Tag: روزہ

  • چُھوٹے ہوئے روزے اور سردیوں کا موسم – نیر تاباں

    چُھوٹے ہوئے روزے اور سردیوں کا موسم – نیر تاباں

    ہماری سردیاں گرم علاقوں میں رہنے والوں کی سردیوں سے کافی الگ ہوتی ہیں۔ انہیں انجوئے کرنے کا طریقہ بھی فرق ہے۔ ہم یہاں دھوپ میں بیٹھ کے کینو اور مونگ پھلیاں نہیں کھا پاتے لیکن کبھی موسم بہتر ہو تو سنو مین بنا لیتے ہیں۔ گھر کے اندر کی ساری زندگی انگیٹھی کے آگے سمٹ آتی ہے۔ وہیں کمپیوٹر، کتابیں، جائے نماز۔۔ اکثر کھانا بھی وہیں فلور کشن پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ صبح سویرے frothy milk coffee کے مگ سے دونوں ہاتھ سینکتے ہوئے کھڑکی سے باہر نرم روئی جیسی برف زمین کی آغوش میں جاتے دیکھنا بھی کافی مسحور کن ہے۔

    سردیوں کو انجوائے کرنے کے لیے میری وجہ بہرحال کچھ اور ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں میں دن بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ جیسے آج کل فجر اور مغرب میں صرف بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور آنے والے دنوں میں وہ مزید کم ہو کر ساڑھے دس گھنٹے تک جائے گا۔ فجر کا ٹائم آجکل 6:15 ہے۔ ایسے میں دو کام کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

    1- تہجد پڑھنا
    2- روزے رکھنا

    اس پوسٹ کا مقصد سب کو ترغیب دلانا بھی ہے اور یاددہانی کروانا بھی۔ جو نفلی روزے رکھنا چاہیں انکے لئے بھی آسانی ہے لیکن ہم خواتین کے لیے تو یہ تمام روزوں کی قضا پوری کرنے کا بہترین وقت ہے۔ ایک خاتون جنکی عمر کوئی 40 سال کے لگ بھگ ہے، انہوں نے روزے فرض ہونے کے بعد سے ہر سال اور پریگنینسی اور رضاعت کے دوران چُھوٹنے والے روزوں کا حساب لگایا، تو تعداد 400 سے بھی اوپر نکلی۔ اب وہ سر پکڑ کر بیٹھی ہیں کہ میں تو پورا سال لگاتار بھی روزے رکھوں تو ختم نہ ہوں گے۔ ایسے میں انہیں کہتی ہوں کہ Take one day at a time!

    بس نیت کر لیں اور ایک ٹائم ٹیبل بنا لیں جسکے مطابق روزے رکھتی رہیں۔ ایک دن آن، ایک دن آف۔ یا پھر پیر سے جمعرات تک چار روزے رکھیں اور جمعہ، ہفتہ، اتوار نہ رکھیں لیکن بہرحال اس کام کو priority پر رکھیں اور جب آپ نیت کر لیتے ہیں تو آسانی خود ہی ہونے لگتی ہے۔ اس چار ماہ میں لگ کے روزے رکھیں، اور باقی سال میں جب بھی ہمت کر سکیں.

    چند دن میں نومبر شروع ہونے کو ہے۔ سب کمر کس لیں۔ افطار کے وقت کی دعا میں یاد رہے تو میرا بھی نام لے لیجیے گا۔

    وضاحتی نوٹ : کچھ schools of thought کے مطابق روزہ رکھنا ضروری نہیں، صرف فدیہ دے دینا کافی ہے۔ ایسے میں آپ اپنے حالات کی مناسبت سے کسی مفتی صاحب سے فتوی لے لیجیے یا اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق عمل کر لیجیے۔ پوسٹ کا مقصد صرف ترغیب دینا ہے، بحث کرنا نہیں۔

  • دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim your heart آج کل زیرِ مطالعہ ہے۔ مرکزی موضوع یہ ہے کہ تمام تر مصنوعی وابستگیوں (false attachments) سے جان چھڑا کر کس طرح دل کی چابی اس کو تھمائیں جو دل کا مالک ہے۔ اللہ۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہیں ہونا، یعنی کشتی پانی میں رہے لیکن پانی کشتی میں نہ جانے پائے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے۔ اگر غور کریں تو تمام عبادات کا محور یہی ہے کہ اپنی دنیاوی محبتوں میں مگن نہ ہوں۔ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا میں غرق ہونے سے بچانے کی کوشش انتہائی مشکل ہے، اور یہی کوشش جہاد بالنفس ہے، یہی کوشش توحید کا نچوڑ ہے۔
    اسلام کے پانچ ستون کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، تمام کا بنیادی مقصد انسان کو بار بار دنیا کی محبتوں سے کاٹ کر اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آئیں تھوڑا سا تفصیل میں دیکھتے ہیں۔

    شہادت:‌ لا الہ الا اللہ! یعنی نہ صرف یہ اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، بلکہ ہر ایک سے اپنی امید توڑ کر اپنی تمام تر امیدوں اور محبتوں کا محور و منبع صرف اللہ کو سمجھنا۔

    نماز: روزانہ دن میں پانچ بار ہر کام چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ دن میں ایک بار، یا ہفتے میں ایک بار نماز ادا کرنا فرض ہوتا، یا پانچوں نمازیں ایک ہی وقت پر ادا کرنے کا حکم ہوتا۔ لیکن دن میں پانچ بار نماز کی بھی شاید یہی حکمت ہو کہ نیند کو چھوڑ کر، یا اپنا کام، اپنے بچے کو چاہے وہ اتنی دیر میں شرارت شروع کر دیں، یا اپنے چاہنے والوں سے بات ادھوری چھوڑ کر، اپنا کوئی پسندیدہ شو، کرکٹ میچ، چاہے جو بھی کام کر رہے ہیں، اس کو چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھ جانا ہے۔ دن میں پانچ بار، یعنی ادھر دنیا میں دل لگنے لگا تھا، ادھر اللہ نے بلا لیا اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے لگے۔

    روزہ: کھانے پینے کا پرہیز، میاں بیوی کے تعلقات، غیر ضروری اور فضول گفتگو، تمام سے بچنا۔ جسمانی ضروریات یا جذباتی، دونوں کو ہی روکنا۔ یعنی ہر طرح کی نفسانی خواہشات سے علیحدہ ہونا۔ پورا سال نماز میں اسکی ٹریننگ تھوڑے سے وقت کے لئے ہوتی ہے، اور پھر سال میں ایک بار پورے مہینے کے لیے دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ تا کہ مومن دنیا میں غرق نہ ہونے پائے۔

    زکوٰۃ: دولت کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ زکوٰۃ دینا دولت سے detach ہونے کی تربیت ہے۔

    حج: fasle attachments کو توڑنے کے لیے حج ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اپنا گھر، خاندان، اپنی جاب، اپنی تنخواہ، گرم بستر، نرم جوتے، برانڈڈ کپڑے، اپنی گاڑی، اپنا status، یہ سب چھوڑ کر سادہ سا احرام پہن کر، زمین پر کھلے آسمان کے نیچے سونا بھی پڑے گا، حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے دھکم پیل بھی برداشت کرنی پڑے گی، پیدل سعی بھی کرنی پڑے گی۔
    اللہ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ دنیا چھوڑ دو، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہ ہو جاؤ۔ پورا دین اسی ٹریننگ کے گرد گھومتا ہے۔ لڑکی نے باہر جانا ہے، جانتی ہے کہ حجاب اوڑھوں گی تو بال خراب ہو جائیں گے، بھنویں بنانا چھوڑوں گی تو اتنی حسین نہیں لگوں گی، لیکن پھر بھی کرتی ہے۔ لڑکا سوٹ بوٹ پہن لے لیکن داڑھی کی سنت بھی ادا کرے، لڑکی دعوتِ نظارہ دے تو بھی نظریں جھکا لے۔

    ہر ہر جگہ ہمیں یہ مثالیں نظر آئیں گی۔ یہی مومن کی زندگی ہے۔ دنیا میں ایک مسافر کی طرح! تمام کام کرنے ہیں، جوگ نہیں لینا لیکن بس دنیا کی زندگی میں گم نہیں ہو جانا۔ بار بار اپنا احتساب کرنا ہے۔