اسے اللہ کے شکر کے ساتھ بیان کیا جائے!
    ٭دوسرا دائرہ:
    آپ پاکستان سے باہر ہیں تو آپ دوسرے ملک والوں کے سامنے اپنی وطنیت کی پہچان کروائیں گے، یعنی پاکستانی! یہ دوسرا دائرہ ہے جس میں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان گویا مائنس ہو گئے!
    ٭تیسرا دائرہ:
    آپ پاکستان میں ہیں تو آپ اپنے شہر کے توسط سے اپنی پہچان کرواتے ہیں یعنی لاہوری، کراچی والے، ملتانی، کوئٹہ وال، پشاوری وغیرہ، آپ چاہے کوئی بھی زبان بولتے ہوں، اپنے شہر کی خوبیاں، اپنے شہر کی تعریف، اپنے شہر پر فخر اور کبھی کبھار اپنے شہر کی وجہ سے تعصب بھی اپنائیں گے، یہ بھول کر کہ آپ پختون ہیں، پنجابی بولتے ہیں یا اردو! یہ ہے پہچان و تعارف کا تیسرا دائرہ اس میں پاکستان کے دوسرے شہر والے گویا مائنس ہو جاتے ہیں۔
    ٭چوتھا دائرہ:
    یہاں آ کر ایک عجیب بات مگر یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں صوبائی پہچان کرانے کا رواج بالکل بھی نہ چل سکا، پاکستان کے اندر اول شہر کی پہچان ہے، اس کے بعد براہ راست زبان کی پہچان ہے!
    پنجابی بولنے والے پنجابی اسپیکنگ، سرائیکی بولنے والے سرائیکی اسپیکنگ، سندھی بولنے والے سندھی اسپیکنگ، ہزارہ وال ہزارہ کی زبان بولتے ہیں، پشتو بولنے والے پختون اور اردو بولنے والے اردو اسپیکنگ!
    ٭ یہ ہے پہچان اور تعارف کا چوتھا دائرہ اس میں دوسری زبان والے مائنس ہو گئے۔
    اس سے چھوٹے بھی کئی دائرے ہیں، ذات یا علاقائی وغیرہ کے، جیسے پنجابی بھائیوں میں جٹ اور کھوکھر وغیرہ اور اردو بولنے والوں میں بہاری، دہلی والے، الہ آبادی، حیدرآبادی وغیرہ کے، لیکن انہیں چھوڑیے۔
    مندرجہ بالا چار دائرے کسی قسم کے تعصب کے بغیر بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان دائروں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ یہ حقیقت ہے۔ اس کے خلاف کوئی ’نکتہ شناس‘ زبردستی یہ کہے کہ جس صوبے میں رہتے ہو، اس سے اپنی پہچان کروائو تو یہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف بات ہے۔
    جب ہمارے دفتر کے سرائیکی بھائی جو کراچی میں ہی پیدا ہوئے، اپنی پہچان سرائیکی کہہ کر کراتے ہیں تو ہم بھلا کیوں سندھی کی پہچان کروائیں؟!
    ٭٭٭