Tag: رشتہ

  • لڑکا رہتا کس علاقے میں ہے؟ شادیوں کے نئے معیار – مجیب الحق حقی

    لڑکا رہتا کس علاقے میں ہے؟ شادیوں کے نئے معیار – مجیب الحق حقی

    مجیب الحق حقی ایک تقریب میں برابر کی میز پر بیٹھی خاتون کی آواز میں حیرت اور مایوسی نے مجھے متوجّہ کیا۔
    ـ ”بھئی ماشاء اللہ میرے بیٹے نے اب ایم بی اے بھی کرلیا ہے اورہم اعلیٰ نسب بھی ہیں۔ ذاتی گھر ہے اورگھر میں آسائش کی ہر ہر چیز موجود ہے پھر انکار کی وجہ کیا؟“
    خاتون نے بڑی دل شکستگی سے غالباًرشتہ کرانے والی سے پوچھا تو وہ بولیں کہ:
    ”آپ کو کیا بتائوں، اب ان سب گُن کے علاوہ لڑکیاں اور ان کے گھر والے یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکا کس علاقے میں رہتا ہے۔ اولیّت اب علاقے کو دی جاتی ہے کہ لڑکی جاکر رہے گی کس علاقے میں؟ اگرعلاقہ اعلیٰ ہے تو نسب پر بھی سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔ آپ جس علاقے میں رہتی ہیں وہ معمولی جانا جاتا ہے، اس لیے لڑکی والوں نے معذرت کرلی کہ ہماری بچّی کو اور ہم کو خفّت ہوگی، بیٹی اپنی سہیلیوں کے سامنے شرمندہ ہوگی۔ ان کو ڈیفنس کا لڑکا چاہیے!“
    تب وہ خاتون اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔

    میں نے سوچا کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہماری اقدار کیسے بدل رہی ہیں۔ پہلے لڑکے کی تعلیم اور خاندانی شرافت دیکھ کر لوگ بیٹیاں بیاہ دیتے تھے لیکن اب دونوں طرف یہی حال ہے کہ اگر لڑکے میں کچھ گُن ہیں تو ادھر کی فرمائشیں آسمان چھوتی ہیں اور گھر والے چاہتے ہیں کہ حورِ پری طور بھی ہو اور مال بھی لائے۔ اگر لڑکی ذرا غیر معمولی ہے تو پھر اس کا اور والدین کا دماغ عرش پر ہوتا ہے۔ گویا اب مال و دولت اور مراتب کو اولیّت دی جانے لگی ہے جن کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن ان کو ترجیح دینا غلطی ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ نئے رشتے کی استواری میں اولیت انسان کی نہیں بلکہ دوسرے عوامل کی ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے مخصوص مفادات کی خاطر ایک ناپائیدار سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بزرگ ہمیشہ ہم پلّہ رشتوں کی وکالت کرتے رہے ہیں جس میں خاندانی شرافت کو فوقیت دی جاتی ہے، اس طرح کلاس کا فرق نہیں ہوتا اور رشتے مضبوط بنیاد پر بنتے ہیں۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ اولاد مردکا مقدر اور رزق اور مال عورت کا مقدر ۔ تو ہر دو فریق کا اپنی تقدیر پر بھروسہ اور اللہ پر توکّل ہی پر مسرّت اور عافیت کی زندگی کی نوید ہے۔

    والدین خبردار رہیں کہ دراصل ایسا رشتہ جس میں شرافت، دینداری، احترام ، محنت، اطاعت و فرمانبرداری پر رہائشی علاقہ اورمال و جائیداد کو ترجیح دی جائے، بڑی کمزور بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ ایسی لالچی وخود غرضانہ اساس ناپائیدار روابط ہی تشکیل دے گی تو پھر اس سے خیر کی تمنّا عبث ہی ہے۔یہ بات فریقین کو سمجھ لینی چاہیئے کہ جو اجنبیت مادّی لوازمات اور لالچ کی بنیاد پر رشتے میں بدلتی ہے وہ زمانے کے حوادث سہنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے اور ایسے رشتے معمولی جھٹکے پر چٹخ جاتے ہیں جس سے خاص طور پر جوڑے کو پریشانیاں بھگتنی پڑتی ہیں۔ایسے حالات میں پھر رنجشیں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہ بات مدّ نظر رہے کہ ایسی ترجیح کی بنیاد پر یعنی اعلیٰ اور برتر معیار زندگی کے رہائشی علاقے میں شادی کے بعد اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے شوہر کو رہائش تبدیل کرنی پڑے تو مصنوعی اور سطحی محبت پارہ پارہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ ایک فریق باطنی طور پرجس مصنوعی بندھن میں بندھا ہے وہ تو معدوم ہو رہا ہے۔

