Tag: رؤف کلاسرہ

  • عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    عقل نہیں ڈالرز چاہئیں۔۔۔۔!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    دہشت گردوں نے ایک دفعہ پھر کوئٹہ میں ظلم ڈھا دیا ہے۔ حسب دستور اس کی مذمت جاری ہے اور جاری رہے گی۔ چند دن اجلاس ہوںگے، سخت کارروائی کرنے کے اعلانات کئے جائیں گے، قوم کو دو تین عالمی سازشیں سنائی جائیں گی اور پھرکاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہے گا۔

    تحقیقات کے بعدپریس کانفرنسیں کرکے ہمیں وہ راستے سمجھانے کی کوشش کی جائے گی جن کو عبور کرکے دہشت گرد پولیس ٹریننگ سکول تک پہنچے۔ پھر ان کے سہولت کاروں کے بارے میںبتایا جائے گا۔ ایسے لگے گا کہ جب دہشت گرد گھر سے حملہ کرنے نکلے تھے تو ہمارا کیمرہ ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔لیکن حملہ رک نہ سکا۔

    ہماری نااہلیوں کی داستان اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب ہر جگہ آپ کو اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ظلم و ستم تو اپنی جگہ، حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب اسلام آباد بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ ملک کے پالیسی میکرز اور بیوروکریٹس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں!

    کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سکول کی چار دیواری تک نہیں تھی۔ باقی اندازہ آپ خود کر لیں۔ اگر ہوتی بھی تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ پشاور آرمی سکول کی تو عمارت بھی تھی، اس پر حملے کی دھمکی بھی آئی ہوئی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیںکہ اس سکول پر حملے کی خبر پہلے سے موجود تھی۔ سو، سب پتا ہوتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ اس کے باوجود حملے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے بچے مارے جاتے ہیں۔ جب ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ کوئٹہ کے ٹرینگ سکول کی دیوار تک نہ تھی تو اسلام آباد کی حالت بھی سن لیں۔

    میجر عامر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آ گرا۔ ان کے بیٹے عمار نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انہیں اسلام آبادکے بڑے ہسپتال پمز لے کرگئے۔ وی آئی پی روم لیا۔ چوبیس گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اپ کے لئے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب! جو صاحب پمزکے سربراہ ہیں وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے اور ہسپتال میں انہیں اٹنڈکرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انہیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔

    میجر عامر وضع دار انسان ہیں۔ دوستوں کا گلہ نہیںکرتے۔ نواز شریف سے قریبی تعلق رہا، حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اگر میجر عامر جیسا نامور اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو تو کیا وزیراعظم کے رحیم یار خان میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوئوں کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے؟ اگر اسلام آباد کے ایک ہسپتال کی یہ حالت ہے کہ چوبیس گھنٹے تک علاج شروع نہ ہوسکا توکیا ایسی حکومت کے سربراہ کو آنسو بہانے کا ڈرامہ کرنا چاہیے؟ خود کو چھینک بھی آ جائے تو اگلے دن لندن تشریف لے جاتے ہیں۔

    درست، جوکچھ کوئٹہ میں ہوا اس کے سامنے پمز میں میجر عامرکی کہانی عام سی بات لگے گی۔ لیکن اسے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جن حکمرانوں سے اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا ہسپتال نہیں چل پا رہا، وہ ملک کو در پیش بڑے مسائل سے کیسے ہماری جان چھڑائیںگے؟ ہرجگہ اپنا بندہ لگانے کی کوشش ہوگی تو پھر گورننس اور سروس لیول تو نیچے ہی جائے گا!

    ہم سب جانتے ہیںکہ شاید پاکستان کے پاس دہشت گردی کے ناسورکا کوئی پائیدار حل موجود نہیں ہے۔ ہم اس خطے میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں۔ کچھ پراکسی کھیل ہم کھیل رہے ہیں اور کچھ ہمارے دشمن۔ معصوم شہریوںکو مارا جاتا ہے اور الزام دوسرے پر لگا دیا جاتا ہے۔کابل،کوئٹہ، ممبئی۔۔۔۔ ہر جگہ بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بھی اس طرح کی دہشت گردی ہوئی تھی۔ بازاروں میں اسی طرح بم دھماکے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ جی ہاں، وہی روس جس کے فوجی دستے کچھ روز قبل ہمارے ہاں مشترکہ مشقیں کرتے پائے گئے۔ دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہمارے جان جگر تھے اور آج روس پر ہم صدقے واری جا رہے ہیں۔ اُس وقت امریکی ہماری جان تھے اور ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کی خواتین سے تو شادی جائز ہے جبکہ روسی تو کمیونسٹ ہیں، خدا تک کو نہیں مانتے۔ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے، اسلامی فرمودات کے مطابق یہود و ہنود تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یوں آج ہم نے کیمونسٹوں سے دوستی کر لی ہے۔

    ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں کے پاس جنرل ضیاء دور میں روس کے خلاف لڑنے کی ہزاروں دلیلیں تھیں۔ آج اسی روس کے ساتھ دوستی کی بھی وجوہات ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرے گا۔ روس نے تو آج تک بھول کر بھی گرم پانیوںکا ذکر نہیں کیا؛ تاہم پتا چلا کہ ہم تو افغانستان میں روسیوں کوگرم پانی تک نہ پہنچنے دینے کے لئے لڑتے رہے جبکہ گرم پانی پر نظریں تو چین کی تھیں۔ اب چین گوادرکے ذریعے بیرونی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ ہمیں کبھی کسی نے بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہم کیوں اورکب دشمن اور دوست بناتے ہیں۔

    افغانستان کو ہی لے لیں۔ چار سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پچھلے دنوں ایک انگریزی اخبار میں اہم مضمون لکھا تھا۔ یہ چاروں عام لوگ نہیں۔ پوری دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ اچھا برا سب سمجھتے ہیں۔ یہ سفارت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دنیا میں ہمارے بارے میں مشہور ہوگیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھی ہیں۔ غلط یا درست لیکن ہمار امیج یہی بن گیا ہے۔ مثلًا افغانستان ہمارے بارے میں کہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے ہم مسعود اظہرگروپ کے ذریعے وہاں کارروائیاں کراتے ہیں۔ ہم یہی الزامات افغانستان اور بھارت پر لگاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے پاکستان میں حملے کراتے ہیں۔

    ان سفارتکا روں نے ایک اہم سوال اٹھایا: ہم ہر بار افغانستان میں طالبان کے ساتھ کیوں کھڑے ہوتے ہیں جو وہاں بربادی، قتل و غارت اور پس ماندہ قوتوں کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں؟ ہم افغانستان کے پڑھے لکھے، روشن خیال اور سمجھدار طبقات کے ساتھ کیوں تعلقات نہیں رکھتے؟ طالبان کو افغانستان میں پروموٹ کر کے ہم نے کیا نتائج حاصل کیے؟ پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ تیس برس سے زیادہ عرصے سے ہم افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں، اس کے بدلے میں افغانستان اور بھارت نے پاکستان میں تحریک طالبان کو ایکٹوکرکے ہمارے ساٹھ ہزار افراد قتل کرا دیے۔

    ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ افغانستان میں باون ملکوں کی افواج پر مشتمل عالمی فورس موجود ہے۔ ہم پوری دنیا سے ٹکر لے رہے ہیں۔ اب پوری دنیا دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمیں دنیا میں بھارت نے تنہا نہیں کیا بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کیا ہے۔ ہمیں طالبان کو راضی کرنا چاہیے کہ وہ بھی کابل کے ساتھ تعلقات درست کریں۔ گلبدین حکمت یار کی طرح پاور میں شیئر لیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کی نگرانی کریں۔ طالبان کابل حکومت میں بیٹھ کر ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں، پہاڑوں پر رہتے ہوئے کابل کی مارکیٹوں پر حملہ آور ہوکر بے گناہ افغانوںکو قتل کر کے نہیں۔ پاکستان کو بہر صورت افغانستان میں امن کرانے کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ میرے خیال میں اس وقت افغانستان میں امن قائم کرنا افغانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے ضروری ہے۔اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔بڑھکیں بہت مار لیں اور اس کے نتائج بھی بھگت لیے۔

    چکوال کے ٹاپ آسٹرولوجسٹ پروفیسر غنی جاوید مجھے بڑے عرصے سے خبردار کر رہے ہیںکہ تم کالموں میں لکھو اور بار بار لکھو کہ پاکستان سمجھداری سے کام لے۔ پاکستان کے حالات 1971ء سے بھی زیادہ خراب ہونے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت دنیا کو دوست بنانے اور بچا کچھا پاکستان بچانے کی ضرورت ہے۔ میں انہیںکہتا ہوں پروفیسر صاحب! ہمارے عقلمندوں کو ان مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ 1971ء میں بھی سمجھدارکہلاتے تھے اور اب بھی ماشاء اللہ سمجھدار ہیں۔ آپ لاکھ انہیں ستاروں کی چالیں سمجھاتے رہیں، انہیں آسمان پر ہونے والی تبدیلیوں سے خبردار کرتے رہیں، انہوں نے پھر بھی کرنی وہی ہے! یہ واحد قوم ہے جس نے ماضی سے سیکھنے سے انکار کیا ہوا ہے۔ جس روس کے ساتھ جنگیں لڑیں، ہزاروں بچے مروائے آج اس کے ساتھ فوجی مشقیں اور جس امریکہ کے لیے اپنے بچے مروائے آج اسے دشمن بنایا ہوا ہے۔ ان کو عقل کی نہیں ڈالروں کی ضرورت ہے۔جہاں سے ملیں، جیسے ملیں۔ پراکسی جنگوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہمارے نوجوان بچوںکی ماتم کرتی مائوںکا کیا ہے، وہ اور پیدا کر لیں گی۔۔۔۔!

  • جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    ایک دفعہ پھر سول ملٹری تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ بے چارے ایک دفعہ پھر کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
    مزے کی بات ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ ایک دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تھا تو اس وقت کی ملٹری اور انٹیلی جنس قیادت نے انہیں (بینظیر بھٹو کو) سکیورٹی رسک قرار دے دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد بینظیر حکومت توڑ دی گئی۔ وہ آخری دم تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکیورٹی رسک رہیں کیونکہ وہ گاندھی خاندان کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ جب راجیو گاندھی قتل ہوئے تھے تو بینظیر بھٹو افسوس کے لیے نیو دہلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال سے بھی ہوئی۔ اپنی آٹو بائیوگرافی میں گجرال لکھتے ہیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو بتایا کہ ایک دفعہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے نیو دہلی آ کر یہ دھمکی دی تھی کہ اگر معاملات درست نہ ہوئے تو پاکستان بھارت پر بم مار دے گا۔ گجرال حیران تھے کہ سویلین وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ کیسے اپنے وزیر خارجہ کو یہ دھمکی دے کر بھارت بھیج سکتی تھیں۔ گجرال لکھتے ہیں کہ یہ سن کر بینظیر بھٹو کو جھٹکا سا لگا اور وہ بولیں: بھلا میں کیسے ایٹم بم کی دھمکی دے کر اپنے وزیر خارجہ کو بھارت بھیج سکتی ہوں؟ بعد میں پتا چلا کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے وزیر خارجہ کو بھارت کو یہ دھمکی دینے کے لیے بھیجا تھا‘ اور اس پیغام کا وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو علم نہ تھا۔

    اسی بینظیر بھٹو کا بیٹا کشمیر کے الیکشن میں نواز شریف کے خلاف نعرے لگا رہا تھا کہ ‘مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘۔ کبھی یہ نعرہ بینظیر بھٹو کے خلاف لگتا تھا۔ وہی کھیل اب بلاول بھٹو کھیل رہا تھا۔ اپنے اپنے وقت پر دونوں اس وقت کی ملٹری قیادت پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے زیادہ محب وطن ہیں‘ اور دوسرا غدار ہے۔
    ہر دور میں اپوزیشن کے سیاستدان فوجی قیادت کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پھانسیاں بھی لگتے ہیں، قتل بھی ہوتے ہیں‘ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا بھی پاتے ہیں اور جلاوطنی بھی بھگتتے ہیں۔

    سویلین اپنے تئیں کوشش بہت کرتے ہیں‘ پھر بھی کہیں نہ کہیں پھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف کچھ زیادہ ہی پھنس جاتے ہیں‘ اگرچہ ماضی میں وہ ہر وقت زرداری اور گیلانی کو طعنے دیتے رہتے تھے کہ وہ ملٹری کے نیچے لگے ہوئے ہیں اور ان کی سکیورٹی اور فارن پالیسی آزاد نہیں ہے‘ اور یہ کہ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو ان معاملات کو خود چلاتے۔ ایک دفعہ نواز شریف صاحب صدر زرداری سے ملنے ایوان صدر گئے تو باتوں باتوں میں حسبِ عادت زرداری صاحب نے کچھ بڑھکیں ماریں۔ یہ دعویٰ کیا کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ اس پر نواز شریف نے کہا: جرنیلوں پر زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے نواز شریف صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا تھا‘ جو بعد میں مجھے اس ملاقات کے شرکا نے سنایا۔ نواز شریف صاحب کے بقول‘ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک دفعہ ایک اہم وزارت کے سیکرٹری ایک فائل ان کے پاس لائے‘ جو اس وقت کے ایک سرونگ کور کمانڈر کی فیصل آباد میں زمین کو کمرشل بنانے کے حوالے سے تھی۔ نواز شریف ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے تو سیکرٹری صاحب بولے: سر آپ کو پتہ ہے کبھی کوئی کام آ جاتا ہے۔ یہ سن کر وزیر اعظم فوراً قائل ہو گئے اور وہ فائل کلیئر کر دی‘ جس سے اس جنرل کو بیٹھے بٹھائے کروڑں روپے کا فائدہ ہوا۔ جب بارہ اکتوبر کی بغاوت ہوئی تو وزیر اعظم کو اسی جنرل نے گرفتار کیا جس کی فائل انہوں نے کلیئر کی تھی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کر لیں ان جرنیلوں نے کرنا وہی ہے جو ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔

    یہ الگ کہانی ہے کہ وہی نواز شریف جو زرداری کو سمجھدار بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بعد میں میمو گیٹ پر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہوئے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اُس وقت یہ پروا بھی نہ کی گئی کہ قانون کے تقاضوں کے مطابق جب سپریم کورٹ نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے جواب طلب کیے تو یہ جوابات وزارتِ دفاع کو بھیجے جانے چاہئیں تھے‘ اور پھر وہ جوابات وزارتِ دفاع سپریم کورٹ کو بھجواتی‘ لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو بائی پاس کیا۔ اس پر وزیر اعظم گیلانی نے ایک چینی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ جوابات داخل نہیں کرائے جا سکتے۔ اس پر جنرل کیانی سخت ناراض ہوئے اور بعد میں وزیر اعظم گیلانی کو ہی معذرت کرنا پڑی تھی۔
    اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیا نواز شریف، گیلانی اور زرداری کی مخالفت میں سب قاعدے قوانین بھول گئے تھے؟ وہ حکومتِ وقت کو غدار قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ انہوں نے اس وقت سویلین کی کوئی فکر نہیں کی تھی۔

    اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے لندن میں بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی سرونگ جنرل سے خفیہ ملاقات نہیں کریں گے۔ لیکن پھر ایک دن خبر نکلی کہ چوہدری نثار علی خان (اپوزیشن لیڈر) اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب‘ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے ان کی بارہ خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بعد میں رپورٹر اعزاز سید نے یہ خبر بریک کی تو چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں خود اس خبر کی تصدیق کی لیکن وہ رپورٹر پر تبّرہ بھیجنا نہ بھولے۔

    اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو کچھ اور ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو یاد ہو گا کہ دو ہزار سات میں جب نواز شریف لندن میں صحافیوں کو ملتے تھے تو کیا کیا بڑھکیں ماری جاتی تھیں… کیا کیا دعوے کیے جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ بندہ بدل گیا ہے اور اگر انہیں موقع مل گیا تو وہ راتوں رات اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔نواز شریف صاحب جب بھی صحافیوں سے ملتے تو فخر سے فرماتے کہ انہوں نے ہمیشہ ملٹری قیادت کے ساتھ ٹکر لی‘ چاہے اس کی انہیں کتنی ہی بڑی قمیت کیوں نہ ادا کرنا پڑی ہو۔ شاید ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ لڑائی کی وجہ جہاں کارگل کی جنگ تھی‘ وہیں ان دنوں ان کی ایک خفیہ ملاقات اس وقت کے کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز سے بھی ہوئی تھی۔ جنرل مشرف نے چونکہ خود بھی جنرل کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد آرمی چیف بننے سے پہلے‘ نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی تھی‘ لہٰذا وہ جانتے تھے نواز شریف اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں کس کام کے لیے کرتے ہیں۔ اسی لیے جنرل مشرف نے دوسرے دن ہی جنرل طارق پرویز کی چھٹی کرا دی تھی۔

    اب آتے ہیں موجودہ بحران کی طرف۔ یہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے خیالات ان ایشوز پر واضح ہیں۔ وہ اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے واجپائی صاحب کو لاہور لا کر اہم پیش رفت کی تھی‘ جب دونوں ملک کشمیر سمیت تمام ایشوز کو حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ جنرل مشرف کی بھارت کے ساتھ کارگل پر جنگ کو لے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی تھی، لیکن جب وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو مودی صاحب کی دعوت پر نیو دہلی گئے اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مودی نے نواز شریف کے ساتھ غلط کیا‘ جب بنگلہ دیش جا کر پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ لیا۔ اس سے نواز شریف کمزور ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر دفعہ مودی صاحب نے نواز شریف کو اپنی باتوں یا حرکتوں سے کمزور کیا‘ اور وہ (نواز شریف) امن کی خواہش دل میں ہی لے کر رہ گئے۔ شاید بھارتی قیادت بھی جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی کوئی نہیں سنتا‘ لہٰذا فوجی حکومتوں میں بھارت کے اندر سکون رہتا ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ سیاستدانوں کے تلوں میں تیل نہیں ہے۔

    جس اجلاس کو لے کر طوفان کھڑا ہو گیا ہے کہ اندرونی اجلاس کی کہانی کیسے باہر نکلی، اس پر بھی سیاستدان شرمندہ ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ چار سابق سفیروں نے کھل کر لکھا ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا میں غلط یا درست تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے نان سٹیٹ ایکٹر بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اسے کیسے دور کیا جائے؟ ہم کب تک انکار کی حالت میں رہیں گے؟ رانا افضل پارلیمانی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی میں جو کہانی سنائی وہ خوفناک ہے کہ فرانس کے دورے میں انہیں اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں کیا کیا کچھ سننا پڑ گیا… اور یہ کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان کے علاوہ روس، امریکہ اور جرمنی‘ سب بھارت کے موقف کو وزن دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے حق کو مان رہے ہیں۔

    کل رات میں جنرل مشرف کا ایک انٹرویو سن رہا تھا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ مسعود اظہر کی جیش محمد ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اسے قتل کرانے کی کوشش اسی تنظیم نے کی تھی۔ اسی گروپ کے لیڈر مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں کارروائی کو چین نے پاکستان کے کہنے پر ویٹو کر دیا تھا۔ ایسا خطرناک کھیل ہم کیوں کھیل رہے ہیں؟
    حب الوطنی ایک حد کے اندر اچھی لگتی ہے‘ ورنہ جرمن نازی بھی حب الوطنی کے نام پر یورپ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لے گئے تھے جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔
    جہاں تک اس اجلاس کی بات ہے‘ جہاں سے یہ خبر نکلی ہے‘ جس میں پہلی دفعہ کھل کر سیاسی قیادت نے ایک سٹینڈ لیا تھا اور اس کے بعد جس طرح حکومت مکر گئی ہے‘ اس سے مجھے اردو غزل کے غالب کے بعد بڑے شاعر ظفر اقبال کا شعر یاد آ گیا ہے:
    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
    آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے!

