Tag: رینجرز

  • جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی – احسان کوہاٹی

    جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی – احسان کوہاٹی

    موٹروے پولیس کے ساتھ دو نوجوان آرمی افسروں کی گرما گرمی تو عرصہ ہوا ختم ہو چکی لیکن اس موضوع پرسوشل میڈیا کی گرمی پاکستان بھارت کی گرما گرمی بھی نہیں دبا سکی۔ موٹر وے پولیس اہلکاروں کی پھٹی ہوئی یونی فارم والی تصویریں ابھی بھی گردش کر رہی ہیں اور ان تصویروں کے نیچے طنزیہ تبصرے، افسوس بھری چچ چچ، موٹر وے پولیس سے اظہار یکجہتی اورکہیں کہیں آرمی کے حق میں جملے ابھی بھی لکھے جا رہے ہیں۔ یہ معاملہ چار افراد کا نہیں بلکہ دو اداروں کا بنا دیا گیا ہے، اور کپتانوں کا رویہ ’’کاکولین ‘‘ کی تربیت بتایا جا رہا ہے، اور خوش اخلاقی، قانون پسندی اور فرض شناسی موٹر وے پولیس کے کھاتے میں جا رہی ہے۔

    پہلی بات درست ہے نہ دوسری بات مکمل طور پر ٹھیک، آرمی افسران سویلین سے فاصلے پر چھاؤنیوں میں ضرور رہتے ہیں لیکن یہ چھاؤنیاں مریخ پر نہیں ہوتیں، نہ ہم انہیں کسی اور جہاں سے آرمی کے لیے درآمد کرتے ہیں۔ یہ ہماری ہی گلیوں، محلوں میں کھیل کود کر بڑھے ہوتے ہیں، انہوں نے بھی گلی مں کرکٹ کھیل کر میرے اور آپ کے گھر کی کھڑکی کے شیشے توڑے ہوتے ہیں، یہ بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ڈور بیل دبا کر چیونگم لگا کر بھاگ جاتے ہیں، یہ بھی کالج کے باہر سگریٹ کے سٹے مار کر سونف سپاری چبا چبا کر گھر آتے ہیں، یہ اسی معاشرے کا حصہ اور پروڈکشن ہیں، جیسے ہم ہیں ویسے ہی یہ بھی مختلف مزاج، رویوں اور عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ دو افسروں کے طرز عمل کو کسی ادارے کا طرز عمل بنا کر پیش کرنا اور سمجھنا قطعا مناسب نہیں، آپ نے موٹر وے پر دو کپتانوں کے جھگڑے کا قصہ تو سن لیا اب ایک حاضر سروس جرنیل کی معذرت کا واقعہ بھی سن لیجیے۔

    یہ غالبا تین سال پہلے کی بات ہے۔ صبح سویرے رینجرز نے میرے محلے کا محاصرہ کیا اور اپنی انٹیلی جنس کی اطلاع پر یہاں موجود مشکوک افراد کو تلاش کرنی لگی،گھر گھر کی تلاشی لی گئی، میرے گھر بھی رینجرز کے جوان آئے، میں نے مکمل تعاون کیا اور وہ چلے گئے. اس کے بعد میں کسی کام سے باہر نکلا توکیا دیکھتا ہوں کہ سارے محلے دار گلی کے ایک نکڑ پر کھڑے ہیں، سامنے سے آنے والے ایک افسر نے مجھے بھی گلی کے نکڑ پر پہنچا دیا، میں نے ان سے اپنا تعارف بھی کرایا اور یہ بھی بتایا کہ میرے گھر کی تلاشی لی جا چکی ہے لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کر کے مجھے گلی کے نکڑ پر سب کے ساتھ کھڑا کر دیا جن کی نگرانی پر ایک رینجرز کا جوان بندوق لیے ایسے کھڑا تھا کہ ہم ذرا بھی ہلے تو وہ رائفل کاگھوڑا کھینچ لے گا۔ یہ میرے لیے بڑی ہی عجیب صورتحال تھی، کچھ دن پہلے ہی میں اپنے بچوں کے اسکول میں طلبہ بحیثیت ایک صحافی لیکچر دے کر آیا تھا اور میرے بیٹے جو اسکول میں اتراتے پھر رہے تھے، اب وہ گھر کے دروازے پر کھڑے مجھے قطار میں لگا دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے اور میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اتفاق سے اس وقت موبائل فون میرے پاس ہی تھا، میں نے رینجرز کے پی آر او کو فون کیا جو میرا اچھا دوست بھی تھا، اسے ساری صورتحال بتائی اور جان چھڑانے کے لیے کہا، پہلے تو اس نے زوردار قہقہ لگایا، پھر کہا کہ وہاں موجود کسی بھی افسر سے میری بات کرا دو، جس کے بعد میری گلو خلاصی ہوئی لیکن تب تک میں اچھا خاصا ’’مشکوک‘‘ہو چکا تھا۔

    دوسرے دن میں نے اس پر کالم لکھا کہ رینجرز اہلکار بنا کسی خاتون سرچر کے گھروں میں داخل ہوئے، سب کو بلاتخصیص قطار میں لگایا اور پھر جو جو مشکوک لگا اس کی قمیض اتار کر آنکھوں پر باندھ کرتفتیش کے لیے لے گئے، یہ طرزعمل لوگوں کو رینجرز کے خلاف بھڑکا رہا ہے، یہ عزت دار لوگوں سے پیش آنے کا طریقہ بھی نہیں جنہیں دن کی روشنی میں آنکھوں پر قمیضیں باندھ کر لے جایا گیا ہے، چار دن بعد چھوڑ بھی دیں گے تو وہ کس کس کو اس عزت افزائی کی وضاحتیں دیتے پھریں گے؟

    میں نے اس واقعے کی اطلاع ڈی جی رینجرز کو بھی دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے پاس وقت ہوگا نہ وہ اس کا نوٹس لیں گے، یہ تو معمول ہے لیکن جو ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ اس وقت کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر تھے جو اب لیفٹننٹ جنرل ہو کر آئی ایس آئی کی کمان کر رہے ہیں۔ خلاف توقع ان کی طرف سے مجھے معذرت کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے مجھے ایس ایم ایس کیا کہ انہیں اس واقعے پر دلی افسوس ہوا ہے، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور پھر انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی بھی دعوت دی۔ ساتھ ہی لکھا کہ اپنے صاحبزادوں کو بھی لے کر آؤں، میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ ان سے جا کر ملا، وہ بڑی عزت اور تکریم سے پیش آئے، اس دن اپنے ساری ملاقاتیں انھوں نے کینسل کر دیں اور جم کر بیٹھ گئے، تفصیلی ملاقات ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ سرچ آپریشن میں اس طرح لوگوں کو گلی کے نکڑوں پر بٹھانے، میدانوں میں جمع کرنے سے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے، آپ نے اگر انہیں کہیں جمع کرنا اور شناخت پریڈ کرانی ہی ہے تو کسی اسکول، کسی مسجد میں بٹھا دیں، ان کی عزت کا تماشہ تو نہ بنے۔ پھر آپ کے جوان گھروں میں جاتے ہیں، تلاشی لیتے ہیں جس گھر سے کچھ نہیں ملتا، وہ یقینا ایک عزت دار شہری ہی ہوا، اس گھر سے نکلتے ہوئے آپ کا افسر وہاں موجود کسی بچے کا پیار سے گال تھپتھپا کر اپنی جیب سے دو ٹافیاں نکا ل کر دے دے تو وہ گھر والے ساری عمر رینجرز کے اس چھاپے کو نہیں بھولیں گے۔ وہ یہ سب نوٹ کرتے رہے، یہ ملاقات لگ بھگ دو گھنٹوں پر محیط رہی جس کے اختتام پر میرے بیٹے کے ہاتھ میں بہت ساری چاکلیٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے تحفہ تھا۔

    ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ سال بھر پہلے اسلام آباد جانا ہوا، ایک دوست کو اطلاع دی، وہ بھی آرمی میں بریگیڈئیر ہیں اور آج کل ایک حساس ادارے میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ وہ مجھے لینے آئے کہ کھانا ساتھ کھائیں گے، میں ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا، وہ خود ہی ڈرائیو کر رہے تھے، انہوں نے سیٹ بیلٹ باندھا اور کن اکھیوں سے مجھے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئے۔ ہم کراچی والے ان بیلٹون شیلٹوں کے چکروں میں کہاں پڑتے ہیں، وہ کچھ دیر تو چپ رہے پھر مجھ سے کہنے لگے ’’احسان بھائی! سیٹ بیلٹ باندھ لیں، یہاں بہت سختی ہے۔‘‘
    میں ایک بریگیڈیر کے منہ سے یہ سن کر بڑا ہی حیران ہوا اور کہے بنا نہ رہ سکا ’’آپ کے لیے بھی سختی ہے؟‘‘
    ’’بھائی! پچھلے ہی ہفتے میرے ڈرائیور کا پانچ سو روپے کا چالان ہو گیا تھا اور بات یہ کہ قانون تو قانون ہے ناں جی۔‘‘

    اب آپ بتائیں کہ وہ دو نوجوان آرمی کے کپتان ہیں تو یہ بھی اسی آرمی کے سینئر افسر، ایک جرنیل اور دوسرا بریگیڈئیر، دونوں کے طرز عمل میں فرق ہے کہ نہیں اور پھر ایک جنرل کی معذرت کو کس رویے میں فٹ کریں گے؟ جنرل رضوان اختر نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا، ان کے سپاہی جنہیں وہ جانتے بھی نہ تھے، میری شکایت تو ان سے تھی لیکن یہ ان بڑا پن اور ظرف تھا۔ آخری بات موٹروے پولیس اس ملک کا قابل فخر ادارہ ہے، ان کی کارکردگی کو سلام ہے، وہ اپنے فرض کی راہ میں کچھ حائل نہیں ہونے دیتے لیکن گزارش پھر یہی ہے کہ انفرادی رویوں کو اجتماعی رویہ تو نہ بنایا جائے۔

  • گڈریا  –  شمس العارفین،دبئی

    گڈریا – شمس العارفین،دبئی

    shams-ar
    ایم کیو ایم پاکستان بظاہر ڈٹ کر ایم کیو ایم لندن کے سامنے کھڑی ہوچکی ہے۔ لندن سے استعفوں کے تقاضے کیے جارہے ہیں اور کراچی والے کہہ رہے ہیں ”ہیلو، ہیلو، بھائی۔۔۔ آواز نہیں آرہی“، لیکن بائیس اگست کو کراچی پریس کلب کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں لگنے والی آوازیں بالکل واضح اور صاف تھیں۔ وہاں موجود لوگوں نے بھی سنا اور جو موجود نہیں تھے، انہوں نے بھی سنا۔ دیارِ غیر میں بیٹھے ہم پاکستانیوں نے بھی سنا، جو اپنا دل وطن میں چھوڑ آتے ہیں۔ ان آوازوں سے پہلے بھی کچھ آوازیں لگی تھیں، ان آوازوں کے ذکر سے پہلے گڈریئے کی آواز کا ذکر کرتا ہوں، ذکر کیا چھوٹی سی کہانی ہے۔ سب ہی نے پڑھ رکھی ہوگی، دوبارہ پڑھ لیجیے۔

    کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک بڑا ہی شوخا گڈریا رہتا تھا۔ ہنسی مذاق سے اس کا جی نہ بھرتا۔ کبھی اس دوست کو چھیڑا تو کبھی اس کو، کبھی ایک کو تنگ کیا تو کبھی دوسرے کو۔ ایک دن وہ گاؤں کے قریب ٹیلے پر چڑھ کر زور زور سے چلانے لگا شیر، شیر، شیر۔۔۔ گاؤں والو! اٹھو جاگو شیر گاؤں میں گھس آیا ہے۔ گاؤں والے لالٹینیں لاٹھیاں برچھیاں لے کر بھاگتے ہوئے ٹیلے پر پہنچے تو وہاں سوائے گڈریئے کے کوئی نہ تھا اور گڈریا بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہا تھا کہ اس نے پورے گاؤں کو احمق بنادیا۔ گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے اسے ڈانٹا اور باقی سب کھی کھی کرتے گڈریئے پر برستے ہوئے واپس چلے گئے۔ دو روز بعد گڈریا پھر ٹیلے پر چڑھ گیا اور لگا چلانے، گاؤں والے جلد ی آؤ شیر، شیر، شیر۔۔۔ گاؤں والوں نے سچ جانا اور ایک بار لاٹھیاں برچھیاں لے کر ٹیلے پر پہنچے، مگر وہاں شیر ہوتا تو نظر آتا۔ کچھ دنوں بعد گاؤں والوں کو پھر گڈریئے کی چیخنے کی آواز آئی، کسی نے بھی دھیان نہ دیا اور کان لپیٹے سوتے رہے۔ صبح قضائے حاجت کے لیے لوٹے لے کر ٹیلے پر پہنچے تو گڈریئے کی ادھ کھائی لاش کے باقیات پڑے تھے، اس رات واقعی شیر آگیا تھا۔

    مجھے گڈریئے کی یہ آواز نوے کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے آپریشن کلین اپ سے یاد آئی۔ یہ آپریشن شروع توجرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا تھا، لیکن جب مجرموں کے کھرے تلاش کیے گئے تو وہ ایم کیو ایم کے سیکٹر آفسوں اور یونٹ آفسوں تک لے گئے۔ ہمیں کہا گیا ایم کیو ایم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔۔۔ کہنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آپریشن کے باوردی ذمہ دار تھے۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ دادوں، چاچوں اور ماموں کی گرفت کی جانے لگی اور پھر وہ گرفت ڈھیلی ہوگئی۔ ایم کیو ایم دوبارہ قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوگئی۔

     

