Tag: زنا

  • اجنبی مرد وعورت کے تعلق کے نقصانات اور دنیوی و اخروی سزائیں – مولانا محمد جہان یعقوب

    اجنبی مرد وعورت کے تعلق کے نقصانات اور دنیوی و اخروی سزائیں – مولانا محمد جہان یعقوب

    نکاح کے بعد دو مرد و عورت آپس میں میاںبیوی بن جاتے ہیں اور یہی دونوں ایک دوسرے کے حقوق زوجیت کی ادائیگی کے واحد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں کے آپس کے حقوق زوجیت کے ادا کرنے سے شہوانی ہیجان ختم ہوتا رہتا ہے اور عفت و عصمت کی راہیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں۔جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے تمام انسانوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ نکاح اعلانیہ طور پر کرتے ہیں اس کی نہ صرف اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ اس تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ناراض رشتہ داروں ہر ممکن طریقے سے راضی بھی کیاجاتا ہے۔

    کسی مرد و عورت کا بغیر عقد نکاح کے جوکہ ایجاب و قبول پر مشتمل ہوتا ہے آپس میں ہم بستری کرنا زنا کہلاتا ہے۔زنا ایک ایسا مکروہ، قبیح اور بُرا فعل ہے کہ جس کی خود زانی اور زانیہ فخریہ طور پر اعلان نہیں کرتے بلکہ چھپ چھپا کر خفیہ طور پر اس عمل کو کیا جاتا ہے گویا کہ انسانی فطرت بھی اسی سے نفرت کرتی ہے اور اس کے غلط اور بُرا ہونے کا احساس رکھتی ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہ اچھا کام ہوتا تو وہ ضرور شادی کی طرح اس کا اعلان کرتے اور اس سے پہلے تقریب کا اہتمام کرتے۔

    شریعت میں زنا کی ممانعت:

    قرآن مقدس میں جگہ جگہ زنا کی مذمت بیان کی گئی ہے، کہیں فرمایا
    زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً وہ بڑی بےحیائی اور بُری راہ ہے۔ (بنی اسرائیل 32)
    کہیں فرمایا:
    بے شک یہ بری بے حیائی اور نفرت کی بات تھی اور بہت بُرا طریقہ تھا۔ (نساء 22)
    کہیں فرمایا:
    اور (ایمان والے)زنا نہیں کرتے۔ (فرقان 68)

    احادیث میں زنا کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑھ کر گناہ نہیں ہے جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس کے لیے حلال نہ تھا۔ (بحوالہ تفسیرابن کثیر جلد3صفحہ38)
    نبی ۖ کا ایک اور ارشاد ہے: زناکار جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا۔ (مشکوٰة، باب الکبائر)
    اس کی وضاحت نبی اکرم ۖ نے اپنے ایک اور فرمان میں اس طرح فرمائی: (مشکوٰة باب الکبائر)
    ‘بندہ جب زنا کرتا ہے اس وقت ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بن کر ہوتا ہے اور زانی جب فعل زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف پلٹ آتا ہے۔نبی جب کسی عورت سے بیعت لیتے تھے تو انہیں چند باتوں سے منع کیا جاتا تھا، جن میں زنا بھی شامل ہے:
    اور (وہ عورتیں) بدکاری نہیں کریں گی اور اپنے بچوں کو قتل (بھی) نہیں کریں گی۔ (الممتحنہ 12)
    نبی اکرم کا ارشاد ہے: زنا کسی قوم میں عام نہیں ہوتا مگر ان میں بکثرت موت ہوتی ہے۔(مشکوٰة ،صفحہ 459)
    اسی طرح نبی کا ایک اور ارشاد ہے : جس قوم میں جب زنا پھیل پڑتا ہے تو اُسے قحط سالی کی مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور رشوت کی گرم بازاری ہوتی ہے تو اس پر خوف طاری کردیا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃصفحہ 313)
    حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا : جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اس قوم میں مصیبت کو پھیلا دیتا ہے۔ (تاریخ ملت، جلد2صفحہ40)
    حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ
    کسی بستی میں سود اور زنا جب پھیل پڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس بستی کی ہلاکت کی اجازت مرحمت فرما دیتا ہے۔ (الجواب الکافی، صفحہ 220)