  • پاناما سکینڈل اور سرکاری زکوٹا جن……!رؤف کلاسرہ

    پاناما سکینڈل اور سرکاری زکوٹا جن……!رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے نیب، ایف آئی اے، سٹیٹ بنک، ایف بی آر، اور ایس ای سی پی کی طرف سے پاناما سکینڈل پر تحقیقات سے معذرت کی گئی ۔دستاویزات پڑھتے ہوئے یاد آیا کہ جب پیپلز پارٹی کی 2008ء میں حکومت بنی تو پہلا کا م یہ کیا گیا تھا کہ نیب کی تنخواہیں روک دی گئی تھیں اور اس کی جگہ ایک نیا احتساب کمشن بنانے کا فیصلہ ہوا تھا ۔ اب اسی نیب نے پی اے سی کو لکھ کر کہا ہے کہ وہ پاناما سکینڈل پر کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ تین صفحا ت پر مشتمل اس رپورٹ میں نیب نے پاکستان اور دنیا بھر کے تمام قوانین کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا پاناما سکینڈل کی تحقیقات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ لکھی ہے کہ یہ اخباری خبر ہے۔ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔

    سٹیٹ بنک لکھ کر کہتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جس کے بل بوتے پر وہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کی طرف سے خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات حاصل کر سکے۔
    ایس ای سی پی نے اس معاملے کو کچھ طول دیا ہے تاکہ سب جان لیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ ایس ای سی پی کے مطابق کل چار سو چوالیس پاکستانیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے نام پاناما میں موجود ہیں۔ یہ چار سو چوالیس پاکستانی پاناما میں دو سو اسی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان چا ر سو چوالیس کمپنیوں میں سے ایک سو پچپن پاکستانی ان پاناما کمپنیوں کے ڈائریکٹر ز ہیں۔ یہ ایک سو پچپن افراد چھ سو کمپنیوں کے سربراہ ہیں جو پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔

    ایس ای سی پی نے عجیب لاجک دی ہے کہ ان پاناما کمپنیوں میں براہ راست پاکستان سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ پاکستان میں ان چھ سو کمپنیوں کے سربراہوں نے اپنی پاکستانی کمپنیوں کے اکاوئونٹس میں سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی ان سے پیسہ بھیجا گیا۔ کیونکہ ان چھ سو کمپنیوں جو ایس ای سی پی کے پاس رجسٹرڈ ہیں‘ کے اکائونٹس میں سے کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجا گیا لہٰذا ایس ای سی پی اس پر کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ ایف آئی اے نے بھی تحریری جواب میں یہی فرمایا ہے کہ ان کا بھلا پاناما سے کیا کام۔ایف آئی اے نے لکھ کر بھیجا ہے اگر نیب یا ایف بی آر کچھ کرنا چاہے تو وہ کرسکتی ہے، ایف آئی اے بے چاری تو مظلوم ہے۔ اسے اس کام میں نہ گھسیٹا جائے۔

    نیب نے ایک طویل کہانی سنائی ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے قوانین کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہونا کہج وی نئیں لہٰذا پاناما تحقیقات پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ نیب کی تجویز ہے کہ بہتر ہوگا کوئی نئی حکمت عملی بنائی جائے جس میں ایف بی آر ، انکم ٹیکس حکام، سٹیٹ بنک، وزیرخزانہ، قانون، وزارت داخلہ اور خارجہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور کسی نتیجہ پر پہنچیں اور دنیا بھر کے ممالک سے معاہدے کریں۔ پاناما سکینڈل محض ایک اخباری خبر ہے ۔ اس میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور محض خبر کی بنیاد پر تحقیقات نہیں ہوسکتیں ۔

    مجھے2008ء کے وہ دن یاد آگئے جب وزیراعظم گیلانی اور زرداری نیب کو ختم کرنے پر تل گئے تھے۔ کئی ماہ تک نیب کوبجٹ نہ دیا گیا۔ نیب کے افسران کو اپنی نوکریوں کی فکر پڑگئی تھی۔ انہوںنے میرے جیسے صحافیوں سے رابطے کرنے شروع کر دیے تھے اور ہمیں بتایا جانے لگا کہ اگر نیب ختم ہوگیا تو سیاستدان لوٹ مار کی انتہا کر دیں گے ۔ ایک ہزار وجوہ بتائی گئیں کہ نیب کیا کررہا تھا اور کیسے اب سب سیاستدان مل کر اسے بند کرنا چاہتے ہیں۔ خیر ہم چند صحافیوں نے نیب کے حق میں شور مچایا۔ ابھی اچھے دن تھے ۔ ہماری خبروں پر کچھ اثر ہوجاتا تھا۔ وزیراعظم گیلانی ویسے بھی اس وقت تک اپنے امیج کے بارے میں کچھ فکر مند رہتے تھے اور اپنے خلاف خبریں پڑھنا یا سننا برا سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے کچھ دنوں بعد نیب کا بجٹ بحال کر دیا۔

    اگر سیف الرحمن کے احتساب سیل کے پاس طاقت نہ تھی تو بھلا 1998ء میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اس وقت کے اٹارنی جنرل محمد فاروق جو جسٹس رمدے کے بھائی تھے، نے کیسے سوئس حکومت کو خط لکھ دیا تھا کہ سوئس بنکوں میں پڑے ہوئے آصف زرداری اور بینظیر بھٹو نے چھ ارب روپے پاکستان سے لُوٹ کر وہاں جمع کرائے تھے۔ یہ منی لانڈرنگ تھی ۔ یہ پاکستان کا پیسہ تھا لہٰذا پاکستان کو واپس کیا جائے۔ اس مقدمے کو لے کر بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک قیوم نے بینظیر بھٹو اور زرداری کو سزائیں بھی سنائیں تھی جو بعد میں ان کی سیف الرحمن کے ساتھ مبینہ گفتگو سامنے آنے کے بعد نہ صرف سپریم کورٹ نے معطل کر دی تھیں بلکہ خود جسٹس ملک قیوم کو بھی برطرف کر دیا گیا تھا۔ یہ اور کہانی ہے کہ بعد میں جنرل پرویز مشرف نے ملک قیوم کو اپنا اٹارنی جنرل بنایا اور وہ سپریم کورٹ کے وکلا کی باڈی کے صدر بھی رہے ۔ اور تو اور تاریخ کا ستم دیکھیں کہ وہی ملک قیوم بعد میں اسی زرداری کے دور میں بھی 2008ء میں پیپلز پارٹی کے اٹارنی جنرل رہے اور انہوں نے ہی سوئس حکام کو خط لکھا کہ این ار او کے تحت زرداری پر مقدمے سیٹل ہوگئے تھے لہٰذا ن پر سوئس حکومت بھی مقدمہ ختم کر دے جو نواز شریف حکومت نے 2008ء میں شروع کیا تھا۔ اس کے تحت زرداری اپنے چھ ارب روپے اب واپس لے سکتے تھے۔