    لیکن ایسی مثالیں سامنے ہیں کہ غریب علاقے کی شریف لڑکی کو امیر گھرانے والے بیاہ کر لے گئے اور امیر گھرانے کی لڑکی کم حیثیت والوں کو خاندان کی شرافت اور نیک نامی پر دی گئیں اور وہ سب خوش و خرّم ہیں۔ آئیڈیل ازم کا شکار خواتین اعلیٰ سوسائٹی میں بھی گھر بیٹھی ملیں گی۔ یہی حال ایسے مردوں کا بھی ہے۔ تو قصور ہماری سوچ کا ہے جس پر توجّہ کی ضرورت ہے۔ عملیت کے بجائے تصور پرستی یا آئیڈیل ازم مرد اور عورت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ایک جاننے والے اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں مشورے کے لیے ایک مشہور بزرگ کے پاس گئے تو بزرگ نے فرمایا کہ بس یہ دیکھ لو کہ لڑکا نمازی ہے کہ نہیں، نمازی ہے تو خوف خدا ہوگا اور خوف خدا ہے تو سب کچھ ہے۔ گویا رشتہ دینے اور لینے میں اہم ترین وصف خوف خدا ہے جو اگر طرفین میں ہے تو حقوق کی ادائیگی انصاف سے ہوگی۔ نئے رشتوں میں اصل چیز آپس میں بےلوث محبت کی آبیاری ہے جو خلوص کے ساتھ اللہ پر بھروسے سے ہی ملے گی۔

    حاصل گزارش یہی ہے کہ مال اور مکان کے پیچھے نہیں جائیں بلکہ اقدار کو تولیں اور اپنی بیٹیاں اس خاندان میں دیں جہاں شرافت ایثار اور باہمی احترام کو فوقیت دی جاتی ہو۔ یہی بات گھروں میں تواتر کے ساتھ لڑکے اورلڑکیوں کو بتاتے رہنا چاہیے تاکہ ان کو اپنی اخلاقی اور ایمانی اقدار کی قدر ہو۔ والدین کو یقین ہونا چاہیے کہ اگر لڑکی کی قسمت میں راحتیں ہیں تو شوہر کی ترقی کے ذریعے اسے وہ راحتیں اور آسائشات ملتی رہیں گی ۔

    یہ حدیث ِقُدسی یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ کا سلوک بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کی اچھی تقدیر پر پختہ یقین رکھیں اللہ سے نیک گمان رہیں تو عافیتیں ملتی رہیں گی ورنہ دنیاداری اور مال کی محبت بے سکون کیئے رہتی ہے۔ ایسے ہی یقین اور نیک گمانی کی تلقین اپنی اولاد کو بھی کریں۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی معلوم کرنے سے قبل سرپرست استخارہ کریں، کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ استخارہ کرنے والے کو ندامت نہیں ہوتی۔ اللہ سے خیر کی طلب کے بعد بننے والے رشتے پائیدار ہوتے ہیں اور بیوی اور شوہر کے لیے آئندہ عافیت کے ضامن ہوتے ہیں۔

  • ساس یا سانپ – الماس چیمہ

    ساس یا سانپ – الماس چیمہ

    مجھے لفظ ساس سے ہی نفرت ہے. کہتے ہیں کہ سانپ میں ایک ”س“ جبکہ ساس میں دو ہوتے ہیں. ساس کے بارے میں میرے جو بھی اور جیسے بھی تاثرات ہیں، انھیں لوگوں کے سامنے بیان کرنے میں ہرگز نہیں ہچکچاتی، کیونکہ اس کا بہت ٹھوس اور جامع جواز ہے میرے پاس، اور جو جزبہ جواز رکھتا ہو، اسے ظاہر کرنے میں کیسی شرمندگی؟

    اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ ساس جیسا رشتہ جڑنے سے پہلے ہی اس سے اتنا حقارت آمیز سلوک کیوں؟ اس کا جواب ہر لڑکی دے سکتی ہے چاہے وہ میری طرح کھلم کھلا اظہار نہ کرے، پر وہ بتا سکتی ہے کہ کیسے اوائل عمری میں ہی اس کے ذہن میں ساس فوبیا بنایا جاتا ہے، ذرا سا کام خراب ہو تو سننے کو ملتا ہے،”کر لو کرلو اگلے گھر جاؤ گی تو پتہ چلے گا“، ذرا سا لیٹ اٹھی، ”ہاں ہاں اگلے گھر سونا دن چڑھے تک، ساس چوٹی سے پکڑ کے چلتا کرے گی، جا بی بی ماں کے گھر سو جا کے“. چچی، پھوپھو، ممانی،،خالہ، کسی کے گھر بھی کام کرتے ہوئے ذرا سی غلطی ہوئی نہیں کہ ساس اور اگلے گھر کے لیکچر شروع، اپنے اردگرد بھی سینکڑوں مثالیں دیکھی ہیں، ساس ساتھ بنی نہیں تھی، آئی تو طلاق ہو گئی.

    اس لیے ہم نے تو طے کیا ہے، وہاں ہی پیا دیس سدھاریں گے جہاں ساس صاحبہ لمبے سفر پہ روانہ ہو گئی ہوں، اور جس سفر کی میں بات کر رہی ہوں، وہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آتا. ساس ہوگی نہ جھگڑے ہوں گے یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری، اور لوگوں کے سارے خدشات بھی غلط ثابت ہو جائیں گے جو بات بات پر ساس کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے.
    ایک پرپوزل آیا ہوا، ہر طرح سے مناسب مگر انکار کے لیے یہی وجہ کافی کہ موصوف کی ماں یعنی ساس زندہ ہے.

    اوہو امی جان! آخر اتنی جلدی بھی کیا ہے، ابھی تو میں اپنے بھیا کےلیے چاند سی دلہن ڈھونڈوں گی، اگر آپ رشتے دیکھنے سے رک نہیں سکتیں تو وہیں بات چلایا کریں جہاں لڑکے کی ماں نہ ہو، آپ جانتی تو ہیں میری شرائط.، یک نہ شد دو شد. آئے دن آنے والے پرپوزل سے میں اچھا خاصا جھنجھلا گئی تھی، اگر کوئی ہینڈسم بندا اپنے قابل لگتا بھی تو ساس کے موجود ہونے سے سارا مزہ کرکرا ہو جاتا، آخر سب قابل بندوں کی مائیں زندہ کیوں ہیں، ایک احمقانہ لیکن احساس سے عاری سوال میرے ذہن میں ابھرتا.

    بھائی کی انگیجمینٹ ہوگئی تھی، لڑکی میری پسند کی تھی، اچھی پڑھی لکھی، اس کا نفاست سے بیٹھنا اور بہت اچھے طریقے سے گفتگو پر میرا دل آ گیا تھا. دن اچھے گزر رہے تھے، پھر ایک دن اطلاع ملی کہ وہ لوگ منگنی توڑنا چاہ رہے ہیں.
    کیا وجہ ہے؟ آخر کمی کیا ہے میرے بھائی میں؟ گھر بتائے بغیر یونیورسٹی سے ہی میں نے گاڑی کا رخ ان کے گھر کی طرف موڑ دیا تھا، تاکہ اصل مسئلہ معلوم کیا جا سکے، اور کوئی غلط فہمی ہے تو اسے دور کیا جائے. ملازمہ نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، عقب میں ہی کچن تھا، تھوڑے سے کان کھڑے کرنے کے بعد گفتگو بآسانی سنی جا سکتی تھی.
    امی آپ کو پتہ بھی ہے، میں کتنی ضدی ہوں. یہ اسی نفاست پسند لڑکی کی آواز تھی جسے میں نے بطور بھابھی پسند فرمایا تھا.
    انگیجمنٹ بھی آپ نے میری مرضی کے خلاف کی تھی، احمد اچھا لڑکا ہے مگر وجہ اس کی ماں ہے، مجھے ساس نہیں پسند، یہ وہ واحد رشتہ ہے جس سے مجھے شدید نفرت ہے. ایک لمحے کےلیے لگا جیسے میرا ہی عکس بول رہا ہو.
    آپی کو بھی ساس نے ہی طلاق دلائی تھی، بڑے چاؤ ہوتے، اور بیٹے بیاہنے کے بعد میں موت پڑتی ہے، بھوکا کھانا برداشت نہیں ہوتا، بیٹا بٹتا ہوا دیکھا نہیں جاتا، سب ساسیں ہی ایسی ہوتی ہیں، میں تو وہاں کرواؤں گی جہاں ساس نام کی بلا ہو ہی نہ، یہاں بھی کروا لیتی اگر ساس مر کھپ گئی ہوتی، سونیا آئی ہوئی ہے تو کوئی بھی بہانہ بنا کر انکار کی وجہ بتا دیجیے، مگر مجھے فورس مت کیجیے.