    واقعہ معراج میں نبی ۖ کا گزر ایک ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت رکھا ہوا تھا اور دوسری ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا بدبودار گوشت پڑا تھا اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کچا اور سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے اور پکا ہوا نہیں کھا رہے تھے، حضورۖ نے پوچھا کہ یہ لوگ ہیں؟ جبرئیل امین نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں کہ جو حلال بیوی یا شوہر کو چھوڑ کر حرام کاری اور زنا میں مبتلا رہتے ہیں یعنی زناکار مردوں اور زناکار عورتوں کی مثال ہے۔ (تفسیرروح البیان جلد5صفحہ 111)

    زنا کے نقصانات:
    زنا کے ذریعے سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے ۔جب بچے کا نسب مشتبہ ہوگیا تو اس کی پرورش کا ذمہ دار کوئی مرد نہیں بنتا اس طرح ایک بچے کا ضائع ہوجانے کا یقینی خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور وہ بچہ سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوکر ردنیا کے امن و چین کی تباہی کا ذمہ دار بنتا ہے۔اگر زنا کے ذریعے سے حمل ٹھہرجائے اور زانیہ اسقاط کرادے اور وہ حمل چار ماہ سے زائد کا ہو تو زنا کے ساتھ ساتھ زانیہ قتل کی مجرم بھی ہوگی اور یہ نسل انسانی کے انقطاع کا ذریعہ بھی بنے گی۔زانیہ ایک سے زائد افراد کے ساتھ اپنے ازدواجی تعلقات قائم کرتی ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر اس عورت پر کسی کو بھی دسترس حاصل نہیں ہوسکتی۔ تمام مرد اس پر قبضہ کرنے کی طرف کوشش کریں گے اور وجہ ترجیح کسی کو بھی حاصل نہ ہوگی۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں کشیدگی پھیلے گی بلکہ قتل وغارت گری کا بازار بھی گرم ہوگا۔جس عورت کو زنا کی لَت پڑ جاتی ہے کوئی بھی شریف النفس آدمی اُسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں ایسی عورت سے نفرت کا اظہار دیکھا جاتا ہے۔ اور وہ ذلت آمیز نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔زنا کے اس عمل کے نتیجے میں کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے کوئی خاص محبت باقی نہیں رہے گی جس کو جہاں موقعہ مل گیا جس کو چاہا بلا لیا، اپنی مستی نکال لی، نتیجے میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔زنا کے ذریعے سے صرف جنسی تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں ایک انسان باکردار شخصیت کا رُوپ نہیں دھار سکتا۔ جبکہ معاشرے میں باکردار انسان ہی تعمیر انسانیت اور تعمیر معاشرہ کے کام آتا ہے۔

    دنیامیں زنا کی سزا:
    اسلام کو سزائیں دینے سے ایسا شغف نہیں ہے جتنا جرائم کے سدباب سے ہے۔ لہٰذا زنا کے ثبوت کے لیے اسلام نے شرائط بہت سخت رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
    1…زانی اور زانیہ کو زنا کرنے کی حالت میں چار مرد دیکھیں۔ سوچنے کی بات ہے! اسلام نے نکاح جس کے ہزاروں گواہ بن سکتے ہیں وہاں دو ہی گواہ رکھے ہیں اور زنا جس کا ایک گواہ بھی ملنا مشکل ہے اس کے ثبوت کے لیے بیک وقت چار گواہ مانگے ہیں۔
    2…یہ چار گواہ اپنی گواہی میں معتبر بھی ہونے چاہییں۔ اگر ان میں سے کوئی گواہ جھوٹا ثابت ہوا تو اُسے قاضی اَسّی(80) کوڑوں کی سزا دے گا اسے اصطلاح میں حدقذف کہتے ہیں اور اس ڈر سے کوئی آدمی بغض، حسد عداوت، کینہ کو بنیاد بناکر جھوٹا الزام لگا ہی نہیں سکتا۔
    3…ان گواہوں کی گواہی کے بعد زنا ثابت ہوجانے پر جو شرعی سزا دی جائے گی اس کی تکمیل سے پہلے اگر کوئی گواہ اپنی گواہی سے دستبردار ہوجائے تو زانی اور زانیہ کی سزا بھی موقوف ہوجائے گی۔ مندرجہ بالا ثبوت کی شرائط کی روشنی میں زنا کی سزا جو رکھی گئی ہے وہ(١)غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے سو سو (100) کوڑوں کی سزا ہے(٢) اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کرنا کیاجائے گا،یعنی لوگ پتھرمار مار کران کاخاتمہ کردیں گے۔