    اس سے پہلے نواز شریف نے بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے سیف الرحمن کو احتساب سیل کا انچارج بنایا۔ وسیم افضل ان کے ڈپٹی تھے۔ دونوں نے مل کر دنیا بھر سے زرداری اور بینظیر بھٹو کی کرپشن کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے جو کئی بکسوں میں موجود تھے۔ سیف الرحمن کو کروڑوں روپے دیے گئے تھے کہ وہ پیسہ لندن اور سوئس وکیلوں اور جاسوسوں کو دینا تھا جنہوں نے بینظیر بھٹو اور زرداری کی آف شور کمپنیاں ڈھونڈ نکالی تھیں۔ اس کے بعد باقاعدہ ان پر مقدمہ چلتا رہا جس میں پہلے لاہور ہائی کورٹ نے سزا دی۔ تاہم بعد میں جب آصف زرداری کی حکومت بنی اور اپنی مرضی کا چیئرمین نیب لایا گیا تو ایک ایک کر کے ا ن مقدمات سے زرداری بری ہونا شروع ہوئے۔ ایک دن اپنے کیمرے پر لندن کے صحافی مرتضے علی شاہ نے پاکستان کے لندن میں ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو جیمز بانڈز سٹائل میں سر پر ہیٹ، ہاتھ میں بارش سے بچنے کے لیے چھتری اور منہ میں سگار لگائے اس وقت پکڑ لیا جب وہ جینوا میں زرداری کے خلاف موجود ثبوتوں کے باکس ایک ویگن میں رکھ کر غائب ہورہے تھے۔

    سوال یہ بنتا ہے کہ اگر پاناما سکینڈل میں نیب کی اتھارٹی نہیں بنتی تو پھر کس اتھارٹی کے تحت یہ سوئس حکومت کے ساتھ زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف مقدمات لڑ رہا تھا؟ سیف الرحمن نے تیس کروڑ روپے ان ثبوتوں کو حاصل کرنے کے لیے کیوں خرچ کیے تھے؟ ایڈمرل منصور کو امریکہ سے گرفتار کر کے کیسے پاکستان واپس لایا گیا تھا اور اس سے پلی بارگین کی تھی؟ اس پر چار ارب روپے کے فراڈ کا الزام تھا اور اس سے چند کروڑ روپے لے کر معاملہ ٹھپ کر دیا گیا تھا۔ پھر پنجاب بنک سکینڈل کے مرکزی ملزم ہمیش خان کو کیسے گرفتار کر کے واپس لایا گیا تھا ۔

    یہ بات طے ہے کہ اس ملک میں بڑے آدمی کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس پاناما سکینڈل میں ملک کے وزیراعظم کا خاندان ملوث ہے لہٰذا سب کی ٹانگیں کانپ کر رہ گئی ہیں۔ وہی ایف آئی اے جو دہشت کی نشانی سمجھی جاتی ہے اس کے ہاتھ پائوں لرز رہے ہیں ۔ یہ لوگ فرماتے ہیں کہ ان کا پاناما سے کیا لینا دینا….وہی ایس ای سی پی جو کمپنیوں کے لیے دہشت سمجھی جاتی ہے اس نے باقاعدہ تین صفحات کا جواب دیا ہے کہ ان اس معاملے میں ملوث نہ کیاجائے۔ ایف بی آر جو کاروباریوں کو ہر وقت ڈرائے رکھتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بے بس ہیں کیونکہ آصف علی زرداری نے ایک قانون بنوایا تھا جس کے تحت وہ پانچ سال سے پہلے کے ٹیکس گوشواروں کو اوپن نہیں کرسکتے۔

    تاہم سب سے بڑا چھکا نیب نے مار ا ہے جو فرماتا ہے کہ اخبار ی خبر پر بھلا کیا کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہ تحریری جواب اس وقت آیا ہے جب ڈنمارک نے پاناما لیکس کی دستاویزات دس لاکھ یورو میں خرید لی ہیں تاکہ وہ اپنے ملک کے ٹیکس چورو ں کے خلاف ٹرائل کر کے انہیں سزائیں دلوائیں۔

    یہ انجام ہوا ہے پاناما سکینڈل اور ہمارے تحقیقاتی اداروں کا‘ہر سال اربوں روپے عوام کی جیب سے جن کی تنخواہوں، ان کی گاڑیوں، سرکاری گھروں اور عیاشی پر خرچ ہوتے ہیں۔ جب امتحان کا وقت آیا تو پانچوں کی پانچوں تحقیقاتی ایجنسیاں انصاف کی بجائے کرپٹ حکمرانوں ، ان کے بچوں اور بددیانت چار سو چوالیس پاکستانیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر عوام کے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں۔
    مجھے دکھ ہورہا ہے کہ کیوں میں نے2008ء میں گیلانی صاحب کے فیصلے کے خلاف مہم چلائی تھی۔ میرے نیویارک آئی لینڈ کے دوست تبسم بٹ پھر یاد آتے ہیں جن کا تاریخی قول ہے ہونا کج وی نئیں…!

  • داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    داجل کے دجال-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra

    پچھلے ہفتے پارلیمنٹ کی دو تین کمیٹیوں میں گیا۔ جب میں اپنی خودساختہ دانشوری سے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی ذہنی نشوونما کے لیے پارلیمنٹ چلا جاتا ہوں۔ وقفہ سوالات مجھے بہت پسند ہے؛ اگرچہ ایم این ایز کو یہ اچھا نہیں لگتا۔ وزرا کو بھی یہ اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ بھی نہیں آتے۔ بیوروکریسی کو وزیراعظم اور اپنی وزارت کے وزیر کی خوشامد سے فرصت نہیں ملتی، لہٰذا وہ بھی وہاں نہیں آتے۔ تاہم میری پروفیشنل نشوونما میں پارلیمنٹ کے وقفہ سوالات کا بہت اہم کردار ہے۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ضرور جائوں۔ وہاں بھی پاکستان کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں سنتا ہوں، نئے نئے انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔

    خوش ہوتا ہوں کہ چلو میرا دال روٹی چلے گا اگرچہ یو این ڈی پی کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے کے بقول اس ملک میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے۔ جب بھی کرپشن کی بڑی کہانی ان اجلاسوں میں کھل کر سامنے آتی ہے تو ساتھ ہی ارکان پارلیمنٹ اتنی ہی اونچی آواز میں قہقہہ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہنستے ہیں یا اپنے غیر سنجیدہ پن پر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں پتا ہے کہ وہ بھی یہی کام کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے۔ دل پشوری چلتی رہتی ہے۔ ادھر ادھر سب کو اس بربادی پر ہنستے دیکھ کر میں بھی اپنی آواز ان قہقہوں کی گونج میں شامل کر دیتا ہوں۔ میں منہ بسورکر کیوں بیٹھا رہوں۔