    نوے ہی کی دہائی میں دوبارہ آپریشن ہوا۔ جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے۔۔۔ پریس فوٹو گرافروں کو ٹارچر سیل دکھائے گئے۔۔۔ مختلف مقامات سے برآمد ہونے والا مدفون اسلحہ دکھایا گیا۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اقبالی بیانات اخبارات کی ہیڈلائن بنے۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر قسم کا اسلحہ چلاسکتے ہیں اور انہیں یہ اسلحہ بھارت میں چلانا سکھایا گیا۔۔۔ لیکن یہ اقبالی بیانات، را کی تربیت، پاکستان مخالف لٹریچر، جناح پور کے نقشے سب پر وقت نے دھول ڈال دی، لیکن ہم نے تو یقین کرنا ہی تھا اور کیا بھی کہ یہ آواز تو محافظان وطن کی تھی۔

    اب دو برس سے جاری آپریشن میں ایم کیو ایم پھر رودھو رہی ہے کہ آپریشن اس کے خلاف ہورہا ہے۔ سچی بات ہے کہ اس کے رونے دھونے پر ہمارا دل نہیں پسیجا کہ ایم کیو ایم کے نامعلوم کارکنوں کی معلوم فسطائیت سے ہم آگاہ تھے۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ پڑا۔ ایک باوردی افسر نے عزیز آباد میں کھڑے ہوکر نیوز کانفرنس کی کہ نائن زیرو سے نیٹو کا اسلحہ پکڑا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن پر وہ اسلحہ بھی دکھایا گیا اور گرفتار کارکن بھی دکھائے گئے، ہم نے فوراً یقین کرلیا کہ آواز ہمارے اپنے محافظوں کی تھی۔

    بائیس اگست کو بلا تھیلے سے باہر نکل آیا۔ الطاف حسین کا خبث ظاہر ہوگیا۔ اس کے منہ سے خاکم بدہن ”پاکستان مردہ باد“ کے نعروں کے بعد جناح پور کے نقشے۔۔۔ بھارت میں کارکنوں کی تربیت۔۔۔ را سے روابط۔۔۔ بھتے۔۔۔ اغوا برائے تاوان۔۔۔ بوری بند لاشیں۔۔۔ منی لانڈرنگ۔۔۔ اور نئی دہلی میں کی گئی الطاف حسین کی وہ تقریر بھی یاد آگئی جس میں قیام پاکستان کو تاریخ کی غلطی قرار دیا تھا۔ محافظین وطن نے سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا لیکن ہوا کیا؟

    ایم کیو ایم نے ’’پاکستان‘‘ کانام لے کر اپنی سیاسی قوت بچالی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ایم کیو ایم لندن کو بظاہرعاق کردیا۔ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا لیکن میرا سوال تو گڈریئے کی آواز کا ہے۔ بار بار وطن دشمنی، دہشت گردی، تخریب کاری کے الزمات لگائے گئے، صولت مرزا نے تو سب کچھ کھول کھول کر رکھ دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی انکوائریوں کو درست قرار دے دیا، لیکن پھر بھی کارروائی کیوں نہ ہوئی؟

    ایم کیو ایم لندن کو کالعدم قرار کیوں نہ دیا گیا؟ ابھی تک ندیم نصرت اور واسع جلیل نیوز چینلوں پر آآکر بھاشن دے رہے ہیں، آخر کیوں؟ ریاست کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ ریاست کے ہاتھ پاؤں کس مجبوری نے باندھ رکھے ہیں؟ کل تک جو کچھ ادارے کہتے چلے آئے تھے، اس سب کی تصدیق الطاف حسین نے خود کردی ہے تو اب ایم کیو ایم لندن پر پابندی کا اعلان کیوں نہیں؟ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ سے سنجیدہ رابطہ کرنے میں کس کو درد زہ کا ڈر ہے؟ اگر آج غداروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو کل ہمارے اداروں کی آواز پر کون یقین کرے گا؟ اہل پاکستان انہیں ٹیلے پر چڑھ کر جھوٹ بولنے والا گڈریا کیوں نہ سمجھیں گے۔۔۔

  • ’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘ – احسان کوہاٹی

    اچھا ہی ہوا، الطاف حسین کا خبث ظاہر ہوگیا۔ وہ جو ایک عرصے سے بانیان پاکستان کی اولادوں کے قائد کا تاج سر پر لیے ملکہ برطانیہ کے سایہء عافیت میں موجیں کررہا تھا، اس کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا۔ دل میں پنپنے والی غلیظ آرزوئیں لیسدار کیچوئوں کی طرح زبان سے آکر لٹکنے لگیں۔ مکاری کی تاریکیوں سے ننگی خواہشیں باہر نکل کر رقص کرنے لگیں۔ سازشی ذہن میں پلنے والی لے پالک سوچ بھی دانت نکوسنے لگی۔ اس حوالے سے واقفان حال تو بہت پہلے سے جانتے تھے کہ فلم ’’ناسور‘‘ کا پرڈویووسر کون ہے؟ کاسٹ میں کون کون شامل ہیں؟ اسکرپٹ کس کا لکھا ہے؟ مکالمے کہاں سے ای میل ہوئے ہیں؟ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور دھنیں کس نے بنائی ہیں۔۔۔!!! آئٹم سونگ کے لیے بھائی کو کسی نیم عریاں رقاصہ کے ہیجان انگیز رقص کی ضرورت نہیں، وہ خود مہان کلاکار ہیں۔ قوم کو یاد تو ہوگی بھونڈی آواز میں لہک لہک کر پردے میں رہنے دینے کی وہ التجا جو ازلی آزردہ کو بھی ہنسا دیتی ہے۔ بھائی نے کیسے جھوم جھوم کر معنی خیز گاناگایا تھا
    پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ
    پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
    اللہ میری توبہ۔۔۔۔ اللہ میری توبہ

    بھائی ایک عرصے سے اشاروں کنایوں میں اس فلم کو پردے کے حوالے کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ بند کمروں میں تو کھل کر ڈسکس کرتے تھے لیکن جلسے جلوسوں میں بھی سندھ کی تقسیم، کبھی انتطامی بندر بانٹ اور کبھی پاک فوج کے خلاف توپیں دم کرکے شائقین کے تجسس کو ہوا دے رہے تھے۔ ماحول بنا رہے تھے۔ پھر فلم پروڈیوسر کا بھی اصرار بڑھ گیا کہ بہت ہوچکی ایڈیٹنگ، اب فلم کو پردے پر آجانا چاہئے اور اکیس اگست کی سہہ پہر بھائی نے فلم کا ٹریلر مارکیٹ میں پھینک دیا۔ ٹریلراچھا چل گیا۔ بھائی فلم چلانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ ابھی ٹھہر جائیں۔ ٹریلر کو دھوم مچانے دیں، پھر فلم ریلیز کیجیے گا۔ بھائی کے ساتھیوں نے مہورت کے لیے تیاریاں شروع کردیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے معافی نامہ جمع کراکر شائقین پر ’’اداروں‘‘ کا دباؤ کم کرانے کی کوشش کی لیکن کیا کیجیے کہ معافی نامے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھائی کے اندر چھپا پاکستان کے خلاف خبث تنگ کرنے لگا۔ انہوں نے مائک منگوایا اور امریکہ میں 2016ء کے ’’مکتی باہنوں‘‘ کے کارکنوں کے سامنے قے کرنے لگے۔