    میرے قدموں کے نیچے سے زمیں سرک گئی، اور میں صوفے پر ڈھے سی گئی. اس جملے کی بازگشت میرا لہو منجمد کر رہی تھی. یہاں بھی کروا لیتی اگر ساس مر کھپ گئی ہوتی. وہ جس ساس کے مرنے کھپنے کی بات کر رہی تھی، وہ میری ماں تھی. آنسوؤں کا گولا میرے حلق میں اٹک سا گیا.

  • لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

    لڑکیاں رشتے کا بلاوجہ انتظار کیوں کرتی ہیں؟ طاہرہ عالم

    طاہرہ عالم بیٹیوں کی شادی، اور ان کے لیے کسی اچھے رشتے کا انتظار والدین اور گھر والوں کےلیے روح فرسا معاملہ ہوتا ہے. بیٹیاں کبھی بھی زحمت نہیں ہوتیں لیکن نجانے کیوں جب بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں توان کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا بلکہ گھر والے بہت ہی برے انداز میں منہ بسور کے کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے، اللہ خیر کرے! اور اللہ پاک خیر ہی کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹیاں ماں باپ کی آنکھوں کا نور بن جاتی ہیں، ان کے دکھوں کو اپنا دکھ اور ان کی خوشیوں کو اپنی زندگی سمجھنے لگتی ہیں۔ کب بچپن کو خدا حافظ کہہ دیتی ہیں اور والدین کو احساس ہی نہیں ہوتا۔ وقت جیسے پر لگا کے اڑجا تا ہے، اور پھر والدین کو ان کا گھر بسانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے. کیونکہ ہمارے یہاں یہ ایک رسم ہے کہ لڑ کی والے بیٹیوں کا رشتہ لے کر نہیں جاتے تو چار و ناچار بس انتظار ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے کہ کوئی اچھا رشتہ خود ہی چل کر آئے.

    عزیز و اقارب اور ملنے جلنے والے دوست احباب کے کان میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ہماری بچی کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈیں۔ اچھا رشتہ ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے مگر ہر خواب کو کہاں تعبیر ملتی ہے، ہر خواب کہاں شرمندہ تعبیر ہوتا ہے. ایک اندازے کے مطابق ہر گھر میں کم از کم دو بچیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں زندگی کی حسین بہاریں برباد کر رہی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اچھا رشتہ کیا کوئی’’ کمپنی‘‘بنا کر بھیجے گی۔ اگر ہم اپنے گھر، ارد گرد اور رشتے داروں میں نظر ڈالیں تو ہمیں لڑکوں کی تعداد کم اور اوپر سے فارغ پھرتے نظر آتے ہیں، جب ہم اپنے لڑکوں کی پرورش کی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہے تو معاشرہ کہاں سے اچھے رشتے مہیا کرے گا؟ اگر کسی خاندان میں چار بیٹے ہیں تو تین کے پاس ڈھنگ کی نوکری نہیں اور اگر کوئی کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہے تو تنخواہ اتنی کم کہ بےچاروں کا اپنا گزارا مشکل ہے تو ایسے میں بیوی کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے. بس یہی سوچ گھر والوں کو رشتے ڈھونڈنے سے روکتی ہے. دوسری جانب لڑکی والے ایسے کم آمدنی والے لڑکے سے رشتہ جوڑنا نہیں چاہتے، ان والدین کے خیال میں بیٹی خوش نہیں رہے گی اور اس کے شوہر کو بھی پالنا پڑے گا.

    آج کل اچھے رشتے کی بنیاد دولت کی ریل پیل ہی کو سمجھا جانے لگا ہے. بےجوڑشادیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے. اگر لڑکا 45 سال کا ہے مگر گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس اور اپنا کاروبار رکھتا ہے تو اسے بہت آسانی سے20 سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکی کا رشتہ مل جاتا ہے، اس طرح وہ لڑکیاں جو پہلے ہی عمر کا بیشتر حصہ گزار چکی ہوتی ہیں ایک بار پھر پیچھے بہت پیچھے دھکیل دی جاتی ہیں۔ اگر کسی کو وقت پہ کوئی اچھا رشتہ مل بھی جا تا ہے تب بھی تاخیر ضر وری ہے کیونکہ نمود و نمائش کے لیے بروقت رقم موجود نہیں ہوتی۔ لڑ کی والے اچھا خاصا جہیز کا انتظا م کر رہے ہو تے ہیں تو لڑ کے والے بری بنانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ بیس ہزار کے عوض ملنے والے شا دی ہال ایک لاکھ سے بھی تجاوز کرگئے ہیں۔ یہ دکھاوا بھی شادی جیسے مقدس فریضے کو مکمل کرنے میں بہت بڑی رکاو ٹ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز اب مانگا نہیں جاتا کیونکہ ہمیں عادی بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ جہیز میں کیا کیا دینا ہے۔ اپنی ناک کو کیسے بچانا یا اونچا کرنا ہے۔