    جو کچھ وہاں دیکھا اور سنا وہ تو آپ کو آنے والے دنوں میں ضرور پڑھائوں گا تاکہ پتا چلے کہ اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کیسے پاکستانی اشرافیہ پاگل ہوگئی ہے؛ تاہم لوٹ مارکی کہانیاں سنتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے راجن پور کے علاقے داجل میں پولیس کی دہشت گردی کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا تھا۔ پروگرام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے بہت سارے لوگوں نے جن میں میرے کچھ جاننے والے بھی تھے، دہائی دی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے کیونکہ راجن پور کی پولیس نے حد کردی ہے۔ پولیس جو کچھ وہاں کر رہی ہے، اکثر لوگ فیس بک پر اس کا موازنہ غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے کر رہے تھے ۔

    پتاکیا تو معلوم ہوا کہ دو بھائی موٹر سائیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستے میں کسی نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی اور مزاحمت پر گولی مار دی۔ ایک بھائی وہیں مر گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے۔ اس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ پولیس علاقے کے بدمعاشوں کے ساتھ مل کر قتل جیسی وارداتیں کرا رہی ہے۔ یہ لوٹ مار میں بھی برابر کے شریک ہے۔ لوگ تھانے شکایت لے کر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ظالموںکو وہاں کرسی اور مظلوم کو گالیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو تھانے میں شکایت درج کرانی ہو تو وہ اکیلے نہیں جاتا، وہ اپنے ساتھ علاقے کے چند لوگوں کو لے کر جاتا ہے تاکہ کہیں پولیس اس پر ہی کوئی کیس نہ ڈال دے۔ جب لوگوں نے ایک ہی گھر کے دو نوجوانوں کو گولیاں کھاتے اور ایک کو مرتے دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ تھانے کا گھیرائو کر لیا گیا۔ اس دورا ن ایک پولیس کانسٹیبل نے ہوائی فائرنگ کر دی جس سے بپھرا ہوا مجمع مزید بپھرگیا اور پر تشدد کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ پولیس کے دعویٰ کے مطابق ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور خاصا ہنگامہ ہوا۔

    ہنگامہ تھما تو پولیس نے جوابی کارروائی شروع کر دی۔ اب تک داجل کے چودہ سو افراد کے خلاف دہشت گردی کے پرچے درج کیے جا چکے ہیں۔ جن کا نوجوان مارا گیا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ان پرچوں کے بعد پولیس نے داجل کے شہریوں پر ایک اور قیامت ڈھا دی۔ رات گئے گھروں میں داخل ہوکر جو ہاتھ لگے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کرتے اور پھر گھسیٹ کر تھانے لے جاتے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے۔ داجل ایک قیامت سے گزر رہا ہے جس کا اس لئے پتا نہیں چل سکا کہ میڈیا کو اس میں دلچسپی نہیں۔ داجل میں جاری دہشت گردی کی رپورٹ کون کرتا۔ پنجاب حکومت کا بھی میڈیا پر بہت زور چلتا ہے، دوسرے داجل اور راجن پور کے مقامی رپورٹر پولیس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر ہی دہشت گردی کا مقدمہ نہ درج ہو جائے۔ پولیس نے چودہ سو نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا اور اب جو ہاتھ لگتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کا نام ایف آئی آر میں نامعلوم کے خانے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

    خیر ہم نے اپنے پروگرام میں داجل کے اس واقعے کو اٹھایا۔ ڈی پی او عرفان اللہ کو دعوت دی اور پوچھا کیسے چودہ سو افراد پر دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوگیا،کیسے ایک ہی ہلے میں اتنے دہشت گرد پیدا ہو گئے؟دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیاں ہوتی ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد بدترین تشدد کے واقعات پیش آئے۔ جہاں عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا وہاں گرفتاریاں ہوئیں لیکن کہیں یہ نہیں پڑھا کہ امریکی پولیس نے امریکیوںکو دہشت گردی کے الزام میںگرفتارکر لیا ہو۔ عرفان اللہ ہمیں دہشت گردی کا قانون سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کی فلاں دفعہ میں کیا لکھا ہے۔

    میرا کہنا تھا کہ سرائیکی علاقے کے لوگ پر امن سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ تخت لاہور وہاں کے سیاسی بدمعاشوں کے ساتھ مل کر زیادتیاں کرتا ہے، وہ بے چارے پھر بھی لاہورکے بادشاہوں اور ان کے سیاسی خادموںکو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کو ترقیاتی فنڈ میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایک مرکزی پل نشتر گھاٹ پچھلے پندرہ برس سے نہیں بن سکا جبکہ لاہور میں پچھلے دنوں ایک رنگ روڈ اور بائی پاس کا افتتاح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کیا اور جمعہ کے روز کالا شاہ کاکو پر ستائیس ارب روپے کے نئے روڈ کا افتتاح وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کیا ہے۔ سرائیکی علاقوں میں آپ جائیں تو کانپ جائیں کہ کس دنیا میں یہ لوگ زندہ ہیں۔

    آخر کیا وجہ ہے کہ پُر امن سرائیکی لوگ بھی پر تشدد کارروائیوں پر مجبور ہوگئے، انہیں کس نے مجبور کیا کہ وہ بھی ہتھار اٹھا لیں اور پولیس کے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ مرنے مارنے پر تل جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب پسماندگی نے اپنے نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔ کیا اب لوگ غربت اور پسماندگی کے ہاتھوں تنگ آکر ڈکیتی اور دہشت گردی پر اتر آئے ہیں؟ پولیس اور مقامی سرداروں کے باہمی گٹھ جوڑ نے آخر صرف داجل جیسے چھوٹے سے شہر میں ہی چودہ سو دہشت گرد کیوں پیدا کردیے ہیں۔ توکیا جو لوگ تھانے میں پولیس کی دہشت گردی کے شکار ہوکر لوٹیںگے وہ چھوٹو گینگ نہیں بنائیںگے؟

    جب مقابلے کا وقت تھا داجل کے یہ ”دجال‘‘ بھاگ گئے تھے، اب نہتے اور بے بس لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔ روزانہ نئے چھاپے اور نئی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
    ایک ایسے ہی چھاپے کی روداد پر مبنی خبر پڑھیں جو میری نظر سے گزری۔

    خبر کے مطابق راجن پورکے ڈی پی او عرفان اللہ نے پولیس پارٹی تیارکی اورکہا کہ آج ہم اس علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کے گھر پر چھاپہ مارنے جا رہے ہیں۔ پولیس نے اپنی گنیں پکڑیں اور چل پڑے۔ اس سے ایک روز قبل اس خطرناک ڈاکو کے ایک بھائی پھالو کو پولیس نے مار ڈالا تھا۔ آج اس کے دو خطرناک بھائیوںکو مارنے کا پلان تھا۔ پولیس نے جاتے ہی ڈاکو کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس خطرناک ڈاکو مطاہرا کے گھرگرفتاری کے لیے پہنچی توسب یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے کہ دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ڈکیت کا پورا خاندان دیواروںکے بغیر جھونپڑی میں رہ رہا ہے ۔ خطرناک ڈاکو کی تین سالہ بیٹی سخت بیمار تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے پانچ افراد کے لیے دو چارپائیاں جبکہ کنستر میں صر ف دوکلو آٹا تھا۔ بچی کے علاج معالجے کے لیے کوئی پیسہ نہ تھا۔ ڈی پی اوکو بچی کی حالت دیکھ کر رحم آیا اور جیب سے دو ہزار روپے نکال کر دیے اور واپس لوٹ گئے۔