    ’’اللہ کرے، اپنے حبیب پاک کے صدقے۔۔۔ جن لوگوں نے تیرے نام پہ، اللہ کے نام پہ، حضور ﷺ کے نام پہ پاکستان بنایا تھا، انہی کو یہ قتل کررہے ہیں، اس پاکستان کو تباہ و برباد کردے۔‘‘ بھائی یہ بددعا کرتے جا رہے تھے اور مکتی باہنی کے غدار آمین، آمین، ثم آمین کہتے جارہے تھے۔

    ’’ایک آواز آئی ’’ان شاء اللہ بھائی آپ کی دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔۔۔‘‘
    دوسرا دریدہ دہن بولا: ’’تقسیم در تقسیم مقدر ہے اس پاکستان کا‘‘
    ایک اور منمنایا ’’ان شاء اللہ بھائی، یہ تو نظر آرہا ہے بھائی، جو ہورہا ہے یہی نظر آرہا ہے، تقسیم ہوگا اور تقسیم ہوگا۔ جو یہ ظلم اور زیادتیاں کریں گے، پہلے بنگالیوں کے ساتھ کیں، اب مہاجروں کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ دیکھیے تقسیم ہوگی اور تقسیم ہوگی‘‘۔

    بھائی کی آوازپھر سنائی دینے لگی
    ’’پورا حیدر آباد زونل آفس سیل کیا ہے سیل، نائن زیرو۔۔۔‘‘

    بھائی کے اس دکھ پر کارکنوں نے پرسہ دیا، تسلی دی کہ یہ ہمارے دلوں کو سیل نہیں کرسکتے۔ ہم انہیں دوبارہ کھولیں گے، ابھی کچھ اور منمنانے کو تھے کہ بھائی غرائے
    ’’بات کرو۔۔۔۔ تم میں سے جو اسرائیل سے بات کرسکتا ہے، ایران سے کرسکتا ہے، افغانستان سے کرسکتا ہے، بھارت سے کرسکتا ہے، بات کرو۔۔۔ ہماری مدد کریں، ہماری مدد کریں، ہم سے غلطی ہوگئی، گناہ ہوگیا۔۔۔۔ اے ہندوؤ! ہم نہیں سمجھے۔ ہم اس سازش کو نہیں سمجھے جو انگریز نے بنائی تھی۔ ہم اس کا حصہ بن گئے جو نہیں بنے، وہ عیش کر رہے ہیں، حکمرانی کررہے ہیں، وردی پہن کر بے عزتی کررہے ہیں۔۔۔۔ ہر کسی سے مدد مانگو، اللہ سے مدد مانگو کہ ہر جگہ سے ہمارے لیے ذرائع پیدا کردے۔۔۔ امریکہ ساتھ دے، اسرائیل ساتھ دے۔۔۔۔ میں داعش، القاعدہ، طالبان اور اس کو پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور اس کی فوج کے خلاف خود لڑنے کے لیے جاؤں گا‘‘۔

    اللہ اور رسولﷺ کا نام لے لے کر اللہ اور رسول ﷺکے نام پر بننے والے پاکستان کو توڑنے کی بددعائیں دینے والے اس شخص نے چند گھنٹے پہلے ہی کہا تھا کہ میں ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، میں معافی چاہتا ہوں، مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہئے تھا اور اس معافی نامے کو لے کر لندن میں بیٹھے ہوئے دیگر ’’فرزندان وطن‘‘ کہہ رہے تھے بھائی نے معافی مانگ لی، سو بات ختم ہوگئی۔ اب کیا جان لوگے؟ اور سچ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تو بات ختم ہی کردی تھی۔ الطاف حسین نے پاکستان کو اکیس اگست کی سہہ پہر ناسور کہا تھا اور سب نے اسے ٹھنڈے پیٹوں پی لیا تھا۔ انتظامیہ تو اے آر وائے ٹی وی کے بیورو آفس میں گھسنے پر حرکت میں آئی تھی۔ اگر اس روز ایم کیو ایم کی غنڈیاں توڑ پھوڑ نہ کرتیں تو کیا کوئی نیوز چینل اس کا ذکر کرتا؟ ’’نیو نیوز‘‘کو چھوڑ کر سب نیوز چینلز بھی خاموش تھے۔ صرف ایک یہی نیوز چینل تھا جس نے بریکنگ نیوز میں بتایا کہ الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوارہا ہے۔۔۔ پاکستان کو ناسور کہہ رہا ہے۔ پاکستان کو عذاب کہہ رہا ہے۔ ان نیوز چینلز کے تو اس وقت کان کھڑے ہوئے جب الطاف حسین نے تین بڑے چینلوں کے نام لے کر باجیوں اور ساتھی بھائیوں کو شہہ دی کہ یہ مزے والی کوریج نہیں دے رہے۔ کارکنوں نے آپیوں باجیوں کے ہمراہ آپے سے باہر ہوکر توڑ پھوڑ کی تو نیوز چینلز کو بھی ہوش آیا اور انہوں نے پہلی بار نامعلوم سے معلوم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بدمعاشیاں ایم کیو ایم کے کارکن کررہے ہیں۔

    اس روز جو ہوا سو ہوا، ایم کیو ایم نے معافیاں تلافیاں کرکے منزل سے بڑھ کر ماننے جاننے والے قائد سے اظہار لاتعلقی کرکے اپنی جان بھی چھڑالی اور ’’ایم کیو ایم پاکستان‘‘ ہوکر پوری تنظیم کو بھی بچالیا لیکن چند گھنٹوں بعد ان کا قائد پھر کس دباؤ میں آگیا؟ پھر کس ذہنی تناؤ میں آگیا؟ فاروق ستار عامر خان کہتے ہیں کہ بھائی کی ذہنی کیفیت درست نہیں تو یہ کیسا پاگل پن ہے؟ یہ کس قسم کے مرگی کے دورے ہیں کہ ذہنی مریض خود کو مارنے پیٹنے، آس پاس موجود لوگوں کا گلا دبانے، ان کے کپڑے پھاڑنے کے بجائے پاکستان کو گالیاں دینے لگتا ہے! وہ اس ذہنی دباؤ میں پاکستان توڑدینے کے اسباب بھی بیان کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس ملک سے جاکر مدد مانگو! کون کون سا ملک تمہاری مدد کرے گا۔۔۔ اسے ذہنی دباؤ میں یہ بھی یاد ہے حیدرآباد کے زونل آفس کے تالے میں موم ٖڈال کر سیل کیا گیا ہے، وہ اس ذہنی دباؤ میں اس عزم کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ پاک فوج اور آئی ایس آئی سے لڑنے خود جائے گا!