    دورِحاضر میں یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ زنا کے ثبوت پر دی جانے والی اسلامی سزا ایک وحشیانہ فعل ہے (نعوذباﷲ) جبکہ اگر قتل کر دینا ہی مقصود ہے تو آج دیگر کئی آسان ذرائع یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عرض ہے کہ جب اسلام نے اس سزا کو نافذ فرمایا اس وقت بھی قتل کردینے کا دوسرا آسان ذریعہ موجود تھا یعنی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جاتا ،لیکن اس ذریعے کے موجود ہونے کے باوجود سنگسار کی سزا کا نافذ ہونا اس مصلحت کی بناپر ہے کہ اگر کوئی گواہ منحرف ہوجائے تو سزا موقوف ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمتیں ہوتی ہیں،جنہیں اس علیم وخبیر کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔بندہ کہتے ہی غلام کو ہیں، غلام اگر آقاکی باتوں میں حکمتیں ڈھونڈنااور اعتراض کرنا شروع کردے تووہ فرماں بردارغلام نہیں کہلاتا،ہم بھی اس ذات احد وصمدکے بندے ہیں ،ہمیں بھی اس کے ہر حکم کو بلاچون وچراتسلیم کرلینا چاہیے، زنا کی مذکورہ سزا بھی اﷲ تعالیٰ کی نافذ کردہ حد ہے اور اس کے بارے میں شک و شبہ یا انکار کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔

  • زنا اور ناجائز بچے – مبین امجد

    زنا اور ناجائز بچے – مبین امجد

    مبین امجد چند دن جاتے ہیں کہ ایک تصویر دیکھی تھی جس میں کسی نومولود بچے کو شاپر میں ڈال کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا گیا تھا۔ قسمے دیکھ کر دل لرز گیا تھا۔ آئے دن ہمارے اس اسلامی ملک کی سڑکوں چوراہوں پر کتے بلیاں نومولود بچوں کی نعشوں کو اٹھائے نظر آتے ہیں۔ اور دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے سوائے کڑھنے کے اور جلنے کے۔ کیونکہ بات یوں ہے کہ جب معاشرہ بد چلن ہو جائے تو اس طرح کے واقعات معمول بن جایا کرتے ہیں۔ کہنے والے تو اس بچے کو حرامی کہیں گے نا مگر میں کہتا ہوں کہ حرامی تو وہ ہیں جو اس کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنے۔ میں کہتا ہوں حرامی تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے وقتی ابال اور لذت کی خاطر النکاح من سنتی کو پس پشت ڈال کر عارضی تعلق کو ترجیح دی۔

    جب کوئی بےشرم ماں اس معصوم کلی کو یوں کوڑے کے ڈھیڑ میں پھینکتی ہوگی تب ایک بار بھی ممتا نہ تڑپی ہوگی۔ تب ایک بار بھی انسانیت نہ لرزتی ہو گی۔ میں کہتا ہوں زمین کا کلیجہ پھٹ کیوں نہیں جاتا۔ یہ ٹھیک ہے لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں اور پھر اپنے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کے لیے ان معصوموں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ مگر تب کیا کریں گے جب ان کی زبانوں پہ مہر لگ جائے گی اور ان کے اعضا چیخ چیخ کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ تب کہاں چھپیں گے۔ تب تو یہ بچہ بھی ان کو گریبان سے پکڑے گا۔ بتاؤ کیا جواب دو گے؟

    ان بد بختوں کو شاید دوہرا عذاب ہوگا ایک زنا کا اور ایک قتل کا۔ مگر اللہ بڑا غفور رحیم ہے شاید بخش دے۔ مگر اس معاشرے کو شاید نہیں بخشے گا جس نے نکاح کو اس قدر مشکل اور زنا کو اس قدر آسان بنا دیا کہ ایسے روح فرسا واقعات ہماری اس سوسائٹی میں ہونے لگے۔ یاد رکھیے اقبال نے کہا تھا کہ
    فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
    کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

    یاد رکھیے زنا ایک قرض ہے اور قرض ہر حال میں لوٹانا ہی ہوتا۔۔۔اور ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ اللہ پاک نے اس کی مذمت میں فرمایا۔
    [pullquote]وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إنَّہ كَانَ فَاحِشَۃ وَسَاءَ سَبِيلا[/pullquote]

    خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔ (سورۃ اسراء آیت نمبر 32)

    اللہ پاک کے اس قدر صریح حکم کے بعد بھی ہم اس قدر ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر چکے ہیں کہ اسے ہم معمولی گناہ تصور کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا بھگتان ہم اس دنیا میں بھی بھگتیں گے اور آخرت میں بھی اس کا بدلہ بہت برا ہے۔