    چھوٹی عمر کی لڑ کیوں کی شادی زیادہ عمر والے مردوں کے ساتھ ہونا ایک عام سی بات ہے لیکن اگر کوئی لڑ کی لڑ کے سے عمر میں بڑی ہو تو اللہ معا ف کرے، گھر والے کیا اور باہر والے کیا، سب طعنے مار کر ناک میں دم کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فریضہ بھی سیاست کی نظر ہوگیا ہے۔ کبھی لڑکی نہیں پسند تو کبھی گھر والے اور دوسری جانب بھی معاملات اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو لڑکے اور لڑ کیاں، آدمی اور خاتون کی فہرست میں شامل ہو تے چلے جا ئیں گے، بےجوڑ شادیاں ہوتی ر ہیں گی، اور نتیجے میں طلاق عام ہوتی جائےگی، اور معاشرہ ایسے بچوں کا گڑ ھ بن جائے گا جو ماں باپ کے بغیر ’’نا نکے‘‘ یا پھر’’ دادکے‘‘ میں عدم تحفظ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    ان تمام باتوں کی جڑ صرف وقت پر شادی نہ ہونا اور بلاوجہ اچھے رشتوں کی تلاش ہے۔ جب کوئی صنعت اس طرح کی پروڈکس بنا ہی نہیں رہی تو مارکیٹ میں مہیا کیسے ہوگی؟ وقت پہ شادی کا مطلب کیا ہونا چاہیے، عمر کا کوئی تعین تو ہے نہیں اور پھر مقدر کی بھی بات ہوتی ہے لیکن کیا یہ درست ہے جو اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ لڑکے کی مائیں اور بہنیں مختلف لڑکیوں کو دیکھنے جاتی ہیں، دعوت اڑاتی ہیں اور پھر آخر میں یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہم بعد میں آپ کو بتاتے ہیں. اس طرح درجنوں لڑکیوں کے معصوم دلوں سے کھیلتی ہیں، اور یہ بات بھول جاتی ہیں کہ وہ خود بھی بیٹیاں رکھتی ہیں۔ بعد میں نتیجہ یہ سنایا جاتا ہے کہ استخارہ میں منع ہوگیا ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی والے اس بنا پہ بھی رشتوں سے منع کر دیتے ہیں کہ لڑکے کا اپنا گھر تک تو ہے نہیں، آدھی سیلری تو کرائے کے مکان میں ہی ختم ہوجائے گی۔

    رشتہ طے کرتے وقت دونوں طرف مادی اشیا کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ والدین اگر اپنے مطالبات کو درمیانے درجے میں لے آئیں اور تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے مستقبل کے فیصلے وقت پر کرلیں اور اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ خود ان کا بیٹا یا بیٹی کتنے لائق ہیں؟ اور دوسروں کی نظر میں کتنے بہترین ہوسکتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں اپنے گریبان میں جھانک لیں تو دوسروں کی برائی یا کمی آپ کو کمی نہیں لگے گی، کوئی اچھا فیصلہ کر پائیں گے ، اور کسی لڑکی یا لڑکے کو بلاوجہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

  • منگنی اسلامی رسم ہے یا زبردستی کی، کیا اسلام میں اجازت ہے؟ حوریہ ذیشان

    منگنی اسلامی رسم ہے یا زبردستی کی، کیا اسلام میں اجازت ہے؟ حوریہ ذیشان

    ہمارے ہاں جن رسومات کو زبردستی شادی کا حصہ بنادیا گیا ہے، ان میں سے ایک رسم منگنی کی بھی ہے۔ منگنی عرف عام میں وعدہ نکاح کو کہتے ہیں جس کی اسلام میں اجازت ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 235 میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:
    ”اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو۔“