    سیلانی کو ایک دفاعی مبصر کی بات یاد آگئی کہ الطاف حسین نے یوں ہی منہ اٹھاکر پاکستان کے خلاف زبان نہیں چلادی، یہ سب کچھ بڑی ٹائمنگ سے ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اب کسی طرح بھارت سے سنبھل نہیں رہی۔ پانچ ہزار سے زائد کشمیری زخمی اور سو کے قریب شہید ہوچکے ہیں، لیکن ہر شہید کے جنازے میں پچھلے شہید سے زیادہ لوگ اور زیادہ پاکستانی پرچم ہوتے ہیں۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر سے دور رہنے کے لیے پہلے مودی نے بلوچستان کا شوشا چھوڑا لیکن بلوچوں نے اس کے خلاف ریلیاں جلسے کرکے بھرپور جواب دیا تو اب اس نے الطاف حسین کو حق نمک ادا کرنے کے لیے کھل کر سامنے آنے کا حکم دیا اور پھر آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ گوادر چائنا اقتصادی راہداری کی شکل پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی تحریک اٹھنے والی ہے۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام اور بغاوت کی تحریکیں دشمنوں کا بڑا ہتھیار ہوتی ہیں۔ اب اس کے خیال میں یہ ہتھیار استعمال کرنے کا وقت آچکا ہے۔۔۔ اپنے دوست کے تجزیئے کے مطابق ایسا نہ بھی ہو تو ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کا شہری بھاگ کر سات سمندر پار ملک میں جابسے، وہاں کی شہریت لے، حلف اٹھاکر خدا کو حاضر ناظر جان کر کہے کہ وہ اس ملک کی ملکہ کا وفادار رہے گا۔ وہ شادی کرے تو اسی ملک کی شہری خاتون سے، اسے وہ ملک پاسپورٹ دے تو باچھیں پھیلاکر پاسپورٹ کے ساتھ تصویر کھنچوائے۔ وہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے میں ٹھاٹ باٹھ سے رہے اور وہ پھر کبھی اپنی اولاد کو بھی اس ملک کی ہوا تک نہ لگوائے جہاں سے اس کی دوا اور دارو کے لیے چندہ بھتہ جمع کرکے بھیجا جاتا ہو۔ اس کے بدن پر چڑھے کوٹ کی قیمت بھی وہیں سے آنے والے چندے سے ادا ہوتی ہو۔ پیروں کے جوتا کے دام بھی وہاں سے آنے والی فطرانے کی رقم سے ادا ہوتے ہوں۔ اسے کوئی پیر کہے، کوئی بھائی کہے اور کوئی قائد کہے، قائد بھی ایسا کہ جس کے لیے نعرے لگتے ہوں، ہمیں منزل نہیں راہنما چاہیے اور پھر وہ اس ملک میں اپنے چیلوں چانٹوں کو وفاقی وزیر مشیر میئر بنوائے۔ اقتدار کے لیے سودے بازی کرے۔ منہ پھاڑ کر اپنا حصہ لے اور اس قوم کا مسیحا کہلائے جسے گرداب میں چھوڑ کر وہ وہ دوردیس جا بسا ہو۔۔۔ یہی نہیں وہ احسان فراموش وہاں سے بیٹھ کر اس ملک کو ناسور قرار دے۔۔۔ عذاب قرار دے۔۔۔ خاتمے کو ثواب کہے۔۔۔ اور دشمن ملکوں سے مدد لینے کے لیے کہے۔۔۔

    اوہ سوری، سوری سوری۔۔۔! سیلانی کچھ زیادہ ہی کہہ گیا۔ بھائی کے چاہنے والے یہ پڑھ کر یقیینا بھڑک اٹھیں گے۔ اشتعال میں آجائیں گے۔ چلیں کوئی بات نہیں، میں ایڈوانس میں معذرت مانگ لیتا ہوں۔ میں ان سب دوستوں سے دست بستہ کہتا ہوں کہ میرا مقصد تو یہی تھا جو آپ نے پڑھا اور سمجھا ہے، بس میں کسی ’’غدار وطن‘‘ کی دریدہ دہنی پر غصے میں آگیا تھا۔ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا تھا۔۔۔ سیلانی یہ لکھتے ہوئے قطار میں ترتیب سے بیٹھے لفظوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • کراچی میں سیاسی جماعتوں کی ناکامی – عمران زاہد

    کراچی میں سیاسی جماعتوں کی ناکامی – عمران زاہد

    عمران زاہد ایم کیوایم ایک شعلہ مستعجل ہے۔ ایم کیو ایم مخالف جماعتوں کی ناقص حکمت عملی ہے جس کے سبب کراچی کا ووٹر ان کی طرف مائل نہیں ہو سکا اور مائل ہوا بھی تو الیکشن کے دن ایم کیو ایم کے غنڈوں کے ڈر سے پولنگ اسٹیشن پہ نہ آ سکا۔ اس پہ مستزاد پولنگ پہ ان کے اپنے کارکنوں کی تعیناتی اور جعلی ووٹوں کی بھرمار۔ ایم کیو ایم کے ووٹر کو اپنی طرف مائل کرنا اور اپنے ووٹر کے دل سے غنڈوں کا ڈر ہٹانا فوج اور رینجر کا کام نہیں ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کو خود ہی کرنا ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ دوسری جماعتیں ایم کیو ایم سے سیٹیں جیت نہ سکیں۔

    اس وقت ایم کیو ایم کراچی کے مسائل کا حل نہیں، مسائل کا حصہ ہے۔ کراچی والوں نے بہت بھگت لیا۔ مزید تجربہ کرنا چاہیں گے تو مزید بھگتیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کراچی کے اصل مسائل پر بات کرنا ہوگی۔ کوٹہ سسٹم اگر ضروری ہے تو اس کی کوئی مدت ہونی چاہیے تاکہ اس مدت میں دیہی سندھ میں تعلیم اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکے۔ پانی، کچرے، مواصلات اور کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں کراچی والے مسائل کا شکار نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس پر بات کرنی ہو گی۔ کراچی والوں اور دوسرے علاقے کے لوگوں کو امید کی کرن دکھانی ہو گی۔ یقین کیجیے امید کی یہ کرن رینجرز کے آپریشن سے زیادہ موثر ہو گی۔

    الطاف حسین جیسے لوگ نظرانداز کیے جانے کے قابل ہیں۔ نہ ان کے خیالات اور نہ ان کی تقریریں تبصرہ کرنے کے لائق ہیں۔ پیمرا پہلے ہی ان پر میڈیا میں دکھانے پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ یہ یقیناً ایک قابلِ تحسین قدم ہے۔
    میں دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے دنوں میں کراچی اور کراچی والوں سے مکمل مایوسی کا اظہار کر چکا ہوں۔ تب کراچی کا کوڑھ خانہ کے نام سے مضمون لکھا تھا

    اس کا لنک یہ ہے

    اتنی مایوسی اور اتنے گھپ اندھیرے کے باوجود بہت دور سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی کرن نظر آتی ہے، امید ہے کہ رہ رہ کے جی اٹھتی ہے۔ نہ جانے ہم اس کنارے پر پہنچنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ جب کوئی حوصلہ ہار دے تو اللہ اسے حادثوں سے روشناس کراتا ہے۔ حادثوں میں انسان کو اپنی فطری جبلت کے تحت بقا کی جدوجہد میں تن من دھن لڑا دیتا ہے۔ قومیں حادثات کی بھٹی سے نکل کر کندن بنتی ہیں۔