    وہ لوگ جو اسلام کی شرعی سزاؤں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بچہ انسان نہیں ہے۔ کیا تم جو مرضی کھیل کھیلو اور پھر عزتوں کو بچانے کیلیے یوں قتل عام کرتے پھرو وہ غیر انسانی نہیں ہے۔ تب انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔مگر شاید تمہارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں کیوں کہ تم نے نصاب کوئی اور پڑھا ہے اور میں نے سوال کوئی اور پوچھ لیا۔ مگر یاد رکھیے یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ میں نے آپ جیسوں کو بعد میں روتے اور اپنے سر میں خاک ڈالتے دیکھا ہے۔ مگر سمجھ تب آتی ہے جب اللہ کی پکڑ میں آجاتے ہیں۔

    مگر شاید گناہ کا احساس گناہ جاتا رہے تو معاشرے یوں ہی شکست و ریخت کا شکا ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب ایسے حالات ہوجائیں تو پھر کوئی بھی نوٹس نہیں لیتا۔ کوئی پوچھتا تک نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنے چند ٹکے کھرے کرنے کیلیے آنکھوں پہ پٹی باند ھ لیتا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو آپ پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے اخبار میں چھپنے والا یہ اشتہار دیکھ لیں۔

  • شادی نہ کرنے پر ٹیکس کا نفاذ – زیڈ اے قریشی

    شادی نہ کرنے پر ٹیکس کا نفاذ – زیڈ اے قریشی

    زیڈ اے قریشی آج کل معاشرتی برائیاں اپنے عروج پر ہیں جس کی بنیادی وجہ دین اسلام سے دوری یا دنیاوی خواہشات کا انبار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ”کورٹ میرج“ کرنا آسان فعل بنتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے، وہ کیسے؟ اسلام میں حکم ہے جب بچہ جوان ہو جائے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اُس کا ”فرض“ ادا کر دیں لیکن ہمارے معاشرتی نظام نے ”شادی“ کو مشکل اور ”زنا“ کو آسان ترین بنا دیا ہے۔

    جب انسان بالغ ہوتا ہے تو جنسِ مخالف کی کشش اُس پر طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے، اگر اس کی یہ فطری ضرورت جائز طریقے سے پوری نہ کی جائے تو وہ بچہ ”فرسٹریشن“ کا شکار ہو جائےگا۔ ”فرسٹریشن“ ایک ایسی بیماری ہے جو بہت سے مختلف عوامل سے انسانوں کو لاحق ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ رویوں میں عدم توازن ہوتا ہے، جن میں سے ایک وجہ شادی کا بروقت نہ ہونا بھی ہے۔ جب کسی انسان کی جائز ضرورت پوری نہ ہو تو وہ ”فرسٹریٹڈ“ ہو جاتا ہے، اُس میں ذہنی تناؤ بڑھنے لگتا ہے اور اُس کی رغبت گناہوں یا کسی بھی ایسے فعل میں بڑھتی ہے جس سے وہ وقتی سکون حاصل کرسکے۔ اس کے نتیجہ میں وہ کسی انتہاہ پسند کے ہاتھوں ”ٹریپ“ بھی ہو سکتا ہے، مثلا:ً سٹریٹ کرائم، دہشت گردی، جنسی تعلقات/(کورٹ میرج ) وغیرہ وغیرہ میں ملوث ہو جانا۔

    دراصل ہمارا معاشرہ اور حکومت وقت موجودہ دور میں مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہیں جس کی وجہ سے ”سول سوسائٹیز“ وغیرہ کو بھی بہت جلدی ہی اپنے حقوق یاد آجاتے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی کسی بھی سوسائٹی کو کبھی بھی اپنی مذہبی تعلیمات یاد نہیں آئیں۔ کیونکہ اسلام کے وہ ٹھیکدار نہیں!