    یہ ہیں داجل کے ڈاکو جن کا ایک بھائی ایک دن پہلے پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ کیا اس کے دو بھائیوںکو بھی دجال پولیس جلد مارکر انصاف کا بول بالا کرے گی؟ داجل کے یہ کیسے ڈاکو ہیں جن کی تین سالہ بیٹی بیمار ہے اور علاج کے لیے ٹکا نہیں، کنستر میں صرف دو کلو آٹا اورسونے کے لیے چارپائیاں تک نہیں! یہ کیسے ڈاکو ہیں جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جن کو مارنے کے لیے پولیس جاتی ہے اور الٹا دو ہزار روپے دے کر لوٹتی ہے۔ بہت جلد اس جھونپڑی کے دیگر خطرناک ڈاکو بھائی بھی مارے جائیں گے۔

    اب ان تین خطرناک ڈاکو بھائیوںکے انجام کے بعد اس جھونپڑی کی بچ جانے والی مالکہ۔۔۔۔ ایک بے بس ماں ہے جو جلد بیوہ ہونے والی ہے۔ اس کے چار چھوٹے بچے یتیمی کی دہلیز پر قدم رکھنے ہی والے ہیں۔کیا جانیں داجل کے یہ دجال! مجال ہے دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف گلے پھاڑنے والوں میں سے کسی نے داجل میں جاری اس دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ہو! واہ رے داجل اور داجل کے دجال۔۔۔!

  • لندن کے ٹھگ- رؤف کلاسرہ

    لندن کے ٹھگ- رؤف کلاسرہ

    rouf clasra

    لندن میں کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ سب سے زیادہ گلہ دنیا ٹی وی لندن کے بیوروچیف اظہر جاوید سے سننے کو ملا۔ اظہر جاوید سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ 2006-07ء میں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا تو اس وقت میں اور اظہر جاوید ایک میڈیا گروپ کے لیے اکٹھے کام کرتے تھے۔ وہ اس گروپ کے چینل کے لیے کام کرتا تھا اور میں انگریزی اخبار کے لیے۔ اظہر مجھ سے دو سال قبل لندن آیا تھا‘ اس لیے اسے یہاں کی گلیوں اور سڑکوں کے بارے میں زیادہ آگاہی تھی؛ چنانچہ میں زیادہ تر اسی پر انحصار کرتا۔ اظہر بھی مجھے ہر سیاسی سرگرمی سے آگاہ رکھتا۔ اس نے نواز لیگ کے اندر اچھے ذرائع بنا لیے تھے‘ لہٰذا اسے خبریں مل جایا کرتی تھیں۔ اظہر جاوید کو صحافت کا شوق ہے‘ حالانکہ لندن جیسے شہر میں زندہ رہنے کے لیے وہ صحافت کے علاوہ پارٹ ٹائم ایک دوسری جاب بھی کرتا رہا۔ اور آج وہ دنیا ٹی وی کا ایک اثاثہ ہے۔

    ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ اسے شدید گلہ ہے‘ کیونکہ میڈیا کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے لندن میں سب ٹھگ اور لٹیرے رہتے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا: ایسا کیوں؟ اظہر کہنے لگا: پچھلے کچھ عرصے سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے سب کچھ لوٹنے والا ہر فرد لندن میں رہتا ہے‘ یہ شہر بدنام ہو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ پاکستان میں وہ جس بھی رشتہ دار یا دوست سے فون پر بات کرتا ہے اس کی باتوں سے ایسے لگتا ہے جیسے لندن میں کوئی شریف انسان نہیں بچا۔ ہر کسی کے پاس حرام کی دولت ہے‘ جس سے وہ جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ وہ طنزیہ پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنے فلیٹ خرید لیے ہیں؟ کوئی آف شور کمپنی تم نے بھی بنائی ہے یا نہیں؟

    اظہر جاوید چونکہ خود حلال کی روٹی کما کر کھاتا ہے‘ لہٰذا اس کی تکلیف سمجھ آتی ہے کہ اس کا شہر بدنام ہو گیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تمہیں یہ بات واضح کرنا چاہیے کہ سب برے نہیں‘ لندن میں اچھے اچھے کام بھی ہوتے ہیں اور اچھے لوگ بھی رہتے ہیں۔ پہلے میں سمجھا شاید وہ مذاق کے موڈ میں ہے‘ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ نہیں‘ وہ واقعی سنجیدہ ہے۔ پاناما لیکس کے بعد لندن کا ذکر پاکستانی میڈیا میں بہت ہوا‘ جس سے یہ تاثر پھیلا کہ وہاں شاید سارے ٹھگ ہی رہتے ہیں۔

    میں نے جواباً کہا: اظہر! اس میں کس کا قصور ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ‘ایک گندہ چاول پوری دیگ کو خراب کر دیتا ہے‘ تو بتائو اب لوگ کیا کریں‘ جب وہ روزانہ آف شور کمپنیوں کی کہانیاں سنتے ہوں؟ جب لوگ یہ سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں نے لندن میں ایک ارب پونڈ سے زیادہ کی لاگت سے فلیٹس خرید لیے ہیں‘ یا جائیداد کا کاروبار کرتے ہیں‘ تو یقیناً وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟ کیونکہ چند سال پہلے تک تو وہ سعودی عرب میں بادشاہ سلامت کے خرچے پر چل رہے تھے اور اپنے تئیں وہ سب کچھ پاکستان چھوڑ آئے تھے اور جنرل مشرف نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب بیٹھے بٹھائے ان کی ارب پونڈ سے زیادہ کی جائیداد کہاں سے نکل آئی تھی؟ جب ان سے پوچھا گیا تو کسی کے جواب ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ رہی سہی کسر چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کے بیانات نے پوری کر دی کہ یہ فلیٹس تو میاں صاحب نے 1996ء کے وسط میں خرید لیے تھے{ جبکہ حسن نواز نے جنرل مشرف کے 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ان فلیٹس میں کرائے دار کے طور پر رہتا ہے۔

    میں نے کہا: اس سے پہلے 1996ء میں سنڈے ٹائمز نے ہی ایک سٹوری چھاپی تھی کہ بینظیر بھٹو اور زرداری نے لندن میں سرے محل خریدا ہے۔ یہ محل بھی آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا گیا تھا اور اس کی ادائیگی بھی سوئس بینک اکاونٹ سے کی گئی تھی۔ بڑا عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا۔ بینظیر بھٹو انکار کرتی رہیں۔ آخرکار 2004ء میں یہ محل بیچ دیا گیا اور پیسے کھرے کر لیے گئے۔

    ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی کے مرحوم وزیر امین فہیم کے سٹاف آفیسر فرحان جونیجو نے لندن میں جائیداد خریدی ہے۔ اسلام آباد کے بعد وہ لندن تشریف لائے اور آج کل وہ اس دولت سے عیش کر رہے ہیں۔ جب لوگ ان کی دولت کی کہانیاں پڑھتے ہیں تو پھر سب یہی سمجھتے ہیں کہ لندن میں ان لوگوں کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔ کون کہاں سے پیسہ لا رہا ہے؟ کوئی نہیں پوچھتا۔ بس جیب میں پونڈز اور ڈالرز ہونے چاہئیں۔ ایک طرف برطانیہ پاکستان کو سوشل سیکٹر میں ترقی کے لیے ایک ارب پونڈز سالانہ کی امداد دیتا ہے تو دوسری جانب وہی امداد پاکستانی سیاستدان اوربیوروکریٹ لوٹ کر واپس برطانیہ لے آتے ہیں۔

    میں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا: کچھ مزید سن لو۔ پیپلز پارٹی دور کے وزیرارباب عالمگیر نے ایک چینی کمپنی کو این ایچ اے کا ٹھیکہ دیا۔ اس میں سے پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن بنکاک کے ایک بینک میں باقاعدہ عاصمہ ارباب عالمگیر کے نام پر جمع کرایا گیا۔ وہاں سے یہ پچیس لاکھ ڈالرز دبئی میں اس بینک کی ایک برانچ میں ٹرانسفر ہوئے۔ کچھ دن بعد وہ پیسے لندن بھیجے گئے اور عاصمہ ارباب عالمگیر نے اپنے نام پر ہی چار فلیٹس‘ جن کی مالیت سولہ لاکھ ڈالرز بنتی تھی‘ خرید لیے۔ یہ سارا لین دین اکتوبر 2012ء سے شروع ہوا اور اگلے سال جنوری‘ فروری تک لندن میں اس پیسے سے جائیداد خریدی جا چکی تھی۔ یہ سب جلدی جلدی اس لیے کیا گیا کہ ایک ماہ بعد مارچ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو رہی تھی۔ آج وہی عاصمہ ارباب عالمگیر اسی لندن میں ڈالروں سے خریدی گئی جائیداد میں رہتی ہیں۔ انہوں نے وہ فلیٹس کرائے پر چڑھا رکھے ہیں اور ہر ماہ ان سے پونڈز میں کرایہ وصول کرتی ہیں۔ موصوفہ‘ جو روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پاکستانی عوام کو جمہوریت کے فوائد گنواتی تھیں، اب کچھ دن لندن میں انتظار کریں گی اور پھر پاکستان وکٹری کے نشانات بناتی ہوئی پہنچ جائیں گی اور دوبارہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جمہوریت پر تقریریں کیا کریں گی۔ عاصمہ ارباب ہمیں ایک دفعہ پھر جمہوریت کے فوائد گنوائیں گی اور شاید یہ سمجھائیں گی کہ جمہوریت میں تو یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ سب چلتا ہے۔ برداشت کریں۔

    کسی دور میں فرزانہ راجہ کا طوطی بولتا تھا۔ اسلام آباد میں ان کے خلاف کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی۔ انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ آپ دوپٹہ پہن کر بینظیر بھٹو کی طرح لگتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اربوں روپے کے اشتہارات اپنے محکمے کے بجٹ سے چھپوائے۔ ایک طرف بینظیر بھٹو اور اسی رنگ میں فرزانہ راجہ… ان پر بھی شدید الزامات لگے۔ معاملہ نیب تک گیا۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ بھی اب کسی دوسرے ملک میں رہتی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ سمجھدار نکلیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی وہ چپکے سے پتلی گلی سے ایسی نکلیں کہ آج تک ان کی کوئی خبر باہر نہیں نکلی۔ دوبارہ اگر پیپلز پارٹی لوٹی تو وہ بھی عاصمہ ارباب کی طرح لوٹ آئیں گی اور جمہوریت کے فوائد سے فائدہ اٹھائیں گی۔

    یہ وہ چند مثالیں ہیں جو سامنے آئی ہیں۔ یہاں ہر دوسرے پاکستانی سیاستدان اور بیوروکریٹ نے کچھ نہ کچھ خرید رکھا ہے۔ اب دبئی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں نے وہاں تقریباً پورا دبئی خرید لیا ہے۔ سات ارب درہم کی جائیداد خریدی گئی ہے۔ اتنا پیسہ کہاں سے آیا اور پاکستان سے باہر کیسے گیا اور کیوں ان سے ٹیکس نہیں لیا گیا؟ ایف بی آر یہ پتہ تو نہ چلا سکا کہ اتنی دولت پاکستان سے کیسے باہر گئی اور کس نے کیسے کمائی‘ لیکن اربوں روپے کے بونس ایف بی آر کے افسران نے آپس میں بہترین کارگردی کے نام پر بانٹ لیے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔

    اظہر جاوید خاموشی سے سنتا رہا لیکن میری بات مکمل ہونے پر بولا: پھر بھی ہمارے جیسوں کا کیا قصور ہے؟

    میں نے کہا: میرے پیارے! آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ لندن میں رہتے ہیں۔ اس شہر میں رہتے ہیں‘ جہاں یہ سب لٹیرے پاکستان سے ہماری دولت لوٹ کر لاتے ہیں‘ آف شور کمپنیاں بناتے ہیں۔ پچیس پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن کھاتے ہیں، سرے محل خریدتے ہیں، ماربل آرچ پر فلیٹس خریدتے جاتے ہیں اور سرکاری افسر بھی اپنے ملک اور قوم کو چونا لگانے سے باز نہیں آتے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی: اظہر پیارے… جب لوگ پاکستان میں ان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور اس حرام کے پیسے سے لندن میں محلوں، فلیٹس اور قیمتی گھروں کی اندھا دھند خریداری کی کہانیاں سنتے اور پڑھتے ہیں تو پھر خود بتائو لندن کو کیا نام دیں؟

    پرانے زمانے میں ٹھگ تو ویسے بنارس کے مشہور تھے لیکن کیا کریں اب یہ نئے ٹھگ لوٹ مار پاکستان میں کرتے ہیں اور جائیدادیں دبئی اور لندن میں خریدتے ہیں!

     

  • بغاوت اور باغی…(حصہ سوم) رؤف کلاسرہ

    بغاوت اور باغی…(حصہ سوم) رؤف کلاسرہ

    rouf clasra

    l-bathak.com-1469332968ra

                                                                                       حصہ اول پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں

                       حصہ دوم کے لئے اس لنک پر کلک کریں