    میری دعا ہے کہ اللہ کراچی کو اور پورے پاکستان کو حادثات سے محفوظ رکھے۔ اس کی نوبت ہی نہ آنے دے اور کراچی والوں کو اپنے مستقبل کی درست راہ سجھائے اور کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا دے۔ آمین۔

  • فیصلے کا وقت آ گیا   –  عامر خاکوانی

    فیصلے کا وقت آ گیا – عامر خاکوانی

    پہلے ایک منظر فرض کریں۔

    لندن میں پاکستانیوں کا ایک اجتماع جاری ہے۔ لاہور سے ایک مشہور مقرر کی دھواں دھار تقریر سپیکر پر نشر کی جا رہی ہے۔ پاکستانی حاضرین کے جوش وخروش کا ٹھکانا نہیں۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھیں چمک رہی ہیں۔ نقاب پوش اور سکارف لیے لڑکیاں اور خواتین کا جوش دیدنی ہے۔ اتنے میں مقرر کا غیض وغضب انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ چیخ کر وہ کہتا ہے:

    ’’ برطانیہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کا دشمن ہے۔ اس ملک میں آپ رہتے ہیں، مگر اس نے کیا دیا ہے؟ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ تمام دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش یہاں سے پھوٹتی ہے۔ آج اٹھیں اور اپنے ایمان کی قوت ان گوروں کو دکھا دیں۔ انہیں ایسا سبق سکھائیں کہ زندگی بھر یاد رکھیں۔ تمام سازشیں دم توڑ جائیں۔ یہ بی بی سی جو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف گمراہ کن خبریں چلاتا ہے، اسے جاکر تباہ کردیں۔ ان بی بی سی والوں کو سبق سکھائیں۔۔۔۔۔۔“

    یہ فقرے سنتے ہی لوگ جوش وخروش سے اٹھتے ہیں اور باہر کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ پرجوش نوجوان کرسیاں پٹخ پٹخ کر ان کی ہتھیاں توڑ کر ہتھیار بنالیتے ہیں اور باہر پارک کی گئیں گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ خواتین برق رفتاری سے بی بی سی کے دفتر کا رخ کرتی اور وہاں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ موجود لڑکے رپورٹروں پر حملے کرتے، گھونسے برساتے، شیشے توڑتے اور میزیں الٹنے لگتے ہیں۔ حملہ اس قدر شدید کہ ہر کوئی سہم جائے اور پولیس کے آنے تک پورا بی بی سی یرغمال بنا رہے۔ پولیس آ کر ان مشتعل مظاہرین سے ہر ایک کی جان چھڑائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اوپر بیان کیا گیا واقعہ مکمل طور پر فرضی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کہیں پر کچھ نہیں ہوسکتا، نہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود اگر فرض کریں ایسا کبھی ہوا ہوتا تو برطانیہ عظمیٰ کا اگلا ایکشن کیا ہوتا؟ یقینی طور پر ان تمام مشتعل غنڈوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جاتا۔ ایک بھی فرد بچنے نہ پاتا۔ پاکستان پر شدید ترین سفارتی دبائو ڈال کر وہ پاکستانی مقرر جس نے اپنے اشتعال انگیز تقریر سے یہ قیامت اٹھائی، اسے گرفتار کراکر دہشت گردی کی دفعات میں جیل پھینکوا دیا جاتا۔ وہ تمام اقدامات کیے جاتے ، جن سے آیندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو پائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ آج شام کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں۔۔۔ شاید غنڈوں کا لفظ استعمال کرنا بھی سخت نہ ہو۔۔۔ نے جس طرح میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنایا۔ اے آر وائی اور سما پر حملہ کرکے شدید ترین توڑ پھوڑ کی، صحافی زخمی کردئیے، گاڑیاں جلا دیں اور ایک قیمتی جان بھی لے لی۔ کیا حکومت پاکستان اس بھیانک واقعے پر کوئی مضبوط ردعمل دے گی؟ کیا برطانوی حکومت سےسخت ترین سفارتی احتجاج کرکے وہ نیم فاتر العقل شخص، جو برطانوی شہری ہے اور ان کے اپنے سابق راہنما کے بقول شراب کے نشے میں دھت ہو کر، نہایت غلیظ زبان استعمال کرتا، پاکستان کے خلاف نفرت آمیز نعرے لگواتا اور اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے میڈیا اور عوام کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگاتا ہے، کیا اس شخص کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاسکتا؟ اسے ٹیلی فونک خطابات سے نہیں رکوایا جاسکتا؟ کیا برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ بلاکر سخت احتجاج کیا جائے گا؟ اگر پاکستان سے کسی کو برطانیہ تقریریں کر کے اشتعال پھیلانے کی اجازت نہیں تو پھر کسی برطانوی شہری کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں آگ لگانے کا حق کس طرح دیا جاسکتا ہے ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایم کیو ایم کے قاتلوں، ٹارگٹ کلر سکواڈ اور بھتہ خور عناصر کے خلاف آپریشن کو مہاجر قوم کے خلاف آپریشن قرار دیتے تھے، آج پاکستان کے خلاف شرمناک زبان کے استعمال اور چینلوں پر دھاوے اور دہشت گردی کے اس واقعے پر ان کا کیا کہنا ہے؟

    کیا اب بھی وہ اس جنونی شخص کو لیڈر مانتے ہیں، جسے یہ سلیقہ نہیں کہ کس طرح گفتگو کرنا ہے۔ جو ہزاروں کے مجمع میں آرمی چیف، ڈی جی رینجرز کو ننگی گالیاں بکتا اور انتہائی گھٹیا، گندی زبان استعمال کرتا، جو لوگوں کو تشدد، بدمعاشی اور دہشت گردی پر اکساتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والے اس برطانوی شہری کو کس طرح پاکستانی قانون کے شکنجے میں لایا جاسکتا ہے؟ اس کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا؟ اس کی تمام تر جائیداد ضبط، اس کے اثاثے ضبط اور اس کی نفرت انگیر تقریریں سننے والے، ان سے محظوظ ہونے والے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں کے خلاف مقدمات درج نہیں ہونے چاہئیں؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آخر میں صرف یہ کہ کچھ لوگ اس واقعے کا دفاع کرتے ہوئے اس کی طرح طرح تاویلیں کریں گے۔ اسے مہاجر قوم کے خلاف کارروائی کا نام دیں گے۔ عجیب وغریب نکات اٹھاکر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی کوشش کریں گے۔۔۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے بھی کھل کر سوال کیا جائے۔ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جائے اور سوچا جائے کہ اگر پاکستان میں بیٹھ کر ایک برطانوی شہری کے کہنے پر ایسے شرمناک نعرے لگائے جائیں تو غداری یہ نہیں تو پھر کس چڑیا کا نام ہے؟؟؟

  • اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو – محمد عامر خاکوانی

    اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی یہ فقرہ ہم پچھلے چند برسوں سے مسلسل اور تواتر سے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں کام اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ بات دو اعتبار سے درست ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ پاکستان واقعی حالت جنگ میں ہے، اس کے دشمن ایک سے زیادہ ہیں اور ان میں بڑی قوتیں بھی شامل ہیں، دوسرا یہ کہ واقعتاً حالت جنگ میں عام قاعدے قوانین بدل جاتے ہیں اور جہاں ریاست کو بعض غیر معمولی اختیارات تفویض کر دیے جاتے ہیں، وہاں شہری بھی کچھ سمجھوتے کرنے پر رضامند ہوجاتے ہیں۔

    سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعتا ہمارا ریاستی اور حکومتی رویہ حالت جنگ سے دوچار ممالک اور اقوام جیسا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ ایسا قطعی نہیں ہے۔ ہماری حکومت، اپوزیشن، انتظامیہ اور خود عوام کا رویہ بالکل بھی اس درجہ ذمہ دارانہ اور میچور نہیں ہے، جیسا کہ ایسے سنگین بحرانوں میں گھرے کسی ملک اور وہاں کے لوگوں کا ہونا چاہیے۔

    سب سے پہلے حکومت اور وزیراعظم کو لے لیتے ہیں۔ تین اعتبار سے ان کی ناکامی مترشح ہے۔ دہشت گردوں اور شہریوں میں پوشیدہ ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے سویلین سیٹ اپ (پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو) کو مضبوط اور طاقتور بنانا ازحد ضروری ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے شروع میں جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا اور قوم کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ تمام انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون اور مشترکہ جدوجہد کے لیے پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے، جس کے ذریعے موثر کارروائیاں کرنا ممکن ہوسکے گا۔ آج کسی کو علم نہیں کہ نیکٹا کیا کر رہا ہے، کس حد تک متحرک رہا اور آئندہ کے کیا امکانات ہیں؟ اگر کوئی خوش نصیب صاحب کشف انسان اس حوالے سے کچھ جانتا ہے تو براہ کرم اس اخبارنویس کو بھی مطلع فرمائے کہ اپنے جنرل نالج کو اپ ڈیٹ رکھنے میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ رہا سیاسی استحکام تو اس کے لیے وعدوں پر عمل کرنا لازمی ہے۔ جہاں حکومت کا تمام تر دارومدار سیاسی چالبازیوں، معاملات کو لٹکانے اور اپوزیشن کے خلاف تند وتیز حملے کرنے پر ہو، وہاں پولرائزیشن بڑھنا لازمی ہے۔ اب پانامہ لیکس والا ایشو ہی دیکھ لیجیے، ایک بڑے حلقے کا شروع سے خیال تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا واحد مقصد معاملے کو لٹکانا ہے اور اس میں فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی حکومت کا ساتھ دے گی۔ پچھلے دو ڈھائی مہینے کی کارکردگی دیکھنے کے بعد کون ہے جو اس سے انکار کر سکے گا؟ اس طرح کی چالیں سیاسی کامیابی تو دلا سکتی ہیں، جو حکومت کو حاصل ہوئیں مگر پھر حکومتی وعدوں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔

    پاکستان کو جس قسم کی دہشت گردی سے واسطہ ہے، اس پر قابو پانے میں سب سے بنیادی کردار پولیس اور تھانوں کا ہے۔ گلی محلے کی سطح پر خبریں اکٹھی کرنا اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا تھانوں کے مخبر سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ تھانے زیادہ بنائیں جائیں، نفری میں اضافہ ہو، سیاسی بنیادوں پر افسروں کا تقرر و تبادلہ نہ ہو۔ اچھے اور اہل افسر تعینات کیے جائیں اور انہیں مطلوبہ افرادی قوت دی جائے، ڈیوٹی ٹائمنگ مناسب ہو اور اسلحے و دیگر جدید آلات کی مناسب تعداد میں فراہمی یقینی بنائی جائے تو یہ پولیس سسٹم غیر معمولی نتائج دے سکتا ہے۔ ایسا مگر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ اگلے دن ایک باخبر صاحب بڑے افسوس سے بتا رہے تھے کہ دو ہزار ایک تک لاہور میں 80 تھانے تھے اور گریڈ اٹھارہ کا ایس پی شہر کا انچار ج ہوتا تھا۔ آج گریڈ اکیس بائیس کا ایڈیشنل آئی جی لاہور پولیس کا مدارالمہام ہے اور کئی ڈی آئی جی، ایس ایس پی صاحبان ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں، تھانے مگر صرف تراسی ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا، شہر کی پولیس فورس نہیں بڑھائی گئی اور افسروں کی فوج ظفر موج شہر میں تعینات کر دی۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ افسر صاحبان اپنا عملہ بھی اسی پولیس فورس سے لیں گے اور نتیجے میں تھانوں میں نفری مزید کم ہوجائے گی۔ پنجاب میں تو خیر سے جناب خادم پنجاب ہی آٹھ برسوں سے براجمان ہیں، ان سے کیا شکوہ کیا جائے؟ یہ کم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے وہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا بیان داغ دیتے ہیں۔ اگر ایسا بھی نہ کرتے تو ہم آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟

    سندھ کا یہ حال ہے کہ بیس پچیس برسوں سے رینجرز کراچی میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے، سندھ حکومت رینجرز کے اخراجات کے لیے بھاری فنڈز کا بوجھ اٹھاتی ہے، مگر کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ شہر کے لیے اچھی پولیس فورس ہی تیار کر لی جائے۔ یہی فنڈز پولیس پر خرچ ہوجائیں تاکہ آئندہ کے لیے رینجرز کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ پچھلے آٹھ برسوں سے پیپلزپارٹی وہاں حکمران ہے، اس سے پہلے والوں کا وتیرہ بھی یہی رہا۔ کے پی کے میں تحریک انصاف نے پولیس میں کچھ بہتری تو کی، مگر جس سطح کے چیلنجز ہیں، ان کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ رہا بلوچستان تو وہاں کا حال سب سے پتلا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں صوبے کے بہت سے شہروں کو بی کیٹیگری سے اے میں لانے پر اربوں خرچ ہوئے، رئیسانی صاحب کی حکومت میں پورا عمل ہی ریورس کر دیا گیا۔ بلوچستان میں ایف سی نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے، مگر اس کا کام بٹانے کے لیے مستعد، متحرک پولیس فورس موجود نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ پولیس کو بہتر بنانے کی بات پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، تکرار سے بات کا حسن ختم ہوجاتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے خاتمے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اس کے بغیر اسے جڑوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ جلدیا بدیراسی پر فوکس کرنا ہوگا۔ پھر وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟

    ہمارے اداروں کی آپریشن ضرب عضب میں کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ ایک بظاہر ناممکن نظر آنے والے ٹاسک کو فوج نے اپنے جذبے، عزم اور قربانیوں سے ممکن بنا دیا۔ وہ کچھ کر دکھایا، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی، اس میں وقت لگے گا۔ دراصل دہشت گردی کا تازہ ترین فیز غیرملکی قوتوں کی فنانسنگ اور سپورٹ کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ اب معاملہ صرف ٹی ٹی پی کا نہیں۔ اس کا تو بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا، بچے کچھے افغانستان کی پہاڑیوں میں جا چھپے، کچھ بلوں میں گھسے وقت گزرنے کا انتظار کر رہے اور اسی میں پکڑے اور مارے بھی جا تے ہیں۔ حالیہ لہر کو پچھلے چند ہفتوں میں فرانس، صومالیہ، عراق، ترکی وغیرہ میں ہونے والی بڑی کارروائیوں کے ساتھ ملا کر بھی دیکھنا چاہیے۔ کئی جگہوں کو ایک ساتھ ڈسٹرب کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ہمارے منصوبہ ساز ان تمام نکات پر غور کر رہے ہوں گے۔ ان پر اعتماد کرنا چاہیے، مگر اب دہشت گردی کے جلد خاتمے والی بات بار بار نہیں دہرانی چاہیے۔ فرانس جیسے صاحب وسائل ملک میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات نہیں روکے جا رہے، ہمارا تو ابھی سسٹم بنا ہی نہیں ، ہم تو فائر فائٹنگ ہی کر رہے ہیں کہ پھیلتی آگ کو جو دستیاب ہے، اسی سے روکنا چاہیے ۔ دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے، ہم اپنی مستعدی اور عمدہ حکمت عملی سے اس خطرے کو کم یا مزید اچھا پرفارم کر کے بہت کم کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان واقعات کو زیرو کرنا شائد ابھی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم اپنے پولیس سسٹم کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان شااللہ اگلے دو تین برسوں میں دہشت گردی کا یہ آسیب سر سے ٹل سکتا ہے۔

    ہمارے دانشوروں، تجزیہ کاروں، میڈیا اور عوامی حلقوں کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم ترین موڑ پر ہے۔چائنا پاک اکنامک کاریڈور کی کامیابی کی صورت میں بطور قوم ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے دشمنوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔ وہ اس منصوبے کو بار بار درہم برہم کرنا چاہیں گے۔ بلوچستان ہمیشہ ان کا مرکز رہے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت کرے اور اپنی امان میں رکھے، مگر دشمن اپنی سی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی چھ سو کوششیں ناکام بنا لی جائیں مگر ایک واردات کامیاب ہونے پر سب کچھ بظاہر خاک میں مل جاتا ہے۔ یہ سانحہ روح فرسا ہے، دکھ شدید اور گہرا ہونے کے باوجود ہمیں اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ مایوسی، فرسٹریشن اور بے یقینی سے ہر صورت بچنا ہوگاکہ ہمارے دشمنوں کا یہی سب سے بڑا حربہ ہے۔ یہ جنگ ہم نے لڑنا اور جتینا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حالت جنگ کے تقاضے بھی ہم نے ہی نبھانے ہیں۔ مستقل اور دیرپا کامیابی کا یہی راز ہے۔

  • اپنے میئر نے مان لیا – زبیر منصوری

    اپنے میئر نے مان لیا – زبیر منصوری

    زبیر منصوری “اپنے میئر “نے مان لیا مارا ماری کو تو کیا ہوا؟
    کس مائی کے لال میں ہمت ہے کہ “اپنے میئر” پر پھندا بن جانے والی ایف آئی آر کاٹے؟
    کس مائی کے لال میں حوصلہ ہے کہ “اپنے میئر “کے خلاف ثبوت پیش کرے گا؟
    کس مائی کے لال جج میں جرات ہے کہ وہ شہر کراچی میں بیٹھ کر انصاف سے مقدمہ چلائےگا؟ پھر سزا دے گا اور اگر بفرض محال ایسا ہو گیا تو “مہاجر “دیوار سے نہیں لگ جائیں گے؟
    اور ہاں کچھ ہوا تواعلی عدالتیں ہیں ناں بچانے کے لیے؟ نہ مانیں تو بیٹا اغوا کروا دو یا میسج کروا دو کہ “بڑی پیاری بیٹی ہے صاحب، اسکول وین میں ساڑھے سات بجے نکلتی ہے نا؟
    بس اتنا کافی ہوتا ہے صاحب لوگوں کا پتہ پانی کرنے کے لیے
    یوں بھی یہ سب کچھ اپنے میئر کو اپنوں میں معتبر ٹہرائے گا کہ پارٹی نے اب رینجرز کے سبھی کچھ کو اپنوں کی نظر میں نا معتبر جو بنا ڈالا ہے اور پرائیوں سے اسے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
    اور یہ پاک پوتر ہونے کا ایک مجرب طریقہ بھی ہے، پہلے پکڑے جائو، سارے الزامات لگوائو، پھر اپنی پولیس سے اپنے خلاف کمزور شہادتوں والے کیس بنوائو اور جب وہ ثابت نہ ہو سکیں تو پھر بری ہو کر دنیا کے سامنے پاک صاف ہو جائو.
    اور یہ جو رینجرز متحدہ جھگڑا ہے ناں، یہ بس ایسے ہی ہے جیسے بال بےترتیب ہو جائیں تو حجام تھوڑا “سیٹ” کر دیتا ہے اور بس
    اور اگر اس سے زیادہ کچھ تو بس “انا ” کا جھگڑا. الطاف بھائی نے جو کچھ عالم مدہوشی میں رینجرز اور اس کے سربراہ کو کہہ دیا ہے اس کا بدلہ تو بنتا ہے ناں؟
    اب رینجرز کبھی مہاجر نوجوان کو سر بازار روک کر اور تھپڑ مار کر اپنا غصہ اتارتی اور اگلے کو غصہ چڑھا کر قائد تحریک کی طرف دھکیلتی ہے اور کبھی بےوجہ کی چیکنگ شروع کر کے شرفا کو مجرموں کی طرح تلاشی کے لیے کھڑا کر کے اپنا کھڑاک کرتی ہے کہ ہم بھی ہیں ناں
    اختیارات دو نہ دو
    کوئی مستقل بھلا نہیں چاہتا اس شہر کا
    سب کے اپنے مفادات ہیں اور اپنی اپنی گنے کا رس پی کر موٹی ہوتی “انا “یا انتقام کے مسائل
    بےچارا کراچی
    میرا کراچی دائرے کے سفر میں مصروف
    ایک دریا کے بعد دوسرا دریا ہمیشہ جس کے سامنے ہوتا ہے
    سب ڈرامہ بازی
    سب وقتی، عارضی اور سطحی اقدامات اور کاروائی ڈالنے کی کاروائیاں
    یہاں جو طاقتور ہیں وہ صالحیت سےمحروم ہیں
    اور جو صالحیت والے ہیں وہ صلاحیت سے عاری
    آہ
    میرا کرچی کرچی کراچی