    یعنی اسلام میں نکاح کا پیغام دینے کی اجازت ہے بلکہ پیغام کے بعد ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لینے کی بھی اجازت ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انھوں نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘

    لیکن ہمارے ہاں اسے پیغام اور وعدہ سے بڑھا کر ایک رسم کی شکل دے دی گئی ہے۔ سونے کی انگوٹھی، زیوارت اور تحفے تحائف پر اتنی رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہو جائے۔ لڑکی لڑکے کا ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، تصاویر بننا، تحفے تحائف دینا اور مرد و عورت کی مخلوط تقریب۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کی شریعت میں بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا تو بہت ہی غلط کام ہے کیونکہ شادی سے پہلے مرد عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور نامحرم ہیں اور نامحرم کو چھونا سخت گناہ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی وجہ سے رشتہ ٹوٹ جائے تو منگنی پر بنائی ہوئی تصاویر کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، جاننے کی نہیں لیکن یہاں منگنی کے بعد ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیا جائے، ملنا ملانا نہ بھی ہو تو بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنا عام سی بات ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور شادی کے بعد زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ حالانکہ یورپی ممالک میں شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملنا ملانا عام سی بات ہے وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ کر شادی کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت کم جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں ورنہ اکثر کی چند سال بعد ہی طلاق ہوجاتی ہے۔

    ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں، ایک ان والدین کا جو اولاد کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے اور لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتے اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستے ہیں۔ دوسری طرف ان بچوں کا جو والدین کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں اور کبھی سیر و تفریح کے لیے۔ والدین بےچارے پوچھنے کی جرات تک نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دو انتہائیں ہیں، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔

    آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ نکاح کے پیغام کے بعد دونوں گھرانے کھانے یا چائے پر کسی جگہ اکھٹے ہوجائیں، وہاں سب کی موجودگی میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ایسا بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں یا تو بالکل بھی دیکھنے نہیں دیا جاتا یا پھر مکمل آزادی دے دی جاتی ہے کہ جیسے مرضی گھومیں پھریں، باتیں کریں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ سنت کے مطابق کریں کیونکہ اللہ نے سنت میں آسانی اور سکون رکھا ہے۔ جس قدر ہماری زندگی سنتوں سے مزیں ہوتی جائے گی اتنا ہی ہماری زندگی میں سکون آتا جائے گا اور ہماری زندگیاں آسان ہوتی جائیں گی کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت پر چلنا بہت آسان ہوتا ہے۔

  • سستی لڑکیاں – اسریٰ غوری

    سستی لڑکیاں – اسریٰ غوری

    اسری غوری وہاں انٹریو کے لیے لڑکے لڑکیاں سب ہی موجود تھے۔
    مگر انٹرویو کے اختتام تک صرف اپائنٹ ہونے والے ہی بچے تھے باقی سب کو فارغ کردیا گیا تھا۔
    اب وہاں کا منظر بدل چکا تھا، اب صرف وہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔
    مجھے کچھ حیرانی ہوئی تو پوچھا کہ نان نفقے کی ذمہ داری تو مرد کی ہے، جو لڑکے پڑھ لکھ کر یہاں جاب تلاش کرنے آئے ہیں، وہ اپنے خاندانوں کے نان نفقے کے ذمہ دار ہیں اور جو لڑکیاں آئی ہیں، ان میں اکثریت تعلیم سے فارغ ہو کر رشتہ کے انتظار میں ”جسٹ فارچینج“ کے لیے آئی ہیں، ان پر تو کوئی ذمہ داری نہیں، پھر آپ نے ان کو ان لڑکوں پر ترجیح کیوں دی؟
    جواب ملا:
    اسی لیےکہ لڑکیاں ”سستی“ مل جاتی ہیں.
    میں نے حیران ہوکر دیکھا تو وضاحت آئی کہ دراصل وہ کم پیسوں میں زیادہ کام کرنے کے لیے آرام سے راضی ہوجاتی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثریت نے اپنی سیلری سے بس نئے کپڑے، نئے جوتے اور جیولری اور کاسمیٹکس ہی تو خریدنا ہوتا ہے۔
    جبکہ لڑکے وقت پر کام کر کے بھاگنے کے چکر میں ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے آگے پھر کسی پارٹ ٹائم جاب پر جانا ہوتا ہے۔
    میں سوچنے لگی کہ ان لڑکیوں کے رشتوں کا انتظار اس وقت ہی ختم ہوگا جب یہ لڑکے برسر روزگار ہوں گے۔