    خیر بات ہو رہی تھی معاشرتی برائیوں کی تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی قسم کوئی کسر ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس کی وجہ سے کوئی بھی شریف انسان اپنے بچوں کے ساتھ آج کل کے انٹرٹینمینٹ پروگرام نہیں دیکھ سکتا۔ افسوس کہ نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کو قانون سازی کے لیے تجاویز دینا یاد آتا ہے اور نہ ہی ہمارے ایوانوان میں بیٹھے ہوئے کارندوں کو ان معاشرتی برائیوں اور بے راہ رویوں کے سدباب کے لیے قانون سازی یاد آئی۔

    ایک مثال بڑی قابل غور ہے کہ!
    چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے ہمیں اس سے ہی سبق سیکھنا چاہیے کہ جب ان کی آبادی بڑھنے لگی تو انھوں نے اس کے سدباب کے لیے فوراً قانون سازی کی اور دو سے زیادہ بچوں پر پابندی لگا دی اور ہاں اگر کوئی صاحب استطاعت ہے اور وہ دو سے ذیادہ بچے پیدا کرنا چاہے تو وہ بچے پیدا کرے لیکن حکومت کو ٹیکس ادا کرے جس سے حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا This is called give & Take policy۔

    اگر یہی فارمولہ پاکستان میں نافذ کیا جائے کہ ہر شخص اپنے بچوں کی شادی Age of Magority یعنی 18 سال کی عمر تک کرے گا اور اگر کوئی صاحب استطاعت ہے اور شادی نہیں کرنا چاہتا تو بےشک شادی نہ کرے لیکن حکومت کو ٹیکس ادا کرے، اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے،
    1. معاشرتی برائیوں میں کمی
    2. کورٹ میرج کا خاتمہ
    3. خاندانی نظام مضبوط
    4. بدکاریوں میں کمی
    5. شادی کا نظام آسان
    6. حکومت کی آمدنی
    7. فرسٹریشن کا خاتمہ
    8. نوجوانوں کی ذہنی پختگی

    ان سب فوائد سے بڑھ کر دین اسلام کا نفاذ ہوگا اور ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا۔
    عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی!
    کیونکہ، دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔

  • الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    فرحانہ صادق “صاب اب میرا کام ہو جائے گا نا”
    اس نے دیوار کی طرف رُخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی.
    “ہاں ہاں بھئی ”
    میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں.
    پھر میں پیسے لینے کب آؤں ؟
    دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اور پھر جھٹک کر لپیٹ لیا.
    “پیسے ملنے تک تمھیں ایک دو چکر تو اور لگانے ہی پڑیں گے. کل ہی میں مالکان سے تمھارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں”
    میں نے شرٹ کے بٹن لگائے، ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم کے دروازے سے باہر جھانک کر آس پاس احتیاطاً ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا.
    ویسے تو نیا چوکیدار وقتا فوقتا چائے پانی کے نام پر میری طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی رقم کے بدلے میں میرا خیر خواہ تھا مگر پھر بھی میں کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا تھا.
    “پھر میں کل ہی آجاؤں” وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی.
    ” کل نہیں ! ! ! ”
    میں روز اس طرح یہاں آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا، اس لیے بس آہ بھر کر رہ گیا.
    ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں. میں نے نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولتے ہوئے سوچا
    ” ارے سنو ! ! تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہے.”
    وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ہوگئی.
    ” اسے اتار کر سیدھی کرلو. میں چلتا ہوں. پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا. اور ہاں احتیاط سے، کوئی دیکھ نہ لے تمھیں.
    زیمل خان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا. تین ہفتے پہلے فیکٹری میں داخل ہونے والے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت میں ٹانگ پر گولی کھا کر گھر میں لاچار پڑا ہوا تھا. مالکان اس کے علاج کے لیے پچاس ہزار دینے کا اعلان کر کے بھول گئے تھے. سو اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی. میں نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام میں اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دے دیا.
    عمر! عمر!
    اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے عقب سے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی. اس کے اور میرے گھر لوٹنے کا وقت تقریبا ایک ہی تھا اور کبھی کبھار تو ہم اسی طرح اکھٹے گھر میں داخل ہوتے تھے. وہ ایک چھوٹے بینک میں کلرک تھی.
    “ایک خوشخبری ہے ” قدرے فربہی مائل وجود کو سنبھالے وہ تیزی سے اوپر آرہی تھی
    خوشی سیے اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں
    ” مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انھوں میرے پروموشن کی بات ہے.”
    دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالی
    “انہوں نے کہا ہے تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہوجائے گا”
    “ارے واہ ! مبارک ہو ” میں نے خوش دلی سے اسے مبارکباد دی
    ” تمھیں پتا ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں، اور وہ آصفہ ہے نا، وہ بھی میرے حق میں نہیں مگر مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں. کیوں نہ ہوں؟ میں اتنی محنت جو کرتی ہوں اور ویسے بھی ….
    وہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے چلی گئی
    میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہورہا تھا کہ اچانک میری نظر اس کی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں میں الجھ گئی.